مسئلہ تقلید

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مسئلہ تقلید
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
ابتدائیہ:
1: شریعت کے دو اجزاء ہیں؛ (1) عقائد (2) مسائل
عقائد میں بنیادی عقیدہ ”توحید“ ہے جبکہ مسائل میں بنیادی مسئلہ ”تقلید“ ہے۔
2: سورۃ الفاتحہ ام الکتاب یعنی قرآن مجید کا خلاصہ ہے۔ اس میں بنیادی دو مسئلے ہیں، آدھی میں توحید اور آدھی میں تقلید۔
مسئلہ تقلید کو سمجھنے کیلئے چارچیزوں کاسمجھنا ضروری ہے:
نمبر1: تعریف تقلید
نمبر2:دلائل تقلید
نمبر3:تقلیدپر ہونے والے شبہات کے جوابات
نمبر4:ترک تقلید کے نقصانات
فائدہ: تقلید کی اہمیت
اہمیت نمبر1: تمام اختلافی مسائل کی بنیاد تقلید اور ترک تقلید ہے۔ اگریہ حل ہوجائیں تو تمام مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اہمیت نمبر2: اگرتقلید(بڑوں پر اعتماد)والا مزاج بن جائے تو امت میں اتحاد ہوسکتاہے۔
اہمیت نمبر3: اس دور میں منکرین تقلید نے تقلید کو عقیدہ کی حیثیت دی ہے، مقلدین پر کفر وشرک کے فتوے لگائے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس مسئلہ میں تیاری عقیدے کی حیثیت سے کرنی چاہیے۔
واقعہ شیخوپورہ : ایک بچہ جس نے اپنی ممانی غیر مقلدن سے مناظرہ کیا کہ تقلید ایمان ہے یا شرک؟ اگر ایمان ہے تو تمہارا نظریہ ختم ،اگر شرک ہے تو میرے ماموں سے نکاح ختم ،کیونکہ وہ مقلد ہے۔
ان تین اہمیتوں کی وجہ سے سب سے پہلے مسئلہ تقلید کوذکر کرناچاہیے۔
نمبر۱: تعریف تقلید
تقلید کا لغوی معنی:
1: القلادۃ التی فی العنق... ومنہ التقلید فی الدین.
(مختار الصحاح لمحمد بن ابی بکر الرازی ص560)
2:التقلید لغۃً جعل القلادۃ فی العنق.
(کشاف اصطلاحات الفنون ج2ص1178)
فائدہ:
قلادہ کامعنی ”پٹہ“ بھی ہے اور” ہار“ بھی۔
1: قلادہ بمعنی ”پٹہ“
قَالَتْ عَمْرَةُ فَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا... أَنَا فَتَلْتُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيَّ ثُمَّ قَلَّدَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْهِ.
(صحیح البخاری ج1ص230 باب من قلد القلائد بیدہ)
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كُنْتُ أَفْتِلُ قَلَائِدَ الْغَنَمِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم الحدیث.
(صحیح البخاری :ج1 ص230 باب تقلید الغنم)
2: قلادہ بمعنی ”ہار “
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ هَلَكَتْ قِلَادَةٌ لِأَسْمَاءَ فَبَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَلَبِهَا رِجَالًا فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ وَلَيْسُوا عَلَى وُضُوءٍ وَلَمْ يَجِدُوا مَاءً فَصَلَّوْا وَهُمْ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ زَادَ ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ.
(صحیح البخاری: ج2 ص874 باب استعارۃ القلائد)
ان میں سے پہلی دوروایتوں میں قلادہ ”پٹہ“ کے معنی میں اور آخر ی روایت میں ”ہار“ کے معنی میں استعمال ہواہے۔لہٰذا اس کامعنی صرف پٹہ کرنا دجل اوربددیانتی ہے۔ حجۃ اللہ فی الارض ریئس المناظرین حضرت مولانا محمد امین صفدر اکاڑوی نور اللہ مرقدہ فرماتےتھے کہ تقلید ”قلادہ“ سے ہے۔ اگرجانورکے گلے میں ہو تو”پٹہ“ اور اگر انسان کے گلے میں ہو تو ”ہار “کہلاتاہے۔ اب جانور جانور وں والا معنی کرتے ہیں اور انسان انسانوں والا۔ع پسند اپنی اپنی نظر اپنی اپنی
فائدہ نمبر 1:
اگرتقلید کامعنی ”پٹہ“ہی لیاجائے تو لفظ ِتقلید باب تفعیل سے ہے جو کہ متعدی ہے، جس کا معنی ہے”پٹہ ڈالنا“ اور پٹہ آدمی ہمیشہ دوسرے کے گلے میں ڈالتاہے، اپنے گلے میں کبھی نہیں ڈالتا۔ تو ہم مقلد غیر مقلدین کے گلے میں پٹہ ڈالنے والے ہیں اور ہار بندہ کبھی دوسرے کے گلے میں ڈالتاہے اور کبھی اپنے گلے میں۔
عرف عام میں انسان کے اوصاف کو بیان کرنے کیلئے کسی جانور سے تشبیہ دی جاتی ہے؛بہادر کو شیر ،تیز کو چیتا، سست کو گینڈا، سست رفتار کو کچھوا،تیز رفتار اور اچھلنے والے کو خرگوش ،چالاک کو لومڑی ، بزدل کو گیڈر اور بے وقوف کو گدھاکہتے ہیں۔ غیر مقلدین بے وقوف یعنی گدھے ہیں۔
وجہ تشبیہ: قرآن کریم میں ہے :
الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُون
( المؤمنون: 2)
اس کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ما فرماتے ہیں:
مخبتون متواضعون لایلتفتون یمیناًولاشمالاًولایرفعون ایدیھم فی الصلوٰۃ
(تفسیر ابن عباس: ص212)
یعنی نماز میں رفع یدین کرنا خشوع کے خلاف ہے اور دوسری آیت میں ہے :
وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِيْنَ
(البقرہ :45)
نماز خاشعین کے علاوہ دوسرے لوگوں پر بھاری ہے۔
