تحریکِ آزادی اورتصورِآزادی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تحریکِ آزادی اورتصورِآزادی
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
پاکستان؛ تحریک آزادی کی بدولت نعمت آزادی سے مالا مال ہوا۔ پاکستانی قوم کے لیے آزادی کا تصور مغرب کے تصور آزادی سے یکسر جداگانہ ہے۔ اہل مغرب کے آزادی کے تصورات میں تنوع بھی پایا جاتا ہے اور باہم اختلاف بھی۔ لبرلائزیشن میں ہر فرد کو دینی ، روایتی ، سماجی ، قبائلی ، نسلی ، گروہی ، علاقائی ، خاندانی ، لسانی ، قومی اور اخلاقی الغرض ہر قسمی” آزاد روی“ کا پورا پورا حق ہے، وہ ہر نوعیت کی آزادی کو ہر سطح پر ممکن بنا کر اس میں وسعت کی قائل ہے۔ یعنی انسان اپنے خالق حقیقی کی عبدیت ، برحق نمائندہ خدا)رسول صلی اللہ علیہ وسلم (کی اطاعت سے بھی آزاد ہو سکتا ہے۔ اور وہ معاشرے میں ”جو کچھ“ بھی کرتا پھرے اس بارے میں مکمل” آزاد“ ہے۔ اس کو خالق کی عبدیت ، رسول کی اطاعت اور منشورِ انسانیت و دستورِ حیات )قرآن کریم (کا اسیر نہیں کیا جا سکتا۔
بظاہر اس تصور کی دلربائی کا حسن انسان کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ بطور خلاصہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس تصور میں آزادی کا مفہوم فقط اتنا ہی ہے کہ ہر انسان محض اپنے عقل کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ وہ ادیان میں سے دین اسلام کو اپنے لیے غلامی سے تعبیر کرتا ہے۔ جبکہ یہ سوچ ہمارے اسلامی اقدار کے بھی منافی ہے اور ہماری ریاستی روایات اور آئینی قوانین کے بھی بالکل برعکس ہے۔ اسلام غلامی کی زنجیروں میں قید نہیں کرتا بلکہ غلامی سے نجات دلا کر انسان کی مکمل زندگی کو ایسا کارآمد بناتا ہے جس کا فائدہ مرنے کے بعدبھی ہمیشہ کی زندگی میں ملتا رہتا ہے۔
بد قسمتی سے آج اسی فکر کو پروان چڑھایا جا رہا ہے حتی کہ ہمارے اس آئینی ، نظریاتی ، فلاحی ، جمہوری اور اسلامی مملکت کے حکمران طبقے میں بھی یہ منفی سوچ سرایت کر رہی ہے۔ جو ہم سب کے لیے مشترکہ لمحہ فکریہ ہے۔
یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم تصورِآزادی کے مفہوم کو بھولتے یا از خود نظر انداز کرتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جس ملک میں ہم آزادی سے سانس لے رہے ہیں اس کے حصول کا مقصد ”غلبۂ دین“ تھا، نہ کہ اہل اسلام کو دین سے ”آزاد“ کرنا۔
اس موقع پر خود قائد اعظم کی تصریحات ”تحریک آزادی پاکستان“ میں اس” تصور آزادی “کو مزید واضح کرتی ہیں۔ چند تاریخی حقائق پیش خدمت ہیں :
17 فروری 1938ء کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں اسٹریچی ہال میں ببانگ دہل یہ اعلان فرمایا :” مجھے اپنے اسلامی کلچر اور تہذیب سے بہت محبت ہے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ ہماری آنے والی نسلیں اسلامی تمدن اور فلسفہ سے بالکل بیگانہ ہو جائیں۔ “
14 دسمبر 1942ء کوکراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ”پاکستان کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہے کہ پاکستان میں اللہ کے دین کا نظام قائم ہوگا۔ “
19 مارچ 1944ء پنجاب اسٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور کی سالانہ کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :” ہمیں ہلالی پرچم کے علاوہ کوئی اور پرچم درکار نہیں۔ اسلام ہمارا رہنما ہے جو ہماری زندگی کا مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ “
21 نومبر 1945ء سرحد مسلم لیگ کانفرنس پشاورمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :”مسلمان؛ پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ اپنے ضابطۂ حیات ، اپنے تمدنی ارتقاء، روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کر سکیں۔ “
