مسئلہ طلاق ثلاثہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
بسم اللہ الر حمن الرحیم
مسئلہ طلاق ثلاثہ
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفطہ اللہ
مذہب اہل السنت و الجماعت:
ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں یا ایک کلمہ سے دی گئی تین طلاقیں تین شمار ہوتی ہیں، بیو ی خاوند پر حرام ہو جاتی ہے اور بغیر حلالہ شرعی کے شوہر اول کے لیے حلال نہیں ہوتی۔
(الہدایہ ج 2ص 355 باب طلاق السنۃ، فتاویٰ عالمگیریہ ج1 ص 349کتاب الطلاق الباب الاول)
مذہب غیر مقلدین:
ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق یا ایک کلمہ سے دی گئی تین طلاق ایک شمار ہوتی ہے۔
1: غیر مقلد عا لم نواب صدیق حسن خان تین طلاقوں کے متعلق چا ر اقوال نقل کر تے ہوئے آخری قول یوں لکھتے ہیں:
الرا بع انہ یقع واحدۃ رجعیۃ من غیر فرق بین المدخو ل بھا وغیرھا…وھذا اصح الاقوال.
(الروضۃ الندیہ:ج2ص50)
تر جمہ :چوتھا قول یہ ہے کہ( تین طلاق دینے سے )ایک طلاق رجعی واقع ہو تی ہے مدخو ل بھا اور غیر مد خول بھا کے فر ق کئے بغیر اور یہی قول تمام اقوال سے صحیح ہے۔
2:غیر مقلدین کے ’’ شیخ الاسلام ‘‘ ابو الوفاء ثنا ء اللہ امر تسری اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں :
’’ ایک مجلس میں دی ہو ئی تین طلا ق ایک طلاق رجعی کا حکم رکھتی ہے۔‘‘
( فتاویٰ ثنائیہ:ج2ص215)
فائدہ:
شیعوں اور مرزائیوں کا مذہب بھی یہی ہے کہ تین طلاق ایک شمار ہوتی ہیں۔ حوالہ جات پیش خدمت ہیں:
مذہب شیعہ :
1: مشہور شیعی عا لم ابو جعفر محمد بن الحسن بن علی الطو سی لکھتے ہیں :
والطلاق الثلاث بلفظ وا حد او فی طہر واحد متفرقاً لا یقع عندناالا وا حدۃ.
(المبسوط فی فقہ الامامیہ:ج5ص4)
تر جمہ: تین طلا قیں ایک لفظ سے دی گئی ہو ں یا ایک طہر میں علیحدہ علیحدہ دی گئی ہو ں ہما رے نزدیک صرف ایک طلا ق وا قع ہو تی ہے۔
2:۔محمد بن علی بن ابرا ہیم المعروف ابن ابی جمہور لکھتے ہیں :
وروی جمیل بن دراج فی صحیحہ عن احدہما علیہما السلام قال: سألتہ عن الذی یطلق فی حا ل طہر فی مجلس واحد ثلاثاً؟قال: ھی واحد ۃ
. (عوالی اللآلی العزیزیہ:ج3ص378)
تر جمہ:جمیل بن درا ج نے اپنی کتا ب ”صحیح“ میں امام باقر یا امام صا دق سے روا یت نقل کی ہے کہ میں نے ان سے اس شخص کے با رے میں پوچھا جو اپنی بیوی کو حا لت طہر میں ایک مجلس میں تین طلاقیں دیتا ہے تو انہو ں نے جوا ب دیا کہ ایک طلاق واقع ہو گی۔
مذ ہب مرزائیت:
(1) مرزائیوں نے اپنی نام نہاد فقہ’’ فقہ احمدیہ ‘‘کے نا م سے شائع کی ہے جسے نو(9) اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی نے مرتب کیا ہے اس میں دفعہ 35 کی تشریح میں لکھا ہے:
’’ لہذا فقہ احمدیہ کے نزدیک اگرتین طلاقیں ایک دفعہ ہی دے دی جائیں تو ایک رجعی طلاق متصور ہوگی۔“
(فقہ احمد یہ :ص80)
(2) مرزائیوں کے لاہور گروپ کے سربراہ محمد علی نے اپنی تفسیر بیا ن القر آ ن میں یو ں لکھا ہے:
’’طلاق ایک ہی ہے خواہ سو دفعہ کہے یا تین دفعہ اور خواہ اسے ہر روز کہتا جا ئے یا ہر ما ہ میں ایک دفعہ کہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑ تا۔ ‘‘
(بیان القر آن از محمد علی:ج1ص136)
دلائل اہل السنت و الجماعت
﴿قر آ ن مجید﴾
دلیل نمبر 1:
﴿أَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾
(سورۃ البقرہ :229)
استدلال:
[1]: امام محمد بن اسما عیل البخا ری (م256ھ) تین طلا ق کے وقوع پر مذکورہ آیت سے استدلال کر تے ہوئے باب قائم فرماتے ہیں:
”با ب من اجاز طلاق الثلاث‘‘[وفی نسخۃ :باب من جوز طلاق الثلاث ] لقولہ تعالیٰ : أَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ .“
(صحیح البخاری: ج2 ص791)
[2]: امام ابو بکر احمد الرازی الجصاص (م307ھ) فرماتے ہیں:
قولہ تعا لیٰ : ﴿أَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ یدل علیٰ وقوع الثلاث معاً مع کونہ منہیا عنہا•
(احکام القر آ ن للجصا ص :ج1 ص527ذکر الحجاج لایقاع الثلاث معا ً )
[3]: امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد الانصا ری القرطبی (م671ھ) اس آ یت کی تفسیر کر تے ہو ئے فر ماتے ہیں:
قال علماؤنا واتفق ائمۃ الفتویٰ علیٰ لزوم ایقاع الطلاق الثلاث فی کلمۃ واحدۃ•
(الجا مع لاحکا م القر آن:ج1ص492)
اعتراض:
آیت میں لفظ’’مرتٰن‘‘بمعنی ’’مرۃ بعد مرۃ‘‘ ہے، اس کا معنی اب یوں بنے گا کہ ایک طلاق دی پھر کچھ عرصہ بعد دوسری طلاق بھی دے دی۔ تو یہ آیت متفرق مجالس میں دی گئی طلاق کے متعلق ہے۔ اس سے ایک مجلس کی تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کرنا درست نہیں۔
جواب:
یہاں ’’مرتٰن‘‘ بمعنی ’’اثنتان‘‘ ہے یعنی طلاق دوبار دینی ہے۔ علامہ سید محمود آلوسی بغدادی (م1270 ھ) فرماتے ہیں:
وهذا يدل على أن معنى مرتان إثنتان
(روح المعانی ج2 ص135 )
نیز قرآن و حدیث میں کئی ایسی مثالیں ہیں مثلاً....
1: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ.
(صحیح البخاری ج1 ص27 بَاب الْوُضُوءِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ)
کیا اس کا یہ معنی کیا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک عضو ایک مجلس میں دھویا اور دوسرا عضو دوسری مجلس میں؟! نہیں، بلکہ ایک ہی مجلس میں دھونا مراد ہے۔
2: عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعَبْدُ إِذَا نَصَحَ سَيِّدَهُ وَأَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ كَانَ لَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ.
(صحیح البخاری ج1 ص346 بَاب الْعَبْدِ إِذَا أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ وَنَصَحَ سَيِّدَهُ)
نیز یہ اصول بھی قابل غور ہے کہ اگر ”مرتان“ سے افعال کا بیان ہوگا تو اس وقت تعداد زمانی یعنی یکے بعد دیگرے کے معنیٰ میں ہوگا۔کیونکہ دو کلاموں کا ایک وقت میں اجتماع ممکن نہیں ہے۔مثلاً جب کوئی یہ کہے کہ’’اَکَلْتُ مَرَّتَیْنِ‘‘تو اس کا لازمی طور پر معنیٰ یہ ہوگا کہ میں نے دوبار کھایا۔اس لئے کہ دو اکل یعنی کھانے کے دو عمل ایک وقت میں نہیں ہو سکتے اور جب ’’مرتان‘‘سے اعیان یعنی ذات کا بیان ہوگا تو اس وقت یہ’’عددین‘‘دو چند اور ڈبل کے معنیٰ میں ہوگا۔کیونکہ دو ذاتوں کا ایک وقت میں اکٹھا ہونا ممکن ہے۔
دلیل نمبر 2:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
Īفَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗĨ
. (سورۃ البقرۃ:230)
استدلال:
[1]: مشہور صحابی اور مفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اِنْ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا فَلَا تَحِلُّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًاغَیْرَہُ۔
(السنن الکبری للبیہقی: ج7ص376 باب نکاح المطلقۃ ثلاثا)
[2]: مشہور فقیہ امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وَالْقُرْآنُ یَدُلُّ_وَاللّٰہُ اَعْلَمُ _عَلٰی اَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَۃً لَّہُ دَخَلَ بِھَا اَوْلَمْ یَدْخُلْ بِھَاثَلَاثًالَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ‘‘
(کتاب الام للامام محمد بن ادریس الشافعی: ج2ص1939)
فائدہ:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ نے الفاظ ’’ثلاثاً‘‘ بیان فرمائےہیں کہ اگر خاوند نے تین طلاقیں دی ہوں تو تینوں واقع ہوں گی، یاد رہے یہ لفظ”ثلاثا“ ہے نہ کہ ”ثالثۃ“
[3]: علامہ ابن حزم اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قول اللہ تعالیٰ: ﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ﴾ فَهٰذَا يَقَعُ عَلَى الثَّلاثِ مَجْمُوعَةً وَمُفَرَّقَةً، وَلا يَجُوزُ أَنْ يُخَصَّ بِهَذِهِ الآيَةِ بَعْضُ ذَلِكَ دُونَ بَعْضٍ بِغَيْرِ نَصٍّ..
(المحلیٰ لابن حزم: ج9 ص394 كتاب الطلاق مسألۃ1945)
کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ﴾
ان تین طلاقوں پربھی صادق آتا ہے جو اکٹھی ہوں اور ان پر بھی سچا آتا ہے جو متفرق طور پر ہوں، اور بغیر کسی نص کے اس آیت کو تین اکٹھی طلاقوں کو چھوڑ کر صرف متفرق کے ساتھ مخصوص کر دینا صحیح نہیں ہے۔
اعتراض:
’’فان طلقھا‘‘کے عموم سے اکٹھی تین طلاقیں خارج ہیں کیونکہ شریعت میں اس طرح مجموعی طلاق دینا منع ہے۔تو جو طلاق ممنوع ہے وہ واقع کیسے ہوگی؟اس سے شریعت کی ممانعت کا کوئی معنیٰ نہ رہے گا۔
جواب: یہاں دو چیزِیں ہیں۔ 1: جواز 2: نفاذ
تین طلاقیں اکٹھی دینا جائز تو نہیں لیکن نافذ ہو جاتی ہیں، جواز اور ہے اور نفاذ اور۔ مثلاً حیض کی حالت میں طلاق دینا ممنوع اور ناجائز ہے لیکن اگر کسی نے دے دی تو نافذ ہوجاتی ہے۔
(دیکھیےصحیح البخاری: ج2 ص790)
دلیل نمبر 3:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا.