(1): گدھے کی ٹانگیں ٹھیک ہوتی ہیں ، جب پیٹھ پر وزن آئے تو ٹانگیں چوڑی ہوجاتی ہیں اور کھل جاتی ہیں۔غیر مقلدین کی ٹانگیں ٹھیک ہوتی ہیں لیکن جب رفع الیدین والی نماز کا بوجھ آتاہے توٹانگیں کھل جاتی ہیں۔
(2): گدھے کی پشت پر پانچ من گندم لادوتو وہ اٹھالےگا لیکن اگر سرپر ایک چھوٹاساکپڑا رکھ دو توفوراًسر جھٹک کرگرادےگا۔غیر مقلد چارپانچ کپڑے جسم پر اٹھالےگا مگر سر پر ایک چھوٹی سی ٹوپی بھی نہ رکھے گا۔
فائدہ نمبر 2:
غیر مقلد ”قلادہ“ کے ایک معنی پر زور دیتا ہے، دوسرا معنی جہالت کی وجہ سے جانتا نہیں یا ضد کی وجہ سے مانتا نہیں۔ بالکل اسی طرح منکر حیات النبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی موت کے ایک ہی معنی ”خروج روح“ پر زور دیتا ہے دوسرا معنی ”حبس روح“ والا جہالت کی وجہ سے جانتا نہیں یا ضد کی وجہ سے مانتا نہیں اور مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ دونوں معنی جانتے بھی ہیں اور مانتے بھی ہیں۔ موت کا معنی قبض ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِينَ شَاءَ (صحیح البخاری: رقم الحدیث 595) اور قبض کی دو صورتیں ہیں؛ (1) حبس اور (2) خروج، نبی کے لیے ”حبس روح“ اور امتی کے لیے ”خروج روح“۔
تقلیدکااصطلاحی معنیٰ:
1:التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیۃ من غیر نظر الی الدلیل کاَنَّ ہذا المتَّبِعَ جعل قولَ الغیر او فعلَہ قلادۃً فی عنقہ من غیرِ مطالبۃِ دلیل.
(کشاف اصطلاحات الفنون ج2ص1178،التعاریف للمناوی ص199)
2:حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:
تقلید کہتے ہیں کسی کا قول محض اس حسن ظن پر مان لینا کہ یہ دلیل کے موافق بتلا دے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔
(الاقتصاد از حضرت تھانوی رحمہ اللہ ص10)
3:متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ تقلید کا معنی یہ بیان فرماتے ہیں:
مسائل اجتہادیہ میں غیرمجتہد کا ایسے مجتہد کے مفتیٰ بہ مسائل کو بلامطالبہ دلیل مان لینا جس کا مجتہد ہونا دلیل شرعی سے ثابت ہو اور اس کا مذہب اصولاً وفروعاً مدون ہوکر مقلد کے پاس تواتر کے ساتھ پہنچا ہو۔
فوائدقیود:
نمبر1 : مسائل شرعیہ دوقسم کے ہیں :
(1): واضح ، (2): غیرواضح (اجتہادی)
غیرواضح کی کئی ا قسام ہیں:
قسم نمبر1 :غیرمنصوصہ
مثال نمبر 1: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.
(المائدہ: 90)
یہاں شراب منصوص ہے اوربھنگ غیر منصوص۔
مثال نمبر 2: مکھی کھانے میں گرجائے توکیاکریں؟ یہ حدیث میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْمِسْهُ كُلَّهُ ثُمَّ لِيَطْرَحْهُ فَإِنَّ فِي أَحَدِ جَنَاحَيْهِ شِفَاءً وَفِي الْآخَرِ دَاءً.
(صحیح البخاری: کتاب الطب بَاب إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي الْإِنَاءِج2 ص860)
لیکن اگرمچھر وغیرہ گرجائے تو اس کاحکم مذکور نہیں ،لہذا مچھر کا حکم یہاں غیر منصوص ہے۔
قسم نمبر2:منصوصہ متعارضہ
مثال نمبر1: بیوہ کی عدت
1: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا
(البقرۃ: 234)
2: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ
(البقرۃ: 240)
مثال نمبر2:مسئلہ آمین
1: عن وائل بن حجر قال : سمعت النبي صلى الله عليه و سلم قرأ ( غير المغضوب عليهم ولا الضالين ) فقال آمين ومد بها صوته.
(جامع الترمذی:ج1 ص57 باب ماجاء فی التامین)
2: عن علقمة بن وائل عن أبيه أن النبي صلى الله عليه و سلم قرأ ( غير المغضوب عليهم ولا الضالين ) فقال آمين وخفض بها صوته.
(جامع الترمذی : ج 1ص58 باب ماجاء فی التامین )
قسم نمبر 3: مسائل منصوصہ مجملہ
مثال نمبر1:
یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ الآیۃ.
(المائدۃ: 6)
مثال نمبر2:
عن ابن مسعود : أن النبي صلى الله عليه و سلم قال إذا ركع أحدكم فقال في ركوعه سبحان ربي العظيم ثلاث مرات فقد تم ركوعه وذلك أدناه وإذا سجد فقال في سجوده سبحان ربي الأعلى ثلاث مرات فقد تم سجوده وذلك أدناه.
(جامع الترمذی: ج1 ص60 باب ماجاء فی التسبیح فی الرکو ع والسجود)
قسم نمبر4: مسائل منصوصہ محتملۃ المعانی
مثال نمبر1 : معنی قروء
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوء.
(البقرۃ: 228)
مثال نمبر 2:
عن ابن عباس قال كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن الخطاب إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة فلو أمضيناه عليهم فأمضاه عليهم.
(صحیح مسلم ج 1ص477 باب طلاق الثلاث)
قال النووی: فالأصح أن معناه أنه كان في أول الأمر اذا قال لها أنت طالق أنت طالق أنت طالق ولم ينو تأكيداً ولا استئنافاً يحكم بوقوع طلقة لقلة ارادتهم الاستئناف بذلك فحمل على الغالب الذي هو ارادة التأكيد.
