سنت وبدعت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سنت و بدعت
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
سنت و بدعت پر گفتگو کے لیے چند رہنما اصول:
اصول نمبر1:
مجدد الف ثانی فرماتےہیں: دنیا بدعات کے سمندر میں غوطہ لگا چکی ہے اور محدثات کی تاریکیوں میں مطمئن ہے رفع بدعت اور تکلم با حیا سنت کا دعوی کون کرسکتا ہے اس زمانہ کے اکثر علماء تو بدعات کے حامی اور سنت کے مٹانے والے ہیں بدعات کے شیوع اور کثرت کو تعامل قرار دیتے ہیں اور اس کے جوازبلکہ استحسان کا فتوی صادر کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ بدعت پھیل جائے اور گمراہی عام ہوجائے تو تعامل بن جاتا ہے یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ کسی چیز کا ایسا تعامل اس کے حسن ہونے کی دلیل نہیں جز ایں نیست کہ وہ تعامل بہتر ہے جو صدر اول سے معمول بہا ہو یا اس پر تمام لوگوں کا اجماع ثابت ہو۔
(فتاویٰ رضویہ: ج28ص235)
اب معلوم ہوگیا کہ بریلوی حضرات جو مختلف بدعات کے ثبوت میں اپنے علماء کا عمل پیش کردیتے ہیں وہ بقول فاضل بریلوی حجت نہیں۔
اصول نمبر2:
اول جمعہ یا عیدین کا خطبہ پڑھ کر اردو میں ترجمہ کرنا اقول وباللہ التوفیق میں اللہ تعالی کی توفیق سے کہتا ہوں قضیہ نظریہ ہے کہ یہ امر عیدین میں بہ نیت خطبہ ہو تو ناپسند ہے اور اس کا ترک احسن اور بعد ختم خطبہ نہ بنیت خطبہ بلکہ قصد پندو نصیحت جدا گانہ تو جائز و حسن اور جمعہ میں مطلقا مکروہ و نامستحسن دلیل حکم و وجہ فرق یہ کہ زمان برکت نشان رسالت عہد صحابہ کرام و تابعین عظام وائمہ اعلام تک تمام قرون و طبقات میں جمعہ و عیدین کے خطبے ہمیشہ خالص زبان عربی میں مذکور و ماثور اور باانکہ زمانہ صحابہ میں بحمدللہ تعالی اسلام صدہا بلاد عجم میں شائع ہوا۔ جوامع بنیں، منابر نصب ہوئے، با وصف تحقیق حاجت کبھی کسی عجمی زبان میں خطبہ فرمانا یا دونوں زبانیں ملانا مروی نہ ہوا تو خطبے میں دوسری زبان کا خلط سنت متوارثہ کا مخالف و مغیر ہے اور وہ مکروہ۔
(فتاویٰ رضویہ: ج8ص322)
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام و تابعین و ائمہ کے مبارک دور میں نہ ہونا یہ دلیل ہے عدم مشروعیت کی۔
اصول نمبر 3:
مستحب کی تعریف در مختار میں یوں ہے:
وھو مافعلہ النبی صلی اللہ علیہ و سلم مرۃ وترکہ اخری و ما احبہ السلف.
(در مختار: کتاب الطہارۃ ارکان الوضوء اربعۃ )
اس تعریف کی رو سے جن بدعات کو بریلویوں نے مستحب بنایا ہوا وہ ثابت کر کے دکھائیں مثلا اذان کے بعد یا قبل درود شریف کو جو یہ پڑھتے ہیں و ہ مستحب کہتےہیں کیا اس طرح اذان سے پہلے یا بعد موذن سے پڑھوانا مستحب کی تعریف اس پر فٹ آئے گی علی ھذا القیاس۔
اصول نمبر4:
مولوی غلام مہر علی صاحب لکھتے ہیں:
جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کیا مگر بغیر کسی عذر کے کبھی اسے ترک بھی فرمایا وہ سنت اور جس کام پر مواظبت نہ فرمائی بلکہ اس کام کو خود کبھی نہ کیا صرف اس کی ترغیب فرمادی تو یہ مستحب ہے امام ابن ہمام نے تحریر میں مستحب کی یہی تعریف کی ہے اور یہی اولی ہے۔
(تحقیقات غلام مہر علی ص16 )
اصول نمبر5:
المستحب مارغب فیہ الشارع ولم یوجبہ •
(طریق الفلاح ص288 از پیر نصیر الدین گولڑوی )
اب ان مستحب کی مختلف تعاریف سے بریلوی انگوٹھے چومنے قبر پر اذان اذان کے ساتھ صلوٰۃ و سلام وغیرہا پڑھنے کو ذرا مستحب ثابت کریں پتہ چل جائے گا۔
اصول نمبر6:
مولانا کرم الدین دبیر صاحب مرحوم (ان کو بریلوی حضرات نے اپنے اکابر میں شمار کیا ہے تفصیل کے لیے دیکھیے تذکرہ اکابر اہل السنت مصنفہ عبدالحکیم شرف قادری) لکھتے ہیں:
ہم شیعہ بھائیوں سے پوچھتے ہیں کہ تعزیہ مرثیہ خوانی کا شروع کس پیغمبر یا امام سے ہوا اگر کسی نبی یا امام یا صحابی سے اس کی ابتداء ثابت نہیں تو ماننا پڑے گا کہ یہ سب کچھ بدعات محرمہ سے ہے۔
(آفتاب صداقت ص309، 310۔ بحث ماتم کا بیان ورد )
ہم بھی جملہ بدعات کے متعلق ہی کہتے ہیں کہ ائمہ اربعہ تک کسی صحابہ پیغمبر سے اپنی بدعات ثابت کرو ورنہ بدعات محرمہ مانو۔
اصول نمبر7:
دلیل عام سے خاص مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔
 علامہ دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اما احدثتہ الروافض من عید ثالث سمووہ عیدالغدیر وکذالک الاجتماع اقامۃ اشعارہ فی وقت مخصوص علی شئی لم یثبت شرعا وقریب من ذالک ان تکون العبادۃ من جہۃ الشرع مرتبۃ علی وجہ مخصوص فیرید بعض الناس ان یتحدث فیہا امرا اخر لم یرد بہ الشرع زاعما انہ یدرجہ تحت عموم فہذا لا یستقیم لان الغالب علی العبادات التعبد و ماخذہا التوقیف
(احکام الاحکام باب فضل الجماعۃ و وجوبہا )
شیعوں نے جو تیسری عید جسےعید غدیر کہتے ہیں ایجاد کی ہے اس کے لیے اجتماع کرنا اور اس کے لیے شعار بنانا وقت مخصوص میں ہیت مخصوص کے ساتھ شرعا ثابت نہیں۔ اور اسی کے قریب قریب یہ بات بھی ہے کہ کوئی عبادت بھی کسی خاص طریقے سے شرعا ثابت ہو اور بعض لوگ اس میں کچھ تبدیلی کردیں اور یہ کہیں کہ یہ بھی عموم کے نیچے داخل ہے تو ان کا یہ گمان غلط ہے کیونکہ عبادات میں اکثر امر تعبدی اور اس کا ماخذ توقیف ہے۔
 علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں:
لان ذکر اللہ تعالی او قصد بہ التخصیص بوقت دون وقت او بشیئ دون بشیئ لم یکن مشروعا حیث لم یرد بہ الشرع لانہ خلاف الشرع•
(البحر الرائق: ج2ص159)
 امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
منہا التزام الکیفیات والہیئات المعینۃ کالذکر بہیئۃ الاجتماع علی صوت واحد... منہا التزام العبادات المعینۃ فی اوقات معینۃ لم یوجد لہا ذلک التعین فی الشرعیۃ •
(الاعتصام ج1ص34 )
 علامہ ابو شامہ فرماتےہیں :
لا ینبغی تخصیص العبادات باوقات لم یخص بہا الشرع •
(الباعث علی انکار الحوادث ص148 )
معلوم ہوگیا کہ اپنی طرف سے اذان کو قبر پر درود کو اذان کے ساتھ ایصال ثواب کو ہر چاند کی 11 کو و غیرہا من البدعات جائز نہیں۔
اصول نمبر8:
جو عمل سنت و بدعت میں متردد ہوجائے اس کا ترک کیا جائے گا۔
دیکھیے:شامی ج1ص600 ، عالمگیری، المبسوط سرخسی ج2ص146، فتح القدیر ج1ص521
اور یہی بات فتاوی رضویہ میں بھی ہے۔
اذا تردد الحکم بین سنۃ و بدعۃ کان ترک السنۃ راجحا علی فعل البدعۃ •
(فتاویٰ رضویہ قدیم ج3ص230 برکاتی پبلشرز )
معلوم ہوگیا جملہ بدعات کو اگر سنت بھی سمجھا جائے تو بھی اختلاف اور تردد بین السنۃ والبدعۃ کی وجہ سے متروک ہوگا۔
اصول نمبر9:
بعض اعمال عوام الناس کو بچانے کے لیے بھی ممنوع ہو جاتے ہیں:
جیسے لوگ نمازوں کے بعد سجدہ شکر ادا کرتے ہیں یہ مکروہ ہے کیونکہ عوام الناس اسے سنت واجب سمجھنے لگ جاتے ہیں اور ہر وہ مباح کام جو سنت و واجب سمجھا جانے لگے وہ ممنوع ہے۔
