فقہ حنفی پر اعتراضات کے جوابات

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فقہ حنفی پر اعتراضات کے جوابات
از افادات متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
اعتراض نمبر1:
فقہ حنفی میں خون اور پیشاب کے ساتھ سورۃ فاتحہ لکھنا جائز ہے۔
رد المحتار میں ہے:
لَوْ رَعَفَ فَكَتَبَ الْفَاتِحَةَ بِالدَّمِ عَلَى جَبْهَتِهِ وَأَنْفِهِ جَازَ لِلِاسْتِشْفَاءِ ، وَبِالْبَوْلِ أَيْضًا
(رد المحتار لابن عابدین: ج1 ص406 مطلب فی التداوی بالمحرم)
ترجمہ: اگر کسی کی نکسیر جاری ہوئی اور اس نے اس خون سے اپنی پیشانی اور ناک پر فاتحہ لکھ لی تو شفاء کے حصول کے لیے یہ جائز ہے، اسی طرح پیشاب کے ساتھ بھی ایسا کرنا جائز ہے۔
جواب:
مذہب حنفیہ میں بغیر طہارت قرآن مجید کو چھونا جائز نہیں۔
لا یجوز لِمُحْدِثٍ اداءُ الصلاۃِ لفقدِ شرطِ جوازِھا و ھو الوضوء۔۔۔۔ ولا مسُّ مُصْحَفٍ من غیرِ غلافٍ عندنا.
(بدائع الصنائع: ج1 ص140 مطلب فی مس المصحف، الدر المختار: ج1 ص197 کتاب الطہارۃ)
ترجمہ: بغیر وضوء آدمی کےلیے نماز ادا کرنا جائز نہیں کیونکہ وضوء کی شرط نہیں پائی گئی اور بغیر غلاف کے قرآن کو چھونا جائز نہیں۔
جب حنفیہ اتنی احتیاط کرتے ہیں تو ان کے ہاں خون یا پیشاب سے -معاذ اللہ- قرآن لکھنا کیسے جائز ہو گا؟؟
ضابطہ:
امور محرمہ از قسم اقوال و افعال بحالت اکراہ واجبار اور بوقت مخمصہ واضطرار قابل مواخذہ نہیں رہتے ، حقِ عمل میں حرمت مبدَّل بحلت ہوجاتی ہے جب کہ حق اعتقاد میں حرمت بدستور برقرار رہتی ہے۔
اقوال کی مثال:
مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
(سورۃ النحل: 106)
ترجمہ: جو شخص اللہ پر ایمان لانے کے بعد اس کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرے- وہ نہیں جسے زبردستی (کلمہ کفر کہنے پر) مجبور کر دیا گیا ہو جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، بلکہ وہ شخص جس نے اپنا سینہ کفر کے لیے کھول دیا ہو- تو ایسے لوگوں پر اللہ کی جانب سے غضب نازل ہو گا اور ان کے لیے زبردست عذاب تیار ہے۔
افعال کی مثال:
فَمَنْ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلا عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
(سورۃ البقرۃ: 173)
ترجمہ: اگر کوئی شخص انتہائی مجبوری کی حالت میں ہو(اور ان چیزوں میں سے کچھ کھا لے) جبکہ اس کا مقصد نہ لذت حاصل کرنا ہو اور نہ وہ (ضرورت کی) حد سے آگے بڑھے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ یقیناً اللہ بہت بخشنے والا مہربان ہے۔
اس آیت میں ”اکل حرام“ عملا ً حلال ہے، دلیل اس کی﴿فَلا إِثْمَ﴾ ہے ، اور اعتقاداً حرام ہے، دلیل اس کی﴿غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ہے کیونکہ مغفرت گناہ کے بعد ہی ہوتی ہے۔
اصل عبارت:
علامہ ابن عابدین شامی نے الدر المختار لعلاء الدین الحصکفی کی جس عبارت کی شرح کی ہے، وہ اصل عبارت یہ ہے:
اُخْتُلِفَ فِي التَّدَاوِي بِالْمُحَرَّمِ وَظَاهِرُ الْمَذْهَبِ الْمَنْعُ
(الدر المختار: ج1 ص405 ص406 کتاب الطہارۃ)
ترجمہ: حرام چیزوں سے علاج کرنے میں اختلاف ہے، حنفیہ کا ظاہر مذہب (یعنی امام صاحب کا قول)یہ ہے کہ حرام اشیاء سے علاج کرنا منع ہے۔
اس کی شرح میں علامہ شامی رحمہ اللہ نے ”النہایۃ شرح الہدایۃ لحسام الدین السغناقی“ کے حوالے سے لکھا ہے:
فَفِي النِّهَايَةِ عَنْ الذَّخِيرَةِ يَجُوزُ إنْ عَلِمَ فِيهِ شِفَاءً وَلَمْ يَعْلَمْ دَوَاءً آخَرَ .
(رد المحتار: ج1 ص405مطلب فی التداوی بالمحرم)
ترجمہ:” نہایہ“ میں ”ذخیرہ“ کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ (تداوی بالمحرم کی گنجائش اس وقت ہے کہ) اگر حرام میں شفاء کا علم (یعنی یقین) ہو اور اس کے علاوہ اسے کوئی دوا معلوم نہ ہو۔
اعتراض:
دونوں اقوال میں تعارض ہے کہ پہلے قول سے منع ثابت ہو رہا ہے اور دوسرے سے جواز۔
جواب:
قولِ اول (عدمِ جواز)حالتِ اختیار کا ہے جب کہ قولِ ثانی(جواز) حالت اضطرار کا ہے۔ چنانچہ علامہ شامی خود اس عبارت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں:
( قَوْلُهُ وَظَاهِرُ الْمَذْهَبِ الْمَنْعُ ) مَحْمُولٌ عَلَى الْمَظْنُونِ كَمَا عَلِمْتَهُ۔
(رد المحتار: ج1 ص406 مطلب فی التداوی بالمحرم)
کہ تداوی بالمحرم اس صورت میں منع ہے جب اس میں شفاء مظنون و موہوم ہو (یقینی نہ ہو)
اعتراض:
قول اول یعنی قول امام اعظم رحمہ اللہ اگرچہ قول ثانی کا مخالف نہیں لیکن حدیث کے تو خلاف ہے۔ اس لیے کہ حدیث میں ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَجْعَلْ شِفَاءَكُمْ فِيمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج10 ص5 باب النہی عن التداوی بالمسکر)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں میں شفاء نہیں رکھی جن کو تم پر حرام قرار دیا ہے۔
جواب:
تعارض کےلیے وحدات ثمانیہ کا پایا جانا ضروری ہے۔
در تناقض ہشت

وحدت شرط داں

وحدتِ موضوع

و محمول و مکاں

وحدتِ شرط و

اضافت، جزء و کل

قوت و فعل

است در آخر زماں

ان میں ایک ” وحدت زمان“ بھی ہے جو یہاں نہیں ہے، کیونکہ حدیث حالتِ اختیار کے لیے ہے اور قول ِ امام حالت اضطرار میں ہے۔
مثال: کوئی کہے کہ علاج نہیں کرانا چاہیے اور مراد ہو زمانہ صحت ، دوسر ا کہے علاج کرانا چاہیے اور مراد ہوزمانہ مرض، تو اس میں کیا تعارض ہے !
