صفت عالم الغیب خاصۂ خداوندی

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم (اجمالی کلام)
صفت عالم الغیب خاصۂ خداوندی
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
الحمد للہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین امابعد!
مبادیات علم غیب:
[۱]: سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین رہے کہ فریقِ مخالف اس عقیدہ اہل السنت کو گستاخی اور بے ادبی قرار دیتا ہے یعنی جو آدمی بھی صفتِ عالم الغیب کو خاصہ باری تعالیٰ سمجھے اور غیر خدا کے لئے اس کے اثبات سے روکے تویہ لوگ اسے نبی کا گستاخ اور نبی کے علم کا دشمن سمجھتے ہیں حالانکہ جیسے معبود ہونا خاصہ باری ہے اور غیر خدا سے اس کی نفی ان کی توہین نہیں، رب العالمین ہونا خدا کی صفت خاصہ ہے اورغیرخدا سے اس کا انکار اس کی توہین نہیں۔ اسی طرح صفتِ عالم الغیب کو خاصہ باری تعالیٰ سمجھنا اور غیر سے اس کی نفی کرنا توہین نہیں بلکہ ضروری اور لا زمی عقیدہ ہے۔ چنانچہ حکیم الامت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
والانبیاء علیہم السلام فضل اللہ بعضہم علی بعض فالفاضل لا محالۃ لہ کمال یختص بہ لیس فی المفضول و لیس المفضول بناقص ثم لیعلم انہ یجب ان ینفیٰ عنہم صفات الواجب جل مجدہ من العلم بالغیب و القدرۃ علی خلق العالم الی غیر ذلک و لیس ذلک بنقص.
(تفہیماتِ الہیہ: ج1 ص24 بحوالہ ازالۃ الریب: ص97)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے بعض حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو بعض پر فضیلت دی ہے تو لامحالہ فاضل اس کمال سے مختص ہوگا جو مفضول میں نہیں ہے۔ لہٰذا اس میں مفضول کی کچھ توہین نہیں ہے۔ پھر یہ بات بھی اچھی طرح جاننی چاہیے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام سے ان صفات کی نفی کرنا واجب ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفتیں ہیں؛ مثلاً علم غیب اور جہان کو پیدا کرنے پر قدرت وغیرہ اور اس میں ان کی کوئی تنقیص بھی نہیں ہے۔
[۲]: دوسری بات یہ دیکھتے ہیں کہ یہ عقیدہ کہ ”نبی ہر شے کو جانتا ہے اور تمام مغیبات کا نبی کو علم ہوتا ہے“ کن لوگوں کا عقیدہ ہے۔ چنانچہ سیرت ابن ہشام کا پہلا واقعہ دیکھیے کہ جب سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہوگئی تھی تو زید بن اللُّصَیْت نے کہا تھا:
يَزْعَمُ مُحَمّدٌ أَنّهُ يَأْتِيهِ خَبَرُ السّمَاءِ وَهُوَ لَا يَدْرِي أَيْنَ نَاقَتُهُ.
(سیرت ابن ہشام: ج 2 ص 21)
کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کہتے ہیں کہ آسمانوں کی خبریں ان کے پاس آتی ہیں اور انہیں یہ پتا نہیں کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے؟
یہی بات شیخ عبدالحق محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب اشعۃ اللمعات (ج 1 ص 392 کتاب الصلوۃ. باب صفۃ الصلوۃ) میں فصل ثالث کی آخری روایت کے تحت لکھی ہے کہ:
در خبر آمدہ است کہ چوں ناقہ آنحضرت گم شد و درنیافت کہ کجا رفت منافقاں گفتند کہ محمد می گوید کہ خبر آسماں می رسانم ونمیداند کہ ناقہ او کجا است.
معلوم ہوا کہ یہ کافر کی سوچ تھی کہ جو نبی ہو اسے ہر ہر شے کا علم ہونا چاہیے۔ تو سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس (زید بن اللُّصَیْت) کا جواب ”ہاں“ میں نہیں دیا بلکہ فرمایا:
وَإِنّي وَاللّهِ مَا أَعْلَمُ إلّا مَا عَلّمَنِي اللّهُ وَقَدْ دَلّنِي اللّهُ عَلَيْهَا ، فَهِيَ فِي هَذَا الشّعْبِ ، قَدْ حَبَسَتْهَا شَجَرَةٌ بِزِمَامِهَا.
کہ مجھے تو جو خدا بتاتا ہے بس میں وہی جانتا ہوں اور یہ مجھےخدا نے بتایا ہے کہ فلاں گھاٹی میں درخت سے اس اونٹنی کی نکیل پھنسی ہوئی ہے۔
اس پر مزید دلیل سماعت فرمائیے:
امام بخاری نے صحیح البخاری میں عنوان باندھا ہے ”کتاب الرد علی الجہمیہ“۔آگے چل کر اس کے تحت ایک باب قائم کیا ہے؛ ”باب قول اللہ عز وجل عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهِ أَحَدًا“ اور اس کے تحت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد گرامی لائے ہیں:
مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ الْغَيْبَ فَقَدْ كَذَبَ.
(صحیح البخاری: ج 2 ص 1098)
کہ تمہیں جو شخص یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں تو اس شخص نے جھوٹ بولا۔
اس کے تحت امام قسطلانی ”ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری“ میں لکھتے ہیں کہ امام داؤدی کا یہ کہنا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کاقول غیر محفوظ ہے کیونکہ ایسا تو کوئی شخص کہہ بھی نہیں سکتا کہ نبی علم غیب رکھتے ہیں ، لہذا یہ قولِ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا غیر محفوظ ہے۔ اس کے جواب میں امام قسطلانی فرماتے ہیں: یہ غلط ہےکیونکہ بعض وہ لوگ جو مؤمن نہیں تھے اور منافق تھے ان کی سوچ یہی تھی، دیکھیے زید بن اللصیت نے سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے گم ہونے پر یہی تو کہا تھا کہ:
يزعم أنه نبي ويخبركم عن خبر السماء وهو لا يدري أين ناقته.
کہ کہتے تو یہ ہیں کہ وہ نبی ہیں اور تمہیں آسمان کی خبریں بھی بتاتے ہیں لیکن پتا ان کو اپنی اونٹنی کا بھی نہیں۔
اور یہی بات بخاری شریف ج 2 ص1098 کے حاشیہ نمبر 1 میں بھی موجود ہے۔
اور تقریباً یہی بات حافظ الدنیا علامہ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری شرح بخاری میں اسی مقام پر لکھی ہے۔
اب آپ دیکھیں کہ یہ سوچ تو منافقین کی ہے کہ نبی ہیں تو انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے اور اگر معلوم نہیں تو نبی نہیں۔ تو کافر کی سوچ یہ تھی کہ نبی ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہر شے پر ان کی نگاہ ہو، کوئی شے ان سے پوشیدہ نہ ہو۔
ایک دلیل اور سنیئے!
امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
نبى... هو من النبوة أي الرفعة، وسمى نبياً لرفعة محله عن سائر الناس المدلول عليه بقوله: (وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا) فالنبى بغير الهمز أبلغ من النبئ بالهمز، لانه ليس كل منبإ رفيع القدر والمحل.
(المفردات للراغب الاصفہانی: ص482)
پھر آگے حدیث پاک لائے ہیں:
قال عليه الصلاة والسلام لمن قال: يا نبئ الله فقال: " لستُ بنبئ الله ولكن نبى الله " لما رأى أن الرجل خاطبه بالهمز لبغض منه.
یعنی لفظ ”نبی“ یہ ”نبوت“ سے مشتق ہے بمعنی بلندی، اور ”نبی“ کو نبی اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ساری انسانیت سے بلند و بالا مقام والا ہوتا ہے اور یہی بات قرآن پاک کی آیت ”وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا“ بھی بتا رہی ہے کہ ہم نے ان کو بلند بالا مقام عطا کیا۔ لفظ ”نبی“ [ہمزہ کے بغیر] ”نبئی“ [ہمزہ کے ساتھ] سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ ہر وہ جس کو خبر دی جائے رفیع القدر اور بلند وبالا مقام پر نہیں ہوتا۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ ایک اعرابی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا: نبئی اللہ! [ہمزہ کے ساتھ] ( یعنی اللہ کی طرف سے خبر دینے والے یا خبر دیے گئے ) تو سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نبئ اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں [یعنی ہمزہ کے ساتھ نہیں ہوں بلکہ یاء کے ساتھ ہوں] اور یاد رہے کہ اس آدمی نے ”نبئی اللہ“ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بغض و عداوت کی وجہ سے کہا تھا۔
باقی رہی یہ بات کہ بعض اہل حق نے بھی لفظ ”نبی“ کو ”نباٌ“ سے مشتق مانا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن پاک نے مکر ، کید، خدع، استہزا، نسیان وغیرہ کی نسبت خدا کی طرف بھی کی ہے اور کفار کی طرف بھی کی ہے لیکن یہاں دونوں کا معنی و مفہوم الگ الگ ہوگا۔ اسی طرح ”ھَمَّ“ کا لفظ سید نا یوسف علیہ السلام اور”ھَمَّتْ“کا لفظ بی بی زلیخا کے لیے استعمال ہوا۔ اسی طرح ”میت“ اور ” میتون“ ہے۔ اس طرح کی اور مثالیں بھی دی جاسکتی ہیں کہ لفظ تو ایک جیسا ہے مگر مفہوم جدا جدا ہے۔
اب اہلِ حق جب یہ بات کہتے ہیں تو ”نَبِّئْ عِبَادِيْ أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ“ (الحجر: 49) اور ”نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ“ (التحریم:3) وغیرہ آیات کے پیش نظر کہتے ہیں کہ نبی وہ ہوتا ہے جسے وقتاً فوقتاً خدا تعالیٰ کی طرف سے غیب کی خبریں بتائی جاتی ہیں اور اہلِ باطل جب یہ بات کریں تو مقصود بغض وعناد ہوتا ہے۔
فائدہ:
1: باب مہموز اللام ”فَعِیْلٌ“ کی جمع ”فُعَلَاءُ“ آتی ہے جیسے ”بَرِیْئٌی“ کی جمع ”بُرَآءُ“ ہے۔
(کما فی سورۃ الممتحنۃ: 4)
ایسے ہی ”نَبِیْئٌ“ کی جمع ”نُبَآءُ“ ( نہ قرآن میں ہے ) اور شاید کلام عرب میں بھی نہ ملے۔
2: باب ناقص ”فَعِیْلٌ“ کی جمع ”اَفْعِلَاءُ“ آتی ہے جیسے ”غنی“ کی جمع ”اغنیاء“ آتی ہے، ایسے ہی ”انبیاء“ہے۔
(کما فی سورۃ آل عمران:112)
[۳]: مزید ایک بات عرض خدمت ہے کہ نبی کو بھی قرآن نے صاحبِ ایمان کہا ہے:
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ.
(سورۃ البقرۃ: 285)
اور ایمان کا اصل مرتبہ ایمان بالغیب ہے جیسے قرآن پاک میں ہے: ”اَلَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ“ (سورۃ البقرۃ: 3) یہ متقین کی پہلی صفت بیان کی گئی ہے کہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور حدیث شریف میں موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو ”انا اتقاکم باللہ“ (مسند احمد:ج5ص434 رقم 23732) یعنی ساری امت سے زیادہ متقی قرار دیا ہے۔
القصہ سرکار نے اپنے آپ کو متقی فرمایا اور متقی کی شرط اول بنص قرآن ”ایمان بالغیب“ ہے یعنی جو کچھ ان سے پوشیدہ ہے اس پر ایمان ہو۔ اگر نبی سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہا تو ایمان بالغیب ختم اور اگر ایمان بالغیب کے ختم ہونے سے تقویٰ ختم تو یہ عقیدہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت پر ڈاکہ زنی کے مترادف ہے۔ بلکہ یوں کہیں کہ معتبر ایمان تو ایمان بالغیب ہی ہے نہ کہ ایمان بالمشاہدہ ،فرعون نے مشاہدہ کرکے ایمان کا اظہار کیا جوکہ مقبول نہ ہوا۔ معلوم ہوا کہ معتبر ایمان؛ ایمان بالغیب ہے نہ کہ ایمان بالمشاہدہ۔
ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ غیب کا دائرہ امت کی بہ نسبت نبی کے لیے کم ہوتا ہے مگر ہوتا ضرور ہے۔ اس پر تفصیل آگے آ جائے گی۔
الغرض یہ عقیدہ عظمت نبوت کے برخلاف ہے۔
[۴]: غیب کی تعریف کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے علمِ غیب کا اثبات کیوں درست نہیں۔
٭ مفتی احمد یا ر خان نعیمی گجراتی لکھتے ہیں:
غیب وہ چھپی ہوئی چیز ہے جس کو انسان نہ تو آنکھ، ناک، کان وغیرہ سے محسوس کر سکےاور نہ بلا دلیل بداھتِ عقل سے معلوم کر سکے۔
( جاء الحق: ص 38)
٭ مفتی فیض احمد اویسی لکھتے ہیں:
وہ شے کہ جو نہ انسان کو آنکھ سے اور نہ کان سے اور نہ زبان سے اور نہ ہاتھ سے اور نہ دیگر اعضاء اور نہ ہی عقل سے معلوم ہوسکے وہ غیب ہے۔
( علم الرسول ص12)
دیگر اہل بدعت کے علاوہ کئی اکابر نے بھی غیب کی یہی تعریف کی ہے کہ جو حواس ظاہرہ و باطنہ سے معلوم نہ ہوسکے۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا سارا کا سارا علم مبارک حواسِ ظاہرہ اور حواس ِباطنہ سے آیا ہے اس لیے تو اسے غیب کا علم نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ایسا علم جو حواسِ ظاہرہ و باطنہ سے معلوم نہ ہو وہ تو فقط خدا تعالیٰ کا علم ہے کیونکہ خدا حواس ظاہرہ و باطنہ سے بری ہے۔ لہٰذا خدا کا علم مبارک ہی علم غیب ہے جو حواس سے حاصل نہیں ہوا بلکہ از خود ہے۔
قرآنی آیات مع التفسیرات
اب آئیے چند آیات ملاحظہ فرمائیے کہ مفسرین نے ان کے تحت کیا فرمایا ہے؟
آیت نمبر1:
قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ .
( سورۃ النمل: 65)
٭ اس کے تحت تفسیر کبیر میں ہے امام رازی فرماتے ہیں:
اعلم انہ تعالیٰ لما بین انہ المختص بالقدرۃ فکذلک بین ھو المختص بعلم الغیب.
٭ تفسیر خازن میں اسی آیت کے تحت ہے:
ان اللہ ھو الذی یعلم الغیب وحدہ.
٭ تاویلات اہل السنۃ میں ہے:
انما یعلم الغیب الا اللہ.
٭ تفسیر روح المعانی میں ہے:
و بالجملۃ علم الغیب بلا واسطۃ کلاً او بعضاً مخصوص باللہ جل و علا لا یعلمہ احد من الخلق اصلا.
٭ تفسیر بحر محیط میں ہے :
دلت الآیۃ علی انہ تعالیٰ ھو المنفرد بعلم الغیب.
٭ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ الباری لکھتے ہیں:
ذکر الحنفیۃ تصریحاً بالتکفیر باعتقاد ان النبی صلی اللہ علیہ و سلم یعلم الغیب لمعارضۃ قولہ تعالیٰ: قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ.
