مسئلہ استعانت بغیر اللہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مسئلہ استعانت بغیر اللہ
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
استعانت بغیر اللہ کی چند صورتیں ہیں:
[۱]: کسی بھی غیر خدا کو بالذات قادر ماننا یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ اس میں ذاتی طور پر قدرت و طاقت ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے،فریقین کے ہاں یہ بالاتفاق شرک ہے۔
[۲]: کسی بھی غیر خدا سے ظاہری استعانت کرنا، یعنی جو عادتا ًانسان کے بس میں ہوتا ہے مثلاً روپیہ، پیسہ ،کپڑا، وغیرہ یا دعا دینا۔یہ چیزیں اگر کسی سے مانگی جائیں تو یہ فریقین کے ہاں بالاتفاق درست ہے۔
اس میں یہ بات بھی آجاتی ہے کہ انسان جیسے عادتاً سنتا ہے، ویسے اس کو پکار کر اس سے یہ استعانت کرنا درست ہے۔ اب انسان عادتاً تو قریب سے سنتا ہے مگر دور سے نہیں سنتا۔ لہذاکوئی آدمی کسی کو دور سے سننے والا سمجھ لے تو یہ بھی درست نہیں ہوگا۔
[۳]: کسی غیر خدا کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اس کو خدا نے تمام اختیار دے دیے ہیں اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے ،ہر قسم کی مرادیں ہر جگہ سے اس سے مانگنی چاہییں۔ تو یہ بات مختلف فیہ ہے۔ ہمارے نزدیک یہ صورت بھی ناجائز ہے جب کہ فریق مخالف کے نزدیک جائز ہے۔
اہلِ بدعت کی چند اصولی غلطیاں:
(1): آج کل اہل بدعت کہتے ہیں کہ ہم بھی ان سے دعاؤں کی درخواست کرتے ہیں مگر پکارتے ہر جگہ سے ہیں۔
جواباً گزارش ہے کہ استشفاع یا دعاؤں کی درخواست تو درست ہے مگر آپ کا ہر جگہ سے ان کو پکارنا درست نہیں اس لیے کہ ان کا ہر جگہ سے سن لینا چونکہ عادتاً ان کی قدرت و طاقت میں نہیں۔
(2): جن آیات میں دعا، یدعو، تدعو وغیرہ کے الفاظ ہیں اہل بدعت ان کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ ان کا معنی تو ”عبادت“ کرنا ہے اور ہم تو غیر خدا کی عبادت نہیں کرتے۔
جواباً گذارش ہے کہ یہ مختلف فیہ استمداد بھی چونکہ خاصہ خداوندی ہے اس لیے یہ بھی تو عبادت ہے ، لہذا اگر ان آیات کا معنیٰ(جو آگے آرہی ہیں )عبادت بھی لو تو بھی یہ تمہارے خلاف ہے۔
نیز حدیث طیبہ میں دعا کو بھی عبادت قرار دیا گیا ہے۔
(ترمذی ج2ص173، ابن ماجہ ص280)
دوسری جگہ ہے :
اشرف العبادۃ الدعاء .
(الادب المفرد ص105)
چونکہ دعا بھی عبادت ہے اس لیے مفسرین نے دعا، یدعو، تدعو وغیرہ کا معنی عبادت کیا ہے اور یہ ہمارے خلاف نہیں ہے۔
(3): اہل بدعت کہتے ہیں کہ "ہم بزرگوں کو مستقل اور قادر بالذات تو نہیں مانتے جو شرک ہو"
تو جوابا گذارش ہے کہ کفار خدا کی عظمت و جلال کے قائل ہونے کے باوجود شرکاء کی عبادت اس لیے نہیں کرتے تھے کہ وہ ان کو قادر بالذات سمجھتے تھے بلکہ وہ بھی خدا کی عطا سے ان کو طاقتور اور قادر سمجھتے تھے اور کہتے تھے:
لا شریک لک الا شریکا ہو لک تملکہ وما ملک.
