عربی خطبۂِ جمعہ مقامی زبان میں…علمی وتحقیقی تجزیہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر8:
……الشیخ محمد نواز الحذیفی ﷾
عربی خطبۂِ جمعہ مقامی زبان میں…علمی وتحقیقی تجزیہ
ساتویں وجہ:
اس سے تو یہ لازم آئے گا کہ خطیب کے لیے تمام زبانوں کا ماہر ہونا شرط ہو، حالانکہ یہ شرط درست نہیں:
بسا اوقات ایسے بھی ہوتا ہے کہ کسی علاقے میں خطبۂ جمعہ کو سننے والے حضرات کئی زبانوں سے تعلق رکھتے ہیں مثلا مسجد حرام اور مسجد نبوی میں جمعہ کی نماز پڑھنے والے حضرات مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی زبانیں بھی مختلف ہوتی ہیں، وہ بچارے چند دن کے لیے عمرہ یا حج کی غرض سے آئے ہوئے ہوتے ہیں۔
اور اس کے علاوہ تقریبا تمام عرب ممالک میں لوگ کام کاج کی غرض سے دوسرے غیر عربی ممالک سے آتے ہیں ان کو بھی کافی عرصہ تک عربی زبان سے واقفیت نہیں ہوتی، اب عرب ممالک کے خطیب حضرات خطبۂ جمعہ کے ترجمہ کی کیا صورت ہوگی؟ وہ کس کس مخاطب کے لحاظ سے ترجمہ کریں گے؟
اگر یہ کہا جائے کہ سب سامعین کی زبان میں ترجمہ ہونا چاہیے اول تو یہ ممکن اس لیے نہیں کہ اس سے لازم آئے گا کہ خطیب کے لیے تمام عجمی زبانوں سے واقف ہونا شرط ہو، حالانکہ اسلاف نے آج تک خطیب کے لیے یہ شرط عائد نہیں کی کہ وہ تمام عجمی زبانوں سے واقف ہو؟
لہذا یہ شرط لگانا باطل ہے، اور اگر کہو کہ خطیب کے لیے سب زبانوں کا ماہر ہونا شرط نہیں تو پھر دوسری زبانوں والوں کی کیا رعایت ہوئی؟
بالفرض اگر یہ شرط درست بھی ہو اور کوئی خطیب ایسا بھی ہوجو تمام زبانوں سے واقف ہو تو جب وہ سامعین کی سب زبانوں میں ترجمہ کرنے بیٹھے گا تو اس کے لیے لمبا وقت درکار ہوگا، نتیجہ یہ کہ خطبۂجمعہ کے ترجمے کرتے کرتے یہی جمعہ کا وقت ختم ہوجائے گا اور اگر وقت نہ بھی ختم ہو تو پھر بھی خطبہ نماز سے لمبا ہو جائے گا جو کہ خود ایک خلاف سنت فعل ہے؟ لہذا ضروری ہے کہ خطبہ جمعہ عربی زبان میں ہی ہو۔
آٹھویں وجہ:
خطبہ جمعہ کے ترجمہ کے ناجائز ہونے کی آٹھویں وجہ یہ ہے کہ خطبہ جمعہ بعض باتوں میں نماز کے مشابہ ہے مثلا:
1: سورۃ جمعہ کی آیت نمبر9 فاسعوا الی ذکر اللہ سے مراد جمعہ کا خطبہ اور نماز دونوں ہیں جیسا کہ مفسرین کی عبارت پہلے نقل کی جاچکی ہیں تو جب ذکر کی ایک قسم نماز کا ترجمہ نماز میں نہیں ہوسکتا تو ذکر کی دوسری قسم خطبہ کا ترجمہ کیسے ہوسکے گا؟
2: نماز میں ثناء ہے تو خطبہ میں بھی ثناء موجود ہے۔
3: نماز میں درود شریف ہے تو خطبہ میں بھی درود موجود ہے۔
4: نماز میں قران کریم کی قرات ہے تو خطبہ میں بھی قرات موجود ہے۔
5: نماز اگر بلا وجہ بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں تو خطبہ بھی بیٹھ کر دینا درست نہیں۔
6: نماز میں قران کریم کی قرات کو اگر توجہ سے سننے کا حکم ہے تو خطبہ جمعہ کو بھی توجہ سے سننے کا حکم ہے، اس میں کسی قسم کی گفتگو جائز نہیں، چنانچہ روایات میں آتا ہے:
1: عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَنْصِتْ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ۔
)صحیح بخاری باب الانصات یوم الجمعۃ والامام یخطب(
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن جب امام کے خطبہ دے رہا ہو اس وقت اگر تو نے اپنے ساتھی کو کہا چپ ہوجا !تو تو نے فضول کام کیا۔
2: عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ تَبَارَكَ وَهُوَ قَائِمٌ فَذَكَّرَنَا بِأَيَّامِ اللَّهِ وَأَبُو الدَّرْدَاءِ أَوْ أَبُو ذَرٍّ يَغْمِزُنِي فَقَالَ مَتَى أُنْزِلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ إِنِّي لَمْ أَسْمَعْهَا إِلَّا الْآنَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ أَنْ اسْكُتْ فَلَمَّا انْصَرَفُوا قَالَ سَأَلْتُكَ مَتَى أُنْزِلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ فَلَمْ تُخْبِرْنِي فَقَالَ أُبَيٌّ لَيْسَ لَكَ مِنْ صَلَاتِكَ الْيَوْمَ إِلَّا مَا لَغَوْتَ فَذَهَبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ وَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي قَالَ أُبَيٌّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَ أُبَيٌّ.
