سر ڈھانپ کر نماز پڑھنا

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سر ڈھانپ کر نماز پڑھنا
از افادات متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
اہل السنت و الجماعت کا موقف:
اہل السنت و الجماعت کے ہاں نماز پڑھتے وقت سر کو ڈھانپنا چاہیے، چاہے پگڑی کے ذریعے ہو یا ٹوپی کے ذریعے۔ ہاں اگر مجبوری ہو مثلاً کپڑا نہ مل رہا ہو تو الگ بات ہے۔ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اہل السنت و الجماعت بغیر سر ڈھانپے نماز کو بالکل باطل قرار نہیں دیتے (جیسا کہ بعض غیر مقلدین یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اہل السنت و الجماعت کے ہاں ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز باطل ہوتی ہے) بلکہ اسے خلافِ ادب، خلاف سنت، مکروہ اور نا پسندیدہ قرار دیتے ہیں۔
غیر مقلدین کا موقف:
غیر مقلدین کے اکابر کا موقف یہی ہے کہ سر ڈھانپ کر نماز پڑھی جائے ، ننگے سر نماز پڑھنا جیسا کہ آج کل یہ رسم عام پھیل رہی ہے ، اسے غیر مقلد اکابرین نے بھی بد رسم ، ہر لحاظ سے ناپسندیدہ اور مکروہ لکھا ہے۔( ان کےاقوال آگے آرہے ہیں ) لیکن موجود غیر مقلدین کا ایک بہت بڑا طبقہ ننگے سر نماز پڑھتا نظر آرہا ہے اور طرفہ تماشہ یہ کہ اسے ”سنت“ سے تعبیر کرتا ہے۔ اس موقف پر ان کے عمل کے علاوہ کتب بھی ہیں جیسا کہ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب”کون کہتا ہے کہ ننگے سر نماز نہیں ہوتی“ مؤلفہ عبدالرحمٰن صاحب غیر مقلد کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
1 ننگے سر نماز پڑھنا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
(ص 14)
2 چاہیے یہ تھا کہ حنفی علماء بھی کبھی کبھی سر ننگے جماعت کرایا کریں تاکہ لوگوں کو اس سنت صحیحہ کا علم ہوجائے۔
(ص15)
3 اس مسئلہ میں وسعت ہے ، سر ڈھانکنا بھی سنت ہے اور نہ ڈھانکنا بھی سنت ہے۔
( ص23)
دلائل اہل السنت و الجماعت:
اہل السنت و الجماعت کا موقفِ مذکور مندرجہ ذیل دلائل سے ثابت ہے۔
دلیل نمبر1:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ•
(الاعراف:31)
ترجمہ: ہر نماز کے وقت خوبصورت لباس پہنو۔
آیت کی تفسیر و تشریح:
1: علامہ ابن تیمیہ الحنبلی رحمہ اللہ (م728ھ) لکھتے ہیں:
وَاَللَّهُ تَعَالَى أَمَرَ بِقَدْرٍ زَائِدٍ عَلَى سَتْرِ الْعَوْرَةِ فِي الصَّلَاةِ، وَهُوَ أَخْذُ الزِّينَةِ، فَقَالَ: (خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ) فَعَلَّقَ الْأَمْرَ بِاسْمِ الزِّينَةِ لَا بِسَتْرِ الْعَوْرَة•
(الفتاویٰ الکبریٰ لابن تیمیہ: ج5 ص326)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے نماز کے لیے ستر عورت(اعضاءستر کے ڈھانپنے)کے علاوہ ایک زائد حکم بھی دیاہے اوروہ ہے اچھا لباس پہننا، چنانچہ فرمایا کہ ہر نماز کے وقت خوبصورت لباس پہنو۔
اور اس کی تشریح خود حنبلی مذہب میں یوں ہے:
قال التميمي الثوب الواحد يجزئ والثوبان أحسن والأربع أكمل : قميص وسراويل وعمامة وإزار•
(المغنی لابن قدامہ: ج2ص136)
ترجمہ:ابو الحسن التمیمی فرماتے ہیں: ایک کپڑا نماز کے جواز کے لیے کافی ہے دوکپڑے بہتر ہیں چارکپڑے ہوں تونماز اورزیادہ کامل ہوگی ،چارکپڑے یہ ہیں قمیض، پاجامہ، پگڑی اورتہبند۔
2: شیخ الاسلام الشیخ محمد زاہد بن الحسن الکوثری رحمۃ اللہ علیہ (م1371ھ)فرماتے ہیں :
ولا شک ان الفظ الزینۃ یتناول غطاء الروؤس تناولا اولیا فیکون مامورابہ فی الآیۃ وتوھم اقتصار الآیۃ علی سبب نزولھا من زجر اھل الجاھلیۃ الذین کانوا یطوفون بالکعبۃ وھم عراۃ من جمیع ملابسھم ابتعاد عن منھج اھل الاستنباط من ان العبر بشمول اللفظ لا بخصوص السبب ولذا تری اھل المذاہب مجمعین علی استحباب لبس القلنسوۃ والرداء والازار فی الصلاۃ کما شرح المنیۃ 349 ومجموع النووی ص3-173 وغیرھما•
(مقالات الکوثری: ص 171)
ترجمہ: اور یہ وہم کرنا کہ ”یہ آیت تو جاہلیت کے لوگوں کو کعبے کاتمام کپڑے اتار کا ننگا طواف کرنے پر تنبیہ کرنے کے لیے نازل ہوئی تھی لہذا اس کا حکم ننگے طواف کرنے کے ساتھ خاص رہے گا“ یہ استنباط کے بنیادی اصول سے بہت دور کی بات ہے، کیونکہ اعتبار لفظ کے شامل ہونے کا ہوتا ہے نہ کہ سبب کے خاص ہونے کا اور اسی وجہ سے آپ دیکھتے ہیں کہ تمام مسالک کے حضرات ٹوپی، قمیص اور پائجامہ میں نماز پڑھنے کے مستحب ہونے پر متفق ہیں، جیسے کہ منیہ کی شرح: ص 349 اور مجموع النووی: ج3ص 173 وغیرہ میں مذکور ہے۔
3: شیخ محمد بن صالح بن محمد عثیمین لکھتے ہیں :
والذی جاء فی القرآن (يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ)(اعراف) فامر اللہ تعالی باخذ الزینۃ عند الصلاۃ واقل ما یمکن لباس یواری السواۃ وما زاد علی ذالک فھو فضل والسنۃ بینت ذلک علی سبیل التفصیل واذا کان الانسان یستحی ان یقابل ملکا من الملوک بثیاب لاتستر اونصف بدنہ ظاھر فکیف لا یستحی ان یقف بین یدی ملک الملوک عزوجل بثیاب غیر مطلوب منہ ان یلبسھا ولھذا قال عبد اللہ بن عمر تخرج الی الناس وانت حاسرا لراس؟ قال: لا، قال: فاللہ احق ان تتجمل لہ ھذا صحیح لمن عادتھم انھم لا یحسرون عن رؤوسھم•
(الشرح الممتع علی زاد الممستقنع للعثیمین باب شروط الصلاۃ منھا العورۃ)