(شرح فقہ اکبر ص 151 قدیمی)
یہی بات مولانا عبدالحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتاویٰ ”مجموعہ فتاوی عبدالحی“ ( ج 1 ص46 ایچ ایم سعید) میں بھی نقل کی ہے۔
٭ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ الْغَيْبَ فَقَدْ كَذَبَ وَهُوَ يَقُولُ لَا يَعْلَمُ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ.
( صحیح البخاری: ج 2 ص 1098)
٭ مسامرہ مع مسایرہ میں ہے:
ذکر الحنفیۃ تصریحا بالتکفیر باعتقاد ان النبی صلی اللہ علیہ و سلم یعلم الغیب لمعارضۃ قولہ تعالیٰ: قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ.
( مسامرہ علی مسایرہ ص 198)
آیت نمبر2:
أَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ.
(سورۃ النمل: 22)
٭ اس کی تفسیر میں امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
فی ھذا رد علی من قال ان الانبیاء تعلم الغیب.
٭ تفسیر مدارک میں ہے:
فیہ دلیل بطلان قول الرافضۃ ان الامام لا یخفی علیہ شئی.
آیت نمبر3:
وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ.
(سورۃ البقرۃ: 255)
٭ اس کی تفسیر میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں:
العلم المختص بہ و ھو علم الغیب.
آیت نمبر4:
وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ.
(سورۃ ھود: 123)
٭ علامہ طاہر پٹنی رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
غیب السماوات ای علم غیبھا.
( مجمع بحار الانوار: ج4 ص 84. مادہ غیب )
آیت نمبر5:
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ.
( سورۃ الانعام:59)
٭ اس کی تفسیر میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی اپنی تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں:
تنصیص بما اشیر الیہ من حصر علم الغیب بہ الخ
٭ تفسیر زاد المسیر میں ہے :
قال ابن مسعود: اوتی نبیکم علم کل شئی الا مفاتیح الغیب.
آیت نمبر6:
وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ.
(سورۃ الانعام:50)
٭ تفسیر مدارک میں ہے:
أي لا أدعي ما يستبعد في العقول أن يكون لبشر من ملك خزائن الله وعلم الغيب.
٭ تفسیر النکت والعیون میں ہے:
فنفى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نفسه علم الغيب ، لأنه لا يعلمه غير الله تعالى.
آیت نمبر7:
وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ.
(سورۃ الاعراف: 188)
٭ تفسیر مظہری میں اس کے تحت ہے:
أى جلب منفعة ولا دفع مضرة دينية ولا دنيوية وهو اظهار للعبودية والتبري عن دعوى العلم بالغيب.
٭ تفسیر نیشاپوری میں ہے:
ما شأنی ان اعلم الغیب.
٭ تفسیر بحر محیط میں اس کے تحت ہے:
وهذا منه عليه السلام إظهار للعبودية وانتفاء عن ما يختص بالربوبية من القدرة وعلم الغيب.
آگے چل کر لکھتے ہیں:
إِنْ أَنَا إِلاَّ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ( لما نفى عن نفسه علم الغيب أخبر بما بعث به من النذارة)
٭ تفسیر ثعلبی میں ہے:
هذا أمر بأن يبالغ في الاستسلام ويتجرد من المشاركة في قدرة الله وغيبه.
آیت نمبر8:
لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ.
(سورۃ الکہف:26)
٭ اس کے تحت جلالین میں ہے :
انہ لا یخفیٰ علیہ شیئی من احوال اہلہا فانہ العالم وحدہ بہ.
احادیث طیبات اور ان کی شروحات
إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الْخَصْمُ فَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ.
(صحیح البخاری: ج 1 ص 332 ، ج 2 ص 1030و ص 1065، صحیح مسلم: ج 2 ص 74)
٭ صحیح البخاری کے حاشیہ میں ہے:
انما انا بشر لا اعلم الغیب و بواطن الامور کما ہو مقتضی الحالۃ البشریۃ.
(صحیح البخاری: ج1 ص332.حاشیہ نمبر 1)
اور صحیح البخاری ج 2 ص 1031 پر بین السطور یوں لکھا ہے :
یعنی کواحد منکم لا اعلم الغیب و بواطن الامور کما ہو مقتضی الحالۃ البشریۃ انما احکم بالظاہر.
٭ علامہ خفاجی اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
انما انا بشر لا اعلم الغیب.
( ج 4 ص 261 ادارہ تالیفات اشرفیہ )
٭ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
قولہ انما انا بشر مثلکم: ای کواحد من البشر فی عدم علم الغیب.
( فتح الباری باب کذا حدیث نمبر 6967)
دوسری جگہ پر فرماتے ہیں:
اتیٰ بہ رداً علی من زعم ان من کان رسولاً فانہ یعلم الغیب.
( فتح الباری باب اذا غصب جاریۃ فزعم )
٭ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
انما انا بشر یعنی کواحد منکم لا اعلم الغیب و بواطن الامور کما ہو مقتضی الحالۃ البشریۃ انما احکم بالظاہر.
(عمدۃ القاری کتاب النکاح باب شھادۃ الزور فی النکاح حدیث نمبر 6967)
٭ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں:
انما انا بشر مشارک لکم فی البشریۃ بالنسبۃ لعلم الغیب الذی لم یطلعنی اللہ علیہ.
( ارشاد الساری باب من قضی لہ بحق اخیہ فلا یاخذہ حدیث نمبر 7181)
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
انما انا بشر وھو رد علی من زعم ان من کان رسولاً فانہ یعلم کل غیب حتیٰ لا یخفیٰ علیہ المظلوم من الظالم.
( ارشاد الساری باب بیع الامام علی الناس اموالھم حدیث نمبر 7185)
٭ امام نووی شافعی لکھتے ہیں:
( إنما أنا بشر ) معناه التنبيه على حالة البشرية وأن البشر لا يعلمون من الغيب وبواطن الأمور شيئا إلا أن يطلعهم الله تعالى على شيء من ذلك.
(شرح مسلم ج 2 ص 74)
٭ علامہ علی بن احمد العزیزی لکھتے ہیں:
قالہ ردًّا علی من زعم ان من کان رسولاً فانہ یعلم کل غیب حتیٰ لا یخفیٰ علیہ المظلوم.
( السراج المنیر ج 2 ص43 بحوالہ الزالۃ الریب)
بعض اسلاف کی تعبیرات کا مفہوم
اب رہی یہ بات کہ بعض کتبِ اسلاف میں غیر خدا کے لیے ”بعض علم غیب“، ”یاتیہ علمُ الغیب“ اور ”کان رجلًا یَعْلَمُ علمَ الْغیبِ“ وغیرہ جیسے الفاظ موجود ہیں تو ان کے متعلق گزارش ہے کہ یہ سب لغوی طور پر ہیں اور حقیقۃً اطلاع علی الغیب یا انباء غیب ہیں۔ جیسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نمازِ تراویح کی جماعت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اکٹھا کیا تو اسے لغوی طور پر ”نعم البدعۃ“[اچھی بدعت] کہا ورنہ حقیقۃً تو یہ سنت ہے۔ اسی طرح ”صلوٰۃ“ کا لغوی معنی ”تحریک الصلوین“ ہے مگر حقیقت میں یہ ارکان مخصوصہ فی اوقات مخصوصہ کا نام ہے۔ چونکہ کسی بھی ایک چھپی ہوئی بات کا جاننا بھی لغوی طور پر علم غیب ہے اس لیے بعض کتبِ اسلاف میں یہ تعبیرات وارد ہو گئی ہیں ورنہ حقیقت اور اصطلاحِ شریعت میں یہ درست نہیں کہ مخلوق کے لیے علم غیب کا اطلاق کیا جائے۔ اس عدمِ اطلاق کی دو وجہیں سمجھ میں آتی ہیں:
1: یہ ذاتی علم کا نام ہے جوکہ مخلوق کو نہیں ہوتا
2: یہ کامل علم کا نام ہے جو کہ صرف اور صرف خدا کا ہی علم ہے یعنی ہر شے کا تفصیلی اور علم محیط صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ چونکہ اصول بھی یہی ہے کہ
”المطلق اذا اطلق یراد بہ الفر د الکامل“
اب اہلِ بدعت جو لفظ علم غیب بولتے ہیں تو اگر ذاتی اور مکمل و کلی مراد نہیں لیتے تو پھر بولنا ہی نہیں چاہیے۔ ہاں اگر اہل بدعت کہیں کہ ہم بھی لغوی طور پر بولتے ہیں تو یہ غلط ہے کیونکہ ان کے نزدیک آپ علیہ السلام کو ذرہ ذرہ کا تفصیلی علم ہے، کوئی ذرہ بھی کائنات کے علم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوشیدہ مانا گیا تو آدمی فتویٰ کفر وارتداد کی زد میں آجائے گا۔
اسلاف میں سے جن لوگوں نے بھی یہ الفاظ استعمال کیے ہیں ان کی مراد بعض علوم ہیں، تو علم غیب کیسے بن سکتا ہے؟ اور انہوں نے مختلف مقامات پر مختلف اشیاء کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم مبارک سے انتفاء بھی کیا ہے کما سیاتی۔
خلاصۃ الدلائل
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق تین ادوار قابلِ غور ہیں:
1: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور مبارک ہے۔
2: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک سے پہلے کا زمانہ
3: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک کے بعد کا زمانہ ، یعنی قیامت وغیرہ۔
اب ہر دور میں سے کئی اشیاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوشیدہ ہیں:
پہلے دور کو دیکھیے....
قرآن مقدس نے شعر گوئی کے فن کو آپ کے مناسب نہیں سمجھا اور آپ سے نفی کیا ہےاور آپ کو وفات تک یہ فن وعلم عطاء نہ کیا گیا۔
 اسی طرح قرآن مقدس نے یہ بھی بتایا کہ ہم نے بعض انبیاء علیہم السلام کے حالات آپ کو بتائے اور بعض کے حالات نہیں بتائے۔
 حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بات گزر چکی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنے شاگردوں کو بتا رہے ہیں
کہ ”اوتی نبیکم علم کل شیئی الا الخمس
دوسرے دورکو دیکھیے....
 آپ سے فرمایا گیا: آپ مغرب کی جانب نہ تھے جب ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی
 یوں فرمایا گیا: آپ جانب طور میں نہ تھے
 یوں فرمایا گیا: آپ ان کے پاس نہ تھے جب وہ اپنی قلمیں ڈال رہے تھے کہ کون مریم کی کفالت کرے گا
 اسی طرح یوسف علیہ السلام کے قصے کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ہم نے آپ کو بتایا ورنہ آپ اس سے پہلے نہ جانتے تھے
 یوں فرمایا گیا: آپ نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ایمان
 یوں فرمایا گیا کہ آپ نہ پڑھتے تھے کتاب اورنہ دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے
تیسرے دور کو دیکھیے....
 قیامت کا مقررہ وقت نہ بتایا جانا۔ آپ کا خود فرمانا کہ قیامت میں میں خدا کی ایسی تعریف کروں گا جو کسی نے نہ کی ہوگی، مگر اب وہ مجھے یاد نہیں۔
 قرآن پاک فرماتا ہے: جب اللہ تعالیٰ رسولوں کو اکھٹا کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا ہے؟ تو وہ کہیں گے ”لَا عِلْمَ لَنَا“ کہ ہمیں معلوم نہیں۔
نکتہ اختلاف کی وضاحت:
بہر حال اس عقیدہ میں نکتہ اختلاف یہ ہے کہ ”جمیع ماکان ومایکون“ یعنی جو کچھ ہوچکا اور جو کچھ آئندہ ہوگا وہ سارا کا سارا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا یا نہ؟ اہل السنۃ والجماعۃ کا نظریہ یہ ہے کہ یہ خدا تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص ہے اور مخاصمین کا نظریہ یہ ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ کب دیا گیا؟ تو مخاصمین کہتے ہیں کہ جب نزولِ قرآن مکمل ہوا اس وقت یہ ملا ہے۔ اب ہماری طرف سے جو بھی دلیل پیش کی جائے وہ کہتے ہیں کہ چونکہ ”جمیع ماکان ومایکون“ نزولِ قرآن کے مکمل ہونے پر دیا گیاہے اس لیے یہ تو پہلے کی آیت ہے اور اس وقت تو ہم بھی یہ چیزیں جاننا نہیں مانتے۔ ہماری طرف سے پھر یہ کہا جاتا ہے کہ تم جو دلیلیں پڑھو گے وہ بھی تو پہلے کی ہیں؛ کوئی مکی ہے تو کوئی سن 6 ہجری وغیرہ کی اور ثابت آپ ” جمیع ماکان ومایکون“کرنا چاہتے ہیں اور آپ کے فاضل بریلوی نے لکھا ہے:
”نزولِ قرآن کے مکمل ہونے پر یہ ملنا ہم مانتے ہیں۔“
اب جب یہ آیات نازل ہوئی تھیں اس وقت تو ملا ہی نہ تھا تو تم ثابت اس وقت کیسے کرنا چاہتے ہو؟ تھک ہار کر پھر کہتے ہیں کہ قرآن کو ہر شے کا بیان اور تفصیل تو قرآن ہی میں بتایا گیا ہے،لہٰذا یہ جب مکمل ہوا تو ”جمیع ماکان ومایکون“ بھی مل گیا۔
اس سلسلے میں پہلی گزارش یہ ہے یہ بھی تو نزول قرآن کے مکمل ہونے کے وقت نہیں کہا گیا بلکہ پہلے ہی کہا گیا تو پھر تمہیں اسی وقت”جمیع ماکان ومایکون“ملنے کا عقیدہ رکھنا چاہیے تھا، نہ کہ نزول قرآن مکمل ہونے کے بعد۔
دوسری بات یہ ہے کہ جن باتوں کو قرآن نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منفی کیا ہے کیا نزولِ قرآن کے مکمل ہونے پر ان کا اثبات ہوا ہے؟ مثلا، علم شعر گوئی ، بعض انبیاء علیہم السلام کے حالات کا علم، قیامت کا مقررہ وقت اور غیوبات خمسہ کا تفصیلی علم محیط وغیرہ۔ باقی رہا ایسی آیات کا مطلب تو وہ آگے آیا چاہتا ہے۔ مگر یہ بات بھی تو ان مخاصمین کو سمجھ نہیں آتی کہ قرآن پاک کو ہر شے کا بیان قرار دیا گیا ہے سورہ نخل میں اور یہ سورت مکی ہے اور نزول کے اعتبار سے 70 ویں نمبر پر ہے اور اس کے بعد 44 سورتیں اتری ہیں، اگر بات یہی تھی کہ اس آیت سے ”جمیع ماکان ومایکون“کا علم معلوم ہوتا ہے تو پھر یہ عقیدہ تو آپ کو نزول قرآن کے مکمل ہونے پر بنانے کے بجائے مکہ ہی سے بنا لینا چاہیے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کا مفہوم تو صرف اتنا ہے کہ قرآن مقدس میں امور دین ،کلیات دین ، اصول دین اور قواعد و ضوابط سب کے سب بیان کر دیے گئے ہیں اور یہی کچھ ہم سورہ یوسف کی آیت کہ ”قرآن ہر شے کی تفصیل ہے“ کے متعلق کہیں گے۔
ایک بات ان حضرات کے دعوے کے متعلق رہ گئی کہ :
٭ کیا ”جمیع ماکان ومایکون“سب انبیاء کرام علیہم السلام کے لئے ہے یا پھر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ؟
٭ کیا”جمیع ماکان ومایکون“اولیاء کے لیے بھی ہے یا پھر صرف انبیاء کرام کے لیے ہے ؟
٭ کیا ”جمیع ماکان ومایکون“عام مسلمانوں کے لیے بھی ہے یا صرف اولیاء کرام کے لیے ہے ؟
٭ کیا ”جمیع ماکان ومایکون“کافروں کے لیے بھی ہے یا صرف مسلمانوں کے لیے ہے؟
٭ کیا ”جمیع ماکان ومایکون“اہلِ اسلام کی خادم اشیاء کے لیے بھی ہے؟
پھر ان میں سے ہر ایک صورت کے منکر کا حکم بھی ارشاد فرمایا جائے!!
