بنوری نسبتوں کا امین

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بنوری نسبتوں کا امین
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اُن پر کچھ لکھنے کے لیے میرا قلم ادب و عقیدت کے دَر سے الفاظ و احساسات کا کشکول بھر کے لایا تو تھا لیکن ان کی عظمت و شان کو دیکھ کر دلبرداشتہ سا ہوگیا کہ
؏ کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل
افسردگی؛قلب و جگر کے ساتھ ساتھ زبان و قلم پر بھی اپنے اثرات چھوڑ گئی بے کیف طبیعت سے جس بے ربط تحریر نے جنم لیا۔ ملاحظہ فرمائیں۔
مفتی احمد الرحمان رحمہ اللہ کی علمی ، عملی ، روحانی اور وجدانی زندگی اپنے عہد کی سربستہ تاریخ کو دامن میں لیے ہوئے ہے۔ ان کی حیات مستعار کا ہر گوشہ خاموش واعظ ہے۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت کے کس کس پہلو کا تذکرہ کیا جائے ؟ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ علم سے گہری دوستی ، عمل سے مضبوط رشتہ ، سلوک و احسان سے چولی دامن کا ساتھ ، ادب و شفقت کے خوگر ، حلم و بردباری حسن سلوک اور خلق عظیم کے پیکر تھے۔ کڑے حالات میں دین حق پر استقامت ، برے وقت میں شرافت و متانت ، دیانت و امانت اور جھوٹ کے ماحول میں حق و صداقت کے علمبردار تھے۔
میں سوچ رہا ہوں کہ اس کو ”مکتب کی کرامت“ لکھوں یا ”فیضانِ نظر“ سمجھوں ؟ آپ نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ خانوادہ ولایت کہلاتا ہے۔آپ کے والد مولانا عبدالرحمان کیمل پوری رحمہ اللہ بزمِ اشرف کے روشن چراغ تھے۔حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ نے آپ کے والد کو ”کیمل پوری“ کے بجائے” کامل پوری“ کا لقب عنایت فرمایا۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے اپنی چشم بصیرت سے ان میں خداداد صلاحیتوں کا مشاہدہ فرمایا تو بطور خاص ان کو اپنی تربیت میں لے لیا تاکہ اس گوہر نایاب کو مزید نکھار کر دین کی خدمت میں لگا دیا جائے۔ مفتی احمد الرحمان رحمہ اللہ کے قلب سلیم میں جب حضرت بنوری رحمہ اللہ کی روحانی قوتوں نے حلول کیا تو سونے پہ سہاگہ کا منظر پیدا ہو گیا۔ حضرت بنوری رحمہ اللہ نے آپ کو خلعت خلافت سے سرفرازبھی فرمایا اور علم وفضل کے اس بے تاج بادشاہ کو اپنی لختِ جگر کا سرتاج بھی بنایا۔خونی رشتوں کے تقدس کو سمجھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ سسر داماد میں باپ بیٹے کا پیار ہوتا ہے۔ حضرت بنوری رحمہ اللہ نے اپنی زندگی میں آپ کو جامعہ علوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے شعبہ تعلیمات کے انتظامی امور کا مسؤول مقرر کیا۔ حضرت بنوری کی وفات کے بعد شوریٰ نے آپ کو منصب اہتمام کے لیے چنا اس میدان میں بھی آپ نے خوب محنت اور امانت و دیانت کا مظاہرہ کیا۔ جامعہ کے معاملات کو حساب و احتساب کی پٹڑی پر چلایا۔ آپ کے دور اہتمام میں آپ کی محنت سے جامعہ کی کئی شاخیں وجود میں آئیں۔
میں اپنی زندگی میں جن شخصیات کے علم و فضل اور جوانمردی سے متاثر ہوا وہ بہت کم ہیں ، انہی میں ایک سنہرا نام مفتی احمد الرحمان کا بھی ہے۔ پہلی بار ملاقات ہوئی : اونچا قد، کشادہ پیشانی ، وجاہت و جلالت سے پررونق چہرہ ، بارعب صورت ، نرم گفتار ،شیریں لب ولہجہ ،سادہ وضع قطع ، حساس و نازک مزاج ، غیور طبیعت، دل موہ لینے والی پر تاثیر زبان ، انس و محبت سے لبریز دل اور عمدہ خیالات کے حامل ذہن کے مالک تھے۔ آپ کا کلام عالمانہ ، ڈانٹ مشفقانہ اور انداز کریمانہ تھا۔
میری طالبعلمانہ زندگی طفولیت سے جوانی کا سفر طے کر رہی تھی۔ جس سال میں درجہ ثالثہ میں تھا اس سال کی بات ہے کہ محرم کے دنوں میں روافض کا ٹولہ بنوری ٹاؤن کے سامنے سے جلوس نکالنے کے لیے آیا۔ اول مفتی احمد الرحمان مرحوم نے جامعہ کے طلبہ کو سختی سے باہر نہ نکلنے کا پابند کیا پھر بنفس نفیس خود روڈ پر آئے اور فرمانے لگے کہ ہم یہاں سے جلوس نہیں نکلنے دیں گے۔ ان سے کہا گیا کہ آپ راستے سے ہٹ جائیں ورنہ گولی مار دیں گے۔ حضرت نے شیر کی طرح گرج کر کہا کہ گولی مارنی ہے تو مارو لیکن جلوس کو کسی قیمت یہاں نے نہیں نکلنے دوں گا۔ چنانچہ اس حق گوئی اور جرات ایمانی کی پاداش میں حضرت کو گرفتار کر لیاگیا۔ حضرت کی صحبت کی برکت سے اگرچہ میں کسی بھی تحریک کا باضابطہ کارکن نہیں تھا لیکن میرا تحریکی مزاج ضرور تھا۔ گرفتاری کے دوسرے دن میں حضرت سے ملنےکے لیے جیل میں بھی گیا۔
آپ کی زندگی جُہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ احقاقِ حق اور ابطال ِ باطل کے فریضے کو آپ نے صرف ادا ہی نہیں کیا بلکہ ادا کرنے کا حق ادا کر دیا۔ درس و تدریس ، فتویٰ نویسی ، وعظ و تلقین ، ذکر و شغل ، بیعت و ارشاد اور جرات مندانہ سماجی و سیاسی کاوشیں ان کی زندگی کے تابندہ ابواب ہیں۔
21 جنوری 1991ء پیر کے روز قسام اجل کی ہتھیلی پر ہزاروں بے قرار و بے کار روحیں مرغ بسمل کی مانند تڑپ رہی تھیں جبکہ چند ارواح راضیۃ مرضیۃ کا توشہ اور لاخوف علیہم ولا ھم یحزنون کا پروانہ لیے عازم سفر ہوا چاہتی تھیں، انہی میں حضرت مفتی احمد الرحمان رحمہ اللہ کی روح زبان حال سے فزت ورب الکعبۃ کا نعرۂمستانہ لگا کر فلک کا سینہ چاک کر گئی۔
ان للہ ما اخد ولہ ما اعطی وکل شیئی عندہ باجل مسمیٰ۔۔
حضرت بنوری کی علمی آماجگاہ ، روحانی فیض گاہ اور فکری تربیت گاہ کے پہلو میں جا کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ قبریں جاگ رہی ہیں اور مسافر سو رہے ہیں۔