صفت حاضر و ناظر خاصۂ خداوندی

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
صفت حاضر و ناظر خاصۂ خداوندی
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
پہلے چند شرائط:
1: چونکہ بریلوی اس عقیدے کے منکر کو کافر کہتے ہیں ، اس لیے اس عقیدے پر بریلوی حضرات دلائل قطعیہ ہی پیش کر سکتے ہیں۔
2: احناف کے مسلمہ بزرگوں کی عقائد پر کتب موجود ہیں، بریلوی مناظر اپنا یہ عقیدہ کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ موجود ہیں ، ان سے ثابت کریں۔
3: بریلوی حضرات منکرین کو جو ہر جگہ نہیں مانتے کافر لکھ کر دے گا۔
بریلویوں کے ہاں منکرین کافر ہیں:
1: اہل ِ بدعت کی معتبر کتاب میں ہے:
شیخین کا گستاخ اور محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر وناظر ہونے کا منکر دونوں شخص عقیدہ کے لحاظ سے اس کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہ التزام کفر ہے ، جس سے نکاح نہیں رہتا جس فعل کا تعلق عقیدے سے ہو اور اہل السنۃ کے خلاف ہو تو مرتد قطعی ہے۔ العیاذ باللہ اور اس کا قتل واجب ہے۔
(انوارِقمریہ ص 107)
2: مولوی محمد عمر اچھروی لکھتا ہے:
جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر وناظر ہونے کے منکر ہیں ان کی یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ ایمان سے خالی ہیں۔
(مقیاس حنفیت ص 268)
3: فیض احمد اویسی لکھتا ہے:
حضور علیہ السلام کے حاضر وناظر ہونے کا انکار وہی کرےگا جو یا تو اپنے آپ کومومن نہ جانے یاحضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی نہ سمجھے۔
(صحابہ کرام عقیدہ ص8)
4: مولوی غلام نصیرالدین سیالوی لکھتا ہے:
یہ لوگ حضور علیہ السلام کے اوصاف کاملہ کے انکار کی وجہ سے کافر ہوگئے جن صفات کاملہ کا ان لوگوں نے انکار کیاہے ان میں علم غیب ، حاضر وناظر، معراج کی رات حضور علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ کی زیارت کرنا اور حضور علیہ السلام کی اعانت کرنا اور آپ علیہ السلام سے استمداد کا منکر ہوجانا یہ ان کے کفر کی وجوہات ہیں۔
(عباراتِ اکابر کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ جس1ص69،دیوبندی مذہب ص 635)
تنقیح مسئلہ:
بریلوی حضرات سے حاضر وناظر ہونے کی وضاحت طلب کی جائے ، کیونکہ یہ حضرات شتر مرغ کی کیفیت رکھتے ہیں کہ کبھی یہ کبھی وہ۔
حاضر کہتے ہیں موجود کو اور ناظر کہتے ہیں دیکھنے والوں کو ، چونکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقام پر تشریف فرما ہیں اور نامہ اعمال اجمالاً پیش خدمت ہوتا ہے اس کے ناظر بھی ہیں اس لیے ان الفاظ کا استعمال کرنا غلط بھی نہیں۔
مگر بریلوی حضرات سے وضاحت ضروری ہے کہ حاضر وناظر سے کیا مطلب ہے؟ بریلوی حضرات جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر وناظر کہتے ہیں اس سے مراد ان کی ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کی ہوتی ہے ، اس پر آپ یہ سوال اٹھائیں کہ جناب ہر جگہ آپ روح سے حاضر وناظر ہیں یا روح اور جسم دونوں سے؟ اگر وہ کہیں دونوں سے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جسم مبارک تو نظر آنے والا تھا جب دنیا پر موجود تھا۔ ابولہب وابوجہل کو بھی نظر آیا، تو اب تمہیں کیوں نظر نہیں آتا؟ یا تو تمہارا عقیدہ غلط ہے یا پھر تم ابولہب، ابوجہل سے بھی بد تر ہو۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف روح مبارک سے ہر جگہ حاضر وناظر ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں تو آپ کی روح مبارک آپ کے وجود مبارک میں تھی یہ کائنات میں ہر جگہ جو اب موجود ہے یہ کب سے ہوئی؟ تو شاید وہ یہی جواب دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسل کے وصال کے بعد۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کو یہ کس نے بتایا کیونکہ دین تو مکمل ہو چکا ہے اور اس مکمل دین سے آپ کا عقیدہ ثابت نہ ہوااور دوسری بات یہ ہے کہ تو آپ علیہ السلام نہ موجود ہوئے یہ تو روح پاک ہوئی ہے لیکن آپ تو کہہ رہے تھے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں توآپ کی صرف روح کو مان کر آپ نے آدھا مسئلہ خود چھوڑ دیا اور آدھا ہم سے سمجھ لیں کہ اس دنیا میں ہر شے محدود ہے سوائے خدا کے سب محدود ہیں۔ ایک جگہ ہیں تو دوسری جگہ نہیں ، ہر چیز جو کسی جگہ ہے تو وہاں جگہ گھیرے گی مثلاً روشنی کو دیکھ لیجیے جہاں ہو وہاں اندھیرا نہیں اور اندھیر اگر کسی جگہ ہے تو روشنی نہیں دوچیزیں ایک ہی وقت میں ایک جگہ نہیں ہوتیں۔ جہاں ہم بیٹھیں دن کی روشنی میں تو وہاں ہمارا جسم ہے اور اگر ہم اٹھ جائیں تو روشنی وہاں آجائے گی۔ ہر مخلوق کو اللہ کریم نے حادث بنایاہے یعنی وہ پہلے نہ تھی پھر اسے وجود بخشااب تو نہ کوئی ایسی مخلوق بنائی جو ہر آن ہر گھڑی ہر مکان میں ہو ، یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب پورے عالم میں صرف ایک مخلوق ہو اور کوئی نہ ہو۔
اب ان ارواح کو دیکھیے ان میں بھی تداخل نہیں جہاں ایک ہے وہاں دوسری نہیں اور اس کو کتنی ہی سیر کاموقع ملے اور دائرہ کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو مگر ایک دائرہ میں۔ محدود حد تک نہ کہ وہ ہر وقت ہر جگہ موجود ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر فرشتہ انسانی شکل میں آتا ہے توجب زمین پر آتاہے تو وہ اپنی اصل صورت پر جو اوپر ہوتی ہے وہاں نہیں ہوتے اور جب وہاں اس صورت میں ہوتے ہیں تو زمین پر انسانی شکل میں نہیں ہوتے۔ تیز رفتاری اور برق رفتاری ضرور ہے مگر چونکہ مخلوق ہیں اس لیے ہر وقت ہر جگہ ہونا مخلوق کے خواص میں نہیں ہے۔
اب وہ کہے گا کہ جی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم ہر جگہ حاضر وناظر کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ علیہ السلام ایک ہی جگہ تشریف فرما ہونے کے باوجود ہر جگہ کو دیکھ بھی رہے ہیں اور ملاحظہ بھی فرما رہے ہیں، کوئی جگہ آپ کی نظر سے پوشیدہ نہیں۔
اس پر بھی کئی سوال ابھریں گے:
1: یہ کس وقت سے یا تو شروع کائنات سے جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا گیا تو یہ بھی درست نہیں کیونکہ حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت کے وقت کا قرآن تذکرہ کر کے کہتا ہے کہ آپ وہاں موجود نہیں تھے اور کئی مواقع کا ذکر کرکے قرآن کہتاہے مثلاً موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں کہ آپ وہاں نہ تھے تو شروع والی بات تو غلط ٹھہری۔
2: اگر آپ کہیں کہ زندگی مبارکہ میں تھے تو پھر سوال ابھرے گا کب سے؟ اب جواب توآئےگا مگر اتنا کہیں گے جی یہ ہمیں نہیں پتہ کب سے۔ چلو اس کو بھی دیکھ لیتے ہیں : رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام بھی ان کی زندگی مبارکہ میں یوں حاضر وناظر نہ سمجھتےتھے۔
 سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو آپ علیہ السلام نے ایک راز کی بات ارشاد فرمائی تو انہوں نے چھپ کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتادی۔ اگر انہیں یہ خیال ہوتا کہ آپ علیہ السلام ہمیں دیکھ رہے ہیں تو پھر راز کیوں بتاتیں؟
(سورۃ التحریم)
 حضرت کعب بن مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فما رجل یرید ان یتغیب الا ظن انہ سیخفی لہ ما لم ینزل فیہ وحی•
(صحیح البخاری ج2ص634)
اگر کوئی آدمی اس گمان کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپنا چاہتا ہے کہ جب تک وحی نہ آئے تو آپ کو معلوم نہ ہوگا۔ لوگوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا خیال درست تھا۔
 سیدنا عاصم رضی اللہ عنہ نے شہادت سے پہلے یہ دعا کی: اللھم اخبر عنا نبیک•
(صحیح البخاری ج1ص427)
آپ علیہ السلام اور صحابہ کرام نے آپ علیہ السلام کی ذات گرامی کے لیے ”غائب“ کا لفظ استعمال فرمایا۔
٭ آپ علیہ السلام نے فرمایا: الشاھد یرٰی مالا یری الغائب"•
(رشدالایمان ص 86)
٭ آپ علیہ السلام نے ایک غلام کے قتل کےلیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا انہوں نے قتل نہ کیا اور آکر بتایا:
انہ لمجبوب•
کہ وہ تو نامرد ہے۔ تو آپ نے یہ بات ارشاد فرمائی۔ تو آپ نے اپنے لیے خود ہی غائب کا لفظ استعمال فرمایا۔
٭آپ علیہ السلام نے امت کو جنازے کی دعاسکھائی:
اللھم اغفرلحینا ومیتنا وشاہدنا وغائبنا•
یہ دعا آپ علیہ السلام ساری زندگی پڑھتے رہے مگر کسی نے نہ کہا کہ آپ سے کچھ غائب نہیں ہے اس لیے یہ لفظ کاٹ دیں۔
 شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
مشہور یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ حضرت رقیہ کے فوت ہونے کے وقت حاضر نہ تھے۔
(تاریخ مدینہ ص 175 مترجم از مولوی محمد صادق بریلوی)
 بیہقی شریف میں ہے:
ان ام سعد ماتت والنبی صلی اللہ علیہ وسلم غائب•
(مرسل عن سعید بن مسیب)
 اسی طرح امام جصاص رحمہ اللہ کا فرمان ہےکہ:
فاما الحالتان کان یجوز فیہما الاجتہاد فی حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم في حال غيبتهم عن حضرته•
(احکام القرآن ج2ص213)
 اسی طرح علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وقدما ت من الصحابہ خلق کثیر وھم غائبون عنہ•
( عینی شرح بخاری ج8 ص119)
تو یہ بات بھی غلط ٹھہری کہ آپ علیہ السلام اپنی زندگی مبارکہ میں موجود تھے اس طرح۔ باقی رہی تیسری بات کہ اگر وفات کے بعد ہوئے ہیں تویہ آپ کو کس نے بتایا۔ کیوں دین تو پہلے مکمل ہوگیا تھا۔ لہذا یہ اب تم نے عقیدہ گھڑا جس کے منکر کو کافر بھی کہنے لگے تو یہ عقیدہ تمہارا خود تراشیدہ ہے نہ کہ شر یعت کا ہے۔
یہ عقیدہ ہے یا بے ادبی!!!