(شرح النووی: ج1ص 478)
قسم نمبر5:مسائل منصوصہ غیر متعینۃ الاحکام
یعنی مسئلہ نص میں ہو مگر اس کا حکم (فرض ،واجب وغیرہ)نص میں نہ ہو، مجتہد حکم بیان کرتاہے اورمقلد اس حکم میں تقلید کرتا ہے۔
مثال نمبر1:

(1)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ.

(2)

(سورۃ المائدۃ: 6)

(3)

وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا.

(4)

(سورۃ المائدۃ: 2)
مثال نمبر2:
(1) إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا…… وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ.
)صحیح البخاری :ج:1:ص:101 بَاب إِيجَابِ التَّكْبِيرِ وَافْتِتَاحِ الصَّلَاةِ (
(2) سَوُّوا صُفُوفَكُم.
(صحیح البخاری: ج1 ص100 باب اقامۃالصف من تمام الصلاة)
توتقلید ان پانچ قسم کے مسائل اجتہادیہ میں ہوگی۔
نمبر2: تقلید غیر مجتہد کرتاہے ،مجتہد پر کسی کی تقلید واجب نہیں۔ جس طرح نبی پر کسی کا کلمہ پڑھنا فرض نہیں ہوتا کیونکہ وہ خود نبی ہوتاہے۔
نمبر3:تقلید ایسے مجتہد کی ہوگی جس کا مجتہد ہونا دلیل شرعی (قرآن ،حدیث ،اجماع )سے ثابت ہو۔
قرآن :جیسے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کامجتہد ہونا۔
وَدَاوُوْدَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ . فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا.
(الانبیاء: 78، 79)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کابدر کے موقع پر اجتہاد ی رائے دینا۔
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ.
(الانفال:67)
قال عمر : وافقت ربي في ثلاث في مقام إبراهيم وفي الحجاب وفي أسارى بدر.
(صحیح مسلم: باب من فضائل عمر رضی الله عنہ)
عن أنس بن مالك قال قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه : وافقت ربي في ثلاث قلت يا رسول الله هذا مقام إبراهيم لو اتخذناه مصلى فأنزل الله تعالى İوَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّىĬ وقلت يا رسول الله لو حجبت نساءك فإنه يدخل عليك البر والفاجر فأنزل الله آية الحجاب İوَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍĬ وقلت في أسارى بدر اضرب أعناقهم فاستشار أصحابه فأشاروا عليه بأخذ الفداء فأنزل الله İمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِĬ الآية.
(المعجم الصغیر للطبرانی:ج 2ص110)
حدیث :حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کامجتہد ہونا ،چنانچہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن بھیجا تو فرمایا :
كَيْفَ تَقْضِى إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ قَالَ أَقْضِى بِكِتَابِ اللَّهِ. قَالَ فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِى كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلاَ فِى كِتَابِ اللَّهِ قَالَ أَجْتَهِدُ برَأْيِى وَلاَ آلُو. فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَدْرَهُ وَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِى رَسُولَ اللَّهِ.
(سنن ابی داؤد: باب اجتہاد الرای فی القضاء)
اجماع: ائمہ اربعہ کامجتہد ہونا۔
نمبر4:تقلید مفتٰی بھا مسائل واقوال میں ہوگی ،غیرمفتی بھاکااحترام ضروری مگر تقلیدمفتٰی بھامیں ہی میں ہو گی۔جس طرح ضعیف احادیث کااحترام ضروری مگر ضعیف کے مقابلے میں عمل صحیح پر ،منسوخ احادیث کا احترام ضروری مگر عمل ناسخ پر۔
نمبر5:بلامطالبہ دلیل تسلیم کرنا۔ تقلید نام ہے بادلیل بات کوبلا مطالبہ دلیل مان لینا۔یعنی مجتہدکے پاس دلیل موجود ہوتی ہے لیکن مقلددلیل کا مطالبہ نہیں کرتا۔
نمبر6:تقلید ایسے مجتہد کی ہوگی جس کامذ ہب اصولاًوفروعاًمدون ہو ، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بہت سارے حضرات مجتہدتھے مگران کامذہب مدون نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تقلید نہیں کی جاتی۔
نمبر7:مجتہد کامذہب تواتر کے ساتھ مقلدکے پاس پہنچاہو اورتواتر میں سندکی ضرورت نہیں ہوتی۔
1:قال الحافظ ابن حجر: والمتواتر لا يبحث عن رجاله ، بل يجب العمل به من غير بحث.
(شرح نخبۃ الفکر:ص29)
2: قال السیوطی: المتواتر فإنه صحيح قطعا ولا يشترط فيه مجموع هذه الشروط.
(تدریب الراوی: ص34)
3:قال محمد بن ابراہیم الشہیر بابن الحنبلی الحنفی: ومن شانہ ان لا یشترط عدالۃ رجالہ بخلاف غیرہ.
(قفو الاثر: ص46)
فقہ کو بھی تواتر کادرجہ حاصل ہے،لہذا اس کی سند کامطالبہ کرنااصول سے جہالت کی دلیل ہے کیونکہ تواتر کے بعدسندکامطالبہ نہیں کیا جاتا۔
نمبر۲:دلائل تقلید
تقلید مطلق کےدلائل
آیات قرآنیہ:
آیت نمبر1:
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ. صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.
(سورۃ الفاتحۃ)
کہ اے اللہ! ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔
٭ صراط مستقیم کی تفسیر ”صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ“ سے کی ہے نہ کہ ”صراط القرآن والحدیث“ سے،”صراط اھل العلم و العمل“ سے کی ہے نہ کہ ”صراط العلم“ سے اور یہی تقلید ہے۔
٭ ”صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ“ میں چار شخصیات ہیں کما قال تعالیٰ:
İوَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَĬ
(سورۃ النساء: 69)
آیت نمبر2:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم الآیۃ
(سورۃ النساء: 59)
اولی الامرسے مراد ”فقہاء “ہیں۔
1: روی عن جابر بن عبد اللہ و ابن عباس روایۃ، و الحسن و عطاء و مجاہد انہم اولو الفقه والعلم.