اعتراض:
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام دوا میں مطلقا ًشفاء نہیں جب کہ مذہبِ امام میں حرام کا بحالت اختیار استعمال کرنا ناجائز مگر بحالت اضطرار استعمال کرنا جائز ہے، تو ایک صورت تو پھر بھی مخالف حدیث ہوگئی۔
جواب:
بحالتِ اضطرار وہ چیز حرام رہتی ہی نہیں بلکہ حلال ہوجاتی ہے۔ اس موقف کے مطابق حکمِ خداوندی﴿فَمَنْ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلا عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ﴾ پر بھی عمل ہوگیا اور ”إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَجْعَلْ شِفَاءَكُمْ فِيمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ“ حدیث پر بھی۔
یہ ہےفقاہتِ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ، اور یہی مصداق ہے اس حدیث کا:
” مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ“
(صحیح البخاری: ج1 ص16 باب من یرد اللہ بہ خیرا )
ترجمہ: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں۔
اصل مسئلہ:
وَكَذَا اخْتَارَهُ صَاحِبُ الْهِدَايَةِ فِي التَّجْنِيسِ فَقَالَ : لَوْ رَعَفَ فَكَتَبَ الْفَاتِحَةَ بِالدَّمِ عَلَى جَبْهَتِهِ وَأَنْفِهِ جَازَ لِلِاسْتِشْفَاءِ ، وَبِالْبَوْلِ أَيْضًا إنْ عَلِمَ فِيهِ شِفَاءً لَا بَأْسَ بِهِ ، لَكِنْ لَمْ يُنْقَلْ
اصل میں ”إنْ عَلِمَ فِيهِ شِفَاءً“ شرط اور ”لَا بَأْسَ بِهِ“ جزا ہے اورشرط ِعلم جب منتفی ہے تو جزاء ”لَا بَأْسَ بِهِ“ خود بخود منتفی ہوگئی کیونکہ ضابطہ ہے کہ مقدم اور تالی (یعنی شرط وجزا ) میں نسبت تساوی کی ہوتو سلبِ مقدم سلبِ تالی کو مستلزم ہوتا ہے ، جیسے ”اِنْ کانت الشمسُ طالعۃً فالنھارُ موجود لکنَّ الشمسُ لیستْ بطالعۃٍ“ لہذا نتیجہ یہ ہو گا: ”فالنھارُلیس بموجودٍ“
اعتراض:
شرط ”إنْ عَلِمَ فِيهِ شِفَاءً“ہے اور نفی اس کی نہیں ، بلکہ نفی ”يُنْقَلْ“ کی ہے اور وہ شرط نہیں۔
جواب:
کتابت بالدم کا ”مو جبِ شفاء ہونا یا نہ ہونا“ نہ عقلاً معلوم ہو سکتا ہے نہ طباً کیونکہ فنِ طب میں ادویات کی تاثیر سے بحث ہوتی ہے نہ کہ عملیات کی تاثیر سے۔ اگر اس کا”مو جبِ شفاء ہونا یا نہ ہونا“ شرعاً ہوگا تو وہ منقول نہیں۔ جب منقول نہیں تو معلوم بھی نہیں۔ اور یہاں علم سے مراد علمِ شرعی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ فقہاء اس کا جائز ہونا نہیں بلکہ حرام ہونا ثابت کررہے ہیں، اب بھی اگر کوئی ان پر اعتراض کرتا ہے تو یہ ایسا ہے جیسے کوئی ” لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ “ تو پڑھے مگر ” وَأَنْتُمْ سُكَارٰى“ کو چھوڑ دے، یا ”لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ“ تو پڑھے مگر ”إِنْ كَانَ“ کو چھوڑ دے۔
فائدہ:
غیر مقلدین کو یہ اعتراض ویسے بھی نہیں ہونا چاہے کیونکہ ان کے مذہب میں تو منی، خون، شرمگاہ کی رطوبت اور شراب پاک ہے۔ علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں:
و المنی طاہر و غسلہ و فرک الیابس منہ ازکیٰ و اولیٰ و کذلک الدمُ غیرُ دم الحیض و رطوبۃُ الفرج و الخمرُو بولُ الحیوانات غیرَ الخنزیر.
(کنز الحقائق من فقہ خیر الخلائق: ص16)
ترجمہ: منی پاک ہے، اسے دھونا اور خشک کو کھرچنا بہتر ہے۔ اسی طرح حیض کے خون کے علاوہ دیگر خون، عورت کی شرمگاہ کی رطوبت، شراب اور خنزیر کے علاوہ دیگر جانوروں کا پیشاب بھی پاک ہے۔
حتیٰ کہ کتے کا پیشاب اور پاخانہ بھی نجس نہیں:
وکذالک فی بول الکلب و خزاءہ و الحق انہ لا دلیل علی النجاسۃ
(نزل الابرار: ص50)
ترجمہ: اور بے وضو قرآن چھونا بھی جائز ہے۔
محدث را مس مصحف جائز باشد۔
(عرف الجادی از نواب میر نور الحسن خان: ص 15)
ترجمہ: بے وضو آدمی کے لیے قرآن مجید کو چھونا جائز ہے۔
اعتراض نمبر2:
اگر کوئی مسلمانوں کی رعیت میں رہتا ہواور کسی مسلمان عورت سے زنا کر ے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو گالی دے تو اس کو قتل نہیں کرنا چاہیے:
أو زَنىٰ بِمُسْلِمَةٍ أو سَبَّ النبي صلى اللَّهُ عليه وسلم لم يُنْقَضْ عَهْدُهُ
(فتاویٰ عالمگیری: ج1 ص276 کتاب السیر- الباب الثامن فی الجزیۃ)
جواب:
غیر مقلدین اس مسئلہ کو خلط کر دیتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ذمی کا معاہدہ اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک وہ خلاف عہد کوئی کام نہ کرے، البتہ اگر منکرات شرعیہ میں سے کسی کا ارتکاب کرے تو اس پر حد جاری کی جائے گی اگر چہ عہد برقرار رہے گا۔
اس طرح یہ دو مسئلے ہیں۔
پہلا مسئلہ: منکرات شرعیہ کے ارتکاب سے حد کا جاری ہونا
رد المحتار میں ہے:
( قَوْلُهُ وَلَا بِالزِّنَا بِمُسْلِمَةٍ ) بَلْ يُقَامُ عَلَيْهِ مُوجِبُهُ ، وَهُوَ الْحَدُّ
( ج6 ص331-مطلب فی حکم سب الذمی النبی صلی اللہ علیہ و سلم)
الدر المختار میں ہے:
( وَيُؤَدَّبُ الذِّمِّيُّ وَيُعَاقَبُ عَلَى سَبِّهِ دِينَ الْإِسْلَامِ أَوْ الْقُرْآنَ أَوْ النَّبِيَّ ) صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاوِيٌّ وَغَيْرُهُ قَالَ الْعَيْنِيُّ : وَاخْتِيَارِي فِي السَّبِّ أَنْ يُقْتَلَ ا لخ وَتَبِعَهُ ابْنُ الْهُمَامِ .قُلْت : وَبِهِ أَفْتَى شَيْخُنَا الْخَيْرُ الرَّمْلِيُّ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ
(الدر المختارلعلاء الدین الحصکفی: ج6 ص332 الی 333)
ترجمہ: ذمی کو دین اسلام یا قرآن یا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں نازیبا کلمات کہنے کی وجہ سےتادیباً سزا دی جائے گی اور خوب پکڑ ہو گی۔حاوی وغیرہ میں اسی طرح ہے۔علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذمی کے گالی دینے کی صورت میں میری رائے یہی ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ ابن الہمام کی رائے بھی اسی طرح ہے۔ میں (علامہ الحصکفی) کہتا ہوں کہ یہی فتویٰ ہمارے شیخ خیر الرملی نے دیاہے اور یہی امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے ہے۔
اوریہ بھی تب جب صرف اپنے حلقہ میں خفیہ طو ر پر سبّ کرے لیکن اگر علانیہ کرے تو سزا صرف اور صرف قتل ہے۔ چنانچہ رد المحتار میں ہے:
أَيْ إذَا لَمْ يُعْلِنْ ، فَلَوْ أَعْلَنَ بِشَتْمِهِ أَوْ اعْتَادَهُ قُتِلَ ، وَلَوْ امْرَأَةً وَبِهِ يُفْتَى الْيَوْمُ
(رد المحتار لابن عابدین: ج6 ص331)
ترجمہ: (تادیب و سزااس وقت ہے) جب وہ علانیہ گالی نہ دے۔ اگر علانیہ گالی دے یا ایسا کرنا اس کی عادت ہو تو اسے قتل ہی کیا جائے گا چاہے وہ عورت ہی کیوں نہ ہو اور آج کے دور میں فتویٰ اسی پر ہے۔
دوسرا مسئلہ: عہد کا نہ ٹوٹنا
کہ ان امور کی وجہ سے عہد نہ ٹوٹے گا۔ ہاں اگر معاہدہ میں یہ شرط لگائی گئی ہو کہ ذمی یہ کام نہ کرے گا اس کے باوجود یہ کام کر ڈالے تو پھر معاہدہ بھی ٹوٹ جائے گا۔
هَذَا إنْ لَمْ يُشْتَرَطْ انْتِقَاضُهُ بِهِ أَمَّا إذَا شُرِطَ انْتَقَضَ بِهِ كَمَا هُوَ ظَاهِرٌ .