اب پیشِ خدمت ہے ہماری طرف سے ایسی دلیل کہ جو نزول قرآن کے مکمل ہونے پر ہو !
دلیل نمبر1:
سورۃ توبہ نزول میں آخری ہے اور اس میں یہ ارشادِ باری تعالیٰ ”لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ“ ( آیت نمبر 101) منافقین کے بارے میں ہے۔ اس کی تفسیر میں مفسرِ قرآن مولانا عبدالحق حقانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
” بعض اہلِ مدینہ اور مدینہ طیبہ کے آس پاس کے گنوار جن کو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ وپند سننا بھی ممکن ہے اور اہل اسلام سے بیشتر میل جول رکھتے ہیں مردو ا علی النفاق نفاق پر اَڑے ہوئے ہیں اور اس فن میں ایسے چالاک ہیں کہ باوجود فراستِ تامہ کے اے نبی! ان سے تم واقف بھی نہیں، ہاں ہم ان کو جانتے ہیں۔“
(تفسیر حقانی ج 2 ص 199)
عربی تفاسیر والے حضرات نے بھی تقریبا یہی کچھ لکھا ہے:
• تفسیر روح المعانی میں ہے:
أي لا تعرفهم أنت بعنوان نفاقهم يعني أنهم بلغوا من المهارة في النفاق والتنوق في مراعاةالتقية والتحامي عن مواقع التهم إلى حيث يخفى عليك مع كمال فطنتك وصدق فراستك حالهم.
• تفسیر محر محیط میں ہے:
يخفون عليك مع فطنتك وشهامتك وصدق فراستك لفرط توقيهم ما يشكك في أمرهم.
•تفسیرِ مظہری میں ہے :
لا تعرفهم يا محمد بصفۃ النفاق مع كمال فطنتك وصدقِ فراستك .
•تفسیر ِمدارک میں ہے:
أي يخفون عليك مع فطنتك وصدق فراستك لفرط تنوقهم في تحامي ما يشككك في أمرهم.
•تفسیر نیشاپوری میں ہے:
لا تعلمہم انت نفاقہم مع وفور حدسک و قوت ذکائک.
•تفسیرِ خازن میں ہے:
يعني أنهم بلغوا في النفاق إلى حيث أنك لا تعلمهم يا محمد مع صفاء خاطرك واطلاعك على الأسرار.
• مزید اس آیت کی تفسیر میں امام اہلسنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
” مفتی صاحب کی یہ سب باتیں اس آیت کریمہ کا ہرگز جواب نہیں بن سکتیں۔
اولًا: اس لئے کہ سورۃ تو بہ قرآن کریم کی آخری سورت ہے اور یہ ”لَا تَعْلَمُهُمْ“ اسی میں مذکور ہے اور تمام معتبر حضرات مفسرین کرام یہی فرماتے اور بتاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان منافق لوگوں کا علم نہ تھا کیونکہ یہ اس نص قطعی سے ثابت ہے اور سورۃ محمد جس میں”وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ“ الآیۃ ہے پہلے نازل ہوئی ہے۔ لہٰذا متقدم سے متاخر کا منسوخ ہونا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ؟ اور جمل ( جو الشیخ سلیمان الجمل رحمۃ اللہ علیہ نے سن 1196ھ میں چارجلدوں میں لکھی ہے ) کا یہ مقام ہی نہیں کہ اسکی غیر معتبر تفسیر کو لے کر صحیح روایات اور معتبر حضرات مفسرین کرام کی مستند تفسیروں کو رد کیا جاسکے۔ اس لیے جمل کا حوالہ اور تفسیر سرے سے قابل التفات ہی نہیں ہے۔ مفتی صاحب ایک طرف تو یہ لکھتے ہیں کہ ”رہی تفسیر قرآن تابعین اور تبع تابعین کے قول سے یہ اگر روایت سے ہے تو معتبر ورنہ غیر معتبر ماخذ از اعلاء کلمۃاللہ للعلامہ گولڑوی قدس سرہ۔“ ( انتہی جاء الحق ص 9) اور دوسری طرف جمل کی تفسیر کو لے کر خیر سے قرآن کریم کی آیت کو منسوخ کرنے کے درپے ہیں۔ لاحول ولاقوۃ الابااللہ
وثانیاً: ”لَا تَعْلَمُهُمْ“ خبر ہے اور خبر میں نسخ کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
وثالثاً: ان دونوں آیتوں کا محل ہی الگ الگ اور جدا جدا ہے۔ نہ تو ان میں تعارض کا سوال پیدا ہوتا ہے اور نہ نسخ کا۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ باری تعالیٰ کا یہ ارشاد ”لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ“ اُس کے اس ارشاد”وَلَوْ نَشَاءُ“الخ کے منافی نہیں ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو آپ کو وہ منافق دکھادیں، سو آپ ان کو ان کے چہرے بُشرے کی نشانیوں سے پہچان سکتے ہیں اور آپ ان کو بات کے ڈھب سے پہچان سکتے ہیں کیونکہ یہ تو ان علامات سے پہچاننا مراد ہے جو ان کے چہرے پر رونما ہوں جس سے وہ پہچانے جاسکتے ہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ آپ تمام منافق اور مشکوک لوگوں کو علی التعیین جانتے تھے۔
(تفسیر ابن کثیر ج 2 ص 384)
اور یہی حافظ ابن کثیر رحمۃاللہ علیہ ”وَلَوْ نَشَاءُ“ الخ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اے محمد! اگر ہم چاہیں تو منافقین کو باشخاصہم معین کرکے آپکو دکھلادیں اور نام بنام مطلع کردیں لیکن اللہ تعالی نے تمام منافقوں کےبارے میں از روئے تستر اور امور کو ظاہری سلامت روی پر رکھتے ہوئے اور بھیدوں کو ان کے جاننے والے کے حوالے کرتے ہوئے ایسا نہیں کیا اور آپ ان کو ان کے ظاہری کلام سے جو ان کے مقاصد پر دال ہے اور متکلم کی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے، پہچان سکتے ہیں کہ وہ کس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ اس کی بات کے رنگ ڈھنگ سے اسکو پہچانا جاسکتا ہے اور لحن القول سے یہی مراد ہے۔
( ابن کثیر ج 4 ص 180)
اس سے معلوم ہو ا کہ ”لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ“ میں حقیقی علم مراد ہے کہ اِن منافقوں کا حقیقی علم آپ کو نہیں وہ صرف ہمیں کو ہے اور”وَلَوْ نَشَاءُ“ الخ میں چہرے بُشرے اور طرز گفتگو سے پہچاننا مراد ہے جو صرف ظاہری قرآئن اور شواہد کے تحت ہے اور یہ ظن کے درجے سے اوپر نہیں جاتا کیونکہ منافق اور مخلص کی بات کا ڈھنگ الگ الگ ہوتا ہے جو زور شوکت ،پختگی اور خلوص کا رنگ مخلص کی باتوں میں جھلکتا ہے، منافق کتنی ہی کوشش اور تصنّع سے کام لے وہ اپنے کلام میں رنگ پیدا نہیں کر سکتا۔
اور علامہ السید محمود الوسی الحنفی رحمۃا للہ علیہ ارقام فرماتے ہیں کہ یہ علامت کتابت ہی میں منحصر نہیں ہے بلکہ اس کے بغیر بھی ہوسکتی ہے جس کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان منافقوں کو پہچان سکتے تھے جیسا کہ قیافہ دان کسی شخص کے ظاہری حالات اور علامات کو دیکھ کر اس کا حال معلوم کر لیتا ہے اور بسااوقات انسان اپنے دوست اور دشمن کو اس کی نظر ہی سے پہچان لیتا ہے اور نظر ہی اس کے دل کی ترجمانی کردیتی ہے اور ہم نے متعدد حضرات کو دیکھا ہے کہ وہ چہرے پر علامات دیکھ کر شیعہ اور سنی کو پہچان لیتے ہیں اور اگر یہ صحیح ہو (تو اس سے مزید تائید حاصل ہو جاتی ہے ) کہ بعض حضرات اولیاء کرام نیک اور بد، مومن اور کافر کو پہچان لیتے ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ فلاں سے مجھے طاعت کی اور فلاں سے معصیت کی بو آتی ہے اور فلاں سے ایمان اور فلاں سے کفر کا رائحہ محسوس ہوتا ہے۔
( روح المعانی ج 26 ص 70)
الغرض
”لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ“ کو ”فَلَعَرَفْتَهُمْ“
سے منسوخ قرار دینا سراسر باطل اور مردود ہے کیونکہ اس کا محل جدا جدا ہے۔ رہی وہ حدیث جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ منافقوں کو جمعہ کے دن خطبہ کے موقع پر مسجد سے باہر نکال دیا گیا تھا تو اس سے بھی استدلال صحیح نہیں۔ اولاً تو اس لئے کہ اگر یہ روایت صحیح بھی ہو تب بھی خبر واحد ہے اور بقول خان صاحب اس کوقرآن کریم کی قطعی آیت کے مقابلہ میں پیش کرنا محض ہرزہ بافی ہے۔ قرآن کریم کی نص قطعی کا جواب یہ کیسے بن سکتی ہے؟ خان صاحب کے اصل الفاظ یہ ہیں:
”کہ عموم آیات قطعیہ قرآنیہ کی مخالفت میں اخبار آحاد سے استناد محض ہرزہ بافی“
(انباء المصطفی ص 4)
نیز لکھتے ہیں کہ ”نہ حدیث احاد اگرچہ کیسی ہی اعلیٰ درجہ کی صحیح ہو عموم قرآن کی تخصیص کرسکے بلکہ اس کے حضور مضمحل ہوجائے گی بلکہ تخصیص متراخی نسخ ہے اور اخبار کا نسخ ناممکن اور تخصیص عقلی عام کو قطعیت سے نازل نہیں کرتی نہ اس کے اعتماد پر کسی ظنی سے تخصیص ہو سکے۔
(بلفظہ انباء المصطفیٰ: ص4)
اور مفتی صاحب کا حوالہ بھی پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ وہ دوسروں سے قطعی الدلالۃ دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں اور یوں لکھتے ہیں کہ ”وہ آیت قطعی الدلالت ہو جس کے معنی میں چند احتمال نہ نکل سکتے ہوں اور حدیث ہوتو متواتر ہو۔“
( بلفظہ جاء الحق ص 40)
اور نیز مفتی صا حب لکھتے ہیں کہ ”قرآن پاک کے عام کلمات کو احادیث آحاد سے بھی خاص نہیں بتا سکتے چہ جائیکہ محض اپنی رائے سے۔“ انتہی
( جاء الحق ص 40)
جب تک وہ اس حدیث کاتواتر ثابت نہ کریں ان کو اپنے اس استدلال میں پیش کرنے کا کیا حق ہے ؟ “
[ازالۃ الریب: ص310 تا 313]
حضرت الشیخ امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں:
”الغرض اصول حدیث اور فن روایت کے تحت منافقوں کی تعداد اور ان کے صحیح علم کے متعلق کوئی روایت صحیح نہیں ہے اور اگر کوئی روایت صحیح ثابت ہوجائے تب بھی خبر واحد ہی رہے گی اور قرآ ن کریم کا وہ جواب ہرگز نہیں بن سکتی۔ علاوہ بریں روایتی حیثیت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے بھی اگر محض روایت ہی سے سوچا جائے تب بھی ان روایات سے فریق مخالف کا مدعیٰ ہر گز ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ بصورتِ صحت ایں روایات ان سے صرف اتنا ہی ثابت ہوگا کہ چھتیس منافق تھے۔ اس سے یہ کیونکر ثابت ہوگا کہ ان کے علاوہ اور کوئی منافق نہ تھا ؟ مسجد سے خطبہ جمعہ کے موقع پر چھتیس آدمیوں کو نکال دینے سے یہ کیسے لازم آیا کہ مدینہ طیبہ میں منافق ہی صرف یہ تھے باقی اور کوئی نہ تھا ؟اور یہ کیا ضروری ہے کہ سب منافق مسجد میں حاضر ہی ہوئے ہوں ؟ یہ اور اسی قسم کے کئی احتمال اس میں پیدا ہوتے ہیں اور اگر صرف یہی منافق تھے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بے سند روایت کا فریق مخالف کیا جواب دے گا۔ ان کے نزدیک تو وہ بھی صحیح ہے جن میں تین سو مرد اور ایک سو ستر عورتیں شامل تھیں ؟ دیکھیے فریق مخالف کیا لب کشائی کرتا ہے ؟
کوئی یہ پیش کر نہ دے شاعرِ بے نوا کا قول
وعدے کا اعتبار کیا جب اس میں اک ”مگر“ بھی ہے
فائدہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تبوک کے سفر میں ایک گھاٹی کے اندر بارہ ( اور ایک روایت میں چودہ اور ایک روایت میں پندرہ کا ذکر بھی آیا ہے) منافقوں نے اچانک حملہ کردیا تھا کہ آپ کو شہید کردیا جائے ( العیاذباللہ تعالیٰ) مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا اور ان بارہ منافقوں کے نام آپ نے صرف حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بتادیے تھے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ صاحب سرّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشہور تھے۔ دیکھیے مسلم ج 2 ص 369 البدایہ والنھایہ ج 5 ص 19 وزاد المعاد ج 2 ص 9 و ابن کثیر ج 2 ص 373 وخصائص الکبریٰ ج 1 ص 279 وغیر ہ اور یہی وہ سرّ اور راز ہے جس کا تذکرہ ملا علی قاری نے مرقات ج 5ص 618 میں کیاہےکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ کو منافقوں کے نام اور ان کا نسب نامہ بتا یا تھا۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام کے تمام منافقوں کا علم حاصل تھا اور آپ نے ان کے نام حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بتا دیے تھے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
أنه عليه السلام أعلم حُذَيفة بأعيان أربعة عشر أو خمسة عشر منافقًا، وهذا تخصيص لا يقتضي أنه اطلع على أسمائهم وأعيانهم كلهم.