(سورۃ الطلاق:1)
استدلال:
[1]: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت سے تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کرتے ہیں:
عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَجَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا. قَالَ فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ رَادُّهَا إِلَيْهِ.
ثُمَّ قَالَ يَنْطَلِقُ أَحَدُكُمْ فَيَرْكَبُ الْحَمُوقَةَ ثُمَّ يَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ (وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا) وَإِنَّكَ لَمْ تَتَّقِ اللَّهَ فَلَمْ أَجِدْ لَكَ مَخْرَجًا عَصَيْتَ رَبَّكَ وَبَانَتْ مِنْكَ امْرَأَتُكَ وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ (يَا أَيُّهَا النَّبِىُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ) فِى قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ.
(سنن ابی داؤد: ج1 ص315 باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث، السنن الکبریٰ للبیہقی: ج7ص331 باب الاِخْتِيَارُ لِلزَّوْجِ أَنْ لاَ يُطَلِّقَ إِلاَّ وَاحِدَةً)
قال الحافظ ابن حجر: اسنادہ صحیح.
(تعلیق المغنی : ص430 بحوالہ عمدۃ الاثاث: 72)
قال الالبانی: صحیح.
(سنن ابی داؤد باحکام الالبانی: تحت ح2199)
[2]: امام نووی (م676ھ) اس آیت سے جمہور کے استدلال کو یوں نقل کرتے ہیں:
واحتج الجمهور بقوله تعالىİوَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًاĬ قالوا معناه أن المطلق قد يحدث له ندم فلا يمكنه تداركه لوقوع البينونة فلو كانت الثلاث لا تقع لم يقع طلاقه هذا الا رجعيا فلا يندم.
(شرح النووی علی صحیح مسلم: ج1 ص478)
احا دیث مبا رکہ
احا دیث مرفوعہ:
دلیل نمبر 1:
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اَنَّ رَجُلاً طَلَّقَ امْرَأتَہُ ثَلٰثاً فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اَتَحِلُّ لِلْاَوَّلِ؟ قَالَ:لَاحَتّٰی یَذُوْقَ عُسَیْلَتَھَا کَمَا ذَاقَ الْاَوَّلُ•
(صحیح البخاری ج2ص791باب من اجاز طلاق الثلاث، صحیح مسلم ج1 ص463 باب لا تحل المطلقۃ ثلاثا لمطلقھا ،السنن الکبری للبیہقی ج7 ص334 باب ما جاء فی امضاء الطلاق الثلاث و ان کن مجموعات)
استدلال:
1:امام بخاری ،امام مسلم (کی ”الصحیح“ پر امام نووی) اور امام بیہقی رحمہم اللہ کا باب باندھنا
2: حا فظ ابن حجر عسقلا نی (م852ھ) اور علامہ بدر الدین عینی (م855ھ) لکھتے ہیں:
فا لتمسک بظا ہر قولہ طلقہا ثلاثاً فا نہ ظا ہر فی کو نہا مجموعۃ.
(فتح الباری لا بن حجر :ج9ص455، عمدۃ القاری: ج14ص241)
کہ امام بخاری کا استدلال(کہ تین طلاقیں تین شمار ہوتی ہیں) اس روا یت کے الفا ظ ”طلقہا ثلاثاً“ سے ہے کیو ں کہ یہ الفاظ اس بارے میں بالکل ظاہر ہیں کہ اس شخص نے تین طلا قیں اکٹھی دی تھیں۔
دلیل نمبر 2:
عَنِ ابْنِ شِہَابٍ اَنَّ سَھْلَ بْنَ سَعْدٍ السَاعِدِیَّ اَخْبَرَہُ……قَالَ عُوَیْمَرُرَضِیَ اللہُ عَنْہُ کَذَبْتُ عَلَیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اِنْ اَمْسَکْتُھَا فَطَلَّقَھَا ثَلاَ ثًا قَبْلَ اَنْ یَّامُرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ (وَفِیْ رِوَایَۃِ اَبِیْ دَاؤُدَ)قَالَ:فَطَلَّقَھَاثَلاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَاَنْفَذَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ.
(صحیح البخاری ج2ص791 باب من اجاز طلاق الثلاث، سنن ابی داوٗد ج 1ص324 باب فی اللعان،صحیح مسلم ج1 ص488،489: کتا ب اللعا ن ، سنن النسائی :ج2ص107 کتا ب الطلاق باب بدء اللعا ن جا مع الترمذی :ج1ص226،227ابواب الطلاق واللعا ن،باب ماجا ء فی اللعا ن)
فائدہ: سنن ابی داؤد والی روایت کو غیر مقلد عالم ناصر الدین البانی صاحب نے ”صحیح“ کہا ہے۔
(تحت حدیث2250)
استدلال:
1: امام بخاری رحمہ اللہ کا باب باندھنا
2: امام ابوداؤد رحمہ اللہ کی یہ روایت
”فَاَنْفَذَ ہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم.“
دلیل نمبر3:
عَنْ مَحْمُودَ بْنِ لَبِيْدٍ قَالَ أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ جَمِيْعًا فَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ حَتَّى قَامَ رَجُلٌ وَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَقْتُلُهُ.
(سنن النسائی: ج2 ص99 باب الثلاث المجموعۃ وما فیہ من التغلیظ)
تحقیق السند :
1:قال ابن القیم: اسنادہ علی شرط مسلم۔
(زاد المعاد ج5ص24 فصل فی حکمہ ﷺ فیمن طلق ثلاثا)
2:قال العلامۃ الماردینی: وقد ورد في هذا الباب حديث صحيح صريح فاخرج النسائي في باب الثلاث المجموعة وما فيه من التغليظ بسند صحيح عن محمود بن لبيد.
(الجوہر النقی علی البیہقی ج7 ص333 باب الاختیار للزوج ان لا یطلق الا واحدۃ)
3:قال ابن حجر:رواتہ مؤثقون۔
(بلوغ المرام ص442 )
4:قال ابن کثیر: اسنادہ جید.
( بحوالہ نیل الاوطار ج 6ص240، باب ما جاء في طلاق البتة وجمع الثلاث واختيار تفريقها)
استدلال:
1: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اکٹھی تین طلاق دینے کی خبر سن کرسخت غصہ کا اظہار فرمانا تین طلاق کے واقع ہونےکی مستقل دلیل ہے کیونکہ اگر تین طلاقیں ایک ہوتیں اور خاوند کو رجوع کا حق باقی رہتا تو شدید غصہ کی کوئی وجہ نہیں تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ فرما دیتے کہ ایک طلاق ہوئی ہے، تم رجوع کر لو۔
2: اگر تین طلاق واقع نہ ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ضرور ان کو رد فرما دیتے اور صراحت فرما دیتے کہ تین طلاقیں واقع نہیں ہوئی ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا رد فرمانا کہیں منقول نہیں جس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین طلاقوں کو نافذ کر دیا تھا۔ چنانچہ علامہ ابن العربی فرماتے ہیں:
إن فيه التصريح بأن الرجل طلق ثلاثا مجموعة ولم يرده النبي صلى الله عليه و سلم بل امضاه•
(فتح الباری: ج9 ص451 باب من جوز طلاق الثلاث)
3: امام نسائی رحمہ اللہ کا ’’الثلاث المجموعۃ وما فیہ من التغلیظ‘‘ کے عنوان سے باب باندھنا۔
دلیل نمبر 4:
عَنِ الْحَسَنِ قَالَ نَاعَبْدُاللّٰہِ بْنُ عُمَرَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً وَهِىَ حَائِضٌ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُتْبِعَهَا بِتَطْلِيقَتَيْنِ أُخْرَاوَيْنِ عِنْدَ الْقَرْئَيْنِ الْبَاقِيَيْنِ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَقَالَ : يَا ابْنَ عُمَرَ مَا هَكَذَا أَمَرَ اللَّهُ إِنَّكَ قَدْ أَخْطَأْتَ السُّنَّةَ وَالسُّنَّةُ أَنْ تَسْتَقْبِلَ الطُّهْرَ فَتُطَلِّقَ لِكُلِّ قَرْءٍ. قَالَ : فَأَمَرَنِى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَرَاجَعْتُهَا ثُمَّ قَالَ:« إِذَا هِىَ طَهَرَتْ فَطَلِّقْ عِنْدَ ذَلِكَ أَوْ أَمْسِكْ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! رَأیْتَ لَوْاَنِّیْ طَلَّقْتُھَاثَلاَثاً کَانَ یَحِلُّ لِیْ أنْ اُرَاجِعَھَا؟قَالَ لَاکَانَتْ تَبِیْنُ مِنْکَ وَتَکُوْنُ مَعْصِیَۃً•
(سنن الدارقطنی: ص652 حدیث نمبر3929)
تحقیق السند:
1: علامہ شمس الدین ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی سند کے بارے میں لکھتے ہیں:
وهذا إسناد قوي .
(تنقیح كتاب التحقیق فی احادیث التعلیق للذہبی: ج2 ص205)
2: یہ حدیث امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کی ہے، جس کے متعلق علامہ نور الدین الہیثمی لکھتے ہیں:
رواه الطبراني وفيه علي بن سعيد الرازي قال الدارقطني : ليس بذاك وعظمه غيره وبقية رجاله ثقات.
(مجمع الزوائدج4 ص618 باب طلاق السنۃ وكيف الطلاق)
علامہ ہیثمی نے اس روایت کے راویوں کو ثقہ کہا ہے البتہ ”علی بن سعید الرازی“ کے متعلق امام دار قطنی کا جو قول نقل کیا ہے اس کی فنی حیثیت جاننے کے لیے علامہ شمس الدین ذہبی کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں، علامہ ذہبی لکھتے ہیں:
حافظ رحال جوال . قال الدارقطني: ليس بذاك. تفرد بأشياء. قلت: سمع جبارة بن المغلس، وعبد الاعلى بن حماد. روى عنه الطبراني، والحسن بن رشيق، والناس. قال ابن يونس: كان يفهم ويحفظ.