(الدر المختارلعلاء الدین الحصکفی: ج6 ص331)
ترجمہ: یہ اس وقت ہے جب عقد میں ان چیزوں کی شرط نہ لگائی ہو اور اگر معاہدہ میں یہ شرط لگائی گئی ہو کہ ذمی یہ کام نہ کرے گا اس کے باوجود یہ کام کر ڈالے تو پھر معاہدہ بھی ٹوٹ جائے گا۔ جیسا کہ یہ بات بالکل ظاہر ہے۔
اعتراض نمبر3:
امام ابو حنیفہ رحمہ ا للہ کے ہاں مدت رضاعت اڑھائی سال ہے۔ ہدایہ میں ہے:
ثم مدۃ الرضاع ثلٰثون شھراً عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ.
(الہدایہ: ج 2ص369 کتاب الرضاع)
اور یہ قرآن کی اس آیت: ﴿حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ﴾(البقرۃ:233)کے خلاف ہے۔
جواب نمبر1:
صاحب ہدایہ علامہ برہان الدین علی بن ابی بکر الفرغانی المرغینانی (م593ھ) نے دو قسم کی عورتوں کا ذکر کیا ہے:
1: خاوند والی 2:مطلقہ
آیت ﴿حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ﴾(البقرۃ:233) میں اس مطلقہ کا حکم ہے جو خاوند کی خواہش اور بچہ کی ضرورت کے تحت اجرت پر دودھ پلاتی ہو، اس میں خاوند ، بیوی ، بچہ تینوں کےحقوق کے خیال کیا گیا ہے اور مدت رضاعت دوسال مقرر کردی گئی ہے، ایک تو اسی آیت ” حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ “ کی وجہ سے اور دوسرے حدیث:”لارضاع بعد الحولین“
(سنن سعید بن منصور :ص139 رقم الحدیث987 عن ابن مسعود موقوفاً) کی وجہ۔
تینوں کی رعایت اس طرح ہے کہ بچہ دوسال تک ماں کے دودھ سے ہی صحیح پرورش پاتا ہے اورماں چونکہ طلاق کی وجہ سے بچے کو دودھ پلانے کی شرعاً مکلف نہیں رہی اور باپ کے ذمہ اس کا نان ونفقہ بھی نہیں رہا۔ ماں کی اجرت مقرر کرکے اس کی معیشت اور بچہ کی پرورش کا انتظام ہوگیا اور اگر بچہ دوسال سے قبل بھی ماں کے دودھ کے بغیر پرورش پا سکتا ہو تو دو سال سےقبل دودھ چھڑانے کا باہمی مشاورت و رضامند ی سے اختیار بھی دے دیا گیا اور بچہ کی جسمانی کمزوری یا کسی مرض کی وجہ سے ضرورت ہو تو دوسال کے بعد بھی دودھ پلانے کا اختیار دے دیا گیا۔ جیسا کہ آیت” فَإِنْ أَرَادَا فِصَالاً“ کے لفظ ”فا“اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی بیان کردہ تفسیر: ” إن أرادا أن يفطماه قبل الحولين وبعده. “
(تفسیر الطبری: ج2 ص604 تحت ھذہ الآیۃ) سے ظاہر ہے۔
آیت﴿وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ﴾ (الاحقاف:15) میں خاوند والی عورت کا ذکر ہے کہ وہ اڑھائی سال تک دودھ پلاسکتی ہے۔
جواب نمبر2:
مدت رضاعت تو دوسال ہے، البتہ مسئلہ نکاح میں احتیاط کی بنا پر اڑھائی سال کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ کیونکہ مدت رضاعت دوسال میں نص صریح نہیں بلکہ اسی آیت میں ہی دو سال سے زائد مدت کے اشارے ملتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ آیت ”وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ آلآیۃ“ میں لفظ ”فَإِنْ أَرَادَا فِصَالاً “ بتا رہا ہے کہ مدت رضاعت دوسال کے بعد بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اگر دوسال کے بعد رضاعت کی اجازت نہ ہوتی تو دودھ چھڑانا ضروری ہوتا ، باہمی مشاورت اور رضا کی شرط ہی نہ ہوتی۔
اسی طرح آیت ” وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاثُونَ شَهْراً “ میں لفظ ”حَمْلُهُ“ میں دو احتمال ہیں:
نمبر1: ماں کے پیٹ والا حمل
نمبر2 : گود والا حمل
اگر ماں کے پیٹ والا حمل مراد ہو تو معنی ہوگا کہ کل مدتِ حمل اور رضاعت مل کر اڑھائی سال ہے، البتہ مدتِ حمل اور رضاعت کی تقسیم کا ذکر نہیں کہ حمل 9 ماہ ہو تومدتِ رضاعت 21ماہ، حمل 12 ماہ ہوتومدتِ رضاعت 18 ماہ وغیرہ۔ اسی لیے اکثر حضرات کی رائے یہ ہے اقل مدت حمل 6 ماہ اور اکثر مدت رضاعت 24 ماہ ہے۔
اور اگر حمل سے مراد گود والا لیں تو مطلب ہوگا کہ ماں کے گود میں رکھنے اور دودھ چھڑانے کی مدت اڑھائی سال ہے، تو معنی یہ ہوگا کہ حمل اور رضاعت ہر دو کی مدت اڑھائی سال ہے اور حمل سے مراد گود میں رکھنا قرآن کریم میں دوسرے مقام پر بھی استعمال ہوا ہے، جیسے ”فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ “ (مریم :27) اب یہ آیت بھی مدت رضاعت کے دو سال ہونے میں نص صریح نہیں ہو گی۔
یہ مذہب امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کاہے اور بظاہر یہ زیادہ قوی ہے کیونکہ اس آیت میں ماں کی تین مشکلات کا ذکر ہے۔ [۱]پیٹ والا حمل [۲] جننا[۳]گود میں اٹھانا۔
کما فی قولہ تعالیٰ:﴿حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا﴾
اگر﴿وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ﴾ میں بھی گود والا حمل لینے کی بجائے پیٹ والا حمل مراد لیا جائے تو بظاہر یہ تکرار ہو گا اور مشکلات دو بنیں گی نہ کہ تین۔لہذا اما م صاحب کا مسلک یہ ہے مدت رضاعت دوسال ہے حرمت نکاح بالرضاعۃ میں احتیاطً اڑھائی سال کی مدت کا خیال رکھا جائے۔