(غنیہ شرح منیہ ص617، عالمگیری ج1ص196، دارالفکر بیروت، مرقات ج3ص26 رشیدیہ کوئٹہ )
اس سے معلوم ہواکہ اگر بعض باتوں کو فقہاء نے کہیں مستحب لکھ دیا ہو مگر عوام یا کسی طبقہ کے سنت یا واجب سمجھنے سے ممنوع ہو جائے گا۔
اصول نمبر10:
علامہ سیوطی فرماتےہیں:
فالذین اخطئوا فیہما مثل الطوائف من اہل البدع اعتقدوا مذاہب باطلۃ وعمدوا الی القران فتاولوہ علی رایہم ولیس لہم سلف من الصحابۃ والتابعین لا فی رایہم ولا فی تفسیرہم.... من عدل عن مذاہب الصحابہ والتابعین و تفسریہم الی مایخالف ذلک کان مخطئا فی ذلک بل مبتدعا لانہم کانوا اعلم بتفسیرہ و معانیہ کما انہم اعلم بالحق الذی بعث اللہ بہ و رسولہ •
(الاتقان فی علوم القران ج2ص178 سہیل اکیڈمی اردو ج2ص402)
مجدد الف ثانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سلف صالحین اہل السنت والجماعت نے قران و حدیث سے جو مطالب و معانی سمجھے ہیں ان کے بر خلاف معنی و مفہوم اپنے پیٹ سے یان کرنا درجہ اعتبار سے ساقط ہے اس لیے کہ ہر بدعتی اور گمراہ اپنے غلط عقیدہ کے لیے قران و سنت کو بنیاد و اصل سمجحتا ہے اور اپنے کوتاہ و ناقص فہم کی بنیاد پر قران وحدیث کے خلاف واقعہ معانی و مطالب اخذ کرتا ہے۔
(مکتوبات دفتر اول مکتوب نمبر286 بحوالہ الجراحات علی المزکرفات ص88 از پیر محمد چشتی چترالی بشاوری )
بریلویوں کی مصدقہ کتاب میں ہے کہ :
غیر مقلدین مل کر بتائیں کہ زیر بحث آیت وان لیس للانسان الا ماسعیٰ سے کس معتبر محدث مفسر نے فاتحہ خلف الامام کی فرضیت پر استدلال کیا ہے اگر نہیں کیا تو پھر اپنے مذہب کی خاطر تفسیر بالرائے سے باز رہو اللہ سے ڈرو۔
(نصرۃ الحق ج1ص231 )
معلوم ہوا کہ بدعات و رسومات کو ثابت کرنے کے لیے بریلوی آئے دن جو مختلف آیات و احادیث پڑھتے ہیں اہل السنۃ والجماعت کے معتمد و مسلم اکابرین و صحابہ کرام نے تو یہ استدلال نہیں کیے تو یہ بھی بدعتی ہونے کی دلیل ہے۔
اصول نمبر11:
اہل بدعت اپنی بدعات کو قرآن وسنت سے ثابت کرنیکی بجائے فقہ حنفی کے مفتی بہ مسائل سے ثابت کریں۔ کیونکہ :
1: مفتی احمد یار نعیمی گجراتی لکھتے ہیں:
ہم مسائل شرعیہ میں امام صاحب کا قول وفعل اپنے لیے دلیل سمجھتے ہیں اور دلائل شرعیہ میں نظر نہیں کرتے۔
(جاء الحق: 20 قادری پبلشرز لاہور)
2: ابوالبرکات قادری لکھتے ہیں:
مقلد کو یہ جائز نہیں کہ اپنے امام کی رائے کے خلاف قرآن عظم وحدیث شریف سے احکام شرعیہ خود نکال کر ان پر عمل کرنے لگے مقلدوں کیلئے یہی ضروری ہے کہ جس امام کی تقلید کر رہے ہیں اسی کے مذھب کا مفتی بہ قول معلوم کرکے اسی پر عمل کریں۔
(رسائل ومناظرے ابوالبرکات ص634،635)
3: مولوی احمد رضا خان لکھتے ہیں:
ہم مقلدوں کو جائز نہیں کہ حدیثو ں پر عمل کرکے اشارے کی جرأت کریں۔
(فتاوی رضویہ ج27ص85)
4: مولوی عبد الغفور شرقپوری لکھتے ہیں:
فقہ حنفی کی کتابوں میں یہ مسٔلہ واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے کہ ذکر بالجہر جس کے باعث کسی نمازی یا سوتے یا مریض کی ایذا وتشویش ہو یا ریا آنے کا اندیشہ ہو ناجائز ہے۔ تو ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم اس کے خلاف یا مخالفت میں قرآن کریم کی آیات واحادیث مبارکہ سے استدلال واستنباط کریں نہ ہمار ایہ مذہب نہ ہم اس کے اہل فقہ کی کتابوں کو چھوڑ کر براہ راست قرآن وحدیث سے استدلال غیر مقلد انہ روش ہے۔
(نمازی کے پاس بآواز ذکر جائز ہے یا نہیں ص38)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
انہوں نے قرآن کریم کی آیات مبارکہ اور احادیث مبارکہ پیش کی نہیں اس کے جواب میں تو اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ یہ حضرات مجتھد وغیر مقلد نہیں کہ قرآن وحدیث سے براہ راست استدلال کرسکیں بلکہ مقلد ہیں حنفی ہیں انہیں چاہیے کہ فقہ حنفی کی کتب سے حوالہ پیش کریں۔
(¬نمازی کے پاس بآواز ذکر جائز ہے یا نہیں ص40)
فائدہ: یہ کتاب مندرجہ ذیل بریلوی اکابر کی مصدقہ ہے :
(۱)اشرف آصف جلالی ، (۲) سعید احمد اسعد، (۳)مفتی احمدعلی بریلوی، (۴)ابوالخیر حیدرآبادی، (۵)گل احمد عتیقی، (۶)مفتی محمد خان، (۷)غلام سرورقادری، (۸) اشرف نقشبندی ناظم اعلی جامعہ صدیقہ رضویہ دار وغے والالاہور، (۹)عبداللطیف مجددی شیخ الحدیث جامعہ نعیمیہ لاہور۔
5: مفتی احمد یار لکھتے ہیں:
ہمارے دلائل یہ روایتیں نہیں ہماری اصل دلیل تو امام اعظمؒ کا فرمان ہے۔
(جاءالحق ج2ص91)
اصول نمبر12:
اکثر کا قول لیا جائے گا
1: فالعبرۃ بما قالہ الاکثر•
(فتاوی رضویہ قدیم ج9 ص245)
ایک جگہ لکھتے ہیں:
” خلاف مذہب بعض مشائخ مذہب کے قول پر عمل نہیں ہم نے العطایا النبویہ میں اسکی بہت سی نقول ذکر کیں۔ حلبی علی الدر باب صلوۃ الخوف میں ہے : لایعمل بہ لانہ قول البعض ، اس ہر عمل نہ کیا جائے کہ یہ بعض کا قول ہے۔
(فتاوی رضویہ ج9 ص365)
معلوم ہوا بعض مشائخ فقہ حنفی کے اقوال پر اکثر اور جمہور کو ترجیح ہوگی۔ یہ بھی معلوم ہو گیا کہ مشائخ میں سے کوئی بدعت کی تائید بھی کر دے تو حجت نہ ہو گی اور وہ مشائخ میں سے خارج بھی نہ ہو گا۔
اصول نمبر13:
جس امر سے مصطفے ﷺبے عذر مانع بالقصد احتراز فرمائیں وہ ضرور امر شرعی ومشروع نہیں ہوسکتا۔
(فتاوی رضویہ ج9 ص346)
اصول نمبر14:
فاضل بریلوی لکھتے ہیں۔ جو حضور ﷺ کےعہد میں ہوتا ہے وہی حق وباطل کے درمیان امتیاز ہے۔
(شمائم العنبر ص149)
اصول نمبر15:
فاضل بریلوی لکھتے ہیں :
ان الخرفۃ التی یمسح بھا الوضوء بدعۃ محدثۃ یجب ان تکرہ لانھا لم تکن فی عھد رسول اللہ ﷺ ولااحد من الصحابۃ والتابعین قبل ذلک•
(فتاوی رضویہ ج1ص333)
اصول نمبر16:
جو کوئی امر مستحب پر جیسے نماز کے بعد داہنی طرف پھر کر بیٹھنا مستحب ہے اصرار کرے اور اس کو واجب سمجھے وہ بے شک شیطان سے گمراہی کا حصہ لینے والا ہے۔
( رسائل میلاد محبوب ص81،دین مصطفے ص372،رد سیف یمانی ص164)
محمود رضوی شیخ الحدیث دارالعلوم حزب الاحناف لکھتے ہیں:
جو شخص کسی امر مستحب کو ضروری سمجھے اور رخصت پر عمل نہ کرے تو شیطان کا داؤاس پر چل گیا۔ کہ شیطان نے اسے گمراہ کردیا۔
آگے لکھتے ہیں:
جب کسی مستحب کو ضروری سمجھنے کا یہ حکم ہے تو اندازہ لگاؤ کسی بدعت یا مکروہ کو ضروری سمجھنے والے کا کیا حال ہوگا۔
(دین مصطفے ٰ: ص372)
اصول نمبر17:
 جائز بات فتنے کی وجہ سے ناجائز ہوجاتی ہے۔
(فتاوی رضویہ ج11ص237)
اگر فتنے کا خوف ہو تو مستحب کام کو ترک کرنا ہوگا۔
(ذکر والی نعت خوانی از الیاس قادری ص19)
 مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں: غیر ضروری بات عبادات کو فسادات کی وجہ دے چھوڑ دینا چاہیئے۔
(نورالعرفان- سورۃانعام:109)
اصول نمبر18:
عام دلیل سے خاص عبادت ثابت نہ ہوگی جیسے کوئی نماز کا حکم لیکر چھٹی نماز کا اضافہ کرنا چاہیئے یا درود شریف پڑھنے والی آیت لیکر اذان کے اندر درود شریف پڑھانا چاہیے یا اذان واقامت کے فضائل لیکر جنازے کی نماز کیلئے اذان واقامت شروع کردے یا عیدین کے موقع پر اذان واقامت شروع کردے یا ذکر کے فضائل لیکر اس سے اذان سے پہلے یااقامت سے پہلے افضل الذکر لاالہ الااللہ شروع کردے۔ اسی طرح اذان کے فضائل سے قبر پر اذان اور درودشریف کے فضائل سے اذان کے ساتھ درود اور ذکر کے فضائل سے نماز کے بعد ذکر اجتماعی صورت میں ثابت نہ ہوگا۔ اور نہ ہی مصافحہ کے فضائل سے نمازوں کے بعد مصافحہ ثابت ہوگا۔
اس اصول سے پہلے والے اصولوں سے معلوم ہوگیا کہ بریلوی حضرات اپنی بدعات کو واجب سمجھنے اور ان کے ساتھ واجب جیسا معاملہ کرنیکی وجہ سے شیطانی گمراہی سے حصہ پاچکے ہیں۔ اگر بریلوی انہیں ضروری نہ سمجھتے تو نہ کرنے والوں سے مناظرے نہ کرتے اور نہ ہی انہیں برا بھلا کہتے سیجیئ بیانہ.
اور اسی کے ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ اصل اشیاء میں اباحت کی بات جب بریلوی پیش کرے اور اس سے کسی بدعت کو ثابت کرنا چاہے تو یہ بات بھی اس سے منوالی جائے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن وسنت اور فقہ حنفی وصحابہ کرام سے تو یہ ثابت نہیں جب بدعت پر اتفاق ہوگیا تو آگے جانیکی ضرورت ہی کیا ہے ؟
اور دوسری بات یہ ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے کا مطلب اشیاء ہے نہ کہ احکام اور تیسری بات یہ ہے اس سے ثابت کرکے آپ نے اسے مباح کیا اور مباح کامطلب بہار شریف میں تو یوں ہے کہ جس کا کرنا نہ کرنا یکساں ہو یعنی کرنے پر ثوا ب نہ ہو اور نہ کرنے پر گناہ نہ ہو۔ تو اس جیسے فعل پر جھگڑا کیوں؟
یا ر لوگ جب ہر طرف سےجب مبہوت ہوجاتے ہیں تو پھر بدعت حسنہ کا سہار الیتے ہیں تو ہم انکی خدمت میں یوں عرض کردیتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر ؓ نے ارشاد فرمایا :
کل بدعۃ ضلالۃ وان رآھاالناس حسنۃ•
(کتاب الباعث للمحدث ابوشامہ شافعی ص75)
کہ ہر بدعت گمراہی ہوتی ہے چاہے لوگ اسے بدعت حسنہ کہیں۔
تویار لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ جب سیدنا عمر ؓ ان والد گرامی فرماتے ہیں:
نعمت البدعۃ ھذہ •
(بخاری)
یعنی تراویح کی ایک جماعت کا قائم ہو نا بدعت ہے اچھی۔
تو ہم یوں عرض کر دیتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا :
علیکم بسنتی وسنۃالخلفاء الراشدین المھدیین•
(سنن ابن ماجہ)
کہ میری سنت اور خلفاء راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھامو۔
تو معلوم ہوگیا کہ جیسے سرکارطیبہ ﷺکے عمل مبارک کو جس پر امت چلتی ہے سنت کہتے ہیں اسی طرح خلفاء راشدین کے اعمال مبارکہ کو بھی سنت کہیں گے۔
مولوی فیض احمداویسی لکھتے ہیں:
اس حدیث میں خلفائے راشدین کے کاموں کو سنت کہا گیا اس کو پکڑنے کی تاکید فرمائی گئی جس سے معلوم ہوا کہ ان کے کام بدعت نہیں۔
(بدعت حسنہ کا ثبوت ص21)
آگے لکھتے ہیں:خلفائے راشدین کی سنت حقیقۃً سنت نبوی ہے۔
(بدعت حسنۃ کاثبوت ص23)
آگے لکھتے ہیں: ایجادات صحابہ کرام کو سنت کہتے ہیں۔
(بدعت حسنہ کاثبوت ص25)
مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں: عرف عام میں ایجادات صحابہ کرام کو سنت صحابہ کہتے ہیں بدعت نہیں بولتے۔
(جاءالحق ص216)
تو معلوم ہوگیا کہ تراویح ایک جماعت سے قائم کروانا سنت تھا بدعت نہ تھا پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیدنا عمر ؓ نے کہا کیوں تو جوابا عرض ہے کہ ان کی پوری بات علامہ ابن رجب حنبلی ؒ نے ااور دیگر کئی حضرات نے نقل کی ہے کہ
ھذہ بدعۃ فنعمت البدعۃ ان کانت•
(جامع العلوم والحکم بحوالہ کتاب البدعۃ از طاہر القادری بریلوی: ص429)
یعنی اگر یہ بدعت ہوتی تو اچھی ہوتی۔
کنز العمال میں بھی صلاۃ التراویح میں یہ روایت شرط کے ساتھ ”لئن کانت ہذہ البدعۃ فنعمت البدعۃ“ ہے۔
جب بدعت ہے ہی نہیں تو اچھی ہونے کا سوال ہی نہیں،جیسے نبی پاک ﷺ نے فرمایا :
لو کان بعدی نبی لکان عمر یا فرمایا لو عاش ابراھیم لکان نبیا•
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا توعمر ہوتا اور اگر ابراھیم زندہ رہتا تو نبی ہوتا۔
نہ آپ علیہ السلام کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا تھا اور نہ ہی سیدنا عمر نبی بنے اور نہ ہی ابراھیم علیہ السلام زندہ رہے اورنہ ہی نبی بنے ایسے ہی سمجھیے کہ نہ ہی سیدنا عمر کی جماعت واحد کی پابندی بدعت تھی اور نہ ہی حسنۃ ٹھہری بلکہ سنت ہی ہے۔ شاید کوئی یوں کہہ دے نبی پاکﷺ نے فرمایا :
من سن فی الاسلام حسنۃ فلہ اجرھا واجرھا من عمل بھا الخ
یعنی جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا اسکو اس جاری کرنے کا بھی اجر ملے گا ااور اس پر جو جو عمل کرے گا اس کا بھی اجر ملے گا۔ تو ہم جوابا یہ کہیں گے ابن ماجہ شریف ص19پر یہ روایت یوں ہے کہ :
من احیاسنۃ من سنتی قد امیتت بعدی۔
یعنی جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا تو میرے بعد مردہ ہوچکی تھی الخ
تو معلوم ہوا کہ اس کا مطلب بدعت کا ایحاد کرنا نہیں بلکہ سنت طیبہ کا زندہ کرنا مراد ہے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس فرمان ذیشان کا سبب صدقہ کی ترغیب دینا ہے کہ جو صدقہ میں پہل کرے گا اپنا بھی اجر لے گا اور بعد والوں کے اجر کے برابر بھی اجر پائے گا۔
تیسری بات یہ ہے کہ مجتہدین کے لیے اس میں خوشخبری ہے۔
رضاخانی وسوسہ:
اسی طرح یار لوگ یوں بھی کہہ دیتے ہیں کہ حدیث ہے کہ جس کو مسلمان پسند کریں وہ خدا کے نزدیک بھی پسند ہے۔ لہذا بدعات کاایجاد کرنا برا نہیں۔
جواب:
تو ہم جواباً عرض کرتے ہیں ہم مسلمان ان بدعات سے بچنا پسند کرتے ہیں، لہٰذا ان سے بچنا ہی خدا کے ہاں بھی پسندیدہ ہے۔
ہم ان رضا خانی حضرات سے پوچھتے ہیں تمہارے ہی کچھ علماء کئی باتوں کو ناپسند کرتے ہیں مثلاً لاؤڈ سپیکر پر جماعت کروانا، مساجد میں ٹیلی ویژن رکھ کر مدنی چینل دکھانا، سیاہ خضاب لگوانا وغیرہ بیسوں کام ہیں جن پر آپ کے مسلک کے اکابر نے غلط ہونے کے فتوے لگائے ہیں۔ اگر یہ اصول عام تھا تو تمہارا فتویٰ غلط اور اگر فتویٰ درست ہے تو پھر ہمار افتویٰ بھی درست ہے۔
نیز یہاں ”مسلمانوں“ سے عام مسلمان مراد نہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مراد ہیں۔ اب مطلب یہ ہوا کہ جس کام کو صحابہ کرام اچھا سمجھیں وہ خدا کے ہاں بھی اچھا ہے ااور جس کو صحابہ کرام برا سمجھیں وہ خدا کے ہاں بھی براہے، وگرنہ ہر فرقہ جو دین اختیار کیے ہوئے ہے وہ اس کو اچھا ہی تو سمجھتا ہے، تو کیا سب جنتی ہیں؟
اور اگر پوری روایت دیکھی جائے تو ہماری بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کیونکہ روایت کے شروع میں تو سیدنا مسعود ؓ نے رحمت دو عالم ﷺ کا ذکر خیر کیا اورپھر صحابہ کرام کی تعریف کی اور تعریف میں یہ جملہ بھی فرمایا کہ :
فماراہ المسلمون حسنا فھو عنداللہ حسن .
