نماز میں صف بندی کے مسائل

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نماز میں صف بندی کے مسائل
از افادات متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے باجماعت نماز میں صفوں کو سیدھا رکھنے پر خصوصی توجہ دلائی ہے اور اسے ”حسنِ صلوٰة“ اور ”اتمام صلوٰة“ قرار دیا ہے۔ چند روایات پیش خدمت ہیں:
1: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
وَأَقِيمُوا الصَّفَّ فِي الصَّلَاةِ فَإِنَّ إِقَامَةَ الصَّفِّ مِنْ حُسْنِ الصَّلَاةِ.
(صحیح البخاری: ج1 ص100 باب اقامۃالصف من تمام الصلاة)
ترجمہ: نماز میں صف کو درست کرو اس لئے کہ صف کو درست کرنا نمازکے محاسن میں سے ہے۔
2: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ.
(صحیح البخاری: ج1 ص100 باب اقامۃالصف من تمام الصلاة)
ترجمہ: تم لوگ اپنی صفیں درست رکھا کرو کیونکہ صف بندی سے نماز کی تکمیل ہوتی ہے۔
3: سیدنا حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ إِقَامَةَ الصَّفِّ.
(مسند احمد:22 ص346 رقم الحدیث14454)
ترجمہ: بیشک نمازکی تکمیل صفوں کی درستی سے ہوتی ہے۔
نماز کی صف بندی کے متعلق یہ مسائل پیش کیے جائیں گے:
1: قدموں کے درمیان فاصلہ
2: ٹخنے سے ٹخنا، کندھے سے کندھا، پاؤں سے پاؤں ملانے کا مسئلہ / صف سیدھی کرنے کا طریقہ
قدموں کے درمیان فاصلہ
مذہبِ اہل السنت و الجماعت:
نمازی اپنے دونوں پاؤں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھے، جو کم از کم چار انگشت سے لے کر زیادہ سے زیادہ ایک بالشت کی مقدار ہونا چاہیے۔
فقہ حنفی:
1: وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ بين قَدَمَيْهِ أَرْبَعُ أَصَابِعَ في قِيَامِهِ
(فتاویٰ عالمگیری: ج1 ص81-الفصل الثالث فی سنن الصلاۃ و کیفیتھا)
ترجمہ:نمازی کو چاہیے کہ قیام کے حالت میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان چار انگشت کا فاصلہ ہونا چاہیے۔
2: وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ بَيْنَهُمَا مِقْدَارُ أَرْبَعِ أَصَابِعِ الْيَدِ لِأَنَّهُ أَقْرَبُ إلَى الْخُشُوعِ
(رد المحتار: ج2 ص163 باب صفۃ الصلاۃ)
ترجمہ: نمازی کے دونوں پاؤں کے درمیان ہاتھ کی چار انگلیوں کا فاصلہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ خشوع کے زیادہ قریب ہے۔
فقہ مالکی:
يُنْدَب تفريجُ القَدَمين بأن يكون المصلي بحالةٍ متوسطةٍ في القيام بحيث لا يَضُمُّهما ولا يُفرِّجُهما كثيراً
(فقہ العبادات- مالکی: ص161)
ترجمہ:قیام کی حالت میں دونوں پاؤں کے درمیان متوسط حالت کا فاصلہ رکھنا مستحب ہے، وہ اس طرح کہ دونوں پاؤں کو نہ زیادہ ملائے اور نہ زیادہ کشادہ کرے۔
فقہ شافعی:
1: ویُسَنُّ ان یُفَرِّق بین قدمیہ بِشِبْرٍ
(اعانۃ الطالبین لابی بکر الدمیاطی:ج3ص247)
ترجمہ: نمازی کے لیے اپنے دونوں پاؤں کے درمیان ایک بالشت کی مقدار فاصلہ رکھنا سنت ہے۔
2: ونَدُبَ التفریقُ بینہما ای باربع اصابعَ او بِشِبْرٍ
(اسنی المطالب فی شرح روض الطالب لزکریا الانصاری الشافعی: ج2 ص345)
ترجمہ: دونوں پاؤں کے درمیان چار انگشت یا ایک بالشت کی مقدار فاصلہ رکھنامستحب ہے۔
فقہ حنبلی:
وكان ابن عمر لا يفرج بين قدميه ولا يمس إحداهما بالأخرى ولكن بين ذلك لا يقارب ولا يباعد
(المغنی لابن قدامۃ: ج1 ص696- فصل : ما يكره من حركۃ البصر فی الصلاة)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما دونوں قدموں کے درمیان نہ زیادہ فاصلہ کرتے اور نہ ایک دوسرے سے ساتھ لگاتے بلکہ (ان دونوں کی درمیانی حالت کو اختیار فرماتے یعنی ) دونوں پاؤں کو نہ ایک دوسرے کے زیادہ قریب کرتے اور نہ ایک دوسرے سے زیادہ دور رکھتے۔
مذہبِ غیر مقلدین:
غیر مقلدین کا طرزِ عمل یہ ہے کہ حالتِ قیام میں دونوں پاؤں کے درمیان کافی زیادہ فاصلہ رکھتے ہیں جن کی وجہ سے پاؤں کے اس فاصلہ کی مقدار دو بالشت سے لے کر اڑھائی بالشت تک ہو جاتی ہے۔ ”تسہیل الوصول الی تخریج صلوٰۃ الرسول صلی اللہ علیہ و سلم“ کے شروع میں جو نماز پڑھنے کی عملی مشق کی تصاویر دی گئی ہے اس سے یہ بات بخوبی معلوم کی جاتی ہے۔ نیز عبد اللہ روپڑی صاحب ( تنظیم اہلحدیث) کے فتویٰ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:
” قدموں میں فاصلہ اتنا ہی ہونا چاہیے جتنا کہ کندھوں میں ہے۔ تاکہ دونوں مل جائیں۔ “ (فتاویٰ علمائے حدیث:جلد3 ص 21)
دلائل اہل السنت وا لجماعت:
1: مصنف عبد الرزاق میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت نافع سے مروی ہے:
أن بن عمر كان لا يفرسخ بينهما ولا يمس إحداهما الأخرى قال بين ذلك
(مصنف عبد الرزاق : ج2 ص172باب التحریک فی الصلاۃ)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما دونوں پاں کو پھیلا کر (اور چیز کر )نہیں کھڑے ہوتے تھے اور نہ ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں سے چھوتے تھے بلکہ ان کی درمیانی حالت پر رکھتے تھے۔
2: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی کے بارے میں مروی ہے:
وكان ابن عمر لا يفرج بين قدميه ولا يمس إحداهما بالأخرى ولكن بين ذلك لا يقارب ولا يباعد
(المغنی لابن قدامۃ: ج1 ص696- فصل : ما يكره من حركۃ البصر فی الصلاة)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما دونوں قدموں کے درمیان نہ زیادہ فاصلہ کرتے اور نہ ایک دوسرے سے ساتھ لگاتے بلکہ (ان دونوں کی درمیانی حالت کو اختیار فرماتے یعنی ) دونوں پاؤں کو نہ ایک دوسرے کے زیادہ قریب کرتے اور نہ ایک دوسرے سے زیادہ دور رکھتے۔
3: علامہ بدر الدین العینی لکھتے ہیں:
يستحب للمصلي أن يكون بين قدميه في القيام [ قدر] أربع أصابع يديه ، لأن هذا أقرب للخشوع.
(شرح ابی داود للعینی:ج3 ص354 باب وضع الیمنی علی الیسریٰ فی الصلاۃ)
ترجمہ: نمازی کے مستحب ہے کہ اس کے دونوں پاؤں کے درمیان ہاتھ کی چار انگلیوں کا فاصلہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ خشوع کے زیادہ قریب ہے۔
4: خالد بن ابراہیم السقبعی الحنبلی لکھتے ہیں:
رابعاً: تَفْرِقَتُه بين قدميه, والقاعدة هنا { أن الهيئات في الصلاة تكون على مقتضى الطبيعة, ولا تخالف الطبيعة إلا ما دل النص عليه}, والوقوف الطبيعي أن يفرج بين قدميه فكذلك في الصلاة, فما كان على غير وفق الطبيعة يحتاج إلى دليل.
(القول الراجح مع الدلیل: ج2 ص85)
ترجمہ: چوتھی سنت قدموں کے درمیان فاصلہ کرنا ہے۔ فاصلہ کرنے کے بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ نماز والی کیفیات انسانی طبیعت کےتقاضا کے مطابق ہوتی ہیں اور طبیعت کے تقاضے کے خلاف وہی کیفیت ہو گی جو مستقل نص سے ثابت ہو۔ چنانچہ قیام کی حالت میں طبعی تقاضا یہ ہے کہ کہ دونوں قدموں کے درمیان کشادگی ہو، لہذا نماز میں قیام کی حالت میں طبعی تقاضے کے مطابق قدموں کے درمیان فاصلہ ہونا چاہیے۔ پس نماز کی جو کیفیت بھی غیر طبعی ہے وہ محتاجِ دلیل ہے۔
5: قال الأثرم [احمد بن محمد ہانی البغدادی] : ( رأيت أبا عبد الله وهو يصلي وقد فرَّج بين قدميه)۔۔۔ هذا هو الأولى ، لأن قبل هذا الفعل يجعل القدمين على طبيعتها ، وحيث لم يرد نص في قدميه حال القيام فإنه يبقيهما على الطبيعة
(شرح زاد المستقنع للشيخ حمد بن عبد الله: ج5 ص150)
ترجمہ: امام اثرم کہتے ہیں: میں نے امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) کو نماز پڑھتے دیکھا کہ آپ نے اپنے قدموں کے درمیان فاصلہ کیا ہوا ہے۔ یہی بہتر ہے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے اپنے قدموں کو اپنی طبعی حالت پر رکھے، چونکہ قیام کی حالت میں قدموں کے درمیان فاصلہ کے بارے میں کوئی نص موجود نہیں ہے اس لیے ان کو اپنی طبعی حالت پر باقی رکھے۔
6: پاؤں پھیلا کر کھڑا ہونا تکبر کی علامت ہے۔ یہ بات واضح ہے۔
تنبیہ:
غیر مقلدین کے پاس اپنے موقف کے بارے میں نہ صریح حدیث مرفوع ہے نہ موقوف، یہ لوگ اس بات کو بنیاد قرار دینے پر مصر ہیں کہ نماز میں ٹخنے سے ٹخنہ ملانا چاہیے اس لیے قدموں کے درمیان فاصلہ خود بخود ہو جاتا ہے۔ لیکن ان کا یہ موقف درست نہیں اس لیے کہ ٹخنے سے ٹخنہ ملانے کا مطلب قریب قریب کھڑا ہونا ہے۔ لہذا ان لوگوں کا استدلال باطل ہے۔ (اس کی مزید تفصیل آئندہ عنوان آ رہی ہے)
ٹخنے سے ٹخنا، کندھے سے کندھا، پاؤں سے پاؤں ملانے کا مسئلہ/
صف سیدھی کرنے کا طریقہ
مذہب اہل السنت و الجماعت:
اہل السنت والجماعت کے ہاں صف بنانے میں اس طرح مل کر اور قریب قریب کھڑا ہونا چاہیے کہ درمیان میں جگہ خالی نہ چھوڑی جائے۔ نیز قریب قریب کھڑے ہونے سے بھی مراد مبالغہ و مجازہے نہ یہ کہ حقیقتاً کندھے سے کندھا، پا¬ؤں سے پا-ؤں اور ٹخنے سے ٹخنے ملا ہوا ہو۔
حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ ”الزاق“ (چپکانا، ملانا) کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
المراد بذلک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ.