ترجمہ: اور قرآن مجید میں ارشاد ہے: اے بنی آدم! ہر سجدہ کے وقت (یعنی نماز) اپنی زینت لے لیا کرو۔ پس اللہ تعالی نے اس آیت میں نماز کے وقت زینت اختیار کرنے کا حکم فرمایا جس کا کم از کم درجہ ایسا لباس ہے جس سے ستر چھپ جائے اور اس سے زیادہ لباس کی فضیلت ہے اور سنت نے اس کو تفصیل سے بیان کر دیا ہے اور جب انسان اس بات سے شرم کرتا ہے کہ وہ بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کے سامنے ایسے کپڑوں میں آئے جو ستر کو چھپائے ہوئے نہ ہو یا اس کے بدن کا آدھا حصہ کپڑوں سے چھپا ہوا نہ ہو تو انسان کو اس بات سے کیوں نہیں شرم آنی چاہیے کہ وہ تمام بادشاہوں کے بادشاہ اللہ عزوجل کے سامنے ایسے کپڑوں میں کھڑا ہو جس کا پہننا اس کی طرف سے مطلوب نہیں۔ اور اسی وجہ سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام حضرت نافع سے جب انہیں ننگے سر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا، فرمایا تھا کہ اپنا سر ڈھانک لیجئے کیا آپ لوگوں کے سامنے ننگے سر جانا گوارہ کریں گے ؟ نافع نے کہا کہ نہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی تو دوسروں کے مقابلے میں جمال وزینت کے زیادہ مستحق ہیں۔ اور یہ بات ان لوگوں کے لیے صحیح ہے جن کی عادت یہ ہے کہ وہ اپنے سر ننگے نہیں کرتے اور لوگوں کے سامنے ننگے سر جانا گوارہ نہیں کرتے۔
4: غیرمقلد عالم جناب سید نذیرحسین دہلوی لکھتے ہیں:
اس آیت﴿يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾ سے ثابت ہواکہ ٹوپی اورعمامہ سے نمازپڑھنا اولیٰ ہے، کیونکہ لباس سے زینت ہے اگر عمامہ یا ٹوپی رہتے ہوئے تکاسلا۔(سستی کی وجہ سے)برہنہ(سر)نماز پڑھے تومکروہ ہے۔
(فتاویٰ نذیریہ ج 1ص240)
ایک اورمقام پرلکھتے ہیں:
احکم الحاکمین نے اپنے دربارمیں حاضر ہونے کی نسبت یہ حکم کیاہے کہ ﴿يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾ یعنی تم لوگ ہر نماز کے وقت اپنے کپڑے لے لیاکرو یعنی کپڑے پہن کرنماز پڑھاکرواورکپڑے میں عمامہ بھی داخل ہے کیونکہ عمامہ ایک مسنون کپڑاہے۔
(فتاویٰ نذیریہ ج3ص373)
5: غیرمقلد عالم عبیداللہ خان عفیف لکھتے ہیں:
يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى الآیۃ• يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ الآیۃ•
کوئی ان دونوں آیات کی جوبھی تفسیر کرے مگر ان دونوں کے اطلاق اورعموم سے علی الاقل الحکم لعموم اللفظ لا بخصوص السبب پورا لباس زیب تن نمازپڑھنانماز کی شان اوراس کے آداب میں شامل ہے اورہمارے عرف میں تین کپڑے پگڑی، تہبنداورقمیض پورالباس کہلاتے ہیں۔
(فتاویٰ محمدیہ ترتیب غیرمقلد عالم مولوی مبشر احمد ربانی ج1ص379)
دلیل نمبر2:
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ فِي الشِّتَاءِ فَرَأَيْتُهُمْ فِي الْبَرَانِسِ وَالأَكْسِيَةِ، وَأَيْدِيهُمْ فِيهَا•
(المعجم الکبیر للطبرانی: ج9 ص157 حدیث نمبر 17564)
ترجمہ: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سردی کے موسم میں حاضر ہوا تو میں نے ان کو دیکھا کہ وہ لمبی ٹوپیوں اور چادروں میں (نماز پڑھتے) تھے اور ان کے ہاتھ چادروں کے اندر رہتے تھے۔
دلیل نمبر3:
حضرت فَلْتان بن عاصم الجرمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
اتيت النبي صلى الله عليه و سلم فرأيتهم یصلون في الأكسية و البرانس وأيديهم فيها من البرد•
(معجم الصحابۃ لابن قانع : ج2ص152 رقم الحدیث 1372)
ترجمہ:میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے( حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام )کو دیکھا کہ وہ چادریں اوڑھے اور ٹوپیاں پہنے نماز پڑھ رہے تھے اور ان کے ہاتھ سردی کی وجہ سے چادروں کے اندر تھے۔
دلیل نمبر 4:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ دَهْنَ رَأْسِهِ وَتَسْرِيحَ لِحْيَتِهِ ، وَيُكْثِرُ الْقِنَاعَ حَتَّى كَأَنَّ ثَوْبَهُ ثَوْبُ زَيَّاتٍ.
(شمائل الترمذی:ص4-باب ما جاء فی ترجل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر مبارک پر کثرت سے تیل لگایا کرتے تھے اور داڑھی مبارک میں کثرت سے کنگا کیا کرتے تھے اور سر پر کثرت سے کپڑا اوڑھے رکھتے تھے یہاں تک کہ آپ کا وہ کپڑا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا تیلی کا کپڑا ہے۔
دلیل نمبر5:
حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے ایک اور روایت ہے:
ما رایت احد ادوم قناعا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی کاَنَّ مِلْحَفتَہ مِلْحَفۃُ زیَّات•
(تاریخ بغداد: ج5 ص372 تحت ترجمۃ بکربن السَّمَیْدَعِ ابو الحسن )
ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو ہمیشگی کے ساتھ سر ڈھانپتے ہوئے نہیں دیکھا حتیٰ کہ آپ کا رومال تیلی کے رومال کی طرح ہوتا تھا۔
دلیل نمبر6:
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
کا ن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکثر القناع ویکثر الدھن راسہ ویسرح لحیتہ بالماء•
(شعب الایمان للبیہقی: ج5 ص226 فصل فی اکرام الشعر)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر پر کثرت سے رومال اوڑھ رکھتے تھے اور سر مبارک پر کثرت سے تیل لگایا کرتے تھے اور اپنی داڑھی کو پانی سے صاف فرمایا کرتے تھے۔
فائدہ: اس روایت میں سر ڈھانکے جانے والے کپڑے کے بارے میں تیل کے اثرات کا ذکر نہیں جس سے معلوم ہوا کہ آپ کے معمول میں یہ تین کام مستقلاً تھے یعنی [1] ہمیشہ سر ڈھانپنا [2] تیل لگانا[3] ڈاڑھی کو پانی سے صاف کرنا۔ لہذا یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ ”حضور صلی اللہ علیہ و سلم کپڑا صرف اس لیے رکھتے تھے کہ چونکہ آپ ہمیشہ تیل لگایا کرتے تھے“ اس لیے کہ اس روایت میں یہ کام مستقلاً ثابت ہو رہا ہے۔
نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب خارجِ صلاۃ سر ڈھانپنے کا اتنا اہتمام فرماتے تھے تو داخلِ صلاۃ (جو کہ احکم الحاکمین کے سامنے حاضری کی حالت ہے) اس کا کس قدر اہتمام فرماتے ہوں گے۔ فتفکر
دلیل نمبر7:
عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : إذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَحْسِرَ الْعِمَامَةَ عَنْ جَبْهَتِهِ.