( تفسیر ابن کثیر ج 2 ص 384)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو چودہ یا پندرہ منافقوں کے نام ( مع ان کی شخصیتوں کے ) بتا دیے تھے اور یہ صرف ان چودہ ، پندرہ کے ساتھ خاص تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو سب کے نام اور ذوات بھی بتلادی تھیں۔“
[ ازالۃ الریب: ص318 تا 320]
دلیل نمبر2:
حدیث جبرئیل علیہ السلام جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات اور سب غیر اللہ سے وقت قیامت کے علم کی نفی فرمائی ہے۔ ازالۃ الریب ص 329 میں باحوالہ یہ حدیث موجود ہے اور ص341 میں ا س کی باحوالہ تصریح ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی یہ آمد تمام احکام کے نزول کے بعد تھی۔ اس کے بعد وہ کون سی صحیح حدیث وارد ہوئی ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قیامت کا علم ثابت ہے؟ وہ صحیح صریح حدیث مطلوب ہے جو اس کے بعد کی ہو۔
دلیل نمبر3:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے ایک ماہ قبل اپنی ذات سے قیامت کے علم کی نفی فرمائی ہے۔ یہ حدیث باحوالہ ازالۃ الریب ص 348 میں مذکور ہے۔ اس کے بعد کون سی صحیح حدیث اثباتِ علمِ وقتِ قیامت کے بارے میں آئی ہے ؟
دلیل نمبر4:
جب آپ شفاعت کبریٰ کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کریں گے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے تعریف اور حمد کے وہ کلمات القاء فرمائے گا جو مجھے اب مستحضر نہیں ہیں۔ یہ حدیث ازالۃ الریب ص 392 میں باحوالہ موجود ہے۔ اس کے بر عکس وہ کون سی صحیح و صریح حدیث موجود ہے جس سے ثابت ہے کہ وہ کلمات وفات سے پہلے ہی آپ کو بتلادیے گئے تھے ؟
دلیل نمبر5:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حوض کوثر پر تشریف فرما ہوں گے کہ فرشتے آپ کے نام لیوا بعض امتیوں کو آپ کے قریب نہیں آنے دیں گے۔ آپ فرمائیں گے کہ یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: آپ نہیں جانتے کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا بدعتیں اختیار کی ہیں؟ یہ حدیث ازالۃ الریب ص 392 اور ص 397 میں مفصل مذکور ہے۔ اس کے بعد وہ کون سی صحیح حدیث آئی ہے جس سے ان اہل بدعت کی تفصیلی بدعات کا علم آپ کو ملا ہے ؟
فریق مخالف کے استدلالات کا اجمالی جائزہ
ذیل میں ہم فریقِ مخالف کے مستدلات ذکر کرتے ہیں اور آخر میں ان کا اجمالی جائز پیش کریں گے۔
نمبر1: وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا
( سورت البقرۃ:31)
نوٹ : علامہ واحدی نیشاپوری نے لکھا ہے کہ عکرمہ نے بیان کیا کہ مدینہ میں جو سورت سب سے پہلے نازل ہوئی وہ بقرہ ہے۔
( تبیان القرآن از غلام رسول سعیدی: ج1 ص231)
نمبر2: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ.
( سورۃآل عمران: 179)
نوٹ: سورت آل عمران نزول کے اعتبار سے سورت انفال کے بعد نازل ہوئی جبکہ سورت انفال غزوہ بدر سے واپسی پر 2 ھ میں نازل ہوئی تھی۔
( تبیان القرآن: ج6 ص29)
نمبر3: وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ
(سورۃ النساء:113)
نوٹ : سورۃ نساء کا زمانہ نزول 3ھ کے اواخر سے لے کر 4ھ کے اواخر یا 5 ھ کے اوائل تک ہے۔
( تبیان القرآن: ج2 ص541)
نمبر4: وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ
(سورۃ یوسف: 111)
نوٹ: امام ابن مردویہ نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ سورت یوسف مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔
( الدر المنثور: ج 4 ص 494)
نمبر5: تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ
( سورۃ النحل: 89)
نوٹ : یہ سورۃ مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی۔
( تبیان القرآن: ج6 ص347)
نمبر6: عَلَّمَهُ الْبَيَانَ
( سورۃ الرحمٰن:4)
نوٹ: ترتیب نزول کے اعتبار سے اس سورت کا نمبر 43 ہے اور یہ سورت فرقان کے بعد نازل ہوئی۔
( تبیان القرآن: ج11ص601)
نمبر7: إِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ
( سورۃ الجن:27)
نوٹ: یہ سورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ابتدائی عشرہ میں نازل ہوئی۔
( تبیان القرآن: ج12 ص267)
نمبر8: وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ
( سورۃ التکویر:24)
نوٹ: ترتیب نزول کے اعتبار سے اس کا نمبر ساتواں ہے۔
( تبیان القرآن: ج12 ص584)
فریقِ مخالف کے سارے استدلال ہم نے نقل کردیے ہیں اور یہ بھی ذکر کر دیا ہے کہ کون سی آیت کس دور کی ہے؟! لہذا ان سے استدلال درست نہیں کیونکہ فاضل بریلوی کا نظریہ یہ ہے کہ تکمیل قرآن پر ”جمیع ماکان ومایکون“ ملا۔ لہٰذا پہلے والی آیات سے یہ ثابت کرنا درست نہیں ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم (تفصیلی کلام)
صفت عالم الغیب خاصۂ خداوندی
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
چند شرائط:
1: چونکہ بریلوی حضرات اس مسئلہ کےمنکر کو کافر کہتے ہیں اس لیے انہیں اس مسئلہ کو ثابت کرنے کےلیے دلیل قطعی یعنی جو قطعی الثبوت کے ساتھ ساتھ قطعی الدلالۃ ہو وہ پیش کرنا ہوں گی کیونکہ ایسا مسئلہ انہی دلائل سے ثابت ہوتا ہے۔
2: ان دلائل سے بریلوی مناظر یہ بھی ثابت کرے گا کہ علم غیب ، عالم الغیب کی نسبت انبیا ء علیہم السلام کی طرف کی گئی ہے۔
3: ہم اہل السنت و الجماعت دیوبند یہ دکھائیں گے قرآن نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوایا ہے ”ولا اعلم الغیب “۔ اور یہ بھی کہلوایا ہے
”لا یعلم من فی السمٰوٰت والارض الغیب الا اللہ“
کہ میں علم غیب نہیں رکھتا اور زمینوں آسمانوں میں علم غیب خدا کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ جب کہ بریلوی دکھائے گا ” ان محمداً یعلم الغیب“ یا آپ سے کہلوایا گیا ہو ”اعلم الغیب“۔
4: سنی مناظر یہ ثابت کرے گا کہ ہر ذرہ کا تفصیلی علم اور علمِ محیط ہر وقت خدا ہی کو ہے اور اس کے علم سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے”لا یعزب عنہ مثقال ذرۃ“(الآیہ) جب کہ بریلوی مناظر ثابت کرے گا اپنا عقیدہ کہ ہر ذرہ ہر حادثہ ، واقعہ اور ہر وقت کا علم محیط اور تفصیلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے اور زمین وآسمان کا کوئی ذرہ آپ سے پوشیدہ نہیں۔ دلیل دےگا
” لا یعزب عن محمد مثقال ذرۃ فی السموات ولافی الارض.
5: بریلوی مناظر علم غیب کے منکر کو کافر لکھ کر دے گا بلکہ وہ اس کو بھی کافر لکھ کر دے گا جس کا یہ عقیدہ ہو کہ فلاں بات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوعلم نہیں جیسا کہ بریلویوں کی معتبر کتاب ( تحفظ عقائد اہلسنت ص849،850) میں درج ہے۔
6: بریلوی مناظر وہ دلائل پڑھے گا جو ان کے مسلک کے مطابق ہوں مثلاً فاضل بریلوی نے” الدولۃ المکیۃ“ میں صاف طور پر لکھا ہے کہ ہم علم غیب مکمل ہونا نزول قرآن کے مکمل ہونے پر تسلیم کرتے ہیں۔
( الدولۃ المکیہ ص105)
تو اب نزول قرآن کے مکمل ہونے والی دلیل قطعی یا اس کے بعد والی کوئی خبرمتواتر پیش کرے یا ایسا اجماع جو قطعیت کا فائدہ دے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمیع کان و ما یکون کا علم تھا۔ورنہ ا ن کےاپنے عقیدے اور نظریے کے خلاف دلائل مسموع نہ ہوں گے مثلاً اگر 6ھ والی کوئی آیت پڑھ کر ثابت کرنا چاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمیع کان و ما یکون کا علم تھا تو یہ ان کے اپنے مسلک کے بھی خلاف ہے کیونکہ بقول فاضل بریلوی نزول قرآن کے مکمل ہونے پر جمیع کان و ما یکون کا علم مکمل ہوا۔ لہذا ایسی کوئی دلیل قابل سماع نہ ہو گی۔
7: بریلوی مناظر اگر احناف کے مسلمہ اکابر کی کتب عقائد سے مسئلہ حل کرنا چاہے تو ہم اس پر بھی تیار ہیں کہ کسی مسلمہ بزرگ کی عقائد پر لکھی کتاب سے مسئلہ ثابت کر دے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے جمیع کان و ما یکون کا علم عطا فرمایا ہے۔
علم غیب کا منکر اکابر بریلوی کی نظر میں کافرہے
اب آپ وہ حوالہ جات دیکھیے جن میں علم غیب کے منکر کو بریلوی اکابر نے کافر تک کہا ہے۔
1: اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب سے منکر کو کافر فرمایا ہے۔
(فہارس فتاویٰ رضویہ ص874)
2: علم غیب کا منکر نبوت کا منکر ہے۔
(مقالات شیر اہلسنت ص237)
3: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کے منکر پکے منافق ہیں۔
( کلمہ حق شمارہ نمبر4ص7از ارشد القادری)
4: آپ کے علم غیب کلی کی صحیح حدیثیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں تو ان سے انکار کرنا اور تاویلات فاسدہ کر کے لوگوں کو گمراہ کرنا یہ ایمان سے خارج ہونا ہے۔
( مقیاس حنفیت ص 379)
5: جوآپ کی ذات سے علم غیب کی نفی کرتے ہیں وہ درحقیقت آپ کےمحمد ہونے کے قائل نہیں۔
(مقیاس حنفیت ص 312)
6: اگر کسی بھی نبی علیہ السلام کے متعلق یہ عقیدہ قائم کر لیا جائے کہ اس کو فلاں چیز کا علم نہیں تو ایسا فاسد وباطل عقیدہ اس امر کو مستلزم ہوگا کہ اس نبی کا عقیدہ توحید ناقص ہے چہ جائیکہ افضل الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہ کے متعلق یہ کفریہ عقیدہ ہو کہ عالم ماکان وما یکون کو فلاں چیز کا علم نہیں۔
(تحفظ عقائد اھلسنت ص 849،850)
7: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم غیب شریف کا انکار قرآن پاک کے خلاف اور کفر ہے۔
(مسئلہ علم غیب ص 18)
8: جو شخص علم غیب عطائی کا بالکل منکر ہے وہ قرآن پاک کی ان آیات کاانکار کرتا ہے اور قرآن کے ایک لفظ کا انکار بھی کفر ہے لہٰذا وہ شخص کافر ہے۔
( وقار الفتاویٰ ج1ص102)
بریلوی دعویٰ جات
[۱]: مولوی فیض احمد اویسی صا حب لکھتے ہیں:
”اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے علم غیب کلی کا دعویٰ یوں تحریر فرمایا ہے: بےشک حضرت عزت عزت نے اپنے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوتمام اولین وآخرین کا علم عطا فرمایا، شرق تا غرب، عرش تا فرش سب انہیں دکھایا،ملکوت السموات والارض کا شاہد بنایا۔ روز اول سے روز آخر تک سب ماکان ومایکون انہیں بتایا۔ اشیائے مذکورہ سے کوئی ذرہ حضور کے علم سے باہر نہ تھا۔ علم عظیم حبیب کریم علیہ افضل الصلوٰۃ والسلام ان سب کومحیط ہوا نہ صرف نہ اجمالا بلکہ صغیر وکبیر، ررطب ویابس جو پتہ گرتا ہے زمین کے اندھیروں میں جو دانہ کہیں پڑا سب کو جدا جدا تفصیلاً جان لیا۔للہ الحمد کثیراً بلکہ یہ جو کچھ بیان ہوا ہر گز ہر گز محمد رسول اللہ کا پورا علم نہیں صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ علم حضور سے ایک چھوٹا حصہ ہے۔ ہنوز احاطہ علم محمدی میں و ہ ہزار در ہزار بے حد وکنار سمندر لہرا رہے ہیں جن کی حقیقت کو وہ خود جانیں یا ان کا عطا کرنےوالا ان کامالک ومولیٰ جل وعلا۔“
(امام احمد رضا اور فن تفسیر ص16)
معلوم ہو اکہ علم غیب کلی کا مطلب یہ ہے اب جو بھی علم غیب کلی کا دعویٰ کرے توپھر اسے چاہیے یہ سب کچھ دلائل قطعیہ سے ثابت کرے۔
[۲]: مولوی عبد الرشید سمندری والے جو کہ بریلوی محدث اعظم کے شاگرد ہیں وہ لکھتے ہیں:
آپ کو اللہ نے کلی علم غیب عطا فرمایا ہے۔
(رشد الایمان ص99)
[۳]: فیض احمد اویسی صاحب لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے کلی علم غیب عطا فرمایا۔
(علم المناظرہ: ص6)
اب معلوم ہوگیا دعویٰ جو بھی مقصود ہو ان لوگوں کا یہ ہے ” جمیع ماکان ومایکون“ اسی کو یہ لوگ علم غیب کلی کہتے ہیں اور اگر تفصیلی طور پر اسے دیکھیں تو وہ فاضل بریلوی کی لکھی ہوئی تحریر بن جاتی ہے جو شروع میں گزر چکی ہے کہ شرق تاغرب، عرش تا فرش، سب انہیں دکھایا ملکوت السموات ولاارض کا شاہد بنایا اشیائے مذکورہ سے کوئی ذرہ حضور علیہ السلام کے علم سے باہر نہ تھا۔ اجمالی نہیں بلکہ تفصیلی علم آپ کو حاصل ہے۔
تنقیحاتِ دعویٰ
تنقیح نمبر1:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف علم غیب کی نسبت کرنا غلط ہے۔ کیونکہ:
 فاضل بریلوی صاحب لکھتے ہیں:
علم جب کہ مطلق ہو خصوصاً جب کہ غیب کی طرف مضاف ہو تو اس سے مراد علم ذاتی ہوتا ہے۔
(ملفوظات اعلیٰ حضرت ص 317 مشتاق بک کارنر)
معلوم ہو اکہ علم غیب کا لفظ اس ذات کےلیے بولیں گے جس کا علم ذاتی ہو اور وہ تو صرف اللہ کریم کا ہے۔
 بریلوی مسلک کے ” علامہ“ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:
علم غیب جب مطلقاً بولا جائے تو اس سے مراد ذاتی ہوتا ہے۔
(حاشیہ شرح مسلم ج5ص110)
 جو علم عطائی ہو وہ غیب ہی نہیں کہا جاتا، غیب صرف ذاتی کو کہتے ہیں۔
(جاء الحق ص 97 قدیم)
تنقیح نمبر2:
یہ قرآن پا ک کے بھی خلاف ہے کیونکہ مولوی غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کے غیر کےلیے علم غیب کا اطلاق کرنا اس لیے جائز نہیں ہے کیونکہ اس سے متبادر یہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ علم کا تعلق ابتداءً ہے تو یہ قرآن مجید کےخلاف ہوجائے گا۔
(نعمۃ الباری شرح بخاری ج1ص273)
ایک جگہ یوں لکھتے ہیں:
مطلقاً یہ کہنا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم ہے دو وجہ سے درست نہیں ،اول اس لیے کہ یہ قول ظاہر قرآن کے خلاف ہے۔ کیونکہ قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کے غیر سے مطلقاً علم غیب کی نفی کی ہے اور دوسرے اس وجہ سے کہ مطلقاً علم کا ذکر کیاجائے تو اس سے مراد علم بالذات ہوتا ہے۔
(شرح مسلم ج5ص108)
تنقیح نمبر3:
علم غیب کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا اور تکلیف دینا ہے۔ کیونکہ جب بچیوں نے شعر پڑھا تھا ”وفینا نبی یعلم ماغد“اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا۔ اس روکنے کی وجہ کیا تھی وہ بریلوی مسلک کے معتبر مفتی احمد یار نعیمی گجراتی لکھتے ہیں کہ شارحین نے کہا ہے کہ حضور علیہ السلام کا اس کو منع فرمانا اس لیے ہے کہ اس میں علم غیب کی نسبت حضور کی طرف ہے لہذا آپ کو نا پسندآئی۔
(جاء الحق ص 122)
مشکوۃ ج 2کتاب النکاح میں باب النکاح کی یہ حدیث ہے جس کی شرح میں ملا علی قاری رحمہ اللہ اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی یہ وجہ لکھی ہے۔
تو معلوم ہوا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب کی نسبت اپنی طرف کرنا ناپسند ہے اور نہ کرنا پسند ہے۔
اب دیکھیے قاضی ثناء اللہ پانی پتی ”ان الذین یؤذون اللہ ورسولہ “ (سورۃ احزاب:57) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وہ لوگ جو بنی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ کی پسندیدہ چیزوں کا ارتکاب کرتے ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دیتے ہیں ان کے لیے دنیا آخرت میں لعنت ہے۔
(تفسیر مظہری ج7ص380)
اور آپ کے مفتی حنیف قریشی صاحب لکھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دینے والا کافر ہے۔
(غازی ممتاز حسین قادری ص 201)
اور حنیف قریشی صاحب نے یہ بھی لکھا ہے:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند کو ناپسند کرنے والا کافر ہے۔
(غازی ممتازحسین قادری ص 291)
اب آپ خود ہی دیکھ لیں کہ آپ کا کیا بنے گا ؟!!
