قوموں کا عروج وزوال

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
قوموں کا عروج وزوال
مولانا ابو الحسن علی ندوی
قوموں کا عرج و زوال قانون فطرت ہے کسی بھی قوم کا اقتدار اور عروج وزوال دیر پا ضرور ہو سکتا ہے لیکن ہمیشہ نہیں ، قوموں کا عروج وزوال اگر چہ فطری قانون کے مطابق ہوتاہے تاہم ایسا نہیں ہوتاہے کہ اس میں اسباب و عوامل کو کچھ دخل نہ ہو ، کسی بھی قوم کے عروج و زوال میں بہت سے اسباب و عوامل فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ، قوموں کے بارہا کے عروج وزوال کو دیکھتے ہوئے ان عوامل کو طے کر ناکوئی مشکل کام نہیں ہے۔ قوموں کے عروج وزوال میں عام طور پر مندرجہ ذیل عوامل کو بہت زیادہ دخل ہے۔
کسی خاص نظریے پر متفق ہوجانا :
کسی قوم کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اسکے افراد کسی ایک نظریے پر یک جان و یک قالب ہو جائیں ، یہ نظریہ ان کے رگ وریشہ میں اس طرح سما جائے کہ انکا ا س سے دستبردار ہونا کسی طور پر بھی ممکن نہ ہو۔ قوموں کے کسی خاص نظریے پر متفق ہو جانے کوا بن خلدون عصبیت سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ یہ نظریہ کسی خاص عصبیت دینیہ ، دنیویہ ، روحانیہ یا مادیہ کا نتیجہ ہو تاہے۔ یہ پختہ عقیدہ و نظریہ جس کی بنیادیں غیر متزلل اور مضبوط ہوں کسی بھی قو م کے غلبہ اور تفوق کی راہیں کھول دیتاہے۔ آپ ﷺ نے جو عالمگیر انقلاب بر پا کیا اسکے لئے اولا مضبوط بنیادوں کی منصوبہ بندی کی ، یہ بنیادیں اس قدر مظبوط ، مستحکم اور غیر متزلل تھیں کہ ظلم و ستم کے پہاڑ ، مخالفت کے طوفان اور فتنہ کی آندھیاں اٹھیں مگر ان میں ذرابھر بھی جنبش نہ آئی۔ آپ ﷺ نے ان بنیادوں کے مضبوط کرنے کے لئے مکی زندگی کے تیرہ سال لگائے ، آپ ﷺمکہ میں تیرہ سال تک تو حید ، رسالت اورآخرت پر ایمان کی دعوت دیتے رہے اور اپنے ساتھیوں کے دلوں میں ان کا یقین بٹھاتے رہے ، آپ کے ساتھیوں کا ایمان اور یقین اس قدر پختہ اور مظبوط ہوگیا تھا کہ اس یقین کی راہ میں حائل ہونے والے تما مالوفات و مانوسات اور رشتوں و ناطوں کو چھوڑنا اور توڑنا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہ تھا۔ اس مضبوط ایمان کو لے کر جب یہ نکلے تو دنیا کی کوئی طاقت ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکی اور یہ دنیا پر غلبہ پاتے چلے گئے۔
نتیجۃ کچھ ہی سالوں میں نصف دنیا پر انہوں نے اسلا م کاپھریرالہرادیا اور سالھا سال اس پختہ ایمان ویقین کی بدولت حکومت کی ، لیکن آہستہ آہستہ یہ یقین و اعتقاد کمزور اور ضعیف ہو تاگیا ، نبی اکرم ﷺ کے براہ راست تربیت یافتہ کم یا ختم ہوتے چلے گئے اور یوں مسلمانوں کے زوال کی راہیں کھلتی چلی گئیں اور مسلمان کچھ ہی عرصہ میں رو بہ زوال ہوئے۔ اھل روما اور یونا ن بھی اپنے اصل نظریات سے انحراف اور روگردانی کی وجہ سے روبہ زوال ہوئے، جب ان کا اعتقاد ضعیف ہوگیا اور ایمان راسخ نہ رہا تو توہمات نے اسکی جگہ لے لی ، یہی چیز ان کے زوال کا نقطہ آغازثابت ہوئی۔
اس نظریے پر سخت جد و جہد اور قربانی :
کسی بھی قو م کے نظریے کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اس نظریے پر سخت جانفشانی کے ساتھ مسلسل و پیہم جد وجہد کی جائے اور اسکی کامیابی کے لئے دن رات ایک کر دئیے جائیں اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینی پڑے تو اس سے گریزنہ کیا جائے۔ قوموں اور تحریکوں کے غلبے ، ترقی اور عروج کے پیچھے ہمیشہ ایک طویل عرصہ کی محنت ،جانفشانی اور قربانی ہوتی ہے۔ حرکت اور ترقی کا آپس میں گہرا تعلق ہے قرآن کریم نے بھی انسان کی کامیابی کو اسکی محنت کے ساتھ جوڑاہے ارشاد ربانی ہے ’’اور انسان کیلئے وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی ـ‘‘
(سورہ نجم ،۳۹)
آپ ﷺ اس عظیم الشان دعوت کو لے کر اٹھے تو آپ نے جد و جہد و جانفشانی کا حق پور ی طرح اداکیا ، اس دعوت کو ہر اس چیز پر ترجیح دی جو آپ کیلئے رکاوٹ بن سکتی تھی ، آپ خواہشا ت سے بالکل کنارہ کش تھے، آپ کی جد و جہد اور جانفشانی کا اندازہ آپ کے اس ارشاد سے بخوبی ہو سکتا ہے جو آپﷺنے اپنے چچا کی پیشکش کے جواب میں فرمایاتھا ’’ اﷲ کی قسم اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند لاکر رکھ دیں تب بھی میں اس کام سے باز نہیں آ سکتا اور اس وقت تک کوشش کر تا رہوں گا جب تک کہ اﷲ تعالی اس دعوت کو غالب نہ کر دے یا میں خود اس سلسلہ میں کام نہ آجاؤ ں‘‘۔
آپ نے اس سلسلہ میں اپنے اوپر عیش و آرام راحت و آسائش کے دروازے بند کر لئے اور خود اپنے ہی اوپر نہیں بلکہ اپنے پورے خاندان ، اہلبیت اور تمام عزیزوں کوبھی عیش و عشرت کے مواقع سے مستفید ہونے کاموقعہ نہیں دیا ، اسی طرح صحابہ اکرام نے بھی اس دعوت کو پھیلانے اور آگے بڑھانے میں بے پناہ محنت کی اور قربانیاں دیں ،مکہ کے لوگ جب ایمان لائے تو راحت و آرام کے سامان اور آرائش و زینت کے اسباب ختم کر دیے ، ان کی تجارت کساد بازاری کا شکا ر ہو گئی اور بعض اپنے راس المال سے بھی محروم ہوگئے۔
یہی حال انصار مدینہ کا تھا ،اسی نظریے کی کامیابی کے لئے آپ اور آپ کے صحابہ کرام نے جہاد بھی کیا ،اورپھر جن حالات میں آپ نے صحابہ کرام کے ہمراہ جہاد کیا اس پر دنیا داد دیے بغیر نہیں رہ سکتی ، یہ ایک طویل جد وجہد تھی جس کی بدولت مسلمانوں نے ایک ایسی حکومت کی بنیاد ڈالی جو صدیوں تک قائم رہی۔ جس طرح کسی بھی قوم کے نظریے کا با ر آور ہونا ایک طویل محنت پر موقوف ہے ، اسی طرح کسی بھی ترقی یافتہ قوم پر زوال تب آتاہے جب اس کے افراد محنت چھوڑکر تن آسانیوں اور عیاشیوں میں پڑجاتے ہیں اور اسی کی دوڑ دھوپ میں ان کے صبح وشام گزرتے ہیں۔ ایران ، روم اور مسلمان کسی بھی ترقی یافتہ اور غالب قوم کو دیکھ لیں ایک عرصہ تک تویہ جانفشانی کے ساتھ محنت کرتے رہے پھر یہ ایسی تن آسانیوں اور عیاشیوں میں پڑ ے کہ مقصد اصلی سے غافل ہوگئے نتیجۃ دوسری محنت کش اقوام ان پر آسانی سے غالب آگئیں۔