(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج2ص500باب من کرہ السجود علی کورالعمامۃ)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ جب تم میں سے کوئی ایک نماز پڑھے تواپنی پیشانی سے پگڑی کو ہٹائے۔
دلیل نمبر8:
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ؛ أَنَّهُ كَانَ إذَا قَامَ إلَى الصَّلاَةِ حَسِرَ الْعِمَامَةَ عَنْ جَبْهَتِهِ.
(مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص499 باب من کرہ السجود علی کورالعمامۃ)
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تواپنی پیشانی سے پگڑی ہٹالیتے۔
دلیل نمبر9:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وَقَالَ الْحَسَنُ كَانَ الْقَوْمُ يَسْجُدُونَ عَلَى الْعِمَامَةِ وَالْقَلَنْسُوَةِ وَيَدَاهُ فِي كُمِّهِ•
(صحیح البخاری: ج1 ص56 باب السجود علی الثوب فی شدۃ الحر)
ترجمہ: حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قوم (یعنی صحابہ کرام زمین کے گرم ہونے کی وجہ سے )عمامہ اور ٹوپی پر سجدہ کرتے تھے۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِنَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَسْجُدُونَ وَأَيْدِيهِمْ فِي ثِيَابِهِمْ ، وَيَسْجُدُ الرَّجُلُ مِنْهُمْ عَلَى عِمَامَتِهِ.
(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج2ص497 باب فی الرجل يسجد ويداه فی ثوبہ)
ترجمہ: امام حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نماز میں سجدہ کرتے تھے ان کے ہاتھ کپڑوں میں ہوتے اور ان میں سے کوئی آدمی اپنی ٹوپی اورپگڑی پرسجدہ کرتاتھا۔
دلیل نمبر10:
حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں :
رَأَيْتُ الأَسْوَدَ يُصَلِّي فِي بُرْنُسِ طَيَالِسِهِ ، يَسْجُدُ فِيهِ ، وَرَأَيْت عَبْدَ الرَّحْمَنِ ، يَعْنِي ابْنَ يَزِيدَ ، يُصَلِّي فِي بُرْنُسٍ شَامِيٍّ يَسْجُدُ فِيهِ.
مصنف ابن ابی شیبہ: ج2 ص495، 496 باب فی الرجل یسجد و یداہ فی ثوبہ
ترجمہ: میں نے حضرت اسود کو دیکھا کہ وہ اپنی چادر کے ساتھ جڑی ہوئی ٹوپی میں نماز پڑھ رہے تھے اور سجدہ بھی اسی میں کر رہے تھے اور میں نے عبد الرحمن بن یزید کو شامی لمبی ٹوپی میں نماز پڑھتے ہوئے اور سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔
مذاہبِ اربعہ کے حوالہ جات:
مذہبِ حنفی:
1: والمستحب أن يصلي في ثلاثة ثياب من أحسن ثيابه قميص وأزرار وعمامة•
(مراقی الفلاح لحسن بن عمار الشرنبلالی: ص124)
ترجمہ: مستحب یہ ہے کہ خوبصورت کپڑوں میں نماز ادا کی جائے یعنی قمیص، تہبند اور پگڑی میں۔
2: لو صلى مكشوف الرأس، وهو يجد ما يستر به الرأس؛ إن كان تهاوناً بالصلاة يكره•
(المحیط البرہانی:ج5 ص137)
ترجمہ: اگر سر ڈھانپنے کے لیے کپڑا موجود ہو اس کے باوجود اسے محض اہمیت نہ دیتے ہوئے ننگے سر نماز پڑھے تو یہ مکروہ ہے۔
مذہبِ مالکی:
والسنۃ فی حق الرجل ان یستُر جمیع جسدہ علی الوجہ المشروع فیہ فہو مطلوب بذلک لاجل الامتثال ثم العمامۃ علی صفتہا کما تقدم ذکرہ•
(المدخل لابن الحجاج: ج1 ص142 فصل فی اللباس)
ترجمہ: مرد کے حق میں سنت یہ ہے کہ وہ شرعی طریقہ کے مطابق اپنے جسم کو ڈھانپے اور اللہ کے احکام کی بجا آوری کے پیشِ نظر یہی بات مطلوب ہے، پھر بیان کردہ طریقہ کے مطابق پگڑی باندھ کر سر کو ڈھانپا جائے جیسا کہ اس کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے۔
مذہبِ شافعی:
1: قال أصحابنا يستحب ان يصلي الرجل في أحسن ثيابه المتيسرة له ويتقمص ويتعمم•
(المجموع شرح المہذب للنووی: ج4ص196 باب ستر العورۃ)
ترجمہ: ہمارے حضرات شوافع کہتے ہیں کہ آدمی کو جو خوبصورت لباس میسر ہو وہ پہن کر نماز پڑھے، قمیض بھی پہنے اور پگڑی بھی باندھے۔
2: وَيُسَنُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَلْبَسَ لِلصَّلَاةِ أَحْسَنَ ثِيَابِهِ وَيَتَقَمَّصَ وَيَتَعَمَّمَ•
(تحفۃ المحتاج فی شرح المنہاج: ج6 ص265 باب شروط الصلاۃ)
ترجمہ: آدمی کے لیے نماز میں اچھے سے اچھا لباس پہننا سنت ہے ، قمیص پہنے، پگڑی کے ساتھ سر کو ڈھانپے۔
3: ويسن لرجل والإمام أبلغ أن يصلى في ثوبين مع ستر رأسه ولا يكره في ثوب واحد يستر ما يجب ستره•
(الاقناع لمحمد الشربینی: ج1 ص88)
ترجمہ: آدمی کے لیے سنت یہ ہے کہ دو کپڑوں میں نماز پڑھے اور سر بھی ڈھانپے، اور امام کے لیے تو یہ حکم اور بھی زیادہ تاکید رکھتا ہے اور ایک کپڑے میں نماز پڑھنا جس سے واجب ستر ڈھانکا جا سکے، مکروہ نہیں ہے۔
مذہبِ حنبلی:
ويستحب للرجل حرا كان أو عبدا أن يصلي في ثوبين ذكره بعضهم إجماعا. قال ابن تميم وغيره مع ستر رأسه بعمامة•
(المبدع شرح المقنع لبرہان الدین ابراہیم بن محمد:ج1 ص312)