(احکام القرآن للجصاص ج2 ص298)
2: عن معاوية بن صالح ، عن علي بن أبي طلحة ، عن ابن عباس قوله : وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم يعني : اهل الفقه والدين
( تفسیر ابن ابی حاتم ج3ص69)
فائدہ: قال الحاکم: تفسیر الصحابی الذی شہد الوحی و التنزیل عند الشیخین حدیث مسند.
(مستدرک الحاکم: ج2 ص383)
اعتراض : آیت کا یہ حصّہĪ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُول Ĩ تقلید کی تردید کرتاہے۔
جواب :
امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
و قولہ تعالیٰ عقیب ذلک Ī فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُول Ĩ یدل علی ان اولی الامر ہم الفقہاء لانہ امر سائر الناس بطاعتہم ثم قال: Ī فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ Ĩ فامر اولی الامر برد المتنازع فیہ الی کتاب اللہ و سنۃ نبیہ اذا کانت العامۃ و من لیس من اہل العلم لیست ہذہ منزلتہم لانہم لا یعرفون کیفیۃ الرد الی کتاب اللہ و السنۃ و وجوہ دلائلہما علی احکام الحوادث فثبت انہ خطاب للعلماء
(احکام القرآن للجصاص ج 2 ص299)
مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
و الظاہر انہ خطاب مستقل موجہ للمجتہدین.
(تفسیر فتح البیان ج 2ص 308 بحوالہ تقلید کی شرعی حیثیت ص18)
آیت نمبر3:
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ.
(سورۃ النساء:83)
امام ابوبکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
أن العامي عليه تقليد العلماء في أحكام الحوادث
(احکام القرآن للجصاص ج2 ص305)
مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
فی الآیۃ اشارۃ الی جواز القیاس
(فتح البیان ج 2ص330)
سوال: یہ آیت جنگ کے بارے میں ہے۔
جواب: العبرة لعموم اللفظ لا لخصوص السبب.
(کشف الاسرار: باب حکم الاجماع 3/ 376، تفسیر القرطبی: سورۃ الاعراف،الایۃ31)
کہ الفاظ کے عموم کا اعتبار ہوگا نہ کہ سببِ نزول کے خاص واقعہ کا۔
آیت نمبر4:
فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ.
(التوبہ :122)
امام ابوبکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فأَوْجَبَ الحذْرَ بإنذارِهم وأَلّْزَمَ المُنذَرِينَ قُبولَ قولِهمْ.
(احکام القرآن للجصاص ج 2 ص304)
آیت نمبر5:
فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
(النحل: 43)
علاّمہ آلوسی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
واستدل بها أيضا على وجوب المراجعة للعلماء فيما لا يعلم وفي الإكليل للجلال السيوطي أنه استدل بها على جواز تقليد العامي في الفروع
(روح المعانی ج 8ص 148)
احادیث مبارکہ:
حدیث نمبر1:
عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ.
(صحیح البخاری: ج2 ص1092 باب أجر الحاكم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ)
حدیث نمبر2:
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِى عَوْنٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أَخِى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ أُنَاسٍ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَبْعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ قَالَ كَيْفَ تَقْضِى إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ قَالَ أَقْضِى بِكِتَابِ اللَّهِ. قَالَ فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِى كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلاَ فِى كِتَابِ اللَّهِ قَالَ أَجْتَهِدُ برَأْيِى وَلاَ آلُو. فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَدْرَهُ وَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِى رَسُولَ اللَّهِ.
(سنن ابی داؤد ج2ص149باب اجتہاد الرای فی القضاء)
تصحیح الحدیث:
1: قال ابن عبد البر: وحديث معاذ صحيح مشهور
(جامع بیان العلم: ج2ص94)
2: قال ابن تیمیۃ: بإسناد جيد•
(مقدمۃ فی التفسیر لابن تیمیہ: ص93)
3: قال ابن القیم: وهذا إسناد متصل ورجاله معروفون بالثقة
(اعلام الموقعین: ج 1ص202)
فوائدحدیث:
نمبر1:حضرت معاذبن جبل کویمن بھیجا ،معلوم ہواکہ ہربندہ قرآن وحدیث خود نہیں سمجھ سکتا۔
نمبر2:”فان لم تجد“اور”فان لم یکن“ میں فرق۔
نمبر3:اس میں پرویزیت اور غیرمقلدیت کی تردید ہے۔
نمبر4:اس حدیث میں اجتہاد کے جواز کی دلیل ہے۔
نمبر5:”فضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدرہ “آپ نے بغیرکسی واسطہ سینے پر ہاتھ مارا اور حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی چادر پر ہاتھ لگایا جیسا کہ روایت میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنْسَاهُ قَالَ ابْسُطْ رِدَاءَكَ فَبَسَطْتُهُ قَالَ فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ ضُمَّهُ فَضَمَمْتُهُ فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ.
(صحیح البخاری:باب حفظ العلم)
اور ان دونوں میں فرق واضح ہے۔
نمبر6:اجتہاد پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کاشکرادافرمایا۔
حدیث نمبر3:
قَالَ الْعِرْبَاضُ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا فَقَالَ « أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِى فَسَيَرَى اخْتِلاَفًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ».
(سنن ابی داؤد: کتاب السنۃ- باب فی لزوم السنۃ)
تحقیق السند:
1: قال ا لترمذی: هذا حديث صحيح
(جامع الترمذی: باب ما جاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدع)
2: قال الحاکم: هذا حديث صحيح ليس له علة
(مستدرک الحاکم: ج1 ص177 رقم الحدیث329)
3: قال الذھبی: صحيح ليس له علة
(التلخیص علی المستدرک: ج1 ص177 رقم الحدیث329)
چندفوائد:
1:خلیفہ راشد کی سنت اور اجتہاد میں فرق
2: بیک وقت خلیفہ راشد ایک ہوتا ہے
3:”تمسکوابھا“فرمایا ” تمسکوابھما“نہیں فرمایا
حدیث نمبر4:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي.