تنقیح نمبر4:
آپ نے علم غیب کلی سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے تسلیم کیا ہے۔ حالانکہ علم کلی تو خدا کا خاصہ ہے اور کسی صفت خاصہ کو کسی دوسرے کےلیے ثابت کرنا شرک ہے۔
(فتاویٰ مظہریہ ص 537)
اس فتویٰ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی کسی صفت خاصہ کو کسی دوسرے کےلیے ثابت کرنا شرک ہے۔ اور کئی بریلوی اکابر نے علم کلی کو خدا کا خاصہ ٹھہرایاہے۔ مثلاً:
 مفتی احمدیار نعیمی گجراتی لکھتا ہے کلی اختیارات اور مکمل علم غیب پر خدائی دارومدار ہے۔
(مواعظ نعیمیہ حصہ دوم ص 265)
 جو علم اللہ نے اپنی ذات کےلیے خاص کیا ہے وہ ہر ایک کے احوال کا تفصیلی علم ہے۔
(اسلامی عقائد ص 120 از شرف قادری )
 علم غیب کلی کی چابیاں اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں۔
(عقائد ونظریات از شرف قادری ص 87)
 رسل کرام سب غیوب پر مطلع نہیں ہوتے تاکہ خصوصیت الہٰی برقرار رہے۔
(فتاویٰ مہریہ ص8)
 جہاں تک مطلقاً ذاتی علم اور کلی علم غیب کا سوال ہے وہ ہمارے نزدیک بھی غیر خدا کےلیے ثابت کرناشرک ہے۔
(زیر و زبر از ارشد القادری :ص 49)
 مولوی پیر محمد چشتی صاحب لکھتے ہیں:
ان الغیب المختص بہ معنی المختص بہ علمہ سبحانہ وتعالیٰ ھو کل غیب•
(اصول تکفیر ص 310)
یعنی کل غیب خاصہ خدا ہے۔
اب دیکھیے! آپ کے دعویٰ پر آپ کے گھر سے ہی شرک کا فتویٰ لگ گیا !!
 مفتی خان محمد قادری لکھتا ہے: ان پانچ چیزوں کا علم بھی اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔
(معارف رضا ص 74 شمارہ مئی جون 2009ء)
 مفتی احمدیارخان نے
”قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ“
کے جواب میں لکھا ہے:
اس آیت کے بھی مفسرین نے دو مطلب بیان کیے ہیں۔
۱: غیب ذاتی کوئی نہیں جانتا
۲: کلی غیب کوئی نہیں جانتا۔
(جاء الحق ص 96)
ان ساری باتوں سے معلوم ہوا کہ علم غیب کلی تو بقول تمہارے اکابرین کے خاصہ خدا ہے اب آپ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے مانا تو اپنے اکابر کے فتاویٰ کی روسےکیا ٹھہرے؟ فیصلہ خود فرما لیجیے!
تنقیح نمبر5:
فاضل بریلوی نے فلاسفہ کا عقیدہ عقول عشرہ کے بارے میں نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کوئی ذرہ ذرات عالم سے ان پر مخفی رہنا ممکن نہیں۔ پھر آگے اس پر یوں رد فرمایا کہ:
یہ خاص صفت عالم الغیب والشہادہ کی ہے۔
جل وعلا۔ قال تعالیٰ لا یعزب عنہ مثقال ذرۃ فی الارض ولا فی السماء•
نہیں چھپتی تیرے رب سے ذرہ برابر زمین اور نہ آسمان۔
اس کا غیر خدا کے لیے ثابت کرنا قطعاً کفر(ہے)۔
(فتاویٰ رضویہ: ج27 ص144)
اب آپ دیکھیں کہ فاضل بریلوی نے یہی بات رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے مانی ہے اور ادھر اسی کو کفر بھی کہہ رہے ہیں تو فاضل بریلوی اپنے پھندے میں خود ہی پھنس گئے ہیں۔
تنقیح نمبر6:
بریلویوں کویہ ماننا پڑے گا کہ ہم نے یہ عقیدہ شیعوں سے چوری کیا ہے وہ اس طرح کہ:
)1) غلام نصیر الدین لکھتا ہے: علم غیب حاضر وناظر مختار کل استمداد وغیرہ یہ تمام عقائد شیعہ کے اندر موجود ہیں۔
(عبارات اکابر کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ ج1ص41)
(2) مولانا کرم الدین دبیر صاحب شیعوں کا عقیدہ نقل کرتے ہیں:
”اصول کافی میں ص159 میں باب ہی یوں باندھا ہے
” باب ان الائمۃ علیہم السلام یعلمون علم ماکان ومایکون وانہ لا یخفی علیہم شیئ“۔
آگے لکھتے ہیں:
”کتاب مذکور کے ص160 میں ہے
” سمعوا ابا عبداللہ علیہم السلام یقول انی لا علم مافی السموات وما فی الارض واعلم ما فی النار واعلم ماکان ومایکون“۔
(آفتاب ہدایت ص 170)
(3) شیخ المشائخ محبوب سبحانی ظل رحمانی شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ شیعوں کے عقائد لکھتے ہوئےفرماتے ہیں:
ومن ذلک قولھم ان الا مام یعلم کل شیء ماکان ومایکون من الدنیا والدین حتی عد دالحصی وقطر الامطار وورق الاشجار•
(غنیۃ الطالبین ج1ص180 قدیمی کتب خانہ)
(4) نہج البلاغہ لاہور سے چھپی ہے ترجمہ وتشریح کے ساتھ، اس کے شروع میں ایک مضمون ہے؛ ”حضرت امیر المؤمنین اور علم غیب“
اس میں ہے:
”آپ نے خود عالم الغیب ہونے کا اظہار فرمایا ہے۔ “
آگے لکھتے ہیں:
” ہمارے ائمہ طاہرین علیہم السلام کو علم غیب حاصل تھا۔ “
آگے لکھا ہے:
جہاں علم غیب کی نفی وارد ہوئی ہے اس سے مراد صرف یہ ہے کہ یہ حضرات بالذات عالم الغیب نہیں بلکہ من جانب اللہ ان کو علم غیب عطا ہوا ہے۔
(نہج البلاغہ ص 52)
معلوم ہوگیا بریلوی حضرات نے مسئلہ شیعہ حضرات سے لیا ہے۔
تنقیح نمبر7:
بریلوی حضرات اپنے اس دعوے کی وجہ سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب سمجھتے ہیں ، مثلاً:
 مولوی فیض احمد اویسی صاحب لکھتے ہیں: مضمون طویل ہوجانے کا خیال نہ ہوتا تو اس کے برعکس یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب نہ سمجھنے والوں پر نحوست کے نمونے پیش کرتا۔
(علم غیب کا ثبوت ص 17)
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم الغیب ہونا آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے ثابت ہے۔
(ازالۃ الضلالۃص4)
 حضور عالم الغیب۔
(سعید اسد کی تقریریں ص 235)
 محدثین ومتقدمین علمائے کرام کے نزدیک حضور علیہ السلام عالم غیب تھے۔
(تصحیح العقائد ص 28)
 مولوی نظام الدین ملتانی لکھتا ہے:
اب مولوی صاحب اور اس کے معاونین بتائیں کہ یہ تمام حدیثیں ہیں یانہیں اور ان سے آپ کی ذات وصفات کا اول سے عالم الغیب ہونا ثابت ہوا یا نہیں ؟
(کشف المغیبات مصدقہ پیر جماعت علی شاہ ص 23)
مولوی عبدالحق عتیق لکھتا ہے:
قوت قدسیہ والا ایک ہی جگہ مقیم رہ کرہ تمام عالم کو اپنے کف دست کی طرح دیکھ سکتا ہے۔ یعنی کہ وہ عالم الغیب ہوتا ہے۔
(شہود الشاہد ص94،مصدقہ سید محمود احمد رضوی ، مفتی محمد اعجاز، مفتی محمد فرید ہزاروی فیض الحسن سجاہ نشین آلو مہار وغیرہ ھم)
 سوال: جو شخص باوجود نقشبندی اور حنفی ہونے کے قیام میلاد کو ضروری جانے اور تارک قیام پر ملامت کرے اس کی پیچھے نماز ناجائز سمجھے اور ہر مجلس میلاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر وناظر جانے اور آپ کے عالم الغیب ہونے کا اعتقاد رکھے ایسے شخص کےلیے شرعاً کیا حکم ہے ؟
جواب: …… ایسا عقیدہ رکھنے والا پکا مسلمان اور پکا بایمان واتفاق سنی ، حنفی ، محبوب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
(انوار آفتاب صداقت ص 500 مصدقہ مولوی احمد رضا)
 مولوی ابو کلیم محمد صدیق فانی صاحب لکھتے ہیں:
عالم الغیب کا اطلاق اس پر ہوگا جس کو رب العزت جل جلالہ کی طرف سے انتہائی علوم غیبہ سے نوازا گیا ہو اور اس پر قرآن وحدیث کے شواہد موجود ہوں اور یہ فقط انبیاء کرام علیہم السلام کو حاصل ہے۔
(افتخار اہلسنت ص 46،45)
مسلمانو! گمراہوں کے امتحان کے لیے ان کے سامنے یوہیں کَہ دیکھو کہ اللہ پھر رسول عالم الغیب ہیں الخ۔ (الامن و العلی: ص183)
اب ہمارا سوال یہ ہے بریلوی اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہیں اس اپنے عقیدہ علم غیب کی وجہ سے اگر نہیں کہتے تو پھر سن لو کہ تم نے خود ہی لکھا ہے کہ جو احمد رضا کا ہم عقیدہ نہ ہو وہ کافر ہے۔
(انوار شریعت ج1ص140)
لہذا تم کیا ہوئے؟
اور اگر کہتے ہو تو پھر بھی ان فتاویٰ جات کی زدمیں ہو:
)1) یہی فلسفہ عالم الغیب کے لفظوں میں ہے اس میں ذاتی ،ازلی ، ابدی ، مطلق ، محیط ، تفصیلی کا بیان ہے جو کسی کے لیے ماننا اسے الہ ماننا ہے۔
(علم النبی صلی اللہ علیہ وسلم ص 20 از عبدالمجید خان سعیدی)
(2( بریلوی مناظر اعظم مولوی اللہ دتہ لکھتا ہے:
عالم الغیب اس ذات کو کہا جا سکتا ہے جو عالم الغیب بالذات ہو۔ یہ شان اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔ مخلوق کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا فقہاء نے کفر قرار دیا ہے۔
(تنویر الخواطر ص 34)
(3) بریلوی پیر محمد چشتی لکھتے ہیں:
علام الغیوب ، عالم الغیب والشہادۃ۔ جیسے مختص بااللہ لفظ کو غیر اللہ کےلیے استعمال کرنا ممنوع فی الاسلام وناروا ہے۔
(اصول تکفیر ص 284)
اور دوسری جگہ یوں لکھتے ہیں:
اذا اطلق علی المخلوق من الاسماء المختصہ بالخالق جل وعلا نحوالقدوس والقیوم والرحمٰن وغیرھایکفر•
(اصول تکفیر ص 223)
اب اہلِ بدعت پر یہ شعر صادق آتا ہے؛
خندق میں سب کی

جان حَزِیںْ پر بن آئی ہے

جائیں کدھر کہ آگے

کنواں پیچھے کھائی ہے

غیب کی تعریف
غیب کا معنیٰ کیا ہے؟
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
ماغاب عن العباد ویقال مایکون•
(ابن کثیر ج1ص41)
یعنی جو بندوں سے غیب ہو ، اور اسے ان کاموں پر بھی بولا جاتا ہے جو ہونے والے ہوں۔
اس قسم کا مفہوم کئی حضرات نے لکھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ” الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ “ کامفہوم یہی ہے کہ آدمی غیب پر ایمان لائے اور چونکہ انبیاء کرام بھی ایمان رکھتے ہیں اس لیے ان کے لیے بھی غیب کا کچھ کچھ درجہ ہونا چاہیے ورنہ تو ایمان بالغیب ہی نہ رہے گا۔ ” آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ “ سے معلوم ہوا کے انبیاء علیہم السلام بھی ایمان رکھتے ہیں ” أَوَلَمْ تُؤْمِنْ “ سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام کے لیے بھی غیب پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ ہاں انبیاءکرام کو کئی چیزیں دکھائی جاتی ہیں مگر اس کے باوجود بھی کئی چیزوں پر ایمان بالغیب ہی برقرار رہتا ہے۔
تفسیر ماجدی میں ہے:
پیغمبر چونکہ تمام دوسرے انسانوں سے دانا وعالم تر ہوتے ہیں اور ان کا دائرہ ادراک ومعرفت ساری مخلوق سے وسیع تر ہوتا ہے اس لیے قدرت سے انہیں بے شمار ایسی مخفیات کا علم ہوتا ہے جو غیر انبیاء کےلیے تمام تر مجہول ہوتی ہیں لیکن اس ساری وسعت کے باوجود کہیں نہ کہیں کسی منزل پر پہنچ کر ان کے علم کی بھی انتہاء ہوجاتی ہے اور دائرہ غیب ان کا بھی شروع ہوجاتا ہے۔
غیب پر ایمان لا نا تو آیت (يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ) میں متقین کی سب سے پہلی شرط بیان کی گئی ہے۔ اب اگرخدانخواستہ کسی کا غیب ہے ہی نہیں تو وہ ایمان کس چیز پر لائے گا۔ انبیاء کرام تو متقی ہی نہیں متقیوں کے سردار اور پیشوا ہوئے ہیں ان کاایمان بھی اگر مغیبات ومخفیات پر نہ ہوگا تو کس کا ہوگا۔ ہاں البتہ ان کا غیب انہیں کے ظرف اور مرتبہ وبساط کے موافق ہوتا ہے۔ ماوشما کا سا غیب ان کا نہیں ہے۔
لہذا اب اگر کہاجائے کہ نبی سے غیب کچھ بھی نہیں تو ان کو بندوں ، متقیوں کی صفوں سے نکالنا ہوگا اور ان کی بہت بڑی توہین ہے۔
مشہور مفسر قاضی بیضاوی غیب کی تعریف کی ہے:
والمراد به الخفي الذي لا يدركه الحس ولا تقتضيه بديهة العقل.