(فتح الباری:ج2 ص273)
ترجمہ: ”الزاق“ سے مراد صف سیدھی رکھنے اور خالی جگہوں کو پُرکرنے میں مبالغہ کرنا ہے۔
علامہ سید محمد انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قال الحافظ المراد بذلک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ. قلتُ: و ھو المراد عند الفقہاء الاربعۃ ای ان لا یترک فی البین فرجۃ تسع فیہا ثالث .
(فیض الباری:ج2 ص236)
ترجمہ: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”الزاق سے مراد صف سیدھی رکھنے اور خالی جگہوں کو پُرکرنے میں مبالغہ کرنا ہے“، میں کہتا ہوں کہ فقہاء اربعہ کے نزدیک بھی یہی مراد ہے یعنی درمیان میں اتنی جگہ نہ چھوڑی جائے جس میں تیسرا آدمی آ سکتا ہو۔
علامہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وما روي أنهم ألصقوا الكعاب بالكعاب أريد به الجماعة أي قام كل واحد بجانب الآخر
(رد المحتار: ج2 ص163 بحث القیام)
ترجمہ: یہ جو روایت کیا گیاہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ٹخنوں کو ٹخنوں سے ملاتے تھے اس سے مقصود جماعت (کی کیفیت بتانا) ہے کہ ہر نمازی دوسرے کے قریب کھڑا ہو۔
مذہب غیر مقلدین:
غیر مقلدین کے ہاں صف بندی کے دوران ایک نماز دوسرے نمازی کے کندھے سے کندھا، پا¬ؤں سے پا¬ؤں اور ٹخنے سے ٹخنے حقیقتاً ملانا اور چپکانا ضروری ہے۔ تصریحات ملاحظہ ہوں:
1: جناب صادق سیالکوٹی صاحب لکھتے ہیں:
”پیر، ٹخنے، ایڑیاں، پنڈلیاں اور مونڈھے خوب جوڑ کر کھڑے ہو ا کرو۔“
(صلوة الرسول: ص267)
2: محمد علی جانباز لکھتے ہیں:
بعض نادان اور کم علم صفوں میں کھڑے ہونے سے اس قدر نفرت کرتے ہیں کہ اگر کوئی محب سنت ساتھ ملنے اور پیر ملانے کی کوشش کرے تو بدکے ہوئے گدھے کی طرح دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، یا غصے میں آکر پاؤں کے اوپر زور سے پاؤں مار دیتے ہیں۔
(صلاۃ المصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم: ص 282)
موصوف حدیث انس رضی اللہ عنہ کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
اس حدیث سے ثابت ہواکہ صف ایسی ہونی چاہیے جیسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے، درمیان میں کوئی شگاف نہیں رہنا چاہیے۔(ص 283)
3: ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی لکھتے ہیں:
مساجد میں مسلمانوں کا عجب حال ہے۔ نماز ی ایک ایک فٹ دور کھڑے ہوتے ہیں، اور باہمی قدم مل جانے کو بڑا خطر ناک تصور کیا جاتاہے۔
(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز: ص 177)
مزید لکھتے ہیں:
صفیں اس صورت میں ہی مضبوط ہوسکتی ہیں جب نمازی اپنے ساتھ والے نمازی کے کندھے کے ساتھ کندھا اور قدم کے ساتھ قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملاکر کھڑا ہو۔
(ایضاً: ص 176)
دلائل اہل السنت والجماعت:
دلائل اہل السنت والجماعت میں ہم دو قسم کی احادیث پیش کریں گے۔
[1]: وہ احادیث جن میں اہتمامِ صف بندی کے لیے صف سیدھی ہونے، کندھا برابر کرنے ، گردنیں ایک سیدھ میں رکھنے، خلاء پر کرنے، مل مل کر اور قریب قریب کھڑا ہونے کا تذکرہ تو ہو گالیکن کندھے سے کندھا، پا¬ؤں سے پا¬ؤں اور ٹخنے سے ٹخنے حقیقتاً ملانے کا ذکر نہیں ہو گا۔
[2]: وہ احادیث جن سے بظاہر ایسا سمجھا جا رہا ہو گا لیکن ان کی مراد یہ لغوی معنی نہ ہو گی بلکہ اس سے ”قرب“ والا معنی مراد ہو گا۔
احادیث قسم اول:
1: عن نعمان بن بشیر یقول: کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و سلم یسوی صفوفنا حتی کانما یسوی بہا القداح حتی رأٰی اناقد عقلنا عنہ‘ ثم خرج یوماً فقام حتی کاد ان یکبر فرأٰی رجلا بادیا صدرہ من الصف‘ فقال عباد الله الا تسوون صفوفکم او لیخالفن الله بین وجوہکم
(صحیح مسلم:1/182)
ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہماری صفوں کو اس قدر سیدھا کرتے تھے گویا ان کے ذریعہ آپ تیروں کو سیدھا کریں گے‘ یہاں تک کہ آپ کو خیال ہو گیا کہ اب ہم لوگ سمجھ گئے ہیں کہ ہمیں کس طرح سیدھا اور کھڑا ہونا چاہئے۔ اس کے بعد ایک دن ایسا ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم باہر تشریف لائے اور نماز پڑھانے کے لئے اپنی جگہ پر کھڑے بھی ہوگئے، قریب تھا کہ آپ تکبیر کہہ کر نماز شروع فرمادیں کہ آپ کی نگاہ ایک شخص پر پڑی جس کا سینہ صف سے کچھ آگے نکلا ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ کے بندو! اپنی صفیں ضرور سیدھی اور درست رکھا کرو‘ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے رخ ایک دوسرے کے مخالف کردے گا۔
2: عن ابن عمر رضی اللہ عنہ ان رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم قال: اقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولینوا بایدی اخوانکم ولاتذروا فرجات للشیطان ومن وصل صفّا وصلہ الله ومن قطع صفّا قطعہ الله
(سنن ابی داود:ج1 ص104 باب تسویۃ الصفوف)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: صفیں قائم کرو‘ کندھے ایک دوسرے کی سیدھ میں کرو‘ خلاء کو پُر کرو اور اپنے بھائیوں کے ہاتھ میں نرم ہوجاؤ‘ شیطان کے لئے صفوں میں خالی جگہ نہ چھوڑو‘ جس نے صف کو ملایا‘ اللہ اسے ملائیں گے اور جس نے صف کو کاٹا اللہ اسے کاٹ دیں گے۔
3: عن البراء بن عازب رضی اللہ عنہ قال: کان رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم یتخلل الصف من ناحیة یمسح صدورنا ومناکبنا ویقول لاتختلفوا فتختلف قلوبکم .