ہم اکثر سوچتے ہیں کہ عوام بھی کتنی بھولی ہے کہ ان کے ایمان سے ڈاکو کھیل رہے اور ان کو خبر ہی نہیں۔ اب جو یہ عقیدہ بریلوی حضرات کا ہے یہ انتہائی بے ادبی پر مشتمل ہے مگر عوام ٹس سے مس ہی نہیں ہو رہی۔ آہ اس قوم کی قسمت کہ سنکھیا کو کھلارہے ہیں کشتہ فولاد بنا کر ، خدا انہیں ہدایت دے۔ اس اجما ل کی تفصیل ہے کہ : بڑے کی خدمت میں چھوٹا حاضر ہوتاہے اور بڑے کو حضور کہتاہے مثلاً پیر مرید سے کہے بھائی یہ کام آپ نے آئندہ نہیں کرنا تو وہ کہے گا جی حضور اور جب استاد بھی حاضری لے تو وہ پوچھتا ہے عبداللہ تو وہ کہتاہے حاضر ہوں، تو بڑا حضور ہوتاہے اور چھوٹا حاضر ہوتا ہے۔ ساری کائنات نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے اور وہ حضور ہیں کیونکہ بڑے کو حضور کہتے ہیں اور چھوٹے حاضر ہوتے ہیں۔ پیر مرید ، استاد شاگرد، نبی امتی کی جنس ایک ہے اس لیے ان میں سے بڑا حضور ہے اور چھوٹا شاگرد ہے مگر خدا تعالیٰ تو جنس سے پاک ہے اس لیے اس کو حاضر کہنے میں حرج نہیں ، جیسا کہ اسے تو کہنا ٹھیک ہے مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب وآداب تو ”آپ“ کہنے میں ہی ہے۔ اسی طرح آپ علیہ السلام کو حضور کہنا اور خدا کو حاضر کہنا ہی ادب وآداب ہے۔ اسی طرح اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کی صورت میں کوئی باحیا آدمی قضاء حاجت ، اپنے گھروالوں سے ہمبستر ہونا ، وغیرہ بے شمار ایسی حالتیں ہیں کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ آپ علیہ السلام اس حالت کو دیکھیں مگر رضا خانی ہیں کہ وہ یہ عقیدہ بنائے بیٹھے ہیں کہ تاریک راتوں میں تنہائی کے اندر چھپ کر گھر میں جو کام کرتے ہیں نگاہ مصطفےٰ علیہ السلام سے وہ بھی پوشیدہ نہیں۔
(جاء الحق ص 72)
اب بتائیے کوئی غیرت مند انسان کسی گھر کے فرد کی موجودگی میں تو اپنی اہلیہ کے ساتھ ہمبستر نہیں ہوتا مگر یہ غیرت سے خالی یہ عقیدہ بنائے بیٹھے ہیں کہ آپ علیہ السلام اس حالت میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ شاید بریلوی حضرات یہ خیال کریں کہ خد ا بھی تو دیکھتا ہے پھر بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق بعض مسلمان اپنے بشری تقاضوں کو پورا کرتے وقت اپنے جسم کے مخصوص حصوں کو برہنہ کرنے سے شرماتے تھے کہ اللہ دیکھ رہا ہے اس لیے اپنی شرمگاہ کو چھپانے کےلیے وہ دہرے ہوجاتے تھے اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے مسلمانوں کو منع کیا۔ اور ارشاد فرمایا:
۝ الا انہم یثنون صدورھم لیستخفوامنہ•
ترجمہ: وہ اپنے سینے دوہرے کر رہے ہیں تاکہ خدا سے چھپ جائیں۔
۝ الا حین یستغشون ثیابہم يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ•
ترجمہ: جس وقت وہ کپڑے اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں تو اس وقت بھی وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔
۝ وما یعلنون انہ علیم بذات الصدور•
ترجمہ: خبردار بلاشبہ وہ دلوں کی باتوں کو جاننے والا ہے۔
یعنی جب اللہ سے بندے کا کوئی حال چھپا ہوا نہیں ہے جب کپڑوں کا ہونا نہ ہونا برابر ہے تو خواہ مخواہ دہراہونا محض اپنے پر سختی اور تنگی ہے، دلوں کی بات جاننے والے سے ظاہری بدن کون چھپا سکتا ہے؟۔ تو چونکہ خدا سے مخفی ہونا انسان کے بس میں نہیں ہے اس لیے انسان کو اللہ سے چھپنے کو حکم بھی نہیں دیا گیا۔ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسے کسی کام کا حکم نہیں دیتا جو بندوں کے بس میں نہ ہو۔" لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا" یہی وجہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ہر دور کے مسلمان اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے یہ سارے بشری تقاضے پورتے کرتےتھے۔ اس سلسلے میں خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مزید کرم یہ فرمایا کہ وہ اپنے سامنے ضروری حاجات پوری کرتے وقت انہیں کسی قسم کی گھٹن اور کوفت کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ ایک مسلمان خدا کو حاضر ناظر جانتے ہوئے یہ سارے کام دن رات میں کئی بار کرتا ہے مگر ذرہ بھر بھی گرانی ،بوجھ اور گھٹن محسوس نہیں کرتا۔ تو کوفت اور ذہنی بوجھ اور اضطراب سے انسان کو محفوظ فرمادیا گیا۔ دیکھیے غسل خانے میں ننگے شخص کو بچہ بھی اگر دیکھ لے تو وہ بوجھ محسوس کرےگا ، مگر اللہ کے بارے میں اسے یقین ہے کہ دیکھ رہا ہے مگر وہ ذرا برابر بھی بوجھ محسوس نہیں کرتا۔ اگر قدرت ایسا نہ کرتی تو ظاہر ہے زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ، اب بندے خدا سے پردے کی پابندی سے آزاد ہیں اور بے پردگی کی صورت میں ہونے والی ذہنی کوفت اور گھٹن کے احساس سے بھی۔ یہ یقیناً اس کا اپنے بندوں پر خاص فضل اور احسان ہے، رہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پردہ تو چونکہ یہ انسان کے بس میں ہے اس لیے تمام صحابہ کرام قضائے حاجت کے وقت جیسے باہم ایک دوسرے سے اوٹ میں ہوتے تھے بالکل ویسے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پردے میں ہوجاتےتھے۔ خداتعالیٰ کے سامنے بے دھڑک اپنے ہر طرح کے بشری تقاضے پورے کرنے والے صحابہ کرام میں سے کوئی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنی حاجت پوری نہ کرتا تھا۔ تو ایک تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پردہ اس لیے ضروری ہوا کہ یہ انسان کے بس میں ہے دوسرے یہ دیکھیے کہ خدا کے سامنے تقاضے پورتے کرتے وقت انسان کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتا، جب کہ خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسا کون ہے جو بوجھ گھٹن اور تکلیف محسوس نہ کرےگا۔ فرض کرو آج بھی غسل خانے میں نہانے والے )رضاخانیوں کے سوا( کسی بھی شخص کو یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے ہیں تو مسلمان ہی نہیں کافروں کے پیروں تلے سے بھی زمین نکل جائے گی اور وہ مارے شرم کے پانی پانی ہوجائےگا۔ اگر آنحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام حاضر ناظر ہوتےتو آج کرہ ارض پر رضا خانیوں کے علاوہ شاید کوئی فرد بشر موجود نہ ہوتا۔ سوچیے تو اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ناظر ہوتے تو جو صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ادب واحترام کے سبب بول نہیں سکتے تھے وہ بشری تقاضے ان کی موجودگی میں کس طرح پورے کرتے؟ یقین کیجیے اگر حضرات صحابہ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر ناضر جانتے ہوتے تو نہ تو وہ اپنے بشری تقاضے پورے کر سکتے تھے اور نہ ان کی اولاد ہو سکتی تھی۔ خصوصاً حضراتِ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی ولادت باسعادت نہ ہو سکتی اور یوں دنیا کو ان کے فیوض و برکات سے فیض یاب ہونے کا موقعہ نہ ملتا، کیونکہ علی رضی اللہ عنہ "صحابی "تھے"رضاخانی" قطعاً نہ تھےاور اور فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں۔ رضی اللہ عنہ وعنھا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر ناظر ہونے کا عقیدہ بالکل بے اصل بلکہ نصوص صریحہ شرعیہ کے خلاف اور مشرکانہ عقیدہ ہے۔ ”علی ٰ کل شیئ شہید“ اور ”بکل شی ء محیط“صرف حق تعالیٰ کی صفت ہے۔ اس گمراہانہ عقیدہ کو اسلامی تعلیمات سے اسی قدر بعد ہے جس قدر بت پرستی اور عقیدہ تثلیث کو اسلام اور عقیدہ توحید سے۔ اگر اس عقیدہ کے خلاف نصوص ناطق نہ ہوتے جب بھی اصول ِ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہ تھی، لیکن صورت حال یہ ہے کہ کتاب وسنت میں اس کے خلاف بے حساب دلائل موجود ہیں جن کا احصاء اور استیعاب بھی نہیں کیا جا سکتا۔
بریلوی دعویٰ
عالم میں حاضر وناظر کے شرعی معنی یہ ہے کہ قوت قدسیہ والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کو اپنے کف دست کی طرح دیکھے اور دور ، قریب کی آواز یں سنے۔
(جاء الحق ص 138 از مفتی احمدیار گجراتی نعیمی)
ویسے تو بریلوی حضرات کے کئی دعویٰ جات ہیں زیادہ وہ اسی کو استعمال کرتے ہیں۔
تنقیح نمبر1:
بریلوی حضرات سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال مانتے ہو یا نہیں؟ اگر وہ کہیں:” نہیں“ تو بات ختم اور اگر کہیں: ”ہاں“، تو پھر سوال یہ ہے کہ اس کما ل میں کسی کافر کو شریک کرنے والا بلکہ اس میں کافر کو بڑھانے والا کون ہے؟ اگر تو وہ کہہ دیں کہ کافر نہیں ہے تو پھر معلوم ہوگیا کہ کمال بھی نہیں مانتے، اگر مانتے ہوتے توجو کافر کو شریک بلکہ بڑھارہے ہیں اسے تو کسی فتوے کی زد میں لاتے۔ اور اگر فتویٰ کی زد میں نہیں لاتے تو پھر بریلوی مسلک کے معتبر حضرات کی آراء کو سنیں:
 فاضل بریلوی صاحب لکھتے ہیں:
وہ صفت جو غیر انسان کے لیے ہو سکتی انسان کے لیے کمال نہیں اور جو غیر مسلم کے لیے ہو سکتی مسلم کےلیے کمال نہیں۔
(ملفوظات اعلیٰ حضرت ص 343 فرید بک سٹال لاہور)
 اور دوسرے ”مناظر اعظم“ مولوی ا للہ دتہ صاحب لکھتے ہیں:
باقی رہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر وناظر ماننا اور نہ ماننا۔ سو اے برخودار ! تم یہ سوچو کہ اگر کوئی فرد کسی کے کمال کا انکار کرے تو اس کے انکار سے موصوف کی شان میں کوئی فرق تو نہیں آئے گا لیکن منکر کا انکار موصوف کے لیے باعث اذیت ضرور ہوگا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینا درد ناک عذاب کا مستحق بنادےگا۔
(بھیڑ نما بھیڑیے ص 14)
 اور لگے ہاتھوں یہ بھی سنتے جائیے کہ: سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینے سےآدمی کافر ہوجاتا ہے۔
(غازی ممتاز حسین قادری ص201 از حنیف قریشی)
تو اب بتائیں کہ بریلوی مسلک کے جید علماء تو اس کو فتوے سے کافر بنارہے ہیں جب کہ آپ کچھ بھی نہیں کہتے، امید یہ ہے کہ اس تمہید کے بعد وہ آپ کے مطالبے پر آجائے گا۔
اگر وہ اس بات کو کمال کا انکار اور بے ادبی کہتا ہے تو پھر آپ کے پاس حوالہ جات ہونے چاہییں۔
1: شیطان ہر جگہ حاضر وناظر ہے۔
(نور العرفان ص 184 از مفتی احمد یار خان نعیمی)
2: یہی مفتی صاحب لکھتےہیں:
ابلیس کی نظر تمام جہاں پر ہے کہ وہ بیک وقت سب کو دیکھتاہے اور تمام مسلمانوں کے ارادوں بلکہ دل کے خطرات سے بھی خبردار ہے کہ نیک ارادے سے بارز رکھتا ہے اور برے ارادے کی حمایت کرتا ہے۔
(تفسیر نعیمی ج3ص114 آیت نمبر 268)
3: مولوی احمد رضا خان کی مصدقہ کتاب" انوار ساطعہ" میں ہے:
تماشا یہ ہے کہ اصحاب محفل میلاد تو زمین کی تمام جگہ پاک وناپاک ،مجالس مذہبی وغیرہ میں حاضر ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی نہیں کرتے ملک الموت اور ابلیس کا حاضر ہونا اس سے بھی زیادہ تر مقامات پاک ناپاک ، کفر غیر کفر میں پایا جاتا ہے۔
(انوار ساطعہ ص 359)
اب بتائیں کہ بریلویوں نے بڑھایا شیطان کو یا نہیں؟ اور اس بڑھانے کی وجہ سے یہ لوگ کس فتویٰ کی زد میں آتے ہیں؟! مزید فتویٰ بھی سن لیجیے کہ کاظمی صاحب کہتے ہیں کسی نبی کے معجزات اور کمالات میں کسی غیر نبی کو نبی سے بڑھ چڑھ کر ماننا تو ہین نبوت ہے۔
(الحق المبین ص70)
اب بتائیے اس عقیدے سے یہ لوگ بجائے عاشق بننے کے کیا بنے؟
تنقیح نمبر 2:
یہ عقیدہ بقول بریلوی حضرات شرک ہے۔
1: مولوی شاہ مسعود صاحب لکھتے ہیں :
یارسول اللہ بہ نیت حاضر وناظر کہنا موجب شرک ہے۔
(فتاویٰ مسعودی ص 537)
2: قیاس اگر اس طرح کیا جائے کہ اس میں شرک آجائے تو وہ ناجائز ہے ہر وقت ہر لمحہ حاضر وناظر ہونا صرف رب العالمین ہی کی شان ہے۔
(رسائل میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ص 567)
3: کوئی تصور شیخ کو شرک تصور نہ کرے کیونکہ شرک تب ہو گا جب کوئی یہ خیال کرے کہ شیخ حاضر وناظر ہے کیونکہ حاضر وناظر اللہ کی صفت ہے۔
(السیف الصارم اکتوبر 2011ء ص 22)
اب بتائیے! اپنے اس عقیدے کی وجہ سے یہ لوگ کیا ٹھہرے؟
تنقیح نمبر3:
ہمارا بریلویوں سے سوال ہے کہ آپ خدا کی طرح حاضر وناظر مانتے ہو یانہیں؟ اگر بریلوی کہیں نہیں تو پھر یہ حوالہ جات ان کی خدمت میں لائے جائیں کہ وہ تو کہتے ہیں :
1: نمازی جس طرح اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جانے اسی طرح محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی۔
(تفسیر نعیمی ج1ص58 فاتحہ آیت نمبر4 از مفتی احمدیار خان نعیمی گجراتی)
2: جس طرح انسان حق سبحانہ وتعالیٰ کو ہرحالت میں ظاہر وباطنی طور پر واقف جانتا اور مانتا ہے اسی طرح حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ظاہری وباطنی طور پر حاضر وناظر مانے۔
(حق پر کون ص 70 از ظفر عطاری)
اب بتائیے اگر وہ نہیں مانتے تو ان پر فتویٰ لگائیے اور اگر مانتا ہے تو فتویٰ اسے بھی سنا ددیجیے کہ جو اللہ جل جلالہ کی طرح حاضر وناظر جانے پس اہل سنت کے نزدیک کافر ہے۔
(انوار احناف ص 200 از ابو کلیم محمد صدیق فانی)
تنقیح نمبر4:
ہمارا سوال یہ ہے کہ آپ اس مسئلہ کو سمجھانے کے لیے ٹی وی کی مثالیں لاتے ہو یا نہیں اگر وہ کہے ہم نہیں لاتے تو پھر ان حضرات کے بارے میں پوچھیں:
1: حاضر وناظر کامسئلہ سمجھانے کے لیے ٹی وی بہت معاون ہو سکتاہے۔
(تحفظ عقائد اہلسنت ص 567 از ظہیر الدین قادری برکاتی)
2 ٹیلی ویژن میں غور کرنے سے نئے ذہنوں کے لیے یہ مسئلہ باآسانی واضح ہوجاتا ہے۔
(صحابہ کرام کا عقیدہ حاضر وناظر ص13 از فیض احمد اویسی)
3: ”سوال: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر موجود ہوں یا سب کو دکھائی دیں ؟
جواب: بھائی اللہ تعالیٰ سب کچھ کر سکتا ہے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ آج آدمی اسلام آباد ٹی وی اسٹیشن پر بیٹھا خبریں سناتاہے اور ہم اسے ٹی وی سیٹ پر دیکھتے ہیں۔“
(عقائد وعبادات ص 19 از صدیق ہزاروی)
تو آپ اگر کہیں کہ یہ جائز ہے تو پھر یہ بات ہم دکھاتے ہیں کہ:
٭ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہلکے لفظ استعمال کرنا ہلکی مثالیں دینا کفر ہے۔
(نور العرفان پارہ 15 آیت 48 ص345)
٭ جب رذائل سے تشبیہ دی جاتی ہے تو اس سے توہین وتنقیص کے معنی نکلتے ہیں۔
(الصوارم الہندیہ ص 7)
تو اب یہ بتائیں ان سب لوگوں کا بشمول آپ کے اس فتویٰ کی رو سے کیا بنے گا؟
تنقیح نمبر5:
ہمیں وہ تاریخ بتائی جائے جب آپ علیہ السلام حاضر وناظر ہوئے پھر اسی حساب سے دلیل۔
دلائل اہلسنت و الجماعت دیوبند
دلیل نمبر1:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ:
وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَى قَالُوا سَلاماً قَالَ سَلامٌ فَمَا لَبِثَ أَنْ جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ ۝ فَلَمَّا رَأَى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُوا لا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمِ لُوطٍ•
(سورۃ ھود 70-69)
اگر سیدنا ابراہیم علیہ السلام فرشتوں کو اترتا اور یہ شکل وصورت بنا کر آتے اور اپنے قریب دیکھتے اور ملنے تک کچھ دیکھ رہے تھے تو پھر ڈرنا اور فرشتوں کا یہ کہنا آپ ڈریں نہیں سب مہمل لگتا ہے۔
دلیل نمبر2:
حضرت لوط علیہ السلام کا واقعہ:
وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطاً سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعاً وَقَالَ هَذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ، قَالُوا يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ
(سورہ ھود:77)
اگر سیدنا لوط علیہ السلام کا ان کو شروع سے آنا اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس جانا اور یہ سب راستہ ا ن کو دکھانا تھا تو پھر آپ کی پریشانی کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے حالانکہ آپ بہت سخت پریشان ہیں۔
دلیل نمبر3:
حضرت یعقوب علیہ السلام کا واقعہ:
أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَداً يَرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَنْ تَذْهَبُوا بِهِ وَأَخَافُ أَنْ يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنْتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ قَالُوا لَئِنْ أَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذاً لَخَاسِرُونَ•
(سورۃ یوسف:12)
دوسری جگہ ہے : اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيراً•
(سورۃ یوسف:93)
سیدنا یعقوب علیہ السلام کا رونا اور آنکھوں کا سفید ہونا اسی وجہ سے کہ آپ علیہ السلام کو سیدنا یوسف علیہ السلام نظر نہیں آئے اگر آنکھوں کے سامنے تھے توپھر پیار بھی کر لیتے اور اتنا غمگین اور رونا سمجھ نہیں آتا۔
دلیل نمبر4:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ:
فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَباً قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِي إِلاَّ الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَباً قَالَ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصاً•
(سورۃ الکہف:62)
دیکھیے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سو گئے تھے او ر مچھلی پانی میں کود گئی۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ علیہ السلام نے اسے جاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا ورنہ وہ کھانا مانگتے ہی کیوں۔ کیوں کہ کھانا تو وہی مچھلی تھی جو زندہ ہوکر پانی میں چلی گئی۔
دلیل نمبر5:
حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ:
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِي لا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنْ الْغَائِبِينَ لأعَذِّبَنَّهُ عَذَاباً شَدِيداً أَوْ لأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِي بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ•
(سورۃ النمل:20)
یہ بات اب صاف نص قطعی ہوگئی کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی نظر مبارک سے ھدھد اوجھل او رپوشیدہ تھا تبھی تو فرمایا کہ مجھے نظر نہیں آرہا۔ اب معلوم ہوگیا یہ کہنا کہ نبی کی نظر سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے یہ نص قطعی کا انکار ہے۔
دلیل نمبر6:
حضرت زکریا علیہ السلام کا واقعہ:
قَالَ رَبِّ اجْعَل لِي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاثَ لَيَالٍ سَوِيّاً •
(سورۃ مریم:10)
اس سے بھی معلوم ہوگیا کہ سیدنا زکریا علیہ السلام نشانی مانگ رہے ہیں۔ ورنہ اگر اہل بدعت کا قول سچا تھا تو پھر تو انہیں سب کچھ نظر آجائے گا کہ بچہ بن گیا اور اب پیدا ہونے والا۔ معلوم ہوا کہ یہ سب ایلِ بدعت کا جھوٹ ہے۔
دلیل نمبر7:
إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ۝ اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً•
(سورۃ المنافقون:1)
یہ سورۃ مزمل ، احزاب، نساء ، حج کے بعد نازل ہوئی جن صورتوں میں چند آیات سے منافقین زمانہ ھذا اپنی گاڑی چلاتے ہیں ، حالانکہ بعد والی سورت یعنی سورہ منافقون کا شان نزول یوں ہے: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم ایک غزوہ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے دوران سفر عبداللہ ابن ابی رئیس المنافقین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم عزت والے جب مدینہ کو چلے جائیں گے تو ذلت والوں ) یعنی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نکال دیں گے، حضرت زید نے یہ واقعہ اپنے چچا کو سنایا انہوں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے مجھے بلوا کر سارا واقعہ سنا تو رئیس المنافقین کو بلوایاگیا تو اس نے قسمیں اٹھاکر اپنی صفائی دی تو زید نے فرماتے ہیں:
فَكَذَّبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَدَّقَهُ فَأَصَابَنِي هَمٌّ لَمْ يُصِبْنِي مِثْلُهُ قَطُّ•
وہ فرماتے ہیں پھر مجھے میرے چچا نے بھی ملامت کیا۔ پھر بعدمیں یہ سورت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایااور فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ يَا زَيْدُ•
(صحیح البخاری: ج2ص727 ملحضاً کتاب التفسیر)
اب معلوم ہوگیا کہ لفظ شاہد ، شہید جو اس سورت سے پہلے اترنے والی سورتوں میں تھے اس کے معنی بھی وہ نہیں جو اہل بدعت نے بتائے ہیں یہ محض ان کی اپنی ایجاد ہے۔ شاید اہل بدعت یہ کہیں کہ چونکہ زید رضی اللہ عنہ کے پاس گواہ نہ تھے اس لیے بات نہ مانی گئی۔ بات یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے تو زید رضی اللہ عنہ کو جھوٹا قرار دیا اور دیگر لوگ مثل چچا ملامت کرنے لگے۔ اگر بات وہی ہوتی تو آپ فرماتے زید تم سچے ہو مگر فیصلہ نہیں ہو سکتا۔
دلیل نمبر8
وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثاً فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِي الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ•
(سورۃ التحریم:3)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ کو ایک راز بتایا ، انہوں نے چھپ کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتا دیا جب وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے پوچھا کہ یہ کیا آپ نے کیا تو وہ کہنے لگیں آپ کو کس نے بتایا کہ میں نے راز فاش کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے۔
معلوم ہوا کہ امہات المومنین کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دیکھ نہیں رہے ورنہ وہ کیوں بتاتیں اور یہ کیوں پوچھتیں کہ آپ کو کیسے پتہ چلا۔
دلیل نمبر9:
وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِداً ضِرَاراً وَكُفْراً وَتَفْرِيقاً بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَاداً لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلاَّ الْحُسْنَى وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ لا تَقُمْ فِيهِ أَبَداً•
(سورۃ التوبۃ:)
امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
واللہ ما اردت الاالحسنیٰ وھو کاذب فصدقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم •
(در منثور: ج3 ص276)
معلوم ہوگیا کہ آپ ہرجگہ دیکھنے والے نہ تھے ورنہ ان کے سارے پرو پیگنڈے کو آپ تو ملاحظہ فرما رہےتھے اور آپ ان کی تصدیق نہ فرماتے۔
دلیل نمبر10:
وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ•
(سورۃ الانعام:68)
اور اگر آپ کو شیطان بھلاد ے تو نصیحت کے بعد ظالمین کے پاس مت بیٹھیں۔
پہلی بات…… تو یہ ہے کہ حاضر وناظر اگر خدا بنائے پھر شیطان کیسے آپ کے پاس اس حاضر وناظر ہونے میں حائل ہو سکتا ہے۔
دوسری بات…… یہ ہے کہ اللہ فرماتا ہے ایسی قوم کے پاس آپ بیٹھیں ہی نہیں مگر جب حاضر او رناظر ہوئے پھر تو اس قوم کی طرف آپ دیکھ بھی رہے ہیں اور ان کی باتوں کو سن بھی رہے ہیں تو پھر اس حکم خداوندی کا کیا فائدہ۔ یہ سب بریلوی حضرات کی مہربانی ہے۔
دلیل نمبر11:
قرآن پاک میں ہے:
”سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ•“
(سورۃ بنی اسرائیل: 1)
سیر کروانے کامطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں دیکھ رہے تھے۔
دلیل نمبر12:
ارشاد بای تعالیٰ ہے:
”ولا تقم علی قبرہ“•
(سورۃ التوبہ : 84)
کہ آپ اس منافق کی قبر پر کھڑے نہ ہوں یعنی وہاں نہ جائیں۔
مگر ہر جگہ کے حاضر وناظر کہنے والے لوگ تو اس آیت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عامل نہیں مانیں گے۔
دلیل نمبر13:
لَقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ•
(آل عمران:181)
احادیث مبارکہ اور نفی حاضر وناظر
دلیل نمبر1:
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم * لقد رأيتني في الحجر وقريش تسألني عن مسراي فسألتني عن أشياء من بيت المقدس لم أثبتها فكربت كربة ما كربت مثله قط قال فرفعه الله لي أنظر إليه ما يسألوني عن شيء إلا أنبأتهم به•
(صحیح مسلم: ج1ص96،باب المعراج،صحیح البخاری ج1ص548)
اس میں الفاظ حدیث کی طرف غور فرمائیں ”فكربت كربة ما كربت مثله قط“ یعنی میں اتنا پریشان ہوا کہ اتنا پریشان کبھی نہیں ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر جگہ حاضر وناظر نہ تھے ورنہ پریشانی کی ضرورت ہی نہ تھی۔ کیونکہ اگر انہوں نے بیت المقدس کی کھڑکیاں وغیرہ پوچھ ہی لیں تھیں تو ُ آپ تو ہر جگہ کو دیکھ رہےتھے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ فاضل بریلوی کے چاہنے والوں نے خود گھڑا ہے۔
دلیل نمبر2:
عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ أَوْ بِذَاتِ الْجَيْشِ انْقَطَعَ عِقْدٌ لِي فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ••• فَبَعَثْنَا الْبَعِيرَ الَّذِي كُنْتُ عَلَيْهِ فَأَصَبْنَا الْعِقْدَ تَحْتَهُ•
(صحیح البخاری ج2ص663)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہو گیا اور یہ الفاظ خصوصیت سے ذہن میں رکھیے
”فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ“
کہ آپ علیہ السلام اس ہار کو تلاش کرنے کے لیے رک گئے اب کوئی تاویل نہیں چل سکتی کہ اس لیے رکے تھے کہ پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کا حکم آجائے۔ یہ معنی نکالنا صریح الفاظ کی خلاف ورزی ہے کیونکہ روایت میں ہار تلاش کرنے کے لیے رکنا صراحتاً آیا ہے۔ معلوم ہوا کہ آپ اگر پہلے ہی سے دیکھ رہے ہوتے تو ہار کا گرنا اور چھپنا سب آپ کی نظر میں ہوتا۔
دلیل نمبر3:
قال أنس أصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم عروسا بزينب بنت جحش قال وكان تزوجها بالمدينة فدعا الناس للطعام بعد ارتفاع النهار فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم وجلس معه رجال بعد ما قام القوم حتى قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فمشى فمشيت معه حتي بلغ باب حجرة عائشة ثم ظن أنهم قد خرجوا فرجع ورجعت معه فإذا هم جلوس مكانهم•
(صحیح مسلم: ج1ص461،صحیح البخاری: ج2ص706)
آپ نے سیدہ رینب رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا چند صحابہ کرام کو دعوت ولیمہ پر مدعو فرمایا تو وہ کھانے کے بعد آپ علیہ السلام کی باتیں سننے کے لیے بیٹھ گئے، ان کے طویل بیٹھنے سے آپ کو یہ بات ناگوار نہ گزری مگر زبان سے توکچھ نہ کہا اور خود اٹھ کر باہر تشریف لے گئے کہ شاید یہ بھی چلے جائیں گے مگر جب واپس آکر دیکھا تو وہ بدستور بیٹھے ہیں آپ پھر سے چلے گئے تو پھر آپ تشریف لائے۔ یہ روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جگہ حاضر وناظر ہونے صراحتہً تردید کر رہی ہے۔
دلیل نمبر4:
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعِينَ رَجُلًا لِحَاجَةٍ يُقَالُ لَهُمْ الْقُرَّاءُ فَعَرَضَ لَهُمْ حَيَّانِ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ رِعْلٌ وَذَكْوَانُ عِنْدَ بِئْرٍ يُقَالُ لَهَا بِئْرُ مَعُونَةَ فَقَالَ الْقَوْمُ وَاللَّهِ مَا إِيَّاكُمْ أَرَدْنَا إِنَّمَا نَحْنُ مُجْتَازُونَ فِي حَاجَةٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَتَلُوهُمْ فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ شَهْرًا فِي صَلَاةِ الْغَدَاةِ وَذَلِكَ بَدْءُ الْقُنُوتِ وَمَا كُنَّا نَقْنُتُ•
(صحیح البخاری: ج2ص586)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہینہ بھر ان قبیلوں پر دعائے ضرر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر آپ کو پہلے معلوم ہوتا یا ان کی سازشوں کو دیکھ رہے ہوتے تو کبھی ان کو روانہ نہ فرماتے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے منشا خداوندی دیکھی کہ ان کی موت کا وقت آگیا ہے اس لیے روانہ فرما دیا۔ یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ ایک دو دن نہیں پورا مہینہ دعائے قنوت پڑھ کر ان کے خلاف بد دعا فرمانا یہ اس کی دلیل ہے کہ آپ کی یہ تاویل غلط ہے۔
دلیل نمبر5:
عَنْ قَتَادَةَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ بِالْمَدِينَةِ فَزَعٌ فَاسْتَعَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا لِأَبِي طَلْحَةَ يُقَالُ لَهُ مَنْدُوبٌ فَرَكِبَهُ•
دوسری جگہ ہے:
عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَهْلَ الْمَدِينَةِ فَزِعُوا مَرَّةً فَرَكِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا لِأَبِي طَلْحَةَ كَانَ يَقْطِفُ أَوْ كَانَ فِيهِ قِطَافٌ فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ وَجَدْنَا فَرَسَكُمْ هَذَا بَحْرًا فَكَانَ بَعْدَ ذَلِكَ لَا يُجَارَى•
(صحیح البخاری ج1ص401)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھوڑا پر تشریف لے جانے دیکھنے کےلیے کہ یہ آواز کیا تھی۔ یہ بھی آپ کے ہر جگہ حاضر وناظر اور ہر جگہ دیکھنے کی نفی کرتی ہے ورنہ آپ تو وہیں سے بتا دیتے کہ یہ فلاں شے ہے۔
دلیل نمبر6:
عن إبراهيم التيمي عن أبيه قال كنا عند حذيفة فقال رجل * لو أدركت رسول الله صلى الله عليه وسلم قاتلت معه وأبليت فقال حذيفة أنت كنت تفعل ذلك لقد رأيتنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة الأحزاب وأخذتنا ريح شديدة وقر فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا رجل يأتيني بخبر القوم جعله الله معي يوم القيامة فسكتنا فلم يجبه منا أحد ثم قال ألا رجل يأتينا بخبر القوم جعله الله معي يوم القيامة فسكتنا فلم يجبه منا أحد ثم قال ألا رجل يأتينا بخبر القوم جعله الله معي يوم القيامة فسكتنا فلم يجبه منا أحد فقال قم يا حذيفة فأتنا بخبر القوم فلم•
(صحیح مسلم: ج2 ص107)
رسول پاک صلی اللہ علیہ کا تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا کہ کون مخالفین کی خبر لائےگا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر ہر بات اور ذرہ ذرہ کا علم توخدا کو ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر آپ ہرجگہ ہی ہر وقت دیکھ رہے ہوتے تو ”الا یا تینی بخبر القوم“ کہنے کی ضرورت ہی کیا۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔
دلیل نمبر7:
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ فَقَالَ أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ قَالَتْ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي•
(صحیح البخاری: ج2ص63)
آپ علیہ السلام کا یہ فرمانا ”این ابن عمک“ آپ کا چچا زاد بھائی کہاں ہے؟۔ یہ بھی آپ علیہ السلا م کے ہر جگہ دیکھنے کی تردید کرتا ہے۔
دلیل نمبر8:
إِذْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حَتَّى دَخَلَ الْمَسْجِدَ. فَقَالَ « مَنْ أَحَسَّ الْفَتَى الدَّوْسِىَّ ». ثَلاَثَ مَرَّاتٍ.