(میزان الاعتدال: ج3 ص143رقم الترجمۃ 5553)
حافظ ابن حجر عسقلانی اسی راوی کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وقال مسلمة بن قاسم.. وكان ثقة عالما بالحديث.
( لسان الميزان ج 4 ص231 رقم الترجمہ 615)
اس سے معلوم ہوا کہ امام دار قطنی کے علاوہ کسی اور نے ان علی بن سعید الرازی کے بارے میں کلام نہیں کیا اور دارقطنی کا یہ کلام بھی نرم الفاظ میں ہے بڑے درجہ کا کلام نہیں ہے جسے علامہ ذہبی نے تفرد اور انفرادی رائے قرار دیا ہے اور اس راوی کو ”حافظ“ فرما کر اس کی توثیق کی۔ مزید یہ کہ اسرائیل بن یونس نے بھی ان کو ”ثقہ“ قرار دیا ہے اور مسلمہ بن قاسم نے بھی ان کو ”ثقہ“ قرار دیا ہے۔ اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ اس روایت کی یہ سند بھی صحیح ہے۔ اس روایت کی صحت کی مزید تائید حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جسے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے کہ:
فكان ابن عمر إذا سئل عن الرجل يطلق امرأته وهى حائض يقول ……أما أنت طلقتها ثلاثا فقد عصيت ربك فيما أمرك به من طلاق امرأتك وبانت منك.
(صحیح مسلم ج1ص476 باب تحریم طلاق الحائض)
اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ بات حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی سے سنی تھی کیونکہ یہ ویسے الفاظ ہیں جیسے دارقطنی اور طبرانی کی مرفوع روایت میں ہیں۔
دلیل نمبر5:
عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفْلَۃَ قَالَ کَانَتْ عَائِشَۃُ الْخَثْعَمِیَّۃُ عِنْدَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمَّا أُصِيْبَ عَلِىٌّ وَبُوْيِعَ الْحَسَنُ بِالْخِلَافَةِ قَالَتْ : لِتَهْنِئْكَ الْخِلاَفَةُ يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ فَقَالَ : یُقْتَلُ عَلِىٌّ وَ تُظْهِرِينَ الشَّمَاتَةَ اذْهَبِى فَأَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثًا قَالَ: فَتَلَفَّعَتْ نِسَاجَهَا وَقَعَدَتْ حَتَّى انْقَضَتْ عِدَّتَهَا وَبَعَثَ إِلَيْهَا بِعَشْرَةِ آلاَفٍ مُتْعَةً وَ بَقِيَّةٍ بَقِيَ لَهَا مِنْ صَدَاقِهَا فَقَالَتْ : مَتَاعٌ قَلِيلٌ مِنْ حَبِيبٍ مُفَارِقٍ فَلَمَّا بَلَغَهُ قَوْلُهَا بَكَى وَقَالَ لَوْلَاأَنِیْ سَمِعْتُ جَدِّیْ أوْحَدَّثَنِیْ أَبِیْ أَنَّہُ سَمِعَ جَدِّیْ یَقُوْلُ أَیُّمَا رَجُلٍ طَلَّقَ اِمْرَأَتَہُ ثَلاَثاً مُبْھَمَۃً أَوْثَلاَثاً عِنْدَ الْاِقْرَائِ لَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ لَرَاجَعْتُهَا.
(سنن الدارقطنی ج651 حدیث نمبر3927 کتاب الطلاق و الخلع و الطلاق)
فائدہ:
بعض الناس نے اس روایت کے تین راویوں پر جرح کرتے ہوئے اس روایت کو ضعیف ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔ ان تین راویوں کے بارے میں تحقیقی بات عرض ہے کہ ان پر بعض محدثین کی صرف جرح نہیں ہے بلکہ کئی جید ائمہ محدثین نے ان کی تعدیل و توثیق بھی فرمائی ہے۔ ذیل میں ہم ان کے بارے میں ائمہ کی تعدیل و توثیق پیش کرتے ہیں۔
(1) محمد بن حميد الرازی
آپ ابوداؤد ،ترمذی اور ابن ماجہ کے را وی ہیں۔
( تہذیب التہذیب: ج5ص547)
اگرچہ بعض محدثین سے جر ح منقول ہے لیکن بہت سے جلیل القدر ائمہ محدثین نے آ پ کی تعدیل و تو ثیق اور مدح بھی فر ما ئی ہے مثلاً:
1: امام فضل بن دکین (م218ھ): عَدَّلَہٗ.
(تاریخ بغداد: ج2 ص74)
2: امام یحییٰ بن معین (م233ھ): ثقۃ ،لیس بہ باس، رازی کیس.
( تاریخ بغداد: ج2 ص74، تہذیب الکمال للمزی: ج8ص652)
3: امام احمدبن حنبل (م241ھ):وثقہ
(طبقات الحفاظ للسیوطی ج1ص40)
وقال ایضاً: لایزال با لری علم مادام محمد بن حمید حیاً.
(تہذیب الکمال للمزی : ج8ص652)
4: امام محمد بن یحییٰ الذہلی (م258ھ): عَدَّلَہٗ.
(تاریخ بغداد: ج2 ص73)
5: امام ابو زرعہ الرازی (م263ھ): عَدَّلَہٗ.
(تاریخ بغداد: ج2 ص73)
6: امام محمد بن اسحاق الصاغانی (م271ھ): عَدَّلَہٗ.
(سیر اعلام النبلاء: ج8 ص293)
7: امام جعفر بن ابی عثمان الطیالسی (م282ھ): ثقۃ.
( تہذیب الکمال : ج8ص653)
8: امام ابو نعیم عبد الملک بن محمدبن عدی الجرجانی(م323ھ): لان ابنَ حمیدٍ من حفاظِ اہلِ الحدیثِ.
(تاریخ بغداد: ج2 ص73)
9: امام الدار قطنی (م385ھ): اسنادہ حسن.
[و فیہ محمد بن حمید الرازی].
(سنن الدار قطنی: ص27 رقم الحدیث27)
10: امام خلیل بن عبد اللہ بن احمد الخلیلی (م446ھ):
کان حافظاً عالماً بھذا الشان، رضیہ احمد و یحییٰ.
(تہذیب التہذیب: ج5 ص550)
11: علامہ شمس الدین ذہبی (م748ھ): العلّامۃ، الحافِظ الکبِیر.
(سیر اعلام النبلاء: ج8 ص292)
وقال ایضاً: الحافظ و کان من اوعیۃ العلم.
(العبر فی خبر من غبر: ج1 ص223)
12: علامہ نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی (807):
” وفی اسناد بزار محمد بن حمید الرازی وھو ثقۃ.
(مجمع الزوائد: ج9ص475)
13: حافظ ابن حجر (م852ھ):
حافظ ضعیف و کان ابن مَعین حسنَ الرای فیہ.
( تقریب التہذیب : ص505)
14: علامہ جلال الدین سیوطی (م911ھ):
وثقہ احمد و یحییٰ و غیر واحد.
(طبقات الحفاظ للسیوطی: ص216 رقم 479)
15: امام احمد بن عبد اللہ الخزرجی (م923ھ):
الحافظ، و کان ابن مَعین حسنَ الرای فیہ.
(خلاصۃ تذہیب تہذیب الکمال للخزرجی: ص333)
(2) سلمہ بن الفضل
1: امام یحیی بن معین:ثقہ
وقال ایضاً: لا باس بہ (”لا باس بہ“ کلمہ توثیق ہے)
2: علامہ ابن سعد : ثقۃ، صدوق
3: امام ابن عدی: عنده غرائب وافراد ولم أجد في حديثه حديثا قد جاوز الحد في الانكار وأحاديثه متقاربة محتملة
[ان کی حدیث میں غرائب اور افراد تو ہیں لیکن میں نے ان کی کوئی حدیث ایسی نہیں دیکھی جو انکار کی حد تک پہنچی ہو، ان کی حدیثیں متقارب اور قابل برداشت (یعنی قابل قبول)ہیں۔]
4: امام ابن حبان: ذکرہ فی الثقات
5: امام ابو داؤد: ثقۃ
6: امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: لا أعلم إلا خيرا. (یہ تمام اقوال تہذیب التہذیب ج2ص752 رقم 2938 سے لیے گئے ہیں)
(3) عمرو بن ابی قیس
1-5: امام بخاری نے تعلیق میں ان سے روایت کیا ہے اور امام ابو داؤد، امام ترمذی، امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے ان سے روایت لی ہے۔
(تہذیب التہذیب: ج5ص83 رقم 6007)
6: امام ابن حبان : ذکرہ فی الثقات
(کتاب الثقات: رقم الترجمۃ9766)
7: امام عبدا لصمد بن عبد العزیز المقری:
(قال) دخل الرازيون على الثوري فسألوه الحديث فقال: أليس عندكم الازرق ؟ يعني عمرو بن أبي قيس.
(الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم الرازی: ج6 ص333 رقم 1409)
8: امام ابو داؤد: في حديثه خطأ (وقال فی موضع آخر) لا بأس به.
(تہذیب التہذیب: ج5 ص84 رقم 6007)
9: امام عثمان بن ابی شیبہ : لا بأس به
(تہذیب التہذیب: ایضاً)
10: امام ابو بکر البزار: مستقیم الحدیث
(تہذیب التہذیب: ایضاً)
اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جس راوی کی ثقاہت و ضعف میں اختلاف ہو تو اس کی روایت حسن درجہ کی ہوتی ہے، قواعد فی علوم الحدیث میں ہے:
اذا کان روات اسناد الحدیث ثقات وفیہم من اختلف فیہ: اسنادہ حسن، او مستقیم او لا باس بہ.
(قواعد فی علوم الحدیث: ص75 نقلاً عن مقدمۃ الترغیب و الترہیب و نصب الرایۃ و التعقبات للسیوطی و تہذیب التہذیب تحت ترحمہ عبد اللہ بن صالح)
لہذا اصولی طور پر یہ روایت حسن درجہ کی ہے۔ علامہ ہیثمی نے اس روایت کو نقل کر کے فرمایا:
و فی رجالہ ضعف و قد وثقوا•
( مجمع الزوائد ج4ص625 باب متعۃ الطلاق)
گویا علامہ ہیثمی بھی اسی اصول کے تحت اس روایت کو حسن درجہ کا فرما رہے ہیں۔
ایک ضروری وضاحت:
ائمہ محدثین کی آراء اور اصولیین کی تصریحات سے ثابت ہوا کہ یہ روایت حسن درجہ سے کم نہیں۔ بالفرض اس روایت میں کچھ ضعف بھی ہو تو جمہور ائمہ کے تعامل اور اجماع سے یہ حدیث صحیح ثابت ہو جاتی ہے۔ علامہ ابن حزم فرماتے ہیں:
وإذا ورد حديث مرسل أو في أحد ناقلِيه ضعيف فوجدنا ذلك الحديث مجمعا على أخذه والقول به علمنا يقينا أنه حديث صحيح لا شك فيه.