کہ تیرا کوئی شریک نہیں مگروہ جس کو تو نے خود شریک ٹھہرایا ہے اور اس کا تو مالک ہے وہ مالک نہیں ہے ۔
باقی اگر کوئی یہ کہے کہ "وہ تو دور دراز سے نہیں پکارتے تھے بلکہ ان مورتیوں سے جاکر مانگتے تھے تو ہمارا مسئلہ اور ہے اور ان کا مسئلہ اور تھا۔ "
تو گزارش ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب اور مولوی احمد سعید کاظمی نے تو صاف مانا ہے کہ:
”وہ مشرکین مکہ بڑے بڑے امور میں تو خدا کو ہی مالک و مختار سمجھتے تھے اور چھوٹے چھوٹے کاموں میں کہتے تھے کہ خدا نے ان کو اختیارات دیے ہیں یعنی ان نیک لوگوں کو مختار بنایا ہے اور وہ ان لوگوں سے مدد بھی مانگتے تھے اور وہ ان مورتیوں اور پتھروں کو ان کی توجہ کا قبلہ سمجھتے تھے۔
(دیکھیے اعلاء کلمۃ اللہ، مقالات کاظمی وغیرہا )
اور تفصیل سے یہ بات شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے بھی لکھی ہے۔
معلوم ہوا کہ وہ ان مورتیوں اور پتھروں کو توجہ کے لیے قبلہ قرار دیتے تھے ان کو پوجتے نہ تھے۔ ہاں جہلاء نے سب کچھ انہی مورتیوں کو سمجھ لیا ورنہ ان میں بڑے لوگ وہی عقیدہ رکھتے تھے جو عرض کیا جا چکا ہے۔ جب صرف ان نیک لوگوں کی توجہ کا ذریعہ ان بتوں کو سمجھتے تھے تو پھر جب وہ اولاد، رزق، بارش، شفاء وغیرہ مانگتے تھے تو سمجھتے تھے کہ وہ اپنی اپنی جگہ مدفون ہیں مگر ہماری باتیں، گذارش ،عرضیاں، درخواستیں، بیان بھی سنتے ہیں اور وہیں سے مدد بھی کرتے ہیں۔
تو بتائیں کہ ان مشرکین نے ان بتوں کو ہر جگہ سے سننے اور دیکھنے والا مانا یا نہیں؟ بتا ؤ! تو اب تمہارا اور ان کا کیا فرق رہ گیا؟
الٰہ کا معنی
”اِلٰہٌ“ کا وہ معنی جس میں مشرکین کو بڑا اختلاف تھا قرآن کریم اور حدیث شریف کی رو سے بیان کیا جاتا ہے جس میں زمانہ سابق و حال کے مشرک اور زمانہ قدیم وجدیدکے جاہل مبتلاء تھے اور ہیں۔ اور تکالیف کے وقت غیر اللہ کو" الہ" سمجھتے تھے اور اب بھی سمجھتے ہیں کیونکہ اگر یہ معنی کھول کر نہ بیان کیا جائے تو نہ عبادت خدا تعالیٰ کے لیے مخصوص ہوسکے گی اور نہ توحید و شرک کا مفہوم سمجھ آسکے گا اور قرآن کریم پرا یمان اور یقین رکھنے کے باوجود عقیدہ نامکمل رہے گا، ہر ایسی سمجھ والا زبان سے لا الہ الا اللہ تو کہتا رہے گا مگر سینکڑوں کو ”الہ “بناتا رہے گا، وہ زبانی یہ دعوی تو ضرور کرے گا کہ میں اللہ کے علاوہ کسی کو رب نہیں سمجھتا لیکن بایں ہمہ اس نے بہتوں کو"اربابا من دون اللہ"بنا رکھا ہوگا۔ وہ پوری نیک نیتی سے کہے گا کہ میں اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتا مگر پھر بھی بہت سے معبودوں کی عبادت میں مشغول رہے گا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلٰهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ.
(سورۃ النمل:62)
بھلا وہ کون ہے کہ جب کوئی بےقرار اسے پکارتا ہے تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے اورتکلیف دور کر دیتا ہے اور جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے ، کیا ( پھر بھی تم کہتے ہو کہ ) اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے ؟ نہیں ! بلکہ تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر یہ بیان فرمایا ہے کہ مجبور اور بے کس کی پکار کو سننا اور اس کی مدد کرنا اور اس کی تکلیف دور کرنا الہ کا کام ہے۔ گویا فریاد رس اور تکلیف کو دور کرنے والا "الہ" ہوتا ہے اور اس کے بغیر کوئی بھی الہ نہیں ہے، حضرت یونس علیہ السلام نے جب مچھلی کے پیٹ میں دعا کی تو یہ فرمایا:
لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ.
( سورۃ الانبیاء آیت87)
کوئی الہ نہیں مگر صرف تو۔
مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! نہ تیرے بغیر کوئی فریاد رس ہے اور نہ تکلیف دور کرنے والا ہے اور نہ کوئی حاجت روا ہے اور نہ کوئی مشکل کشا ہے۔
آیات قرآنیہ
قرآن کریم کی چند آیات پیش کی جاتی ہیں کہ مشرکین غیر اللہ کو فریاد رس اور تکلیف دور کرنے والا سمجھ کر پکارتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف مشرکین کی (دعا یدعو کے الفاظ کو سامنے رکھ کر) تردید فرمائی ہے کہ جن کو تم پکارتے ہو وہ نہ نفع کے مالک ہیں ،نہ ضرر کے اور نہ ہی ان کو تمہاری تکلیفوں اور مصیبتوں کی اطلاع ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کو یہ حکم ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کےعلاوہ کسی کو نہ پکارو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
1: إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَاباً وَلَوْ اجْتَمَعُوا لَهُ.
(سورۃ الحج :73)
ترجمہ: تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر جن جن کو دعا کے لیے پکارتے ہو ، وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے ، چاہے اس کام کے لیے سب کے سب اکھٹے ہو جائیں ۔
2: قُلْ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ لا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَوَاتِ وَلا فِي الأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ.
(سورۃ السباء:22)
ترجمہ: (اے پیغمبر ! ان کافروں سے) کہو کہ " پکارو ان کو جنہیں تم نے اللہ کے سوا خدا سمجھا ہوا ہے وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابر کسی چیز کے مالک نہیں ہیں، نہ ان کو آسمان وزمین کے معاملات میں (اللہ کے ساتھ) کوئی شرکت حاصل ہے اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے ۔"
3: قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِي اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِي اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ.