(سنن ابی داؤد ج1ص295)
رحمت کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں داخل ہوتے ہی فرمایا کسی نے دوسی جوان یعنی ابو ہریرہ کو دیکھا ہے یا کسی کو اس کا پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جگہ دیکھنے کی نفی پر صریح دلیل ہے۔
دلیل نمبر9:
عن جابر بن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مكث بالمدينة تسع سنين لم يحج ثم أذن في الناس بالحج في العاشرة•
(مشکوٰۃ شریف ج1ص224)
مکث بالمدینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مدینہ طیبہ میں ٹھہرے ہوئےتھے اگر ہرجگہ ہوتے تو صرف مدینہ طیبہ ٹھہرنے کی وجہ پھر کیاہوئی؟
دلیل نمبر10:
أنس بن مالك أن أبا بكر الصديق حدثه قال * نظرت إلى أقدام المشركين على رءوسنا ونحن في الغار فقلت يا رسول الله لو أن أحدهم نظر إلى قدميه أبصرنا تحت قدميه فقال يا أبا بكر ما ظنك باثنين الله ثالثهما•
(صحیح مسلم: كتاب فضائل الصحابة رضي الله عنهم۔ باب من فضائل أبي بكر الصديق رضي الله عنه)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غار میں رہنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ہرجگہ نہ تھے۔
دلیل نمبر11:
عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَأَعْرِفُ أَصْوَاتَ رُفْقَةِ الْأَشْعَرِيِّينَ بِالْقُرْآنِ حِينَ يَدْخُلُونَ بِاللَّيْلِ وَأَعْرِفُ مَنَازِلَهُمْ مِنْ أَصْوَاتِهِمْ بِالْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ وَإِنْ كُنْتُ لَمْ أَرَ مَنَازِلَهُمْ حِينَ نَزَلُوا بِالنَّهَارِ•
(صحیح البخاری ج2ص608)
اشعری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق آپ نے فرمایا میں نے ان کے ٹھکانے کو نہیں دیکھا ،دن کے وقت وہ جہاں ہوتے ہیں۔ یہ بھی آپ کے ہر جگہ دیکھنے کی نفی ہے۔
دلیل نمبر12:
عَنْ أَبِي حَازِمٍ قَالَ سَأَلْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَقُلْتُ هَلْ أَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّقِيَّ فَقَالَ سَهْلٌ مَا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّقِيَّ مِنْ حِينَ ابْتَعَثَهُ اللَّهُ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ•
(صحیح البخاری: ج2ص814)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات تک میدہ نہیں دیکھا۔ یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جگہ دیکھنے کی نفی ہے۔
اور یہ بھی بخاری میں ہے :
مَا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْخُلًا مِنْ حِينَ ابْتَعَثَهُ اللَّهُ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ•
(صحیح البخاری ج2ص814،815)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات تک چھاننی نہیں دیکھی۔
دلیل نمبر13:
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم * صنفان من أهل النار لم أرهما قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات رؤوسهن كأسنة البخت المائلة لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا•
(صحیح مسلم ج2ص383)
دو جہنمی طبقوں کو آپ علیہ السلام نے نہیں دیکھا۔ یہ بھی ہر جگہ دیکھنے کی نفی ہے
دلیل نمبر14:
عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ قِصَّةِ تَبُوكَ••• فَمَا رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَتَغَيَّبَ إِلَّا ظَنَّ أَنْ سَيَخْفَى لَهُ مَا لَمْ يَنْزِلْ فِيهِ وَحْيُ اللَّهِ•
(صحیح البخاری ج2ص634)
غزوہ تبوک میں اتنا رش تھا لوگوں کا مگر کوئی آدمی اس گمان سے چھپنا چاہتا کہ جب تک وحی نہ آئے گی میری عدم موجودگی کا پتہ آپ علیہ السلام کو نہ چلے گا تو چھپ سکتا تھا۔ یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صراحتہً حاضر وناظر اور ہر جگہ دیکھنے کی نفی ہے۔
دلیل نمبر15:
مشہور یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت رقیہ کے فوت ہونے وقت حاضر نہ تھے۔
(تاریخ مدینہ ص 175 ترجمہ جذب القلوب الی دیار المحبوب الشیخ دہلوی رحمہ اللہ)
دلیل نمبر16:
(حدیث شریف میں ہے): کاش میں دیکھتا اپنے بھائیوں کو۔
(نور علی نور ص 23)
دلیل نمبر17:
ابن مندہ وابو نعیم معرفۃالصحابہ میں حضرت ربیعہ بن وقاص سے راویت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں تین مقامات ایسے ہیں کہ ان میں بندے کی دعا رد نہیں کی جاتی ان میں سے ایک وہ بندہ جو جنگل میں کھڑا ہو کر اس حال میں نماز ادا کرے کہ اسے اس کے رب عزوجل کے سوا کوئی نہ دیکھتا ہو۔
( فضائل دعا ص225مکتبہ مدینہ)
دلیل نمبر18:
علامہ سبکی لکھتے ہیں: حضرت ابوبکر ؓ سے منقول ہیں کہ نبی پاک ﷺ کے سامنے آواز بلند کرنا نہ نبی کی زندگی میں جائز تھا نہ موت کے بعد۔حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر حضور کی قبر مبارک کے پاس کوئی کھٹکا کرتا ہے تو کہلاتی تھیں حضور کو تکلیف نہ پہنچاؤ۔حضرت علیؓ نے اپنے گھر کی چوکھٹ وغیرہ بنوائی تو مناصع میں لے جاکر بنوائی جو آبادی سے باہر جنگل ہے تاکہ قبر مبارک کے پاس کھٹکا نہ ہو۔ علامہ سبکی آگے لکھتے ہیں صحابہ کرام ؑؓ آنحضور ﷺ کی تعظیم کیوجہ سے قبر کے پاس بہت پست آواز سے گفتگو کرتےتھے۔ ایک دن حضرت عمر ؓ مسجد میں تشریف فرما تھے دونوجوان مسجد میں آئے اور بلند آواز سے آپس میں باتیں کرنے لگے حضرت عمر ؓ نے ان کو اپنے پاس بلایا او ر دریافت کیا تم کہاں سے آئے ہو انہوں نےکہا ہم طائف کے باشندے ہیں طائف سے آئے ہیں حضرت عمرؓ نے فرمایا اگر تم مدنی ہوتے تو ابھی تمہارے کوڑے لگاتا۔
(زیارت خیرالانام ترجمہ شفاءالسقام ص146،147،مصدقہ ابوالحسن زید فاروقی)
دلیل نمبر17:
علامہ ابن کثیر ؒ نے سانحہ بیر معونہ کے متعلق یوں لکھا ہے حضرت عمرو بن امیہ ؓ کو اس لیے گرفتار کرنے کے بعد چھوڑ دیاگیا تھا کہ ماں کی طرف سے ان کا قبیلہ مضر تھا اور ان کے ساتھ ایک انصاری ساتھی کو بھی چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس سانحہ کی خبر آنحضرت ﷺ کو عمرو بن امیہ اور اس کے اس انصاری ساتھی نے ہی دی تھی۔
(البدایۃ والنھایۃ ج4ص483)
دلیل نمبر18:
سیدنا حبیب ؓ نے شہادت سے پہلے یوں کہا :
اے اللہ ہم نے تیرے رسول کی رسالت کی تبلیغ کر دی تو بھی اپنے رسول کو ہماری اس حالت کی خبر پہنچادے۔
(سیرت ابن ہشام ج2ص328)
دلیل نمبر20:
آپ ﷺ نے فرمایا:
وان یخرج ولست فیکم فکل امرء حجیج نفسہ•
(صحیح مسلم: ج2ص401)
یعنی اگر دجال میری عدم موجود گی میں ظاہر ہوا تو ہر آدمی اپنا محافظ خود ہے۔
فتاوی جات
1: حضرت علامہ عبدالحی لکھنوی ؒ لکھتے ہیں:
واقعی انبیاء ،واولیاء،کو ہر وقت حاضر وناظر جاننا اور اعتقاد رکھنا کہ ہر حال میں وہ ہماری ندا سنتے ہیں اگر چہ ندا دور سے بھی ہو شرک ہے۔
(مجموعۃالفتاوی ج1ص46)
2: فتاوی مسعودی میں ہے:
یا رسول اللہ کہنا مثل سونے اور نشست اور کار وغیرہ کے وقت ممنوع ہے اور بہ نیت حاضر وناظر کہنا موجب شرک کا ہے۔
(فتاوی مسعودی ص529مصدقہ عبدالحکیم شرف قادری بریلوی ،مولوی منشاتابش قصوری بریلوی)
3 علامہ ابن نجیم ؒ لکھتے ہیں:
قال علماءنا من قال ارواح المشائخ حاضرۃ تعلم یکفر•
(البحرالرائق ج5ص124)
یعنی ہمارے احناف فرماتے ہیں کہ جو یہ کہے کہ مشائخ کی ارواح حاضر ہیں اور جانتی ہیں تو ایسا شخص کافر ہے۔
4: شاہ عبدالعزیز محدث دھلوی فرماتے ہیں:
انبیاء مرسلین را لوازم الوھیت از علم غیب وشنید ن فریاد ہر کس درہر جا وقدرت بر جمیع مقدرات ثابت کنند۔
(تفسیر عزیزی ج1ص55)
یعنی جمیع غلط عقائد میں سے یہ بات بھی ہے کہ نبی اور پیغمبروں کیلئے خدائی صفات جیسے علم غیب اور ہر جگہ سےہر شخص کی فریاد سننا اور تمام ممکنات پر قدرت ثابت کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ علم غیب اور ہر جگہ حاضر وناظر ہو ناخدا کی صفت ہے کسی اور میں ماننا شرک ہے۔
اہلِ بدعت کے چند دلائل پر سرسری تبصرہ
دلیل نمبر1:
 انا ارسلنک شاھدا•
(القرآن)
 وجئنا بک علی ھؤلاء شھیدا•
(القرآن)
شاھد وشھید کا معنی حاضر وناظر ہے۔
جواب نمبر 1:
آپ کا جھگڑا تو ہر جگہ حاضر وناظر کا ہے ورنہ ہر آدمی حاضر وناظر ہے اپنے مقام پر کیونکہ حاضر کا معنی موجود اور ناظر کا معنی دیکھنے والا تو ہر آدمی اپنی جگہ پر موجود بھی ہے اور ناظر بھی ہے جیسا کہ اشرف جلال صاحب لکھتے ہیں شاھد ہر بندہ ہے کوئی بندہ ایسا نہیں جو شاھد نہ ہو۔
(مسٔلہ حاضر وناظر ص16)
جواب نمبر 2:
قرآن پاک میں؛
” شھد شاھد من اھلھا “
(سورۃ یوسف: 26)
اور ”وتکونوا شھداء علی الناس“
(سورۃ الحج: 78)
ہے یعنی یوسف علیہ السلام کی پاکی کی گواہی دینے والے کو بھی قرآن نے شاھد کہا ہے اور صحابہ کرام کو شھید کی جمع شہداء کہا گیا وہ بھی ہر جگہ حاضر وناظر ہو گئے ؟
جواب نمبر3:
شاید رضا خانی یوں کہیں کہ اسکا معنی گواہ کرو تو بھی حاضر وناظر ثابت ہو جائیں گے کیونکہ جو موقع پر موجود نہ ہو وہ گواہی کیسے دے سکتا ہے تو اس کے متعلق عر ض خدمت یہ ہے کہ صحابہ کرام کو بھی گواہ کہا گیا اور سیدنا یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی گواھی دینے والا بھی تو گواہ ہے اور احادیث میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ ایک صحابی نے آپ کی گواہی دی تھی اور یہ بن دیکھے تھی۔ تومعلوم ہو ا کہ بن دیکھے بھی گواہی دی جا سکتی ہے :
1: ابوالحسنات قادری لکھتے ہیں:
اشیاء معروفہ میں شھادت سماعی بھی معتبر ہے یعنی جن چیزوں کے سننے کا علمِ یقین حاصل ہو، اس پر شہادت دی جا سکتی ہے۔
(تفسیر الحسنات ج1ص278)
2: علامہ سعیدی لکھتے ہیں:
کبھی اس چیز کی خبر کو شھادت کہتے ہیں جس کا اسکو یقین ہو یا وہ چیز مشہور ہو۔
(تبیان القرآن ج1ص1006)
اور فقہاء نے بھی لکھا ہے:
انما یجوز للشاھد ان یشھد بالاشتھاد وذالک بالتواتر او اخبار من یثق بہ•
(ہدایہ ج3ص157)
یعنی جو چیز کہ تواتر کی وجہ سے مشہور ہو جائے یا کسی ثقہ اور معتبر نے خبر دی ہو تو شاھد کو جائز ہے کہ گواہی دے دے۔ تو معلوم ہوگیا کہ گواہی کیلئے دیکھنا ضروری نہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ گواہی دیں گے ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کے اعتبار سے نہیں بلکہ آپکی امت کے اعمال آپ کو پیش کیے جاتے ہیں جس وجہ سے آپ ﷺگواہی دیں گے ، جیسا کہ :
 بریلوی علامہ عبد الرزاق بھترالوی لکھتے ہیں :