جس کا معنی یقیناً یہی بنتا ہے کہ یہ صحابہ کی جماعت جس کو اچھا سمجھے وہ عند اللہ اچھا ہی ہے۔
صاحب مجالس الابرار اس روایت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جس بات کو صحابہ ؓ یااہل اجتہاد عمدہ جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی عمدہ ہے اور جسکو صحابہ یا اہل اجتہاد قبیح سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی قبیح ہے۔
اور آگے لکھتے ہیں:
اور ممکن ہے کہ الف لام استغراق حقیقی کیلئے ہو اس صورتیں یہ معنی ہونگے کہ جس بات کو تمام مسلمان اچھا سمجھیں تو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی اور جس کو تمام مسلمان برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بری ہے اور جس بات میں ان میں اختلاف پڑے تو اب اس میں قرون ثلاثہ کا اعتبار ہوگا۔ (مجالس الابرار ص131مصدقہ شاہ عبدالعزیز محدث دھلوی )
علامہ حلبیؒ نے بھی لکھا ہے: جس کو صحابہ اور ہر زمانے کے اہل اجماع اچھا سمجھیں وہ اچھا ہے۔
(الرھص والوقص ص65)
ظاہر ہے بریلوی اہل اجماع تو نہیں بقول فاضل بریلوی یہ تو بھولی بھیڑیں ہیں۔
(وصایا شریف )
رضاخانی وسوسہ:
بریلوی حضرات کا ایک وسوسہ اور ہے کہ جس سے قرآن وسنت منع کرے وہ ممنوع نہیں بلکہ وہ اختیار کر لینا کوئی حرج نہیں۔
جواب:
تو جواباً چند ایک باتیں آپ کے سامنے رکھتے ہیں بھلایہ بتائیں کہ کیا اس سے منع کیا ہے قرآن و سنت میں؟
مثلا آپ کہتے ہو کہ:
1{ کھڑے ہو کر جنازہ کے بعد دعا کوہم بھی منع کرتے ہیں۔
(جاءالحق ص281)
اسکی ممانعت قرآن وسنت میں کہاں ہے ؟
2{عیدین میں اور جنازہ میں اذان واقامت کی ممانعت کہاں ہے ؟
3{ظہر کی نماز میں ”الصلوۃ خیرمن النوم “ کی ممانعت کہاں ہے؟
4{اذان میں ”حی علی خیر العمل“ ملانے کی ممانعت کہاں ہے؟
5{ اذان میں اللہ اکبر کے بعد” جل جلالہ وعزشانہ“ بڑھانے کی ممانعت کہاں ہے؟
6{ اذان میں اشھد ان لا الہ الا اللہ کےبعد وحدہ لا شریک لہ بڑھانے کی ممانعت کہاں قرآن وسنت میں ہے ؟
7{ اشھد ان محمد رسول اللہ کے بعد اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم
بڑھانے کی ممانعت قرآن وسنت میں کہاں ہے ؟
8{ اذان میں اشھد ان امیر المؤمنین وامام المتقین ابا بکر الصدیق خلیفۃ بلا فصل کی ممانعت دکھائیں ؟
9{۔اسی طرح غائبانہ نماز جنازہ کی ممانعت دکھائیں!
10{۔ نماز مغرب میں اضافہ کی یا عصر کی نماز میں کمی کی یا فجر کی رکعات کے بڑھانے کی یا کلمہ طیبہ میں خاتم النبین لا نبی بعدی کا اضافہ کرنے کی یا اذان کے آخری کلمہ لا الہ الااللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ بڑھانے کی اجازت بریلوی زعماء دیں گے اگر نہیں تو کیوں یا تو قرآن وسنت سے منع دکھائیں ؟
بریلوی زعماء سے چند سوال
1{ اگر اذان کے ساتھ صلوۃ وسلام پڑھنے سے منع نہیں کیا گیا تو اذان کے اندر بھی تو منع نہیں کیا گیا پھر آپ وہاں کیوں نہیں پڑھتے؟
2{ قبر پر اذان دینے سےاگر منع نہیں کیا گیا تو عیدین کے موقع پر بھی تو اذان سے منع نہِیں کیا گیا پھر آپ وہاں کیوں نہیں دیتے ؟
3{ اگر لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ پڑھنے سے فرض نماز کے بعد منع نہیں تو اذان کے ساتھ آخر میں کلمہ مکمل کرنے سے بھی تو منع نہیں پھر آپ وہاں کیوں نہیں کرتے ؟
القصہ قارئین کرام! ہمیں تو انہیں اعمال پر اعتماد ویقین ہے جو سرکار طیبہ ﷺ کی شریعت مطہرہ سے ثابت ہیں اور ہمیں وہی کافی ہیں۔
رضاخانی وسوسہ:
یار آپ ہمیں تو یہ کہتے ہیں کہ جو عمل وفعل قرون ثلاثہ مشہود لہا بالخیر میں نہ ہو وہ بدعت ہے تو یہ جو تم تبلیغی اعمال یا صوفیانہ طور طریقے ہیں یہ بدعت نہیں۔
جواب:
ہم جواب سے پہلے تمہید عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں :
ایک ہوتا ہے علاج اور ایک ہوتا ثواب۔ ثواب کے کام کیلئے تو حکم ہے کہ پہلے دیکھو کہ ان حضرات نے کیا ہے یا نہیں۔ جیسا کہ ”الجنۃ لاہل السنہ“ میں سیدنا علی ؓ کا ارشاد گرامی ہے :
وانی لا علم ان اللہ لا یثیب علی فعل حتی یفعلہ رسول اللہ ﷺ او یحث علیہ
یعنی میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اللہ رب العزت اس وقت تک ثواب نہیں دیتا۔ جب تک وہ کام نبی پاک علیہ السلام نے نہ کیا ہو یا ترغیب نہ دی ہو معلوم ہوا کہ ثواب کیلئے اس دور میں دیکھنا چاہیئے کہ یہ کام ہوا ہے یا نہیں۔
اور صحابہ کرام ؓ کی پیروی کی بھی احادیث میں تاکید ہے تو خلاصہ یہ نکلا کہ ثواب کیلئے اگر کوئی کام کیا جائے تو یہ دیکھا جائے گا کہ یہ قرون ثلاثہ مشہود لھا بالخیر میں ہو ا ہے یا نہیں ؟
اور اگر علاج ہو تو یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ علاج کیلئے اجازت ہے کہ آدمی وہ چیز اختیار کرسکتا ہے جو قرون ثلاثہ مشہود لھا بالخیر میں نہ ہوں مثلا کوئی بیمار آدمی ہے وہ ڈاکٹر کے پاس گیا اس نے اسے انجکشن لگا دیا۔ مریض نے لگوا لیا اور یہ نہیں کہا کہ چونکہ یہ ان زمانوں میں جنکی نسبت خیر کا ارشاد آپ علیہ السلام کا ہے اس میں نہیں تھا اس لیے میں نہیں لگواتا۔
مثلا سیدنا عمر ؓ نے ابوبکر صدیق ؓ سےآکر کہا کہ قرآن کو جمع کرکے اکھٹا لکھو ادیں۔ تو سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے کہا اے عمر ؓ وہ کام کیوں کرنا چاہتے ہو جو نبی پاک ﷺنے نہیں کیا مگر جناب عمر ؓ کی دلیل یہ تھی کہ اگر اسی طرح صحابہ کرا م شہید ہوتے رہے جیسے جنگ یمامہ میں کئی سو قراء شہید ہوگئے ہیں تو بہت سا قرآن کا حصہ جو ان کے پاس لکھا ہوا ہو گا وہ ہمیں لکھا ہو اشاید کہیں اور سے نہ مل سکے تو بہت بڑا نقصان ہو جائے گا بالآخر سیدنا ابوبکر صدیق ؓ تیار ہوگئے۔
یہ ہم نے واقعہ کا خلاصہ نقل کیا اصل روایات صحاح ستہ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ معلوم ہو گیا اگر نقصان کا اندیشہ ہو یا بطور علاج ہو تو ایسے کام کو کرنے میں کوئِی حرج نہیں جو اوپر سے ثابت نہ ہو۔
اب آئیے اصل بات کی طر ف
ثواب اور ہے علاج اور ہے بریلوی اپنی بدعات کو ثواب سمجھ کرکرتے ہیں اور ہم جو کام کرتے ہیں بطور علاج کرتے ہیں۔ مثلا تبلیغی اعمال یا تصوفانہ طرز کے اشعال گو اصولی طور پر تو پہلے دوروں میں نظر آتے ہیں مگر موجودہ ترتیب سے یہ کام ہونا بطور علاج ہیں اور امت کو نقصان کو بچانے کیلئے ہیں اور تجربہ شاہد ہے کہ ان کاموں سے امت کا بہت بڑا طبقہ نقصان سے بچ کر صحیح راہ راست پر آچکا ہے۔