(جامع الترمذی: باب ما جاء فی افتراق الامۃ)
تحقیق السند:
1: قال الترمذی: ھذا حدیث حسن غریب مفسر.
(جامع الترمذی: ج ص باب ما جاء فی افتراق الامۃ)
2: قال الالبانی: حسن
(جامع الترمذی باحکام الالبانی: تحت ح2641)
حدیث نمبر5:
عن علي قال قلت : يا رسول الله إن نزل بنا أمر ليس فيه بيان أمر ولا نهي فما تأمرنا قال تشاورون الفقهاء والعابدين ولا تمضوا فيه رأي خاصة.
(المعجم الاوسط للطبرانی: ج2 ص172 رقم الحدیث1618)
تحقیق السند:
قال الطبرانی: لم يرو هذا الحديث عن الوليد بن صالح إلا نوح•
(المعجم الاوسط للطبرانی: ج2 ص172 رقم الحدیث1618)
اماالولید بن صالح فقد ذكره ابن حبان في الثقات
(کتاب الثقات : ج5ص 491 ، ج7ص551)
واما نوح بن قيس فقد وثقه يحيى بن معين
(لسان المیزان: ج7 ص415)
ولذا قال الہیثمی بعد ان اوردہ: رواه الطبراني في الأوسط ورجاله موثقون من أهل الصحيح•
(مجمع الزوائد: ج1 ص179)
حدیث نمبر6:
عَنْ كَثِيرِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِى الدَّرْدَاءِ فِى مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ إِنِّى جِئْتُكَ مِنْ مَدِينَةِ الرَّسُولِ -صلى الله عليه وسلم- لِحَدِيثٍ بَلَغَنِى أَنَّكَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مَا جِئْتُ لِحَاجَةٍ. قَالَ فَإِنِّى سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِى السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِى الأَرْضِ وَالْحِيتَانُ فِى جَوْفِ الْمَاءِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلاَ دِرْهَمًا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ ».
(سنن ابی داؤد: کتاب العلم- باب الحث علی طلب العلم)
تحقیق السند:
1: قال المناوی: هو حديث صحيح.
(فیض القدیر: ج4 ص504)
2: قال ابن الملقن: هَذَا الحَدِيث صَحِيح
(البدر المنیر: ج7 ص687)
3: قال الہیثمی: رجاله موثقون
(مجمع الزوائد: ج1 ص335)
تقلید شخصی کے دلائل
آیت کریمہ:
وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ
(لقمان:15)
İوَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّĬ أي اتبع دين من أقبل إلى طاعتي وهو النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه وقيل من أناب إلي يعني أبا بكر الصديق.
(تفسیرالخازن ج 3 ص471)
فائدہ :سبیل صیغہ واحد ہے ،جوکہ تقلیدشخصی پر دال ہے۔
احادیث مبارکہ:
حدیث نمبر1:
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَتَتْ امْرَأَةٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ قَالَتْ أَرَأَيْتَ إِنْ جِئْتُ وَلَمْ أَجِدْكَ كَأَنَّهَا تَقُولُ الْمَوْتَ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ.
(صحیح البخاری ج1 ص516 باب قول النبی صلى الله علیہ وسلم لو كنت متخذا خليل)
حدیث نمبر2:
عَنْ هُزَيْلَ بْنِ شُرَحْبِيلَ قَالَ سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنْ بِنْتٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ فَقَالَ لِلْبِنْتِ النِّصْفُ وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنِي فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى فَقَالَ لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُهْتَدِينَ أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْابْنَةِ النِّصْفُ وَلِابْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ لَا تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ.
(صحیح البخاری ج2 ص997 باب المیراث ابنۃ ابن مع ابنۃ)
حدیث نمبر3:
عُلَيِّ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَطَبَ النَّاسَ فِي الْجَابِيَةِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ، ثُمَّ قَالَ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنِ الْقُرْآنِ فَلْيَأْتِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ , وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ ، عَنِ الْفَرَائِضِ فَلْيَأْتِ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ , وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ ، عَنِ الْفِقْهِ فَلْيَأْتِ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ , وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ ، عَنِ الْمَالِ فَلْيَأْتِنِي فَإِنَّ اللَّهَ جَعَلَنِي خَازِنًا وَقَاسِمًا.
(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج17 ص484باب ما قالوا فیمن يبدا بہ فی الاعطیۃ، اسنادہ صحیح)
نمبر۳:تقلیدپر ہونے والے شبہات کے جوابات
شبہ نمبر1: قرآن کریم میں ہے :
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا.
(المائدۃ:3)
توجب دین مکمل ہوگیا توتقلید کی کیاضرورت ہے؟ نیز فقہ حنفی تکمیلِ دین کے خلاف ہے۔
جواب:
1: مراد اصول کی تکمیل ہے۔
2: تکمیل کا عرفی معنیٰ مراد ہے، جس طرح کے الیوم کاعرفی معنیٰ مراد ہے۔
3: اگرتکمیل ہوگئی توجوآیات اس کے بعد نازل ہوئیں اورجوارشادات پیغمبر علیہ السلام نے فرمائے کیا وہ دین کا حصہ نہیں ہوں گے؟!