(سورۃ الزمر:38)
ترجمہ: (ان سے) کہو کہ :" ذرا مجھے یہ بتاؤ کہ تم اللہ کو چھوڑ کر جن (بتوں) کو پکارتے ہو ، اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانے کا ارادہ کر لے تو کیا یہ اس کے پہنچائے ہوئے نقصان کو دور کر سکتے ہیں ؟ یا اگر اللہ مجھ پر مہر بانی فرمانا چاہے تو کیا یہ اس کی رحمت کو دور کر سکتے ہیں ؟ کہو کہ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے ۔ بھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔
4: قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنْ الأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمٰوَاتِ اِئْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ.
(سورۃ الاحقاف:4)
ترجمہ: تم ان سے کہو کہ :"کیا تم نے ان چیزوں پر کبھی غور کیا ہے جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ؟ مجھے دکھاؤ تو سہی کہ انہوں نے زمین کی کون سی چیز پیدا کی ہے ؟ یا آسمان ( کی تخلیق) میں ان کا کوئی حصہ ہے ؟ میرے پاس کوئی ایسی کتاب لاؤ جو قرآن سے پہلے کی ہو یا پھر کوئی روایت جس کی بنیاد علم پر ہو ، اگر تم واقعی سچے ہو۔
5: وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ (13) إِنْ تَدْعُوهُمْ لا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ.
(سورۃ الفاطر: 13، 14)
ترجمہ: اور اسے چھوڑ کر جن(جھوٹے خداؤں) کو تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی کوئی اختیار نہیں رکھتے ۔ اگر تم ان کو پکارو گے تو وہ تمہاری پکار سنیں گے ہی نہیں ، اگر سن بھی لیں تو تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکیں گے۔ اور قیامت کے دن وہ خود تمہارے شرک کی تردید کریں گے۔ اور جس ذات کو تمام باتوں کی خبر ہے ،اس کے برابر تمہیں کوئی اور صحیح بات نہیں بتائے گا۔
ان تمام آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کا شرک یہ بتلایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ مخلوق کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پکارا کرتے تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ غیر اللہ تکوینی امور (تکلیف سے نجات دینے اور مہربانی کرنے) میں ایک ذرہ کے بھی مالک نہیں ہیں اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کےعلاوہ دوسری مخلوق کو مشکل کشا جان کر پکارتے ہیں تو وہ ان کی بات کو نہ سن سکتے ہیں اور نہ ان کو اس کی کچھ خبر ہے قیامت تک پکارو وہ کچھ نہیں کرسکتے اور اگر بالفرض وہ تمہاری تکلیف کو سن بھی لیں تو تمہاری مدد کو نہیں پہنچ سکتے اور تمہارے شرک (یعنی پکارنے) کا قیامت کو صاف انکار کریں گے اور یہ ساری باتیں بتلانے والا وہ ہے جس سے کوئی بات چھپی ڈھکی نہیں۔ اسی آخری آیت میں اس قسم کے پکارنے پر "شرک" کا لفظ بولا گیا ہے۔ بلکہ ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
ذَلِكُمْ بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ وَإِنْ يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا فَالْحُكْمُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ.
(سورۃ غافر:12)
ترجمہ: (جواب دیا جائےگا کہ : ) تمہاری یہ حالت اس لیے ہے کہ جب اللہ کو تنہا پکارا جاتا تھا تو تم انکار کرتےتھے اور اگر اس کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرا یا جاتا تھا تو تم مان لیتے تھے۔ اب تو فیصلہ اللہ ہی کا ہے جس کی شان بہت اونچی، جس کی ذات بہت بڑی ہے ۔
اس آیت میں اکیلے خدا تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو نافع اور ضار جان کر پکارنا شرک قرار دیا گیا۔
وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لا يَضُرُّهُمْ وَلا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لا يَعْلَمُ فِي السَّمَوَاتِ وَلا فِي الأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ.
(سورۃ یونس :18)
ترجمہ: اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان (من گھڑت خداؤں) کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں ، نہ ان کو کوئی فائدہ دے سکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں (اے پیغمبر ! ان سے ) کہو کہ :"کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دے رہے ہو جس کاکوئی وجود اللہ کے علم میں نہیں ہے ، نہ آسمانوں میں نہ زمین میں ؟"(حقیقت یہ ہے کہ ) اللہ ان کی مشرکانہ باتوں سے بالکل پاک اور کہیں بالا وبرتر ہے ۔
قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمْ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِينَ (40) بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاءَ وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ
(سورۃ الانعام آیت40، 41)
ترجمہ ( ان کافروں ) سے کہو :" اگر تم سچے ہو تو ذرا یہ بتاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے ، یا تم پر قیامت ٹوٹ پڑے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ بلکہ اسی کو پکارو گے ، پھر جس پریشانی کے لیے تم نے اسے پکارا ہے ، اگر وہ چاہے گا تو اسے دور کر دے گا اور جن (دیوتاؤں) کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو ( اس وقت ) ان کو بھول جاؤ گے ۔
فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ.