اھل حکمران :
کسی بھی قوم اور تحریک کے نظریات اور محنت میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اس کو اچھے، اہل ، قابل اور ا صلاح و تربیت یافتہ حکمران میسرہوں جو ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوں ، شخصی اقتدار کیلئے اداروں کو ذبح نہ کرتے ہوں۔ ایک اچھا حکمران نہ صرف قومی مفاد اورمصالح کی مد نظر رکھتاہے بلکہ قوم کے افراد کی صلاحیتوں کو بھی چمکاتااور صیقل کر تاہے ، اس طرح انکو زندگی کے ہر میدان میں کام پر لگاتاہے۔ رسول اﷲ اور خلفائے راشدین کا عہد اقتدار اسکی بہترین مثال بن سکتا ہے کہ جس میں مسلمانوں نے بے پناہ ترقی کی اور نصف دنیا پر حکمران بنے۔ لیکن اس کے بعد کے زمانوں میں جب حکومت کے لئے اھلیت شرط نہ رہی ، حکمران عیش و عشرت میں پڑ گئے ، قومی دولت کو ذاتی دالت سمجھاجانے لگا اور اقتدار ایک ہی خاندان کی ذاتی ملکیت بن کر رہ گیا تو اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کی آہنی دیوار میں کئی رخنے پیدا ہو گئے جن سے مسلسل فتنے اور مصائب نفوذکرتے رہے اور مسلمان رو بہ زوال ہوئے۔
خلفائے راشدین کے بعد بھی مسلمانو ں نے اہل اور نیک حکمرانوں کے دور حکومت میں بے پناہ ترقی کی ، جس سے اچھے اور برے حکمران کے ریاست پرپڑنے والے اثرات مزید نمایاں ہو جاتے ہیں۔
اسلام سے قبل کی قوموں ایران ، روم ، یونان اور ہند کے زوال کابڑاسبب ان کے نااہل حکمران تھے۔ ان علاقوں میں حکمرانی مخصوص خاندان کا حق تھی ، اھلیت اس کے لئے مطلقا شرط نہ تھی۔ چنانچہ ایران میں حالت یہ تھی کہ شیرویہ کے بعد اس کے ہفت سالہ بیٹے اردشیر کو شہنشاہ تسلیم کیا گیا ، اور خسرو پرویز کے بیٹے فرخ زاد خسرو کو طفلی کی حالت میں لوگوں نے بادشاہ بنادیا اور کسری کی لڑکی بوران بھی تخت نشین ہوئی ، اس تمام صورتحال میں کسی کو بھی یہ تصور نہ آیا کہ کسی سپہ سالار یا بڑے سردار یا کسی دوسرے لائق اور آزمودہ کار شخص کو انتظام سلطنت سپر د کر دیں ، چونکہ وہ شاہی گھرانے سے تعلق نہ رکھتے تھے اس لئے انکے حکمران بننے کے سوال ہی پیدانہیں ہو تاتھا۔ اسی طرح روم میں بھی حکمرانی ایک پیشہ تھی اوربادشاہ کا بیٹاہی بادشاہ بنتا تھا۔ یہی حالت ہندوستان میں تھی جہاں صرف کھشتری ہی حکومت کے اہل تھے اورکوئی نہیں۔
اور ان علاقوں کے حکمران بہت زیادہ عیاش اور فضول خرچ تھے ، قومی دولت کو ذاتی دولت سمجھتے تھے۔ ان کی عیاشی کے واقعات چشم کشا اور حیران کن ہیں، شاہان ایران میں ہمیشہ یہ دستور رہا کہ جہاں تک ممکن ہوتا اپنے خزانے میں نقد روپیہ اور قیمتی اشیاء جمع کرتے ، خسرو دوم نے مدائن میں اپنے خزانہ کو نئی عمارت میں منتقل کیا تو اس میں ۴۶ کڑوڑ اسی لاکھ مثقال سونا تھا ،حکومت کے تیرہوں سال کے بعد اس کے خزانہ میں اسی لاکھ مثقال سونا تھا ، خسرودوم کے تاج میں ۱۲۰ پونڈ خالص سونا تھا ، عیش پرستی کا یہ عالم تھا کہ کسری پرویز کے پاس بارہ ہزار عورتیں تھیں ، پچاس ہزار اصیل گھوڑے ، اس قدر سامان تعیش ، محلات اور نقدو جواہر تھے کہ ان کا اندازہ مشکل ہے۔ اسلامی فتوحات کے بعد جب ایرانی عراق سے بے دخل ہوئے تو ان کے سامانوں سے بیش قیمت جوڑے ، طلائی ، سنگار کا سامان وغیرہ ملے۔
طبری کی روایت ہے کہ عربوں کو مدائن کی فتح میں ترکی خیمے ملے جو سر بمہر ٹوکروں سے بھرے ہوئے تھے ، عرب کہتے ہیں کہ ہم سمجھے کہ اس میں کچھ کھانے کا سامان ہوگا کھولنے سے معلوم ہوا کہ سونے ، چاندی کے برتن ہیں۔ اسی طرح مؤ رخین نے فرش بہار کا بھی ذکر کیا ہے جو کہ ایک ایکڑ زمین کو گھیر لیتا تھا ، اسکی زمین سونے کی تھی جس میں جابجا جواہرات اور موتیوں کی گلکاری تھی ، چمن تھا جس میں درختوں کے پتے حریر کے اور لکڑی سونے کی تھی ، اس پر تاجداران آل ساسان خزاں میں بیٹھ کر شراب پیا کر تے تھے۔ شہنشاہان روم کی حالت بھی انہی جیسی تھی۔
حسان بن ثابت نے جبلہ بن ایہم غسانی کی مجلس کا نقشہ اس طرح کھینچاہے کہ جبلہ کے پاس دس باندیاں گایا کر تی تھیں ، جب شراب پیتاتھا تو اس کے نیچے فرش پر قسم قسم کے پھول بچھادئے جاتے ، سونے چاندی کی طشتریوں میں مشک وعنبر لگا دیا جاتا اگر جاڑوں کا زمانہ ہوتا تو عود جلایا جاتا تھا۔ ایک ایک شخص اپنی ذات پر اور اپنے لباس کے کسی ایک حصہ پر اس قدر خرچ کرتا جس سے پوری ایک بستی کی پرورش ہوسکے ،یا پور ے گاؤ ں کی پوشاک اور سترپوشی کے لئے کافی ہو۔
حکمرانوں کی یہی نااھلی ، عیاشی اور فضول خرچی ان علاقوں اور قوموں کے زوال کا سبب بنی۔ او ر آج بھی ترقی یافتہ قوموں یورپ ، روس اور چائنہ وغیرہ کی ترقی میں ان کے حکمرانوں کا بہت بڑا کردار ہے اور امت مسلمہ کے زوال میں اس کے حکمرانوں کی نااھلی کا بہت دخل ہے۔
یورپ میں آج بہت خرابیا ں آچکی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ زندہ ہی نہیں بر سر اقتدار ہے تو اسکی وجہ انکی قیادت کا سیاسی شعور اور قومی ذمہ داریوں کا احساس ہے ، ابھی تک انگریزوں اور امریکیوں میں ایسے لوگوں کی مثالیں شاذونادر ہوں گی جو قومی خیانت کا ارتکاب کرتے ہوں ، اپنے ملک کو سستے داموں فروخت کرتے ہوں ، حکومت کے اسرار فاش کرتے ہوں یا خراب و ناکا رہ اسلحہ کی خریداری کے مجرم ہوں ، اور مسلمان ممالک کے قائدین اور صاحبان اقتدار سے کچھ بعید نہیں کہ کبھی اپنے کسی حقیر فائدہ یا لذت و خواہش کے ماتحت اپنے ملک کو رہن رکھ دیں یا اس کا بیعنامہ کر دیں یا اپنی قوم کو بھیڑ بکری کی طرح فروخت کر دیں یا اپنی قو م کو ایسی جنگ میں جھونک دیں جو مصلحت کے خلاف ہو ، مجموعی طور پر آج امت مسلمہ کے حکمرانوں کی عیاشیاں و فحاشیاں دیکھ کر یورپ کا سر بھی شرم سے جھک جاتا ہے۔
