سلام کا اسلامی طریقہ و آداب

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سلام کا اسلامی طریقہ و آداب
کفیل احمد ندوی
اسلام میں سلام کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اسی سے کیجئے کہ آنے والا اگر سلام و اجازت کے بغیر آنا چاہے، یا سلام سے پہلے کسی طرح کی گفتگو کرے اور اپنی ضرورت رکھے تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی کہ ایسے آدمی کو آنے نہ دیا جائے اور نہ ہی اس کے کسی مطالبہ کو پورا کیا جائے
خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سلام میں پہل کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا یہ نتیجہ تھا کہ صحابہ صرف اس نیت سے بازار جاتے تھے تاکہ وہاں لوگوں کو سلام کر کے ثواب حاصل کرلیں۔
افسوس یہ ہے کہ آج مسلمانوں نے سلام کے تعلق سے ان تعلیمات کو کلیۃً فراموش کر دیا ہے، اسلامی معاشرے میں سلام کا رواج اب بہت کم ہو گیا ہے۔
سلام کو ترک کرنے کی نحوست یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر بغض و حسد، انتشار، دشمنی و عداوت جیسی بیماریاں عام ہوگئی ہیں اور اسلامی سلام کی جگہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے غیر اسلامی، مشرکانہ سلاموں کو اختیار کر لیا ہے۔
کاش کہ مسلمان سلام کی روح و حقیقت کو سمجھ کر اس کو اپنے درمیان عام کریں، اس کو پھیلائیں اور رواج دیں، اور اس کی ایسی کثرت ہو کہ اسلامی دنیا کی فضا اس کی لہروں سے معمور رہے، تو پوری قوم کی اصلاح ہو جائے، اس کےاوپر اللہ کی رحمتوں و نعمتوں کی بارش ہوگی، پھر اخلاف و انتشار کو ختم کرنے کے لئے کسی جلسہ و تحریک چلانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
اب اختصار کے ساتھ سلام کے تعلق سے کچھ اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے :
1: سلام میں پہل کرنا سنت ہے، اور سلام کا جواب دینا واجب ہے، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق المسلمین کے تعلق سے جن باتوں کا حکم فرمایا ان میں سے ایک سلام کا جواب بھی ہے، ایک حدیث میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب نہ دینے والے کو اپنے طریقہ سے نکلا ہوا قرار دیا، ایک جگہ فرمایا : اگر سلام کرنے والے کو جواب نہ دیا جائے تو پھر فرشتے جواب دیتے ہیں، تو کوشش یہی ہو کہ سلام میں پہل و ابتداء ہو، کسی کا انتظار نہ کیا جائے۔
شریعت نے جو یہ اصول مقرر کیا ہے کہ چھوٹا بڑے کو، قلیل جماعت کثیر کو، سوار پیدل کو، پیدل بیٹھے ہوئے کو سلام کرے تو اس کی حیثیت ایک قانونی حد بندی کی ہے، اور یہ حکم واجبی درجہ کا نہیں ہے بلکہ یہ صرف استحباب کا درجہ رکھتا ہے، سلام کے سلسلہ میں شریعت کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے جو بھی سلام میں پہل کرے وہی قیامت میں اللہ کے قریب ہوگا، اور ایسے انسان کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کبر و غرورسے پاک قرار دیا ہے۔
2: سلام تلفظ کی صحیح ادائیگی کے ساتھ ہو، سلام کرتے ہوئے ’ برکاتہ‘تک پورا فقرہ ادا کیا جائے، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ السلام علیکم‘‘کہنے والے کو دس نیکیوں کا ،اور ’’ رحمۃ اللہ ‘‘ کا اضافہ کرنےوالے کو بیس کا، اور ’’ برکاتہ ‘‘ تک اضافہ کرنے والے کو تیس نیکیوں کا مستحق قرار دیا ہے۔
3: سلام اپنے اندر محبت و مودت، توقیر و تعظیم کا پہلو لئے ہوئے ہے اور کسی بھی مومن کی دلی مودت کا مستحق مومن کامل ہی ہوسکتا ہے، اس لئے کفار و مشرکین و منافقین کو سلام کرنے سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ ان کے اور ایک مومن کے مقاصد زندگی میں بڑا ہی فرق ہے، اسی طرح جو مسلمان بدعت، فسق و فجور میں مبتلا ہو اس کو بھی اس وقت تک سلام میں پہل نہ کی جائے اور ناہی جواب دیا جائے جب تک کہ پختہ توبہ نہ کرلے، حضرت کعب ابن مالک اور حضرت زینب بنت جحش رضوان اللہ علہیم اجمعین کے ساتھ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی رویہ اختیار کیا تھا۔
4: شریعت میں جتنی اہمیت ملاقات کے وقت سلام کی ہے اتنی ہی اہمیت و فضیلت واپسی کے سلام کی بھی ہے، ہم سے عموماً اس بارے میں کوتا ہی ہوتی ہے، مجلس میں آتے و ملاقات کے وقت تو سلام کر لیا جاتا ہے اور واپس ہوتے وقت بغیر سلام کے واپسی کو غنیمت سمجھا جاتا ہے، حالانکہ رخصت ہوتے وقت سلام نہ کرنے سے یہ بدگمانی ہو سکتی ہے کہ یہ ناراضگی کے ساتھ رخصت ہوا ہے، اور اب کبھی اس مجلس میں نہ آئے گا۔
وداعی سلام کے اہتمام میں اس بات کا اعلان پوشیدہ ہے کہ میں کسی ناراضگی کی وجہ سے نہیں بلکہ دلی خوشی کے ساتھ ضرورت کے تحت واپس ہو رہا ہوں، اور آئندہ بھی اس طرح کی مجلسوں اور آپ کی قیمتی صحبتوں کے حصول کا متمنی ہوں۔