(تفسیر بیضاوی بقرہ آیت نمبر 3)
ترجمہ: غیب سے مراد وہ پوشیدہ باتیں ہیں جس سے حواس انسانی نہ پاسکیں اور نہ بداھت عقل اسے ثابت کرے۔
یہی تعریف بریلوی کتب جاء الحق، علم الرسول وغیرہ میں بھی کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علم کو علمِ غیب کہیں گے جو حواسِ ظاہرہ اور باطنہ سے نہ آ سکے۔ تو سرکارِ طیبہ صلی اللہ علیہ و سلم کا علم تو حواسِ ظاہرہ و باطنہ سے ہوا ہے اسے علمِ غیب نہیں کہا جا سکتا۔
آپ دیکھیں انبیاء علیہم السلام کی طرف جو علم القاء کیا گیا ہے اسے قرآن یوں کہتا ہے:
 ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ•
(یوسف:102)
 ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ•
(آل عمران:24)
 تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ•
(ھود:49)
 ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْقُرَى نَقُصُّهُ عَلَيْكَ•
(ھود:100)
 نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ كُنتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنْ الْغَافِلِينَ•
(یوسف:3)
 وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ•
(آل عمران:179)
وغیرہا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو جو علم دیا گیا ہے وہ علم وحی ہے یااخبار غیب، اطلاع غیب اور انباء غیب۔ اس کو پورے قرآن میں علم غیب کہیں بھی نہیں کہاگیا اور قرآن مقدس نے جگہ جگہ خدا تعالیٰ کے لیے عالم الغیب کا لفظ استعمال کیا ہے :
1: عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ
(الحشر:22)
2: عَالِمُ غَيْبِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ•
(فاطر: 38)
3: قُلْ لا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ الْغَيْبَ إِلاَّ اللَّهُ•
(النمل: 65)
4: إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ•
(الحجرات: 18)
وغیرہا آیات دلالت کر رہی ہیں کہ علم غیب اور عالم الغیب کے الفاظ اللہ ہی کےلیے اداکیے جاسکتے ہیں۔ یہی بات کئی محققین کے قلم سے زیب قرطاس ہوتی ہے جیساکہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الوجدان الصریح یحکم بان العبد عبد وان ترقی وان الرب رب وان تنزل وان العبد قط لا یتصف بالوجوب اوبا الصفات الازمۃ للوجوب ولا یعلم الغیب ینطبع شیئ فی لوح صدرہ ولیس ذالک علماء بالغیب انما ذلک یکون من ذاتہ ( یعنی علم غیب ازخود ہوتاہے نہ کہ کسی کا عطاکردہ ) فالانبیاء والاولیاء یعلمون لا محالۃ بعض مایغیب عن العامۃ•
(تفہیمات الہیہ ج1ص245)
اور علامہ شامی فرماتے ہیں:
فعلم اللہ المذکور ہو الذی یمدح بہ و اخبر فی الآیتین المذکورتین بانہ لا یشارکہ فیہ احد فلا یعلم الغیب الا ہو و ما سواہ ان علم جزئیات منہ فہو باعلامہ و اطلاعہ لہم و حینئذ لا یطلق انہم یعلمون الغیب اذ لا صفۃ لہم یقتدرون بہا علی الاستقلال بعلمہ (یعنی یہ ان کی کوئی ایسی صفت نہیں ہے کہ جس سے وہ مستقل طور پر کسی چیز کو جان سکیں) ایضاً ہم ما علموا و انما علّموا•
(رسائل ابن عابدین ج2ص313)
علامہ عبدالعزیز پرھاروی لکھتے ہیں:
و اما علم بحاستہ او ضرورۃ (بداہۃ عقل) او دلیل فلیس بغیب و لا کفر فی دعواہ و لا فی تصدیقہ علی الجزم فی الیقینی و الظن عند المحققین و بہذا التحقیق اندفع الاشکال فی الامور التی یزعم انہا الغیب و لیست منہ لکونہا مدرک بالسمع او البصر او الدلیل فاحدہما اخبار الانبیاء لانہا مستفادۃ من الوحی و من خلق العلم الضروری فیہم او من انکشاف الکوائن علی حواسہم•
(نبراس علی شرح القائد ص 343)
اب معلوم ہو گیا کہ انبیاء علیہم السلام کی باتوں کو اور خبروں کو علم غیب نہیں کہاجائےگا۔ کیونکہ یہ علم خدا کی طرف سے ملتا ہے اور اگر ذاتی ، ازخود ہو تو اسے علم غیب کہتے ہیں۔
اس پر ہم تھوڑی سی روشنی ضرور ڈالیں گے کہ انبیاء علیہم السلام کے لیے کچھ پردہ غیب ہے یا نہیں؟
1: شیطان نے قسمیں کھا کرکہا؛
وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنْ النَّاصِحِينَ ، فَدَلاَّهُمَا بِغُرُورٍ•
(سورہ اعراف آیت21)
کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور ان کو تیار کر لیا ،دھوکا دے کر۔
کل اسماء کا علم تو آپ علیہ السلام کو دیا جاچکا تھا مگر اس کےباوجود بھی اس کی باتوں پر اعتبار کر لیا اور بھول گئے۔ معلوم ہوا کہ کل غیب سے واقف خدا ہی ہے۔
2: سیدنا نوح علیہ السلام سے فرمایا:
فَلا تَسْأَلْنِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنْ الْجَاهِلِينَ قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ•
(سورہ ہود آیت46، 47)
3: سیدنا ابراہم علیہ السلام کےپاس جب فرشتے آئے تو قرآن کہتا ہے:
نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً•
(سورہ ہود آیت70)
4: سیدنا یعقوب علیہ السلام کا مدت مدید تک رونا اور آنکھیں سفید ہونا یہ بھی دلیل ہے کہ ان سے بھی کچھ نہ کچھ تو غیب رہا ہے۔
5: موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا قصہ جس میں سیدنا خصر علیہ السلام نے فرمایا :
يَا مُوسَى إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ أَنْتَ وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ•
(صحیح البخاری: ج2ص688،صحیح مسلم ج2ص269)
6: موسیٰ علیہ السلام کا کوہ طور سے واپس تشریف لانا او رسیدنا ہارون علیہ السلام کی داڑھی مبارک پکڑنا۔
7: وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ (21) إِذْ دَخَلُوا عَلَى دَاوُودَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قَالُوا لا تَخَفْ•
(ص:21)
8: ” مَا لِي لا أَرَى الْهُدْهُدَ “
(سورۃ النمل آیت20)
9: سیدنا زکریا علیہ السلام نے فرمایا :أَنَّى لَكِ هَذَا•
(آل عمران:37)
10: يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُوا لا عِلْمَ لَنَا إِنَّكَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ •
(المائدہ:109)
معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کا بھی غیب پر ایمان ہے ، کئی مخفی اور پوشیدہ باتوں کا علم اللہ کریم کو تھا اور انہیں نہیں تھا تو یہی بات تو دلیل ہے کہ ان کے علوم مبارکہ کو علم غیب نہ کہا جائے بلکہ اخبار غیب ، انبا ءغیب ، اطلاع غیب کہنا چاہے۔
اب ہم چند سطور اس پر بھی لکھنا چاہتے ہیں کہ فاضل بریلوی اور ان کے ماننے والے بات بات پر یہی فرق کرتے ہیں قرآن پاک میں جو نفی کی گئی ہے تو وہ ذاتی کی ہے اور ہم قائل عطائی کےہیں لہذا اعتراض ہم پر نہیں ہو سکتا تو یاد رکھیں کہ امام اہلسنت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا وجود مبارک ذاتی تھا؟ اگر ذاتی نہ تھا بلکہ عطائی تھا
(۱) تو آپ نے علم غیب کی طرح اپنے وجود کا کیوں انکار نہ فرمایا ؟ یہ کیوں ارشاد فرمایا کہ ” لست بموجود“ یعنی میں موجود نہیں ہوں۔
(۲) اور کیا آنحضرت علیہ السلام کی نبوت اور رسالت ذاتی تھی یا خدا کی طرف سے عطا ہوئی تھی؟ اگر ذاتی نہ تھی اور یقیناً نہ تھی تو آپ نے اپنی نبوت اور رسالت کا انکار کیوں نہ کر دیا؟ (العیاذ بااللہ تعالیٰ) کیونکہ بقول مولوی محمد عمر صاحب شے کا مدعی وہی ہو سکتا ہے جس کی ملکیت ذاتی ہو۔
(۳) اور کیا قرآن کریم آپ کو ذاتی طوپر حاصل ہواتھا یا خدا تعالیٰ کا عطیہ تھا؟ اگر ذاتی طور پر حاصل نہ ہوا تھا اورحقیقت بھی یہی ہے تو آپ نے علم ِ قرآن کی نفی کیوں نہ کی؟ اور کیوں نہ فرمایا کہ میرے قرآنِ کریم نہیں؟ معاذ اللہ تعالیٰ
(۴) اور کیا آپ کو احادیث اور احکام شریعت کا علم ذاتی طور پر حاصل ہوا تھا ؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں توآپ نے اس کی نفی کیوں نہ کی۔ وجہ فرق بالکل بین ہونی چاہیے۔
(۵)کیا جب موصوف خود عطائی ہوتو اس کی کسی صفت کے ذاتی ہونےکا احتمال ناشی عن دلیل ہو سکتا ہے جب اس کا احتمال ہی نہیں تو ذاتی اور عطائی کا فرق بے کار ہوا۔ کیونکہ علم ذاتی باجماع مسلمین اور باتفاق فریقین ایک ذرہ کا بھی کسی کو نہیں ہو سکتا تو پھر اس کا درمیان میں لانا کیونکر صحیح ہوا؟
(۶) اور اگر ایک شخص یہ کہے میں اللہ تعالیٰ کو ذاتی طور پر الٰہ اور خالق کائنات تسلیم کرتا ہوں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عطائی طور پر الٰہ اور خالق کائنات مانتا ہوں تو کیا وہ مسلمان رہے گا ؟ اور اگر رہے گا توکس دلیل سے؟اور اگر وہ مسلمان نہیں تو فرمائیے کہ اس بےچارے نے خداتعالیٰ کا ذاتی خاصہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تو تسلیم نہیں کیا پھر وہ کافر کیسے ہوا؟
(۷) اگر ایک شخص کہتا ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو مستقل اور تشریعی نبی مانتا ہوں مگر مرزا غلام احمد قادیانی کو (جو در حقیقت ثلاثون کذابون دجالوں کی مد میں ہے) بالتبع اور غیر تشریعی نبی مانتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ اس کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا فیض اور ظل ہے کیا ایسا شخص مسلمان رہے گا یا نہیں ؟ اس کا جواب فریق مخالف کو سوچ کربتانا ہوگا کہ حق کا ساتھ دینا ہے یا صدائے باطل ہی بلند کرنی ہے۔
اس چمن
 
میں

پیرو بلبل ہو یا تلمیز گل

یا سراپا
 
نالہ

بن جایا نوا پیدانہ کر

باقی جن بعض اکابر کی عبارات میں ذاتی اور عطائی وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں تو ان کا مقصد ہر گز ہر گز یہ نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی طورپر بالاستقلال کل غیوب کو نہیں جانتے مگر عطائی اور غیر مستقل طور پر جانتے تھے بہرحال انہوں نےتطبیق کی یہ صورت پیدا کی کہ نفی جو تمام کلیات اور محیط تفصیلی کے ساتھ متعلق ہے ، ذاتی علم کی ہے اور اثبات جو صرف اخبار غیب اور جزئیات سے متعلق ہے وہ عطائی علم کے ساتھ وابستہ ہے ، حالانکہ اس مقام پر ذاتی اور عطائی سےصرف نظر کرتے ہوئے بھی صرف کلی اور جزئی علم یا علم غیب اور انباء غیب یامحیط تفصیلی اور بعض خبروں کے علم کا فرق ملحوظ رکھ کر بھی تطبیق دی جاسکتی ہے اور محققین علماء نے اس طرح تطبیق دی ہے۔ اور آگے آیات علم شعر گوئی اور تمام انبیاء کرام کے تفصیلی احوال کی بھی تو نفی موجود ہے جس میں ذاتی اور عطائی کا تو جھگڑا ہی نہیں۔
اس پر مزید ایک آیت ملاحظہ فرمائیں:
وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاسْتَكْثَرْتُ مِنْ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِي السُّوءُ •
(اعراف:188)
اگر میں علم غیب رکھتا ہوتا تو ہر طرح کے فائدے رکھ کر لیتا اور کوئی( دنیاوی) تکلیف مجھے نہ پہنچتی ، اس میں بھی ذاتی اور عطائی کا فرق نہیں ہو سکتا ، کیونکہ جس کو عطائی طور پر بھی پتہ ہو وہ بھی تکالیف ومصائب سے بچنے کی کوشش کرےگا ، اگر کسی کو ذاتی طورپر پتہ نہ ہوعطائی پور پر اسے بتا دیا جائے کہ فلاں علاقے میں فلاں راستے پر چور ہیں تو اس راستے پر وہ آدمی نہ جائےگا تو اگر آپ علیہ السلام کوعطائی طورپر بقول تمہارے علم غیب مل گیا تو بھی تو مصائب وتکالیف سے آپ کو بچ جانا چاہیے تھا۔ مگر آپ علیہ السلام پر مصائب وتکالیف آئے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
 
آیات قرآنیہ اور نفی علم غیب
آیت نمبر1:
وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِينٌ “•
(سورۃ یٰسین: 69)
ترجمہ:
 علامہ علی بن محمد الخازن (م701ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
أي ما يسهل له ذلك وما يصلح منه بحيث لو أراد نظم شعر لم يتأت له ذلك كما جعلناه أمياً لا يكتب ولا يحسب لتكون الحجة أثبت والشبهة أدحض قال العلماء ما كان يتزن له بيت شعر وإن تمثل ببيت شعر جرى على لسانه منكسراً•
(تفسیر خازن ج4ص12)
 علامہ عبداللہ بن احمد النسفی (م710ھ) فرماتے ہیں:
ﯘوَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَﯗ ای و ما علمنا النبی صلی اللہ علیہ و سلم قول الشعراء او و ماعلمنا بتعلیم القرآن الشعر علی معنی ان القرآن لیس بشعر•
(تفسیر مدارک ج2ص404)
رئیس المفسرین علامہ عماد الدین بن کثیر رحمہ اللہ (م 774ھ) آیت کی تفسیر لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
وقوله: { وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ } : يقول تعالى مخبرًا عن نبيه محمد صلى الله عليه وسلم: أنه ما علمه الشعر، {وَمَا يَنْبَغِي لَهُ } أي: وما هو في طبعه، فلا يحسنه ولا يحبه، ولا تقتضيه جِبِلَّته؛ ولهذا وَرَدَ أنه، عليه الصلاة والسلام، كان لا يحفظ بيتًا على وزنٍ منتظم، بل إن أنشده زَحَّفه أو لم يتمه.