(توجیہ النظر الى اصول الاثر:ج1 ص141)
کہ جب کوئی مرسل روایت ہو یا کوئی ایسی روایت ہو جس کے راویوں میں سے کسی میں کوئی ضعف ہو لیکن اس حدیث کو لینے اور اس پر عمل کرنے کے سلسلہ میں اجماع واقع ہو چکا ہو تو ہم یقینا یہ جان لیں گے کہ یہ حدیث ”صحیح“ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔
چونکہ تین طلاقوں کے تین ہونے پر اجماع ہے (جیسا کہ اس پر عنقریب حوالہ جات پیش کیے جائیں گے) اس لیے اگر اس حدیث کے کسی راوی میں ضعف بھی ہو تب بھی کوئی مضائقہ نہیں، ایسی حدیث صحیح شمار ہو گی۔ اسی اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے علامہ زاہد بن الحسن الکوثری نے حافظ ابن رجب الحنبلی سے اس روایت کے متعلق تصحیح نقل کی ہے کہ حافظ ابن رجب فرماتے ہیں:
اسنادہ صحیح•
(الاشفاق للکوثری ص38)
لہذا البانی صاحب وغیرہ کا اس تصحیح کو نہ ماننا اور علامہ کوثری پر بلا وجہ طعن کرنا یقینا غلط اور محدثین کے مذکورہ اصولوں سے نا واقفیت کی دلیل ہے۔
احادیث موقوفہ
دلیل نمبر1:
عَنْ أَنَسٍ قَالَ کَانَ عُمَرُ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ اِذَااُتِیَ بِرَجُلٍ قَدْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فِیْ مَجْلِسٍ أَوْجَعَہُ ضَرْباً وَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا.
(مصنف ابن ابی شیبہ: ج9ص519 باب من کرہ ان یطلق الرجل امرأتہ ثلاثا۔ رقم الحدیث18089)
اسنادہ صحیح ورواتہ ثقات.
دلیل نمبر2:
عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ : أَنَّ بَطَّالاً كَانَ بِالْمَدِينَةِ فَطَلَّقَ امْرَأَتَهُ أَلْفًا فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ : إِنَّمَا كُنْتُ أَلْعَبُ فَعَلاَهُ عُمَرُ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ بِالدِّرَّةِ وَقَالَ : إِنْ كَانَ لَيَكْفِيكَ ثَلاَثٌ.
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج7 ص334 باب ما جاء فی امضاء ا لطلاق الثلاث)
اسنادہ صحیح ورواتہ ثقات.
دلیل نمبر3:
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي تِحْيٰى قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إلَى عُثْمَانَ فَقَالَ : إنِّي طَلَّقْت امْرَأَتِي مِاَةً ، قَالَ : ثَلاَثٌ يُحَرِّمْنَهَا عَلَيْك ، وَسَبْعَةٌ وَتِسْعُونَ عُدْوَانٌ.
(مصنف ابن ابی شیبہ :ج9ص522باب ما جا ء یطلق امرأتہ مائۃ او الف فی قول وا حد. رقم 18104)
اسنادہ صحیح و رجالہ ثقات.
تنبیہ: بعض نسخوں میں معاویہ بن ابی تحییٰ کے والد کا نام ”ابی تحییٰ“ کے بجائے ”ابی یحیی“ (یا کے ساتھ) لکھا گیا ہے لیکن امیر الحافظ نے ”ابی تحیی“ (تا کے ساتھ) ضبط کیا ہے۔ (الاکمال لابن ماکولا: ج1 ص507) اور شیخ عوامہ کے طرز بیان سے بھی اسی کو ترجیح معلوم ہوتی ہے۔ (حاشیۃ مصنف ابن ابی شیبۃ: ج9 ص522)
دلیل نمبر4:
عن علقمة قال جاء رجل إلى بن مسعود فقال إني طلقت امرأتي تسعة وتسعين وإني سألت فقيل لي قد بانت مني فقال بن مسعود لقد أحبوا أن يفرقوا بينك وبينها قال فما تقول رحمك الله - فظن أنه سيرخص له - فقال ثلاث تبينها منك وسائرها عدوان.
(مصنف عبدالرزاق: ج6 ص307 رقم 11387 باب المطلق ثلاثا ،سنن سعید بن منصور: ج1 ص261 کتاب الطلاق باب التعدی فی الطلاق رقم 1963)
اسنادہ صحیح علی شرط البخاری و مسلم
دلیل نمبر5:
عن سالم عن بن عمر قال من طلق امرأته ثلاثا طلقت وعصى ربه.
(مصنف عبدالرزاق: ج 6 ص307 رقم 11388 باب المطلق ثلاثاً)
اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین.
(فی روایۃ) عَنْ نَافِعٍ قَالَ : قَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَنْ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا ، فَقَدْ عَصَى رَبَّهُ ، وَبَانَتْ مِنْهُ امْرَأَتُهُ.
(مصنف ابن ابی شیبہ: ج9 ص520 باب من کرہ ان یطلق الر جل امراتہ ثلاثاًفی مقعد واحد. رقم 18091)
دلیل نمبر6:
عن انس بن مالک فیمن طلق امراتہ ثلاثاً قبل ان یدخل بھا قال لا تحل لہ حتیٰ تنکح غیرہو فی روایۃ ھی ثلاث.
(سنن سعید بن منصور :ج 1ص 264 رقم الحدیث 1974، 1973 ،مصنف عبدالرزاق: ج 6 ص261 ،269 باب طلاق البکر)
اسنادہ صحیح علی شر ط البخاری و مسلم.
دلیل نمبر7:
عَنْ وَاقِعِ بْنِ سَحْبَانَ قَالَ : سُئِلَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا فِي مَجْلِسٍ ؟ قَالَ : أَثِمَ بِرَبِّهِ ، وَحُرِّمَتْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ.
(مصنف ابن ابی شیبہ : ج9 ص519من كره ان یطلق الرجل امراتہ ثلاثا فی مقعد واحد واجاز ذلك علیہ. رقم 18087)
اسنادہ صحیح و رواتہ ثقات.
دلیل نمبر8:
عن نعمان بن أبي عياش قال سأل رجل عطاء بن يسار عن الرجل يطلق البكر ثلاثا فقال إنما طلاق البكر واحدة فقال له عبد الله بن عمرو بن العاص أنت قاص الواحدة تبينها والثلاث تحرمها حتى تنكح زوجا غيره
(مصنف عبدالرزاق: ج 6 ص 262رقم الحدیث11118 باب الطلاق البکر ،مؤطا امام مالک: ص521 باب الطلاق البکر ، سنن سعید بن منصور: ج1 ص 264 رقم الحدیث 1975 باب التعدی فی الطلاق)
اسنادہ صحیح علی شرط البخاری و مسلم۔
دلیل نمبر9:
مالک عن یحیی بن سعید عن بکیر بن عبد اللہ بن الاشجع انہ اخبرہ عن معاویۃ بن ابی عیاش الانصاری انہ کان جالسا مع عبد اللہ بن الزبیر و عاصم بن عمرقال فجاءھما محمد بن ایاس بن البکیر فقال ان رجلا من اھل البادیۃ طلق امراتہ ثلاثا قبل ان یدخل بھا فما ذا تریان فقال عبد اللہ بن الزبیر ان ھذا الامر ما بلغ لنا فیہ قول فاذہب الی ابن عباس و ابی ہریرۃفانی ترکتہما عند عائشۃفسلمہما ثم ائتنا فذہب فسئلھما فقال ابن عباس لا بی ھریرۃ افتہ یا ابا ھریرۃ فقد جآ ء تک معضلۃ فقال ابو ھریرۃ الواحدہ تبینھا والثلاث تحرمھا حتی تنکح زوجاًغیرہ وقال ابن عباس مثل ذلک
(مؤطا امام مالک: ص521 باب طلاق البکر،ومؤطا امام محمد: ص263 باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثاً قبل ان یدخل بھا ،مصنف عبد الرزاق: ج 6 ص 262 رقم الحدیث 11115 باب طلاق البکر )
اسنادہ صحیح علی شرط البخاری و مسلم.
دلیل نمبر10:
عن الحكم أن عليا وبن مسعود وزيد بن ثابت قالوا إذا طلق البكر ثلاثا فجمعها لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره فإن فرقها بانت بالأولى ولم تكن الأخريين شيئا.
(مصنف عبد الرزاق :ج 6 ص 264 رقم الحدیث 11127 باب طلاق البکر ، سنن سعید بن منصور: ج 1 ص 266 باب التعدی فی الطلاق رقم الحدیث 1080، المحلیٰ بالآثار لابن حزم: ج 9 ص498 ،497 کتاب الطلاق )
اسنادہ صحیح علی شرط البخاری و مسلم.
دلیل نمبر11:
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمْر .(ح) وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إيَاسِ بْنِ بُكَيْر ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ ، وَعَائِشَةَ؛ فِي الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا ، قَالُوا : لاَ تَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ.
(مصنف ابن ابی شیبہ :ج9 ص536باب فی الرجل یتزوج المرأۃ ثم یطلقھا ثلاثا قبل ان یدخل بھا. رقم 18159)
اسنادہ صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم.
احادیث مقطوعہ
دلیل نمبر1:
عن ابرا ہیم فی الرجل یقول لامرأتہ انت طالق ثلاث قبل ان یدخل بھا قال ان اخرجھن جمیعاً لم تحل لہ فاذا اخرجہن تتری بانت باولیٰ والثنتان لیستا بشئی ‘‘۔
(سنن سعید بن منصور :ج1ص266،رقم 1980 باب التعدی فی الطلاق، مصنف عبد الرزاق :ج6ص261)
اسنادہ صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم .
دلیل نمبر2:
عن ابن المسیب اذا طلق الرجل البکر ثلاثاً فلا تحل لہ حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ.
( مصنف عبد الرزاق:ج6:ص261رقم الحدیث11110باب طلاق البکر )
اسنادہ صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم.
