منتخب نمائندگان کی معاشرتی ذمہ داریاں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
منتخب نمائندگان کی معاشرتی ذمہ داریاں
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
وطن عزیز میں بلدیاتی انتخابات کا تیسرا اور آخری مرحلہ بھی بخیر وخوبی مکمل ہوا ، مجموعی طور پر اہلیان پاکستان نے اپنے بنیادی حق )ووٹ (کااستعمال پہلے عام انتخابات کی بنسبت زیادہ اور منظم کیا اور اپنے کردار و عمل سے باشعور قوم ہونے کا ثبوت دیا۔بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہونے والوں کے لیے جیتنے کے بعد ابھی ایک اور مرحلہ باقی ہے اور وہ ہے وطن کی تعمیر و ترقی ، خوشحالی اور خدمت خلق کا۔
آئیے اس بارے میں سیرت طیبہ سے رہنمائی لیتے ہیں۔ اسلام میں وطن کی تعمیر وترقی ، استحکام اور سالمیت خوشحالی اورخدمت خلق کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ادیان عالم میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے کہ جس میں خالق اور مخلوق کے تمام حقوق ادا کرنے کی سختی سے تاکید کی گئی ہے۔ گھر میں رہتے ہوئے والدین ، اولاد ، بہن بھائی، میاں بیوی۔ گھر سے باہر بڑے چھوٹے ، امیر وغریب ، رشتہ دار ، پڑوسی ، محلہ دار ، اہل علاقہ اور رعایا و حکمران وغیرہ کے حقوق صحیح معنوں میں ادا کرنے سے صالح معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اس لیے اسلام میں خدمت خلق پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اسلام انسانیت کا دین ہے ، اس میں رفاہی خدمات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن و سنت میں متعدد احکام اس بارے میں وضاحت کے ساتھ موجود ہیں۔
مقصود تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز زندگی اس کا عملی نمونہ ہے۔ صرف ایک مثال پیش خدمت ہے۔ سیرت کی کتب میں ایک واقعہ عام طور پر ملتا ہے۔ اسلام سے کنارہ کش مکہ میں ایک بڑھیا تھی ایک بار وہ اپنا سامان اٹھا کر کہیں جا رہی تھی، رحمتِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بڑھیا کا سامان خود اٹھایا اور اس کو منزل تک پہنچا دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت خلق سے متاثر ہو کر اس بڑھیا نے اسلام قبول کر لیا۔
خلیفہ اول سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی بھی خالق کی عبادت ، رسول کی اطاعت اور انسانیت کی خدمت میں گزری۔ مدینہ طیبہ میں کتنے ایسے گھرانے تھے جن کی کفالت خود خلیفہ وقت کیا کرتے تھے۔ بیواؤں کے گھروں میں پانی بھرنے تک کی خدمات بنفس نفیس خود انجام دیتے۔
خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت ”انسانیت کی ہمدردی“ کا زمانہ کہلاتا ہے۔ رات کو لوگوں کی مشکلات کو جاننے کے لیے خود گشت فرماتے۔ لوگوں کی شکایات دور فرماتے۔ بیت المال سے خود اپنے کندھے پر سامان لاد کر خدمت خلق کا فریضہ انجام دیتے۔
خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کڑے حالات میں انسانیت کو راحت بخشی ، بئر رومہ سے لے کر مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع تک ، لشکر اسلام کی مالی معاونت سے لے کر سلطنت اسلامیہ میں نفاذ امن تک کی داستان انہی کے وجود سے وابستہ ہے۔
خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے تو آنکھ ہی خانوادۂِ نبوت میں کھولی۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو تربیت پائی تھی اسی کے مطابق اپنی ساری زندگی بسر کی۔ خدمت خلق کے ان گنت واقعات ایسے ہیں جوآپ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور کے نصیب میں نہیں آئے۔خلفاء راشدین کے بعد صحابہ کرام اور اولیاء اللہ کی زندگیاں خدمت خلق کا ایسا عمدہ نمونہ تھیں کہ آج تلک دنیا ان کی مثال لانے سے عاجز ہے۔ اسلام اپنے اندر بے پناہ جامعیت رکھتا ہے۔ اس میں عقائد و نظریات کی درستگی و پختگی ، عبادات کی تعیین اور طریقہ کار، اعمال و احوال کی اصلاح ، معاشرتی طرز زندگی ، باہمی معاملات اور اخلاقیات سب کچھ بدرجہ اتم موجود ہے۔ اسلام میں معاشرتی طرز زندگی کے بنیادی طور پر دو اہم اجزاء ہیں۔ امن اور استحکام
امن کے مفہوم میں کافی وسعت ہے۔ کسی کو کسی سے جانی ، مالی اور عزت و آبرو کا خطرہ باقی نہ رہے۔ تاکہ معاشرے کا ہر فرد بشر سکون کی زندگی گزار سکے۔ اسلام میں معاشرتی زندگی کا لائحہ عمل انتہائی سادہ ، پر سکون اورپر امن ہے۔ چودہ سو سال قبل جزیرہ نمائے عرب میں پرامن اور مستحکم ریاست کی ایک جھلک دیکھتے ہیں:
مسجد نبوی ہے اس کو مرکزی سیکٹریٹ کا درجہ حاصل ہے۔ اس کی طرز ِ تعمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی ڈیزائن کرائی کہ مدینہ کی تمام گلیاں براہ راست یہاں تک پہنچتی ہیں۔آج کے ترقی یافتہ دارالحکومتوں کی بنیاد یں اسی اصول کے مطابق رکھی جا رہی ہیں کہ سربراہ اعلیٰ کی رہائش چاروں طرف سے میل کھاتی سڑک کے رو برووسط میں ہو۔
مسجد نبوی کے صحن میں طب کا ہسپتال بنایا گیا جہاں مریضوں کامفت علاج کیا جاتا تھا جسے آج کی زبان میں فری ڈسپنسری کا نام دیا جاتا ہے۔ آج کی ترقی یافتہ اقوام نے اسی کو بنیاد بنا کر شہری آبادی میں فری ڈسپنسریز کا جال بچھایا ہوا ہے بلکہ یورپ میں تو عام شاہراہو ں پر بھی وقفے وقفے سے ہسپتال قائم ہو رہے ہیں تاکہ دوران سفر اگر کوئی مسافر بیمار پڑ جائے تو اسے جلد طبی امداد دی جا سکے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ طیبہ کی گلیاں اتنی وسیع رکھو کہ سامان سے لدے ہوئے دو اونٹ آرام سے گزر سکیں۔ آج کی ترقی یافتہ اقوام نے اسی کو بنیاد بنا کرشہری آبادی میں اتنی وسیع سڑکیں بنائیں ہیں کہ جہاں سےبیک وقت دو گاڑیاں آسانی سے گزر سکیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ شہر سے قریب محی النقیع نامی سرسبز سیر گاہ بنوائی اردگرد پھولدار خوبصورت پودے لگوائے۔آپ بذات خود اورصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین گاہے بگاہے اس کی سیر کو نکل جاتے۔ آج کی ترقی یافتہ اقوام کی یہ چیز پہچان ہے کہ وہاں خوبصورت روح افزاء پارکس اور تفریح گاہیں موجود ہوتی ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں یہ ملتا ہے کہ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہےآپ نے عرب کے ماحول کے مطابق کجھوورں کے باغات پہ باغات لگوائے۔آپ نے فرمایا کہ کوئی علاقہ فتح ہو تو بھی درختوں کو آگ نہ لگاؤ آج کی ترقی یافتہ دنیانے جب یہ دیکھا کہ عالمی درجہ حرارت بڑھ رہاہے۔ گلیشئرز پگھل رہے ہیں۔گرمی بڑھ رہی ہے اوزون کی تہہ پھٹتی ہی چلی جا رہی ہے اور درختوں سے حاصل شدہ مفید آکسیجن کی مقدار میں کمی آ رہی ہے تو حکومتی سطح پر محکمہ جنگلات قائم کر دیے تاکہ قدرتی حسن کے نظاروں میں بھی اضافہ ہو اور ماحولیاتی آلودگی بھی کم سے کم ہو سکے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مدینہ شریف کےعین وسط میں مرکزی مارکیٹ قائم کی جائے۔ تجارت میں تین باتوں کو ملحوظ رکھا جائے : سامان میں ملاوٹ نہ کی جائے۔ ذخیرہ اندوزی نہ کی جائے اورسودی کاروبار بھی نہ کیا جائے مزید یہ کہ مارکیٹ پر ٹیکس نہ لگایا جائے۔آج کی ترقی یافتہ اقوام مالیاتی بحرانوں سےجان چھڑانے کیلیے انہی اصولوں پر لوٹ رہی ہے۔
مدینہ منورہ میں ایک شخص نے میں آگ کی بھٹی لگائی جس کی وجہ سے آس پاس کے لوگوں کو تکلیف پہنچی تو حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو پیغام بھیجا کہ کیا تم ہمارے بازار بند کروانا چاہتے ہو؟؟ ایسا کاروبار شہر سے باہر جا کر کرو۔ آج کی ترقی یافتہ اقوام اسی اصول کو بنیاد بنا کر شہری حدود سے باہر فیکٹریاں اورانڈسٹریل زون قائم کر رہی ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:جب ایک شہر کی آبادی حد سے بڑھنے لگے توشہر روک دو نیا شہر بساؤ۔ یہی بات جب مفکر پاکستان علامہ اقبال مرحوم نے اٹلی کے سابق ڈکٹیٹر مسولینی سے کی۔ تو مسولینی؛ علامہ مرحوم کا حیرت سے منہ تکتا رہ گیا اور بے ساختہ ہو کر کہنے لگا:What an excellent idea کیا ہی بہترین نظریہ ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے تمام قبائل کواکٹھا کر کے 53نکات پہ مشتمل چارٹر آف مدینہ مرتب کرایا جسے میثاق ِ مدینہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔یہ پہلا باضابطہ منظم دستور و آئین تھاجس نےمجموعی طور پر دو کارنامے سر انجام دیے۔
ایک بھر پور معاشی ترقی کرتے ہوئے تجارت کی راہ ہموار کی دوسرا یہ کہ اس سے باہمی خانہ جنگی اپنی موت آپ مر گئی اور دیگر اقوام پر ریاست مدینہ کی مضبوط داخلی و خارجی پالیسی کی دھاک بیٹھ گئی۔ جس کی بدولت ریاست اندرونی و بیرونی طاقتوں سے محفوظ ہوگئی۔ آج کی دنیا اپنی ایسی ہی داخلی و خارجی پالیسی بنانے کی خواہش مند ہے اور اسی کو پرامن اور مستحکم ریاست کا پیش خیمہ قرار دیتی ہے۔
یہ اسلام کی معاشرتی طرز زندگی کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ ہم سب کو اس طرز پر زندگی گزارنی چاہیے بالخصوص بلدیاتی انتخابات میں کامیابیاں حاصل کرنے والوں سے گزارش ہے کہ خدمت خلق کو دین سمجھ کر کریں۔ اپنے شہر کو امن اور استحکام کا گہوارہ بنائیں۔ قوم سے کیے گئے وعدوں کو پورا کریں۔ لوگوں کے مسائل کے حل کیلیے اپنی خداداد صلاحیتوں اور اپنے اختیارات کو بروئے کار لائیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