(تفسیر ابن کثیر ج3ص757)
 محی السنہ ابی محمد الحسین بن مسعود البقوی (م514ھ) اس آیت کی تفسیر میں حضر ت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فقال ابوبکر وعمر اشہد انک رسول اللہ یقول اللہ تعالیٰ: وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ•
 امام جلال الدی سیوطی (م911ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
عن قتادة رضي الله عنه قال : بلغني أنه قيل لعائشة رضي الله عنها هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتمثل بشيء من الشعر قالت : كان أبغض الحديث إليه غير أنه كان يتمثل ببيت أخي بني قيس يجعل أخره أوله وأوله آخره ويقول : ويأتيك من لم تزودبالأخبار فقال له أبو بكر رضي الله عنه : ليس هكذا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إني والله ما أنا بشاعر ولا ينبغي لي•
(تفسیر درمنثور ص 505)
اب دیکھیے دعویٰ تو علمِ کلی اور جمیع ما کان و ما یکون کا ہے، تو جب یہ منتفی ہو گیا یعنی علم شعر گوئی کی آپ سے نفی ہو گئی تو پھر کلی کا دعویٰ ٹوٹ گیا۔ رضا خانی حضرات کی طرف سے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ جناب! علمِ شعر کی نفی نہیں بلکہ یہاں تو ملکہ شعر گوئی کی نفی ہے یعنی شعر و شاعری کا علم تو تھا مگر ملکہ شعر گوئی نہ تھا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پھر بھی علمِ کلی اور جمیع ما کان و ما یکون کا دعویٰ باطل ہو گیا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق یہ ہے کہ جو آپ علیہ السلام کی زبان پر جاری ہوا تھا وہ رجز تھا، شعر نہ تھا اور شعر کہنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر حرام تھا۔
اشکال نمبر1 :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں آپ علیہ السلام نے ساری زندگی میں ایک شعر بنایا ہے۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی)
الجواب:
یہ حدیث منکر ہے اور اس میں دوراوی مجہول ہیں۔
(تفسیر ابن کثیر ج3ص579)
بعض حضرات نے شعر سے کچھ اور باتیں مراد لی ہیں مگر اتنا تو ضرور ہے کہ ”جمیع ماکان ومایکون“ کا دعویٰ تو ٹوٹ جاتا ہے چاہے جو بھی مراد لو آپ ،ہم نے تفاسیر سے اس کا آیت کامعنی بتادیا کہ شعر گوئی کو آپ علیہ السلام کےلیے مناسب نہیں سمجھا گیا لہٰذا آپ شاعر نہ تھے۔
اشکال نمبر2:
بریلوی حضرات کی طرف سے ایک اشکال عام طور پر ہرجگہ ہی اٹھایا جائے گا جس کا قلع قمع ضروری ہے وہ یہ ہے کہ دیکھیے جی ہمارا علم کلی کہنا مخلوق کے اعتبار سے ہے ورنہ آپ علیہ السلام کا علم خدا کے اعتبار سے جزئی ہے اور خالق کا علم کلی ہے۔
جواب:
پہلی بات…… بریلوی حضرات نے جس دعویٰ کو علم کلی کہا ہے وہ ہم دعوٰی جات کے عنوان میں لکھ آئے اور مزید یہ بھی یاد رکھیں کہ ان کا دعویٰ ابتدائے آفرینش سے لے کر دخول جنت یا جہنم تک تفصیلی کا ہے اور ہم جو دلائل پیش کر رہے ہیں وہ سب اس دعوے کے بھی توڑنے والے ہیں۔
دوسری بات…… یہ ہے کہ بریلوی علماء نے لکھا ہے کہ پھر وہ کون بد قسمت انسان ہے جو قرآن کے خلاف کہے کہ فلاں شئے کا حضور علیہ السلام کو علم نہیں تھا اور فلاں بات نہیں جانتے تھے۔
( علم غیب کا ثبوت ص5)
اور یہ کہنا کہ عالم ماکان ومایکون فلاں بات نہیں جانتے تھے یہ کفریہ عقیدہ ہے۔
(ملخصاً تحفط عقائد اہلسنت ص 850،849)
تیسری بات…… یہ ہے کہ آپ کے اکابر تو خدا کے علم کو کلیات سے منسوب کرنا جرم سمجھتے ہیں، جیسا کہ خواجہ قمر الدین سیالوی نے لکھا ہے کہ کلیات کی نسبت خالق کی طرف کرنا کتنی بڑی جہالت۔
( انوار قمریہ ص 104)
آپ کے مولوی منظور احمد بصیر پوری لکھتے ہیں:
کلی چیز مخلوق ہے اور مخلوق حادث ہوتا ہے اللہ تعالیٰ قدیم ہے اس کے علم کو کلی سے متصف قرار دینا بےدینی ہے۔
(ہفت روزہ رسالہ رضوان بابت ماہ 28 مارچ 1952ء ص11 بحوالہ اظہار العیب ص 226،227)
چوتھی بات…… یہ ہے وہ کون کون سی چیزیں ہیں جو خدا تعالیٰ تو جانتا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جانتے اس کی ذرہ فہرست پیش کریں تاکہ ہمیں بھی یقین آجائے کہ خدا کا علم کلی ہے اور رسول پاک علیہ السلام کا اس کےمقابلے میں جزئی ہے اگر آپ نہیں پیش کر سکتے تو پھر یہ ماننا پڑےگا کہ جو آپ نے فرق کیا ہے وہ غلط ہے۔
آیت نمبر2:
اللہ پاک آپ علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ•
(سورۃ غافر: 78)
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے :
وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلاً لَمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ•
(سورۃ النسا: آیت164)
 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے :
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: ما أدري تبع أنبيا كان أم لا و ما أدري ذا القرنين أنبيا كان أم لا و ما أدري الحدود كفارات لأهلها أم لا•
(مستدرک حاکم حدیث نمبر 111)
تبع اور ذوالقرنین کے نام قرآن مجید میں موجود ہیں مگر آپ علیہ السلام فرما رہے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ یہ نبی تھے یا نہیں؟
”وَتَفْصِيلاً لِكُلِّ شَيْءٍ“ اور ”تِبْيَاناً لِكُلِّ شَيْءٍ“
وغیرہ آیات سے استدلال کرنے والو ں سے دریافت کیجیے کہ ”تبع“ اور ”ذوالقرنین“ کی زندگی کی مفصل حالات تو الگ رہے ان کی نبوت ورسالت کاعلم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں تھا۔
 حافظ عما دالدین ابن کثیر رحمہ اللہ(م774ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
أي: منهم من أوحينا إليك خبرهم وقصصهم مع قومهم كيف كذبوهم ثم كانت للرسل العاقبة والنصرة، { وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ } وهم أكثر ممن ذكر بأضعاف أضعاف•
(ابن کثیر ج5ص462)
 علامہ علی بن محمد الخازن (م701ھ) پہلی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ای ولم نذکر حال الباقین•
(تفسیر خازن ج4ص84)
اور دوسری آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں؛
ای لم یمسہم لک و لم نعرفک اخبارہم•
(تفسیر خازن ج14ص451)
 فخرالدین رازی (م604ھ) پہلی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ای ولم نذکر حال الباقین• (تفسیر کبیر امام رازی ج27 ص 77)
 امام جلال الدین سیوطی (م911ھ) اس کی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه في قوله ! < ومنهم من لم نقصص عليك > ! قال : بعث الله عبدا حبشيا نبيا فهو ممن لم يقصص على محمد صلى الله عليه وسلم•
(تفسیر درمنثور ج5ص670)
اس آیت پاک سے بھی ثابت ہوا کہ جمیع ماکان ومایکون اور علم کلی کا دعویٰ غلط ہے۔ اس پر بریلوی حضرات کا چند وجوہ سے کلام ہے۔
اشکال نمبر1:
آیت مبارکہ
” وَكُلاًّ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ “
سے معلوم ہوا کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے تفصیلی حالات بتادئیے گئے تھے۔
جواب:
یہ آیت سورہ ھود کی ہے جو مکی ہے اور وہ آیت جو ہم نے پیش کی ہے وہ مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی۔ دوسر اجواب یہ ہے کہ اس آیت کی معنی ہے ہر وہ خبر جس کی حاجت پڑتی ہے ہم پیغمبروں کی خبروں میں آپ کو سناتے ہیں۔ معلوم ہو گیا کہ کل کے لفظ کا الرسل سے تعلق نہیں نہ ہی یہ اس پر داخل ہے۔ اور احادیث سے بھی اس معنی کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ آپ تفاسیر کے حوالہ جات سے پڑھ آئے ہیں۔
اشکال نمبر2:
حدیث میں ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی کل تعداد بتا دی گئی ہے ،124،000 ہے
جواب:
پہلی بات…… یہ حدیث قابل احتجاج نہیں۔
(دیکھیے تفسیر ابن کثیر ج1ص586، لسان المیزان ج1ص79،78)
دوسری بات…… یہ ہے کہ تعداد کا بیان کیا جانا تفصیلی حالات کا بیان تو نہیں لہذا یہ احادیث ہمیں مضر نہیں۔
اشکال نمبر 3:
صاوی شریف میں ہے آ پ علیہ السلام اس وقت تک دنیا سے تشریف نہ لے گئے جب تک تمام انبیا ء علیہم السلام کے تفصیلی حالات نہ بتا دئیے گئے۔
جواب:
قرآن پاک کی قطعی دلیل ہم نے پیش کی ہے اور احادیث مبارکہ اور امت کے اقوال سب کچھ کو ایک صا وی شریف پر تو قربان نہیں کریں گے۔ معتبر ومستند ومعتمد تفاسیر سے ہم نے اپنا مدعی صاف کر دیا ہے آپ اپنی بات غیر معتبر تفاسیر سے نہ لے آئیں۔
آیت نمبر3:
يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنْ السَّاعَةِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيباً•
(الاحزاب:63)
حافظ عمادالدین ابن کثیر رحمہ اللہ (م774ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
يقول تعالى مخبرا لرسول صلى الله عليه وسلم: أنه لا علم له بالساعة، وإن سأله الناس عن ذلك. وأرشده أن يرد علمها إلى الله، عز وجل، كما قال له في سورة "الأعراف" ، وهي مكية وهذه مدنية، فاستمر الحال في رَدّ علمها إلى الذي يقيمها، لكن أخبره أنها قريبة بقوله: { وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا }•
(تفسیر ابن کثیر ج5ص232)
 امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ (م604ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
{قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ} لا يتبين لكم ، فإن الله أخفاها لحكمة•
(تفسیر کبیر ج2ص200)
 امام بیضاوی رحمہ اللہ (م685ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
{ قل إنما علمها عند الله } لم يطلع عليه ملكا ولا نبيا•
( تفسیر بیضاوی ج2ص253)
 امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ (م911ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
{قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَمَا يُدْرِيكَ} یعلمک بہا ای انت لا تعلمہا•
(تفسیر جلالین ص 358)
امام علی بن محمد الخازن (م701ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
إن المشركين كانوا يسألون رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) , عن وقت قيام الساعة استعجالاً على سبيل الهزء وكان اليهود يسألونه عن الساعة امتحاناً , لأن الله تعالى عمى عليهم علم وقتها في التوراة فأمر الله تعالى نبيه ( صلى الله عليه وسلم ) أن يجيبهم بقوله ( قل إنما علمها عند الله) يعني إن الله تعالى قد استأثر به ولم يطلع عليه نبياً ولا ملكاً•
(تفسیر خازن ج3ص512)
آیت نمبر4:
وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِينَ (25) قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ• (سورۃ الملک 25۔26)
 عمدۃ المفسرین حافظ عمادالدین ابن کثیر رحمہ اللہ (م774ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
{ قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ } أي: لا يعلم وقت ذلك على التعيين إلا الله، عز وجل، لكنه أمرني أن أخبركم أن هذا كائن وواقع لا محالة فاحذروه•
(تفسیر ابن کثیر ج6ص272)
علامہ ابن جریر طبری (م310ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
إنما علم الساعة، ومتى تقوم القيامة عند الله لا يعلم ذلك غيره•
(جامع البیان عن تاویل القرآن:ج14ص12حصہ دوم )
 قاضی بیضاوی رحمہ اللہ (م685ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
{ قل إنما العلم } اي علم وقته { عند الله } لا يطلع عليه غيره•
(تفسیر بیضاوی ج2ص512)
امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ (م604ھ) اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
والمراد أن العلم بالوقوع غير العلم بوقت الوقوع ، فالعلم الأول حاصل عندي ، وهو كاف في الإنذار والتحذير•
(تفسیر کبیر ج30ص66)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ (م 1225ھ) اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
إِنَّمَا الْعِلْمُ أى العلم بوقته عِنْدَ اللَّهِ لا يعلم غيره •
(تفسیرمظہری ج10ص28)
آیت نمبر5:
قُلْ إِنَّمَا يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ، فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ آذَنْتُكُمْ عَلَى سَوَاءٍ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ مَا تُوعَدُونَ•
(سورۃ الانبیاء: 108، 109)
علامہ علی بن محمد ابراہیم البغدادی المعروف بہ خازن (م701ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وإن أدري ( أي وما أعلم ) أقريب أم بعيد ما توعدون ( يعني يوم القيامة لا يعلمه إلا الله )•
( ج3ص297)
 علامہ عبداللہ بن احمد النسفی الحنفی (م 710ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
ای لا ادری متیٰ یکون یوم القیامۃ لان اللہ تعالیٰ لم یطلعنی علیہ او لا ادری متی یحل بکم العذاب ان لم تؤمنوا•
(تفسیر مدارک ج2ص103)
امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ (م911ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
{ وإن } ما { أدري أقريب أم بعيد ما توعدون } من العذاب أو القيامة المشتملة عليه وإنما يعلمه الله•
(تفسیر جلالین ص 278)
علامہ خطیب شربینی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
{وإن} أي : وما {أدري أقريب} جدّاً بحيث يكون قربه على ما يتعارفونه {أم بعيد ما توعدون} من غلب المسلمين عليكم أو عذاب الله أو القيامة المشتملة عليه ، وإنّ ذلك كائن لا محالة ولا بدّ أن يلحقكم بذلك الذلة والصغار ، وإن كنت لا أدري متى يكون ذلك؛ لأنّ الله تعالى لم يعلمني علمه ، ولم يطلعني عليه ، وإنما يعلمه الله تعالى•
(تفسیر سراج منیر ج2ص532)
آیت نمبر6:
يَسْأَلُونَكَ عَنْ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ؀ فِيمَ أَنْتَ مِنْ ذِكْرَاهَا ؀ إِلَى رَبِّكَ مُنتَهَاهَا ؀ إِنَّمَا أَنْتَ مُنذِرُ مَنْ يَخْشَاهَا•
( سورۃ النازعاتآیت42 تا44)
 آپ علیہ السلام قیامت کے وقت کےمتعلق دریافت فرماتے تھے اس پر آیت نازل ہوئی ”فِيمَ أَنْتَ مِنْ ذِكْرَاهَا “ آپ کو اس کے ذکر سے کیا تعلق ؟
(تفسیر الدر المنثور:ج6ص 515)
 علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ (م744ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
أي: ليس علمها إليك ولا إلى أحد من الخلق، بل مَردها ومَرجعها إلى الله عز وجل، فهو الذي يعلم وقتها على التعيين•••• { إِلَى رَبِّكَ مُنْتَهَاهَا } ولهذا لما سأل جبريلُ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم عن وقت الساعة قال: ما المسئول عنها بأعلم من السائل.