دلیل نمبر3:
عَنِ الزُّهْرِيِّ؛ فِي رَجُلٍ يُطَلِّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا جَمِيعًا ، قَالَ : إنَّ فَعَلَ فَقَدْ عَصَى رَبَّهُ ، وَبَانَتْ مِنْهُ امْرَأَتُهُ.
(مصنف ابن ابی شیبہ:ج9ص520 باب من کرہ ان یطلق الرجل امرأتہ ثلاث. رقم 18092)
اسنادہ صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم.
دلیل نمبر4:
عن الحسن انہ قال فی من طلق امرأتہ ثلا ثاً قبل ان ید خل بھا قال رغم انفہ بلغ حدہ حتیٰ تنکح زوجا ً غیرہ
(سنن سعید بن منصور :ج1ص267 رقم الحدیث 1088باب التعدی فی الطلاق )
اسنادہ صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم.
دلیل نمبر5:
عن الشعبی قال فی الرجل یطلق البکر ثلا ثاً جمیعا ً فلم ید خل بھا قال لا تحل لہ حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ فا ن (قال) انت طا لق ، انت طالق، فقد بانت بالاولیٰ لیخطبھا.
(مصنف عبد الرزاق :ج6ص264 باب طلاق البکر)
اسنادہ صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم.
اجماع امت
[۱]: امام ابو بکر احمد الرازی الجصاص (م307ھ):
فالكتاب والسنة وإجماع السلف توجب إيقاع الثلاث معا.
(احکام القر آ ن للجصا ص :ج1 ص527ذکر الحجاج لایقاع الثلاث معا ً )
[۲]: امام ابو بکر محمد بن ابراہیم بن المنذر (م319ھ):
وَأجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَ ثًا أَنَّھَالَاتَحِلُّ لَہُ اِلَّابَعْدَ زَوْجٍ عَلٰی مَاجَائَ بِہٖ حَدِیْثُ النَّبِیّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ•
(کتاب الاجماع لابن المنذر ص92)
[۳]: امام ابو جعفر احمد بن محمد الطحاوی (م321ھ):
مَنْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فَاَوْقَعَ کُلاًّفِیْ وَقْتِ الطَّلَاقِ لَزِمَہُ مِنْ ذٰلِکَ.... فَخَاطَبَ عُمَرُبِذٰلِکَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَفِیْھِمْ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمُ الَّذِیْنَ قَدْعَلِمُوْامَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْھُمْ مُنْکِرٌوَلَمْ یَدْفَعْہُ دَافِعٌ•
(سنن الطحاوی ج2ص34باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثاً معا،ونحوہ فی مسلم ج1 ص477 )
[۴]: امام ابو الحسن علی بن خلف بن عبد الملک المعروف بابن بطال (م449ھ):
اتفق أئمة الفتوى على لزوم إيقاع طلاق الثلاث في كلمة واحدة... والخلاف في ذلك شذوذ وإنما تعلق به أهل البدع ومن لا يُلتفتُ إليه لشذوذه عن الجماعة.
(شرح ابن بطال على صحیح البخاری:ج9 ص 390 باب من اجاز طلاق الثلاث)
[۵]: حافظ احمد بن علی بن حجر العسقلانی (م852ھ):
فالراجح في الموضعين تحريم المتعة وايقاع الثلاث للاجماع الذي انعقد في عهد عمر على ذلك ولا يحفظ أن أحدا في عهد عمر خالفه في واحدة منهما... فالمخالف بعد هذا الإجماع منابذ له والجمهور على عدم اعتبار من أحدث الاختلاف بعد الاتفاق.
(فتح الباری: ج9 ص453 باب من جوز طلاق الثلاث)
[۶]: قاضی ثناء اللہ پانی پتی (م1225ھ):
اَجْمَعُوْاعَلیٰ اَنَّہُ مَنْ قَالَ لِاِمْرَأتِہِ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً یَقَعُ ثَلاَثٌ باْلاِجْمَاعِ.
(التفسیر المظہری ج1ص300)
اعتراض:
محمد رئیس ندوی لکھتے ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تمام مجتہدین کسی مسئلہ پر متفق ہوں لیکن ایک مجتہد کی رائے کچھ اور ہو تو اجماع منعقد ہی نہیں ہوتا اور نہ یہ حجت شرعیہ ہے،یہ جمہور کا مذہب ہےاور مسئلہ طلاق میں تو حضرت ابن عباسؓ،طاؤس اور ابن تیمیہ،ابن قیم،داؤد ظاہری وغیرہ اس بات کے قائل ہیں کہ تین طلاق ایک واقع ہوتی ہے۔تو پھر یہ اجماع کیسے ہوا اور کیونکر حجت ہوا؟
(تنویر الآفاق ص297تا215 ملخصاً)
جواب:
اولاً ....تین طلاق کے تین ہونے پر اجماع حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا،اس وقت حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص بھی اس کا مخالف نہیں تھا۔لہذا یہ حجت ہوا۔
ثانیاً.......:اجماع کی تعریف یہ ہے :

(1)

اتفاق المجتھدین من امۃ محمدیۃ علیہ السلام فی عصر علیٰ حکم شرعی۔

(2)

(توضیح تلویح: ج2 ص522)

(3)

اتفاق المجتھدین من امۃ محمد صلی اللہ علیہ و سلم فی عصر علی امر دینی۔

(4)

(مجموعۃ قواعد الفقہ ص160 لمحمد عمیم الاحسان)
تقریباً یہی تعریف ہر کتاب میں ملتی ہے۔ اجماع کی اس تعریف میں حضرات صحابہ کرام کے اجماع سے لے کر ساتویں صدی تک کے اہل السنۃ والجماعۃ کا اجماع شامل ہے۔ علامہ ابن تیمیہ،ابن القیم جیسے افراد کی رائے شاذ ہے،اجماع میں مخل نہیں۔
ثالثاً........:جن شخصیات کا نام اعتراض میں درج ہے ان میں حضرت عباس رضی اللہ عنہما کا اپنا فتویٰ ہے کہ تین طلاقیں تین ہیں۔
(مصنف عبدالرزاق:ج6 ص308رقم11392)
اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے:
عمل الراوی بخلاف روایتہ بعد الروایۃ مما ہو خلاف بیقین یسقط العمل بہ عندنا.
(المنار مع شرحہ ص190)
کہ راوی کا اپنی روایت کے خلاف عمل کرنا اس روایت سے عمل کو ساقط کر دیتا ہے۔ لہذا یہ روایت منسوخ ہے۔
حضرت طاؤس کا قول حسین ابن علی الکرابیسی نے ’’ادب القضاۃ‘‘ میں نقل کیا ہے کہ وہ بھی تین طلاق کے تین ہونے کے قائل ہیں۔رہے ابن تیمیہ ،ابن قیم ،داؤد ظاہری تو اولاً وہ مجتہد نہیں تھے،پھر یہ ان کا تفرد تھا جس کا اس وقت کے علماء نے رد کردیا ہے۔لہذا ان کے اختلاف سے اجماع پر زد نہیں پڑتی۔
رابعاً..........:امت کے اکثر مجتہدین کسی بات پر متفق ہوجائیں تو اس پر بھی اجماع کا اطلاق کیاجاتاہے۔
قال العلامہ بدر الدین العینی: فمن هذا قال صاحب ( الهداية ) من أصحابنا وعلى ترك القراءة خلف الإمام إجماع الصحابة فسماه إجماعا باعتبار اتفاق الأكثر ومثل هذا يسمى إجماعا عندنا.
(عمدۃ القاری ج 4ص449 باب وجوب القراءۃ )
حضرات فقہا ء کرا م رحمہم اللہ
امت مسلمہ کے جید فقہا ء کرا م خصوصاً حضرات ائمہ ار بعہ رحمہم اللہ تعا لیٰ کے نزدیک بھی تین طلا قیں تین ہی شما ر ہو تی ہیں :
امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (م150ھ)
قال محمد بن الحسن الشیبانی: بھذا ناخذ وھو قول ابی حنیفۃ والعامۃ من فقہائنا لانہ طلقہا ثلاثاً جمیعاً فوقعن علیہا جمیعاً معاً.
(مؤطا امام محمد:ص263، سنن الطحاوی:ج2ص34، 35، شرح مسلم:ج1 ص478)
امام مالک بن انس المدنی (م 189ھ)
قال مالک بن انس: فان طلقہا فی کل طہر تطلیقۃ او طلقہا ثلاثاً مجتمعات فی طہر لم یمس فیہ فقد لزمہ.
(التمہید لابن عبد البر :ج6ص58،المدونۃ الکبریٰ:ج2ص3، شرح مسلم للنووی:ج1ص478)
امام محمد بن ادریس الشا فعی (م 204ھ)
قال الشافعی: وَالْقُرْآنُ یَدُلُّ_وَاللّٰہُ اَعْلَمُ _عَلٰی اَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَۃً لَّہُ دَخَلَ بِھَا اَوْلَمْ یَدْخُلْ بِھَاثَلَاثًالَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ.
(کتاب الام للامام محمد بن ادریس الشافعی: ج2ص1939)
امام احمد بن حنبل (م241ھ)
قال احمد بن حنبل: ومن طلق ثلاثا فی لفظ واحد فقد جہل و حرمت علیہ زوجتہ ولا تحل لہ ابدا حتی تنکح زوجا غیرہ.
(کتا ب الصلوٰۃ: ص47 طبع قاہرہ بحوالہ عمدۃ الاثاث: ص30)
جمہور علماء تابعین و غیرہ
قال العلامۃ بدر الدین العینی: ومذهب جماهير العلماء من التابعين ومن بعدهم منهم الأوزاعي والنخعي والثوري وأبو حنيفة وأصحابه ومالك وأصحابه والشافعي وأصحابه وأحمد وأصحابه وإسحاق وأبو ثور وأبو عبيد وآخرون كثيرون علی أن من طلق امرأته ثلاثا وقعن•
(عمدۃ القاری: ج14 ص236 باب من اجاز طلاق الثلاث)
غیر مقلدین کے دلائل کا جواب
دلیل نمبر1:
عن ا بن طاوس عن أبيه عن ابن عباس قال كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن الخطاب إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة فلو أمضيناه عليهم فأمضاه عليهم.
(صحیح مسلم ج1 ص477،ص478، مصنف عبد الرزاق ج6ص305)
و من طریق آخر ففیہ ابن جریج.