(سنن ابی داود:ج1 ص104 باب تسویۃ الصفوف)
ترجمہ:۔”حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صف میں ایک جانب سے دوسری جانب تشریف لے جاتے تھے اور صف کو برابر کرنے کے لئے ہمارے سینوں اور کندھوں پر ہاتھ مبارک پھیرتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے کہ تم آگے پیچھے نہ ہونا ورنہ تمہارے دل باہم مختلف ہوجائیں گے۔
4: عن انس بن مالک انہ قدم المدینة‘ فقیل لہ ما انکرت منا منذ یوم عہدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال ما انکرت شیئا الا انکم لایقیمون الصفوف.
(صحیح بخاری:ج1 ص100 باب اثم من لم یتم الصفوف)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بصرہ سے مدینہ تشریف لائے‘ تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ کے لحاظ سے اس زمانہ میں کونسی بات ناپسند یدہ پائی ہے؟ انہوں نے فرمایا:اور تو کوئی خاص بات نہیں، البتہ یہ کہ تم لوگ صفوں کو سیدھا نہیں کرتے ہو۔
5: عن بلال رضی اللہ عنہ قال: کان النبی صلی اللہ علیہ و سلم یسوی مناکبنا فی الصلاة.
(المعجم الصغیر للطبرانی:ج2ص81)
ترجمہ: حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں ہمارے کندھوں کو بالکل برابر کرتے تھے۔
6: وروی عن عمر انہ کان یؤکل رجلا باقامة الصف ولایکبر حتی یخبر ان الصفوف قد استوت‘ وروی عن علیّ وعثمان‘ انہما کانا یتعاہدان ذلک ویقولان استووا وکان علیّ یقول تقدم یا فلان‘ تاخر یافلان.
(جامع الترمذی:ج1ص53 باب ما جاء فی اقامۃ الصفوف)
ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے صفوں کی درستگی کے لئے ایک شخص مقرر فرما رکھا تھا اور جب تک وہ شخص آپ کو صفیں درست ہوجانے کی اطلاع نہیں دیتا تھا آپ تکبیر نہیں کہتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ بھی اس کا بہت خیال رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ سیدھے اور برابر ہوجاؤ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ: فلاں! آگے ہو‘ اے فلاں پیچھے ہو۔
7: عن مالک بن ابی عامر الانصاری ان عثمان بن عفان کان یقول فی خطبتہ اذا قامت الصلاة فاعدلوا الصفوف وحاذوا بالمناکب.
(موطا امام محمد:ص88 باب تسویۃ الصفوف)
ترجمہ: حضرت مالک بن ابی عامر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے کہ جب جماعت قائم ہو تو صفوں کو درست کرنا اور کندھوں کو ایک سیدھ میں برابر کر لینا۔
خلاصہ دلائل:
ان احادیث و آثار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم صفوں کی درستی کے لئے کندھے برابر کرنے کا حکم فرمایا کرتے تھے اور جب صفیں درست کراتے تو نمازیوں کے سینے اور کندھے برابر کرنے کی تاکید فرماتے تھے۔ یہی طرز عمل خلفاء راشدین نے اختیار فرمایا تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ صفوں کو درست کرنے اور کندھوں کو برابر کرنے کا حکم دیتے تھے‘حضرت علی رضی اللہ عنہ صفوں کی درستگی کے وقت نمازیوں کو آگے پیچھے ہونے کو فرماتے تھے لیکن یہ بات واضح ہےکہ صفوں کی درستی کے وقت نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کندھے سے کندھاملانے کا حکم فرمایا ، نہ ٹخنے سے ٹخنا ملانے کی تاکید فرمائی اور نہ ہی پا¬ؤں سے پا¬ؤں چپکانے کو ضروری قرار دیا اور نہ ہی حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم نے یہ امور بیان کیے۔
احادیث قسم دوم:
1: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ: رُصُّوا صُفُوفَكُمْ وَقَارِبُوا بَيْنَهَا وَحَاذُوا بِالأَعْنَاقِ فَوَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ إِنِّى لأَرَى الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ مِنْ خَلَلِ الصَّفِّ كَأَنَّهَا الْحَذَفُ.