ترجمہ: آزاد یا غلام کے لیے دو کپڑوں میں نماز پڑھنا مستحب ہے اور بعض علماء نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ ابن تمیم وغیرہ نے کہا ہے کہ پگڑی کے ساتھ سر کو چھپانے کے علاوہ دو کپڑے مراد ہیں۔
غیر مقلدین کے اکابر کی تصریحات:
[1]: سید نذیرحسین دہلوی صاحب:
آپ لکھتے ہیں:
اس میں کلام نہیں کہ عمامہ کے ساتھ نماز پڑھناافضل ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ وصحابہ کرامﷺ ومن بعد ھم عام طورعمامہ کی موجودگی میں عمامہ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے حضرت امام مالک ؒ فرماتے ہیں:
ادرکتُ فی مسجدِ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سبعین مُحَنَّكًا و اِنَّ احدَہم لَوِ ائْتُمَنَ علٰی بیت المال لَکان بہ امیناً•
ترجمہ: حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کی مسجد میں ستر کے قریب آدمی دیکھے جنہوں نے سرپرپگڑیاں باندھ رکھی تھی اوران میں سے ایک اس درجہ کا آدمی تھاکہ اگر اس بیت المال پرامین بنایاجائے توامین ثابت ہو،علمانے بھی یہ لکھاہے کہ نماز باعمامہ مستحب وافضل ہے۔
”رفع الالتباس عن مسائل اللباس“ میں ہے: شک نہیں کہ نماز باعمامہ کوبے عمامہ پرفضیلت ہے باعتباروقاروسکینہ واتباع سنت کے،حدیث عبادہ ؓ میں فرمایاہے کہ:
علیکم بالعِمامۃ فانھا سِیْمَاءُ الملائکۃ•
(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
ترجمہ: پگڑی سرپررکھاکروکیونکہ یہ فرشتوں کالباس ہے
اورحدیث رکانہ میں فرمایا ہے:
فرق ما بيننا وبين المشركين العمائم على القلانس
(رواہ الترمذی)
ترجمہ: رسول اللہﷺ نے فرمایاہمارے اورمشرکین کے درمیان یہ فرق ہے کہ ہمارے عماموں کے نیچے ٹوپیاں ہوتی ہیں……
ایک اورفتویٰ میں لکھاہے کہ : جمعہ کی نماز ہویاکوئی اورنماز رسول اللہﷺ اورصحابہ کرامؓ عمامہ باندھ کرنماز پڑھتے تھے اورعمامہ باندھنادربار شاہی کے منافی نہیں ہے بلکہ اسی شہنشاہ احکم الحاکمین نے اپنے دربارمیں حاضر ہونے کی نسبت یہ حکم کیاہے کہ﴿خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾ یعنی تم لوگ ہرنماز کے وقت اپنے کپڑے لے لیاکرو یعنی اپنے کپڑے پہن کرنماز پڑھاکرو اورکپڑے میں عمامہ بھی داخل ہے کیونکہ عمامہ ایک مسنون کپڑاہے۔
(فتاویٰ نذیریہ: ج3ص372، 373)
[2]: ثناءاللہ امرتسری صاحب:
موصوف لکھتے ہیں:
صحیح مسنون طریقہ نماز کاوہی ہے جوآنحضرت ﷺ سے بالدوام ثابت ہواہے یعنی بدن پرکپڑے اورسرڈھکاہواہوپگڑی سے یاٹوپی سے۔
(فتاویٰ ثنائیہ: ج1ص522 تا 523)
[3]: سید محمدداؤد غزنوی صاحب:
آپ نے اپنے والد بزرگوار امام عبدالجبار کاننگے سرنماز کے خلاف فتویٰ نقل کرکے آخر میں اپنی رائے کایوں اظہارکیاہے:
ابتداءعہد اسلام کوچھوڑ کرجب کہ کپڑوں کی قلت تھی اس کے بعد اس عاجز کی نظر سے کوئی ایسی روایت نہیں گذری جس میں باصراحت یہ مذکورہوکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یاصحابہ کرام نے مسجدمیں اوروہ بھی نماز باجماعت میں ننگے سرنماز پڑھی ہوچہ جائیکہ معمول بنالیاہو، اس لیے اس بدرسم کوجوپھیل رہی ہے بند کرناچاہیے۔
اگر فیشن کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھی جائے تونماز مکروہ ہوگی، اگر تعبد اورخضوع وخشوع وعاجزی کے خیال سے پڑھی جائے تویہ نصاریٰ کے ساتھ تشبہ ہوگا، اسلام میں ننگے سر رھناسوائے احرام کے تعبد یاخضوع وخشوع کی علامت نہیں اوراگر کسل و سستی کی وجہ سے ہے تومنافقوں کی ایک خلقت سے تشابہ ہوگا۔ وَلَا يَأْتُونَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالیٰ (نماز کوآتے ہیں توسست اورکاہل ہوکر)غرض ہرلحاظ سے یہ ناپسند یدہ عمل ہے۔
(ہفت روزہ الاعتصام ج11شمارہ نمبر18 وفتاویٰ علمائے حدیث: ج4ص291)
[4]: عبدالمجیدسوہدروی صاحب:
لکھتےہیں: بطورفیشن لاپرواہی اورتعصب کی بناءپر مستقل اورابدالآباد کے لیے یہ (ننگے سر نمازپڑھنے والی)عادت بنالیناجیسا کہ آج کل دھڑلے سے کیاجارہاہے ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے نبی ﷺ نے خود یہ عمل نہیں کیا۔
(اہلحدیث سوہدرہ ج15شمارہ22وفتاوی علمائے حدیث: ج4ص281)
[5]: ابوسعید شرف الدین دہلوی:
آپ لکھتے ہیں: بحکم ﴿خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾اور رسول اللہﷺ کاسرپرعمامہ رکھنے سے عمامہ سنت ہے اورہمیشہ ننگے سرکونماز کاشعاربنانابھی ایجادبندہ ہے(یعنی بدعت ہے)اورخلاف سنت ہے گاہے چنیں جس کاحکم اورہے شعارکااورپس اول جائز ثانی ایجاد۔
(فتاویٰ ثنائیہ: ج1ص590)
مزید لکھتے ہیں:
بعض کاشیوہ ہے کہ گھر سے ٹوپی یاپگڑی سرپررکھ کرآتے ہیں اورٹوپی یاپگڑی قصدااتارکرننگے سرنماز پڑھنے کواپناشعار بنارکھاہے اورپھراس کوسنت کہتے ہیں بالکل غلط ہے یہ فعل سنت سے ثابت نہیں ہاں اس فعل کومطلقا ناجائز کہنابھی بیوقوفی ہے۔ [ہم بھی مطلقا ًعدم جواز کے قائل نہیں کسی عذر اور مجبوری کی وجہ سے جائز ہے۔ ناقل] ایسے ہی برہنہ سرکوبلاوجہ شعاربنانابھی خلاف سنت ہے اورخلاف سنت بے وقوفی ہی توہوتی ہے۔
(فتاویٰ ثنائیہ: ج1ص521)
[6]: مولوی محمد اسماعیل سلفی:
موصوف نے ننگے سرنماز کی عادت کے خلاف بڑاطویل،مدلل،زورداراورفکرانگیزفتویٰ دیاہے، چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:
ننگے سرنماز کی عادت عقل اورفہم کے خلاف ہے عقل مند اورمتدین آدمی کواس سے پرہیز کرناچاہیے۔
آنحضرتﷺ صحابہ کرامؓ اوراہل علم کاطریقہ وہی ہے جواب تک مساجد میں متوارث اور معمول بہاہے کوئی مرفوع حدیث صحیح میری نظر سے نہیں گزری جس سے اس عادت کاجواز ثابت ہوخصوصاًباجماعت فرائض میں بلکہ عادت مبارک یہی تھی کہ پورے لباس سے نماز ادا فرماتے تھے عام ذہن کے لوگوں کو(فی ثوب واحد)اس قسم کی احادیث سے غلطی لگی ہے کہ ایک کپڑے میں نماز(ادا)کی جائے توسرننگارہے گاحالانکہ ایک کپڑے کواگر پوری طرح لپیٹاجائے تو سر ڈھکاجاسکتاہے۔غرض کسی حدیث سے بھی بلاعذرننگے سرنماز کوعادت اختیارکرناثابت نہیں محض بے عملی یابدعملی یاکس کی وجہ سے یہ رواج پڑرہاہے بلکہ جہلاتواسے سنت سمجھنے لگے ہیں العیاذ باللہ کپڑاموجود ہوتوسر ننگے نماز اداکرنایاضد سے ہوگایاقلت عقل سے نیز یہ ثابت ہوتاہے کہ اچھے کپڑوں کے ساتھ تجمل سے نماز پڑھنامستحب اورمسنون ہے آیت ﴿ خُذُوا زِينَتَكُمْ ﴾کے مضمون سے بھی اسی سے وضاحت ہوجاتی ہے۔ ان تمام گزارشات سے مقصد یہ ہے کہ سر ننگارکھنے کی عادت اوربلاوجہ ایساکرنااچھافعل نہیں یہ عمل فیشن کے طورپرروز بروز بڑھ رہاہے یہ اوربھی نامناسب ہے۔۔
ویسے یہ مسئلہ کتابوں سے زیادہ عقل وفراست سے متعلق ہے اگر اس جنس لطیف سے طبعیت محروم نہ ہوتوننگے سرنمازویسے ہی مکروہ معلوم ہوتی ہے۔
(فتاویٰ علماءحدیث ج4ص286تا289)
[7]: مولوی عبدالستار:
نائب مفتی محکمۃ القضاء الاسلامیہ ، جماعت غرباءاہلحدیث لکھتے ہیں:
ٹوپی یاعمامہ کے ساتھ نماز پڑھنی اولیٰ وافضل ہے کیونکہ ٹوپی اورعمامہ باعث زیب وزینت ہے۔
(فتاویٰ ستاریہ ج3ص59)
[8]: سید محب اللہ شاہ راشدی:
سید محب اللہ شاہ راشدی غیرمقلد نے حافظ نعیم الحق نعیم کے فتویٰ کہ ننگے سرنماز ہوجاتی ہے، کارد بڑے پرزورانداز اورتحقیقی لب ولہجہ سے کیاہے فتوی بڑاطویل ہے، چند اقتباسات حاضرخدمت ہیں:
”یہ کہنا کہ سر ڈھانپنے پر پسندیدہ ہونے کاحکم نہیں لگایاجاسکتاہے، اس سے راقم الحروف کو اختلاف احادیث کے تبتع سے معلوم ہوتاہے کہ اکثر وبیشتر اوقات آنحضرتﷺ اورصحابہ کرامؓ سرپرعمامہ باندھے رہتے یاٹوپیاں ہوتی تھیں اورراقم الحروف کے علم کی حدتک سوائے حج وعمرہ کوئی ایسی صحیح حدیث دیکھنے میں نہیں آئی جس میں یہ ہوکہ آنحضرت ﷺ ننگے سر گھومتے پھرتے تھے یا کبھی سرمبارک پرعمامہ وغیرہ تھالیکن مسجد میں آکرعمامہ وغیرہ اتارکررکھ لیااورننگے سرنمازپڑھنی شروع کی۔
اگر یہ آنحضرتﷺ کاپسندیدہ معمول نہ ہوتاتو جس طرح سرپرعمامہ یاٹوپی کاثبوت مل رہاہے اس طرح ننگے سر چلتے پھرتے رہنے یاننگے سرنماز پڑھنے کے متعلق بھی روایات ضرورمل جاتیں لیکن اس قسم کی ایک روایت بھی میرے علم میں نہیں آئی، جب یہ آنحضرتﷺ کاپسندیدہ معمول ہواتویہ عمل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاپسند ہوگا۔سرڈھانپ کرچلتے پھرتے یانمازوغیرہ پڑھنے کوپسندیدہ قرارنہ دیناصحیح معلوم نہیں ہوتا اسی طرح ہم نے بڑے بڑے علماءوفضلاءکو دیکھا کہ وہ اکثر وبیشتر سرڈھانپ کرچلتے پھرتے اور نماز پڑھتے ہیں یہ آج کل جونئی نسل خصوصا اہل حدیث جماعت کے افراد کامعمول بنارکھاہے اسے چلتے ہوئے فیشن کااتباع توکہاجاسکتاہے۔ مسنون نہیں یاکسی چیز کے جائز ہونے کایہ مطلب ہے کہ مندوبات و مستحبات کوبالکل ترک کر دیا جائے لیکن آج کل کے معمول سے تویہ ظاہر ہورہاہے کہ کتب احادیث میں جوجومندوبات ومستحبات، سنن ونوافل کے ابواب موجود ہیں یہ سراسر فضول ہیں اورہمیں صرف جواز اور رُخص پر ہی عمل کرناہے یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے ہمیں کیاضرورت پڑی ہے کہ ان(یعنی حنفیوں) کے لیے مستحبات کاخاتمہ بھی کردیں اورننگے سر نماز پڑھنے کاکوئی دائمی معمول بنالیںپھراگر یہی مقصودتھا تو گھر سے ہی ننے سر آتے اورنماز پڑھ لیتے لیکن یہ عجیب طرفہ تماشا ہے کہ گھر سے توٹوپی وغیرہ سر پررکھ آتے ہیں لیکن مسجد میں داخل ہوکرسرسے ٹوپی وغیرہ اتارکرایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ اورنماز شروع کردیتے ہیں۔اب عوام میں یہ غلط فہمی پھیلتی جاتی ہے کہ گھر سے توٹوپی وغیرہ سرپررکھ کر آنا چاہیے لیکن مسجد میں آکراس کو اتار دینا چاہیے اورننگے سرہی نمازپڑھنی چاہیے۔ کیونکہ یہی سنت رسول ﷺ ہے اس لیے کہ اہلحدیث جماعت کے بہت سے افراد کااس پرعمل ہے۔اب آپ ہی سوچیں کہ یہ کتنی بڑی غلطی ہے اوریہ محض اہلحدیثوں کے طرز عمل سے ہی پیداہورہی ہے حالانکہ صحیح توکجامجھے توایسی ضعیف حدیث بھی نہیں ملی جس میں یہ ہوکہ آنحضرت ﷺ گھرسے تواس حال میں نکلے کہ سرپرعمامہ وغیرہ تھالیکن مسجد میں آتے ہی اس کو اتار لیا اور ننگے سرنماز پڑھی، پھراس کودائمی اورمستمرہ معمولات میں سے بنانے کی وجہ سے لوگوں کوکیایہ خیال نہ گزرتاہوگاکہ آنحضرت ﷺ کی سنت ہے تواس غلط فہمی کے دورکرنے کے لیے بھی کیایہ اہم وپسندیدہ بات نہیں کہ اکثر وبیشتر سرڈھانپ دیاجائے خواہ نمازمیں خواہ اس سے باہر تاکہ یہ غلطی رفع ہوجائے۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے جواز کے ثبوت سے اس کانزلہ یہ حضرات صرف اسی بیچاری ٹوپی وغیرہ پرہی کیوں گرانے پرمصرہیں۔ اگر ننگے سر نماز پڑھنے کے مسنون ہونے کامدارآپ حضرات ایک کپڑے میں نماز پڑھنے والی حدیث پرہی رکھتے ہیں توبسم اللہ آپ گھر سے ہی ایک کپڑے میں آئیں اور نماز بھی پڑھ لیں اوریہ اچھی ستم ظریفی ہے کہ گھر سے توقمیض،شلوار،کوٹ، وغیرہ پہن کرآتے ہیں اورمسجد میں دخول کے بعد صرف پگڑی یاٹوپی اتارکرنمازپڑھنی شروع کردی، یاللعجب۔
مجھے توسرڈھانپنا ہرحال میں بہتر اولی اورمستحب و مندوب نظرآتاہے۔
(الاعتصام، مجریہ22 دسمبر 1989ءج45شمارہ27)
[10]: مولوی عبیدا للہ عفیف:
موصوف لکھتے ہیں:
قرآن مجید کے اطلاق، رسول اللہ ﷺ کے ارشاد،صحابہ کرامؓ کی تصریحات، شارحین حدیث کی تحقیقات اورشیخ امام ابن تیمیہ ودیگر مفتیان عظام کے فتاویٰ جات زیب قرطاس کرنے کے بعد اتمام حجت کے طورپرعملی توارث بھی پیش کردینا نامناسب نہ ہوگا۔سوواضح رہے کہ رسول اللہﷺ صحابہ کرام سلف صالحین اوراہل علم کاطریق وہی رہاہے جو شروع سے اب تک مساجد میں متوارث ومعمول بہاچلاآرہاہے یعنی رسول اللہﷺ اورسلف صالحین کی عادت یہی تھی کہ پگڑی یاٹوپی سمیت پورے لباس میں نماز ادافرماتے تھے لیجئے پڑھیئے اوراس غلط رواج پرکچھ غورفرمائیے!
ایک اورمقام پرلکھتے ہیں:
خلاصہ کلام یہ ہے اس (ننگے سر نماز پڑھنے)کورسول اللہﷺ کی سنت اورعادت مبارک سمجھنا صحیح نہیں بلکہ اس جواز کوشعاربنالینابد رسم اورایجادبندہ(یعنی بدعت) ہے اورعافیت اس کے ترک ہی میں ہے۔ پس پورالباس قمیض،تہبنداورپگڑی وغیرہ پہن کراوربن ٹھن کرنماز پڑھنی چاہیے،کیونکہ رسول اللہﷺ کی عادت مستمرہ اورسلف وخلف اہل علم کامتواترعمل یہی رہاہے کہ وہ پگڑی اورٹوپیوں کے ساتھ نمازپڑھاکرتے تھے اوریہی طریق سنت اورافضل ہے۔ کوئی ایسی مرفوع حدیث صحیح اورصریح میرے ناقص علم ومطالعہ میں نہیں گزری جس سے اس عادت اور فیشن کاثبوت ملتا ہوچہ جائے کہ اس رواج اوربدرسم کوسنت کہاجائے یااس کوسنت باورکرانے کے لیے اشہب قلم کو مہمیز کی جائے اوراضطراب کاباب اس سے الگ ہے۔
(فتاویٰ محمدیہ بترتیب مبشر احمد ربانی: ج1ص385)
غیر مقلدین کے شبہات
غیر مقلدین اس مسئلہ میں چند شبہات پیش کرتے ہیں اور احادیث وآثار سے غلط استدلال کرتے ہیں۔ مثلاً
شبہ نمبر1:
حضرت عمر وبن ابی سلمہ سے روایت ہے :
رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی ثوب واحد مشتملاً بہ فی بیت ام سلمۃ•
(بخاری ومسلم )
غیر مقلدین کہتے ہیں : عربی میں ”اشتمال “ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک چادر بدن پر اس طرح لپیٹی جائے کہ دائیں طرف کا کنارہ بائیں طرف کے کندھے پر لے جاکر گردن کے پیچھے سےدونوں کونوں کو باندھ دیتے ہیں۔ اس صورت میں ضرور دونوں بازو اور سر بھی ننگا ہوتا ہے۔
(کون کہتا ہے ؟:ص 15)
جواب نمبر1:
اس حدیث کا مطلب سمجھنے کےلیے ایک اور حدیث دیکھی جائے گی۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رأيته يصلي في ثوب واحد مُتَوَشِّحًا به•
(صحیح مسلم: رقم الحدیث518)
ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ آپ ایک کپڑے کے دونوں کنارے اپنے اوپر الٹ پلٹ کیے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔
اس حدیث کے لفظ ”تو شیخ“ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ پورے بدن کو لمبے کپڑے سے اس طرح ڈھانپا جائے کہ سر پر بھی یہ کپڑا آجائے۔ چنانچہ البحر الرائق میں ہے :
التَّوْشِيحُ أَنْ يَكُونَ الثَّوْبُ طَوِيلًا يَتَوَشَّحُ بِهِ فَيَجْعَلُ بَعْضَهُ على رَأْسِهِ وَبَعْضَهُ على مَنْكِبَيْهِ وَعَلَى كل مَوْضِعٍ من بَدَنِهِ
(البحر الرائق: ج2 ص44باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیہا)
ترجمہ: ”توشیح“ کا مطلب یہ ہے کہ ایک لمبے کپڑے کو اس طرح لپیٹا جائے کہ اس کا کچھ حصہ سر پر ہو، کچھ دونوں کندھوں پر ہو اور (جہاں تک ممکن ہو) بدن کے ہر حصہ پر ہو۔
