اسلام پُر اَمن مذہب ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر 3:
…… مولانا محمد اختر حنفی﷾
اسلام پُر اَمن مذہب ہے !!
یہودیت :
تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد یہودیوں نے بیت المقدس پر پانچ سو سال حکومت کی مگر ان کے ظلم و ستم ، اللہ اور اس وقت کے پیغمبروں کی نافرمانی کے جرم میں بخت نصر کی شکل میں ان پر عذاب آیا۔ بخت نصر نے بیت المقدس کو تباہ کر دیا اور بنی اسرائیل کو غلام بنا کر بابل لے گیا۔ ان پر بے پناہ مظالم ڈھائے۔ یہود اپنی سرکشی ، نسل پرستی اور سماج دشمن سرگرمیوں اور شرپسندیوں کی وجہ سے مختلف ممالک سے نکالے گئے۔ آخر عربوں کے ہاں پناہ ملی۔ بعثت نبوی سے پہلے یہود مدینہ اور خیبر میں آباد ہوگئے تھے۔ یہود نے اپنی مقدس کتاب تورات میں آخری نبی کی نشانیاں پڑھ رکھی تھیں ، مدینہ میں انتظار کر رہے تھےلیکن ان کو پتہ چلا کہ وہ آخری نبی ہماری نسل یہود میں سے نہیں اس بنیاد پر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت شروع کردی۔
اسی کا نتیجہ تھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ شریف میں تین گروہوں سے سامنا کرنا پڑا۔ پہلا عبداللہ بن ابی سلول جس نے منافقت کی بنیاد ڈالی دوسرا یہود کا وہ گروہ جس نے بعد میں اسلام قبول کر لیا اور تیسرا گروہ وہ جو یہودیت پر ہی قائم رہا۔ نہ منافقت اختیار کی اور نہ ہی اسلام کی آغوش میں آیا۔
اس تیسرے گروہ کو اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرتی استحکام اور قیام امن کے نفاذ میں رکاوٹ سمجھ کر مدینہ سے نکال دیا۔
چنانچہ 15 شوال 2 ہجری میں غزوہ بنی قینقاع پیش آیا۔ مدینہ منورہ میں موجود یہودیوں میں سے یہ سب سے پہلا قبیلہ تھا جس نے عہد شکنی کی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سختی سے جواب دیا اور جنگ کے لئے قلعہ بند ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قلعے کا سخت محاصرہ کر لیا اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ یہ معاہدہ کرکے قلعہ سے اتر آئے کہ ان کے اموال مسلمانوں کے ہونگے اور ان کی عورتیں اور بچے خود ان کے رہیں گے قلعے سے اترنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشکیں باندھ دیں اور اس کام پر حضرت منذر بن قدامہ کو مقرر فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کی منت سماجت کرنے پر انہیں قتل کرنے کے بجائے اپنے مال و اسباب سمیت جلاوطن ہونے کا حکم صادر فرمایا چنانچہ وہ اذرعات کی طرف چلے گئے۔
( طبقات ابن سعد(
اس کے دو سال بعد غزوہ بنی نضیر کا معرکہ لڑا گیا یہ غزوہ ربیع الاول 4ھ میں پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا چھتیسواں مہینہ شروع ہو ا تھا یہودیوں کے قبیلے بنی نضیر نے عہد شکنی اور شرارت کی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ عسلم نے ان کا محاصرہ کر لیا کئی دن کے محاصرے اور مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے با غات کی تباہی کے بعد ان کے دلوں پر اللہ تعالی نے رعب طاری کر دیا اور انہوں نے صلح کی درخواست کی چنانچہ انہیں اسلحےکے سوا باقی اتنا سامان جو ان کے اونٹ اٹھا سکیں لے کر جلا وطن ہونے کی اجازت دے دی گئی ان میں سے اکثر نے خیبر کا رخ کیاجبکہ بعض شام جاکر آباد ہوگئے اس واقعے کے بیان میں قرآن مجید کی سورہ حشر نازل ہوئی۔
اس کے بعد متعدد غزوات پیش آئے۔ شوال المکرم 5 ہجری میں غزوہ خندق پیش آیا۔ غزوہ خندق سے واپسی پر صبح کے وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر مدینہ منورہ واپس تشریف لائے اور سب نے اپنا اسلحہ رکھ دیا ظہر کے وقت جبرئیل امین تشریف لائے اور فرمانے لگے یا رسول اللہ کیا آپ نے اسلحہ اتار دیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا فرشتوں نے تو ابھی تک اسلحہ نہیں اتارا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالٰی نے آپ کو بنو قریظہ کی طرف کوچ کا حکم دیا ہے میں ان کی طرف جا کر انہیں لرزاتا ہوں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا کہ جو مسلمان بھی فرمانبردار ہے وہ عصر کی نماز بنو قریظہ میں جا کر پڑھے۔ یہ 23 ذی القعدہ 5ھ بدھ کے دن کا واقعہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تین ہزار صحابہ کرام تھے اور لشکر میں چھتیس گھوڑے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کا محاصرہ فرما لیا اور یہ محاصرہ پچیس راتوں تک جاری رہا بنو قریظہ والے سخت تنگی میں پڑ گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب میں رعب ڈال دیا چنانچہ وہ قلعوں سے اتر آئے اور ان کی خواہش پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ان کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ان کے بالغ مردوں کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو باندیاں اور غلام بنا لیا جائے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد کو فرمایا کہ آپ نے ان کے بارے میں اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فیصلے کو جاری فرما دیا اور بنو قریظہ کے چھ سو یا سات سو اسلام دشمن یہودیوں کو قتل کر دیا گیا۔