)سنن ابن ماجہ باب ماجاء فی الاستماع للخطبۃ والانصات لہا(
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن سورۃ تبارک پڑھی اس حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے، سو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اللہ کے ایام یاد دلائے اور حضرت ابو الدرداء یا حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے مجھے کچھ مکا مارا اور کہا کہ یہ سورت کب اتری تھی میں نے اس سے پہلے اس کو نہیں سنا اور انہوں نے ان کو چپ رہنے کا اشارہ کیا پھر جب لوگ چلے گئے۔
انہوں نے کہا میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ یہ سورت کب اتری لیکن آپ نے مجھے نہ بتایا اس پر حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہیں آج جمعے سے بجز تمہاری فضول کام کے کچھ حاصل نہ ہوا پھر وہ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے اور اس سارے واقعے کو حضرت ابی رضی اللہ عنہ کی بات سمیت بیان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابی نے سچ کہا۔
3: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْه وَسَلَّمَ : مَنْ تَكَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ فَهُوَ كَالْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ، وَالَّذِي يَقُولُ لَهُ أَنْصِتْ لَيْسَتْ لَهُ جُمُعَةٌ.
)المصنف ابن ابی شیبہ فی الکلام اذا صعد الامام المنبر وخطب (
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ دیتے وقت بات کی وہ اس گدھے کی مانند ہے کہ جس پر کتابوں کا بوجھ لادا ہوا ہو۔ اور جس نے اس کو خاموش ہونے کے لیے کہا اس کا جمعہ نہیں۔
4: عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، قَالَ : قدِمْنَا الْمَدِينَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ، فَأَمَرْتُ أَصْحَابِي أَنْ يَرْتَحِلُوا ، ثُمَّ أَتَيْتُ الْمَسْجِدَ ، فَجَلَسْتُ قَرِيبًا مِنَ ابْنِ عُمَرَ ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِي ، فَجَعَلَ يُحَدِّثُنِي وَالإِمَامُ يَخْطُبُ ، فَعلْنَا كَذَا وَكَذَا ، فَلَمَّا أَكْثَرَ قُلْتُ لَهُ : اُسْكُتْ ، فَلَمَّا قَضَيْنَا الصَّلاَة ذَكَرْتُ ذَلِكَ لاِبْنِ عُمَرَ ، فَقَالَ : أَمَّا أَنْتَ فَلاَ جُمُعَةَ لَكَ ، وَأَمَّا صَاحِبُك فَحِمَارٌ.
) المصنف ابن ابی شیبہ ج2ص34 (
حضرت علقمہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں ہم جمعہ کے دن مدینہ آئے، اور میں نے اپنے ساتھیوں کو سواریوں سے اتر کر آنے کا حکم دیا پھر خود مسجد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے قریب آکر بیٹھ گیا، پھر میرے ساتھیوں میں سے ایک آدمی آیا اور مجھ سے باتیں کرنے لگا اور امام اس وقت خطبہ دے رہا تھا، سو ہم نے ایسے ایسے کہا پھر جب آواز باتوں کی وجہ سے بہت ہوگئی تو میں نے اس کو کہا چپ ہوجاؤ، اور جب ہم نماز پوری کر چکے تو میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس اس کا تذکرہ کیا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کے جواب میں فرمایا: تیرا تو جمعہ نہیں ہوا، اور رہا تیرا ساتھی تو وہ گدھا ہے۔
5: عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ سَعْدٌ لِرَجُلٍ يَوْمَ الْجُمُعَةِ : لاَ صَلاَةَ لَكَ ، قَالَ : فَذَكَرَ ذَلِكَ الرَّجُلُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْه وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ ، إِنَّ سَعْدًا قَالَ : لاَ صَلاَةَ لَكَ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْه وَسَلَّمَ : لِمَ يَا سَعْدُ ؟ قَالَ : إِنَّهُ تَكَلَّمَ وَأَنْتَ تَخْطُبُ ، فَقَالَ : صَدَقَ سَعْدٌ.