جواب نمبر1:
امام نووی نے فرمایا ہے:
فالأصح أن معناه أنه كان في أول الأمر اذا قال لها أنت طالق أنت طالق أنت طالق ولم ينو تأكيدا ولا استئنافا يحكم بوقوع طلقة لقلة ارادتهم الاستئناف بذلك فحمل على الغالب الذي هو ارادة التأكيد فلما كان في زمن عمر رضي الله عنه وكثر استعمال الناس بهذه الصيغة وغلب منهم ارادة الاستئناف بها حملت عند الاطلاق على الثلاث عملا بالغالب السابق إلى الفهم منها في ذلك العصر.
( شرح مسلم للنووی: ج1ص478)
کہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی صحیح مراد یہ ہے کہ شروع زمانہ میں جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ”انت طالق، انت طالق، انت طالق“ کہہ کر طلاق دیتا اور دوسری اور تیسری طلاق سے اس کی نیت تاکید کی ہوتی نہ استیناف کی، تو چونکہ لوگ استیناف کا ارادہ کم کرتے تھے اس لیے غالب عادت کا اعتبار کرتے ہوئے محض تاکید مراد لی جاتی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور لوگوں نے اس جملہ کا استعمال بکثرت شروع کیا اور عموماً ان کی نیت طلاق کے دوسرے اور تیسرے لفظ سے استیناف ہی کی ہوتی تھی، اس لئے اس جملہ کا جب کوئی استعمال کرتا تو اس دور کے عرف کی بناء پر تین طلاقوں کا حکم لگایا جاتا تھا۔
تنبیہہ: یہ اس صورت میں ہے کہ جب ”انت طالق“کو تین بار کہے۔ اگر ”انت طالق ثلاثاً“کہے تو پھر تین ہی واقع ہو جائیں گی۔
جواب نمبر2:
اس حدیث میں طلاق کی تاریخ بیان کی جارہی ہے کہ عہد نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام سے لے کر ابتدائے عہد فاروقی تک لوگ یکجا تین طلاقیں دینے کے بجائے ایک طلاق دیا کرتے تھے، خلافت فاروقی کے تیسرے سال سے لوگوں نے جلد بازی شروع کردی کہ ایک طلاق دینے کے بجائے تین طلاقیں اکٹھی دینے لگےتو وہ تینوں طلاقیں نافذ کردی گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ اس پر واضح قرینہ ہیں، آپ فرماتے ہیں:
إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة
کہ لوگوں کو جس کام میں سہولت تھی انہوں نے اس میں جلد بازی شروع کر دی ہے۔
اگر ابتداء سے تین طلاق کا رواج ہوتاتو پھر استعجال اور اناۃ کا کوئی معنی نہیں بنتا۔ لہذا اس حدیث میں ”۔۔۔طلاق الثلاث واحدة“ کا مطلب ”تین طلاقوں کے بجائے ایک طلاق دینا“ ہے۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں آ کر مسئلہ بدل گیا تھا بلکہ مطلب یہ ہے کہ طلاق دینے کے معاملے میں لوگوں کی عادت بدل گئی تھی۔ اگر یہ مراد لیا جائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے فیصلے کو منسوخ فرما کر تین طلاقوں کو تین شمار کیا ہے تو یہ مطلب انتہائی غلط ہے، کیونکہ اگر یہی معاملہ ہوتا تو صحابہ رضی اللہ عنہم اس پر اجماع نہ فرماتے بلکہ اس فیصلہ کا انکار کرتے حالانکہ کسی سے بھی انکار منقول نہیں۔ یہی مطلب محدثین نے بیان کیا ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
المراد أن المعتاد في الزمن الأُوَل كان طلقة واحدة وصار الناس في زمن عمر يوقعون الثلاث دفعة فنفذه عمر فعلى هذا يكون اخبارا عن اختلاف عادة الناس لا عن تغير حكم في مسألة واحدة قال المازري وقد زعم من لا خبرة له بالحقائق أن ذلك كان ثم نسخ قال وهذا غلط فاحش لأن عمر رضي الله عنه لا ينسخ ولو نسخ وحاشاه لبادرت الصحابة إلى انكاره
( شرح مسلم للنووی: ج2ص478)
ترجمہ: مراد یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق کا دستور تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تینوں طلاقیں بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں نافذ فرما دیا۔ اس طرح یہ حدیث لوگوں کی عادت کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ کے حکم کے بدلنے کی اطلاع ہے۔ امام مازری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حقائق سے بے خبر لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ”تین طلاقیں پہلے ایک تھیں، پھر منسوخ ہو گئیں“یہ کہنا بڑی فحش غلطی ہے، اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے فیصلہ کو منسوخ نہیں کیا، -حاشا-اگر آپ منسوخ کرتے تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اس کے انکار کے در پے ضرور ہو جاتے۔
علامہ محمد انور شاہ کشمیری اس حدیث کا مطلب یہ بیان فرماتے ہیں:
ای کان الناس یطلقون واحدۃ بدل الثلاث و یکتفون بواحدۃ للتطلیق، وکانوا لا یطلقون ثلاثاً خلاف السنۃ، وہم کانوا علی ذلک الیٰ خلافۃ عمر حتیّٰ صاروا فی عہدہ یطلقون ثلاثاً دفعۃ خلاف السنۃ، فامضاہ عمر علیہم و ہذا احد معنی الحدیث ذکرہ النووی فی شرح مسلم.
(معارف السنن: ج5 ص471)
کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ لوگ تین طلاقیں دینے کے بجائے ایک طلاق دینے پر اکتفاء کرتے تھے، تین طلاقیں جو کہ خلاف سنت ہیں نہیں دیتے تھے۔ یہ معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت تک چلتا رہا یہاں تک کہ لوگ خلافِ سنت تین طلاقیں اکٹھی دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان تین طلاقوں کو نافذ فرما دیا۔ حدیث کا ایک یہی مطلب امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔
فائدہ:
حضرت علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کا یہ مطلب لینے پر(کہ لوگ تین طلاقوں کی بجائے ایک طلاق دیتے تھے) قرآن و حدیث سے دو نظیریں بھی پیش کی ہیں:
نظیر نمبر1: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا﴾
(سورۃ ص:5 )
ترجمہ: (کافر یہ کہتے ہیں:) کیا اس (پیغمبر) نے سارے معبودوں کو ایک معبود میں تبدیل کر دیا ہے؟
علامہ کشمیری فرماتے ہیں:
فہم لم یریدوا بقولہم ہذا انہ صلی اللہ علیہ و سلم آمن بآلہۃ ثم جعلہم واحدا، و انما یریدون انہ جعل الہاً واحدا بدل آلہۃ.
(معارف السنن: ج5 ص472)
ترجمہ: کفار کے اس قول کا مطلب یہ نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پہلے تمام آلہہ پر ایمان لائے پھر ان کو ایک کر دیا، بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے تمام آلہہ کو چھوڑ کر ایک کو اپنا لیا ہے۔
نظیر نمبر2: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:
من جعل الهموم هما واحدا هم آخرته كفاه الله هم دنياه الخ
(سنن ابن ماجۃ: باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ- عن عبد اللہ بن مسعود)
ترجمہ: جو شخص اپنی تمام فکروں کو ایک فکر یعنی آخرت کی فکر بنا لے اللہ تعالیٰ دنیوی پریشانیوں اور فکروں سے اس کی کفایت فرماتے ہیں الخ
علامہ کشمیری فرماتے ہیں:
فلیس المراد اختیار الہموم ثم جعلہا واحدۃ، و انما المراد انہ اختار ہماً واحداً بدل ہموم کثیرۃ.
(معارف السنن: ج5 ص472)
کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان پہلے تمام غموں کا روگ لگا لے پھر ان سب کو ایک غم میں تبدیل کر دے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان غموں کے انبار کو چھوڑ کر ایک آخرت کی فکر کو اپنا لے۔
جواب نمبر3:
امام احمد بن حنبل نے فر مایا: الحدیث اذا لم تجمع طر قہ لم تفہمہ والحدیث یفسر بعضہا بعضا.
(الجا مع لاخلاق الرا وی للخطیب: ص370 رقم1651)
چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث سنن ابی داود میں ہے، جس میں راوی سے سوال کرنے والا شخص ایک ہی ہے یعنی ابو الصَّہباء، اور دونوں روایتوں کے الفاظ بھی تقریباً ملتے جلتے ہیں۔ روایت یہ ہے:
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ بَلَى كَانَ الرَّجُلُ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَأَبِى بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ.
(سنن ابی داؤد: ج1 ص317 باب نسخ المراجعۃ بعد التطليقات الثلاث)
اس روایت کی اسناد صحیح ہے۔
(زاد المعاد لابن القیم: ج4 ص1019-فصل: فى حكمہ صلى الله علیہ وسلم فیمن طلق ثلاثا بكلمۃ واحدۃ، عمدۃ الاثاث: ص94)
اسی طرح صحیح مسلم کے راوی طاؤوس یمانی کی خود اپنی روایت میں بھی غیر مدخول بہا کی قید موجود ہے۔ علامہ علاء الدین الماردینی (م745ھ) لکھتے ہیں:
ذكر ابن أبى شيبة بسند رجاله ثقات عن طاوس وعطاء وجابر بن زيد انهم قالوا إذا طلقها ثلاثا قبل ان يدخل بها فهى واحدة.
(الجوہر النقی: ج 7ص331)
ان دونوں روایات میں ”قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا“ (غیر مدخول بہا) کی تصریح ہے۔ معلوم ہوا کہ حدیث صحیح مسلم مطلق نہیں بلکہ ”غیر مدخول بہا“ کی قید کے ساتھ مقید ہے۔ ایسی عورت کو خاوند الگ الگ الفاظ (أنت طالق أنت طالق أنت طالق) سے طلاق دے تو پہلی طلاق سے ہی وہ بائنہ ہو جائے گی اور دوسری تیسری طلاق لغو ہوجائے گی، اس لیے کہ وہ طلاق کا محل ہی نہیں رہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں غیر مدخول بہا کو طلاق دینے کا یہی طریقہ رائج تھا اس لیے ان حضرات کے دور میں غیر مدخول بہا کو دی گئی ان تین طلاقوں کو ایک سمجھا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں لوگ ایک ہی جملہ میں اکٹھی تین طلاقیں دینے لگے(یعنی انت طالق ثلاثا) تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب تین ہی شمار ہوں گی، کیونکہ غیر مدخول بہا کو ایک ہی لفظ سے اکٹھی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں۔
جواب نمبر4:
اگر وہی مطلب لیا جائے جو غیر مقلدین لیتے ہیں کہ تین طلاق ایک ہوتی ہے تو یہ مطلب لینا اس روایت ہی کو شاذ بنا دیتا ہے، اس لیے کہ یہ روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے جملہ شاگرد آپ سے تین طلاق کا تین ہونا ہی روایت کرتے ہیں، صرف طاؤس ایسے ہیں جو مذکورہ روایت نقل کرتے ہیں۔ تصریحات محققین ملاحظہ ہوں:
(1): قال الامام احمد بن حنبل: كل أصحاب ابن عباس رووا عنه خلاف ما قال طاوس.
