برکۃ العصر مولانا محمد زکریا کاندھلوی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
برکۃ العصر مولانا محمد زکریا کاندھلوی ﷬
مولانا مجیب الرحمن انقلابی
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی کا نام نامی اسم گرامی کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ متجر عالم دین وسیع النظرشیخ، بلند پایہ محقق اور علم حدیث میں اعلیٰ اور انفرادی شان رکھتے تھے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی عالم اسلام کی وہ عظیم علمی و روحانی شخصیت ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے لاکھوں لوگوں کو ہدایت کا ذریعہ بنایا، عرب وعجم اوریورپ وایشیاءمیں آپ کو یکساں محبوبیت و مقبولیت عطا فرمائی، مختلف علوم وفنون پر دعوتی، تبلیغی، اصلاحی علمی و تحقیقی عنوانات پر آپ کی تصنیفات و تالیفات 100 سے زائد ہیں جو اُردو عربی اور فارسی کے علاوہ دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوکر شائع ہوچکی ہیں۔ آپ کی شہرہ آفاق تصنیف فضائل اعمال کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقبولیت عطا فرمائی ہے جو کسی اورکتاب کو حاصل نہیں ہوسکی۔ پوری دنیا کے ہر ملک میں مختلف زبانوں میں لاکھوں کی تعداد میں شائع ہونے والی یہ کتاب انتہائی مقبول ہے، چوبیس گھنٹوں میں کوئی وقت ایسا نہیں گذرتا جس میں یہ کتاب دنیا میں کہیں نہ کہیں پڑھی اور سنی جارہی ہو اور اس کو اللہ تعالیٰ نے لاکھوں لوگوں کیلئے ہدایت اور نیکی پر چلنے کا ذریعہ بنایا۔ جس طرح حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی سینکڑوں تصنیفات کے باوجود ”بہشتی زیور“ ان کی پہچان اور ہر مسلم گھر کی ضرورت بن گئی۔
مفتی اعظم ہند حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ کی ”تعلیم الاسلام“ کتاب کو جس طرح مقبولیت ملی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی کو مایہ ناز تصنیف فضائل اعمال کے ذریعہ جو شہرت و عزت ،ر مقام اورمقبولیت و محبوبیت عطا فرمائی وہ کسی اور کتاب کو حاصل نہیں ہوسکی۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی 1898ءکو ہندوستان کے علاقہ کاندھلہ میں حضرت مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی کے ہاں پیدا ہوئے۔ حضرت مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی کا گھرانہ ان خوش قسمت خاندانوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مقبولیت و محبوبیت سے خواب نوازا تھا اس خاندان کی بنیاد کچھ ایسے صدق و اخلاص پر پڑی تھی کہ یکے بعد دیگرے، نسل در نسل اس خاندان میں علماء، فضلاء، اہل کمال و علم، مقبولین اور اللہ والے لوگ پیدا ہوتے چلے آرہے ہیں۔
جس تبلیغی جماعت کی آج سارے عالم میں صدائے باز گشت ہے اس کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی کے چچا اور مربی تھے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی کے8 سال کی عمر تک گنگوہ کی خانقاہ میں اپنے والدبزرگوار حضرت مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی سے پڑھیں اور بقیہ علوم وفنون اور حدیث کی کتابوں کی تکمیل مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری سے کیں، آپؒ کے دیگر اساتذہ کرام میں آپؒ کے چچا بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی، حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی اور حضرت مولانا عبداللطیف صاحب خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ علوم باطنی کی تکمیل قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے حاصل کی۔ یہاں تک کہ آپ اپنے وقت کے ایک بڑے محدث اور علوم باطنی کے بڑے مرشد بن گئے۔
19سال کی عمر میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی درس و تدریس میں مصروف ہوئے،26سال کی عمر میں بخاری شریف اور حدیث کی دیگر کتابوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا بھی سلسلہ شروع فرما دیا۔ شیخ الحدیث کا لافانی لقب آپ کو حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے عطا فرمایا تھا جو آپ کے نام کا قائم مقام بلکہ کتاب” فضائل اعمال “ کی طرح آپکی پہچان و شناخت بن گیا۔ آپ نے تقریباً50سال تک حدیث کی کتب پڑھائی ہیں۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی نے طویل عرصہ کے انہماک و مطالعہ سے جن کتابوں کو تصنیف و تالیف کیا ان میں سے ان کی انتہائی اہم کتاب ” اوجز المسالک شرح موطا لامام مالک“ ہے یہ کتاب6جلدوں میں پوری دنیا میں دیگر کتب کی طرح مسلسل شائع ہورہی ہے۔ یہ کتاب بھی ان کے علمی و دینی تصنیفی کارناموں کی دلیل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کے علم و قلم میں ایسی برکت اور وسعت و دیعت عطا فرمائی تھی کہ لاکھوں بندگان کی دینی تربیت و ذہن سازی اور ان کے اخلاق و عقائد کی صحت و درستگی آپ کے علم و قلم کے ذریعہ ہوتی چلی گئی۔ وفات سے چند سال قبل ہندوستان سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے جہاں شاہ فیصل شہیدنے آپ کو اعزاز واکرام کے ساتھ ٹھہرایا اور سعودی عرب کی شہریت بھی دی۔
آپ نے مہاجر مدنی بن کر وہیں قیام کیا اور پوری دنیا سے آنے والے مسلمانوں کی رہنمائی فرماتے رہے۔ یہی عشقِ نبوت کا آفتاب و ماہتاب اپنی جلوہ افروزی دکھا کر 1982ءمیں مدینہ منورہ کی مقدس سرزمین میں ہمیشہ کیلئے لاکھوں مسلمانوں کو جنت کا راستہ دکھانے کے بعد غروب ہوگیا، مدینہ منورہ کے جنت البقیع میں تدفین عمل میں آئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