طبقاتی نظام :
طبقاتی نظام عموما حکمران اور اشرافیہ خود پیدا کرتے ہیں تاکہ خود تو عیاشی میں رہیں اور عوام ان کے لئے دوڑ دھوپ کر تی رہے۔ طبقاتی نظام میں جھاں محنت اور مشقت صرف ایک فریق کرتا ہے وہاں عدل و انصاف اور قوانین ریاست بھی عموما ایک فریق کیلئے ہی ہو تے ہیں ، اشرافیہ اس سے مستثنی ہوتے ہیں۔ ظلم میں پساہوا یہ طبقہ احسا س محرومی کی وجہ سے کبھی بھی حکمرانوں کے ساتھ مخلص نہیں ہو تاہے یا خو د ایک دن حکمرانوں کی عیاشیوں کی بساط لپیٹ دیتاہے یا کسی بیرونی دشمن آنے کی صورت میں ان کیلئے راہیں ہموار کر دیتاہے۔ ماقبل اسلام میں زوال یافتہ قوموں کے اندر یہ بات مشترک تھی ، ایران روم دونوں سلطنتیں بد ترین طبقاتی نظام کا شکا ر تھیں ان دونوں مملکتوں میں رعایا دو طبقوں میں تقسیم تھے ، ان دونوں طبقوں میں واضح اور بین فرق تھا ایک طبقہ بادشاہوں ، شہزادوں ، اھل دربان اور انکے خاندانوں ، عزیزوں ، متعلقین ، وابستگان اور جاگیر داروں اور دولتمندوں کا تھا ، یہ لوگ سدا بہار پھولوں کی سیج پر زندگی گزارتے تھے ، ان کے گھر کے لوگ اور بچے سونے چاندی سے کھیلتے اور دودھ و گلاب میں نہاتے ، یہ اپنے گھوڑوں کی نعلیں بھی جواہرات سے جڑتے اور در و دیوار کو بھی ریشم و کمخواب سے سجاتے تھے۔
دوسرا طبقہ کاشتکاروں ،کاریگروں ، اہل حرفہ اور چھوٹے تاجروں کا تھا جنکی زندگی سراپا کلفت و مصیبت تھی ، جن کا جوڑجوڑ اور بند بند مطالبات کے اندر جکڑا ہو ا تھا ، وہ اس جال کو توڑنے کی جس قدر کوشش کرتے تھے اور جس قدر ہاتھ پاؤں مارتے وہ اور کس جاتا تھا۔ عرب دنیا بھی آپ ﷺ کی تشریف آوری سے قبل مختلف طبقات اور الگ الگ حیثیت کے خاندانوں اور گھرانوں پر مشتمل تھی ، بعض خاندان دوسرے خاندانوں یا عام انسانوں کے ساتھ بہت سی رسوم میں شرکت پسند نہیں کرتے تھے ، یہاں تک کہ حج کے بعض مناسک میں قریش عام حجا ج سے الگ تھلگ اور ممتاز رہتے تھے ، عرفا ت میں عام لوگوں کے ساتھ ٹھہرنا عار کی بات سمجھتے تھے ،ایک طبقہ پیدائشی آقاؤں اوردوسرا کم حیثیت لوگوں کا تھا جن سے بیگار لیا جاتااور کام پر لگایا جاتاتھا۔
سب سے بری طبقہ واریت ہندوستان میں تھی کسی قوم کی تاریخ میں اس قدر بین طبقہ واری امتیاز اور پیشوں اور زندگی کے مشغلوں کی ایسی انمٹ اور اٹل تقسیم کم دیکھنے میں آئی ہے جیسی ہندوستان کے قدیم مذہبی و معا شرتی قانون میں ہے۔ آریوں نے اپنی نسل اور اس کی خصوصیات کو محفوظ رکھنے اور اپنا تفوق و بر تری بر قرار رکھنے کے لئے اس طبقہ واری تقسیم اور نسلی امتیاز کو ضروری سمجھا ، ستم بالا یہ تھا کہ منو جی نے اس کو ایک قانون بنا دیا اور تمام اھل ملک نے اسکو بالاتفاق قبول کرلیا۔ منو جی نے معاشرے کو چار طبقوں میں تقسیم کیا ، برہمن ، کھشتری ، ویش اور شودر۔
ان تمام ممالک و قومو ں کی طبقہ واریت سے ہٹ کر رسول اﷲ نے انسانی مساوات کا ایسا پیغام دیا جس میں کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت اور تفوق نہیں ،سبھی ایک باپ آدم کی اولاد ہیں۔ آپ کے اس مساوات کے نظام میں آپ کو بھی رعایا کے ایک عام آدمی جتنے حقوق میسر تھے اور آپ ﷺکی زندگی بھی ایک عام مسلمان کی مانند گزرتی تھی۔ آپ کے اس نظام مساوات کا نتیجہ تھا کہ آقا و غلام پر ایک لباس نظر آتاتھا او ر غلام پر ظلم کرنے پر بھی سخت عتاب ہو تاتھا۔
یہی وجہ ہے کہ کہ اسلامی تاریخ میں مختلف مسندوں پر بہت سی جگہوں میں آزاد لوگوں کی بجائے غلام یا ان کے بیٹے نظر آتے ہیں ، یہ وہ دور تھا جس میں عربی یا علاقائی عصبیت کو قریب بھی نہ پھٹکنے دیا گیا ، حاکم مصر عمرو بن العاص کے بیٹے نے جب ایک مصری بدو کو کوڑا مارا اور اپنے دادا پر فخر کیا توحضرت عمر ؓنے مصری کو ان سے بدلہ لینے کا حکم دیا اور عمرو بن العاص سے کہا کہ تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنالیا حالانکہ ان کی ماؤ ں نے تو ان کو آزاد جنا ہے۔ لیکن افسوس کہ اسکے بعد امت مسلمہ میں بھی طبقاتی نظام پیداہوگیا اور آج تک حالت یہی ہے ، آج امت مسلمہ میں وہی قدیم عصبیت جاگ چکی ہے ایران اپنی قدیم تہذیب کی بات کرتاہے تو یمن اپنی ، سعودی عرب ، مصر ، عراق اور ترک سبھی کا تو یہی حال ہے ، امت مسلمہ ہونے کاخیال کسی کے ذہن میں بھی نہیں آتاہے ، اسلام کا نظام مساوات آج کہیں بھی تسلیم نہیں ہے۔
آج جب ایک شخص بڑے بڑے عرب شہروں پر نظر ڈالتاہے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور سر شرم سے جھک جاتاہے اور وہ دیکھتاہے کہ ایک طرف ایسا آدمی ہے جس کو اپنی ضرورت سے زائد غذالبا س کامصرف نظر نہیں آتا دوسری طرف اس کی نگاہ ایسے بدوی پر پڑتی ہے جس کو ایک روز کا کھانا اور ستر پوشی کے لئے کپڑے بھی نصیب نہیں۔ جب تک قدیم ایران اور روم والا طبقاتی نظا م ہم میں ختم نہیں ہو تا تب تک ہماری ترقی اور عروج کا سوال ہی نہیں پیداہوتا۔
ٹیکسوں کا بدترین نظام :
جب حکمران عیاشیوں اور فضول خرچیوں میں پڑے ہو ں ، اشرافیہ ان کے ساتھ زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہورہے ہوں تو لازمی بات ہے عوام پر بدترین اور ناقابل اداء ٹیکسوں کی بھرمار کر دی جاتی ہے ، ان کو انسان کی بجائے جانور اور کولہو کابیل سمجھا جاتاہے جس کا کام دوسروں کی عیاشیوں ، مستیوں اور فضول خرچیوں کے لئے کام کرنا ہو تاہے۔ جب حالات یہاں تک پہنچ جائیں تو عوام حکمرانوں سے بد ظن اور نالاں ہو جاتے ہیں اور ملکی حکمرانوں کی بجائے بدیسی حکومتوں کو ترجیح دیتے ہیں ، تاجر ایسی جگہ سرمایہ کاری چھوڑ دیتے ہیں ملکی اشیا ء مہنگی ہونے کے سبب دوسر ے ان کو نہیں خریدتے ہیں نتیجۃ ریاست اولا اقتصادی مو ت مرتی ہے اور پھر بد ترین بد نظمی کا شکا ر ہو کر تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔
اسلام سے پہلے کی متمدن قوموں کا حال یہی تھا ، روم میں حالت یہ تھی اکثر ٹیکس اداء کرنے کیلئے لوگ اپنے بچوں کو بیچ دیاکرتے تھے ، مظالم کی زیادتی تھی ، غلام بنانے اور بیگار لینے کا رواج عام تھا ، شامی رعایا پرلازم تھا کہ وہ حکومت کا ٹیکس اداء کرے اور اپنی تمام پیداوار اور آمدنی کا دسواں حصہ اور راس المال کا ٹیکس اداء کرے ، فی کس بھی ایک رقم مقرر تھی جس کا اداء کرنا ضروری تھا ، اسکے علاوہ رومی قوم کے کچھ دوسرے اہم ذرائع آمدنی تھے مثلا چنگی ، کانیں محاصل وغیرہ۔ ایران میں بھی حالت یہی تھی ، نت نئے ٹیکسوں کی وجہ سے کسانوں نے کھیتی باڑی چھوڑ دی تھی ، تجار تنگ تھے ، انتشار و بدامنی عروج پر تھی ، محصلین و عمال اپنے لئے رقم الگ لیتے تھے ، بادشاہ کاحصہ الگ ہو تاتھا اور ریاست کاٹیکس الگ ہوتاتھا ، اور یہ سب دستور کا حصہ تھا، عیدنوروز اور مہرگان کے موقعوں پر لوگوں سے جبراتحائف وصول کیے جاتے تھے۔
ایران و روم کے اس نظام کے خلاف آپ ﷺ نے زکاۃ کا نظام متعارف کروایا جو کہ ہر امیر شخص سے بلاتفریق لی جاتی تھی اور جس علاقے سے لی جاتی تھی انہی پر خرچ کی جاتی تھی ، اور اپنی ذات اور خاندان پر ان رقموں کو حرام قرار دیا ، عمال کو ظلم سے بچنے کی بہت زیادہ تاکید کی او ر ناجائز یا زائد ٹیکس وصول کرنے سے سختی سے منع فرمایا۔ اس کے بعد مسلمانوں نے آپ ﷺ کی ان قیمتی تعلیما ت کوپس پشت ڈال دیا اور آج تمام اسلامی مما لک میں وہ ہی روم اور ایران والے حالا ت ہیں۔
بگڑتی ہو ئی اخلاقیات کا سیلاب :
اخلاقی پستی بھی قوموں کے تنزل کا ایک بڑا سبب ہے اور یہ بہت جلد اقوام کو غالب سے مغلوب بنا ڈالتی ہے ،جب بادشاہ خود عیاش اور فضول خرچ ہوں ، رعایا کے اخلاق اور انکی تربیت و اصلاح کو نظر اندار کردیں تو قوموں کے اخلاق عیاشی سے آگے بڑھ کر اس قدر بگڑتے ہیں کہ وہ طبعی اور فطری قوانین کی خلاف ورزی پر اترآتی ہیں ، رومن سلطنت میں اخلاقی پستی اور در ماندگی کی حالت یہ تھی کہ اخلاقی گراوٹ اپنی پست ترین سطح پر پہنچ چکی تھی ، سب کے دل میں ایک ہی لگن تھی کہ جس طرح ممکن ہو زیادہ سے زیادہ مال سمیٹا جائے اور اس کو فیشن پرستی ، عیش پسندی اور اپنی من مانی خواہشات کے پوراکرنے میں خرچ کیا جائے ، انسانیت و شرافت کی بنیادیں اپنی جگہ سے ہل چکی تیں ، تہذیب و اخلاق کے ستون اپنی جگہ چھوڑ چکے تھے۔
نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ ازدواجی زندگی پر تجرد کو ترجیح دیتے تھے تاکہ آزادی سے انہیں کھیل کھیلنے کا موقع ملے ، فسق و فجور کی تحریک شہروں کے اندر اپنے پورے جوش و تلاطم پر تھی اخلاقیات میں پستی و رکاکت حد د ر جہ سرایت کر گئی تھی دربار کی عیش پرستیاں ، ارکان دربار کی غلام طینتی اور ملبوسات و زیورات کی تزئین و آرائش اپنے شباب پر تھی ، دنیااس وقت انتہائی رہبانیت اور انتہائی بد کاری کے تھپیڑوں کے درمیان جھونکے کھارہی تھی بلکہ شہروں میں جو کثیر التعداد زہا د و راہبین پیدا ہوئے تھے وہ وہی تھے جن میں عیش پرستی اور بد چلنی کی سب سے زیادہ گرم بازاری تھی ، غرض بدکاری اور توہم پرستی کا ایسا اجتماع ہو گیا تھا جو انسان کی شرافت و عظمت کا قطعی دشمن ہے۔
لوگ دعاؤں اور کفاروں سے معافی کی امید پر بے دھڑک گناہ کرتے تھے ، مکاری ، دغا بازی اور دروغ گوئی کی وہ گرم بازاری تھی جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ ایران اخلاقی گراوٹ میں روم سے کہیں آگے تھا ، وہاں کی اخلاقی بنیادیں زمانہ دراز سے متزلل چلی آرہی تھیں ، جن رشتوں سے ازدواجی تعلقات دنیا کے متمد ن و معتدل علاقوں کے باشندے ہمیشہ سے ناجائز اور غیر قانونی سمجھتے رہے ہیں اور فطری طور پر ان سے نفرت کرتے ہیں ، ایرانیوں کو ان کی حرمت و کر اہت مسلم نہ تھی ،یزد گر دوم جس نے پانچویں صدی کے وسط میں حکومت کی ہے نے اپنی لڑکی کو زوجیت میں رکھا پھر قتل کر دیا ، بہرام چوبیں جو چھٹی صدی میں حکمران تھا نے اپنی بہن سے اپناازدواجی تعلق رکھا۔
اس فعل شنیع و قبیح کو نا جائز سمجھنا تو درکنار اسکو کار ثواب سمجھا جا تا تھا ، اس کے بعد ایران میں مزدکیت کا دور دورہ ہو ا تو مزدک نے عورت اور مال مثل آگ ، پانی اور چارہ کے مشترک اور عام کر دیا شاہ ایران قباذ نے اس کی سر پرستی کی اور اس کی تحریک کی اشاعت و تبلیغ میں بڑی سر گرمی دکھائی ، نتیجہ یہ ہواکہ یہ تحریک آگ کی طرح ملک میں پھیل گئی ، پورے کا پورا ایران جنسی انارکی اور شہوانی بحران میں ڈوب گیا، نتیجۃ باپ اپنے لڑکوں کو پہچان سکتاتھا اورنہ لڑکے اپنے باپ کو ، کسی کا کسی ملکیت پر قبضہ و اختیار نہیں رہاتھا۔ ہندوستان میں اخلاقی بحران اور جنسی انارکی کو مذہبی تقد س کا در جہ حاصل تھا ، دیویوں اور دیوتاؤ ں کی طرف ایسی روایات منسوب کر کے سنائی جاتی تھیں جن کو سن کر آنکھیں نیچی اور پیشانی عرق آلو د ہو جاتی ہے ، مخصوص مذہبی فرقوں میں مرد برہنہ عورتو ں کی اور عورتیں برہنہ مردوں کی پر ستش کرتی تھیں۔
مندروں کے محافظ و منتظم بداخلا قی کا سر چشمہ تھے ، بہت سی عبادت گاہیں اخلاقی جرائم کا مرکز تھیں ، راجاؤں کے محل اور بادشاہاؤں کے دربار میں بے تکلف شراب کا دور چلتاتھا اور سرمستی میں اخلاقی حدود برقرار نہ رہتے۔ عربوں میں بھی تمام اخلاقی برائیاں کم و بیش موجود تھیں ، شراب ان کی گھٹی میں داخل تھی ، شراب پی کر جو ا کھیلا کرتے تھے اور سب کچھ داؤ پر لگا دیا کرتے تھے ، ہار جانے کی صورت میں جنگوں تک کی نوبت آجاتی ، سودی لین دین اور زنا عام تھا۔