جب کہ بدعات ورسومات سے سوائے جھگڑے کے کچھ نہیں ملتا جیسے کہ میلاد شریف کے عنوان پر جھگڑوں کا ہونا مشہور ومعروف ہے اور اخبارات بھر ی پڑی ہیں۔ تقریباتمام بدعات پر ہی جھگڑے ،فسادا ت،ہوتے ہیں اور پیچھے ہم یہ اصول بریلوی حضرات کے گھر سے نقل کر آئے ہیں جو غیر ضروری عبادات فسادات کا سبب بنے اسے ترک کیا جائیگا تو ہم بریلوی حضرات سے التماس کرینگے کہ ان بدعات کو ترک کرکے امت کو لڑائی جھگڑے اور فساد سے بچائیں۔
اصل وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا گیا اور فاضل بریلوی جیسے آدمی کی تعلیمات کو دین کا درجہ دے دیا گیا۔ اگر سیدنا حذیفۃ ؓ کے اس فرمان عالیشان پر عمل رہتا کہ
کل عبادۃ لم یتعبد ھا اصحاب رسول اللہ ﷺ فلا تعبدوھا•
(اعتصام ص307،کتاب الباعث ص70 )
کہ جو عبادت اصحاب رسول اللہ ﷺ نے نہ کی ہو تو تم بھی وہ عبادت نہ کرنا
اب بریلوی حضرات سے پوچھا جائے ختم کیا ہے وہ کہتے ہیں عبادت ،گیارھویں شریف کیا ہے ؟عبادت ہے۔ قل خوانی کیا ہے ؟عبادت ہے۔ اذان کے ساتھ صلوۃ وسلام ،نماز کےبعد مروجہ ذکر بالجہر ،اذان علی القبر ،جنازے کے بعد دعا ء مروج۔ سب عبادات ہیں تو سمجھ کر کی جاتی ہیں تو پھر ہم یہی عرض کریں گے کہ چونکہ کہ تمہاری خود ساختہ بدعات صحابہ کرام نے نہیں کی لہذا انہیں ترک کردو۔
اور یار لوگ یہ بھی لوگوں کو بتلاتے ہیں کہ یہ سب بدعات تو ہیں مگر حسنۃ لہذا انکو کرنے سے ثواب ہوتا ہے توہم اس کاوافی شافی جواب دے چکے ہیں۔ سیدنا ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ بدعت گمراہی ہی ہوتی ہے چاہے لوگ اسے بدعت حسنہ کہتے پھریں۔
لہٰذا خدارا انسانیت کو اپنی بدعات سے بچائیں اور انکو سنت طیبہ پر عمل کردیں۔
بدعت؛ اکابرین امت کی نظر میں
1: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
کل بدعۃ ضلالۃ وان رآباالناس حسنۃ•
(کتاب الباعث ص75)
2: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں :
تبیض وجوہ اہل السنۃ وتسود وجوہ اہل البدعۃ•
(اعتصام ص35)
3: سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ایاکم ومحدثات الامور فان شر الامور محدثاتہا ان کل محدثہ بدعۃ وفی لفظ غیر انکم ستحدثون ویحدث لکم فکل محدثۃ ضلالۃ وکل ضلالۃم فی النار کان ابن مسعود ؓ یخطب بھذا کل خمیس•
(اعتصام ص43)
وعنہ ایضا: القصد فی السنۃ خیر من الاجتھاد فی البدعۃ•
(اعتصام ص51)
4: سیدنا حذیفۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اخوف مااخاف علی الناس اثنان ان یو ثروا ما یرون علی مایعملون وان یضلووھم لا یشعرون قال سفیان وھو صاحب البدعۃ•
(اعتصام ص49)
وعنہ ایضا: انہ اخذ حجرین فوضع احدھما علی الآخر ثم قال لاصحابہ ھل ترون مابین ھذین الحجرین من النور قالوا یا ابا عبداللہ مانری بینھما من النور الا قلیلا والذی نفسی بیدہ لنظھرن البدع حتی لا یری من الحق الا قدرما بین ھذین الحجرین من النور واللہ لتفشون البدع حتی اذا ترک منھا شیء قالوا ترک السنۃ•
(اعتصام ص50)
5: حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
صاحب البدعۃ لا یزاد اجتھادا ،صیاما وصلوۃ الا ازداد من اللہ بعدا•
(اعتصام ص52)
وعنہ ایضا: لا تجالس صاحب ھوی فیقذف فی قلبک ماتتبعہ فتھلک•
(اعتصام ص53)
6: ابو ادریس خولانی فرماتے ہیں :
لان اری فی المسجد نارا لا استطیع اطفاءھا احب الی من ان ری فیہ بدعۃ لا استطیع تغیرھا•
(اعتصام ص52)
7: ایوب سختیانی فرماتے ہیں :
ماازداد صاحب بدعۃ اجتھادا لا ازداد من اللہ بعدا•
(اعتصام ص53)
8: ابوقلابہ فرماتے ہیں :
ماابتدع رجل بدعۃ الااستحل السیف•
(اعتصام ص53)
9: سفیان فرماتے ہیں :
لایستقیم قول الا بعمل ولا قول وعمل الا بنیۃ ولا قول ولا عمل ولا نیۃ الا موافقاللسنۃ•
(اعتصام ص53)
10: ابن سیرین ؒ کے بارے میں آتا ہے :
کان یری اسرع الناس ردۃ اہل الھواء•
(اعتصام ص53)
11: ھشام فرماتے ہیں :
لایقبل اللہ من صاحب بدعۃ صیاما ولا صلوۃ ولا حجا ولا جھادا ولا عمرۃ ولا صدقۃ ولا عتقا ولا صرفا ولا عدلا•
(اعتصام ص53،54)
12: یحی بن کثیر کہتے ہیں :
اذا لقیت صاحب بدعۃ فی طریق فخذ فی طریق آخر•
(اعتصام ص54)
13: ابوعمر شیبانی فرماتے ہیں :
یابی اللہ لصاحب بدعۃ بتو بۃ وما انتقل صاحب بدعۃ الا الی شرمنہ•
(اعتصام ص54)
14: مقاتل بن حیان فرماتے ہیں :
اہل ھذہ الاھواء آفتہ امتہ محمد ﷺ •
(حوالہ)
15: فضیل بن عیاض فرماتے ہیں :
من جلس مع صاحب بدعۃ لم یعط الحکمۃ•
(اعتصام ص57)
16: امام مالک بن انس رحمہ اللہ:
من ابتدع في الإسلام بدعة يراها حسنة زعم أن محمداً صلى الله عليه وسلم خان الرسالة ، لأن الله يقول : " اليوم أكملت لكم دينكم " فما لم يكن يومئذ ديناً ، فلا يكون اليوم ديناً •
(اعتصا م ص31)
17: امام شاطبی فرماتے ہیں :
اجماع السلف الصالح من الصحابۃ والتابعین ومن یلیھم علی ذمھا•
(اعتصاشاطبی ص88)
18: امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
المؤمن یدخل الجنۃ بالایمان ویعذب فی النار بالاحداث•
(الامالی علی الفقہ الاکبر فصل نمبر 143)
 
بدعت کی تعریف فریق مخالف کی کتب سے
اب ہم بدعت کی تعریف کی طرف آتے ہیں جو ان لوگوں نے اپنی کتب میں لکھی ہے،ہم ان شاء اللہ انہی کی ذکر کردہ تعریفوں کی روشنی میں بدعات کو رد کریں گے۔
تعریف نمبر [۱]:
بریلویوں کے ”شیخ الاسلام“ ڈاکٹر طاہر القادری لکھتے ہیں:
اکابر علماء کے نزدیک بدعتی فقط گستاخان رسول اور گستاخان صحابہ ہیں۔
(کتاب البدعۃ: ص101)
یہی قادری صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں :
من احدث فی امرنا ھذا“یا ”کل محدثۃ بدعۃ
“سے مراد دین میں ایسا تغیر یا تبدل ہوگا جس سے دین کے اصول یا اساس بدل ضروریات دین میں کمی یا اضافہ ہو جائے اور دین کی ہئیت بدل جائے۔
(کتاب البدعۃ: ص80،81)
اس سے معلوم ہوا کہ بدعت کا مطلب ہے عقائد میں نئی چیزیں نکالنا جس سے ضروریات دین میں کمی بیشی ہو جس سے توہین رسالت توہین صحابہ ہو وہی بدعت ہے۔
اب آپ دیکھیں کہ اہل بدعت نے جو علم غیب کلی کا عقیدہ تراشا اس سے بھی سرکار طیبہ ﷺکی توہین و بے ادبی ہوتی ہے وہ اس طرح کہ ہر شے کا علم کلی جب آپ نے مان لیا تو علم شعر گوئی وملکہ شعر گوئی اور وہ علوم جن کے بارے میں نبی پاک علیہ السلام نے فرمایا۔
اللھم انی اعوذبک من علم لا ینفع •
ایساعلوم مان کر جو آپ کے لائق نہیں بے ادبی ہوئی نہ کہ عزت افزائی !!