)المصنف ابن ابی شیبہ ج2ص34 (
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن ایک آدمی سے کہا تیری نماز نہیں ہوئی، حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس آدمی نے اس بات کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کے پاس کیا اور کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سعد کہتے ہیں کہ تیری نماز نہیں ہوئی۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد سے پوچھا کہ اس کی نماز کیوں نہ ہوئی؟ اس پر حضرت سعد نے فرمایا: کہ یہ آپ کے خطبہ کے دوران باتیں کررہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: سعد نے سچ کہا۔
6: عن عطاء الخرساني قال قال النبي صلى الله عليه و سلم إذا قال صہ فقد لغا وإذا لغا فقد قطع جمعته.
) المصنف عبدالرزاق باب مایقطع الجمعۃ(
حضرت عطاء خراسانی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اس نے کسی کو کہا: چپ ہوجاؤ تو اس نے فضول کام کیا اور جس نے فضول کام کیا اس کا جمعہ ختم ہوجاتا ہے۔
7: عن علی رضی اللہ عنہ فی حدیث لہ۔۔۔۔۔ قال من دنا من الامام فلغا ولم یسمع ولم ینصت کان علیہ کفل من الوزر ومن قال صہ فقد لغا ومن لغا فلا جمعۃ لہ ثم قال ھکذا سمعت نبیکم صلی اللہ علیہ وسلم .
)رواہ احمد وابوداود (
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث میں ہے انہوں نے فرمایا: جو کوئی امام کے پاس بیٹھے پھر خاموشی سے خطبہ نہ سنے اور بے ہودہ بات کرے تو اس پر گناہ کا بوجھ ہے اور اگر کوئی کسی سے کہے خاموش ہوجاؤ تو اس نے بے ہودگی کی اور بے ہودگی کرنے والے کا جمعہ نہیں، میں نے تمہارے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا ہے۔
)منتقی الاخبار للشیخ عبدالسلام ابن تیمیہ مترجم مطبوعہ دار الدعوۃ السلفیہ لاہور (
غور فرمائیں کہ خطبہ جمعہ کے دوران بات کرنے والے کو گدھا اور اس کو چپ کرانے والے کو کہا گیا اس کا جمعہ ہی نہ ہوگا، حالانکہ عام وعظ میں کوئی بات کرے یا دوسرا اس کو خاموش کرائے تو اس قدر سختی اور وعید کسی حدیث میں وارد نہیں ہوئی اس سے بھی ثابت ہوا کہ خطبہ جمعہ کو نماز کے ساتھ مشابہت ہےا ور اس کی حیثیت محض وعظ و نصیحت کی نہیں ہے۔
7: خطبہ جمعہ کی اسی اہمیت کی وجہ سے بعض حضرات نے اس کو دو رکعت کے قائم مقام قرار دیا ہے اور اس کے فوت ہونے کی وجہ سے چار رکعت پڑھنے کے موقف کو اختیار کیا ہے کچھ روایات ملاحظہ فرمائیں :
1: عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ قَالَ : إِنَّمَا جُعِلَتِ الْخُطْبَةُ مَكَانَ الرَّكْعَتَيْنِ ، فَإِنْ لَمْ يُدْرِكَ الْخُطْبَةَ فَلْيُصَلِّ أَرْبَعًا.
) المصنف ابن ابی شیبہ الرجل تفوتہ الخطبۃ (
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خطبہ دو رکعت کی جگہ رکھا گیا ہے جو کوئی خطبہ کو نہ پائے وہ چار رکعت پڑھے۔
2: عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ : كَانَتِ الْجُمُعَةُ أَرْبَعًا ، فَجُعِلَتْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ أَجْلِ الْخُطْبَةِ ، فَمَنْ فَاتَتْهُ الْخُطْبَةُ فَلْيُصَلِّ أَرْبَعًا.