جواب نمبر3:
اما م صاحب کے دونوں قول ہیں دو سال اور اڑھائی سال، مگر فتویٰ دوسال پر ہے۔
[۱]: امام علاء الدین الحصکفی [م1083ھ] میں ہے:
( حَوْلَانِ وَنِصْفٌ عِنْدَهُ وَحَوْلَانِ ) فَقَطْ ( عِنْدَهُمَا وَهُوَ الْأَصَحُّ ) فَتْحٌ وَبِهِ يُفْتَى كَمَا فِي تَصْحِيحِ الْقُدُورِيِّ
(الدر المختار مع رد المختار: ج4 ص387 باب الرضاع)
ترجمہ: مدت رضاعت امام صاحب کے نزدیک اڑھائی سال اور صاحبین کے نزدیک صرف دو سال ہے اور یہی دو سال والا قول زیادہ صحیح ہے، یہ بات فتح القدیر میں ہے، اور اسی پر فتویٰ ہے جیسا کہ علامہ قاسم بن قطلوبغا کی کتاب ”تصحیح القدوری“ میں ہے۔
[۲]: الشیخ عبد الغنی الغُنَیمی المِیدانی الحنفی [م1298ھ] لکھتے ہیں:
(و قالا سنتان) لان ادنی مدۃ الحمل ستۃ اشہر فبقی للفصال حولان قال فی الفتح: وھو الاصح، و فی التصحیح عن العیون و بقولہما ناخذ للفتویٰ
(اللباب فی شرح الکتاب: ج3 ص31 کتاب الرضاع)
ترجم: صاحبین فرماتے ہیں کہ مدت رضاعت صرف دو سال ہے کیونکہ حمل کی کم سے کم مدت دو سال ہے اور مدت رضاعت کے لیے باقی دو سال بچتے ہیں۔ فتح القدیر میں ہے کہ یہی دو سال والا قول زیادہ صحیح ہے۔ ”تصحیح القدوری للعلامہ قطلوبغا“ میں” عیون المسائل لابی اللیث السمرقندی“ کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ صاحبین کے قول پر فتویٰ ہے۔
[۳]: مولانا رشید احمد گنگوہی فرماتے ہیں:
مدت رضاعت کی دو سال ہے علی الاصح المفتی بہ یعنی اسی پر فتویٰ ہے۔
(تذکرۃ الرشید: ج1ص185)
تو غیر مفتیٰ بہ قول پر فتوی دینا جائز نہیں تو اس کو بنیاد بنا کر تنقید کرنا کیسے جائز ہوگا؟!
جواب نمبر 4:
غیر مقلدین کو یہ اعتراض زیب نہیں دیتا کیونکہ ان کے اکابر کے ہاں تو 60 سال کے بابا جی بھی عورت کا دودھ پی سکتے ہیں۔
”ویجوز ا رضا ع الکبیر ولوکان ذالحیۃ لتجویز النظر “
(کنز الحقائق از علامہ وحید الزمان: ص 67 ، نزل الابرار از علامہ وحید الزمان: ص77)
ترجمہ: نظر کے جائز کے ہونے کے لیے بڑے آدمی کو دودھ پلانا جائز ہے۔
ارضاع کبیر بنا ء بر تجویز نظر جائز است
(عرف الجادی از نواب میر نور الحسن خان: ص130)
ترجمہ: نظر کے جائز کے ہونے کے لیے بڑے آدمی کو دودھ پلانا جائز ہے۔
اعتراض نمبر4:
امام صاحب زانیہ اور زانی کے لیے حد کے قائل نہیں اور زنا کا دروازہ کھول رہے ہیں۔ کیونکہ فتاویٰ قاضیخان میں ہے:
ولو استاجر امراۃ لیزنی بہا فزنی بہا لایحد فی قول ابی حنیفۃ
(فتاویٰ قاضی خان: ج4 ص407 کتاب الحدود)
ترجمہ: اور اگر کسی عورت کو زنا کرنے کے لیے اجرت پر رکھا ، پھر اس سے زنا بھی کیا تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق اس پر حد نہیں۔
درمختار میں ہے:
( وَلَا ) حَدَّ ( بِالزِّنَا بِالْمُسْتَأْجَرَةِ لَهُ ) أَيْ لِلزِّنَا. وَالْحَقُّ وُجُوبُ الْحَدِّ كَالْمُسْتَأْجَرَةِ لِلْخِدْمَةِ
(الدر المختار للحصکفی: ج6 ص46 کتاب الحدود- باب الوطی الذی یوجب الحد و الذی لا یوجبہ)
ترجمہ: جس عورت کو اجرت پر رکھا اس کے ساتھ زنا کرنے پر حد نہیں ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ اس پر حد واجب ہے جیسا کہ خدمت کے لیے اجرت پر رکھی گئی عورت کے ساتھ زنا کرنے پر حد ہے۔
جواب:
قرآن کریم میں ہے:
﴿فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ﴾
(النساء:24)
ترجمہ: جن عورتوں سے (نکاح کر کے) تم نے لطف اٹھایا ہو ان کو ان کا وہ مہر ادا کرو جو مقرر کیا گیا ہو۔
اس میں چونکہ اجرت ہے اور اجرت سے حق مہر کا شبہ ہوگیا اور شبہات سے حدود ساقط ہوجاتی ہیں۔ مشہور ضابطہ ہے:
اَلْحُدُودُ تَنْدَرِئُ بِالشُّبُهَاتِ.
(الجوہرۃ النیرۃ: ج2 ص 313کتاب الدعویٰ، اللباب فی شرح الکتاب للمیدانی: ج1 ص365 کتاب الدعویٰ)
ترجمہ: شبہات سے حدود ساقط ہو جاتی ہیں۔
اعتراض: اجرت سے حقِ مہر کا شبہ ہو گیا مگر نکاح کیسے ثابت ہو گا؟
جواب: امام مالک رحمہ اللہ کے ہاں نکاح کے لیے گواہ شرط نہیں۔ علامہ محمد بن عبد الرحمن العثمانی الشافعی لکھتے ہیں:
ولا یصح النکاح الا بشہادۃ عند الثلاثۃ، و قال مالک یصح من غیر شہادۃ
(رحمۃ الامۃ فی اختلاف الائمۃ: ص205 کتاب النکاح)
ترجمہ: ائمہ ثلاثہ کے نزدیک گواہوں کے بغیر نکاح صحیح نہیں اور امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گواہوں کے بغیر نکاح صحیح ہے۔
شبہ سے حد کا ساقط ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ مشکوۃ شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےنکاح بلا ولی کو تین بار باطل قرار دیا۔ الفاظ حدیث یہ ہیں:
وعن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل فنكاحها باطل فنكاحها باطل فإن دخل بها فلها المهر بما استحل من فرجها.