شبہ نمبر2: قرآن کریم میں لفظ” تقلید“نہیں، اگرتقلیدواجب ہوتی تو یہ لفظ قرآن میں ضرور ہوتا۔
جواب: قرآن مجید میں ” تقلید“کالفظ نہیں تقلیدکامعنیٰ ہے، جس طرح ” توحید “کالفظ نہیں توحیدکامعنیٰ ہے۔جب فن ایجادہوتاہے تواصطلاحات ایجادہوتی ہیں جس طرح اصطلاحات نحو و صرف وغیرہ۔
شبہ نمبر3: قرآن کریم کی کئی آیات میں بڑوں کی تقلید سے روکاگیااور اس کی مذمت کی گئی ہے۔مثلاً
1: وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا
(البقرۃ: 170)
2: وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا
(الاحزاب:67)
جواب:
[۱]: پوری آیت یوں ہے:
İوَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَĬ
اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آباء و اجداد اگر علم و فہم سے عاری اور راہِ ہدایت سے بھٹکے ہوئے ہوں تو ان کے راستے کی اتباع مذموم ہے جبکہ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ علم و عقل سے متصف اور راہِ ہدایت پر تھے۔
[۲]: تقلید کی دوقسمیں ہیں: 1:تقلیدمحمود 2:تقلیدمذموم
قرآن وحدیث سمجھنے کے لیے آباء کی بات ماننا یہ تقلید”محمود“ ہے اور قرآن وحدیث کے مقابلے میں آباء کی بات ماننا یہ تقلید”مذموم“ ہے۔ اس طرح کی آیات میں تقلیدمذموم کی تردید کرتی ہیں نہ کہ تقلید محمود کی۔
شبہ نمبر 4: کیاتقلید خیرالقرون میں تھی؟ اگرتھی توکس امام کی تھی؟
جواب : اعلام الموقعین میں علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تقریباً130 حضرات مجتہد تھے، باقی ان کے بتائے ہوئےاجتہادی مسائل کی تقلید کرتےتھے۔
شبہ نمبر 5: قرآن کریم میں ہے: هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا (الحج:78) تم کہتے ہو ہم حنفی شافعی وغیرہ ہیں۔
جواب:
[1]: کفارکے مقابلہ میں ہم ” مسلمان“ ، اہل بدعت کےمقابلے میں ہم ” اہلسنت والجماعت“ اور اجتہادی اختلاف میں ہم ” حنفی“ ہیں۔ جس طرح بیرون ملک میں ہم پاکستانی ہیں اوراندرون ملک میں پنجابی،سندھی ،بلوچی،اورصوبائی سطح پر ضلع وغیرہ کانام۔ تو قرآن مجید میں ”مسلمین“ بمقابلہ ”کافرین“ ہے نہ کہ بمقابلہ حنفی و شافعی۔
[2]: اگرخودکوحنفی کہناغلط ہے تومحمدی ،سلفی ،اثری کیوں کہتے ہو!
شبہ نمبر 6: ایک مسئلہ میں چار ائمہ کااختلاف ہوجائے توچاروں حق پرکیسے ہوتے ہیں ؟ حالانکہ حق ایک ہوتاہے۔
جواب:
[۱]: یہ حق بمقابلہ” خطاء“ ہے نہ کہ بمقابلہ ”باطل“ جس میں حق پر اجران اورخطاء پراجرواحدملتاہے۔ کما جاء فی الحدیث:
عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ
(صحیح البخاری: باب أجر الحاكم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ)
[۲]: عنداللہ حق ایک ہے اور عندالناس چاروں حق ہیں۔ مثال: تحری قبلہ۔
[۳]: یہ اختلاف اجتہادی مسائل میں ہے جو معیوب نہیں۔اسکی مثالیں:
مثال1: وَدَاوُوْدَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ . فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا
. (الانبیاء: 78، 79)
مثال 2: غزوہ خندق کے موقع پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ فَأَدْرَكَ بَعْضُهُمْ الْعَصْرَ فِي الطَّرِيقِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَا نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا وَقَالَ بَعْضُهُمْ بَلْ نُصَلِّي لَمْ يُرِدْ مِنَّا ذَلِكَ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ.
(صحیح البخاری: ج2ص591 باب مرجع النبي صلى الله عليه و سلم من الأحزاب ومخرجه إلى بني قريظة الخ)
مثال 3: عن أبي سعيد : أن رجلين تيمما وصليا ثم وجدا ماء في الوقت فتوضأ أحدهما وعاد لصلاته ما كان في الوقت ولم يعد الآخر فسألا النبي صلى الله عليه و سلم فقال للذي لم يعد أصبت السنة وأجزأتك صلاتك وقال للآخر أما أنت فلك مثل سهم جمع.
(سنن النسائی ج2 ص74 ،75باب التیمم لمن یجدالمآء بعدالصلوٰۃ)
شبہ نمبر 7: فقہ حنفی کے بہت سارے مسائل ایسے ہیں جن میں امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اختلاف کیاہے۔
جواب:
[۱]: ایک مجتہد دوسرے مجتہد سے اختلاف کرے یہ جائز ہے جس طرح حضرت داؤد اورحضرت سلیمان علیہماالصلوٰۃ والسلام کااجتہادی اختلاف۔ غیرمجتہد کامجتہد سے اختلاف کرنا جائزنہیں۔
[۲]: امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کاقول حقیقت میں امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کاقول ہی ہوتاہے۔ چنانچہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے رد المحتار کے مقدمہ میں فرمایا کہ ایک مسئلہ میں امام صاحب کا ایک قول ہو اور آپ کے شاگردوں کا کوئی دوسرا قول اس کے خلاف ہو تو وہ شاگردوں کا قول دراصل آپ ہی کا قول ہوتاہے، شاگردوں کی طرف نسبت محض رائے کی موافقت کی وجہ سے ہوتی ہے۔علامہ شامی رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں:
قَالَ فِي الْوَلْوَالِجيَّةِ مِنْ كِتَابِ الْجِنَايَاتِ قَالَ أَبُو يُوسُفَ : مَا قُلْت قَوْلًا خَالَفْت فِيهِ أَبَا حَنِيفَةَ إلَّا قَوْلًا قَدْ كَانَ قَالَهُ ...
وَفِي آخِرِ الْحَاوِي الْقُدْسِيِّ : وَإِذَا أَخَذَ بِقَوْلِ وَاحِدٍ مِنْهُمْ يَعْلَمُ قَطْعًا أَنَّهُ يَكُونُ بِهِ آخِذًا بِقَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ ، فَإِنَّهُ رَوَى عَنْ جَمِيعِ أَصْحَابِهِ مِنْ الْكِبَارِ كَأَبِي يُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ وَزُفَرَ وَالْحَسَنِ أَنَّهُمْ قَالُوا : مَا قُلْنَا فِي مَسْأَلَةٍ قَوْلًا إلَّا وَهُوَ رِوَايَتُنَا عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَقْسَمُوا عَلَيْهِ أَيْمَانًا غِلَاظًا فَلَمْ يَتَحَقَّقْ إذًا فِي الْفِقْهِ جَوَابٌ وَلَا مَذْهَبٌ إلَّا لَهُ كَيْفَ مَا كَانَ.