( سنن ابی داود:ج1ص104 باب تسویۃ الصفوف)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اپنی صفیں ملاؤ اور انہیں نزدیک رکھو اور گردنوں کو برابر ایک سیدھ میں رکھو‘ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ ٴ قدرت میں میری جان ہے‘ میں شیطان کو دیکھتا ہوں کہ وہ صف کی خالی جگہ میں گھس آتا ہے‘ گویا کہ بھیڑ کا بچہ ہے۔
2: عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تراصوا الصفوف‘ فانی رایت الشیاطین تخللکم کانہا اولاد الحذف.
(مجمع الزوائد:ج2ص251 باب صلۃ الصفوف و سد الفرج)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: صفوں کو ملاؤ (کوئی جگہ خالی نہ رہے) میں دیکھتا ہوں کہ شیاطین خالی جگہ گھس رہے ہیں‘ گویا وہ بھیڑ کے بچے ہیں۔
3: عَنِ النُّعْمَانَ بْنِ بَشِيرٍ يَقُولُ أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَلَى النَّاسِ بِوَجْهِهِ فَقَالَ « أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ». ثَلاَثًا « وَاللَّهِ لَتُقِيمُنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ ». قَالَ فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ وَرُكْبَتَهُ بِرُكْبَةِ صَاحِبِهِ وَكَعْبَهُ بِكَعْبِهِ.
(سنن ابی داؤد: ج1 ص104باب تسویۃ الصفوف)
ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور تین بار ارشاد فرمایا: ”اپنی صفوں کو درست رکھو، اللہ کی قسم یا تو تم ضرور بالضرور اپنی صفوں کو سیدھا کرو گے یا اللہ تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی مخالفت ڈال دے گا۔“ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (اس کے بعد)میں نے دیکھا کہ ایک شخص دوسرے کے کندھے سے کندھا ملاتا ہے، گھٹنے سے گھٹنہ اور ٹخنے سے ٹخنہ۔
فائدہ:
ان احادیث میں یہ لفظ ا ستعمال ہوئے ہیں:
(1): رُصُّوْا، تَرَاصُّوْا
(2): یُلْزِقُ
لغت میں ان کا معنی یوں ہے:
رَصَّ (ن) رَصًّا: ایک کو دوسرے سے ملانا، چمٹانا
تَرَاصَّ الْقَوْمُ: ایک دوسرے سے جڑنا، ملنا
(المنجد: ص387)
اَلْزَقَہ بِہ۔ چپکانا
(المنجد: ص919)
اہل السنت و الجماعت کے نزدیک ان احادیث میں ”چمٹانے، جڑنے، اور چپکانے“والا حقیقی معنی ہر گز مراد نہیں بلکہ قرب اور محاذات (برابری) والا مجازی معنی مراد ہے۔
غیر مقلدین کے ہاں ان کا حقیقی معنی مراد ہے۔
اہل السنت و الجماعت کے موقف کی توضیح و توجیہہ:
اہل السنت و الجماعت کے ہاں قرب اور محاذات (برابری) والا مجازی معنی اس لیے مراد ہے کہ اگر اس کا لغوی اور حقیقی معنی لیا جائے کہ” کندھے سے کندھا، پا¬ؤں سے پا¬ؤں اور ٹخنے سے ٹخنے حقیقتاً چمٹاؤ اور چپکاؤ“ تو نماز میں عجیب کھینچا تانی کی کیفیت شروع ہو جائے گی۔ یہ بات عملاً بھی مشکل ہے کہ بعض دراز قد ہوتے ہیں اور بعض کوتاہ قد اور سکون صلاۃ بھی ختم ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں پوری نماز میں حقیقتاً ملائے اور چمٹائے رکھنا ممکن بھی نہیں ہے۔
مجازی معنی مراد لینے پر یہ امور موجود ہیں:
الامر الاول:
”رص“ اور ”الزاق“ سے قرب والا معنی مراد لینا
مذکورہ الفاظ سے ”قرب“ والا معنی مراد لیا جا سکتا ہے اور حضرات محدثین و محققین نے یہی معنی مراد لیا ہے۔ توضیح پیش خدمت ہے:
”رُصُّوْا، تَرَاصُّوْا“ کا لفظ دراصل ”الرصاص“ سے ہے بمعنی ”سیسہ“ اس سے مراد ایسی چیز ہوتی ہے جس میں شگاف اور فاصلہ نہ ہو لیکن بعض مرتبہ اس سےقرب والی چیز بھی مراد لی جاتی ہے اگرچہ اس میں فاصلہ اور شگاف موجود ہو۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ﴾.
(سورۃ الصف: 4)
ترجمہ: اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کے راستے میں اس طرح صف بنا کر لڑتے ہیں جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہوں۔
یہ بات ظاہر ہے کہ ﴿ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ﴾ جیسا ہونے کا یہ مطلب ہر گر نہیں کہ مجاہدین کی صفیں ایک دوسرے کے ساتھ باہم گتھم گتھا ہوں ورنہ تو وہ حرکت بھی نہ کر سکیں گے چہ جائیکہ دشمن کا مقابلہ کریں۔ تو یہاں قرب اور برابری والا معنی مراد ہے۔ چنانچہ علامہ ابو الحسن علی بن خلف ابن بطال لکھتے ہیں:
رص البنيان والقوم فى الحرب رصًا ، إذا قرب بعضها إلى بعض ، ومنه قوله تعالى : (كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ)
(شرح صحیح البخاری لابن بطال: ج9 ص334)
ترجمہ: ”رص البنیان“ (عمارت کا مضبوط ہونا) اور ”رص القوم فی الحرب رصا“(لوگوں کا میدان جنگ سیدھا پلائی دیوار بننا) یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک شخص دوسرے کے قریب کھڑا ہو جائے۔ اسی سے اللہ کا یہ فرمان ہے:
﴿كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ﴾
علامہ ابو سلیمان حمد بن محمد بن ابراہیم خطابی لکھتے ہیں:
قال الله تعالى:
(كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ)ومنه التراص في الصفوف وهو التقارب.