اوراسی طرح ہر زمان ومکان میں حاضر وناظر مان کر یہ بھی آپ نے مان لیا کہ تاریک راتوں میں تنہائی کے اندر چھپ کر جو کام کیے جاتے ہیں وہ بھی نگاہ مصطفےﷺسے پوشیدہ نہیں۔
(جاءالحق ص72)
یعنی میاں بیوی چھپ کر جو کام کرتے ہیں یہ بھی نگاہ نبوت سے پوشیدہ نہیں عام آدمی بھی ایسی بات اپنے لیے بے عزتی سمجھتا ہے کیا یہ توہین نبوت نہ ہوگی ؟
اس طرح آپ علیہ السلام کو تمام اختیارات سے متصف ماننے کا مطلب یہ ہے آپ کے شافع محشر ہونے کی نفی کی جائے جو کہ یقینا توہین ہے۔
اور اسی طرح نبی پاک ﷺ سے بشریت کی نفی کرکے انسان نہ ماننا آپ کی شان کو گھٹانا ہے کیونکہ اشرف المخلوقات تو انسان ہے۔
اور اس طرح ان عقائد اور بریلوی حضرات کے فتوؤں کی وجہ سے صحابہ کرام تک کی تکفیر ہوتی ہے۔
من شاء التفصیل فلیطالع ھنا ک بینتھا بالبسط والتفصیل لا حاجۃ الی التکرار فی ھذالمقام.
معلوم ہوا طاہر القادری صاحب کے اصول سے بریلوی خود بدعتی قرار پاتے ہیں۔
تعریف نمبر [۲]:
مولوی فیض احمد اویسی صاحب ”من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد“کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
حدیث بالا میں یا امر سے مراد دین ہے اور ماسے مراد اعمال ہیں اور لیس منہ سے مراد قرآن وحدیث کے مخالف۔ کوئی دین میں ایسے عمل ایجاد کرے جو دین یعنی کتاب وسنت کے مخالف ہوں جس سے سنت اٹھ جاتی ہو۔
(بدعت حسنۃ کا ثبوت ص11)
اس کے قریب قریب نقی علی خان صاحب فرماتے ہیں کہ حقیقت الامر یہ ہے کہ بدعت بمعنی دوم یعنی مخالف ومزاحم ومضاد سنت مطلقا گمراہی وضلالت اور یہی معنی اکثر احادیث میں مراد اور عید کہ احادیث میں وارد اسی معنی کے مناسب۔
(اصول الرشاد ص88)
یعنی بدعت وہ ہے جو سنت کے مخالف ہو اور جس سے سنت میں تغیر پیدا ہواور جو سنت کے متصادم ہو اور یا جس سے سنت اٹھ جائے۔
تو دیکھئے کہ امام شاطبی ؒ فرماتے ہیں:
سنتیں مردہ ہو جاتی ہیں جب بدعت شروع کی جاتی ہیں اور جب سنتیں مردہ ہو جائیں تو اسلام گرجاتاہے۔
آگے لکھتے ہیں:
جس نے ایک بدعت پر عمل کیا اس نے اس موقع کی سنت کو ترک کر دیا۔
(اعتصام ص21)
اور یہ بھی ابوادریس خولانی سے منقول ہے کہ امت جب بدعت اختیار کرتی ہے توان سے اس موقع کی سنت اٹھالی جاتی ہے۔
(اعتصام ص19)
اور تقریبا یہی بات حسان بن عطیہ تابعی سے بھی منقول ہے۔
(اعتصام ص19)
تو پتہ چلا کہ ہر بدعت کسی نہ کسی سنت کی رافع ہے۔
اور مزید سمجھنے کیلئے نبی رحمتﷺ کا ارشاد اکسیر رہیگا کہ کوئی قوم بدعت ایجاد نہیں کرے گا مگر اسی مقدار میں سنت ان سے اٹھالی جائے گی پس سنت کو مضبوطی سے پکڑنا بدعت کے ایجاد کرنے سے بہتر ہے۔
(مشکوۃ شریف ج1ص31)
شیخ عبد الحق محدث دھلوی آخری جملہ کی تشریح میں فرماتے ہیں: چاھے بدعت حسنۃ ہی کیوں نہ ہو۔
(دیکھئے اشعۃ اللمعات )
معلوم ہو گیا کہ بدعت سنت کی رافع ہے۔
اچھا اب آگے آیئے! بریلوی حضرات نے کہا کہ سنت سے متصادم ہو تو بدعت ضلالۃ ورنہ نہیں تو دیکھئے کہ بریلوی حضرت نمازہ جنازہ پڑھنے کے متصل بعد اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں جبکہ نبی پاکﷺ سے ایسی دعا منقول نہیں بلکہ بریلوی مسلک کے ترجمان مولوی اقبال احمد فاروقی نے کتاب شائع کی روضۃ القیومیہ اسکی ج1ص449پر یوں لکھا ہے:
مجدد الف ثانی ؒ کی نماز جنازہ کے بعد دعا کیلئے توقف نہ کیا۔ کیونکہ سنت نبویہ بھی اسکی تقاضا نہیں کرتی۔ تو معلوم ہو گیا کہ یہاں دعا نہ مانگنا سنت تھا۔ اب جب مانگ لی گئی تو وہ سنت تو اٹھ گئی۔
اسی طرح دیکھئے اذان سےقبل وبعد صلوۃ وسلام کا اضافہ کرنا۔ فاضل بریلوی اپنی قلم سے اقرار کررہا ہے کہ 781ھ میں شروع ہوئی او ر ہماری تحقیق یہ ہے۔ مولوی احمد رضا خان نے ”الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ“ شروع کرائی ہےچلو اس کی مان لیتے ہیں اس سے بھی تو معلوم ہو گیا کہ نبی پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارکہ میں نہ تھی تو گویایوں کہیے کہ اس موقع پر نہ پڑھنا سنت تھا جب پڑھ لی گئی تو سنت اٹھ گئی۔
اسی طرح قبر پر اذان ہمار ابریلوی حضرات سے سوال ہے کہ کسی حدیث کی کتاب کی نشاندہی کریں کہ نبی پاک علیہ السلام نے یہ اذان دلوائی ہو ؟اور بریلوی بھی اسے بدعت حسنۃ مان کر یہ ثابت کردیتے ہیں کہ یہ نبی پاک علیہ السلام نے نہیں دلوائی ورنہ بدعت حسنۃ نہ کہتے۔ اور جب اذان دیدی گئی تو یہ اس بات کی دلیل ہے نہ دینے والی سنت اٹھ گئی۔
شاید اہل بدعت سمجھتے ہیں کہ سنت صرف کرنے کے کاموں میں ہوتی ہے۔ اللہ کے بندوں جیسے کرنے کے کاموں میں ہوتی ہے ویسے نہ کرنے کے کاموں میں بھی ہوتی ہے یعنی جو کام نہیں کیے گیے انکو نہ کیا جائے۔ اس پر بے شمار دلائل ہیں:
1: ملا علی قاری لکھتے ہیں:
اتباع جیسا کہ فعل میں ہوتی ہے ویسے ہی ترک میں بھی ہوتی ہے پس جس نے اس فعل پر مواظبت اختیار کی جسکو شارع نے نہیں کیا وہ بدعتی ہے۔
(مرقاۃ ج1ص41تحت حدیث انماالاعمال بالنیات )
2: شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے بھی اسی حدیث کے تحت یہی بات لکھی ہے۔
(اشعۃ اللمعات ج1ص36)
3: صاحب مظاہر حق لکھتے ہیں: جس طرح رسول اللہ ﷺ کے کیے ہوئے فعل کو اتباع کرنا اطاعت رسول ہے اسی طرح نبی کریم ﷺکی اطاعت وفرمانبرداری ہے کہ فعل نبی کریم ﷺ نےکبھی نہ کیا ہوا اس پر عمل نہ کیا جائے۔ اورچاہیئے کہ اس پر دوام اصرار نہ کیا جائے جو شارع سے ثابت نہیں۔
(مظاہر حق ج1ص77)
4: علامہ کاسانی رات کے وقت ایک سلام سے آٹھ رکعات نوافل سے زیادہ پڑھنے اور دن کے وقت ایک سلام سے چار رکعات نوافل سے زیادہ پڑ ھنے کےمکروہ ہو نیکی وجہ یہ لکھتے ہیں یہ مکروہ ہے اس لیے کہ یہ زیادتی نبی پاک علیہ السلام سے مروی نہیں ہے۔
(بدائع:ج1ص295)