(رد المحتار: ج1ص159مطلب صح عن الامام انہ قال اذا صح الحدیث فہو مذہبی)
شبہ نمبر8: قرآن کریم میں ہے : وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
(الحشر:7)
اگرتقلید بھی ضروری ہوتی تواس میں مجتہدین کی بات ماننے کابھی حکم ہوتا۔
جواب:
1: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم الآیۃ (النساء: 59)اور وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ (لقمان:15)میں مجتہدین کی بات ماننے کابھی حکم ہے۔
2: نیز جس پیغمبر کی بات ماننے کاحکم اسی آیت میں ہے اسی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ:
عن علي قال قلت : يا رسول الله إن نزل بنا أمر ليس فيه بيان أمر ولا نهي فما تأمرنا قال تشاورون الفقهاء والعابدين ولا تمضوا فيه رأي خاصة
(المعجم الاوسط للطبرانی: ج1ص 441 رقم الحدیث 1618)
شبہ نمبر9: قرآن کریم میں ہے: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (آل عمران:103)چارائمہ نے دین کوچارٹکڑوں میں بانٹ دیاہے، ایک اسلام کوچارحصوں میں تقسیم کردیا۔یہ تقسیم تقلید ہی کاثمرہ ہے۔
جواب: تمام ائمہ کی منزلِ مقصود اسلام ہے۔ یہ چار فقہیں تو بمنزلہ راستہ کے ہیں۔ منزل تک پہنچنے کے چارراستے ہیں۔نیز اگر ان چارائمہ کی تقلید سے آزادی دیدی جائے توپھر ہربندہ مستقل فرقہ ہوگا۔
شبہ نمبر10: کیاقرآن وحدیث میں ان چارائمہ کی متعلق کہاگیا ہے کہ ان کی تقلید کرو؟
جواب :
1: نفس تقلیدکاحکم ہے جو بھی مجتہد میسر ہو جیسے جماعت کا حکم ہے جو بھی امام میسر ہو، قراءت کا حکم ہے جو بھی قاری میسر ہو۔
2: ایک امام کے پیچھے نمازپڑھنے کاحکم کہاں ملاہے اورسات قراتوں میں سے ایک قرأت پرتلاوت کرنےکا حکم کہاں ہے؟
شبہ نمبر11: ان چار ائمہ سے پہلے لوگ کس کے مقلد تھے؟
جواب : مکہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی، مدینہ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی، کوفہ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی، بصرہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اور یمن میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی تقلیدہوتی تھی۔ اس دورمیں مقلد تھے تقلیدکالفظ نہیں تھا۔
شبہ نمبر 12: جب مجتہدین کئی گزرے ہیں توتقلید ان چارہی کی کیوں ؟
جواب : قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے تقلید کاحکم دیتے ہوئے فرمایا:
وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ.
(لقمان:15)
اتباعِ سبیل کیلئے علمِ سبیل ضروری ہے اور ائمہ اربعہ کے علاوہ کسی مجتہد کے مسائل جزئیات و فروعات مدون نہیں۔
شبہ نمبر 13: ان چارمیں سے صرف ایک ہی کی تقلید کیوں؟
جواب : تاکہ مذہبی آزادی کے نام پر فسادنہ ہو اورعبادات میں خلل نہ آئے۔مثال ایک بندہ کے جسم سے خون نکل آئے اور وہ کہے کہ میں اس مسئلے میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کاقول لیتاہوں، اسکے بعد عورت کوچھوئےاور کہے کہ میں اس مسئلے میں امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا قول لیتاہوں۔
شبہ نمبر 14: ان چارائمہ میں سے صرف امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی تقلیدکیوں کرتے ہو جبکہ حق سب کوکہتےہو؟
جواب :
1: امام صاحب نے صحابہ رضی اللہ عنہم کودیکھا،روایات سنی۔
2: آپ کی فقہ شورائی ہے۔
3: آپ مدونِ اول ہیں۔
4: آپ عجمی ہونے کے ساتھ ماہرِ عربی ہیں۔
5: عرب و عجم کے سنگم ”کوفہ“ میں ہیں۔
شبہ نمبر 15: شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسئلۃ ونحن مقلدون یجب علیناتقلیدامامنا ابی حنیفۃ.
( تقریرترمذی: ص36)
جواب :
1: حق کبھی بمقابلہ باطل ہوتا ہے ا ور کبھی بمقابلہ خطاء، یہاں بمقابلہ خطاء ہے جس میں ایک اجر ضرور ہے۔
2: عقیدت میں اجرکواجران پرترجیح دی ہے۔مثال مسجدحرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے اورمسجدنبوی میں پچاس ہزار نماز کے برابر۔ لیکن بندہ مسجد نبوی میں جاتاہے اور عقیدت کیوجہ سے اجران کو چھوڑدیتاہے۔
شبہ نمبر16: غیرمقلدین کہتے ہیں کہ شوافع بھی رفع یدین کرتےہیں ہم بھی کرتے ہیں، آپ کہتے ہیں کہ شوافع کو اجرملےگا غیرمقلدین کونہیں ملےگا۔ رفع یدین تو دونوں کاایک ہے، ایک درست دوسراغلط کیوں؟
جواب:
1: ماہر غیرماہر کا فرق ہے۔مثلاً ایک ڈاکٹر ماہر ہے اور ایک عطائی ہے۔ اگرماہر آ پریشن کرے اور مریض ٹھیک ہوجائے تو اس کے لیےاجران ہیں اور اگر ٹھیک نہ ہو تو اجر کا مستحق بہرحال ہے بخلاف عطائی کے کہ اگر اس کا آپریشن نا کام ہو جائے تو اس کو سزا ملتی ہے اور اگر ٹھیک بھی ہو جائے تب بھی قابل گرفت ہے۔ یہی حال شوافع اور غیر مقلدین کا ہے۔ شوافع ماہر مجتہد کے اجتہاد پر عمل پیرا ہیں جن کے لیے اجر تو بہرحال ہے اور غیر مقلدین کا مسئلہ اگر ظاہرا شوافع سے ملتا ہے لیکن عطائی ڈاکٹر کی طرح قابل مواخذہ ہیں۔
2: شوافع دیانت دار ہیں جبکہ غیر مقلد بد دیانت ہیں۔
اصول:ایک مسئلہ میں دو حدیثیں ہوں اور فیصلہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرمائیں تو مسئلہ حدیث کا اور فیصلہ نبی کا ورنہ مسئلہ فقہ کا اور فیصلہ مجتہد کا۔
شبہ نمبر17: احناف حضرات کہتے ہیں رفع یدین منسوخ ہے۔ جب منسوخ ہے تو شوافع کو منسوخ پر عمل کرنے سے اجرکیوں ملتاہے؟
جواب: منسوخ کی دو قسمیں ہیں: ( 1):منسوخ منصوص، (2): منسوخ اجتہادی
منسوخ منصوص :جیسے كنت نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها
(سنن ابن ماجہ ص112باب ماجاء فی زیارۃ القبور)
منسوخ اجتہادی: جیسے الوضوء مما مست النار.
