انسانی حقوق کا عالمی منشور

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
انسانی حقوق کا عالمی منشور
اختر سردار
حضرت محمد ﷺنے خطبہ حجتہ الوداع 632 ء کے موقع پر جو آخری تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ اس کو انسانی حقوق کے حوالے سے مستند ترین۔ قدیم ترین اور سب سے پہلی دستاویز سمجھا جا تا ہے۔ اس خطبہ کی بنیا دحقوق العباد پر رکھی گئی ہے۔ جس میں واضح طور پر ارشاد ہے۔ ’’تمام انسان برابر ہیں۔ کسی کو نسل، ذات، اور خاندان کی بنیاد پر کسی دوسرے پر برتری حاصل نہیں اور نہ ہی کسی عربی کو عجمی پر اور نہ کسی گورے کو کالے پر‘‘ خیال رہے انسانی حقوق کے عالمی منشور کی بنیاد اسی خطبہ حجۃالوداع سے اٹھائی گئی ہے۔ اسلام نے بنیادی طور پر انسان کو چھ (6) حقوق فراہم کیے ہیں (1) جان کا تحفظ(2) عزت وآبرو کا تحفظ(3) مال کا تحفظ(4) اولاد کا تحفظ(5) روزگار کا تحفظ(6) عقیدہ ومذہب کا تحفظ وغیرہ۔
آج سے 67 برس قبل 10دسمبر 1948 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کا عالمی منشورمنظور کیا تھا۔اس منشور کی یاد دہائی از سر نو عزم ،تجدید عہد کے لیے یہ دن ہر سال منایا جاتا ہے۔ یہ منشور 30دفعات پر مشتمل ہے ،جو کہ انفرادی اجتماعی طور پر انسانی زندگی کے تمام حقوق کا دفاع کرتی ہیں، خواہ انسانوں کا تعلق کسی بھی مذہب ، عقیدہ، رنگ، نسل، قوم یا ملک سے ہو۔ اقوام متحدہ کے ہر رکن ممالک کی ذمہ داری ہے کہ بحیثیت رکن ’’انسانی حقوق کے عالمی منشور ‘‘ کا احترام کریں اور اپنے اپنے ملک کے شہریوں کو ان کے تمام حقوق کی فراہمی کی ضمانت دیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے چارٹر اور قرارداد کی رو سے دنیا بھر کے انسانوں کو ہر طرح کے حقوق جن میں جینے کا حق، امتیازسے پاک مساوات یا برابری کا حق، اظہار رائے کی آزادی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق جن میں روزگار، سماجی تحفظ، تعلیم، صحت، ترقی اور حق خودارادیت اور دیگر حقوق شامل ہیں۔ اس عالمی منشور کی پہلی دفعہ دیکھیں’’ہر شخص آزاد پیدا ہوا ہے ،وہ اپنے حقوق اور احترم میں کسی دوسرے سے کم ترین نہیں ‘‘پوری دنیا میں اس شق کا جو حشر ہو رہا ہے اس سے ساری دنیا ہی واقف ہے۔ اس دن دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے ممالک اقوام متحدہ کی چھتری تلے انسانی حقوق کا عالمی دن مناتے ہیں۔ مثلاََ امریکہ بھارت ،اسرائیل وغیرہ حقوق انسانی کا عالمی دن منانا اس وقت تک فضول ہے ،جب تک امریکہ و دیگر ممالک و اقوام متحدہ انسانیت کے احترام کا عملی ثبوت نہیں دیتے۔ شام، عراق، لیبیا، صومالیہ، افغانستان،کشمیر ،برما ،فلسطین وغیرہ حالت جنگ میں ہیں، جہاں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ فلسطینی علاقوں اور خاص طور پر غزہ میں انسانی حقوق کی کیا صورت حال یہ کس سے مخفی ہیں اور دنیا کی بڑی طاقتیں آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہیں۔ کشمیری عوام آج بھی اپنے حق سے محروم ہیں، جس کا وعدہ خود اقوام متحدہ، پاکستان اور بھارت کی حکومتوں نے ان کے ساتھ کیا تھا۔برما میں زندگی سسک رہی ہے۔ بھارت کا حال کس سے مخفی ہے۔
جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ساتھ سیکولر ہونے کا بھی دعوے دار ہے، ذات پات کے نام پر انسانوں پر ظلم و جبر صدیوں سے جاری ہے۔ جو اعلیٰ ذات کے گھرانے میں پیدا ہو گیا وہ چھوٹی ذات والوں پر ہر طرح ظلم کر سکتا ہے۔ جس ذہن میں برتری کا یہ خناس موجود ہو اس انسان کو دوسرے انسانوں پر جبر سے کیسے روکا جا سکتا ہے ؟ پاکستان میں بھی یہ دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان کی غربت ‘ بد امنی ‘ بیروزگاری ‘ بھتہ خوری ،کرپشن زدہ عوا م جو اپنے حقوق سے ہی نہیں بلکہ شعور ِ حق سے بھی محروم ہے ،ہر سال اقوام متحدہ کے چارٹر پر موجود دیگر 200ممالک کے عوام کی طرح انسانی حقوق کا عالمی دن مناتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی ایسے ممالک کی فہرست میں شامل ہے، انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزیاں آئے روز ہوتے رہتی ہیں۔
ملک میں غریبوں اور امیروں کے لیے الگ الگ قانون ہیں۔ پاکستان کا انسانی حقوق کے کمیشن کا کام صرف ہر سال اپنی سالانہ رپورٹ میں ملک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرناہے۔ اس کے حکومت اور دیگر انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے ہر سال عوام کو یہ نوید سنائی جاتی ہے کہ ہم انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے پرعزم ہیں۔ عوام کو ان کا حق دلا کر دم لیں گے۔ حکومت انسانی حقوق کی تمام شقوں کی پاسداری کیلئے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ نعرہ دل پذیر تو زبان زد عام ہے کہ انسانی حقوق اور جمہوریت کو چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تمام سرکاری محکموں میں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ اسلام اور انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا میں سب سے پہلے اسلام نے حقوق انسانی کی بنیاد رکھی، پیغمبر الزمان نے حجتہ الوداع کے موقع پر دیا گیا خطبہ حقوقِ انسانی کا پہلا بین الاقوامی چارٹر تھا۔قرآن میں ارشاد ہے’’ لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قوم اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کے شناخت کرو، اور خدا کے نزدیک تم میں سے قابل احترام اور عزت والا وہ ہے، جو زیادہ پرہیزگار ہو۔ ارشاد ہے ’’ اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ، ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے ، ممکن ہے کہ وہ اس سے اچھی ہوں اور اپنے (بھائی) کو عیب نہ لگاؤ، اور ایک دوسرے کو برے نام سے مت پکارو۔‘‘