(سورۃ العنکبوت:65)
ترجمہ: چنانچہ جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو اس طرح پکارتے ہیں کہ ان کا اعتقاد خالص اسی پر ہوتا ہے پھر جب وہ انہیں بچاکر خشکی پر لے آتا ہے تو فوراً شرک کرنے لگتے ہیں ۔
احادیث مبارکہ
1: عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: لِيَسْأَلْ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ كُلَّهَا ، حَتَّى يَسْأَلَهُ شِسْعَ نَعْلِهِ إِذَا انْقَطَعَ. زاد فی روایۃ ثابت البنانی مرسلا: «حتى يسأَلَه المِلْحَ ، وحتى يسأله شِسْعَهُ إذا انْقَطَعَ».
(مشکوۃ المصابیح: کتاب الدعوات)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم میں سے ہر ایک اپنے پروردگار سے تمام حاجتیں ضرور طلب کرے یہاں تک کہ اگر جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے (تو وہ بھی اللہ ہی سے طلب کرے) ثابت البنانی کی مرسل روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں :یہاں تک کہ نمک بھی اللہ ہی سے طلب کرے۔
2: عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال بینما انا ردیف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اذ قال لی یا غلام! احفظ اللہ یحفظک احفظ اللہ تجدہ امامک فاذا سالت فاسئل اللہ واذا استعنت فاستعن باللہ جف القلم بما ہو کائن.
(فتوح الغیب مقالہ نمبر42)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر بیٹھا ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا : اے بچے! تو حقوق اللہ کی حفاظت کر، اللہ تعالیٰ تیری حفاظت فرمائے گا، تو خیالات و معاملات میں اللہ تعالیٰ کا لحاظ رکھ، تو اسے اپنے پاس محسوس کرے گا پس سمجھ لے کہ جب بھی کوئی چیز مانگنا ہو تو اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنا اور جب (کسی مشکل میں پھنس جاؤ اور) مدد مانگنی ہو تو اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنا اور جو کچھ ہونا ہے وہ لکھا جاچکا ہے اور قلم لکھ کر خشک ہوچکا ہے ۔
بریلوی دعویٰ
1:حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر قسم کی حاجت روائی فرماسکتے ہیں ،دنیا آخرت کی سب مرادیں حضور کے اختیار میں ہیں۔
(فتاویٰ افریقہ ص112، فتاویٰ رضویہ ج21ص309)
2:اپنے مقبول انسانوں کے سپرد بھی عالم کا انتظام کیا اور ان کو اختیارات خصوصی عطاء فرمائے۔ (جاء الحق ص97 دوسرا باب: اولیاء سے مدد بانگنے کا عقلی ثبوت)
بریلویوں کے”دلائل“ کا جائزہ
غیر اللہ سے مدد مانگنے کے ثبوت پر بریلوی حضرات جن آیات کو دلیل بناتے ہیں ، ان کا تجزیہ پیش خدمت ہے ۔
[1]: وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِينَ.
(سورۃ البقرۃ:23)
ترجمہ: اور اللہ کے سوا اپنے سارے حمایتیوں کو بلالو۔
الجواب:
یہ تو خدا تعالی کافروں سے کہہ رہا ہے کہ تم خدا کے علاوہ جن کو اپنا کار ساز سمجھتے تھے ان کو بلالو، اگر رضا خانی بھی انہی میں سے ہیں تو بڑے شوق سے بلائیں ورنہ یہ تمہاری دلیل نہیں بن سکتی۔
[2]: قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ.
(سورۃ آل عمران:52)
ترجمہ: مسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ کون کون لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں میرے مدد گار ہوں۔
الجواب:
یہ مدد جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے مانگی ہے یہ وہ ہے جو بالاتفاق جائز ہے یعنی استمداد کی دوسری قسم یعنی اسباب کے ساتھ مدد مانگنا یا وہ مدد مانگنا جو انسانی طاقت و بس میں ہے۔ مثلا روٹی، پانی، روپیہ، پیسہ وغیرہ مانگنا۔ تو یہاں سیدنا عیسی علیہ السلام بھی اپنے حواریوں سے ظاہری مدد مانگ رہے ہیں نہ کہ اختلافی مدد مانگ رہے ہیں۔
اس سے اگر بریلوی یہی مطلب لیں تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السلام تو مشکل کشا نہیں، بلکہ ان کے امتی مشکل کشا ہیں۔
[3]: وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ.
(سورۃ المائدۃ:2)
ترجمہ: نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو ۔
الجواب:
ہم بڑی جرأت و دلیری سے کہتے ہیں کہ 14صدیوں کے کسی معتبر مفسر نے اس آیت سے اختلافی استمداد ثابت نہیں کی، غیر اللہ کو مختار ِکل سمجھ کر ہر جگہ سے پکارنا، جو ہمارے اور تمہارے درمیان اختلافی امر ہے وہ تو اس سے ثابت نہیں ہورہا ۔
[4]: وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ.