تمام انبیاء کرام کو انکی امتوں کے اعمال پر مطلع کیا گیا ہے کہ فلاں آج اس طرح کر رہا ہے دوسرا شخص اس طرح کر رہا ہے انکو مطلع کر نیکی یہ وجہ ہے کہ وہ بھی قیامت کے دن گواھی دے سکیں۔
(نجوم الفرقان ج4ص48)
 بریلوی علامہ علام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں :
نبی ﷺ تمام امتوں کے احوال پر مطلع ہو نگے کیونکہ بغیر علم کےگواہی جائز نہیں نبی پاک ﷺ کو اللہ تعالی نے تمام امتوں کے احوال اور افعال پر مطلع فرمایا اور انکی دنیا وآخرت کا آپ کو علم عطا فرمایا ہے خصوصا آپکی امت کے اعمال قبر انور میں آپ پر پیش کیے جاتے ہیں۔
(تبیان القرآن ج1ص572)
 بریلوی علامہ ابو لبرکات قادری لکھتے ہیں :
کوئی دن ایسا نہیں مگر پیش آپکی امت کے اعمال کو صبح وشام کیا جاتا ہے پس آپ انکو نشانی اور ان کے اعمال کی وجہ سے پہچان لیتے ہیں اسی عرض اعمال کی وجہ سے آپ ان پر گواہی دیں گے۔
(رسائل ومناظرے ابو البرکات ص104)
 بریلوی علامہ شرف قادری صاحب لکھتے ہیں :
نبی پاک ﷺ اپنی امت کے گواہ ہیں اور اس کا تقاضا ہے کہ آپ کے سامنے امت کے اعمال پیش کیے جائیں۔ (اسلامی عقائد ص277)
اگر عرض اعمال کی بنیاد پر ہر جگہ حاضر وناظر کہا جائے تو پھر یہ اسی شرف قادری کی کتاب اسلامی عقائد کے ص230پر پورا باب عالم برزخ میں رشتہ داروں کے سامنے اعمال کا پیش کیا جانا بھی موجود ہے۔ تو پھر سارے وفات شدہ حضرات کئی جگہوں پر حاضر وناظر ہو نگے القصہ بغیر ہر جگہ موجود ہوئے بھی گواہی دی جا سکتی ہے جیسے یو سف علیہ السلام کے گواہ کی گواہی حالانکہ وہ ہر جگہ یا اس جگہ موجود نہ تھا۔ تو سرکار طیبہ ﷺ بھی گواہی دے سکتے ہیں وگر نہ بریلوی حضرات کو اذان چھوڑ نی پڑے گی کہ:
اشھد ان لا الہ الااللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک کےعلاوہ کوئی معبود نہیں)
اشھد ان محمدا رسول اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں )
جیسے یہ گواھی علم کے اعتبار سے ہے نہ کہ رؤیت ومشاھد ے کی بناء پر ایسےہی سرکار طیبہ ﷺ بھی گواہ ہیں۔
جواب نمبر4:
اگر یہی ترجمہ بالفرض مان بھی لیں تو ترجمہ حاضر وناظر کا ہے اور جو عقیدہ بنایا اس سے تو صرف ناظر ثابت ہو تے ہیں نہ کہ حاضر ،تو یہ آیتیں تمہیں مفید نہیں۔
جواب نمبر5:
اس لفظ ”شاھد“ کے کئی مطالب ومعانی ہیں :
1) کسی چیز کی خبر دینے والے اور
2) کسی چیز کے حال کو بیان کرنے والے کو بھی شاھد کہتے ہیں۔
(نجوم الفرقان ج 4ص47)
3) امام سلمی کہتے ہیں: پہلا معنی یہ ہو گا اللہ فرمارھا ہے شاھدًا لنا ہم نے تجھے اپنا گواہ بنایا ہے۔
(مسٔلہ حاضر وناظر از اشرف جلالی ص19)
4) اس وجہ سے حضرت کا نام شاھد ہے کہ وہ بارگاہ ایزدی میں حاضر ہونے والے ہیں۔
(شرح کبریت احمر ص80از مولانا عبد المالک)
یہ 4 عدد حوالے صرف بریلوی حضرات کی کتب کے ہیں شاھد کے معنی ومفہوم کو مختلف بیان کیا ہے معلوم ہوا کہ شاھد کا معنی حاضر وناظر کرنا قطعی الدلالۃ نہیں جب قطعی الدلالت نہیں تو اس عقیدے میں مفید نہیں ہو سکتا۔
جواب نمبر6:
اس حدیث کو دیکھ کر معنی تیار کیجئے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
اقول کما قال العبد الصالح الخ
یعنی قیامت کے دن میں بھی وہی کہوں گا جو میرے نیک بھائی عیسی بن مریم نے کہا کہ
”کنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم“
میں ان کی نگرانی کرتا رہا جب تک ان میں رہا اور جب تو نے مجھے اس دنیا سے اٹھا لیا تو پھر تو ان ہی کا نگران ونگہبان تھا۔
(بخاری ج 2ص665)
معلوم ہوا کہ ”شاھد“ اور ”شہید“ کا معنی ہر جگہ حاضر وناظر لینا درست نہیں ورنہ آپ یوں نہ فرماتے کہ میرے اس دنیا سے کوچ کے بعد نگران ونگہبان تو تھا نہ کہ میں۔
المختصر شاھد اور شھید کا معنی گواہ ہی ہو گا اور یہی احادیث طیبہ سے بھی ثابت ہوتا ہے۔
دلیل نمبر2:
وکیف تکفرون وانتم تتلی علیکم آیت اللہ وفیکم رسولہ•
(القرآن)
جواب نمبر1:
یہ آیت بھی تمھیں مفید نہیں کیونکہ تمہارا عقیدہ ہر جگہ ناظر کا تو بن سکتا ہے حاضر کا تو نہیں بن سکتا۔ جو دعوی لکھا ہے اس کے مطابق۔ جبکہ اس آیت سے ہر جگہ موجود ہونا ثابت کر رہے ہوتو یہ آیت تمہارے بھی خلاف ہے۔
جواب نمبر2:
کسی ایک مفسر جو متفق علیہ ہو اس آیت کے تحت تمہارا عقیدہ لکھا ہو ؟ کیا پندر ہ صدیوں بعد قرآن تمہیں سمجھ آیا اور 15 صدیاں فہمِ قرآن سے خالی گئی ہیں۔
جواب نمبر3:
اس آیت کا مفہوم سمجھنے کیلئے کسی بھی تفسیر کو اٹھایئے معلوم ہو جائے گا کہ اوس وخزرج کو لڑائی ختم کرنے اور صلح کا حکم دیا جا رہا ہے کہ اب تم میں نبی آخر الزمان موجود ہیں اب کیوں لڑتے ہو۔ جیسے کوئی بڑا آدمی موجود ہو لوگ لڑ پڑیں تو لوگ انہیں کہتے ہیں: یار نہ لڑو، کچھ خیال کرو، فلاں صاحب تشریف فرما ہیں ان کا لحاظ کرو۔ اوس اور خزرج کو سمجھانے کے لیے یہی طرز اختیار کیا گیا۔
جواب نمبر4:
چونکہ یہ قطعی الدلالۃ نہیں اس لئے کہ تمہارے عقیدے کو ثابت نہیں کر رہی تو یہ تمہیں مفید نہیں۔
جواب نمبر5:
احادیث میں موجود ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ کے حجرہ میں پردے پر فوٹو ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ داخل نہ ہوئے جب تک اسے پھاڑ کر پرزے پرزے نہیں کر دیا گیا۔ (مشکوۃ ص385) اب تو جگہ جگہ فوٹو ہیں تو آپ کیسے یہاں موجود ہو سکتے ہیں ؟
نیزسیدنا ابن عمر ؓ سے مروی ہے جسکا خلاصہ یوں ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کے جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے۔
(ترمذی ج1ص19)
جب فرشتہ ایسی جگہ پر رہنا پسند نہیں کرتا تو سرکار طیبہ ﷺ کو آج کل ایسی مجالس عالم میں کیوں موجود سمجھا جاتا ہے ؟!!
دلیل نمبر 3:
الم تر• (القرآن)
ترجمہ: ” کیا تو نے نہیں دیکھا؟“
اگر آپ پہلےہر جگہ موجود نہ ہوتے تو اس طرح کیوں کہا جاتا ہے ؟
جواب نمبر1:
اگر یہی معنی ہو اور اس کے علاوہ کوئی اورمعنی نہ ہو تو پھر رضا خانی اس کو دلیل بنائیں ورنہ یہ قطعی الدلالۃ نہیں آپ کے دعوی کیلئے تو آپ کی دلیل کیسے ہوئی ؟
جواب نمبر 2:
٭قرآن مقدس میں ایک جگہ ہے:
الم تروا کیف خلق اللہ سبع سموت طباقا •
[سورۃ نوح]
(کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالی نے سات آسمان تہ بہ تہ بنائے ؟)
کیا تمام انسان اس وقت موجود تھے جب سات آسمان تہ بہ تہ بنائے گئے؟
٭ ایک جگہ یوں ارشاد ہے:
الم یروا کم اھلکنا من قبلھم من قرن•
[سورۃ الانعام: 6]
(کیا ان لوگوں نے نہ دیکھا کہ کتنی جماعتیں ہم نے ان سے پہلے ہلاک کر دی ہیں؟)
کیا کافر ومشرک بھی اس وقت موجود تھے ؟
اب معنی ومطلب کے بیان کیلئے بریلوی اکابر کی طرف رخ کرتے ہیں تا کہ رضاخانی مان لیں۔
 بریلوی علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں :
”اَلَمْ تَرَ کیا آپ نے نہیں دیکھا“کی تحقیق : رؤیت کے معنی دیکھنا ہے اور یہ رؤیت قلبی یعنی علم کے معنی میں بھی آتا ہے اس لیے کہا آپ نے نہیں دیکھا اسکا معنی ہے کیا آپ نے نہیں جانا ؟ یہ جملہ ان چیزوں کیلئے کہا جاتا ہے جو پہلے مذکور ہو اور جن کا پہلے علم ہو اور ان کا استعمال ان چیزوں کو یاد دلانے ان کو مقرر اور ثابت کرنے اور ان پر تعجب ڈالنے کیلئے ہوتا ہے اور کہیں اس کے بغیر بھی اس جملہ کو استعمال کیا جاتا ہے اس وقت یہ کسی چیز کی خبر دینے اور خبر پر تعجب میں ڈالنے کیلئے ہوتا ہے اور کبھی مجازا استعمال کرتے ہیں اور جس نے کسی چیز کو نہیں دیکھا ہو ا ہوتا اس کو اس شخص کے ساتھ تشبیہ دیتے جس نے اس چیز کو دیکھا ہو اہوتا ہے تاکہ مخاطب اس پر متنبہ ہو کہ یہ چیزیں اس پر مخفی نہیں ہونی چاہئے تھی اور اسکو اس پر تعجب ہونا چاہئے تھا یا یہ بتلانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ چیزیں شہرت کے اس درجہ میں ہے کہ کسی پر مخفی نہیں ہے حتی کہ مخاطب پر بھی مخفی نہیں اور اس سے مقصود یہ ہے کہ اس کے بعد جو واقعہ ذکر کیا جا رہا ہے اس پر غور وفکر کیا جائے اور اس سے عبرت حاصل کی جائے۔ “
(تبیان القرآن ج1ص873،874)
بریلوی علامہ عبد الرزاق بھرتالوی لکھتے ہیں :
”الم تر الی الذین خرجوا من دیارھم“
(سورۃ البقرۃ: 243)
کیا آپ کو علم حاصل نہیں ہوا ان لوگوں کا جو نکلے اپنے گھروں سے۔ بے شک رؤیۃ کا معنی کبھی بصیرت یعنی دل سے دیکھنا ہوتا ہے اور اس کا مطلب علم ہو تا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے وارنا مناسکنا کا معنی یہ ہے کہ ہمیں ہماری عبادت کا علم عطا فرما اور ربّ اللہ تعالی نے فرمایا : ”فاحکم بین الناس بمااراک اللہ “ (سورۃ النساء:105) کا معنی یہ ہے آپ فیصلہ فرمائیں لوگوں کے درمیان اس سے جو اللہ نے آپکو علم عطا کیا۔ رویت قلبی دل سے دیکھنا یعنی علم حاصل ہونے کی پھر دو قسمیں ہیں کبھی مخاطب کو پہلے علم حاصل نہیں ہو تا بلکہ کلام کا تعلق ابتداء سے ہوتا ہے جس طرح کوئی شخص دوسرے کو کہے الم تر الی ما جرٰی علی فلاں کیا تمہیں فلاں شخص کے جاری رہنے والے کام کا علم نہیں اس کلام کا مقصد دوسرےکو بتانا ہوتا ہے جسے پہلے سے علم حاصل نہیں ہوتا۔ رویت قلبی کی دوسری قسم یہ ہے کہ جب کسی کو پہلے سے علم ہوتا ہے پھر بات کو پختہ کرنے کیلئے استفہام انکاری کے طور پر یہ کلام کیا جاتا ہے الم تر کیا تمہیں علم حاصل نہیں یعنی تمہیں علم حاصل ہے۔ دونوں معانی مراد ہو سکتے ہیں۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس آیت کریمہ میں یہ احتمال پایا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو پہلے اس واقعہ کا علم نہ ہو بلکہ اس آیت کریمہ کو نازل فرما کر آپکو علم عطا کیا گیا ہو دوسرے معنی کے لحاظ سے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو اس آیت کریمہ کے نازل ہونے سے پہلے اس واقعہ کا علم حاصل تھا آپ کے علم کے مطابق آیت کریمہ کو نازل کیا گیا اب مطلب واضح ہے کہ یہ کہا گیا ہے کیا آپ کو علم حاصل نہیں ؟ یعنی یقینا آپکو علم حاصل ہے الم تر کے خطاب سے ظاہر تو یہی ہے کہ یہ خطاب نبی کریم ﷺ کو کیا گیا لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ یہ خطاب آپ کو بھی ہے اور آپ کے ساتھ آپ کی امت کو بھی۔
( نجوم العرفان ج6ص28،29،30،)
اب معلوم ہو گیا کہ خطاب امت کو بھی ہو سکتا ہے تو کیا یہ بھی ہر جگہ حاضر وناظر ہونگے۔
دوسری بات…… یہ بھی کہ اگر آپ علیہ السلام کو ان واقعات کے مشہور ومعروف ہونے کی وجہ سے یا خدا تعالی کے یہ معلومات دینے کی وجہ سے علم ہو تو پھر یہ لفظ الم تر متوجہ کرنے کیلئے آتا ہے ان واقعات کی طرف ورنہ آپ کو ان کا علم دینے کیلئے آیت آتی ہے۔