5: صاحب ہدایہ مکروہ ہونے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ نبی پاک علیہ السلام نے اس سے زیادہ نہیں پڑھے اگر کراہت نہ ہوتی تو نبی پاک علیہ السلام زیادہ پڑھ لیتے جواز کی تعلیم دینے کیلئے۔
(ہدایہ ج1ص127)
6: ابن نجیم مصری کے بھائی بھی یہی وجہ لکھتے ہیں۔
(النہر الفائق: ج1ص297)
7: شرح وقایہ کے حاشیہ ص104پر بھی یہی بات تقریبا لکھی ہے۔
8: صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
طلوع فجر کے بعد فجرکی سنتوں کے اور نوافل پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ نبی پاک علیہ السلام نے باوجود نماز کی چاہت کے ان کے علاوہ اور رکعات نہیں پڑھیں۔
(الہدایہ: ج1ص70)
9: علامہ شامی لکھتے ہیں: نبی پاک علیہ السلام کا کسی کا م کو نہ کرنا یہ کراہت کی دلیل ہے۔
(فتاویٰ شامی: باب العیدین )
10: شیخ جیلانی ؒ فرماتے ہیں:
جب قرآن بھی ایک شے بیان نہ کرے او ر سنت سے بھی مروی نہ ہو اور صحابہ کرام کا زمانہ بھی اس سے خالی ہو اور ان میں سے بھی اس کے متعلق ارشاد نہ ملتا ہو پس اس کے بارے میں کلام کرنا بدعت وحدث ہے۔
(غنیۃ الطالبین عربی ج1ص137قدیمی کتب خانہ )
ایک جگہ عاشورہ کی بحث کرتے لکھتے ہیں:
اگر عاشورہ کے دن کو غم اور مصیبت کا دن بنانا جائز ہوتا تو صحابہ کرام اور تابعین عظام ضرور اسے بناتے۔
(غنیۃ الطالبین: ج2ص94)
11: شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں:
معلوم ہوا کہ جب رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کے طرز عمل وعبادت سے نقل باجماعت ادا کرنے میں کوئی فضیلت وبرتری نہیں ہے۔
(ماثبت بالسنۃ ص201)
12: علامہ حلبی فرماتے ہیں:
صلوۃ رغائب کے مکروہ ہونیکی وجہ یہ ہے کہ یہ نماز صحابہ کرام اور ان کے بعد ائمہ مجتھدین سے یہ منقول نہیں۔
( کبیری ص433)
13: فتاوی عالمگیری میں ہے: سورۃ کافرون کا آخر تک بالجمع پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ یہ بدعت جو منقول نہیں صحابہ اور تابعین سے۔
(باب الکراہۃ ج4ص264)
14: امام شاطبی ؒ کسی کام کے بدعت ہونیکی دلیل یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ نبی پاک ﷺ اور صحابہ کرام اور تابعین سے ثابت نہیں۔
(اعتصام ص213)
15: امام ابن کثیر ؒ فرماتےہیں: اہل سنت والجماعت ہر اس قول وفعل کو بدعت کہتے ہیں جو صحابہ کرام سے ثابت نہ ہو۔
(ابن کثیر ج4ص156)
16: امام مالک فرماتے ہیں:
جو صحابہ کرام کے دور میں دین نہ تھا آج دین نہیں بن سکتا۔
(اعتصام ص259)
17: علامہ طاہر پٹنی لکھتے ہیں:
بعض لوگوں کی عادت ہے کہ نمازسے فارغ ہونے کے بعد سجدے میں گرپڑتے ہیں اور اس میں دعا کرتے ہیں اسکی کوئی اصل نہیں بالکل اور یہ بات نبی پاک علیہ السلام اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں اور یہ بات بدعت ہے۔
(تذکرہ الموضوعات: ص53)
18: علامہ حلبی صاحب ملتقی الابحر لکھتے ہیں :
فعلم ان کل بدعۃ فی العبادات الخاصۃ فھی مکروہۃ والاالخ
یعنی معلوم ہوگیا کہ ہر وہ بدعت جو خالص عبادات میں جاری کی جائیں وہ مکروہ ہے وگرنہ قرن اول اور وہ قرون جنکی نسبت نبی پاک علیہ السلام نے خیر کی گواھی دی ہے وہ اس سے خالی نہ ہوتے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ بدعت سنت سے ٹکراتی ہے اور اسے اٹھاتی ہے اور ہر وہ بدعت جو سنت کو مٹائے وہ سیئہ ہوتی ہے۔
(الرھص والوقص لمستحل الرقصص69)
ایک جگہ بدعت کی تعریف ومثال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اسی طرح ہر اس کام کو بدعت کہا جائے گا جو کہ عبادات میں ایسا مخصوص طرز اختیار کیا جائے جو صحابہ کرام کے زمانے میں نہ تھا جیسے جنازے لے کے آگے آگے ذکر بالجہر کرنا۔
(الرھص والوقص لمستحل الرقصص68،69)
اور یہ بھی یاد رکھیں کہ علامہ شامی ؒ لکھتے ہیں:
ان البدعۃ مرادفۃ للمکروہ عند محمد•
(شامی ج5ص295کتاب الخطر والاباحۃ )
یعنی بدعت مکروہ کا دوسرانام ہے یعنی مترادف ہے۔
اور یہ بھی یاد رکھیں کہ مکروہ کا لفظ مطلق ہو تو اس سے مراد مکروہ تحریمی ہوتا ہے۔ تو معلوم ہوگیا کہ کسی بدعت کو ایجاد کرنا دافع سنت ہے اور اس موقع کی سنت کو مٹانا کیونکہ کسی کام کو نہ کرنا بھی سرکار طیبہ ﷺ کی سنت ہے۔
تعریف نمبر[۳]:
مفتی عبدالمجید خان سعیدی لکھتے ہیں اہل سنت کے ہاں بدعت سیئہ کسی امر کی شرعی حیثیت کو کو بدل کر اسے شریعت سمجھنے کا نام ہے۔
(مصباح سنت ج1ص58مصدقہ مولوی منظور احمد فیضی، مفتی اقبال سعیدی انوارالعلوم ملتان ،عبد الحکیم شرف قادری صاحب، مولوی فتح محمد صاحب مہتمم مدرسہ فتحیہ جلال پور پیر والا ، مولوی منشا تابش قصوری)
یعنی جوچیز شریعت نے مباح قرار دی ہے اسے سنت وواجب وفرض سمجھنا بھی بدعت ہے اور حرام کہنا بھی بدعت ہے یہ ہے ان کے نزدیک بدعت کی تعریف۔
مثال نمبر1: مروجہ دعا بعد الجنازۃ
1: مولوی احمد رضا خان صاحب لکھتے ہیں:
ابھی مرقاۃ سے گذرا کہ ایہام زیادت مورث کراہت تنزیہہ ہے وبس جس کا حاصل خلاف اولی۔
(فتاوی رضویہ ج4ص30قدیم)
یعنی مروجہ دعا بعد نماز جنازہ مکروہ تنزیہی خلاف اولی ہے۔
2: مفتی محمد امین والد مولوی سعید اسعد لکھتے ہیں:
دعا بعد جنازہ ،ختمات مبارکہ ،تیجا ،ساتواں ،چالیسواں ،ششماہی ،سالانہ عرس مبارک وغیرہا مباحات ہیں۔
(نماز جنازہ کے بعد دعا کا حکم ص3،4)
یعنی دعا بعد نماز جنازہ مباح ہے۔
3: مولوی احمد رضا خان لکھتے ہیں۔ وہ تمام مامور بہ کے تحت میں داخل اور مستحب شرعی کی فرد ہے۔
(فتاوی رضویہ ج4ص30قدیم )
یعنی نما زجنازہ کے بعد دعا مستحب ہے۔
4: دعا بعد نماز جنازہ جائز بلکہ سنت ہے۔
(جاءالحق ص281 از مفتی احمد یار نعیمی )
5: مولوی عمر اچھروی لکھتا ہے :
اس آیت کریمہ کی تمام تفاسیر سے ثابت ہو ا کہ جب کسی نما زسے فارغ ہووے نماز جنازہ ہو یا اور تو نماز کے بعد وہیں ٹہریں رہنا اور بحکم الہی دعا مانگنا ضروری ہوا۔