حضور اکرم ﷺ نے جو انقلاب بر پا کیا اس میں ایمان کے ساتھ اخلاق کی بھی تربیت فرمائی تھی ، آپ ﷺ کے تربیت یافتہ افراد حکومت اور قیادت کے منصب پر مستحکم اخلاقی تربیت اور مکمل تہذیب نفس کے بعد فائز ہوئے تھے ، انہوں نے دنیا کے عام حکمرانوں کی طرح اپنے تمام اخلاقی عیوب و نقائص کے ساتھ پستی سے بلندی کی طرف جست نہیں لگائی تھی بلکہ ایک طویل عرصہ تک وحی الہی ان کی اصلاح و تربیت کر تی رہی اور سالھا سال وہ رسو ل اﷲ ﷺ کی کامل نگرانی اور تعلیم میں رہے تھے۔ آپ نے ان کی تربیت و تزکیہ فرمایا ، زہد و ورع کی زندگی کا انکو خوگر کیا، حکومت و مناصب کی حرص و طمع ان کے دلوں سے بالکل غا ئب کر دی ، ترفع ، ذاتی سر بلندی اور اعزاز کا شوق اور فتنہ و فساد کی خواہش سے ان کے دل بالکل صاف ہو گئے تھے۔ وہ حکومت کے عہدوں اور منصبوں پر پروانہ وار نہیں گرتے تھے بلکہ اس کو قبو ل کرنے سے گریز کرتے تھے ، لیکن جب کوئی قبول کر لیتا تو اس کو مال غنیمت یا لقمہ تر نہ سمجھتے تھے بلکہ اس کو اپنے اوپر ذمہ ، امانت اور اﷲ کی طرف سے آزمائش سمجھتے تھے۔
خانہ جنگیاں اورنا اتفاقیاں :
کوئی بھی ریاست مسلسل جنگوں کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ جنگوں سے نظام معیشت و معاشرت تباہ ہو جا تا ہے اور بہت سے اہل لوگ ان جنگوں کی نظر ہو جاتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ جنگیں اگر کسی بیرونی دشمن سے نہ ہوں بلکہ ریاست کے اندر ہی ایک گروہ کی دوسرے گروہ کے ساتھ ہوں تو ان کانقصان دو چنداور ناقابل تلافی ہو جا تا ہے ، خانہ جنگیوں میں ریاست کو اپنا وجود سنبھا لنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اگر یہ خانہ جنگیاں شدت اختیار کر جائیں اور مسلسل و پیہم ہو تی رہیں تو ریاست لازمی طور پر کئی ٹکڑو ں میں بٹ جاتی ہے۔
روم اور ایران آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل جنگوں میں رہتے تھے کبھی ایک غلبہ پالیتاتو کبھی دوسرا ، ریاست کی توجہ مسلسل جنگوں کی طرف رہتی تھی نتیجۃ دوسرے شعبوں تعلیم ، صحت ، معاش اور صنعت میں ریاست کی خاطر خواہ توجہ نہ رہی اور ان میں معیاری ترقی نہ ہو سکی ، ایک دوسرے کے ساتھ جنگوں کے ساتھ ان کی ریاستوں میں بھی مسلسل خانہ جنگیاں جاری رہتی تھیں جو کہ ریاست کے لئے تباہ کن ثابت ہوئیں ، رو م کے اندر خانہ جنگیا ں ہلکے پھلکے کلامی مسائل سے پیداہوئیں لیکن جب مذہبی پیشوا اور ریاست خود ان میں کو د پڑی تو عیسائیت دو فرقوں میں بٹ گئی ، ایک روم و شام کے ملکانی تھے اور دوسرے مصر کے مینو فیزٹ ، ان دونوں میں ایسی کشاکش بڑھی کہ ایک دوسرے کو سخت سے سخت سزائیں دی گئیں ،ریاست و سلاطین کے اس کے اندر داخل ہونے سے فساد دوچندہوئے ، شاہ وقت نے اول فرقہ کی سرپرستی کی اور ریاست میں لاکھوں لوگوں کا خون بہا۔ روم وایران میں طبقہ وارانہ نظام کے رد عمل میں بھی مسلسل خانہ جنگیاں جاری رہتی تھیں جن کی وجہ سے ریاست کمزور ہوتی چلی گئی۔
ہندوستان میں بھی چھوٹی چھوٹی اور غیر اہم ریاستیں تھیں جو سیاسی اور حربی حیثیت سے ایک دوسرے پر فوقیت کے لئے جد و جہد میں مصروف رہتی تھیں۔ عربوں کی مسلسل خانہ جنگیاں تو ضرب المثل ہیں چھوٹی چھوٹی سی بات پر طویل خانہ جنگیاں ان کا روز مرہ کا معمول تھا ، جنگ بعاث ، بسوس اور فجار وغیر ہ انہی خانہ جنگیو ں کی خون آشام داستانیں ہیں۔
آپ ﷺنے سبھی کو متحد کر دیا اور آپس میں بھائی بھائی بنادیا ، اتفاق و اتحاد کی بدولت ہی انہوں نے نصف دنیا پر حکمرانی کی۔ اتفاق اور اتحاد کی اہمیت کے پیش نظر آپ ﷺنے اپنے آخری خطبہ حجۃ الوداع میں بھی اس پر زور دیا ’’ میرے بعد کفر پر نہ لوٹ جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھرو ‘‘۔ عرب ایک عرصہ تک ایک دوسرے کے بھائی بھائی رہے لیکن پھر رفتہ رفتہ پرانی رقابتیں جاگ پڑیں اور دوبارہ آپس کی خانہ جنگیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ، نہ خانہ جنگیاں کبھی بنو ہاشم اور بنو امیہ کے درمیان ہوئیں او رکبھی بنو عباس اور بنو امیہ کے درمیان ، ان خانہ جنگیوں کے زمانہ میں نہ صرف اسلام کی اشاعت اور فتوحات کا سلسلہ رکا بلکہ اسلامی ریاست بھی انتہائی کمزور پڑ گئی۔
بنو عباس اور بنو امیہ کے ادوار حکومت میں تخت شاہی کے لئے شہزادوں کی رسہ کشی کی بھی بھیانک اور افسوسناک طویل داستانیں ہیں ، آپس کے انتشار اور خانہ جنگیوں سے جب ریاستیں کمزور ہوئیں تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سی ذیلی حکومتوں نے سر اٹھا لیا اور مختلف علاقوں میں خود مختار حکومتیں قائم کر لیں۔
ان میں سے بنو عباس کے دور میں سامانی حکومت ، بنوبویہ ، سلطنت فاطمیہ اور مملو ک باد شاہاؤں کی حکومتوں نے شہرت حاصل کی۔ ان سلطنتوں کی طرح دیگر مشہور سلطنتیں بھی خانہ جنگیوں کے باعث رو بہ زوال ہوئیں ، صلیبی جنگوں کے مشہور ہیرو صلاح الدین ایوبی کی سلطنت ان کے تین بیٹوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے تباہی اور خاتمے کا شکار ہوئی۔
اندلس میں مسلمانوں کی پر شکوہ حکومت جو کہ بنو امیہ کے ایک شہزادے عبدالرحمن نے قائم کی تھی کے ساتھ بھی کچھ یوں ہی ہوا شاہی خاند ان کے لوگوں نے جب تخت شاہی کے لئے لڑائیاں جھگڑے شروع کئے تو ہر طرف بدامنی پھیل گئی اور خطہ کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا اور اس کے مختلف حصوں میں کئی خو مختار حکومتیں قائم ہو گئیں ، نتیجہ ایسے زوال کی صورت میں نکلا کہ آج وہاں اس عہد کی چند عمارتوں کے سوا ایک مسلمان بھی نہیں بچا۔ ہندوستان میں مغلوں کی ایک طویل اور وسیع و عریض حکومت پر زوال بھی اسی طرح آیا ، اور نگزیب عالمگیر کے بعد اس کے بیٹوں میں ایسی لڑائیا ں ہوئیں کہ جنہوں نے مغلیہ حکومت کو تباہی و بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کیا اور انگریزوں کا ایک دھکہ اور معمولی فوج ہی ان کو تباہی و بربادی کی پرخار وادیوں میں اتارنے کے لئے کافی ہوئی۔
