خانقاہی نظام کے خدوخال

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

div class="mainheading">خانقاہی نظام کے خدوخال

متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اہل دل کے دل

سے نکلے آہ آہ

بس وہی ہے اخؔتر

اصلی خانقاہ

اللہ تعالیٰ نے تلاوت آیات، تزکیہ نفس اور تعلیم کتاب و حکمت کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بنیادی مقاصد اور فرائض منصبی قرار دیا ہے۔ چنانچہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے فرائض کو باکمال و اتمام ادا فرمایا ہے۔ آپ کے منجملہ فرائض میں سے تزکیہ نفس بھی ہے۔ یعنی امت کے قلوب میں سے غیر اللہ کی محبت اور غیر اللہ کا خوف ختم ہو کر اللہ وحدہ لاشریک کی محبت اور اللہ ذوالجلال کا خوف پیدا ہو ان کے قلب و روح سے بری خصلتیں ختم ہوکر نیک اوصاف اور عمدہ اخلاق پیدا ہوں۔ کیونکہ جب تک دل غیراللہ اور گندے اوصاف کی آلائشوں سے پاک نہیں ہوتا اس وقت تک اس میں محبت الہیہ ، معرفت خداوندی ، رضائے باری عز وجل ، اطاعت رسول ، عقیدت نبوت اور عمدہ اوصاف و اعلی اخلاق کبھی بھی پیدا نہیں ہو سکتے یہ سارا عمل جہاں ہوتا ہے شریعت کی زبان میں اسے ”خانقاہ“ کہتے ہیں۔
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ قرآن کریم کی سورۃ نور آیت نمبر 36 فی بیوت اذن اللہ۔۔ کے تحت تفسیر بیان القرآن میں فرماتے ہیں : یہ آیت ذکر اللہ کے لیے بنائی گئی خانقاہوں کی فضیلت اور ذکر ومراقبہ کے جس مقصد کے لیے یہ خانقاہیں بنائی گئی ہیں ان کے پورا کرنے کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔
شیخ التفسیر مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اسی آیت کے تحت تفسیر معارف القرآن میں فرماتے ہیں : روشنی مسجدوں اور خانقاہوں سے ملتی ہے جہاں صبح و شام اللہ کا ذکر ہوتا ہے ………… ان گھروں میں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے اس میں تسبیح و تہلیل اور تلاوت قرآن پاک اور دیگر اذکار سب داخل ہیں ان گھروں سے مراد مسجدیں اور خانقاہیں مراد ہیں۔
مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ سیرت المصطفیٰ میں فرماتے ہیں : تحویل قبلہ کے بعد جب مسجد نبوی کا رخ بیت اللہ کی طرف ہو گیا تو قبلہ اول کی طرف دیوار اور اس کے متصل جو جگہ تھی وہ ان فقراء غرباء کے ٹھہرنے کے لیے بدستور چھوڑ دی گئی جن کے لیے کوئی ٹھکانہ اور گھر بار نہ تھا۔ یہ جگہ صفہ کے نام سے مشہور تھی صفہ اصل میں سائبان اور سایہ دار جگہ کو کہتے ہیں وہ ضعفاء مسلمین فقراء شاکرین جو اپنے فقر پر فقط صابر ہی نہ تھے بلکہ امراء و اغنیاء سے زیادہ شاکر و مسرور تھے جب احادیث قدسیہ اور کلمات نبویہ سننے کی غرض سے بارگاہ نبوت و رسالت میں حاضر ہوتے تو یہاں پڑے رہتے تھے۔ لوگ ان حضرات کو اصحاب صفہ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ گویا یہ اس بشیر و نذیر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خانقاہ تھی جس نے باہزار رضاء و رغبت فقر کو دنیا کی سلطنت پر ترجیح دی۔
شیخ عبدالمعبودتاریخ المدینۃ المنورۃ میں صفہ کے بارے فرماتے ہیں : شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم جن کا طرہ امتیاز الفقر فخری تھا ان کی یہ خانقاہ تھی۔ اور اصحاب صفہ ارباب توکل اور ارباب تبتل کی ایک فاقہ مست جماعت تھی جو تزکیہ نفس ، علم و دانش کے حصول کی خاطر فیضان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض بار ہونے کی غرض سے ہرگھڑی خدمت عالیہ نبویہ میں حاضر رہتی تھی۔