(مقیاس حنفیت ص533)
6: مولوی عنایت اللہ سانگلہ ہل والے نے دیوبند ویوں کو چیلنج کرکے فرمایا:
اس دعا میں صرف ایک یا دو صحابی نہ تھے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں جمع تھے پھر کسی صحابی نے بھی دعا مانگنے سے انکار نہ کیا یہ صحابہ کرام کا اجماع ہے۔
(مقالات شیر اہلسنت ص230)
یعنی اس پر صحابہ کا اجماع ہے اور مفتی اقتدار احمد کہتا ہے کہ اجماع صحابہ کا انکار کفر ہے۔
(فتاوی نعیمیہ ج1ص13)
دعا بعد الجنازہ نہ مانگنے والوں پر حکم
1: مولوی عمر اچھروی لکھتا ہے:
جو نما زجنازہ کے بعد دعا سے روکتا ہے تو کیا اسکی سزا جو اللہ نے ”سید خلون جھنم داخرین “ فرمائی ہے نہ دیگا؟
(مقیاس حنفیت ص530)
یعنی جو نماز جنازہ کے بعد مروجہ دعا سے روکتا ہے وہ جہنمی ہے۔
آگے کہتے ہیں:
تم نماز جنازہ کے بعد دعا کاانکار کرکے حنفی ہو یا معتزلی جو دعا سے روکے وہ تمام زمانے سے زیادہ احمق ہے۔
(ص537)
3: مولوی عبد الرشید صاحب لکھتے ہیں:
مانعین یا تو دعا بعد نماز جنازہ کو اس آیت کے عموم میں شامل مان کر جائز تسلیم کریں یو پھر جہنم میں جانے کیلئے ہاتھ میں لوٹا بوریا بستر بغل میں دبا لیں۔
(دعا بعد نماز جنازہ ص5)
4: اویسی صاحب لکھتے ہیں:
قیامت میں اللہ تعالی فرمائے گا اے دوزخیو دوزخ میں پڑے رہو اور مجھ سے کلام بھی نہ کرو کیونکہ ایک گروہ میر ے بندوں میں سے دعا مانگتے تھے اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو ہمار اارحم الراحمین ہے لیکن تم نے ان کا مذاق اڑایا۔ دیکھیے اس آیت میں کیسے صاف الفاظ میں دعا مانگنے والوں او ر نہ مانگنے والوں کا فرق بتایا گیا ہے جنازہ میں دعا مانگنے یا نہ مانگنے کا فیصلہ ناظرین خود فرمالیں۔
(دعا بعد نماز جنازہ کا ثبوت: ص3)
یعنی دعا بعد از نماز جنازہ جو مروج ہے نہ مانگنے والا جہنمی ہے۔
ان باتوں سے معلوم ہو گیا کہ بریلوی نادان اسے مکروہ تنزیہی سے اٹھا کرفرض قطعی پر پہنچا چکے ہیں جو کہ یقینا انکے اصول سے بدعت سیئہ ٹھہرا۔
مثال نمبر2: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر انگوٹھے چومنا
1: بریلوی حضرات بعض کتب فقہ سے یہ نقل کیا ہے کہ اذان میں بوقت استماع نام پاک سن کر انگوٹھے چومنا مستحب ہے۔ یہ بات تقریبا اس موضوع پر لکھی ہوئی سب کتب میں مل جائیگا۔
(احکام شریعت ص81)
2: پھر ترقی یوں کی کہ انجمن انوار قادریہ بریلوی کا ایک بہت بڑا ادارہ ہے اس نے کئی کتابوں کو اپنے ادارہ سے چھپایا اور تقریبا ہر کتاب کے آخر کے ٹائٹل پر یوں لکھا کہ ”حضور ﷺ کے نام مبارک پر ضرور ضرور انگوٹھے چومیں“
3: خواجہ قمر الدین سیالوی کہتے ہیں:
انگوٹھے چومنے سے منع کرنے والا دولت ایمان سے محروم ہے۔
(ملخصا فوز المقال ج4ص479)
4: مفتی امین فیصل آبادی لکھتا ہے:
جو مسلمان نام پاک سن کر انگوٹھے نہ چومے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی اسے اسی بنا پردوزخ میں بھیج دے۔
(البرھان ص484)
معلوم ہوا کہ یہ بھی بدعت ہے ان کے اپنے اصول کی روشنی میں۔
مثال نمبر3: مروجہ جشن عید میلاد شریف
1: مولوی احمد رضا لکھتے ہیں:
رسول اللہ ﷺنے جس بات کا نہ حکم دیا نہ منع فرمایا وہ مباح بلا حرج ہے آگے لکھتے ہیں مجلس میلاد مبارک وقیام وفاتحہ وسوم وغیرہ کئی مسائل وہابیہ سب اسی اصل سے طے ہو جاتے ہیں۔
(الامن والعلی ص176)
2: سنت الہیہ ،سنت انبیاء،سنت ملائکہ سنت رسول اللہﷺہے۔
(جاء الحق ص196 )
3: انوار ساطعہ میں ہے: پس واجب کردیا ہے اللہ تعالی نے فرحت ولادت ﷺکو۔
(انوار ساطعہ ص551)
4: سید ارشد سعید کاظمی لکھتے ہیں:
جشن ولادت النبی ﷺکو وجوب کو درجہ اس بنا پر حاصل ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اپنی نعمتوں کو یاد کرتے رہنے کو حکم دیا ہے۔
(میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم ص3)
5: یہ ان اچھے کاموں میں سے بدعت حسنۃ ہے جن کے کرنے والوں کو ثواب ملتا ہے۔
(عقائد ومسائل ص75عبد الحکیم شرف قادری ،مفتی عبد القیوم ہزاروی )
6: تقریبا یہی بات فہارس فتاوی رضویہ ص739پر بھی موجود ہے کہ میلاد شریف منانا اور اس کیلئے لوگوں کو احتماع بدعت حسنۃ ہے۔
7: ڈاکٹر انوار احمد بگوی لکھتے ہیں:
پاکستان بننے کے بعد میلاد النبی ﷺکے موقع پر آرائش چراغاں اور جلوس اب تو گویا اسلامی شوکت کا نشان اور نبی اکرمﷺکی محبت کا پیمانہ بن چلا ہے بعض طبقوں کے نزدیک یہ مظاہرہ کچھ اس طرح ہے جیسے نماز مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز ہے۔
(تذکار بگویہ : ج2ص112)
8: ڈاکٹر اشرف جلالی کہتے ہیں:
محفل میلاد واجب ہو گئی ہے۔
(ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص38)
9: فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
سعودی وہابیوں نے اس مبارک محفل کو ختم کر دیا ہے۔
قاتلھم اللہ انی یوفکون۔
(آنا جانا نور کاص20 از فاضل بریلوی)
یہ بھی بریلوی اصول وقواعد سے بدعت ٹھہری۔
مثال نمبر4: اذان کے ساتھ صلوۃ وسلام کا ملانا
فاضل بریلوی نے اسے احکام شریعت مسٔلہ نمبر 39ص133پر بدعۃ حسنۃ یعنی بدعت حسنۃ نقل کیا ہے۔ مولوی عطا محمد بندیالوی جو کہ استاذالبریلویہ ہیں لکھتے ہیں:
اذان سے قبل اور بعد درود وسلام جائز بلکہ واجب ہے۔
(قبل اور بعداز اذان درود شریف کا ثبوت: ص57)
ایک جگہ لکھتے ہیں:
اذان سے قبل اور بعد درود شریف پڑھنا سنت الہیہ اور سنت ملائکہ ہے۔
(قبل اور بعد از آذان درود شریف کا ثبوت ص38)
معلوم ہوا کہ یہ بھی بدعت ہے۔ اسی طرح تمام بدعات کی حیثیات کو بریلویوں نے اپنی اس سطح سے بڑھا دیا ہے جو پہلی دفعہ بنائی تھی۔ اور بقول بریلویہ یہی بدعت ہو نے کی دلیل ہے۔
 
Download PDF File