دلیل نمبر 4:
ا ن رحمت اللہ قریب من المحسنین •
(سورۃ الاعراف:56)
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی احمت نیک لوگوں کے قریب ہے اور دوسری آیت:
وماارسلنک الا رحمۃ للعالمین•
(سورۃ الانبیاء:107)
سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ اللہ کی رحمت ہیں تو سرکار نیک لوگوں کے قریب ہوئے اور
ورحمتی وسعت کل شیء •
(سورۃ الاعراف:156)
سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رحمت نے ہر شے کو گھیر ے ہوئے ہے تو حضور ہر شیء کو گھیرے ہوئے ہیں یعنی ہر جگہ حاضر وناظر ہیں۔
جواب نمبر1:
یہ تفسیر پندرہ صدیوں میں کسی متفق ومعتمد علیہ نے نہیں کی۔
جواب نمبر2:
قرآن میں رحمت ،بارش ،تکلیف کے بعد راحت ،میاں بیوی کے مابین محبت،وغیرہ کو بھی کیا گیا ہے اور بریلوی ملاؤں نے تو اپنے بزرگوں کو رحمۃ للعالمین قرار دیا گیا ہے ، کیا یہ سب چیزیں ہر جگہ حاضر وناظر سمجھی جائیں۔
جواب نمبر3:
آپ ایک جگہ تشریف فرما ہیں اور آپ کا دیا ہو ادین جو رحمت ہے وہ ہر جگہ ہے دیا ہوا قرآن ہر جگہ ہے آپکی دعاؤں کی برکات جو رحمت ہے وہ ہر جگہ لوگوں پر برس رہی ہے جیسے سورج ایک جگہ دھوپ ہر جگہ ایسے ہی سرکار طیبہ ﷺ ایک جگہ آپکی برکات و رحمتیں ہر جگہ۔
جواب نمبر4:
دلیل دعوی کے مطابق نہیں دعوی صرف ناظر ہونے کا دلیل حاضر وناظرکی۔
جواب نمبر 5:
اس سے مراد خاص قسم کی رحمت ہے جو کہ مومنوں کے اوپر ہوتی ہے اور اس سے ہر جگہ کا دعوی بھی چھوڑ دینا چاہیئے کیونکہ ہر جگہ تو مومن نہیں ہیں۔
دلیل نمبر 5:
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا
(النساء: 64)
جواب:
پہلی بات: یہ آیت بھی تمہیں مفید نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جانے کا ذکر ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر جگہ تشریف فرما ہیں تو آپ کے پاس جانے کا کیا مطلب؟!! وہیں سے ہی جہاں آدمی سے گناہ ہو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہہ دیا جائے کہ میرے لیے دعا کریں مگر وہاں جانا تو ہماری دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ ہر جگہ نہیں ہیں اور نہ ہی ہر جگہ کو دیکھ رہے ہیں اس لیے آپ کے جانا چاہیے۔
دوسری بات: بریلوی حضرات کا عمل تو اس کے خلاف ہے کہ یہ تو وہاں جاتے نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے گھر بلاتے ہیں۔
دلیل نمبر6:
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ•
(الانفال:33)
یعنی عذاب الہی اس لیے نہیں آتا کہ آپ موجود ہیں اور عام عذاب تو قیامت تک کسی جگہ نہیں آئے گا۔
(جاء الحق: ص118)
جواب:
قرآن پاک میں ہے:
وَإِذَا كُنْتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ•
(سورۃ النساء: 102)
کہ جب آپ لوگوں میں ہوں تو نماز ان کو خود پڑھائیں۔
پہلی بات: اگر آپ موجود ہیں تو بریلوی ملت نماز بجائے رضاخانی کے پیچھے پڑھنے کے آپ علیہ السلام کے پیچھے ادا کریں
دوسری بات: روایت میں آتا ہے کہ اگر میں آپ میں ہوا تو جب دجال نکلے گا تو میں اس کے لیے کافی ہوں۔
تیسری بات: تو اگر آپ موجود ہیں تو پھر رضا خانی حضرات کو زکوٰۃ سے بھی چھٹی کرنے کی گنجائش شائد نظر آ جائے کہ زکوٰۃ لینے کا حکم بھی قرآن مجید نے آپ علیہ السلام ہی کو دیا ہے تو جب آپ موجود ہیں تو زکوٰۃ بھی خود ہی وصول کریں تو ادا کرو ورنہ فاضل بریلوی کی طرح چھٹی کرو کہ ساری زندگی ایک پیسہ زکوٰۃ نہیں دی۔
دلیل نمبر7:
النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ•
(سورۃ الاحزاب: 6)
قاسم نانوتوی تحذیر الناس ص10 پر لکھتے ہیں: اس آیت میں ”اولیٰ“ کے معنی قریب تر ہیں۔ تو آیت کے معنی ہوئے؛ مسلمانوں سے ان کی جان سے بھی زیادہ قریب ہیں اور زیادہ قریب چیز نظر نہیں آتی، اس زیادتی قرب کی وجہ سے آنکھ سے نظر نہیں آتے۔
(جاء الحق: ص120)
جواب:
اس آیت کو رضاخانی حضرات سمجھے ہی نہیں ورنہ یاد رکھیں عرف عام میں قریبی کا معنی کیا ہے وہ ہم عرض کر دیتے ہیں۔ مثلاً آپ کسی دوست یا رشتہ دار کا تعارف کرواتے ہیں کہ یہ ہمارے بہت قریبی ہیں۔ اس کا کیا مطلب کہ وہ ہر وقت ہمارے پاس رہتے ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے ہمارا تعلق بہت قرب کا ہے، رشتہ بہت قریب کا ہے۔ تو جب نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو قریب تر مانا گیا تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا تعلق ہر امتی سے اس قدر زیادہ ہے کہ اتنا تعلق اس کا اپنی جان سے بھی نہیں، یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حقوق اس امت پر اس قدر ہیں کہ آپ کی امت کے اپنے اوپر بھی نہیں۔ تو اس آیت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے امت کے رشتہ اور تعلق کو بیان کیا گیا ہے مگر یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت و شان گھٹانے کے لیے ہر جگہ مانتے ہیں۔
(کما مر مفصلا واضحا)
دلیل نمبر8:
وَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ•
(سورۃ التوبۃ: 94)
معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اعمالِ امت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
جواب:
اگر سرسری طور پر اس آیت کا شانِ نزول ہی دیکھ لیا جائے تو اس سے استدلال کی خامی واضح ہو جاتی ہے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر ان منافقین نے حیلے بنا کر شریک نہ ہونے کی اجازت طلب کر لی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سمجھتے ہوئے اجازت عنایت فرما دی کہ یہ لوگ واقعی معذور ہیں تو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا؛
عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ
(سورۃ التوبۃ: 43)
اور اگراس سے مراد رؤیت بصری ہے تو پھر اسی سورت میں آگے ہے کہ یہ بھی اور مومنین بھی دیکھتے ہیں تو پھر سارے مؤمنین بھی حاضر ناظر ٹھہرے؟؟
دلیل نمبر9:
ماکنت تقول فی ھذ االرجل (الحدیث)
یعنی قبر میں فرشتے پوچھتے ہیں: اس آدمی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم) کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ معلوم ہوا کہ آپ ہر جگہ موجود ہیں۔
جواب نمبر1:
اس مسٔلہ میں دلیل قطعی لانی چاہیئے تھی اور یہ دلیل قطعی نہیں کیونکہ متواتر نہیں۔
جواب نمبر2:
جوآدمی مشہور اور معروف ہو یا کوئی جگہ جس کا تصور ذھن میں ہو اس کے بارے میں ھذا کہہ دیا جاتا ہے
جواب نمبر3:
چاند کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام ھذا ربی کہہ رھے ہیں کیا چاند ہر جگہ موجود ہے۔
جواب نمبر4:
سیدنا جبرئیل علیہ السلام ایک اعرابی کی شکل میں سوالات کرتے ہیں ان کے چلے جانے کے بعد آ پ ﷺ نے فرمایا:
ھذا جبرئیل• یہ جبرئیل تھے۔
(بخاری ج2ص704،مسلم ج1ص29)
کیا جبرئیل امین ہر جگہ حاضر وناظر ہیں ؟معلوم ہو گیا کہ لفظ ”ھذا“ ہمیشہ محسوس اور دکھائی دی جانے والی چیز کیلئے استعمال نہیں ہوتا بلکہ جس چیز کا ذھن میں تصور ہواس کیلئے بھی ھذا بول دیتے ہیں۔
تو فرشتے اشارہ کر رھے ہیں جو سرکار طیبہ ﷺ کا تصور اس کے ذہن میں اس طرف۔
جواب نمبر5:
فاضل بریلوی فرماتے ہیں:
”ما تقول فی ھذا الرجل“ ان کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ اب نہ معلوم سرکار خود تشریف لاتے ہیں یا روضہ مقدسہ سے پردہ اٹھا دیا جاتا ہے۔
(ملفوظات حصہ ص75)
تو جب احتمال آگیا تو استدلال باطل ہو گیا۔
جواب نمبر6:
سرکار طیبہ ﷺ بقول تمہارے وہاں تشریف لے جاتے ہیں تو معلوم ہوا کہ پہلے وہاں نہ تھے۔
جواب نمبر7:
سرکار طیبہ ﷺ بقول تمہارے اگر قبر میں تشریف لے جاتے ہیں تو پھر صبح کے وقت کیوں پوچھ رہے ہیں ”متی دفن ھذا؟“ اس آدمی کو کب دفن کیا گیا ہے ؟
(مشکوۃ شریف ج1ص145)
اور یوں کیوں فرما رہے ہیں مسجد کے خادم کے دفن ہو نے کا جب آپ کو علم ہوا کہ:
افلا کنتم آذنتمونی بہ دلونی علی قبرہ•
(بخاری ج1ص65،مسلم ج1ص309)
تم نے مجھے اس کے جنازے کا کیو ں نہ بتایا اچھا مجھے اسکی قبر بتاؤ۔ اگر آپ رات کو وہاں تشریف لے گئے تو پھر یوں کہنے کی کیا ضرورت ؟
جواب نمبر8:
پہلے یہ بات بتائی جائے کہ نبی پاکﷺ کو رجل )آدمی (کہا جارہا ہے کیا تم نبی پاکﷺ کو آدمی ،بشر ماننے کیلئے تیار ہو ؟
اگر ہو تو وہ تمام فتوے ہم حاضر کردیتے ہیں جو نبی پاکﷺ کو ”بشر “کہنے پر بریلوی اکابر نے دیے ہیں تو یہ دلیل تو تمہارے لیے ایمان لیوا ثابت ہو گی۔
دلیل نمبر10:
وعن أم سلمة قالت : استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة فزعا يقول : " سبحان الله ماذا أنزل الليلة من الخزائن ؟ وماذا أنزل من الفتن ؟
(مشکوٰۃ المصابیح: باب التحریص علی قیام اللیل)
اس سے معلوم ہوا کہ آئندہ ہونے والے فتنوں بچشم ملاحطہ فرما رہے ہیں۔
(جاء الحق: 122)
جواب:
پہلی بات…… اس میں تو کہیں بھی یہ نہیں ہے کہ ہر ہر جگہ اور ہر ہر وقت رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم دیکھ رہے ہیں، اس حدیث سے تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ خزائن اور فتن اس رات میں کئی نازل ہوئے اور یہ حدیث آپ کے خلاف ہے کہ اس سے پہلے آپ علیہ السلام خزائن اور فتن کو نہیں دیکھ رہے تھے ورنہ گھبرانا چہ معنی دارد؟ تو اس سے تو حاضر ناظر کی نفی معلوم ہوتی ہے، چونکہ دعویٰ بریلوی حضرات کا تو یہ ہے کہ ہر ہر جگہ اور ہر ہر وقت آپ کے پیش نظر ہے مگر یہ تو چند ایک خزائن اور فتن کا ذکر ہے نہ کہ کلی خزائن اور فتن کا۔
دوسری بات…… ان کے علاوہ بے شمار کئی دیگر اشیاء، باتیں، انسان اور حیوانات ہیں ان کا کیا بنا؟ ان کا تو اس میں ذکر ہے ہی نہیں۔
تو یہ کہنا کہ تمام اشیاء کا علم ہو گیا ہو یہ غلط ہے۔
ہم مسئلہ علم غیب کی تردید میں بریلوی حضرات کے دلائل کے جوابات میں عرض کر آئے ہیں کہ سیدنا حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے اس فتنہ کے بارے میں نہ پوچھا ہے اور نہ ہی آپ نے ارشاد فرمایا جو اہل مدینہ کو مدینہ سے نکال دے گا۔ تو تمام فتنوں کا علم میں آنا بھی مسلّم نہیں باقی باتیں تو پیچھے رہ گئیں۔
دلیل نمبر11:
وعن أنس قال نعى النبي صلى الله عليه وسلم زيدا وجعفرا وابن رواحة للناس قبل أن يأتيه خبرهم فقال أخذ الراية زيد فأصيب ثم أخذ جعفر فأصيب ثم أخذ ابن رواحة فأصيب وعيناه تذرفان حتى أخذ الراية سيف من سيوف الله حتى فتح الله عليهم .