(مشکوٰۃ المصابیح: ج 2 ص292 کتاب النکاح باب الولی فی النکاح و استیذان المراۃ)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس عورت نے بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔ اگر خاوند نے ہمبستری کر لی تو اس عورت کو مہر ملے گا کیونکہ اس شوہر نے اس عورت سے نفع اٹھایا ہے۔
یہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر مہر بھی مقرر فرمایا اور حدبھی جاری نہیں کی۔
اسی طرح موطا امام مالک میں ہے:
عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ خَوْلَةَ بِنْتَ حَكِيمٍ دَخَلَتْ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَتْ إِنَّ رَبِيعَةَ بْنَ أُمَيَّةَ اسْتَمْتَعَ بِامْرَأَةٍ فَحَمَلَتْ مِنْهُ فَخَرَجَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَزِعًا يَجُرُّ رِدَاءَهُ فَقَالَ هَذِهِ الْمُتْعَةُ وَلَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِيهَا لَرَجَمْتُ.
(موطا مالک: ص507 باب نکاح المتعۃ)
ترجمہ: حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت خولہ بنت حکیم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ان سے عرض کیا کہ ربیعہ بن امیہ نےایک عورت سے متعہ کیا ہے جس سے وہ حاملہ ہوگئی ہے۔ حضرت عمر اپنی چادر کو گھسیٹتے ہوئے ربیعہ کے پاس گئے اور اسے فرمایا کہ اگر میں یہ متعہ کے حرام ہونے کا مسئلہ پہلے بیان کر چکا ہوتا تو تجھے سنگسار کردیتا۔
اس واقعہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے متعہ کرنے والے شخص پر حد جاری نہیں کی کہ اس کو علم نہیں تھا حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک متعہ حرام اور قابل سنگسار ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: امام شافعی رحمہ اللہ ہر وہ توجیہ جو کسی سنی مستند عالم نے کی ہو اور اس توجیہ کی وجہ سے وطی کو حلال کہا ہو تو اس وطی پر حد کے قائل نہیں اگرچہ وطی کرنے والا اس کو حرام جانتا ہو مثلاً ولی کےبغیر نکاح جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب میں جائز ہے اور گوہوں کے بغیرنکاح جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ کی نسبت معروف ہے۔
(المسویٰ شرح الموطا: ج2 ص144)
لہذا اس مسئلہ میں حد کا ساقط ہونا احناف کا محض دعویٰ نہیں بلکہ یہ موقف قرآن، سنت اور آثار صحابہ کے مذکورہ دلائل سے ثابت ہے۔ لہذا فقہ حنفی پر اعتراضات دراصل قرآن و سنت کے ان واضح دلائل سے بے خبری کی دلیل ہے۔
جواب نمبر2:
حد زنا کے نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس پر تعزیر بھی نہیں ہے۔ مثلاً حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
من أتى بهيمة فلا حد عليه.
(جامع الترمذی: باب فیمن یقع علی بہیمۃ)
ترجمہ: جو آدمی کسی جانور سے بدفعلی کرے اس پر حد نہیں۔
کیا غیر مقلدین اس سے یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ ایسے آدمی پر کوئی سزا نہیں؟! حالانکہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس پر کوئی سزا نہیں بلکہ اس شخص پر تعزیر ہے اور تعزیر کبھی حد سے بھی سخت ہوتی ہے۔
جواب نمبر3:
احناف کا راجح موقف اور مفتیٰ بہ قول یہی ہے کہ اس شخص کو حد زنا لگے گی۔ در مختار میں ہے:
وَالْحَقُّ وُجُوبُ الْحَدِّ كَالْمُسْتَأْجَرَةِ لِلْخِدْمَةِ.
(الدر المختار للحصکفی: ج6 ص46 کتاب الحدود- باب الوطی الذی یوجب الحد و الذی لا یوجبہ)
ترجمہ: صحیح بات یہ ہے کہ اس آدمی پر حق واجب ہے جیسا کہ خدمت کے لیے اجرت پر رکھی گئی عورت کے ساتھ زنا کرنے پر حد ہے۔
 
اعتراض نمبر5:
امام صاحب کے ہاں زانیہ کی اجرت حلال ہے۔ رد المحتار میں ہے:
مَا أَخَذَتْهُ الزَّانِيَةُ إنْ كَانَ بِعَقْدِ الْإِجَارَةِ فَحَلَالٌ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ.
(رد المحتار لابن عابدین: ج 9 ص76 باب الاجازۃ الفاسدۃ)
جواب:
اجارہ کی تین قسمیں ہیں: 1:اجارہ صحیحہ 2: اجارہ فاسدۃ 3: اجارہ باطلۃ
اجارہ صحیحہ: اصل کام جس کے عوض اجرت ہے جائز ہو اور کوئی وجہ ناجائز مثل شرط وغیرہ بھی ساتھ نہ لگی ہو۔
اجارہ فاسدہ: اصل کام جائز ہو مگر کسی شرط کی وجہ سے معاملہ ناجائز ہو، وہ شرط فی نفسہ امرمباح ہو یا حرام۔ مثلاً مکان کی حفاظت پر نوکر رکھا ساتھ شرط لگا دی کہ کبھی کبھی کھانا بھی پکائے گا یا ہمارے تاش بھی کھیلے گا۔ اس اجارہ حکم یہ ہے کہ یہ معاملہ ختم کردیں اور اگر کسی نے ختم نہ کیا تو یہاں اجر معین نہیں بلکہ اجر ِمثل ملے گی۔
اجارہ باطلہ: اصل کام ہی ناجائز ہو۔ حکم یہ ہے کہ اس کی اجرت دینا جائز نہ لینا جائز۔
اصل مسئلہ: کسی شخص نے اجرت پر عورت کو کام کاج کے لیے رکھا اور معاملہ مکمل ہوجانے کے بعد زنا کی شرط بھی رکھ دی۔ اب تین باتیں قابل غور ہیں:
1:اصل معاملہ صحیحہ ہے، فاسدہ ہے یاباطلہ؟
2:اگر شرط پر عمل نہ کیا تو اجرت دوسرے کام کی دی جائے گی یا نہیں؟
3:اگر شرط پر عمل کرلیا تو اصل کام کی اجرت دیں گےیا نہ؟
ان تینوں کا حکم:
1: یہ معاملہ اجارہ فاسدہ ہے جو کہ ختم کرادینا چاہیے۔
2: اجارہ چونکہ فاسدہ ہے، لہذا عورت کو اجرت معین نہیں بلکہ اجر المثل دی جائے گی۔
3: اصل کام کی اجرت اجر المثل دینی چاہیے اور زنا کی وجہ سے حد زنا جاری ہونی چاہیے۔
تو اس میں دو مسئلے ہیں: 1:اجرت 2:حد
اجرت کا مسئلہ ”باب الاجارۃ“ اور حد کا مسئلہ ”باب حد الزنا“میں ہے، غیرمقلدین خلط ملط کرتے ہیں۔ امام صاحب کی کمال تفقہ ہے کہ دودھ اور پانی جدا کردیا۔
مثال: کوئی شخص مسجد میں نماز پڑھنے جائے اور واپسی پر چوری بھی کر لے، تو نماز کا ثواب ملے گااور چوری پر حد السرقہ لگے گی۔
علامہ شامی رحمہ اللہ نے ”غرر الافکار للشیخ محمد البخاری“ کے واسطہ سے نقل کیا ہے:
وَفِي غُرَرِ الْأَفْكَارِ عَنْ الْمُحِيطِ : مَا أَخَذَتْهُ الزَّانِيَةُ إنْ كَانَ بِعَقْدِ الْإِجَارَةِ فَحَلَالٌ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ؛ لِأَنَّ أَجْرَ الْمِثْلِ فِي الْإِجَارَةِ الْفَاسِدَةِ طَيِّبٌ وَإِنْ كَانَ الْكَسْبُ حَرَامًا وَحَرَامٌ عِنْدَهُمَا.