اگر منسوخ منصوص ہوتو عمل کرنے پر اجرنہیں، اگراجتہادی ہوتو دوشرطوں کےساتھ اجرہے:
1:عمل کرنے والا مجتہدہو 2:مقلدہو
شبہ نمبر18: فقہ بدعت ہے کیونکہ بعد کی پیدا وار ہے۔
جواب: دورِ نبوت میں موجود تھی مگر ظاہر امام صاحب کے دور میں ہوئی۔
نمبر۴:ترک تقلید کے نقصانات
دنیاوی : تقلید نہ کریں تو دنیا میں دین پر عمل کی توفیق نہیں ہوتی۔
1:بیمارکوخون دیناقرآن وحدیث میں نہیں ہے، تقلیدکرےگاتوایمان جائےگا نہ کرےگا توباپ جائےگا۔
2:ٹیلی فون پرنکاح قرآن وحدیث میں نہیں، تقلیدکرےگاتوایمان جائےگا نہ کرےگا تو جان (لڑکی) جائےگی۔
قبر:
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتُوُلِّيَ وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَأَقْعَدَاهُ فَيَقُولَانِ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنْ النَّارِ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنْ الْجَنَّةِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا وَأَمَّا الْكَافِرُ أَوْ الْمُنَافِقُ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ ثُمَّ يُضْرَبُ بِمِطْرَقَةٍ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً بَيْنَ أُذُنَيْهِ فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ
(صحیح البخاری ج 1ص 178 باب المیت یسمع خفق النعال)
قولہ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ ای لا علمت بنفسک بالاستدلال و لا تلوت القرآن او المعنی لا اتبعت العلماء بالتقلید فیما یقولون
(حاشیۃ صحیح البخاری: ج1 ص 178)
اخروی عذاب وعتاب :
قال اللہ تعالیٰ: وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ
(سورۃ الملک:10)
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (م1239ھ) فرماتے ہیں :بعض حضرات مفسرین کرام نے نسمع کوتقلیدپراور نعقل کو تحقیق واجتہاد پرمحمول کیاہے۔ ان دونوں لفظوں سے یہی مراد ہے کہ یہ دونوں نجات کےذریعے ہیں۔
(تفسیرعزیزی اردو ج3 ص23)
تقلیدشخصی کوترک کرنے کےنقصانات:
ووجهه انه لو جاز اتباع أي مذهب شاء لا فضى إلى ان يلتقط رخص المذاهب متبعا هواه ويتخير بين التحليل والتحريم والوجوب والجواز وذلك يؤدى إلى انحلال ربقة التكليف بخلاف العصر الاول فانه لم تكن المذاهب الوافية بأحكام الحوادث مهذبة وعرفت: فعلى هذا يلزمه ان يجتهد في اختيار مذهب يقلده على التعيين.
(المجموع شرح المہذب ج1ص499،498 فصل۔ فی آداب المستفتی وصفتہ و احکامہ)
اب اگرتقلیدمطلق کادروازہ کھول دیاجائےاورلوگ مجتہدین کے ایسے ایسے مسائل تلاش کرکے ان کی تقلید شروع کردیں تو اس کانتیجہ بلاشبہ وہی ہوگاجسے علامہ نووی رحمہ اللہ نےشرعی احکام کی پابندیوں کے بالکل اٹھ جانےسے تعبیرکیاہے۔مثلاً :
[1]: امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ کے نزدیک اونٹ کا گوشت کھانے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے۔
(شرح مسلم للنووی: ج1 ص158 باب الوضوء من لحوم الابل)
جبکہ احناف کے ہاں وضوء نہیں ٹوٹتا۔
[2]: امام شافعی کے نزدیک (ایک قول کے مطابق) بیوی کو مطلقاً ہاتھ لگانے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے۔
(بذل المجہود للسہارنفوی: ج1 ص107)
جبکہ احناف کے ہاں نہیں ٹوٹتا۔
[3]: جسم سے خون نکل کر بہہ پڑے تو احناف کے نزدیک وضوء ٹوٹ جاتا ہے جبکہ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک وضوء نہیں ٹوٹتا۔
(بذل المجہود: ج1 ص121)
[4]: امام احمد بن حنبل کے نزدیک ذکر کو ہاتھ لگانے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے۔
(الحاشیۃ الشریفیۃ علی المشکوٰۃ للسید الشریف الجرجانی: ج1 ص277 مکتبۃ البشریٰ)
جبکہ احناف کے ہاں وضوء نہیں ٹوٹتا۔
[5]: احناف کے ہاں نماز میں قہقہہ لگانے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے جبکہ شوافع کے ہاں نہیں ٹوٹتا۔
(المنتقیٰ شرح المؤطا لابی الولید الباجی: ج1 ص51

)

Download PDF File