(مشکوٰۃ: باب المعجزات)
جواب:
پہلی بات…… یا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ واقعہ منکشف کر دیا گیا یا پھر جبرئیل امین کے ذریعے وحی کر کے آپ کو اس واقعہ کے سارے احوال بتا دیے گئے۔ دعویٰ تو سارے عالم کے ذرے ذرے پر نظر مبارک کا ہے اور دلیل میں ایک جزئیہ پیش کرنا یہ عقل مندی اور دانش مندی نہیں بلکہ اپنے گھر سے جاہلیت کی دلیل پیش کرنا ہے۔
دوسری بات…… یہ کشف ہونا انسانی طاقت اور بس میں نہیں ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو جاتا ہے اور یہ دائمی بھی نہیں ہوتا۔ تو معلوم ہوا کہ یہ آپ کے مسئلہ کے لیے مفید نہیں۔
تیسری بات…… یہ دلیل قطعی نہیں بلکہ خبر واحد ہے جو کہ آپ کے عقیدہ میں مفید نہیں۔
دلیل نمبر12:
عن أبي الدرداء : قال كنا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم فشخص ببصره إلى السماء ثم قال هذا أوان يختلس العلم من الناس حتى لا يقدروا منه على شيء•
(جامع الترمذی: باب العلم)
اس کی شرح میں ملا علی قاری لکھتے ہیں:
فکانہ علیہ السلام لما نظر الی السماء کوشف•
(جاء الحق: 122)
جواب:
1: یہ خبر واحد ہے جو عقیدہ کے باب میں مفید نہیں ہے۔
2: کشف کا ہونا امر اختیاری نہیں یہ امر غیر اختیاری ہے تو اگر یہ کسی امر جزئی میں ہوا تو اس سے آپ کا دعویٰ کیسے ثابت ہوا؟ کیونکہ آپ کا دعویٰ تو تمام عالم اور تمام جہان پر نظر مبارک ہونے کا ہے۔
3: اس سے تو معلوم ہوا کہ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم حاضر و ناظر نہ تھے۔
دلیل نمبر13:
حدیث قدسی ہے: کنت سمعہ الذی یسمع بہ و بصرہ الذی یبصر بہ و یدہ الذی یبطشہ بہا الخ•
ایک اور روایت میں ہے: و لسانہ الذی یتکلم بہ• اس عبارت میں صاف اقرار ہے کہ جب انسان فنا فی اللہ ہو جاتا ہے تو خدائی طاقت سے دیکھتا، سنتا، چھوتا اور بولتا ہے یعنی عالم کی ہر چیز کو دیکھتا ہے، ہر دور اور نزدیک کی چیزوں کو پکڑتا ہے۔ یہی حاضر ناظر کے معنی ہیں اور جب معمولی انسان فنا فی اللہ ہو کر اس درجے میں پہنچ جاویں تو سید الانس و الجان علیہ الصلاۃ والسلام سے بڑھ کرکون فنا فی اللہ ہو سکتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بدرجہ اولیٰ حاضر ناظر ہوئے۔
(جاء الحق: ص149)
جواب:
1: یہ تو خبرِ واحد ہے، یہ تو آپ کو مفید نہیں ہے۔
2: شاہ صاحب نے تفسیر عزیزی میں(تحت تفسیر سورۃ مزمل)، حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں (ج5 ص77) اور امام بیہقی نے کتاب الاسماء و الصفات میں (ج1 ص345) میں اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ بندہ کثرت عبادت سے اللہ کا مقبول بن جاتا ہے، اس کے سب اعضاء کا اللہ تعالیٰ خود محافظ بن جاتا ہے اور اس کے ہاتھ، پاؤں، کان اور آنکھ اللہ کی مرضی کے تابع بن جاتے ہیں۔
3: یہ بزرگوں کی اس حالت کا بیان ہے کہ جب ان سے کرامات صادر ہوتی ہیں تو اس وقت ان سے یہ افعال صادر ہوتے ہیں جو من جانب اللہ ہوتے ہیں۔ ہاں ظہور ان بزرگوں کے وجود سے ہوتا ہے اور طاقت و قدرت خدا تعالیٰ کی استعمال ہوتی ہے۔ تو یہ اس حالت کا بیان ہے، اس سے تو آپ ہر ہر بزرگ کو حاضر ناظر ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ العیاذ باللہ
دلیل نمبر 14:
السلام علیک ایھاالنبی•
صیغہ خطاب سے درود سلام کا عرض کرنا بتاتا ہے آپ ﷺ ہر جگہ موجود ہیں کیوں نمازی بھی تقریبا ہر جگہ ہوتے ہیں۔
جواب نمبر 1:
جیسے خطوط میں خطاب کے الفاظ لکھے جاتے ہیں مثلاً السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ، حالانکہ حاضر وناظر کوئی بھی نہیں سمجھتا۔
جیسے نبی پاکﷺ نے ”انی ادعوک بدعایۃ الاسلام“ خط میں ہرقل کو لکھا حالانکہ وہ کافر ہے اور ہر جگہ حاضر وناظر اسے ماننے کیلئے بریلوی بھی قطعا تیار نہیں۔ تو یہ خطاب خطوط کی طرح کہ جب قاصد خط لے جا کر پہنچادےگا تو خطاب درست ہو جائے گا اسی طرح جب یہ درود سلام پڑھا جاتا ہے تو مقصود یہی ہوتا ہے کہ فرشتے یہ سلام آپ کی خدمت میں پہنچا دیں گے تو یہ درست ہے اور احادیث کے مطابق ہے۔
من صلی علی عند قبری سمعتہ ومن صلی علی نائیا ابلغتہ•
ان للہ ملائکۃ سیا حین فی الارض یبلغونی عن امتی السلام•
کچھ فرشتے اسی کام پر مقرر کیے گئے ہیں جو امت کا سلا م آپ تک پہنچاتے ہیں تو معلوم ہو گیا دور سے سلام وصلوۃ فرشتے پہنچاتے ہیں چاہے صیغہ خطاب سے ہو یا نہ ہو۔
جواب نمبر 2:
مسٔلہ عقیدے کا ہے یہ خبر واحد ہے جو اس سے ثابت نہیں ہوتا۔
جواب نمبر3:
مولوی فیض احمد اویسی ”فرشتوں کے ذریعے ندا پہنچایا جانا“ کا عنوان باندھ کر پہلی حدیث ان للہ ملائکۃ سیاحین فی الارض ،الحدیث ،لائے اور لکھا:
حدیث التحیات میں سلام کا طریقہ اس طرح پر سکھایا گیا ہے۔ التحیات للہ والصلوت الخ•
(ندائے یارسول اللہ ص30)
معلوم ہوا کہ یہ بھی فرشتوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔
اگر کوئی یوں کہے کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ کے نزدیک یہ تشہد کے الفاظ اس لیے ہیں کہ حقیقت محمدیہ ہر ذرہ میں موجود ہے۔ تو جوابا عرض ہے کہ بریلوی علامہ پیر نصیر الدین گولڑوی لکھتے ہیں:
بعض کم علم حقیقت محمدیہ سے مراد رسالت مآب ﷺ کی معروف ذات لیتے ہیں جو غلط محض ہے۔
(راہ ورسم ومنزل ہا ص63)
اور دوسری بات یہ ہے کہ عقیدے کا مسٔلہ حدیث خبر واحد سے بھی ثابت نہیں ہوتا چہ جائیکہ کسی بزرگ کی بات سے ہو۔
ہماری اس تحریر سے یا رسول اللہ کہنے کا مسٔلہ بھی حل ہو گیا۔ اگر کوئی درود شریف میں یہ لفظ استعمال کرے اور مقصود وہی ہے کہ فرشتے پہنچائیں گے تو درست ہیں مثل السلام علیک ایھاالنبی کے ،اور عبد السمیع رامپوری صاحب لکھتے ہیں جس نے یا رسول اللہ کہا تواس کے معنیٰ عربی قاعدہ سے یہ ہوئے کہ میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کوپکارتاہوں یعنی ان کو یادکرتاہوں اور انکا نام لیتاہوں۔
(انوارساطعہ ص321)
یعنی ”یارسول اللہ“ کامعنی یہ ہے میں ان کا نام لیتاہوں اس میں حاضروناظرسمجھنا کہاں سے ہوا،ایک جگہ یوں لکھتے ہیں تمھارے نام پہ قربان یارسول اﷲ۔فداتم پہ میری جان یارسول اﷲ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میری جان حضرت پر قربان ہے ،اسکی مراد جملہ خبریہ ہے اگرچہ اس نے لفظ ندا یہ بولا کیا ضرور ی ہےکہ یوں کہو یہ شخص خداکی طرح حاضروناظر جان کر پکارتاہےالبتہ تم خود شرک وکفرکے معنی یہ کہہ کر لوگوں کے ذہن میں جماتے ہو کہ لفظ یا نہیں ہوتا مگر واسطے حاضر کےالخ۔ (انوار ساطعہ ص319 )
معلوم ہوگیا خدا کی طرح ہر جگہ حاضروناظر مان کر یارسول اﷲ کہنا شرک ہے،اوربریلویوں کے بہت بڑے سکالر پروفیسر مسعود لکھتے ہیں: ”یارسول اﷲ ہمراہی درود شریف یا بوقت کسی موقع کے اوپر مزارشریف وغیرہ کے درست ہے اورہر وقت مثل نشست وبرخاست کے کہنا ناجائزہے۔“
(تذکرہ مظہر مسعودص131 )
اگر یہ ہر جگہ مانتے تو ناجائز نہ کہتے۔
دلیل نمبر15:
نبی پاکﷺ نے فرمایا:
ان اللہ زوی الی االارض حتی رایتُ مشارقھا ومغاربھا•
اللہ تعالی نے میرے لئے زمین کو سمیٹ دیا ہے یہاں تک کہ میں نے اس کے مشارق ومغارب کو دیکھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺہر شے دیکھ رہے ہیں ہمارا دعوی ثابت ہو گیا۔
جواب نمبر1:
یہ خبر واحد ہے اس سے عقیدہ ثابت نہیں ہو تا۔
جواب نمبر 2:
ایک دفعہ اللہ تعالی نےمشرق ومغرب کی سیر کرا دی اس سے ہر وقت ہر جگہ موجود ہونا کیسے لازم آتا ہے جب کہ آپ کا عقیدہ تو ہر وقت کا ہے۔ اور ایک دفعہ کا دیکھنا جو ہے اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے ہر ہر ذرے ہر ہر قطرے اور ہر ایک شے کو تفصیلا دیکھا ہو۔
آدمی اپنے سر کو روزانہ کئی بار دیکھتا ہے مگر کتنے بال ہیں لمبے کتنے ہیں یہ اسے معلوم نہیں ہوتا نبی پاکﷺ نے بیت المقدس کو تو دیکھا تھا مگر اسکی کھڑ کیا ں ودروازے کتنے تھے یہ آپکو معلوم نہ تھا اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے مدینہ طیبہ میں وہ عمارت سامنے کر دی آپ دیکھ کر بتاتے رہے۔
جواب نمبر 3:
یہ واقعہ معراج کا ہے جب آپ کا دعوی تو شروع سے ہے اس لیے دلیل آپ کی نہیں بن سکتی۔ کیونکہ آپ کو ماننا پڑیگا پہلے حاضر وناظر نہیں تھے۔اگر پہلے سے مانتے ہو تو یہ دلیل آپکو مفید نہیں۔
جواب نمبر 4:
اگر آدمی لاکھ دو لاکھ کے مجمع کو دیکھے کیا ہر آدمی کے بال ،کپڑے ،اعضاء،داڑھی وغیرہ سب کو دیکھتا ہے جیسے یہ سب چیزیں آدمی نہیں دیکھتا ایسی صورت یہاں تصور کر لیں۔ یا آدمی ایک باغ دیکھتا ہے کیا ہر ایک ٹہنی کو ہر ایک پتے کو ہر شاخ کو دیکھتا ہے ؟باغ تو دیکھتا ہے مگر ہر ہرشے کو نہیں دیکھتا۔ قس علی ھذا
جواب نمبر 5:
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ معراج کی رات آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے روئے زمین کے تمام مومن آدمیوں کو دیکھ لیا تھا تو پھر سب کو صحابی ماننا پڑیگا الخ
(شرح نحبۃ الفکر : ص85 ملخصاً)
دلیل نمبر16:
کلمہ طیبہ سے حاضر ناظر کا ثبوت ملتا ہے۔ ”لا الہ الا اللہ“ میں الا کے بعد الوہیت کا ثبوت ہے اور ”محمد رسول اللہ“ میں رسالت کا ثبوت ہے۔ جس طرح الوہیت ہر جگہ ہے اسی طرح رسالت بھی ہر جگہ ہے۔ الوہیت ایک وصف ہے تو موصوف بھی ہر جگہ ہو گا، اسی طرح رسالت بھی ایک وصف ہے تو موصوف بھی ہر جگہ ہو گا۔
جواب:
عقائد قیاس سے تو ثابت نہیں ہوتے۔ اگر یونہی قیاس ہے تو پھر آئیے! صدارت و وزارت ایک وصف ہے جب پورے پنجاب کا وزیر ہے تو کیا وہ ہر جگہ ہو گا؟ کیا پورے ملک کا صدر ہے تو کیا وہ پورے ملک میں ہر جگہ موجود ہوا؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت و رسالت کو الوہیت سے تشبیہ دینا یہ رضا خانی دجل ہے کہ بات کو الجھانے کے لیے خدا کی مثال دیتے ہیں۔ جب خدا جیسا کوئی ہے نہیں تو مثال کیوں لاتے ہو؟
رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی مثال قرآن پاک میں روشن چراغ سے دی گئی ہے، چراغ رکھا تو ایک جگہ جاتا ہے لیکن اس کی روشنی اطراف کو روشن کرتی ہے۔ تو بات اب واضح ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت جو آپ کا وصف اور روشنی ہے وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اطراف کو روشن اور منور کرتی ہے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو ایک ہی جگہ تشریف فرما ہیں۔
دلیل:
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں:
واذا سمعت
فعنک قولا

طیبا

واذا نظرت
 
فما

اریٰ الاک

اے حنفی بننے کا دعویٰ کرنے والو! یہ ہے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فرمان اور عقیدہ۔ اب فرمائیے امام صاحب کو بھی مشرک!!