(غریب الحدیث للخطابی: ص634)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:” جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہوں“، اسی سے لفظ ہے : ”التراص فی الصفوف“ کہ صفوں میں قریب قریب کھڑے ہونا۔
محدثین و محققین حضرات نے ان الفاظ سے قریب والا معنی مراد لیا ہے کہ صف میں قریب قریب کھڑا ہونا چاہیے کہ درمیان میں کوئی جگہ خالی نہ رہے۔
[۱]: شیخ علامہ محمد بن صالح ابن عثیمین لکھتے ہیں:
المراصة نوعان الأولى يكون بها سد الخلل بان لا يبقى بين الرجل وصاحبة فرجة هذه مشروعة ومراصة شديدة تتعب المصلين فهذه مؤذية وليست هي التي أمر بها النبي - صلى الله عليه وسلم - لان إيذاء الناس وخاصة في الصلاة أمر غير مرغوب فيه بل منهي عنه فهذه مراصة أما قوله قاربوا بينها فالمعنى أن يقرب الصف الثاني من الصف الأول والثالث من الثاني
(الشرح المختصر علی بلوغ المرام : ج3ص245)
ترجمہ: صف میں ایک دوسرے کے ساتھ ملنے کی دوقسمیں ہیں ایک یہ کہ اس طرح ملنا کہ اس کے ساتھ دو نمازیوں کے درمیان خالی جگہ پُر ہوجائے۔ یعنی آدمی اور اس کے ساتھی کے درمیان خالی جگہ باقی نہ رہے یہ قسم مشروع ہے دوسری قسم یہ ہے کہ اس طرح ملنا جو نمازیوں کو تھکا دے اور مشقت میں ڈال دے اس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم نہیں دیا کیونکہ لوگوں کو تکلیف دینا خصوصاً نماز میں کوئی پسندیدہ کام نہیں بلکہ ممنوع ہے یہ تو صفوں کے اندر نمازیوں کے ملنے کی وضاحت ہے رہا یہ حکم کہ صفوں کو قریب کرو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسری صف، صف اول ، کے اور تیسری صف، صف ثانی کے قریب ہو۔
شیخ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
ليس المراد بالمراصة المراصة التي تشوش على الآخرين وإنما المراد منها ألا يكون بينك وبينه فرجة.
(شرح ریاض الصالحین:ج1ص1448)
ترجمہ: ملنے سے ایسا مراد نہیں جو دوسروں کو پریشان کر دے صرف اس قدر ملنا مراد ہے کہ دو نمازیوں کے درمیان دوسرے نمازی کی جگہ خالی نہ رہے۔
[۲]:حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ ”الزاق“ (چپکانا، ملانا) کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
المراد بذلک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ.
(فتح الباری:ج2 ص211)
[۳]:علامہ قسطلانی رحمہ اللہ نے بھی بعینہ یہی عبارت نقل فرمائی ہے:
المراد بذلک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ.
(ارشاد الساری ج2 ص 368)
[۴]: علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
واشار بہذا الی المبالغة فی تعدیل الصفوف وسد الخلل.
(عمدة القاری:ج4ص360)
ترجمہ: ”الزاق“ سے مراد صف سیدھی رکھنے اور خالی جگہوں کو پُرکرنے میں مبالغہ کرنا ہے۔
[۵]: علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قال الحافظ: المراد بذلک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ. قلتُ: و ھو مرادہ عند الفقہاء الاربعۃ ای ان لا یترک فی البین فرجۃ تسع فیہا ثالثا.
(فیض الباری:ج2ص236)
ترجمہ: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”الزاق سے مراد صف سیدھی رکھنے اور خالی جگہوں کو پُرکرنے میں مبالغہ کرنا ہے“، میں کہتا ہوں کہ فقہاء اربعہ کے نزدیک بھی یہی مراد ہے یعنی درمیان میں اتنی جگہ نہ چھوڑی جائے جس میں تیسرا آدمی آ سکتا ہو۔
[۶]: علامہ عبدالمحسن عباد لکھتے ہیں :
أن كل واحد يقرب من صاحبه حتى يلتصق به، وحتى يكون متصلاً به، فلا يكون بين شخص وآخر فجوة، وإنما تكون الصفوف متراصة، ومتقاربة، ويتصل بعضها ببعض.
(شرح سنن ابی داؤد عبدالمحسن عباد: ج4ص22)
ترجمہ: اپنے ٹخنے کو اپنے ساتھی کے ٹخنے ملانے سے مراد یہ ہے یعنی ہر ایک اپنے ساتھ کے قریب ہو کر کھڑا ہو تاکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ متصل ہوں ، پس دونوں کے درمیان خالی جگہ نہ اور صفیں بھی متصل اور قریب ہوں۔
[۷]: علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
وما روي أنهم ألصقوا الكعاب بالكعاب أريد به الجماعة أي قام كل واحد بجانب الآخر.
(رد المحتار: ج2 ص163 بحث القیام)
ترجمہ: یہ جو روایت کیا گیاہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ٹخنوں کو ٹخنوں سے ملاتے تھے اس مقصود جماعت (کی کیفیت بتانا) ہے کہ ہر نمازی دوسرے کے قریب کھڑا ہو۔
[۸]: علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
والحاصل ان المرادھو التسویۃ و الاعتدال لکیلا یتاخر او یتقدم، فالمحاذاۃ بین المناکب و الزاق الکعاب کنایۃ عن التسویۃ.