(نیل الاوطار للشوکانی ج6ص245 باب ما جاء فی طلاق البتۃ)
(2): قال الامام محمد ابن رشد المالکی: بأن حديث ابن عباس الواقع في الصحيحين إنما رواه عنه من أصحابه طاوس ، وأن جلة أصحابه رووا عنه لزوم الثلاث منهم سعيد بن جبير ومجاهد وعطاء وعمرو بن دينار وجماعة غيرهم.
(بدایۃ المجتہد ج2ص61 کتاب الطلاق، الباب الاول)
تنبیہہ: حدیث ابن عباس صحیحین میں نہیں ،صرف صحیح مسلم میں ہے۔
(3): قال البیہقی: فَهٰذِهِ رِوَايَةُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَعَطَاءِ بْنِ أَبِى رَبَاحٍ وَمُجَاهِدٍ وَعِكْرِمَةَ وَعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ وَمَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ وَمُحَمَّدِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ الْبُكَيْرِ وَرُوِّينَاهُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِى عَيَّاشٍ الأَنْصَارِىِّ كُلُّهُمْ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ أَجَازَ الطَّلاَقَ الثَّلاَثَ وَأَمْضَاهُنَّ
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج7 ص338 باب مَنْ جَعَلَ الثَّلاَثَ وَاحِدَةً)
چونکہ طاوس کی یہ روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تمام شاگردوں کی روایت کے خلاف ہے اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ اس روایت کو اپنی صحیح میں نہیں لائے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَتَرَكَهُ الْبُخَارِىُّ وَأَظُنُّهُ إِنَّمَا تَرَكَهُ لِمُخَالَفَتِهِ سَائِرَ الرِّوَايَاتِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
( السنن الکبریٰ للبیہقی ج7 ص338 باب مَنْ جَعَلَ الثَّلاَثَ وَاحِدَةً)
الحاصل یہ روایت طاوس نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تمام شاگردوں کے خلاف روایت کی ہے اور تمام شاگرد تین کا تین ہونا ہی نقل کرتے ہیں، اس لیے طاوس کی یہ روایت ان سب کے مقابلے میں شاذ، وہم، غلط اور ناقابلِ حجت ہے۔
جواب نمبر5:
خود حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اپنا فتوی اس روایت کے خلاف ہے۔ کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ تین طلاق کو تین ہی فرماتے ہیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّہُ أَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ طَلَّقْتُ اِمرَأتِیْ ثَلاَ ثًا فَقَالَ عَصَیْتَ رَبَّکَ وَحَرُمَتْ عَلَیْکَ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاًغَیْرَکَ.
(جامع المسانید ج 2ص148، السنن الکبری للبیہقی: ج7 ص337 واسنادہ صحیح)
اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے:
عمل الراوی بخلاف روایتہ بعد الروایۃ مما ہو خلاف بیقین یسقط العمل بہ عندنا۔
(المنار مع شرحہ ص194، قواعد فی علوم الحدیث للعثمانی ص 202)
کہ راوی کا روایت کرنے کے بعد اس کے خلاف عمل کرنا اس روایت پر عمل کو ساقط کر دیتا ہے۔
لہذا اس اصول کی رو سے بھی مذکورہ روایت قابلِ عمل نہیں ہے۔
جواب نمبر6:
اس روایت کی ایک سند میں ایک راوی’’طاؤس یمانی‘‘ ہے۔ امام سفیان ثوری ، امام ابن قتیبہ،اور امام ذہبی نے اسے شیعہ قرار دیا ہے۔
(سیر اعلام النبلاء ج5 ص26،27، المعارف لابن قتیبہ ص267،268)
دوسرا راوی ’’ابن جریج‘‘ ہے۔ یہ شیعہ ہے اور اس پر متعہ باز ہونے کی جرح بھی ہے۔
(تذکرۃ الحفاظ ج1ص128، سیر اعلام النبلاءج5ص497،میزان الاعتدال للذہبی ج2ص509)
مذکورہ دونوں راویوں کو کتب شیعہ میں بھی شیعہ کہا گیا ہے۔ چنانچہ ’’ طاؤس ‘‘ کو رجال کشی لابی جعفر طوسی ص55، ص101، رجال طوسی لابی جعفر طوسی ص94 میں اور ’’ابن جریج‘‘کو رجال کشی ص280، رجال طوسی ص233 اور اصحاب صادق رقم 162 میں شیعہ کہا گیا ہے۔ اصول حدیث کا قاعدہ ہے جسے حافظ ابن حجر عسقلانی یوں بیان کرتے ہیں:
الا ان روی ما یقوی بدعتہ فیرد علی المختار.
(شرح نخبۃ الفکر مع شرح ملا علی القاری ص159، مقدمہ فی اصول الحدیث لعبد الحق الدہلوی ص67)
کہ بدعتی راوی کی روایت اگر اس کی بدعت کی تائید کرتی ہو تو نا قابل قبول ہوتی ہے۔
جواب نمبر7:
خود غیر مقلدین کے فتاوی میں ہے :’’ یہ کہ مسلم کی یہ حدیث امام حازمی و تفسیر ابن جریر و ابن کثیر وغیرہ کی تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ حدیث بظاہرہ کتاب و سنت صحیحہ و اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم وغیرہ ائمہ محدثین کے خلاف ہے لہذا حجت نہیں‘‘
(فتاوی ثنائیہ ج2 ص219)
جواب نمبر8:
صحیح مسلم میں روایت موجود ہے :
قال عطاء قدم جابر بن عبد الله معتمرا فجئناه في منزله فسأله القوم عن أشياء ثم ذكروا المتعة فقال نعم استمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر. و فی روایۃ اخری: حتى نهى عنه عمر۔
(صحیح مسلم ج 1ص451 باب نكاح المتعة وبيان أنه أبيح ثم نسخ ثم أبيح ثم نسخ واستقر تحريمه إلى يوم القيامة )
پس جو جواب اس جابر رضی اللہ عنہ کی متعۃ النساء کے جواز و عدم کا جواب ہے وہی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے۔ اگر اس کو بھی جائز مانتے ہو تو کیا متعۃ النساء کو بھی جائز مانو گے؟!
جواب نمبر9:
غیر مقلدین کا موقف ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک کہنے کا ہے لیکن صحیح مسلم کی اس روایت میں کہیں بھی ”ایک مجلس“ کا ذکر نہیں ہے۔ لہذا یہ غیر مقلدین کی دلیل بن ہی نہیں سکتی۔
دلیل نمبر 2:
أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِى بَعْضُ بَنِى أَبِى رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ طَلَّقَ عَبْدُ يَزِيدَ - أَبُو رُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ - أُمَّ رُكَانَةَ وَنَكَحَ امْرَأَةً مِنْ مُزَيْنَةَ فَجَاءَتِ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَتْ مَا يُغْنِى عَنِّى إِلاَّ كَمَا تُغْنِى هَذِهِ الشَّعْرَةُ. لِشَعْرَةٍ أَخَذَتْهَا مِنْ رَأْسِهَا فَفَرِّقْ بَيْنِى وَبَيْنَهُ فَأَخَذَتِ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- حَمِيَّةٌ فَدَعَا بِرُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ ثُمَّ قَالَ لِجُلَسَائِهِ « أَتَرَوْنَ فُلاَنًا يُشْبِهُ مِنْهُ كَذَا وَكَذَا مِنْ عَبْدِ يَزِيدَ وَفُلاَنًا يُشْبِهُ مِنْهُ - كَذَا وَكَذَا ». قَالُوا نَعَمْ. قَالَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- لِعَبْدِ يَزِيدَ « طَلِّقْهَا ». فَفَعَلَ ثُمَّ قَالَ « رَاجِعِ امْرَأَتَكَ أُمَّ رُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ ». فَقَالَ إِنِّى طَلَّقْتُهَا ثَلاَثًا يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ « قَدْ عَلِمْتُ رَاجِعْهَا ». وَتَلاَ (يَا أَيُّهَا النَّبِىُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ ).
(سنن ابی داؤد ج1 ص316، 317 باب نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِيقَاتِ الثَّلاَثِ)
جواب:
اولاً…… اس کی سند میں ”بَعْضُ بَنِى أَبِى رَافِعٍ“ ہے جو کہ مجہول ہے، لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔
(1) قال النووی: وأما الرواية التي رواها المخالفون أن ركانه طلق ثلاثا فجعلها واحدة فرواية ضعيفة عن قوم مجهولين.
(شرح صحیح مسلم: ج 1ص 478)
(2) قال ابن حزم: ما نعلم لہم شیئا احتجوا بہ غیر ہذا و ہذا لا یصح لانہ عن غیر مسمی من بنی ابی رافع و لا حجۃ فی مجھول.
(المحلی لابن حزم ج9ص391)
ثانیاً…… حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث میں بجائے ”تین طلاق“ کے ”طلاق بتہ“ (تعلق ختم کرنے والی) کا لفظ ہے، یعنی انہوں نے طلاق بتہ دی تھی۔ چنانچہ امام ابو داؤد رحمہ اللہ حضرت رکانہ کی اس روایت کوجس میں ”بتہ“ کا لفظ ہے، نقل کر کے فرماتے ہیں:
وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا لأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتِهِ وَهُمْ أَعْلَمُ بِهِ.