(رد المحتار لابن عابدین: ج 9 ص76 باب الاجازۃ الفاسدۃ)
غیرمقلدین کی عبارت سمجھنے میں غلطیاں:
1: ”إِنْ كَانَ“میں موجودضمیر ”ھُوَ“ کو ”مَا“ کی طرف راجع کر دیا۔
2: ”بعقد الاجارۃ“ کی” با“ کو سببیہ سمجھا۔
3: ”الاجارۃ“ کو اجارہ زنا سمجھا۔
حالانکہ یہ تینوں باتیں غلط ہیں، صحیح یہ ہے کہ:
1: ”إِنْ كَانَ“میں موجودضمیر ”ھُوَ“ راجع ہے ”الزنا“ کی طرف جو لفظِ”الزانیۃ“ سے مفہوم ہو رہا ہے جیسے ﴿اِعْدِلُوْا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوىٰ﴾ میں ہے۔
2: ”بعقد الاجارۃ“ کی” با“ بمعنی سبب نہیں بلکہ بمعنی تلبس ہے؛”ای متلبسا بعقد الاجارۃ“ اور اس میں”متلبسا“ موصوف اور ”شرطا“ صفت ہے۔
3: ”الاجارۃ“ سے مراداجارہ زنا نہیں بلکہ اجارہ صحیحہ مراد ہے۔
اب عبارت یوں ہو گی :
ان ما اخذتہ ای اجرَ المثل الذی اخذتْہ الزانیۃُ ان کان ای الزنا شرطاً متلبسًا بعقد الاجارۃ ای الصحیحۃ فہو ای ما اخذتہ حلال عند ابی حنیفۃ لان اجر المثل فی الاجارۃ الفاسدۃ طیب وان کان السبب حراما، و حرام عندہما
اور اگر عقد اجارہ کے بغیر زنا کی اجرت ہو تو بالاتفاق حرام ہے، چنانچہ اسی عبارت کے آگے درج ہے:
وَإِنْ كَانَ بِغَيْرِ عَقْدٍ فَحَرَامٌ اتِّفَاقًا؛ لِأَنَّهَا أَخَذَتْهُ بِغَيْرِ حَقٍّ ا هـ
(رد المحتار لابن عابدین: ج 9 ص76 باب الاجازۃ الفاسدۃ)
ترجمہ: اگر عقد اجارہ کے بغیر زنا کیا تو اجرت بالکل حرام ہے کیونکہ اس نے یہ اجرت بغیر حق کے وصول کی ہے۔
فائدہ: صاحبین اجرت کو حرام کہتے ہیں کیونکہ وہ زنا کو داخل ِمعاملہ خیال کرتے ہیں ،حالانکہ صورت مذکورہ میں زنا داخلِ معاملہ نہیں بلکہ شرط زائد خارجِ عقد ہے۔ تو گویا یہ نزاع بھی لفظی ہوا کیونکہ اگر داخل ِعقد مانیں تو امام صاحب کے ہاں بھی اجرت حرام اور اجارہ باطلہ ہے اور خارجِ عقد مانیں تو صاحبین کے ہاں بھی اجارہ فاسد اور اجر المثل حلال ہے۔
ملحوظہ: فقہاء احناف کے ہاں جب گانے، نوحہ، لہو ولعب کی اجرت جائز نہیں تو زنا کی اجرت کیسے جائز ہوسکتی ہے؟! ہدایہ میں ہے:
ولا يجوز الاستئجار على الغناء والنوح وكذا سائر الملاهي لأنه استئجار على المعصية والمعصية لا تستحق بالعقد
(الہدایۃ: ج3 ص306 باب الاجارۃ الفاسدۃ)
ترجمہ: گانا گانے، نوحہ کرنے اور اسی طرح دیگر گانے کے آلات کو اجارہ پر لینا جائز نہیں کیونکہ یہ گناہوں کے کاموں پر اجارہ ہے جو کہ عقد کا مستحق نہیں ہے۔
اعتراض نمبر6:
حنفیوں کے ہاں امامت کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ امام اس کو بنایا جائے جس کی بیوی خوبصورت ہو۔ الدر المختار میں ہے:
قَوْلُهُ ثُمَّ الْأَحْسَنُ زَوْجَةً
(الدر المختار: ج2 ص352 باب الامامۃ)
تو کیا امام کی بیوی کو دیکھیں گے؟
جواب:
1: امام کا پاکدامن اور عفیف ہونا ہر کسی کے ہاں پسندیدہ امر ہے اور نکاح کا مقصد بھی پاکدامنی اور عفت ہے۔ حدیث میں ہے:
فَأِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ.
(صحیح مسلم: کتاب النکاح باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسہ الیہ)
ترجمہ: کیونکہ نکاح آنکھ کی بدنظری سے حفاظت اور بدکاری سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔
اور بیوی کا خوبصورت ہونا بیوی کی طرف میلان کا سبب ہے اور بیوی کی طرف یہی میلان پاکدامنی کا سبب ہے۔ علامہ شامی رحمہ اللہ اس کی وجہ یہ لکھتے ہیں :
لِأَنَّهُ غَالِبًا يَكُونُ أَحَبَّ لَهَا وَأَعَفَّ لِعَدَمِ تَعَلُّقِهِ بِغَيْرِهَا.