(جاء الحق: ص148، مقیاس حنفیت: ص285)
جواب:
پہلی بات…… یہ قصیدہ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نہیں ہے، آج تک کوئی بھی اس کو ثابت نہیں کر سکا۔
دوسری بات…… اگر مان بھی لیا جائے تو بھی اعتراض نہیں کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ میری نظر میں آپ جیسا کوئی نہیں، جس کو بھی دیکھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت اور شان کے مقابلے میں کم ہے، تو ہر طرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہی شان و مقام ومرتبہ مسلّم ہے اور وہی ہماری نظر میں ہے چاہے ہم کہیں بھی ہوں۔
مسئلہ حاضر ناظر کی عام تفہیم
اس مسئلہ کی عامی تفہیم یوں ہو سکتی ہے جیسا کہ رئیس المناظرین ، عمدۃ المحققین مولانا منظور احمد نعمانی نے فرمایا ہے ہم انہی کا مضمون نقل کرتے ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر ناظر ہونے کا عقیدہ بالکل بے اصل بلکہ نصوص صریحہ شرعیہ کے خلاف اور مشرکانہ عقیدہ ہے۔ ”علیٰ کل شیئ شہید“ اور ” لکل شیئ محیط“ صرف حق تعالیٰ کی صفت ہے۔ اس گمراہانہ عقیدہ کو اسلامی تعلیمات سے اسی قدر بعد ہے جس قدر بت پرستی اور عقیدہ تثلیث کو اسلام اور عقیدہ توحید سے۔ اگر اس عقیدہ کے خلاف نصوص ناطق نہ ہوتے جب بھی اصول ِ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہ تھی، لیکن صورت حال یہ ہے کہ کتاب وسنت میں اس کے خلاف بے حساب دلائل موجود ہیں جن کا احصاء اور استیعاب بھی نہیں کیا جا سکتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لحاظ سے اس عالم کے تین حصے ہیں ایک وہ دور ہے جب کہ آپ کی روح پاک کی تخلیق ہو چکی تھی لیکن آپ اس عالم آب وگل میں تشریف نہیں لائے تھے اس دورمیں آپ کی روح پاک کو بہت سے روحانی کمالات حاصل تھے اور حسب تصریح علماء کرام واشارات نصوص آپ کی روح مبارک اس وقت بھی وصف نبوت کے ساتھ موصوف تھی۔
کنت نبیا واٰدم بین الروح والجسد•
میں اس وقت نبی تھا جب کہ آدم روح اور جسم کے درمیان میں تھے۔
دوسرا دور آپ کا وہ ہی جب آپ اس عالم میں تشریف لے آئے اس دور کا آغاز ولادت طیبہ سے اور اختتام وفات شریف پر ہوتا ہے۔
تیسرا دور عالم برزخ کا ہے اس کا آغاز وفات شریف سے ہوا ہے اور اب قیامت تک یہی دور ہے قرآن وحدیث میں ان تینوں زمانوں کے متعلق تصریحات ملتی ہیں کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر وناظر نہیں ہیں ، دور اول کے متعلق )جس کو عالم روحی یا عالم نوری کہنا چاہیے( قرآن پاک میں جا بجا اس کی تصریحات موجود ہیں۔ سورۃ ”آل عمران “ میں ارشاد ہے :
وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ•
اس کا مطلب یہ ہے کہ ”جس وقت ”بیت المقدس“ کے مجاورین حضرت مریم علیہ السلام کی کفالت کے معاملہ میں جھگڑا کررہے تھے اور قرعہ اندازی ہورہی تھی تو اے رسول تم اس وقت ان کے پاس موجود نہ تھے کہ ان باتوں کا تم کو علم ہوتا بلکہ اب ہم تم کو بذریعہ وحی کے یہ سب کچھ بتلا رہے ہیں۔
اور سورۃ ہود میں ارشاد ہے:
تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ•
(یعنی ہمارے پیغمبر نوح علیہ السلام) کا یہ واقعہ منجملہ اخبار غیب کے ہے جس کوہم وحی کے ذریعہ سے آپ کے پاس پہنچاتے ہیں پہلے سے نہ آپ اس کو جانتے تھے نہ آپ کو قوم جانتی تھی۔
اور سورۃ یوسف میں ہے:
ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ•
یعنی یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے ہم ہی آپ کو وحی کے ذریعہ سے یہ قصہ بتلاتے ہیں۔ اور آپ ان (برادران یوسف) کے پاس اس وقت موجود نہ تھے جب کہ انہوں نے یوسف کو کنویں میں ڈالنے کا پختہ فیصلہ کیا اور جب کہ وہ خفیہ تدبیروں میں لگے ہوئے تھے۔
اور سورۃ قصص میں ارشاد ہے:
وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَى مُوسَى الأَمْرَ وَمَا كُنتَ مِنْ الشَّاهِدِينَ•
یعنی اے رسول جس وقت ہم نے موسیٰ کی طرف یہ حکم بھیجا تھا تم اس مغربی جانب نہ تھے اور یقیناً تم وہاں حاضر نہ تھے۔
پھر اسی سورت میں آگے ارشاد ہے:
وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَكِنْ رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ الآیۃ•
اس کا خلاصہ یہی ہے کہ جب نے موسیٰ کو پکارا تھا تو اے رسول اس وقت تم طور کے پاس موجود نہ تھے اور اب یہ جو کچھ حالات تم کو اس وقت کے تم کو معلوم ہو رہے ہیں سو یہ تم پر خدا کی رحمت ہے کہ وہ تم کو وحی کے ذریعہ سے ایسی ایسی عجیب وغریب باتیں بتلا رہا ہے۔
ان تمام آیات سے آفتابِ نیمروز کی طرح روشن ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس عالم روح میں بھی ہر جگہ حاضر وناظر نہ تھے۔
نیز زمانہ نبوت کے متعلق بھی قرآن وحدیث میں اس کی تصریحات ملتی ہیں بطور نمونہ مشتے از خروارے چند آیات واحادیث پیش کی جاتی ہیں، بعض منافقین کے بارے میں سورہ بقرہ ہی میں ارشاد ہے۔
وَمِنْ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ•
مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں بعض منافق وہ بھی ہیں جن کی بات اے رسول آپ کو اچھی معلوم ہوتی ہیں کیونکہ وہ بہت چکنی چیڑی باتیں کرتے ہیں اور بہت زیادہ اظہار محبت کرتے ہیں اور اس پر خدا کی قسمیں کھاتے ہیں اور فی الحقیت وہ دشمن اسلام ومسلمین اور نہایت جھگڑالو ہیں۔
(خلاصۃ مافی المعالم والخازن )
نیز منافقین ہی کی جماعت کے متعلق سورہ منافقین میں ارشاد ہے:
وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ وَإِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ كَأَنَّهُمْ
یعنی وہ ایسے ہیں کہ جب آپ ان کو دیکھیں تو ان کے قدوقامت آپ کو خوش نما معلوم ہوتے ہیں اور اگر وہ کچھ کہیں تو آپ اس کو سچ سمجھ لیں۔
(کذافی المعالم والخازن)
اور مدنیہ کی بعض نہایت گہرے منافقوں کے متعلق سورہ توبہ میں ارشاد ہے:
وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ•
یعنی بعض اہل مدینہ سے منافقت میں بہت مشاق ہیں اے رسول آپ ان کو نہیں جانتے ہم خوب جانتے ہیں۔
ان آیتوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانہ کے بعض منافقین کو نہیں جانتے تھے اور ان کی خفیہ ریشہ دوانیوں کی آپ کو خبر نہیں ہوتی تھی، حالانکہ اگر آپ ہر جگہ حاضر وناظر ہوتے تو کوئی بات آپ کے لیے راز نہ رہتی اور آپ پر سب کچھ ظاہر ہوتا۔ مزید توضیح کے لیے اس سلسلہ میں ایک واقعہ کا ذکر کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جس کا اجمالی ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔ لیکن پوری تفصیل صحیح بخاری شریف اور دوسری کتبِ حدیث میں موجود ہے ،واقعہ یہ ہے کہ :
ایک غزوہ میں عبداللہ بن ابی منافق نے کسی موقع پر کہا:
لَا تُنْفِقُوا عَلٰى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ•
جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہنے والے ہیں ان پر کچھ خرچ مت کرو۔
نیز اسی مجلس میں اس نے یہ بھی کہا :
وَلَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ•
اگر ہم مدینہ پہنچتے ہیں تو ہم میں سے جو زیادہ عزت والا ہوگا وہ ذلیلوں کو نکال دےگا یعنی اب ہم مدینہ پہنچ کر مہاجرین کو وہاں سے نکال باہر کریں گے۔
اس کی یہ بکواس حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ عنہ صحابی نے سنی اور بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی آپ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا اور دریافت فرمایا کہ یہ کیا ماجرا ہے ؟ وہ صاف مکر گئے اور جھوٹی قسمیں کہا لیں کہ ہم نے ہر گز ایسا نہیں کہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصدیق فرمادی اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو جھوٹا قرار دیا جس سے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بے حد صدمہ ہوا یہاں تک کہ انہوں نے اس رنج میں گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا، تاآنکہ سورہ منافقون کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں اور ان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ عبداللہ بن ابی وغیرہ جھوٹے ہیں۔ فی الحقیقت انہوں نے یہ کلمات شنیعہ کہے تھے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حضرت زید رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا اور ان کو خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے بیان کی تصدیق نازل فرما دی۔
(صحیح بخاری کتاب التفسیر ملحضاً)
یہ واقعہ بھی صاف بتا رہا ہے کہ ہر جگہ حاضر وناظر ہونا حضور کی شان نہیں تھی ورنہ اس معاملہ میں آپ پہلے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی تکذیب اور منافقین کی تصدیق نہ فرماتے۔
احادیث میں ایسے واقعات جن سے اس مسئلہ پر ایسی ہی صاف روشنی پڑتی ہے کہ بکثرت موجود ہیں اور ان اگر کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم دفتر تیار ہو سکتا ہے۔اس لیے صرف ایک ہی مختصر حدیث یہاں اور پیش کی جاتی ہے:
جامع ترمذی اور سنن ابی داود میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا یبلغی احد عن احد من اصحابی شیاءً فانی احب ان اخرج الیکم وانا سلیم الصدر
کوئی شخص میرے پاس کسی صحابی کی طرف سے کوئی چیز مجھ تک نہ پہنچائے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں تمہارے پاس اس حال میں آؤں کہ میرا دل (سب کی طرف سے) صاف ہو۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ کے پرائیوٹ حالات کی اطلاع عام طور پر لوگوں کے ذکر کرنے سے ہوتی تھی اور اگر آپ ہر جگہ حاضروناظر ہوتے تو کسی کے بیان کرنے یانہ کرنے سے کوئی اثر نہ پڑتا۔
الغرض ان آیات واحادیث سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی حیات طیبہ میں بھی یہ بات حاصل نہ تھی کہ آپ ہر جگہ حاضر وناظر ہوں، اس طرح زمانہ بعد وفات کے متعلق بھی نصوص شرعیہ اس حقیت کو واضح کر رہے ہیں ، صحیحین( بخاری ومسلم ) میں متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حشر کے دن میں حوض کوثر پر ہوں گا اور ایک جماعت کو ملائکہ جہنم کی طرف لے چلیں گے میں کہوں گا کہ یہ تو میرے امتی ہیں مجھ کو جواب دیا جائے گا کہ:
إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ•
تم کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا رخنے پیدا کیے۔
حضور فرماتے ہیں کہ جب مجھے یہ معلوم ہو گا تو میں وہی کہوں گا جو خدا کے نیک بندے عیسیٰ بن مریم نے کہا:
وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ•
میں ان سے خبر دار تھا جب تک ان میں رہا پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا توتو ہی ان کا نگران حال تھا اور تو ہی ہر چیز کی نگرانی خبر رکھنے ولا ہے۔
اس متفق علیہ حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ اس عالم سے رحلت فرمانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو امتیوں کے تفصیلی احوال کی خبر نہیں حالانکہ اگر آپ اس دور میں بھی ہر جگہ حاضر وناظر ہوتے تو قیامت میں یہ نہ فرماتے کہ:
” کنت علیہم شہیداً مادمت فیہم“
اور بیہقی شعب الایمان میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
من صلی علی عند قبری سمعتہ ومن صلی علی نائیا ابلغتہ•
جو میری قبر کے پاس درود پڑھے گا میں اس کو خود سنوں گا اور جو دور سے درود پڑھے گا وہ (فرشتوں کے ذریعے) مجھ تک پہنچایا جائےگا۔
علامہ ابن حجر مکی رحمہ اللہ ”جوہر منظم“ میں لکھتے ہیں :
و من اعظم فوائد الزیارۃ ان زائرہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلی و سلم علیہ عند قبرہ سمعہ سماعا حقیقیاً…… من غیر واسطۃ و ناہیک بذلک بخلاف من یصلی او یسلم من بعید فان ذلک لا یبلغہ و لا یسمعہ الا بواسطۃ و الدلیل علی ذلک احادیث کثیرۃ ذکرتہا فی کتابی السابق ذکرہ منہا ما جاء بسند جید و ان قیل انہ غریب: من صلی علی عند قبری سمعتہ و من صلی علی من بعید اعلمتہ•
زیارت قبر اقد س کے بڑے فائدوں میں سے ایک یہ ہے کہ زائر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ وسلام قبر شریف کے پاس جا کر پڑھتا ہے تو آپ خود سنتے اور اس کا جواب دیتے ہیں۔ یہ نعمت کیا کم ہے بخلاف اس شخص کے جو دور سے صلوٰۃ وسلام پڑھے ، کیونکہ وہ آپ کو نہیں پہنچتا نہ آپ اس کو سنتے ہیں مگر بواسطہ فرشہ کے۔ اس کی دلیل میں بہت سی احادیث ہیں جن کو میں نے کتاب سابق الذکر " یعنی درمنضود" میں بیان کیا ہے ازاں جملہ ایک حدیث وہ جو کھری سند کے ساتھ منقول ہے اگر چہ اس کو غریب کہا گیا ہے جوشخص میری قبر کے پاس درود پڑھتا ہے میں خود اس کو سنتا ہوں اور جو شخص دور سے پڑھتا ہے اس کی اطلاع مجھے دی جاتی ہے۔
اور علامہ علی قاری مکی اپنی کتاب ” الدرۃ المضیئۃ فی الزیارۃ المصطفویۃ“ میں فرماتے ہیں:
و من اعظم فوائد الزیارۃ ان الزائر اذا صلی و سلم علیہ عند قبرہ سمعہ سماعا حقیقیا و رد علیہ من غیر واسطۃ بخلاف من یصلی او یسلم علیہ من بعید فان ذلک لا یبلغہ الا بواسطۃ لما جاء عنہ بسند جید: من صلی علی عند قبری سمعتہ و من صلی علی من بعید اعلمتہ•
زیارت قبر اقدس کے بڑے فائدوں میں سے ایک یہ ہے کہ زائر جب آپ کی قبر شریف کے پاس صلوٰۃ وسلام پڑھتا ہے تو آپ خود سنتے اور جواب عطا فرماتے ہیں بخلاف اس شخص کے جو دور سے صلوٰۃ وسلام پڑھے وہ آپ کو نہیں پہنونچتا مگر بذریعہ فرشتے کے بوجہ اس کے کہ عمدہ سند سے منقول ہے کہ جو شخص میری قبر کے پاس درود پڑھتا ہے میں اس کو سنتا ہوں اور جو شخص دور سے پڑھتا ہے اس کی اطلاع مجھے دی جاتی ہے۔
بہرحال اس چیز پر بہت سی آیات اور احادیث شاہد ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر وناظر نہیں ہیں۔ بلکہ علمائے کرام نے اس عقیدے کے موجب کفر ہونے کی بھی تصریح فرمائی ہے۔
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمہ اللہ کے استاد بزگوار سلطان العارفین حضرت قاضی حمید الدین ناگوری رحمہ اللہ توشیح میں فرماتے ہیں:
و منہم الذین یدعون الانبیاء و الاولیاء عند الحوائج و المصائب باعتقاد ان ارواحہم حاضرۃ تسمع النداء و تعلم الحوائج و ذلک شرک قبیح و جہل صریح قال اللہ تعالیٰ: و من اضل ممن یدعون من دون اللہ•
اور بعض لوگ وہ ہیں جو اپنی حاجتوں اور مصیبتوں کے وقت انیباء واولیاء کو پکارتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کی ارواح حاضر ہیں ہماری پکار سنتی ہیں اور ہماری حاجتوں سے خبردار ہیں اور یہ نہایت قبیح شرک اور کھلی جہالت ہے حق تعالیٰ فرماتا ہے ان سے زیادہ گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کو ”اپنی حاجت روائی کے لیے“ پکارتے ہیں۔
اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ تفسیر فتح العزیز ص 52 پر مشرکانہ عقائد کےذیل میں ارقام فرماتے ہیں :
وانبیاء ومرسلین علیہم السلام را الوازم الوہیت از علم غیب وشنیدن فریاد ہرکس در ہرجا ، وقدرت بر جمیع مقدو رات ثابت کنند.
اور ملا حسین خباز رحمہ اللہ مفتاح القلوب میں فرماتے ہیں:
واز کلمات کفر است ندا کردن اموات غائبان راہگماں آنکہ حاضر اند مثل یارسول اللہ و یا عبدالقادر ومانند آن .
اور فقہ حنفی کی مشہور کتاب فتاویٰ بزازیہ میں ہے:
”من قال ان ارواح المشائخ حاضرہ تعلم یکفر“ جو شخص کہے کہ مشائخ کی ارواح حاضر ہیں سب کچھ جانتی ہیں وہ کافر ہیں۔
اس عبارت میں اگرچہ ”مشائخ“ کا لفظ ہے لیکن اہل علم سمجھ سکتے ہیں کہ اس بارہ میں انبیاء واولیاء میں کو ئی فرق نہیں ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو شخص یہ عقیدہ رکھے اس کا بھی یہی حکم ہے۔ کمالا یخفیٰ علیٰ اولی الالباب•
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ•
محمد منظور النعمانی عفا اللہ عنہ
[بحوالہ ماہنامہ: مجلہ الفرقان (بریلی) بابت ماہ شعبان و رمضان المبارک 1356ھ

]

Download PDF File