المحیط البرہانی میں ہے:
قال نجم الدين في «كتاب الخصائل»: قلت لشيخ الإسلام: إن محمداً يقول في «الكتاب» لا بأس بأن يصلي في ثوب واحد متوشحاً به، وقال: مراد محمد أن يكون ثوباً طويلاً يتوشح به فيجعل بعضه على رأسه وبعضه على منكبيه، وعلى كل موضع من بدنه أما ليس فيه تنصيص على إعراء الرأس والمنكبين•
(المحیط البرہانی: کتاب الصلاۃ ، فی الفصل بین الاذان و الاقامۃ)
ترجمہ: امام نجم الدین النسفی اپنی تالیف ”کتاب الخصائل“ میں لکھتے ہیں: میں نے شیخ الاسلام ابو لحسن السُّغْدی البخاری سے پوچھا کہ امام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ اللہ نے اپنی تالیف ”الکتاب“ میں لکھا ہے کہ اگر نمازی ایک کپڑے کو توشیحاً لپیٹ کر نماز پڑھے تو کوئی حرج نہیں (اس کا مطلب کیا ہے؟) تو انہوں نے جواب دیا کہ امام محمد رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ ایک لمبے کپڑے کو اس طرح لپیٹا جائے کہ اس کا کچھ حصہ سر پر ہو، کچھ دونوں کندھوں پر ہو اور (جہاں تک ممکن ہو) بدن کے ہر حصہ پر ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سر اور کندھے ننگے ہوں۔
لہذا اس دوسری حدیث سے معلوم ہو گیا کہ ایک کپڑے میں نماز اس طرح نہیں تھی کہ سر ننگا رہے جیسا کہ غیر مقلدین نے سمجھ رکھا ہے بلکہ ایک کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے سر بھی ڈھانپا جاسکتا ہے جیسا کہ توشیح کے معنی سے واضح ہوتا ہے۔
جواب نمبر2:
یہ بیان جواز کےلیے ہے۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وھذا کلہ دلیل لبیان الجواز •
(شرح مسند بی حنیفۃ لعلی القاری ج1ص164)
ترجمہ: یہ بیان جواز کے لیے ہے۔
جواب نمبر3
یہ مجبوری کی حالت تھی کہ اس وقت کپڑوں کی قلت تھی لوگ غریب تھے۔ چنانچہ مسند احمد میں حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے:
الصَّلَاةُ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ سُنَّةٌ كُنَّا نَفْعَلُهُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يُعَابُ عَلَيْنَا فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ إِنَّمَا كَانَ ذَاكَ إِذْ كَانَ فِي الثِّيَابِ قِلَّةٌ فَأَمَّا إِذْ وَسَّعَ اللَّهُ فَالصَّلَاةُ فِي الثَّوْبَيْنِ أَزْكٰى•
(مسند احمد بن حنبل: ج15 ص472 رقم الحدیث21173)
ترجمہ: ایک کپڑ ے میں نماز ہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں پڑھتے تھے لیکن اس وقت ہم پر کوئی بھی عیب نہ دھرتا تھا۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہ اس لیے تھا کہ اس وقت کپڑوں کی قلت تھی (لوگ غریب تھے) لیکن آج کے دور میں اللہ نے ہمیں وسعت دی ہے تو نماز دو کپڑوں میں بہتر ہے۔
معلوم ہو اکہ اس مسئلے کا تعلق سر ڈھناپنے سے نہیں بلکہ اس کا تعلق وسعت کے ساتھ ہے۔
جواب نمبر4:
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خود غیر مقلد عالم سے اس حدیث کا طلب بیان کر دیا جائے ممکن ہے گھر کی گواہی کے سامنے سر تسلیم خم ہوجائے۔ مولوی محمد اسماعیل سلفی لکھتے ہیں:
آنحضرتﷺ صحابہ کرامؓ اوراہل علم کاطریقہ وہی ہے جواب تک مساجد میں متوارث اور معمول بہاہے کوئی مرفوع حدیث صحیح میری نظر سے نہیں گزری جس سے اس عادت کاجواز ثابت ہوخصوصاًباجماعت فرائض میں بلکہ عادت مبارک یہی تھی کہ پورے لباس سے نماز ادا فرماتے تھے عام ذہن کے لوگوں کو(فی ثوب واحد)اس قسم کی احادیث سے غلطی لگی ہے کہ ایک کپڑے میں نماز(ادا)کی جائے توسرننگارہے گاحالانکہ ایک کپڑے کواگر پوری طرح لپیٹاجائے تو سر ڈھکاجاسکتاہے۔غرض کسی حدیث سے بھی بلاعذرننگے سرنماز کی عادت اختیارکرناثابت نہیں محض بے عملی یابدعملی یاکس کی وجہ سے یہ رواج پڑرہاہے بلکہ جہلاتواسے سنت سمجھنے لگے ہیں۔
(فتاویٰ علماءحدیث ج4ص286تا289)
شبہ نمبر2:
زیارت بیت اللہ کے وقت سر ننگا رکھنا ضروری ہوتا ہے جو دلیل خشوع ہے اور نماز میں بھی خشوع و خضوع مطلوب ہے۔ لہذا نماز میں بھی سر ننگا رکھنا جائز ہے۔
جواب:
اس کے جواب میں ہم ناصر الدین البانی صاحب کی عبارت پیش کرنا کافی سمجھتے ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں:
وأما استدلال بعض إخواننا من أنصار السنة في مصر على جوازه قياسا على حسر المحرم في الحج فمن أبطل قياس قرأته عن هؤلاء الإخوان كيف والحسر في الحج شعيرة إسلامية ومن مناسكه التي لا تشاركه فيها عبادة أخرى ولو كان القياس المذكور صحيحا للزم القول بوجوب الحسر في الصلاة لأنه واجب في الحج وهذا إلزام لا انفكاك لهم عنه إلا بالرجوع عن القياس المذكور ولعلهم يفعلون
(تمام المنۃ فی التعلیق علی فقہ السنۃ: ج1 ص165)