(رد المحتار)
ترجمہ: کیونکہ بیوی کے خوبصورت ہونے کی صورت میں شوہر اس سے زیادہ محبت کرے گا اور اس کے علاوہ عورتوں سے عدمِ تعلق کی وجہ سے زیادہ عفیف اور پاکیزہ ہو گا۔
2: امام کے لیے حدیث میں ہے:
إِنْ سَرَّكُمْ أَنْ تُقْبَلَ صَلاتُكُمْ فَلْيَؤُمَّكُمْ خِيَارُكُمْ ، فَإِنَّهُمْ وُفُودُكُمْ فِيمَا بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رَبِّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ
(الآحاد و المثانی لاحمد بن عمرو الشیبانی: ج1 ص250 من ذکر مرثد بن ابی مرثد)
ترجمہ: اگر یہ چاہو کہ تمہاری نمازیں قبول ہوں تو تم میں سے بہترین لوگ نماز پڑھائیں، کیونکہ یہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان نمائندے ہیں۔
”خیارالناس“ کے بارے میں دوسری حدیث میں ہے:
خياركم خياركم لنسائهم
(جامع الترمذی: ج1 ص219 ابواب الرضاع، باب حق المراۃ علی زوجہا، المعجم الکبیر للطبرانی: ج9 ص327 رقم الحدیث18297،مشکوٰۃ المصابیح:باب عشرۃ النساء)
ترجمہ: تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں۔
اور یہ بات مجرب ہے کہ جس کی بیوی خوبصورت ہو وہ بیوی کے حق میں خیار یعنی بہترین ثابت ہوتا ہے کیونکہ حدیث مبارک میں ہے:
ما استفاد المؤمن بعد تقوى الله خيرا له من زوجة صالحة إن أمرها أطاعته وإن نظر إليها سرته وإن أقسم عليها أبرَّتْه وإن غاب عنها نصحته في نفسها وماله
(مشکوٰۃ المصابیح: ص268 کتاب النکاح- الفصل الثالث)
ترجمہ: مومن اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کے بعد جو سب سے بہتر چیز اپنے لیے منتخب کرتا ہے وہ نیک بخت خوبصورت بیوی ہے، ایسی بیوی کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر شوہر اس کو کوئی حکم دیتا ہے تو وہ اس کی تعمیل کرتی ہے، جب وہ اس کی طرف دیکھتا ہے تو اپنے حسن اور پاکیزگی اور اپنی خوش سلیقگی و پاک سیرتی سے اس کا دل خوش کرتی ہے، جب وہ اس کو قسم دیتا ہے تو اس قسم کو پورا کرتی ہے، اور جب اس کا خاوند موجود نہیں ہوتا تو وہ اپنے نفس کے بارے میں یہ خیر خواہی کرتی ہے کہ اس کو ضائع و خراب ہونے سے بچاتی ہے اور اس میں کوئی خیانت نہیں کرتی۔
اس حدیث میں لفظ ”وإن نظر إليها سرته“ کی شرح میں ملا علی قاری رحمۃاللہ علیہ مرقات شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں:
وإن نظر إليها سرته أي جعلته مسرورا بحسن صورتها وسيرتها ولطف معاشرته ومباشرته
(ج6 ص249 کتاب النکاح- الفصل الثالث رقم الحدیث 3095)
ترجمہ: حدیث کے الفاظ”اگر خاوند بیوی کے طرف دیکھے تو بیوی اس کو خوش کر دے“ کا مطلب یہ ہے کہ بیوی خاوند کو اپنی حسنِ صورت، حسنِ سیرت، اچھے برتاؤ اور اچھے تعلقات سے خوش کر دے۔
معلوم ہوا کہ بیوی کا حسن سیرت کے ساتھ ساتھ حسنِ صورت والی ہونا خاوند کے زیادہ میلان کا سبب ہے اور اس سے خاوند کا ”خیارالناس“ ہونا ثابت ہوتا ہے اور حدیث میں امام کے لیے ”خیار“ کا لفظ آیا ہے۔
3: یہ شرط نفسِ امامت کے لیے نہیں ہے بلکہ احقیت امامت کے لیے ہے اورا حقیت امامت کے لیے حدیث میں بعض اوصاف کا ذکر موجود ہے۔ مثلاًحضرت مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
فَإِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ
(صحیح البخاری: باب من قال ليؤذن في السفر مؤذن واحد)
ترجمہ: جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک آدمی اذان دے اور تم میں سے بڑا آدمی امامت کرائے۔
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
ليؤمكم اقراكم لكتاب الله فان كانت القراءۃ واحدۃ فليؤمكم اعلمكم بالسنۃ فان كانت السنۃ واحدۃ فليؤمكم اقدمكم سنا
(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم: ج2149)
ترجمہ: تمھیں نماز وہ آدمی پڑھائے جو قرآن مجید کا قاری ہو، اگر قراءت میں سب برابر ہوں تو وہ پڑھائے جو سنت کا زیادہ عالم ہو، اگر اس میں بھی برابر ہوں تو وہ پڑھائے جوعمر میں بڑا ہو۔
بقیہ اوصاف ان پر قیاس سے ثابت ہیں اور قیاس مستقل دلیل شرعی ہے۔
رہا یہ اشکال کہ اس کا کیسے پتہ چلے گا؟ تو اس بارے میں علامہ شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَهَذَا مِمَّا يُعْلَمُ بَيْنَ الْأَصْحَابِ أَوْ الْأَرْحَامِ أَوْ الْجِيرَانِ ، إذْ لَيْسَ الْمُرَادَ أَنْ يَذْكُرَ كُلٌّ مِنْهُمْ أَوْصَافَ زَوْجَتِهِ حَتَّى يُعْلَمَ مَنْ هُوَ أَحْسَنُ زَوْجَةً
(رد المحتار)
ترجمہ: یہ ایسی بات ہے جو دوستوں، رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے معلوم ہوجاتی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان لوگوں میں سے ہر آدمی اپنی بیوی کے اوصاف ذکر کرتا پھرے تاکہ پتہ چلے کہ کس کی بیوی خوبصورت ہے؟!
یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ بضرورت نکاح بذریعہ خواتین پتہ چلا یا جاتا ہے کہ خاتون جس سے نکاح مقصود ہے، وہ کیسی ہے؟
اعتراض نمبر7:
امام اسے بنایا جائے جس کا سر بڑا اور آلہ تناسل چھوٹا ہو۔ در مختار میں ہے:
(ثُمَّ الْأَكْبَرُ) رَأْسًا وَالْأَصْغَرُ عُضْوًا.
(الدر المختار مع رد المحتار: ج2ص352 باب الامامۃ)
اور عضو سے مراد ”آلہ تناسل“ ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ ”عضو“ واحد ہے اور تمام جسم میں واحد عضو صرف آلہ تناسل ہی ہے۔
(المبنی للفاعل از عبد العزیز نورستانی: ص19)
جواب نمبر1 :
مراد اس سے یہ ہے کہ امام معتدل مزاج اور معتدل جسم والا ہو، جس کی صورت یہ ہے کہ سر دوسرے اعضاء سے نسبتاً بڑا ہو کیونکہ سر کا چھوٹا ہونا بنسبت دوسرے اعضاء کے ،کم عقل ہونے کی علامت ہوتی ہے اور عضو سے مراد آلہ تناسل لینا شامی پر جھوٹ ہے، کیونکہ علامہ شامی خود فرماتے ہیں:
وَفِي حَاشِيَةِ أَبِي السُّعُودِ؛ وَقَدْ نُقِلَ عَنْ بَعْضِهِمْ فِي هَذَا الْمَقَامِ مَا لَا يَلِيقُ أَنْ يُذْكَرَ فَضْلًا عَنْ أَنْ يُكْتَبَ ا هـ وَكَاَ نَّهُ يُشِيرُ إلَى مَا قِيلَ اِنَّ الْمُرَادَ بِالْعُضْوِ الذَّكَرُ
(رد المختار: ج2ص352 باب الامامۃ)
ترجمہ: ابو السعود کے ”حاشیہ علی الاشباہ و النطائز لابن نجیم“میں ہے: اس مقام پر بعض لوگوں سے ایسی بات نقل کی گئی ہے جس کا تذکرہ کرنا بھی مناسب نہیں چہ جائیکہ اس کو یہاں لکھا جائے۔ ابن عابدین فرماتے ہیں: گویا ابو السعود اس قول کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جو کسی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس عضو سے مراد ذکر ہے۔
منحۃ الخالق علی حاشیۃ ”کنز الدقائق للنسفی“ لابن عابدین میں بھی اس جیسے الفاظ کے ساتھ اس کی تردید موجود ہے۔ فرماتے ہیں:
و قد قیل فی تفسیرہ بما لا ینبغی ان یذکر
( ج1ص610 کتاب الصلاۃ باب الامامۃ)
ترجمہ: اس کی تفسیر میں وہ کچھ کہا گیا ہے جس کا ذکر بھی مناسب نہیں۔
عبد العزیز نورستانی نے جو دلیل دی ہے کہ چونکہ ”عضوا“واحد ہے اور جسم میں واحد عضو ذکر ہی ہوتا ہے اس لیے یہاں وہی مراد ہےبالکل جھوٹ ہے، کیونکہ ناک بھی تو جسم میں واحد عضو ہے، زبان بھی واحد عضو ہے۔
باقی رہی یہ بات کہ باقی اعضاء توجسم میں دو دو ہیں تو پھر واحد کا لفظ کیوں لائے؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ بسا اوقات بطورِ جنس کے ایک سے زائد اعضاء پر بھی لفظ واحد بولا جاتا ہے، جیسے:
المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ
[صحیح البخاری: رقم الحدیث 9]
ترجمہ: کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ
[صحیح مسلم: رقم الحدیث 49]
ترجمہ: تم میں سے جو کوئی برائی کو دیکھے تو اس کو ہاتھ سے روک دے۔
جعلت قرۃ عینی فی الصلوۃ،
[المعجم الکبیر للطبرانی: رقم الحدیث1012]
ترجمہ: میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔
جواب نمبر2:
اگر ”عضواً“سے مراد آلہ تناسل ہو تو بھی مجازی اور محاوراتی معنی مراد ہوگا یعنی ”پاک دامن ہو، عورتوں کے پیچھے پھرنے والا نہ ہو بلکہ خود پر کنٹرول کرنے والا ہو“ جیسا کہ سخی کو ”اطول یدا“ کہتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے فرمایا:
اَسْرَعُکُنَّ بِیْ لِحَاقاً اَطْوَلُکُنَّ یَدًا.