عالم اسلام کی موجودہ پستی میں عالم اسلام کی نااتفاقیوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ، عالم اسلام کے اکثٖر ممالک ایک طویل عرصہ سے خانہ جنگیوں کا بھی شکار ہیں اور آپس میں بھی ایک دوسرے سے مسلسل لڑرہے ہیں ، مثلا ایک لمبے عرصے تک انڈوینشیااور ملائشیا کا آپس میں قضیہ چلتا رہا ، یمن خانہ جنگی کا شکا ر رہا اور اس میں طویل عرصہ مصر اور سعودی عرب کے فوجی آپس میں لڑتے رہے اور اب اسی مصر میں سعودی عرب اور ایران کے فوجی لڑ رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں طرفین کے فوجی انہی جنگوں کی نظر ہو چکے ہیں عوام کا جو خون بہا وہ الگ ہے۔
شام میں ایک لمبے عرصے تک حکومت اور اخوان المسلمون کے درمیان مسلح جنگ رہی ، اور اب بھی کئی طاقتیں شام میں بر سر پیکار ہیں ، عراق میں صدام انتظامیہ نے اپنے سیاسی مخالفین اور علیحدگی پسندوں کے خلاف قتل وغارت کا بازار گرم کئے رکھا ، اور ابھی بھی عراق میں خانہ جنگی جاری ہے۔
الجزائر میں ۱۹۹۱ ء کے بعد خانہ جنگی شروع ہوئی جس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ۱۹۸۰ ء کی دہائی میں عراق نے ایران پر حملہ کر دیا جس میں طرفین کے ۱۰ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے ، اس کے بعد عراق نے کویت پر حملہ کیا ، اور آج کل ایران کی مختلف اسلامی ممالک میں دخل اندازی سے نئی جنگوں کی صورتحال بنی ہوئی ہے۔
نظام حکومت کے مستحکم اصول وقوانین:
کسی بھی سلطنت اور ریاست کے نظا م کو چلانے کے لئے مستحکم اصولوں کا ہونا از حد ضروری ہے ، اگر اصو ل وضوابط مستحکم نہ ہوں تو تمدن کی تعمیر محال ہے اور نظام سلطنت نہیں چل سکتاہے نتیجۃ یا تو یہ قوم دوسروں کی دست نگر اور محتاج بن کر رہ جاتی ہے اور دوسروں کے قوانین و نظام کو اپنے ہاں نافذکرتی ہے یا ایک ناکا م تمدن کو تشکیل دیتی ہے جو جلد ہی انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔
اسلام سے قبل روم اور ایران متمدن قومیں شمارہوتی تھیں لیکن انکا قانونی نظام انسانیت کو اپنے ساتھ نہیں لے کر چل سکا ، روم میں عیسائیت تھی اور مسیحی مذہب میں کبھی بھی اس درجہ وضاحت نہ تھی کہ جس کی روشنی میں زندگی کے اہم مسائل سلجھائے جائیں ، جو کچھ تھا وہ صرف حضرت مسیح کی تعلیمات کا ہلکا سا خاکہ تھا جس پر توحید کے سادہ عقیدہ کا کچھ پر تو تھا ، مسیحیت کا یہ امتیاز بھی اسوقت تک قائم رہا جب تک یہ مذہب سینٹ پال کی دست اندازی سے بچارہا ، سینٹ پا ل نے آکر رہی سہی روشنی بھی گل کر دی ، اس کی تربیت بت پرستی کے ماحول میں ہوئی تھی ، جاہلی خرافات سے نکل کر وہ آیا تھا ، اس نے مسیحیت میں ان تما م جہالتوں اور لغویا ت کی آمیزش کر دی ، اس کے بعد قسطنطین نے اپنے دور حکومت میں رہی سہی کسر بھی نکال دی۔
غرض یہ کہ چوتھی صدی عیسوی میں ہی عیسائیت ایک معجون مرکب بن کر رہ گئی تھی جس میں یونانی خرافات ، رومی بت پرستی ، مصری افلاطونیت اور رہبانیت کے اجزاء شامل تھے ، مسیحیت اس دور میں چند بے جان مراسم اور بے کیف عقائد کانام بن کر رہ گئی تھی ،جو روح میں گداز پیداکر سکتے تھے نہ عقل کی افرائش کا سبب بن سکتے تھے ، ان میں صلاحیت نہ تھی کہ زندگی کے اہم مسائل میں انسانی قافلے کی راہ نمائی کرسکیں ، اسی لئے جب لوگوں نے ترقی کی تو عیسائیت کے بنائے ہوئے قوانین زمانے کی ترقی کا ساتھ نہ دے سکے۔
اس دور کی دوسری متمدن قوت ایرانی تھے ، ایرانی آگ کی پوجا کرتے تھے اور آگ اپنے پجاریو ں کو ہدایت دینے اور اپنا پیغام پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور نہ اس میں یہ قدرت ہے کہ ان کے مسائل زندگی کو حل کر سکے۔ اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ مجوسی مذہب چند مراسم و روایات کانام رہ گیا تھا جن کو مخصوص اوقات اور خاص مقامات میں وہ اداء کرلیاکرتے تھے باقی ہر جگہ پر وہ آزاد تھے ، نتیجۃ اخلاق بگڑے ہوئے تھے ، ظلم و ستم عام تھا اور ہر جگہ نفسانی خواہشات کی پیروی تھی۔
ہندوستان میں بھی صورتحال ایسی ہی تھی ، ان کے پاس عرصہ دراز سے قانون نام کی کوئی چیز نہ تھی ، تین سو قبل مسیح میں منو جی نے منو شاستر کے نام سے قوانین کاایک مجموعہ تیارکیا جو ملکی قانون اور مذہبی دستاویز کی حیثیت اختیار کر گیا۔ منو جی کے قوانین کی کمزوری اور عد م استحکام کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتاہے کہ طبقہ واریت کانظام منو جی نے ہی دیاتھا ، اس قانونی کتاب میں بت پرستی کو بھی قانونی حیثیت حاصل تھی اور عورت کی کمزور حیثیت کو بھی۔
غرض ہندوستان بھی سچے آسمانی مذہب کی تعلیمات سے محروم ہونے اور مذہبی مستند ماخذ گم ہو جانے کی وجہ سے قیا سا ت و تحریفات کا شکار اور رسوم و روایات کا پرستار بناہواتھا ، اور اس وقت کی دنیا میں جہالت ، توہم پرستی ، پست در جہ کی بت پرستی، نفسانی خواہشات اور طبقہ واری ناانصانی میں پیش پیش تھا ، دنیا کی اخلاقی و روحانی رہبری کے بجائے خود اندرونی او راخلاقی بد نظمی میں مبتلاتھا۔
بودھ مت بھی اس زمانے کا ایک بڑا مذہب تھا جو چین اور اسکے اردگرد کے ممالک میں رائج تھا ، لیکن بدھ مت نے بھی خود کو برہمنیت میں ضم کر دیا تھا اور گوتم بدھ کی سادہ آسمانی تعلیمات الہیاتی موشگافیوں کے نیچے دب کر رہ گئیں ، اکثر متبذل رسوم ان میں داخل ہوگئیں تھیں ، ان کے پاس دنیا کے لئے کوئی پیغام نہ تھا جس کی روشنی میں دنیا اپنے مسائل کا حل تلاش کرسکتی ، اور خدا کا راستہ پاتی۔
رسول اﷲ نے مسلمانوں کو کتاب اور الہی شریعت دی جس کے مطابق وہ لوگو ں کے درمیان فیصلہ کریں ، شریعت کے یہ قوانین آسان ، سہل ، معقول اور ممکن العمل تھے ، یہ روحانیت و مادیت کا حسین امتزاج تھے ، ان میں نہ تو دین کی نفی تھی نہ دنیا کی ، یہ قوانین اپنے پرائے ، امیر اور غریب سبھی کے لئے یکساں اور قابل تھے ، مسلمانوں نے انہی قوا نین کی روشنی میں نصف دنیا میں حکومت کی اور دنیا بھر کی اقوام اس کی روشنی میں اکھٹی ہو گئیں ، اس سے اس قانون کی آفاقیت اور عالمگیریت بھی سمجھ میں آجاتی ہے ، لیکن مسلمانوں نے جب ان مستحکم اصولوں کی چھوڑ دیا تو روبہ زوال ہوئے۔