ترجمہ: اور رہا مصر میں ہمارے سنت کے پیروکار بھائیوں کا ننگے سر کے جواز کو حج میں احرام والے شخص کے ننگے سر ہونے پر قیاس کرنا جو میں نے پڑھا ہے، بالکل باطل ہے اور یہ قیاس صحیح کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ حج میں ننگے سر رہنا اسلامی شعار ہے اور حج کے ان مناسک میں سے ہے کہ جن میں کوئی دوسری عبادت شریک نہیں۔ اور اگر مذکورہ قیاس صحیح ہوتا تو پھر نماز میں سر ننگا کرنے کاقول لازم ہو گا (نہ کہ محص جائز) کیونکہ حج میں (بحالت احرام) یہ واجب ہے اور یہ ایسا الزام ہے کہ ان لوگوں کے لیے اس سے چھٹکارے کا کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ اہنے مذکورہ قیاس سے رجوع کریں اور شائد کہ وہ اپنے قیاس سے رجوع کر لیں۔
شبہ نمبر 3:
خود فقہ کی کتابوں میں ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنا اگر خشوع کےارادے سے ہو تو درست ہے۔ مثلاًمنیۃ المصلی میں ہے :
وان یصلی حاسرا راسہ تکا سلاً ولا باس اذا فعلہ تذللاً وخشوعاً•
(منیۃ المصلی فصل کراھیۃ الصلاۃ)
ترجمہ:ننگے سر نماز پڑھنا اگر سستی کی وجہ سے ہے تو مکروہ ہے اور اگر عاجزی وخشوع کےارادے سے پڑھے تو کوئی حرج نہیں۔
جواب:
غیر مقلدین فقہاءکرام کی ان عبارات کا مطلب نہیں سمجھے اس لیے اس غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہم شیخ ابراہیم حلبی (م956ھ) کی حلبی کبیر شرح منیۃ المصلی سے اس کا مطلب پیش کرتے ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں:
( ولا باس اذا فعلہ) ای کشف الراس(تذللاً وخشوعاً) لان ذلک ھو المقصود الاصلی فی الصلوٰۃ وفی قولہ : لہ باس بہ اشارۃ الی ان الاولی ان لا یفعلہ وان یتذلل ویخشع بقلبہ فانھما من افعال القلب•
(حلبی کبیر ص 349 کراھیۃ الصلاۃ)
ترجمہ:اور اگر عاجزی او رخشوع کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھے تو حرج نہیں اس لیے کہ عاجزی اور خشوع ہی نماز میں مقصود اصلی ہے اور یہ جو فرمایا کہ حرج نہیں اس کہنے میں اشارہ ہے کہ افضل یہی ہے کہ عاجزی وخشوع کی صورت میں بھی سر ننگا نہ کرے اور عاجزی وخشوع اپنے دل میں اختیار کرے کیونکہ یہ دونوں دل کے اعمال ہیں۔
منیۃ المصلی کی شرح حلبی صغیر میں ہے :
وفی قولہ لاباس اشارۃ الی ان الاولیٰ ان لا یفعلہ لان فیہ ترک اخذ الزینۃ الما مور بھا مطلقاً فی الظاہر•
(حلبی صغیر : فصل کراھیۃ الصلاۃ)
ترجمہ: اور یہ جو فرمایا کہ ”حرج نہیں“ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ افضل یہی ہے کہ عاجزی وخشوع کی صورت میں بھی سر ننگا نہ کرے کیونکہ سر ننگا کرنے میں اس زینت کو چھوڑنا لازم آتا ہے جس کا شریعت کی طرف سے بظاہر ہر حال میں حکم دیا گیا ہے (یعنی خواہ خشوع ہو یا نہ ہو)۔
مطلب یہ ہے کہ خواہ کسی کی عاجزی یا خشوع کی نیت ہو بھی تب بھی افضل یہی ہے کہ نماز ننگے سر نہ پڑھے بلکہ سر ڈھانپ کر پڑھے تاکہ زینت جس کا حکم خد تعالیٰ نے دیا ہے کو ترک کرنا لازم نہ آئے۔
تنبیہ:
یہاں تو غیر مقلدین خشوع کا بہانہ کرکے ننگے سر نماز کے دعوے کر رہے ہیں لیکن قرآن کی آیت ” الذین ھم فی صلاتھم خٰشعون“ میں جب خشوع کا حکم ہوتا ہے اور حضرت ابن عباس اور حضرت حسن بصری اس کی تفسیر عدم رفع یدین فی الصلاۃ سے کرتے ہیں تو غیر مقلدین رفع یدین کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کیسی دورخی پالیسی ہے؟
غیر مقلدین کا ایک عمومی و عوامی اشکال:
اگر ننگے سر نماز پڑھنا بے ادبی ہے تو پھر حج و عمرہ کرنے والے کو بھی بے ادب کہو کیونکہ وہ بھی ننگے سر ہوتا ہے۔
جواب:
شریعت اعمال بجالانے کا نام نہیں بلکہ اداء پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کا نام ہے۔ اگر اعمال اداءِ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق ہیں تو دین ہیں اور اگر اداء پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق نہ ہوں تو یہ دین نہیں ہے۔ مثلاً:
(1): رمضان المبارک کے دنوں میں صبح صادق سے غروب آفتاب تک نہ کھانے کا نام روزہ ہے۔ اگر کوئی بندہ غروب آفتاب کے بعد بھی کھانے سے رک جائے تو یہ دین نہیں بلکہ موجبِ گناہ ہے، کیونکہ اداء پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف ہے۔
(2): 29 یا 30 رمضان تک روزے رکھنا اداء پیغمبر کے مطابق ہے اس لیے مطابق شریعت ہے۔ اگر کوئی شخص یکم شوال کو بھی روزہ رکھے تو یہ خلافِ شریعت ہے اس لیے کہ اداء پیغمبر نہیں۔
اب اداء پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں سر ڈھانپنا اور عمرہ میں سر ننگا رکھنا ہے۔ لہذا نماز میں سر ڈھانپنا اور حج و عمرہ میں سر ننگا رکھنا ہی عین ادب ہے کیونکہ ادء پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق ہے۔ واللہ اعل

م

Download PDF File