(سورۃ البقرۃ: 45)
اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو ۔
الجواب:
اگر یہ لوگ اپنی تفسیر ضیاء القرآن ہی پڑھ لیتے تو بات ان کی سمجھ میں آجاتی ۔قرآن یہ بات کہہ رہا ہے کہ نماز اور صبر کے ذریعے اللہ سے مدد مانگو۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ”نماز اور صبر غیر خدا ہیں“ تو عرض ہے کہ یہاں ”ب“ سبب اور ذریعہ بتانے کے لیے آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو نماز اور صبر کے ذریعے سے ۔
[5]: هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ
(سورۃ الانفال :62)
ترجمہ: وہی تو ہے جس نے اپنی مدد کے ذریعے اور مومنوں کے ذریعے تمہارے ہاتھ مضبوط کئے۔
الجواب:
اللہ کریم نے یہاں پر ایک اُس مدد کا ذکر کیا ہے جو چھپی ہوئی تھی اور دوسری مسلمانوں کے ذریعے اس مدد کا ذکر کیا ہے جو ظاہری اور نظر آنے والی تھی۔ یہ دونوں مددیں اللہ کی طرف سے ہیں، اگر اللہ کریم کسی کو کسی کام کے لیے استعمال فرما لے تو اس سے وہ مشکل کشا نہیں بن جاتا، جیسے پانی کو خدا نے ہر زندہ کے پیدا کرنے کے لیے سبب بنایا ہے، تو پانی کو کیا کوئی مشکل کشا سمجھتا ہے؟ اسی طرح اصحاب فیل کو تباہ کرنے کے لیے خدا نے ذریعہ بنایا پرندوں اور کنکریوں کو۔ کیا بریلوی اسی لیے ہر پتھر کو پوجتے اور چومتے ہیں ؟ القصہ خدا نے جیسے ان کو بطور سبب ظاہر کیا ان کو بھی کیا، جیسے ان کو کوئی مشکل کشا نہیں سمجھتا ایسے ہی وہ بھی نہیں۔
[6]: إِنَّمَا وَلِيُّكُمْ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ.
(سورۃ المائدۃ:55)
ترجمہ: (مسلمانو!) تمہارے یار ومددگار اللہ اس کے رسول اور وہ ایمان والے ہیں جو اس طرح نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں وہ (دل سے) اللہ کے آگے جھکے ہوئے رہتے ہیں ۔
الجواب:
اولاً: ہمارا اختلاف تو اس بات سے ہے کہ انبیاء اور اولیاء کو مختارِ کل سمجھ کر ہر جگہ سے ان کو پکارا جائےاور یہ بات تو یہاں سے ثابت ہی نہیں ہوتی۔
ثانیاً: ظاہری مدد و نصرت ایک دوسرے سے مانگنا جتنی اس کی طاقت و بساط میں ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ نیز یہ بات بھی مد نظر رہے کہ اس آیت سے ان سے پہلے 14صدیوں کے کسی بھی معتبر مفسر نے استعانت بغیر اللہ ثابت نہیں کی۔
ثالثاً: ولی کا معنی دوست بھی تو ہوسکتا ہے۔
رابعاً: اگر معنی یہ لیا جائے کہ یہ سب مددگار ہیں۔ تو پہلا خطاب صحابہ کو ہے ،صحابہ کے سب ایمان والے مددگار تھے، کیا مطلب؟ آج بھی ہر مؤمن مددگار ہے تو پھر مزارات پر کیا لینے جاتے ہو؟ کیا تم مومن نہیں؟
[7]: فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ.
(سورۃ التحریم :4)
ترجمہ: پس ان کا مددگار اللہ ہے اور جبرائیل ہیں اور نیک مسلمان ہیں اور اس کے علاوہ فرشتے ان کے مددگار ہیں ۔
الجواب:
اولاً: مولیٰ کا معنیٰ دوست بھی تو ہوتا ہے۔
ثانیًا: اگر کسی بھی معتبر مفسر نے اختلافی استمداد کو اس آیت سے مراد لیا ہے تو پیش کریں۔
ثالثاً: قران و سنت کے دلائل سے ہم نے عرض کردیا کہ غیر اللہ سے استعانت جو مختلف فیہ ہے، ناجائز ہے ۔
رابعاً: رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے بعض صحابہ کو" مولیٰ" کہا، کیا وہ حضور علیہ السلام کے مشکل کشا حاجت روا اور مددگار تھے؟
خامساً: بریلوی اپنے علماء کو "مولانا" کہتے ہیں، تو کیا وہ سب کچھ دیتے ہیں؟مشکل کشا ہیں؟حاجت روا ہیں؟ بگڑی بنانے والے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر معنی تم ہی کرو گے "دوست" تو یہاں بھی وہی معنی مراد ہوسکتا ہے۔
[8]: فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا.