) المصنف ابن ابی شیبہ ج2ص37 (
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جمعہ کی چار رکعت تھیں، اور دو رکعت خطبہ کی وجہ سے کم ہوگئیں سو جس کا خطبہ فوت ہوجائے تو وہ چار رکعت پڑھے۔
3: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُوْد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، قَالَ: مَنْ أَدْرَكَ الْخُطْبَةَ فَالْجُمُعَةُ رَكْعَتَانِ، وَمَنْ لَمْ يُدْرِكْهَا فَلْيُصَلِّ أَرْبَعًا، وَمَنْ لَمْ يُدْرِكِ الرَّكْعَةَ فَلا يَعْتَمِدُ بِالسَّجْدَةِ حَتَّى يُدْرِكَ الرَّكْعَةَ
. )الطبرانی فی الکبیر کذا فی مجمع الزوائد ج1ص218 (
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس نے خطبہ پالیا اس کے لیے جمعہ دو رکعتیں ہیں اور جس کو خطبہ نہ ملا وہ چار پڑھے اور جو نماز میں بعد میں شریک ہو وہ اس رکعت کو شمار نہ کرے جس میں وہ ملا ہے جب تک اسے اس رکعت کا رکوع نہ مل جائے۔
4: عَنْ عَطَاءٍ؛ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ : إِذَا لَمْ يُدْرِكِ الْخُطْبَةَ فَلْيُصَلِّ أَرْبَعًا.
)المصنف ابن ابی شیبہ ج2ص36(
حضرت عطاء تابعی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ جب جمعہ پڑھنے والا خطبہ نہ پائے تو چار رکعت پڑھے۔
5: عَنْ عَطَاءٍ ، وَطَاوُوسٍ ، وَمُجَاهِدٍ؛ قَالُوا : إِذَا فَاتَتْهُ الْخُطْبَةُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ صَلَّى أَرْبَعًا.
)المصنف ابن ابی شیبہ ج2ص36(
حضرت عطاء، حضرت طاوس، اور حضرت مجاہد رحمہم اللہ نے فرمایا جب آدمی کا خطبہ جمعہ کے دن فوت ہوجائے تو وہ چار رکعت پڑھے۔
6: عَنْ مَكْحُولٍ ، قَالَ : إِذَا فَاتَتْهُ الْخُطْبَةُ صَلَّى أَرْبَعًا.)ایضاً(
حضرت مکحول رحمہ اللہ نے فرمایا: جب اس کا خطبہ فوت ہوجائے تو وہ چار رکعت پڑھے۔
مذکورہ روایات سے ثابت ہوا کہ خطبہ جمعہ نماز جمعہ کے لیے شرط ہے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ واضح لفظوں میں فرمارہے ہیں کہ خطبہ جمعہ دو رکعت کے قائم مقام ہے اور دیگر حضرات نے بھی فرمایا کہ جس کو خطبہ جمعہ نہ ملے وہ چار رکعت پڑھے ان روایات کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جس کو خطبہ پڑھنے والا امام نہ ملے یا امام نے خطبہ ہی نہ پڑھا ہو تو وہ چار رکعت پڑھے گویا خطبہ کو حقیقتاًیا حکماً نہ پانا چار رکعت کی ادائیگی اور وجوب کا سبب ہے کیونکہ اگر امام نے خطبہ پالیا جیسے کسی نے امام کی قرات نہیں پائی مگر رکوع پالیا تو اس نے قرات پالی، اس بات کی تائید ان روایات سے بھی ہوتی ہے کہ جن میں آیا ہے کہ جس نے جمعہ کی ایک رکعت پالی تو اس نے جمعہ پالیا، ظاہر ہے کہ جس نے ایک رکعت نہیں پائی خطبہ تو اس نے بدرجہ اولیٰ نہیں پایا۔
لہذا ان روایات کا مطلب یہی ہوا کہ جس کو خطبہ پڑھنے والا امام نہ ملے یا وہ خطبہ نہ پڑھے تو جمعہ نہیں پڑھے گا بلکہ ظہر کی چار رکعت پڑھے گا۔
بہر کیف! ان روایات سے واضح الفاظ میں خطبہ جمعہ کی نماز کے ساتھ مشابہت معلوم ہوتی ہے۔ اور جب نماز کے دوران نماز کا غیر عربی میں ترجمہ درست نہیں ہے تو خطبہ جمعہ کا ترجمہ خطبہ کے دوران کیسے درست ہوگا؟ ………) جاری ہے (