سنن دارمی میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی شریف میں تشریف لائے دیکھا تو وہاں دو الگ الگ حلقے لگے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ لوگ الگ الگ دو حلقوں میں کیوں بیٹھے ہیں۔ ایک ہی حلقے میں کیوں نہیں ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ علم کا حلقہ ہے اور دوسرا ذکر کا حلقہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فی کل خیر۔ یہ دونوں ہی خیر کے حلقے ہیں۔
علامہ ذہبی رحمہ اللہ سیر اعلام النبلاء میں فرماتے ہیں : امام حسن بصری رحمہ اللہ کا ایک خاص حلقہ اپنے گھر میں لگا کرتا تھا اس میں خاص خاص مثلاً عبدالواحد بن زید اورحضرت حبیب عجمی رحمہم اللہ وغیرہ جیسے لوگ شریک ہوتے تھے۔ اس حلقے کی امتیازی خوبی یہ تھی کہ یتکلمون فیہ فی اٰفات النفوس و طرق علاجہا۔ اس میں نفسانی بیماریوں مثلا تکبر ، حسد ، بغض ، حرص ، لالچ ، ریا کاری وغیرہ کی تشخیص اور ان کے دور کرنے کے اسباب و طریقے تجویز کیے جاتے تھے۔
شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں : عبدالواحد بن زید اور ان کے احباب نے بصرہ میں سب سے پہلے صوفیاء کرام کیلیے ایک مکان )خانقاہ (تعمیر کیا۔
خواجہ عبیداللہ احرار رحمہ اللہ طبقات صوفیاء میں لکھتے ہیں : دوسری صدی ہجری زمانہ تابعین میں حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کے ہم عصر شیخ ابو ہاشم رحمہ اللہ کےلیے ذکر و شغل اور تعلیم و تزکیہ و سلوک کےلیے باقاعدہ خانقاہ کے نام سے مکان کی بنیاد رکھی گئی۔ جیسے انتظامی ضرورت کے تحت تعلیم کتاب وحکمت اور تلاوت آیات کے لیے مدرسہ وجود میں آیا۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں جامعہ ، دارالعلوم اور مدرسہ وغیرہ کی کوئی خاص اصطلاح مقرر نہیں تھی۔ ایسے ہی تزکیہ نفس ، تصفیہ قلب اور اخلاقیات کی عملی تربیت کے لیے خانقاہ وجود میں آئی۔ زمانہ رسالت میں یہ امور مسجد میں ہوتے تھے کبھی کسی انتظامی ضرورت کے تحت یہی کام مسجد سے علیحدہ مکان میں بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ مکہ مکرمہ میں یہی عمل غار حرا اور مدینہ طیبہ میں چبوترہ صفہ پر ہوتا تھا۔ یہ حقیقت میں خانقاہ ہی کے خدو خال تھے جس سے تربیت پا کر صحابہ کرام خدائی امتحان میں سرخرو اور کامیاب ہوئے۔علم اور ذکر کے حلقے آج کے دور کی پیدا وار نہیں جیسا کہ بعض لوگ کہتے پھرتے ہیں بلکہ یہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے اللہ کے نبی کے تصدیق شدہ ہیں۔
امت اسلامیہ کے جلیل القدر اولیاء اللہ مثلاًسیدنا صدیق اکبر، سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما ، حضرت حسن بصری ،شیخ ابراہیم بن ادہم ، شیخ معین الدین چشتی ، شیخ بختیار کاکی ، شیخ فرید الدین گنج شکر ، شیخ مجدد الف ثانی ، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری ، مولانا خلیل احمد سہارنپوری ، مولانا احمد علی لاہوری ،مولانا محمد زکریا کاندھلوی ،مولانا خواجہ خان محمد،بانی جامعہ اشرفیہ مفتی محمد حسن ، سید نفیس الحسینی ،مولانا ابرار الحق ہردوئی ،مولانا شاہ حکیم محمد اختر ، سید محمد امین شاہ رحمہم اللہ، فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالحفیظ مکی، پیرطریقت عزیز الرحمٰن ہزاروی ، محبوب الصلحاء پیر ذوالفقار احمد نقشبندی وغیرہ جیسے سینکڑوں نہیں ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کے واسطے سے یہ قلبی و روحانی تربیتی نظام آج ہم تک پہنچا ہے اسی نظام میں انسانیت کے لیے باہمی محبت ، رواداری ، ایثار ، مواسات ، ہمدردی ، خیر خواہی ، اخوت ، مروت اور یگانگت ہے۔ یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک سے پھوٹنے والے چشمہ صافی میں ہمارے معاشرتی زہر کا سامان تریاقی موجود ہے۔ اگر ہم اسی نظام سے مربوط رہیں تو ہماری اخلاقی قدریں بلند ہو سکیں گی۔