(سورۃ النازعات:5)
ترجمہ: قسم ہے ان فرشتوں کی جو امور کو ترتیب دینے والے ہیں۔
اللہ رب العزت نے فرشتوں کو اختیار دے رکھا ہے کہ وہ جب چاہیں جو کام چاہیں اپنی مرضی سے کرسکتے ہیں تو جب اللہ نے فرشتوں کو اختیار دیا ہے تو ایسا اختیار نبیوں اور ولیوں کے لیے بھی ہے۔
الجواب:
اللہ ر ب العزت نے فرشتوں کو یہ جو اختیار دیا ہے یہ نہ تو دائمی اختیار ہے اور نہ ہی اختیاری طاقت ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ پانی سے پیاس بجھا سکتا ہے اور پیاس بجھانے پر قادر ہے۔ جو اللہ کھانے سے پیٹ بھرنے پر قادر ہے تو وہی اللہ ان فرشتوں، نبیوں، ولیوں سے بھی اس طرح کے کام لینے پر بھی قادر ہے۔ یہی تفسیر بیضاوی والے نے بھی کی ہے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کے پاس جو اختیار ہے یہ دائمی اور اختیار کلی ہے۔
مسئلہ استعانت پر بریلوی حضرات جن احادیث سے استدلال کرتے ہیں ان کا تحقیقی جائزہ
[1]: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا پاؤں سوگیا تو انہوں نے ”یا محمداہ “ کہا۔ (کتاب الاذکار وغیرہ)
معلوم ہوا غیر اللہ سے مدد طلب کرنا جائز ہے۔
جواب:
اس کی سند میں غیاث بن ابراہیم ہے۔امام احمد فرماتے ہیں کہ متروک ہے، امام یحییٰ کہتے تھےکہ یہ آدمی ثقہ نہ تھا، جو زجانی کہتے ہیں یہ شخص جعلی حدیثیں بنایا کرتا تھا، امام بخاری فرماتے ہیں کہ یہ متروک ہے۔
(میزان ج2ص323)
[2]: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ جس کا مضمون یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :جب تم میں سے کوئی شخص جنگل میں سفر کررہا ہو اور تمہاری سواری کا جانور ہاتھ سے نکل جائے تو اس کو یہ کہنا چاہیے
یا عباداللہ اعینونی (وفی روایۃ) یا عباد اللہ احبسوا فان للہ فی الارض حاضرا (وفی روایۃ) یستحسبہ.
(مجمع الزوائد ج10 ص133 ابن سنی ص162، حصن حصین ص163)
جواب نمبر1:
یہ روایت ایک سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کی سند میں ایک راوی معروف بن حسان ہے ۔
٭ علامہ ہیثمی لکھتے ہیں کہ یہ آدمی ضعیف ہے۔
(مجمع الزوائد ج10ص133)
٭ امام ابن عدی لکھتے ہیں: منکر الحدیث ہے۔
(میزان ج3ص183)
٭ امام ابو حاتم کہتے ہیں: مجہول ہے۔
(لسان المیزان ج6ص61)
اس روایت کی دوسری سند حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ تک پہنچتی ہے، جس کے متعلق علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ورجالہ وثقوا علی ضعف فی بعضہم الا ان زید بن علی لم یدرک عتبۃ .
(مجمع الزوائد ج10ص132)
بعض راوی ضعیف اور کمزور ہیں اور دوسری خرابی یہ ہے کہ یزید بن علی راوی کی حضرت عتبہ سے ملاقات ثابت نہیں نہ ہی دیکھا ہے اور نہ زمانا پایا ہے۔ لہذا یہ روایت حضرات محدثین کی اصطلاح میں منقطع ہے جو کہ ضعیف ہوتی ہے۔
جواب نمبر2:
اس حدیث کے الفاظ پر ہی نگاہ ڈالنے سے معاملہ صاف ہوجاتا ہے کیونکہ اس حدیث میں یہ لفظ بھی ہیں کہ وہاں کچھ خدا تعالیٰ کے بندے حاضر ہوتے ہیں۔ وہ کون ہیں؟ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے جنگلات میں رہتے ہیں جب تمہیں کوئی رکاوٹ پیدا ہو تو یہ کہا کرو :”اعینوا عباد اللہ “۔
(مجمع الزوائد ج10ص132 وقال رجالہ ثقات )
تو اس روایت سے مافوق الاسباب مدد طلب کرنا ثابت نہ ہوا بلکہ وہاں جو فرشتے موجود ہیں ان سے مدد طلب کی گئی ہے۔
[3]: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر جنگل میں کسی درندہ یا شیر کا خوف ہو تو” اعوذ بدانیال علیہ السلام“ کہا کرو کہ میں حضرت دانیال علیہ السلام کی پناہ چاہتا ہوں۔
(حیاۃ الحیوان ج1ص6، ابن سنی ص113)
جواب:
یہ حدیث موقوف ہونے کے ساتھ ضعیف بھی ہے کیونکہ اس میں متعدد راوی ضعیف اور کمزور ہیں جو ساقط الاعتبار ہیں۔
پہلا راوی…… عبدالعزیز بن عمران ہے، امام بخاری، ابن معین، نسائی، ترمذی، ابن حبان، ابو زرعہ وغیرہ حضرات اس کو ضعیف کہتے ہیں۔
(تہذیب ج6ص651)
دوسرا راوی…… ابن ابی حبیبہ ہے جس کا نام ابراہیم بن اسماعیل ہے۔ امام بخاری اس کو صاحب مناکیر کہتےہیں، امام نسائی، ابن معین، دار قطنی، ابوحاتم، امام حاکم، امام ترمذی، امام ابن حبان وغیرہ اس کی تضعیف کرتے ہیں۔
(میزان ج 1ص11)
تیسرا راوی…… داؤد بن حصین ہے۔ امام ابن عیینہ، ابو زرعہ، ابو حاتم، سعد بن ابراہیم اس کو مطلقاً ضعیف قرار دیتے ہیں اور امام ابن مدینی، ابو داؤد اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ فرماتے ہیں اس کی وہ حدیث جو عکرمہ سے ہو، ضعیف ہوتی ہے اور یہ روایت بھی عکرمہ سے ہے۔
(میزان ج1ص317، تہذیب ج3ص181)
[4] حضرت بلال بن الحارث المزنی نے قحط سالی میں "یا محمد اہ " کہا تھا ۔
(الکامل لابن عدی )
جواب:
اولاً: کامل ابن عدی چوتھے درجے کی کتابوں میں سے ہیں اور اس طبقہ کے بارے میں محدثین کرام کا یہ فیصلہ ہے:
ایں احادیث قابل اعتماد نیستند کہ در عقیدہ یا عملے بآنہا تمسک کردہ شود .