(معارف السنن: ج2 ص298)
ترجمہ: خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس سے مراد صفیں سیدھی کرنا اور اعتدال سے کھڑا ہونا ہے تاکہ نمازی آگے پیچھے نہ رہیں۔ کندھوں کو سیدھا رکھنا اور ٹخنوں کو ٹخنوں سے ملانا صف برابر کرنے سے کنایہ ہے۔
الامر الثانی:
ظاہری معنی مراد لینے میں تکلف و مشقت ہے:
اگر ان الفاظ اور تعبیرات کا ظاہری معنی مراد لیا جائے تو اس میں تکلف‘ تصنع‘ کلفت اور مشقت پائی جاتی ہے‘ حالانکہ اللہ جل شانہ نے دین میں آسانی اور سہولت رکھی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ﴾.
(سورۃ الحج:78)
﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾.
(سورۃ البقرۃ:286)
1: مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فان الزاق الرکبة بالرکبة والکعب بالکعب فی الصلاة مشکل.
(بذل المجہود:ج4 ص330)
ترجمہ: نماز میں گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنا ملانا مشکل ہے۔
2: شیخ الاسلام علامہ ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ولایخفی ان فی الزاق الاقدام بالاقدام مع الزاق المناکب بالمناکب و الرکب بالرکب مشقة عظیمة لاسیما مع ابقائہا کذلک آخر الصلاة کما ہو مشاہد والحرج مدفوع بالنص.
(اعلاء السنن:ج4 ص360)
ترجمہ: یہ بات ظاہر اور مشاہدہ کی ہے کہ گھٹنے سے گھٹنا ملانے کے ساتھ قدم سے قدم ملانے میں بہت زیادہ مشقت ہے‘ جبکہ اس کو اسی طرح نماز کے آخر تک باقی رکھنا ہو اور حرج نص سے مدفوع ہے (یعنی زائل کیاگیا ہے)
3: محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ ا للہ علیہ اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فزعمہ بعض الناس انہ علی الحقیقة ولیس الامر کذلک‘ بل المراد بذلک مبالغة الراوی فی تعدیل الصف وسد الخلل کما فی الفتح والعمدة وہذا یرد علی الذین یدعون العمل بالسنة ویزعمون التمسک بالاحادیث فی بلادنا حیث یجتہدون فی الزاق کعابہم بکعاب القائمین فی الصف ویفرجون جد التفریج بین قدمیہم ما یؤدی الی تکلف وتصنع ویبدلون الاوضاع الطبیعیة ویشوہون الہیئة الملائمة للخشوع‘ وارادوا ان یسدوا الخلل والفرج بین المقتدین فابقوا خللاً وفرجة واسعة بین قدمیہم ولم یدروا ان ہذا اقبح من ذلک.
(معارف السنن:ج2 ص297، 298)
ترجمہ: بعض لوگ یہ سمجھے ہیں کہ یہ روایت اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے‘ حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد راوی کا صف درست کرنے اور خلاء پُر کرنے میں مبالغہ ہے‘ جیساکہ فتح الباری اور عمدة القاری میں ہے۔ اور یہ بات ان لوگوں کی تردید کرتی ہے جو ہمارے شہروں میں سنت پر عمل کے دعویدار ہیں اور تمسک بالاحادیث کا دم بھرتے ہیں۔ وہ اپنے ٹخنے صف میں کھڑے نمازی کے ٹخنوں کے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے دونوں قدموں کے درمیان کشادگی کی وجہ سے بہت چوڑے ہوکر اس طرح کھڑے ہوتے ہیں جو تکلف وتصنع تک پہنچ جاتا ہے اور وہ لوگ طبعی وضع کو بدلتے ہیں اور مناسب خشوع و ہیئت کو بگاڑ دیتے ہیں‘ بظاہر وہ مقتدیوں کے درمیان خلا پُر کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن اپنے دونوں قدموں کے درمیان اس سے بھی زیادہ خلاء اور فاصلہ اختیار کر لیتے ہیں اور انہیں یہ خیال نہیں آتا یہ تو اس سے بھی زیادہ قبیح عمل ہے۔
الامر الثالث:
جوابات الزامی
جواب نمبر1:
کندھے سے کندھا، گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنہ ملانے کا قول نعمان بن بشیر اور حضرت انس رضی اللہ عنہما کا ہے۔ چنانچہ امام بخاری فرماتے ہیں:
وقال النعمان بن بشير رأيت الرجل منا يلزق كعبه بكعب صاحبه.