صنعت و حر فت اور جدید دفاعی نظام :
صنعت و حرفت اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کسی بھی قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے اور اسکے اقتدار کو وسیع و عریض اور مضبو ط بنا تی ہے۔ مسلمانوں کو قرآن کریم میں یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ کفر کامقابلہ ان تمام وسائل اور سامان سے کریں جو ان کی دسترس میں ہو ، ’’ اور جہاں تک تمہارے بس میں ہے قوت پیدا کرو اور گھوڑے تیار رکھو ‘‘ الانفال ۶۰۔
چنانچہ اس وقت رائج تما م ہتھیاروں پر مسلمانوں کو مکمل دسترس تھی ، اسوقت کے جدید ہتھیا ر منجنیق اور دبابہ وغیرہ بھی مسلمانوں نے استعمال کیے۔ اس کے بعد بنو امیہ اور بنو عباس کی حکومتیں اپنی تما م تر خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود صنعت و حرفت اور جدید ٹیکنالوجی میں ترقی کے باعث طویل عرصہ تک چلتی رہیں۔
بنو امیہ نے فوج کی طرف بھر پور توجہ دی ، اس وقت مسلمان آسانی کے ساتھ دو لاکھ فوج بلکہ اس سے بھی زیادہ بیک وقت میدان جنگ میں لا سکتے تھے ، اسلحہ اور فوجی تنظیم بہت بہتر تھی ، اس زمانے کی بری و بحری قوت میں مسلمانوں کو غلبہ اور تفوق حاصل تھا ، شام ، مصر اور تیونس میں جہاز سازی کے کارخانے تھے جنہیں دار الصناعہ کہا جاتا تھا ، حکومت کے پا س ہر وقت ہزاروں جنگی جہازوں پر مشتمل بیڑہ تیار رہتاتھا ،مروجہ سائنسی علوم کی طرف بھرپور توجہ دی جاتی تھی ، مثلا ایک اموی شہزادہ خا لد بن یزید نے یونانیوں سے فلسفہ ، طب اور علم کیمیا کی تعلیم حاصل کی اور خود بھی علم کیمیا پر کتابیں لکھیں۔
بنو عباس بھی صنعتی اکتشافا ت میں بہت آگے بڑھے ہوئے تھے ، مشہور کیمیا دان جابر بن حٰان اسی دور میں تھے اسکے علاوہ متعدد وائنس دان و اھل فن مثلاموسی خوارزمی ، محمد بن زکریا رازی ،فارابی ، ابن ہیثم اور بوعلی سینا جیسی شخصیا ت اسی دور میں گزری ہیں ، جنہوں نے سائنسی اکتشافات اور فلسفیانہ نظریات میں حکومت کو اس وقت کی دنیا میں نمایا ں مقام دلایا۔
اسی طرح ترک جب میدان میں آئے تو اولا انہوں نے بھی وائنسی اکتشافات او جدید ہتھیاروں میں بہت ترقی کی جس کی بدولت وہ ایک تادیر حکومت کی بنیاد رکھ سکے۔ سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کیاتو اس کے لئے لمبا عرصہ تیاری کر تارہا ، اس کے زمانہ میں علم کی جتنی طاقت تھی اس سے کام لیتا رہا ، توپیں اس وقت نئی نئی ایجاد ہوئی تھیں ، اس نے کوشش کی کہ جتنی زبر دست اور بڑی توپیں بن سکتی ہیں بنائی جائیں، اس نے اس کے لئے ہنگری کے ایک انجینئر کی خدمات حاصل کیں جس نے اس کے لئے ایک ایسی توپ بنائی جو تین سو کلو وزن کا گولہ پھینکتی تھی اور اس کی مار ایک میل سے زیادہ تھی ، اس تو پ کو کھینچنے کے لئے سات سو آدمیوں کی ضرورت تھی اس کو بھرنے کے لئے دو گھنٹے چاہیے تھے ، اس وقت اس کی فوج میں تین لاکھ سپاہی، زبردست توپ خانہ اور بحری بیڑہ جو کہ ایک سو بیس کشتیوں پر مشتمل تھا۔
لیکن اس کے بعد ترکوں میں جمو د نے جگہ لے لی ، علم و صنعت میں ترکوں کی پسماندگی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ سولہویں صدی مسیحی سے پہلے ترکی میں جہاز سازی کی صنعت شروع ہی نہیں ہوئی تھی ، اٹھارہویں صدی میں ترکی پریس ، مطابع ، حفظان صحت کے مراکز اور فوجی تعلیم کے لئے جدید طرز کے مدارس سے روشنا س ہوا ، اور اس وقت تک ترکی نئی ایجادا ت اور ترقیوں سے اس قدر بیگانہ تھا کہ جب قسطنطنیہ کے باشندوں نے دارالسلطنت پر ایک غبارہ کو پرواز کرتے ہوئے دیکھاتو اس کو سحر یا کیمیکل کی کرشمہ سازی سمجھے۔
۱۷۳۷ ء میں استنبول میں اسلا می دنیا کا پہلا چھاپہ خانہ قائم ہو ا لیکن مفتی اعظم نے اس شرط پر قائم کر نے کی اجازت دی کہ اس میں قرآن کریم اور دینی کتابوں کی اشاعت نہ ہوگی ، کیونکہ مفتی صاحب کے خیال میں چھاپہ خانہ بنیادی طور پر ایک شیطانی مشین کی حیثیت رکھتاتھا ، اس مکمل دور زوال کو سلیم ثالث نے روکنے کی بہت کوشش کی ، اس نے تعلیم اور جدید سائنسی علوم کی طرف توجہ دی ، انجینئرنگ کالج قائم کیے جن میں وہ خود تعلیم دیتاتھا۔
اس نے جنگی فنون سے متعلق یورپی کتابوں کا ترکی زبان میں ترجمہ کیا اور فرانسیسی انجینئروں کی مدد سے توپ ڈھالنے کے جدید طرز کے کارخانے بھی قائم کئے ، سیاسی نظام میں بھی تبدیلیاں کی اورجاگیر دارانہ نظام کو ختم کیا ، اس وقت کے علماء نے ان سب اصلاحات کی مذہب کے نام پر مخالفت کی ، بالآ خر شیخ الا سلا م کے فتوے پر ۱۸۰۷ء میں سلطان سلیم کو معزول کر کے قتل کر ڈالا گیا۔
اس کے بعد ترکی نے ترقی کی طرف کچھ قد م اٹھائے لیکن مغربی دنیا کے مقابلے میں یہ بہت پیچھے تھے۔ مغل حکمرانوں نے بھی عمارتوں اور باغات کی طرف بہت توجہ دی لیکن سائنسی ترقی کے اعتبار سے یہ پورا دور مکمل طور پر ناقابل ذکرہے۔
حقیقت یہی ہے کہ ا نگریز وں اور اھل یورپ نے اسوقت تک جو ترقی کرلی تھی مسلمان اس کے عشر عشیر بھی نہ تھے ، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے مخلصانہ جذبات و کوششیں انگریزکے سامنے ناکام ہوتی گئیں ، سراج الدولہ کی ستر ہزار فوج کو انگریز کی صرف تین ہزار فوج نے عسکری تنظیم اور جدید ہتھیاروں کی بدولت شکست دی۔
اسی طرح ۵۷ ۱۸ ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کی وجہ بھی یہی تھی ، اور آج بھی ہماری حالت یہی ہے ان تین صد یوں میں ہم نے اپنے اندر کوئی تبدیلی پیدانہیں کی ہے ، آج بھی سوائے ملائیشیا کے کسی اسلامی ملک کی کوئی خاص صنعت نہیں ہے ، دفاعی اعتبار سے صرف پاکستان کے پاس نیو کلیئر ٹیکنالوجی موجود ہے ، ہوائی جہاز ، ٹینک ، توپ ، آب دوز ،بحری جہاز ، ریڈار ، بکتر بند گاڑیاں اور اس نوعیت کی دیگر تما م چیزوں کے لئے مسلمان دوسروں کے محتاج ہیں پچھلے کئی سو برس میں کسی مسلمان ملک میں کوئی نئی ایجاد نہیں ہوئی۔