( سنن ابی داؤد ج1 ص317)
کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت (جس میں ”بتہ“ کا لفظ ہے) ابن جریج کی روایت سے زیادہ صحیح ہےجس میں آتا ہے کہ انہوں نے تین طلاقیں دی تھیں، کیونکہ ”بتہ“ والی حدیث ان کے گھر والے بیان کرتے ہیں اور وہ اس کو زیادہ جانتے ہیں۔
قاضی شوکانی لکھتے ہیں:
أثبت ما روي في قصة ركانة أنه طلقها البتة لا ثلاثا•
(نیل الاوطار: ج6 ص245 باب ما جاء فی طلاق البتۃ وجمع الثلاث واختيار تفريقہا)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ”طلاق بتہ“ دی تھی نہ کہ ”تین طلاق“ اور طلاق بتہ سے بھی صرف ایک طلاق کی نیت کی تھی۔ چونکہ طلاق بتہ میں ایک طلاق کی نیت کرنے کی بھی گنجائش ہوتی ہے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ان کی اس نیت کی تصدیق فرمائی اور انہیں دوبارہ اس خاتون سے رجوع کی اجازت دے دی۔
الغرض فریق مخالف کی پیش کردہ روایت سخت ضعیف اور حد درجہ کمزور ہے۔ مزید یہ کہ اس سے تو تین طلاقوں کا ثبوت بھی نہیں ہوتا چہ جائیکہ تین کو ایک قرار دے کر پھر خاوند کو رجوع کا حق دیا جائے۔ لہذا صحیح، صریح روایات اور اجماعِ امت کے مقابلہ میں ایسی روایت پیش کرنا غلط، باطل اور انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔
دلیل نمبر 3:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ طَلَّقَ رُكَانَةُ بْنُ عَبْدِ يَزِيدَ أَخُو الْمُطَّلِبِ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ فَحَزِنَ عَلَيْهَا حُزْنًا شَدِيدًا قَالَ فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ طَلَّقْتَهَا قَالَ طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا قَالَ فَقَالَ فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّمَا تِلْكَ وَاحِدَةٌ فَارْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ قَالَ فَرَجَعَهَا فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَرَى أَنَّمَا الطَّلَاقُ عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ.
(مسند احمد ج1ص347 رقم2391)
جواب:
یہ روایت بھی قابل احتجاج نہیں۔
اولاً…… اس کی سند میں ایک راوی ”محمد بن اسحاق“ ہے جس پر ائمہ محدثین و وغیرہ نے سخت جرح کر رکھی ہے۔

(1)

امام نسائی: ليس بالقوي.

(2)

(الضعفاء و المتروکین للنسائی: ص201 رقم الترجمۃ513)
(2) امام دارقطنی:لا يحتج به.
(3) امام سلیمان التیمى: كذاب.
(4) امام ہشام بن عروة:كذاب.
(5) امام یحیىٰ القطان: أشهد أن محمد بن إسحاق كذاب.
(6) امام مالك: دجال من الدجاجلة.
(میزان الاعتدال: ج4 ص47، 48 )
وقال ایضاً: محمد بن إسحاق كذاب.
(تاریخ بغداد: ج1 ص174)
(7) خطیب ابو بکر بغدادی:
أما كلام مالك في بن إسحاق فمشهور غير خاف على أحد من أهل العلم بالحديث.
(تاریخ بغداد: ج1 ص174)
(8) علامہ شمس الدین ذہبی:
أنه ليس بحجة في الحلال والحرام.
(تذکرۃ الحفاظ: ج1 ص130)
(9) حافظ ابن حجر عسقلانی:
وابن إسحاق لا يحتج بما ينفرد به من الأحكام فضلا عما إذا خالفه من هو أثبت منه.
(الدرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ لابن حجر العسقلانی: ج1 ص265 باب الاحرام)
٭ نواب صدیق حسن خان غیر مقلد ایک سند کے بارے میں کہ جس میں محمد بن اسحاق واقع ہے، لکھتے ہیں:
در سندش ہمان محمد بن اسحاق است، و محمد بن اسحاق حجت نیست۔
(دلیل الطالب: ص239)
محمد بن اسحاق کا ضعیف، متکلم فیہ اور کذاب ہونا تو اپنی جگہ، مزید براں کہ اسے خطیب بغدادی، امام ذہبی اور امام ابن حجر رحمہم اللہ نے شیعہ بھی قرار دیا ہے۔
(تاریخ بغداد ج 1ص174، سیر اعلام النبلاء: ج 7ص23 ، تقریب : ص498 رقم 5725)
کتب شیعہ میں بھی اس کو شیعہ کہا گیا ہے۔
( رجال کشی : ص280، رجال طوسی ص281)
اوراصول حدیث کا قاعدہ ہے :
ان روی ما یقوی بدعتہ فیرد علی المختار.
(شرح نخبۃ الفکر مع شرح ملا علی القاری ص159)
کہ بدعتی راوی کی روایت اگر اس کی بدعت کی تائید کرتی ہو تو نا قابل قبول ہوتی ہے۔
چونکہ شیعہ حضرات کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق ایک شمار ہوتی ہے (جیسا کہ باحوالہ گزرا) اور یہ روایت ان کے اس عمل کی تائید کرتی ہے۔ لہذا اصول مذکور کے تحت یہ روایت ناقالِ قبول ہو گی۔
ثانیاً…… اس کی سند میں ایک دوسرا راوی ”داؤد بن حصین“ ہے۔ یہ بھی سخت مجروح اور متکلم فیہ راوی ہے۔
(1) امام ابو زرعہ: لين.
(2) امام سفيان ابن عیینہ: كنا نتقى حديثه.
(3) محدث عباس الدوري:
كان داود بن الحصين عندي ضعيفا.
(میزان الاعتدال: ج2 ص7 )
(4) امام ابو حاتم ا لرازی: ليس بالقوي.
(5) امام ساجی: منكر الحديث.
(6) امام جوزجانی: لا يحمد الناس حديثه.
(تہذیب التہذیب: ج2 ص349، 350 )
(7، 8) امام ابو داؤد و امام علی بن المدینی:
أحاديثه عن عكرمة مناكير.
(میزان الاعتدال: ج2 ص 7)
اور زیر بحث روایت بھی عکرمہ ہی سے مروی ہے۔
اس روایت میں تنہا محمد بن اسحاق ہوتا تو اس کے ضعیف اور ناقابلِ احتجاج ہونے کے لیے کافی تھا لیکن داؤد بن حصین نے اس کے ضعف کو مزید بڑھا کر اسے ناقابلِ حجت بنا دیا ہے۔
ثالثاً…… اصل بات یہ ہے کہ حضرت رکانہ نے اپنی بیوی کو ”طلاق بتہ“ دی تھی نہ کہ تین طلاق اور نیت بھی صرف ایک طلاق کی تھی، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے رجوع کی اجازت عطا فرمائی تھی۔ علامہ ابن رشد فرماتے ہیں:
وأن حديث ابن إسحاق وهم وإنما روى الثقات أنه طلق ركانة زوجه البتة لا ثلاثا.
(بدایۃ المجتہد: ج2 ص61)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
أن أبا داود رجح أن ركانة إنما طلق امرأته البتة كما أخرجه هو من طريق آل بيت ركانة وهو تعليل قوي
(فتح الباری:ج9 ص450 باب من جوز الطلاق الثلاث)
الحاصل فریق مخالف کی یہ روایت ضعیف و کذاب راویوں سے مروی ہے جو کہ صحیح، صریح روایات اور اجماعِ امت کے مقابلہ میں حجت نہیں ہے۔
غیر مقلدین کے ایک شبہہ کا جائزہ
شبہہ:
بعض غیر مقلد یہ کہا کرتے ہیں (ملاحظہ وہ فتاویٰ ثنائیہ ج2 ص54 وغیرہ) کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے اس فیصلے پر نادم تھےجس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ حکم شرعی بھی نہ تھا اور صحیح بھی نہ تھا ورنہ ندامت کا کیا مطلب؟! یہ حضرات ایک روایت بھی بیان کرتے ہیں:
قال الحافظ أبو بكر الاسماعيلي في مسند عمر : أخبرنا أبو يعلى : حدثنا صالح بن مالك : حدثنا خالد بن يزيد بن أبي مالك عن أبيه قال : قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه : ما ندمت على شيء ندامتي على ثلاث : أن لا أكون حرمت الطلاق
(اغاثۃ اللہفان)
کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے کسی چیز پر ایسی ندامت نہیں ہوئی جتنی تین چیزوں پر ہوئی ہے (ان میں سے ایک یہ ہے کہ) میں طلاق کو حرام قرار نہ دیتا الخ
جواب:
اولاً…… اس روایت میں دو راوی سخت مجروح ہیں:
1: خالد بن یزید بن ابی مالک
جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف و مجروح راوی ہے۔
(1، 2) امام احمد بن حنبل و امام یحییٰ: ليس بشئ. [محض ہیچ ہے]
(3) امام نسائی: ليس بثقة. [وہ ثقہ نہیں ہے]
(4) امام دارقطنی: ضعيف. [وہ ضعیف ہے]
(5) امام ابن حبان:
كان يخطئ كثيرا وفي حديثه مناكير لا يعجبني الاحتجاج به إذا انفرد عن أبيه.
[کثرت سے خطا کر جاتا تھا اور اس کی حدیث میں ثقہ راویوں کی مخالفت ہوتی تھی۔ مجھے پسند نہیں کہ جب وہ اکیلا اپنے باپ سے روایت کرے تو میں اس کی روایت کو دلیل بناؤں]
(6) امام جرح و تعدیل امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں:
لم يرض أن يكذب على أبيه حتى كذب على أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم.
[یہ صرف اسی بات پر راضی نہ ہوا کہ اپنے باپ ہی پر جھوٹ بولے حتیٰ کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم پر بھی کذب بیانی شروع کر دی]
(7) امام ابو داؤد:
ضعیف، متروک الحدیث
[یہ ضعیف اور متروک الحدیث تھا]
(8- 10) امام ابن الجارود ، امام ساجی ، امام عقيلی: ان تینوں نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(تہذیب التہذیب لابن حجر ج2 ص301، 302، میزان الاعتدال للذہبی: ج1 ص594، الضعفاء و المتروکین لابن الجوزی ج1 ص251 رقم 1096)
2: یزید بن ابی مالک:
یہ لین الحدیث اور مدلس تھا، وہم کا شکار بھی تھا اور ان لوگوں سے روایت کرتاتھا جن سے ملاقات بھی ثابت نہیں۔
(کتاب المعرفۃ للفسوی ج1 ص354، میزان الاعتدال للذہبی ج4 ص 401، المغنی فی الضعفاء ج2 ص 543، التقریب لابن حجر: ص639 رقم 7748)
زیر نطر روایت میں یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہا ہے۔ اس کی پیدائش 60ھ ہےاور حضرت عمر رضی اللہ عنہ 24ھ میں شہید ہوئے۔ گویا اس کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہی ثابت نہیں۔
ثانیاً…… زیرِ نظر منقطع روایت لین الحدیث، مجروح، ضعیف اور متروک الحدیث راویوں سے مروی ہونے کے ساتھ ساتھ مجمل بھی ہے، طلاق کی کسی قسم (ایک یا تین) کی تفصیل نہیں۔ لہذا اس سے استدلال باطل ہے

۔

Download PDF File