24 نومبر1945ء مردان کے جلسۂ عام سے خطاب کے دوران فرمایا: ”پاکستان کی آزاد مسلم مملکت کے حصول میں بھی اپنا کردار ادا کریں جہاں مسلمان اسلامی فرمانروائی کا نظریہ پیش کر سکیں گے۔ “
26 نومبر 1946ء کو سید بدرالدین احمد کو اپنی قیام گاہ پر ایک تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے برملا کہا:”دنیا کی تمام مشکلات کا حل اسلامی حکومت کے قیام میں ہے۔ اسی قیام کی خاطر میں لندن کی پر سکون زندگی کو رد کر کے عظیم مفکر علامہ اقبال کے اصرار پر واپس آگیا۔ ان شاء اللہ پاکستان کے نظام حکومت کی بنیاد لا الہ الا اللہ ہی ہو گی اور اس پر ایسی فلاحی اور مثالی سٹیٹ قائم ہوگی کہ دنیا اس کی تقلید پر محبور ہو جائے گی۔ “
7 جولائی 1947ء کو لندن مسلم لیگ کے نام پیغام میں فرماتے ہیں: ”خدا کے فضل سے ہم دنیا میں اس نئی عظیم خود مختار اسلامی ریاست کی تعمیر مکمل اتحاد ، تنظیم اور ایمان کے ساتھ کر سکیں گے۔ “
19 دسمبر 1946ء کو مصری ریڈیوپر خطاب کے دوران فرمایا:”ہم چاہتے ہیں کہ ایک آزاد خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر کریں اور ان تمام اقدار کا تحفظ کریں جن کا اسلام علمبردار ہے۔ “
14 دسمبر 1947ء کو آل انڈیا مسل لیگ کونسل سے دوران خطاب فرمایا : ”میں صاف طور پر واضح کر دوں کہ پاکستان اسلامی نظریات پر مبنی ایک مملکت ہوگی “
14 فروری 1948ءمیں سبی دربار بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اسوۂ حسنہ پر چلنے میں ہے جو قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے بنایا۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔ “
21فروری 1948ء کو افواج پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے کہا:” اب آپ کو اپنے ہی وطن عزیز کی سرزمین پر اسلامی جمہوریت ، اسلامی معاشرتی عدل اور مساوات انسانی کے اصولوں کی پاسبانی کرنی ہے۔ “
اس معاملے کو اگر شرعی نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے تو بھی یہی نظر آتا ہے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کرمدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں مختلف قبائل ، اقوام اور مذاہب کے پیروکار موجود تھے۔ آپ نے یہاں آکر ریاستی امور کی پہلی باضابطہ ”آئینی دستاویز “مرتب کرائی۔ جسے” میثاقِ مدینہ“ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ 53 دفعات پر مشتمل ایسا جامع دستور حیات ہے جس میں ریاست کی معیشت کو مستحکم کرنا ،باہمی خانہ جنگی کا خاتمہ اور خارجہ پالیسی کو مضبوط تر بنانے کے لیے عسکری خود مختاری کو بنیادی قرار دیا گیا۔ تاکہ دشمن اس کی سالمیت کو گزند پہنچانے سے باز رہے۔ اسی” میثاقِ مدینہ“ میں اللہ احکم الحاکمین کی حاکمیت اعلی اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حاکمیت اعلی کو اساسی اہمیت و حیثیت حاصل ہے۔ اس جامع ترین حکمت عملی …جو در حقیقت وحی الہٰی کی عملی صورت ہے …سے ہی امن کا نفاذ ممکن ہوا۔ اقوام عالم نے اس کی بدولت وہ سنہرا دور دیکھا ہے کہ امن و انصاف عوام کی دہلیز تک پہنچا ، عوام کو انصاف کی دہلیز کے چکر نہیں کاٹنے پڑے۔
ہم اس ملک کے رہائشی ہیں جس کو آزادی دلانے کیلیے ہمارے اکابر نے منظم ”تحریک آزادی پاکستان “چلائی۔ ہمیں آزادی حاصل بھی ہوئی لیکن بدقسمتی کہ ہم آج تحریکِ آزادی کی ”روحِ آزادی“ کو فراموش کر رہے ہیں۔ یاد رکھیں! ”تحریک آزادی پاکستان“ کا مقصد غلبۂ دین اور نفاذ اسلام ہی تھا” لبرل تصور آزادی“ نہیں۔