تعلیم و تعلم میں پیچھے رہ جانا:
قوموں کی ترقی ، خوشحالی وفارغ البالی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان میں تعلیم عام ہو ، رسو ل اﷲ نے اپنے انقلاب کی بنیاد ایمان ، اخلاقیات کے ساتھ تعلیم پر بھی رکھی ، آپ کے دو رکا ہر فرد تعلیم یافتہ تھا۔ تعلیمی میدان میں مسلمان صدیوں تک دنیا سے ممتاز و فائق رہے ، ان کے تعلیمی ادارے دنیا بھر میں علم و عرفان کی روشنی پھیلاتے رہے ، بنو امیہ اور عباس بہت سی چیزوں میں گر چکے تھے لیکن تعلیم و تعلم کا نظام علمی شخصیات کے سبب ترقی یافتہ تھا۔
بنو امیہ کے دور حکومت میں اما م زین العابدین ، امام باقر ، جعفر صادق ، سعید بن المسیب ، عروہ بن زبیر ، حسن بصری ، مجاہد بن جبیر ،شعبی، قتادہ ،مکحول ، یزید بن حبیب ، حماد اور عیسی بن عمر جیسی علمی شخصیات اور اساطین علم نے امت کی علمی و فکری قیادت کا بیڑہ اٹھایا ہواتھا ، بنو عباس کے دور حکومت میں بھی بڑے بڑے صاحب علم و فن پیداہوئے جنہوں نے حکومتوں سے تعرض کئے بغیر معاشرے کی علمی تعمیر و ترقی میں اپنا عظیم کردار ادا کیا۔ فقہ کے ائمہ اربعہ امام ابو حنیفہ ، مالک ، شافعی اور احمد بن حنبل نے اپنے کارنامے اسی دور میں سر انجام دیے ، احادیث کے چھے بنیادی مجموعے اسی دور میں لکھے گئے ، موطااما م مالک اسی دور میں لکھی گئی۔
ابن ہشام نے سیرت النبی لکھی ، ابن سعد نے طبقات ابن سعد لکھی ، بلاذری نے فتو ح البلدان تحریر کی اور ابن جریر نے چودہ جلدوں پر مشتمل تاریخ اسلام لکھی ، اسی دور میں مشہور جغرافیہ دان مسعودی نے اپنی تحقیقات پیش کیں۔
ابو الحسن علی اشعری نے عقلی بنیادوں پر اسلامی نظریات کی صداقت ثابت کی،آٹھویں صدی ہجری تک مسلم اساطین علم اپنے علم و فن کی داد وصول کرتے رہے ،آٹھویں صدی کے بعد یہ سلسلہ بند ہوگیا ، اس کے بعد نویں صدی میں خال خال ایسی علمی شخصیات نظر آتی ہیں۔ دسویں صدی میں تو واضح طور پر افسردگی ، شدت ، نقالی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں ، اسکے بعد سینکڑوں ناموں میں سے ایک شخص کا ملنا مشکل ہوگا جس نے کسی موضوع پر کوئی نئی چیز پیش کی ہو ، ستم بالا یہ کہ انیسویں اور بیسویں صدی میں بھی اسلامی مدارس کا وہی رنگ رہا جو تیرہویں صدی میں تھا۔
ایک شبہ اور اسکا ازالہ :
یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ زوال کے تما م اسباب نہ صحیح اکثر تو یورپ اور امریکہ کی ترقی یافتہ اقوام میں بھی پائے جاتے ہیں تو ان پر زوال کیوں نہیں آرہا ، اس شبہ کا ایک حل تو یہ ہے کہ زوال اس طرح نہیں آتا کہ رات کو سوؤ اور صبح زوال آجائے۔
قوموں کے عروج و زوال کا دائرہ کا ر برسوں یا اس سے بھی بڑھ کر صدیوں پر محیط ہو تاہے، مسلمانوں کی مشہور سلطنتیں بنو عباس ، اندلس میں بنو امیہ ، ترکوں اور مغلوں وغیرہ میں ابتدائی ڈیڑھ دو سو سال کے بعد زوال کی علامات بہت حد تک پائی جا تی تھیں لیکن ان کے زوال اور دوسروں کے ان پر غلبہ میں مزید کئی صدیا ں گزر گئیں ، دوسرا حل یہ ہے کہ اس وقت تک کوئی ایسی طاقت ورقوم یا جماعت جو ان مغربی قوموں سے عقائد ونظریات کا اختلاف رکھتی ہو ، اور ان کے جاہلی فلسفہ اور مادی نطام زندگی کی مخالف ہو منظر عام پر نہیں ہے ، ایسی قوم یا جماعت اس وقت نہ یورپ میں پائی جاتی ہے ، نہ افریقہ اور ایشیا میں۔
یورپ کے جرمن ہوں ، یا ایشیا کے جاپانی یا ہندوستان کے باشندے سب اس جاہلی فلسفہ اور اس مادہ پرستانہ نظام حیات کے قائل و معتقدہیں ، یا ہوتے جارہے ہیں ،دوسرے لفظوں میں یورپ و امریکہ کی تہذیب سے دنیا بھر کی اقوا م اور مذاہب متاثر ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان سے اقتدار چھن جائے اور ان کو مل جائے۔
مسلمانوں کے لئے لائحہ عمل :
جاہلیت آج دنیا کو جس نقشہ پر چلارہی ہے اس کے خلاف اگر کوئی نقشہ ہے تو صرف مسلمانوں کے پاس ہے ، کیونکہ مسلمانوں کے پاس دینی سرمایہ اور آسمانی ہدایت و حکمت کا سر چشمہ محفوظ ہے ، اس لئے مسلمان اگر آج بھی بیدار ہوں اور اپنے فرض منصبی کو پہچانیں تو یہ ساری دنیا پر غلبہ پاسکتے ہیں اس کے لئے صرف چند کا م کرنے ہوں گے ، سب سے پہلے تو ایمان کی تجدید کرنا ہوگی اور اسی اعتقا د و یقین کو پیدا کرنا ہو گا جو صحابہ کی زندگیوں میں تھا۔ اس کے بعد روحانیت کی سطح کو بلند کر نے کی ضرور ت ہے کیونکہ مادیت میں سروپا ڈوبے ہوئے یورپ کا مقابلہ مادیت سے نہیں بلکہ اس چیز سے ہو گا جو اس کے پاس موجود نہیں ہے اور وہ روحانیت ہے۔
ایمان و روحانیت کے بعد ہمیں اپنے شعور کی تربیت بھی کرناہوگی ، مسلم ممالک بیداری اور شعور سے با لکل محروم ہیں ، ان کے شعور کی کمزوری ہے کہ خیر خواہ اور بد خواہ کے ساتھ ان کا معاملہ تقریبا یکساں ہے ، بلکہ بعض اوقات بد خواہ اور غیر مخلص اشخاص مسلمانوں میں زیادہ ہر دل عزیز اور معتمد بن جاتے ہیں۔
مسلمان آج غالب قوموں اور خود غرض رہنماؤں کا بازیچہ اطفال بنے ہوئے ہیں، آسانی کے ساتھ ان کا رخ ہر طرف مو ڑا جا سکتاہے ، حکومتیں ان کی مرضی کے خلاف فیصلے کر تی رہتی ہیں ا ور جس طرف چاہتی ہیں ایک لا ٹھی سے ہانک لے جا تی ہیں، ہمارے اندر سیاسی شعور کی ایسی پختگی ہونی چاہئے کہ ہم ہر خود غرض ، عیاش ، نااہل اور فضول خرچ حکمران کا احتساب کرسکیں۔
مزید برآں ہمیں علم ، صنعت و حرفت ، جدید ٹیکنالوجی اور جنگی نظام کو بھی اچھی طرح سمجھنا ہوگا تب کہیں ہمارے عروج اور مغرب کے زوال کا آغاز ہوگا ، ورنہ مغرب مغلوب تو ہو گا لیکن ہمارے ہاتھوں نہیں بلکہ کسی اور طاقت کے ذریعے۔