(صحیح مسلم: ج 2ص291 باب فضائل زینب ام المومنین رضی اللہ عنہا)
ترجمہ: میری وفات کے بعدتم میں سے سب سے پہلے اس بیوی کی وفات ہو گی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے۔
اس سے مراد حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا تھیں کیونکہ وہ سخاوت میں ممتاز تھیں۔
اعتراض نمبر8:
حنفیہ کے ہاں استمناء بالید جائز ہے بلکہ زنا کا خوف ہو تو واجب ہے۔
إِنْ أَرَادَ تَسْكِينَ الشَّهْوَةِ يُرْجَى أَنْ لَا يَكُونَ عليه وَبَالٌ.
(البحر الرائق لابن نجیم: ج2 ص475 باب ما یفسد الصوم و ما لا یفسد)
ترجمہ: اگر شہوت کو ختم کرنے کا ارادہ ہو تو امید ہے کہ اس پر کوئی وبال (گناہ) نہ ہو۔
وَلَوْ خَافَ الزِّنَى يُرْجَى أَنْ لَا وَبَالَ عَلَيْهِ .
(الدر المختار مع رد المحتار: ج3 ص426 باب ما یفسد الصوم و ما لا یفسد)
ترجمہ: اگر زنا کا خوف ہو تو امید ہے کہ اس پر کوئی وبال (گناہ) نہ ہو۔
جواب نمبر1:
حنفیہ کا مذہب ہے: الِاسْتِمْنَاءُ حَرَامٌ ، وَفِيهِ التَّعْزِيرُ .
(الدر المختار: ج6 ص44 کتاب الحدود، فرع: الاستمناء)
ترجمہ: مشت زنی حرام ہے اور اس میں تعزیر ہے۔
دلیل یہ ہے: ناکح الید ملعون
(کشف الخفاء للعجلونی: ج2 ص325)
ترجمہ: ہاتھ سے نکاح کرنے والے پر لعنت کی گئی ہے۔
ہاں البتہ اگر غلبہ شہوت ہو اور زنا کا خطرہ ہو تو بھی واجب یا مستحب نہیں بلکہ صرف امید معافی کی بات ہے۔ اصل عبارت ملاحظہ فرمائیں:
إنْ أَرَادَ بِذَلِكَ تَسْكِينَ الشَّهْوَةِ الْمُفْرِطَةِ الشَّاغِلَةِ لِلْقَلْبِ وَكَانَ عَزَبًا لَا زَوْجَةَ لَهُ وَلَا أَمَةَ أَوْ كَانَ إلَّا أَنَّهُ لَا يَقْدِرُ عَلَى الْوُصُولِ إلَيْهَا لِعُذْرٍ قَالَ أَبُو اللَّيْثِ أَرْجُو أَنْ لَا وَبَالَ عَلَيْهِ
(رد المحتار: ج3 ص426 باب ما یفسد الصوم و ما لا یفسد)
ترجمہ: اگر شہوت کو ختم کرنے کا ارادہ ہو جو حد سے زیادہ ہو اور دل کو گناہ کی طرف میلان کرنے والی ہو اور وہ آدمی غیر شادی شدہ ہو کہ نہ اس کی بیوی ہو نہ کوئی باندی یا ہو تو شادی شدہ لیکن ان تک پہنچنے میں کوئی عذر ہو۔ فقیہ ابو اللیث فرماتے ہیں کہ مجھے امید ہے کہ اس پر کوئی وبال (گناہ) نہ ہو گا۔
اوراگر محض لذت کے لیے ہوتو سراسر حرام لکھا ہے:
وَأَمَّا إذَا فَعَلَهُ لِاسْتِجْلَابِ الشَّهْوَةِ فَهُوَ آثِمٌ
(رد المحتار: ج3 ص426 باب ما یفسد الصوم و ما لا یفسد)
ترجمہ: اگر شہوت لانے کےلیے مشت زنی کرتا ہے تو یہ گناہ گار ہو گا۔
بلکہ علامہ علاء الدین الحصکفی نے تو بیوی اور باندی سے بھی استمناء کو مکروہ لکھا ہے:
اَلْاِسْتِمْنَاءُ حَرَامٌ ، وَفِيهِ التَّعْزِيرُ وَلَوْ مَكَّنَ امْرَأَتَهُ أَوْ أَمَتَهُ مِنْ الْعَبَثِ بِذَكَرِهِ فَأَنْزَلَ كُرِهَ.
(الدر المختار: ج6 ص44 کتاب الحدود، فرع: الاستمناء)
ترجمہ: مشت زنی حرام ہے اور اس میں تعزیر ہے، اور اگر بیوی یا باندی کو ذکر سے کھیلنے دیا اور انزال ہو گیا تو یہ مکروہ ہے۔
جواب نمبر2:
خود غیر مقلدین کو یہ اعتراض کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے کیونکہ ان کا مذہب یہ ہے کہ:
و بالجملہ استنزال منی بکف یا بچیزے از جمادات نزد دعائے حاجت مباح است و لا سیماچوں فاعل خاشے از وقوع در فتنہ یا معصیت کہ اقل احوالش کہ نظر بازیست باشد کہ دریں حین مندوب است بلکہ گاہے واجب گردد۔
(عرف الجادی از نواب میر نور الحسن خان: ص207)
ترجمہ: خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہتھیلی یا جمادات میں سے کسی چیز کے ساتھ منی نکالنا ضرورت کے وقت مباح ہے خاص کر جب اس کام کرنے والے کو فتنہ یا معصیت میں واقع ہونے کا خوف ہو جس کی اول حالت یہ ہے کہ بد نظری کرنے لگے تو اس وقت استمناء مستحب اور بلکہ کبھی تو یہ فعل واجب بھی ہو جاتا ہے

۔

Download PDF File