(صحیح البخاری: ج1 ص100 باب الزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم)
ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص دوسرے کے ٹخنے سے ٹخنہ ملا رہا تھا۔
اور حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ حدیث انس کے ان الفاظ ”وكان أحدنا يلزق“ پر لکھتے ہیں :
قوله عن أنس رواه سعيد بن منصور عن هشيم فصرح فيه بتحديث أنس لحميد وفيه الزيادة التي في آخره وهي قوله وكان أحدنا الخ وصرح بأنها من قول أنس وأخرجه الإسماعيلي من رواية معمر عن حميد بلفظ قال أنس فلقد رأيت أحدنا الخ
(فتح الباری: ج2 ص274)
ترجمہ: اس حدیث (حدیث انس رضی اللہ عنہ) کو امام سعید بن منصور نے امام ہشیم سے روایت کیا ہے اور اس میں حمید کے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سماع کی تصریح ہے۔ اس روایت کے آخر میں ایک زیادت بھی ہے اور وہ یہ ہے: ”وكان أحدنا الخ“ انہوں نے تصریح کی ہے کہ یہ حضرت انس کا قول ہے اور امام اسماعیلی معمر عن حمید کی روایت نقل کرتے ہیں جس میں حضرت انس کے یہ الفاظ ہیں: ”فلقد رأيت أحدنا الخ“
جبکہ غیر مقلدین کے نزدیک صحابی کا قول و عمل حجت نہیں ہے:
1: افعال الصحابۃ رضی اللہ عنہم لا تنتہض للاحتجاج بھا۔
(فتاوی نذیریہ بحوالہ مظالم روپڑی: ص 58)
2: صحابہ کا قول حجت نہیں۔
(عرف الجادی: ص 101)
3: صحابی کا کردار کوئی دلیل نہیں اگرچہ وہ صحیح طور پر ثابت ہوں۔
(بدور الاہلہ: ج 1 ص 28)
4:آثار صحابہ سے حجیت قائم نہیں ہوتی۔
(عرف الجادی: ص 80)
5: خداوند تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے کسی کو صحابہ کرام کے آثار کا غلام نہیں بنایاہے۔
(عرف الجادی: ص 80)
6: موقوفات صحابہ حجت نہیں۔
(بدورا لاہلہ: ص 129)
جواب نمبر2:
اگر روایت کو ظاہری معنی ہی پر محمول کرنا ہے تو حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ ہی کی ایک روایت میں ہے، فرماتے ہیں:
قَالَ فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ وَرُكْبَتَهُ بِرُكْبَةِ صَاحِبِهِ وَكَعْبَهُ بِكَعْبِهِ.
(سنن ابی داؤد: ج1 ص104 باب تسویۃ الصفوف)
ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ ایک شخص دوسرے کے کندھے سے کندھا ملاتا ہے، گھٹنے سے گھٹنہ اور ٹخنے سے ٹخنہ۔
مسند احمد میں یہ الفاظ ہیں:
قال فرأیت الرجل یلزق کعبہ بکعب صاحبہ ورکبتہ برکبتہ ومنکبہ بمنکبہ.
(مسند امام احمد:ج4 ص276)
ترجمہ: میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے اپنے ساتھی کے ٹخنے سے اپنا ٹخنا اور گھٹنے سے گھٹنا اور کندھے سے اپنا کندھا ملایا ہوا تھا۔
تو غیر مقلدین کو چاہیے کہ ظاہری معنی پر عمل کرتے ہوئے اب ” گھٹنے سے گھٹنا “ بھی ملائیں۔
جواب نمبر3:
یہ بات غور طلب ہے کہ غیر مقلدین نماز میں ٹخنے سے ٹخنا اور قدم سے قدم ملانے کے باعث اپنے دونوں قدموں کے درمیان جتنا وسیع اور کشادہ فاصلہ اختیار کرتے ہیں‘ کیا اس کا ثبوت کسی حدیث سے اور فرمانِ نبوی سے پیش کرسکتے ہیں؟ دو نمازیوں کے درمیان تو شیطان کے لئے خالی جگہ نہیں چھوڑتے لیکن اپنی ٹانگوں کے درمیان اسے محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں۔ یاللعجب
جواب نمبر4:
جناب عبد اللہ روپڑی (تنظیم اہلحدیث) حدیث انس رضی اللہ عنہ میں ”کعب“ سے قدم مراد لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
رہی یہ بات کہ ٹخنے سے مراد ٹخنہ ہی ہے یا قدم ہے تو صحیح یہی کہ قدم مراد ہے کیوں کہ جب تک پائوں ٹیڑھا نہ کیا جائے۔ ٹخنہ سے ٹخنہ نہیں مل سکتا۔ تو گویا دونوں پائوں ٹیڑھے کر کے کھڑا ہونا پڑے گا۔ جس میں کئی خرابیاں ہیں۔ ایک تو زیادہ دیر تک اس طرح کھڑے رہنا مشکل ہے دوم انگلیاں قبلہ رُخ نذہیں رہتیں۔ سوم اس لیے بار بار حرکت کرنی پڑتی ہے جو نماز میں خضوع کے منافی ہے۔ چہارم اس قسم کے کئی نقصان ہیں۔ اس لیے ٹخنہ سے ٹخنہ مراد نہیں ہوسکتا۔ بلکہ قدم مراد ہے۔
(فتاویٰ علمائے حدیث:ج3 ص21)
جب حقیقی اور ظاہری معنی پر خود غیر مقلد بھی عمل کرنے سے قاصر ہیں تو دوسروں کو ملامت کیوں؟! نیز خود غیر مقلدین پاؤں پھیلا کر انگلی سے انگلی کو ملاتے ہیں اور پاؤں پھیلانے کی وجہ سے کندھوں کے درمیان فاصلہ بھی بڑھ جاتا ہے، نہ پاؤں مل سکے نہ کندھے چپک سکے۔ بقول شاعر:
خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے
خلاصہ کلام:
صفوں کو سیدھا رکھنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مذکورہ ارشادات پر عمل پیرا ہونے کی کیفیت کو بطور مبالغہ بیان کرنے کے لیے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے یہ کہا کہ ہم لوگ اپنی صفوں کو اس طرح سیدھی رکھتی تھے کہ ہمارا کاندھا سے کاندھا ملا ہوا کرتا تھا، کسی نے یہ کہا کہ ہم کھڑے ہوتے تو ہمارا ٹخنہ سے ٹخنہ ملا ہوتا اور کسی نے یہ کہا کہ ہم قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہوتے اور مقصود سب کا یہی تھا کہ نماز میں ہماری صفیں سیدھی ہوا کرتی تھیں۔