(عجالہ نافعہ ص7)
ہاں اگر اصول حدیث کی رو سے اس طبقے کی کوئی حدیث سندا ًصحیح ثابت ہو تو اس کی صحت میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا۔
ثانیاً: انہوں نے یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے روضہ اطہر پر حاضر ہوکر کہے تھے، لہذا یہ غائبانہ پکار کی مد میں نہیں ہے۔
[5]: عبدالرحمان مسعودی کی ٹوپی میں ”یا محمد یا منصور“ لکھا ہوا تھا۔
(تہذیب)
جواب:
حضرات محدثین جب ان کی روایت کو ضعیف سمجھتےہیں تو ان کا فعل کیسے حجت ہوسکتا ہے؟! علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ لکھتےہیں:
”ضعیف“
(زیلعی ص133)
اور یہ اتنے مجذوب اور بے خبر ہوگئے تھے کہ چیونٹیاں ان کے کان میں داخل ہوجاتی تھیں۔
(میزان ج2ص111)
[6]: آپ علیہ السلام معراج پر تشریف لے گئے تو موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ پر اللہ تعالیٰ سے باربار اپیل کرنے سے پچاس نمازوں کی جگہ پانچ رہ گئی تھیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ مردے زندوں کے کام آسکتے ہیں اور ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ لہذا اگر مصیبت میں ان کو پکارا جائے تو کون سا حرج ہے؟۔
(جاء الحق ص197)
جواب:
سند کے اعتبار سے یہ روایت بالکل صحیح ہے لیکن اس سے غائبانہ امداد طلب کرنے کا جواز ثابت کرنا بالکل باطل اور حدیث میں تحریف ہے، آپ علیہ السلام نے نہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مدد مانگی ہے اور نہ غائبانہ پکارا بلکہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے اپنی قوم کی حالت بیان کی اور پچاس نمازوں میں تخفیف کا مشورہ دیا۔ آپ علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو نہ غائبانہ پکارا نہ ان سے مدد مانگی بلکہ ان کے مشورہ پر اللہ پاک سے تخفیف کا مطالبہ کیا۔ اس لیے اگر آج کوئی کسی کو خواب یا بیداری میں ملے اور وہ کسی دینی یا دنیاوی معاملہ میں کوئی مشورہ دے تو اس مشورے کو مانا جاسکتا ہے، ہم اس کو شرک نہیں کہتے۔ جو چیز فریق مخالف ثابت کرنا چاہتا ہے وہ غائبانہ پکارنا ،حاضر نا ظر سمجھ کر پکارنا یا غائبانہ اس کو بطور سفارش کے پیش کرنا ہے تو اس چیز کا ثبوت اس روایت سے ہرگز نہیں ملتا، اگر جائز ہوتا تو صحابہ کرام سلف صالحین ضرور پکارتے اور اس کو بطور دلیل پیش کرتے اور قرآن کریم میں مافوق الاسباب طریق پر پکارنا نا جائز نہ ہوتا کیونکہ محال ہے کہ دو متضاد حکم اللہ تعالیٰ اور آپ علیہ السلام کی طرف پیش کیے جائیں۔
[7]: حضرت ساریہ فوج کے ساتھ نہاوند کے مقام پر دشمنوں کے ساتھ بر سر پیکار تھے کہ دشمن نے پیچھے سے حملہ کرنے کی کوشش کی حضرت عمررضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کے منبر پر یہ ارشاد فرمایا: ”یا ساریۃ الجبل الجبل“(اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو اور دشمن سے بچو) انہوں نے آواز سن لی اور جان بچالی معلوم ہوا غائب بھی مدد کرسکتا ہے۔
جواب نمبر1:
یہ روایت بیہقی ، ابو نعیم، خطیب وغیرہ نے اپنی کتابوں میں لکھی ہے اور ابو نعیم اور خطیب کی کتابیں طبقہ رابعہ کی ہیں (عجالہ نافعہ بحوالہ ص8) اور طبقہ رابعہ کے بارے میں محدثین کا نظریہ ہے کہ عقائد کے بارے میں یہ قابل قبول نہیں (عجالہ نافعہ ص7) امام بیہقی کی کتب طبقہ ثالثہ کی ہیں اس کا حکم یہ ہے کہ:
واکثر آں احادیث معمول بہ نزد فقہاء نہ شدہ اند بلکہ اجماع بر خلاف انہا منعقد گشتہ
(عجالہ نافعہ ص7)
اگر چہ یہ حدیث صحیح بھی ہو اور ظن غالب بھی یہی ہے کہ یہ حدیث سنداًصحیح ہے لیکن عقائد کے باب میں قابل قبول نہیں۔
جواب نمبر2:
پہلی بات : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز کا وہاں تک پہنچ جانا بطور کرامت کے تھا اگر آج بھی کسی غائب کو کسی کے حالات کا علم ہوجائے اور وہ آواز دے اور کوئی اس کی آواز کو سن کر اپنا بچاؤ کر لے تو صحیح ہے۔لیکن آج کے دور میں جس طرح بزرگوں کو پکارتے ہیں ان کو غائب کی طرف سے کوئی آواز بھی نہیں سنائی جاتی۔ لہذا کرامت پر ایسے واقعات کو قیاس کرنا باطل ہے۔
دوسری بات: حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی زندہ تھے اور حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ بھی، اس لیے اس پر قیاس کرتے ہوئے زندہ کا غائب مردہ سے استعانت طلب کرنا قیاس مع الفارق ہے۔
تیسری بات: حضرت ساریہ کا آواز سننے سے پہلے وہم بھی نہیں ہوگا کہ میں حضرت عمر سے استعانت طلب کروں گا۔
چوتھی بات: یہ ہے کہ اگر حضرت عمر رضی االلہ عنہ کے پاس "ما کان و ما یکون" کا علم ہوتا تو وہ ابو لؤلؤ مجوسی سے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان نہ بچالیتے؟ جو اس واقعہ کے بعد کا اور شہادت سے پہلے کا واقعہ ہے
جواب نمبر3:
اس روایت سے مدد دینے والے کا غائبانہ پکارنا ثابت ہوا ہے نہ کہ مدد طلب کرنے والے کا ۔دونوں میں بڑا فرق ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ پاک نے بیت المقدس اور نجاشی کا جنازہ سامنے کرنے کی طرح لشکر کو سامنے کردیا ہو، چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہےکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ فرمائے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا لشکر موجود رہتا ہے ہوسکتا ہے وہ لشکر میری یہ بات ساریہ تک پہنچادے۔
(البدایہ والنہایہ ج7ص130)
اس صورت میں غائب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
[8]: حضرت راجز نے (دور سے) حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو مدد کے لیے" یا "سے پکارا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مدد کی، حضور نے فرمایا: راجز یستصرخنی اغثنی یا رسول اللہ یعنی یہ راجز ہے مجھ سے مدد مانگ رہا ہے اور کہتا ہے: ”اغثنی یا رسول اللہ“ کہ اللہ کے رسول میری مدد کریں۔
الجواب:
پہلی بات: فیضی صاحب نے ”نظریات صحابہ“ علماء دیوبند کی 7 عدد کتابوں کے حوالے دیے ہیں مگر کسی میں بھی "اغثنی یا رسول اللہ" نہیں۔
دوسری بات: یہ قبیلہ مسلمان نہیں تھا سوائے چند کے، اس راجز یعنی شعر کہنے والے کا نام عمرو بن صالح ہے۔ یہ اس وقت تک مسلمان نہیں تھا۔ انہوں نے جب ان پر ظلم کیا تواس نے چند اشعار کہے جن میں اپنے اوپرہونے والا ظلم اور رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حلیفانہ معاہدہ کا ذکر کیا، اور اپنی مدد کی درخواست دی۔
یہ قبیلہ بنو خذاعہ مسلمانوں کا حلیف تھا، اور بنوبکر قریش کا حلیف تھا۔ انہوں نے اس قبیلہ پر حملہ کیا اور ان کے افراد کو قتل کیا، تو ان میں سے ایک فرد نے یہ بات اشعار میں کہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معجزۃً اس کی خبر ہوئی اور مدد بھی وہ مانگی جو تحت الاسباب تھی یعنی حلیف ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق بنتا تھا ان کی مدد کرنا اور یہ انسانی طاقت و بس کی بات ہے۔ باقی رہی دور سے پکارنے والی بات تو وہ درست نہیں یعنی وہ ان کا اقدام اسلام میں درست نہیں۔
[9]: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو ہجرت کے موقع پر جب آپ تشریف لائے "یا رسول اللہ" کہا۔
جواب:
گذارش ہے کہ اس روایت سے ہر جگہ حاضر و ناظر سمجھ کر پکارنا تو ثابت نہ ہوا، یہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سامنے موجود تھے۔ جب کہ ثابت یہ کرنا ہے ہر جگہ مختار کل سمجھ کر پکارنا، تو وہ اس سے نہیں ہورہا کیونکہ آپ قریب بھی تھے اور دوسرا اس میں مختار کل سمجھنا بھی ثابت نہیں ہورہا۔