اس کے بعد یہود نے خیبر میں جا کر پناہ لی۔ خیبرقلعوں والے ایک شہر کا نام ہے۔ غزوہ حدیبیہ سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم محرم 7 ھ میں خیبر کے لئے روانہ ہوئے۔ حضرت سلمہ بن اکوع بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب خیبر کی طرف روانہ ہوئے تو میرے چچا حضرت عامر بن اکوع نے اشعار پڑھے۔
[ جن کا مفہوم یہ ہے ]
اے اللہ تو ہدایت نہ فرماتا تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتےاور نہ صدقہ خیرات کر سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے۔اے پروردگار ہم تیرے فضل و کرم سے بے نیاز نہیں ہیں۔ دشمنوں سے لڑائی کے وقت ہمیں ثابت قدمی عطاء فرمااور خاص سکینہ ہم پر نازل فرما۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعار سن کر پوچھا یہ کون ہیں انہوں نے فرمایا میں عامر ہوں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی کو مغفرت کی دعا دیتے تھے تو وہ شخص ضرور شہید ہوتا تھا اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ کاش آپ عامر کی شجاعت سے ہمیں چند روز اور نفع عطاء فرماتے۔
( مسلم شریف (
اس جنگ کے دوران اہل خیبر کا مشہور سردار مرحب مقابلے کے لئے نکلا اور اس نے یہ شعر پڑھا:
[مفہوم [ اہل خیبر اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں مرحب ہوں
سلاح پوش ، بہادر اور تجربہ کار ہوں
حضرت عامر بن اکوع اس کے مقابلے میں نکلے تو آپ نے یہ شعر پڑھا
[مفہوم[ اہل خیبر جانتے ہیں کہ میں عامر ہوں
سلاح پوش ، بہادر اور جنگوں میں گھسنے والا ہوں
مقابلے کے دوران حضرت عامر کی تلوار پلٹ کر ان کے اپنے گھٹنے پر لگی جس سے وہ شہید ہوگئے ان کے اس طرح شہید ہونے پر بعض لوگوں نے کہا کہ عامر کے سارے اعمال ضائع ہوگئے حضرت سلمہ بن اکوع فرماتے ہیں کہ میں روتا ہوا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے لوگوں کی یہ بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگ جھوٹ بولتے ہیں عامر رضی اللہ عنہ کے دو اجر ہیں [ ایک شہید کا اور دوسرا لوگوں کی ان باتیں بنانے کا ] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس قلعے کی فتح کے لئے اب ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلوایا۔ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں میں ان کو ہاتھ سے پکڑ کر لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں پر لعاب مبارک لگایا تو وہ ٹھیک ہو گئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا دیا تو آپ مرحب کے مقابلے میں نکلے مرحب نے میدان میں نکل کر وہی اشعار پڑھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں یہ رجز پڑھے
[مفہوم [
میں وہی ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر یعنی شیر رکھا ہے
اور جنگل کے شیر کی طرح دیکھنے والوں کو ہیبت میں ڈالنے والا ہوں
مقابلہ شروع ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک ہی وار میں مرحب کے سر کو دو ٹکڑے کر دیا پھر اس کا بھائی یاسر مقابلے میں نکلا تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کر دیا۔
یہی بات زیادہ درست ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مرحب کو قتل کیا جبکہ بعض لوگ حضرت محمد بن مسلم رضی اللہ عنہ کو مرحب کا قاتل بتاتے ہیں۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خیبر کے قریب صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ اکبر خربت خیبر انا اذا نزلنا بساحۃ قوم فساء صباح المنذرین۔ ] اللہ سب سے بڑا ہے خیبر تباہ ہو گیا بے شک جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو پھر ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے [
یہود آپ کے لشکر کو دیکھ کر گلیوں میں بھاگنے لگے آپ نے لڑنے والوں کو قتل کیا اور باقی کو قیدی بنایا۔
یہ اپنی اسلام دشمن سرگرمیوں سے باز نہ آئے اور مسلسل دین اسلام کو مٹانے اور دنیا میں امن کے قیام کے عالمی منصوبے یعنی نفاذ اسلام میں روڑے اٹکانے لگے۔ چونکہ سرکشی ، سازشی عنصر ان کے خمیر میں شامل تھا اس لیے اللہ کے نبی نے ان کو جزیرہ عرب سے نکالنے کا حکم دیا۔ اخرجوا الیہود والنصاریٰ من جزیرۃ العرب چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان کو شام کی طرف دھکیل دیا گیا۔
اس کےبعد اس سازشی قوم پر زمین تنگ ہو گئی اور ان کو کہیں بھی رہنے نہیں دیا گیا۔ کبھی کہیں اور کبھی کہیں۔ دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔ آخر کار یہ شام ، عراق ، ایران ، فلسطین اور یورپی ممالک میں پھیلنا شروع ہوئے۔
اپنی ذریت کو مٹتا دیکھ کر یہودی تھنک ٹینک ، مفکر ، دانشور اور ان کے سیاسی و سازشی زعماء سرجوڑ کر بیٹھ گئے۔ کہ ایک لائحہ عمل طے کیا جائے جس سے اپنے لیے الگ ملک حاصل کیا جائے۔ چنانچہ)…………………جاری ہے (