(تفسیر ابن کثیر ج6ص386)
علامہ علی بن محمد ابراہیم الخازن (م701ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
( يسألونك ( أي يا محمد ) عن الساعة أيّان مرساها ( أي متى ظهورها وقيامها ) فيم أنت من ذكراها ( أي لست في شيء من علمها وذكراها حتى تهتم لها وتذكر وقتها ) إلى ربك منتهاها ( أي منتهى علمها لا يعلم متى تقوم الساعة إلا هو•
( خازن ج4ص378)
امام حسین بن مسعود البغوی (م516ھ) اپنی تفسیر معالم التنزیل میں فرماتے ہیں:
{يَسْأَلُونَكَ عَنْ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا} متیٰ ظہورہا و ثبوتہا {فِيمَ أَنْتَ مِنْ ذِكْرَاهَا} لیست فی شئی من علمہا و ذکرہا ای لا تعلمہا•
(معالم التنزیل المعروف بہ تفسیر بغوی ج4ص445)
علامہ عبیداللہ بن احمد النسفی الحنفی (م710ھ) اپنی تفسیر مدارک میں فرماتے ہیں:
{إِلَى رَبِّكَ مُنتَهَاهَا } منتہیٰ علمہا متیٰ تکون لا یعلمہا غیرہ•
(تفسیر مدراک ج2ص775)
امام فخرالدین الرازی (م604ھ) تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:
{إِلَى رَبِّكَ مُنتَهَا هَآ} أي منتهى علمها لم يؤته أحداً من خلقه•
(تفسیر کبیر ج31ص48)
آیت نمبر7:
يَسْأَلُونَكَ عَنْ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلاَّ هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ لا تَأْتِيكُمْ إِلاَّ بَغْتَةً يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ•
(سورۃ الاعراف 187)
 اس آیت مبارکہ کا شان نزول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین مکہ نے سوال کیا کہ قیامت کب قائم ہوگی تو اس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔
(در منثور: ص 275)
 امام ابن جریر طبری (م310ھ) اپنی کتاب تفسیر طبری میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
قال ابن عباس: لما سأل الناسُ محمدًا صلى الله عليه وسلم عن الساعة، سألوه سؤال قوم كأنهم يرون أن محمدًا حفي بهم، فأوحى الله إليه: إنما علمها عنده، استأثر بعلمها، فلم يطلع عليها ملكًا ولا رسولا.
(تفسیر طبری ج6ص169)
 امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ (م604ھ) اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
{قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي } أي لا يعلم الوقت الذي فيه يحصل قيام القيامة إلا الله سبحانه ونظيره قوله سبحانه : {إِنَّ اللَّهَ عِندَه عِلْمُ السَّاعَةِ}
(سورہ لقمان34)
وقوله : {وَأَنَّ السَّاعَةَ لا رَيْبَ فِيهَآ}
(سورہ الحج آیت7)
وقوله : {إِنَّ السَّاعَةَ ءَاتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا}
(سورہ طہ آیت15)
ولما سأل جبريل رسول الله صلى الله عليه وسلّم وقال : متى الساعة فقال عليه السلام : "ليس المسؤول عنها بأعلم من السائل•
(تفسیر کبیر ج15ص66)
 علامہ علی بن محمد ابراہیم الخازن (م701ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
{يَسْأَلُونَكَ عَنْ السَّاعَةِ} يعني عن خبر القيامة.{أَيَّانَ مُرْسَاهَا} ای متیٰ وقوعہا {قُلْ} أي قل لهم يا محمد {إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي} أي لا يعلم الوقت الذي تقوم فيه إلا الله استأثر الله بعلمها فلم يطلع عليه أحدا {لا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلاَّ هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ} يعني ثقل أمرها وخفي علمها على أهل السموات والأرض فكل شيء خفي فهو ثقيل شديد {لا تَأْتِيكُمْ إِلاَّ بَغْتَةً} يعني فجأة على حين غفلة من الخلق {يَسْأَلُونَكَ كَاَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ} یعنی یا محمد {إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ} يعني استأثر الله بعلمها فلا يعلم متى الساعة إلا الله عز وجل {وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ} يعني لا يعملون أن علمها عند الله وأنه استأثر بعلم ذلك حتى لا يسألوا عنه.
(تفسیر خازن ج2ص145،144)
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ (م774ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
فهذا النبي الأمي سيد الرسل وخاتمهم صلوات الله عليه وسلامه نبي الرحمة، ونبي التوبة، ونبي الملحمة، والعاقب والمُقَفَّي، والحاشر الذي تحشر الناس على قدميه، مع قوله فيما ثبت عنه في الصحيح من حديث أنس وسهل بن سعد، رضي الله عنهما: "بعثت أنا والساعة كهاتين" وقرن بين إصبعيه السبابة والتي تليها. ومع هذا كله، قد أمره الله تعالى أن يَرُد علم وقت الساعة إليه إذا سئل عنها، فقال: { قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ }•
(تفسیر ابن کثیر ج3ص249)
امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ (م911ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
{لا يجليها لوقتها إلا هو} يقول : لا يرسلها لوقتها إلا هو {ثقلت في السماوات والأرض} يقول : خفيت في السموات والأرض فلم يعلم قيامها متى تقوم ملك مقرب ولا نبي مرسل !
(درمنثور: ص 275)
آیت نمبر8:
إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى•
(سورۃ طہ 15)
 علامہ ابن جریری طبری رحمہ اللہ (م310ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
يقول تعالى ذكره: إن الساعة التي يبعث الله فيها الخلائق من قبورهم لموقف القيامة جائية( أَكَادُ أُخْفِيهَا ) فعلى ضمّ الألف من أخفيها قراءة جميع قرّاء أمصار الإسلام، بمعنى: أكاد أخفيها من نفسي، لئلا يطلع عليها أحد، وبذلك جاء تأويل أكثر أهل العلم.
(تفسیر طبری ج9ص164)
پھر آخرمیں اس تفسیر کی مزید تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وإنما اخترنا هذا القول على غيره من الأقوال لموافقة أقوال أهل العلم من الصحابة والتابعين، إذ كنا لا نستجيز الخلاف عليهم، فيما استفاض القول به منهم، وجاء عنهم مجيئا يقطع العذر•
(ج9ص167)
 امام جلا ل الدین سیوطی رحمہ اللہ (م911ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
قال لیس من اہل السماوات و الارض احد الا قد اخفی اللہ عنہ علم الساعۃ•
(درمنثور ج4ص525)
 علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ (م774ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
هذا كقوله تعالى: { قُلْ لا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ الْغَيْبَ إِلا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ } وقال: { ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ لا تَأْتِيكُمْ إِلا بَغْتَةً } أي: ثقل علمها على أهل السموات والأرض.
( تفسیر ابن کثیر ج4ص312)
 امام بغوی رحمہ اللہ (م516ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وأكثر المفسرين قالوا: معناه: أكاد أخفيها من نفسي، وكذلك في مصحف أبي بن كعب، وعبد الله بن مسعود: أكاد أخفيها من نفسي فكيف يعلمها مخلوق. وفي بعض القراءات: فكيف أظهرها لكم. وذكر ذلك على عادة العرب إذا بالغوا في كتمان الشيء يقولون: كتمت سرك من نفسي، أي: أخفيته غاية الإخفاء، والله عز اسمه لا يخفى عليه شيء.
( تفسیر بغوی ج3ص214)
 علامہ علی بن محمد الخازن رحمہ اللہ (م701ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
إن الساعة آتية أكاد أخفيها ( قال أكثر المفسرين : معناه أكاد أخفيها من نفسي فكيف يعلمها مخلوق وكيف أظهرها لكم , ذكر ذلك على عادة العرب إذا بالغوا في الكتمان للشيء يقولون كتمت سرك في نفسي , أي أخفيته غاية الإخفاء , والله تعالى لا يخفى عليه شيء.
(تفسیر خازن ج3ص251)
آیت نمبر9:
إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرَاتٍ مِنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَى وَلا تَضَعُ إِلاَّ بِعِلْمِهِ•
(فصلت: 47)
امام فخر الدین رحمہ اللہ(م604ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وكأن سائلاً قال ومتى يكون ذلك اليوم؟ فقال تعالى إنه لا سبيل للخلق إلى معرفة ذلك اليوم ولا يعلمه إلا الله فقال : {إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ } وهذه الكلمة تفيد الحصر أي لا يعلم وقت الساعة بعينه إلا الله ، وكما أن هذا العلم ليس إلا عند الله فكذلك العلم بحدوث الحوادث المستقبلة في أوقاتها المعينة ليس إلا عند الله سبحانه وتعالى ، ثم ذكر من أمثلة هذا الباب مثالين أحدهما : قوله {وَمَا تَخْرُجُ مِن ثَمَرَاتٍ مِّنْ أَكْمَامِهَا} والثاني : قوله {وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَى وَلا تَضَعُ إِلا بِعِلْمِه }
(تفسیر کبیر ج27ص117)
 علامہ علی بن محمد الخازن (م701ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
( إليه يرد علم الساعة ( يعني إذا سأل عنها سائل قيل له لا يعلم وقت قيام الساعة إلا الله تعالى•
(تفسیر خازن ج4ص94)
 علامہ نسفی رحمہ اللہ (م 710ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ای علم قیامہا یرد الیہ ای یجب علی المسئول ان یقول: اللہ یعلم ذلک•
(تفسیر مدارک ج2ص501)
 علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
{ إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ } أي: لا يعلم ذلك أحد سواه، كما قال صلى الله عليه وسلم، وهو سيد البشر لجبريل وهو من سادات الملائكة -حين سأله عن الساعة، فقال: "ما المسئول عنها بأعلم من السائل"، وكما قال تعالى: { إِلَى رَبِّكَ مُنْتَهَاهَا } ، وقال { لا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلا هُوَ }•
(تفسیر ابن کثیر ج5ص485)
 قاضی بیضاوی رحمہ ا للہ (م685ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
{ إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ } یعنی اذا سال عنہا اذ لا یعلمہا الا ہو•
(تفسیر بیضاوی ج2ص356 بیروت)
اہل بدعت کے چند اشکالات کے جوابات:
اشکال نمبر1:
ذاتی اور عطائی کا فرق
جواب:
حالانکہ ذمہ دار مفسرین سے یہ بات نقل ہو کر آتی ہے کہ ”لم یطلعنی علیہ“ اور ” لم یطلع علیہ ملکا مقربا ولا نیبا مرسلا“، تو یہ عطائی کا بھی انکار ہے۔
پیر مہر علی شاہ صاحب لکھتے ہیں: یہ جو لکھا ہے کہ قیامت سات ہزار سال سے پہلے نہیں آسکتی میں کہتا ہوں یہ سات ہزار کی تحدید جو ایک نے (مرزا صاحب) لگائی ہے یہ منافی ہے۔ ” لا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلاَّ هُوَ “ کے اور ان احادیث کے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لاعلمی بیان فرمائی ہے۔
(شمس الہدایہ ص 66)
معلوم ہوا کہ یہ ڈھکو سلہ نہیں چلے گا کہ ذاتی اور عطائی کا فرق ہے۔
اشکال نمبر2:
بعض لوگ یہ اشکال کرتے ہیں کہ یہ تو معلوم ہوگیا کہ خدا کو معلوم ہے مگر یہ تو کہیں نہیں آیا کہ علم قیامت کو خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا؟
جواب:
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سرخ رنگ کے خیمہ میں تشریف فرماتھے ایک شخص گھوڑی پر سوار ہو کر آیا اور دریافت کیا کہ آپ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا میں خدا تعالیٰ کا رسول ہوں اس نے دریافت کیا قیامت کب آئےگی؟ آپ نے فرمایا یہ غیب کی بات ہے اور اللہ کےبغیر اسے کوئی نہیں جانتا۔
(درمنثور ج5ص170)
تو اب بتائیے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب خود ہی ارشاد فرمائیں پھر کیا ماننے کےلیے آپ تیار ہیں؟
اشکال نمبر 3:
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کا ذکر فرمارہے تھے تو آپ نے صحابہ سے پوچھا یہ کون سا دن ہے تو انہوں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے۔ تو اس معلوم ہوا کہ صحابہ کو پتہ تھا کہ قیامت کے وقت مقررہ کا آپ کو پتا ہے۔
جواب:
یہ واقعات آپ نے قیام ساعت مقررہ کے بعد کے بیان کیے ہیں ، مقررہ وقت کی بات نہیں کی صرف یہ ہی پوچھا کہ کون سا دن ہو گا صحابہ کرام نے ادب سے کہا باقی آپ نے خود ہی بتاررکھا ہے کہ جمعہ کا دن ہوگا۔ مگر یہ تو کسی کو معلوم نہیں وہ جمعہ کس سال کا ہوگا یہ کب آئے گا وغیرہا۔ اس روایت سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ آپ کو مقررہ وقت کا پتہ ہے یہ بالکل غلط ہے۔
اشکال نمبر 4:
سب نشانیاں تو بتادیں پھر وقت مقررہ کیوں نہیں پتہ ہوگا ؟
جواب:
سب نشانیاں تو ارشاد فر دیں مگر وقت مقررہ ان نشانیوں کا آپ کو بھی معلوم نہیں کیونکہ مشکوٰۃ ج2ص472پر روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا :
ایہما ما کنت قبل صاحبتیہا فالاخریٰ علیٰ اثرہا•
یعنی طلوع آفتاب اور دابۃ الارض ان میں سے پہلی جو ظاہر ہوگی تو دوسری اس کے بعد ظاہر ہوجائیگی۔ باقی قیامت کا مقررہ وقت مقررہ لمحہ وہ کسی کے علم میں نہیں سوائے خدا تعالیٰ کے۔
آیت نمبر10:
إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَداً وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ•
(سورۃ لقمان :34)
 علامہ علی بن محمد بن ابراہیم الخازن (م 701ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
قال ابن عباس : هذه الخمسة لا يعلمها ملك مقرب ولا نبي مصطفى فمن ادعى أنه يعلم شيئاً من هذه الأمور فإنه كفر بالقرآن لأنه خالفه•
(تفسیر خازن ج3ص475)
 امام عبداللہ بن احمد النسفی رحمہ اللہ (م710ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
‏ وعن ابن عباس رضي الله عنهما‏:‏ من ادّعى علم هذه الخمسة فقد كذب‏.‏ ورأى المنصور في منامه صورة ملك الموت وسأله عن مدة عمره فأشار بأصابعه الخمس فعبرها المعبرون بخمس سنوات وبخمسة أشهر وبخمسة أيام فقال أبو حنيفة رضي الله عنه‏:‏ هو إشارة إلى هذه الآية، فإن هذه العلوم الخمسة لا يعلمها إلا الله ‏{‏إِنَّ الله عَلِيمٌ‏}‏ بالغيوب ‏{‏خَبِيرٌ‏}‏ بما كان ويكون‏.
(تفسیر مدارک ج2ص324)
 امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ (م 911ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال لم يعم على نبيكم صلى الله عليه وسلم إلا الخمس من سرائر الغيب هذه الآية في آخر لقمان إلى آخر السورة•
(تفسیر درمنثور ج5ص326)
 امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ (م911ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
{ إن الله عنده علم الساعة } متى تقوم { وينزل } بالتخفيف والتشديد { الغيث } بوقت يعلمه { ويعلم ما في الأرحام } أذكر أم أنثى ولا يعلم واحدا من الثلاثة غير الله تعالى { وما تدري نفس ماذا تكسب غدا } من خير أو شر ويعلمه الله تعالى { وما تدري نفس بأي أرض تموت } ويعلمه الله تعالى { إن الله عليم } بكل شيء { خبير } بباطنه كظاهره•
(تفسیر جلالین ص348)
 علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ (م774ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
قال قتادة: أشياء استأثر الله بهن، فلم يُطلع عليهن مَلَكا مقربًا، ولا نبيا مرسلا { إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ } ، فلا يدري أحد من الناس متى تقوم الساعة، في أي سنة أو في أي شهر، أو ليل أو نهار، { وَيُنزلُ الْغَيْثَ } ، فلا يعلم أحد متى ينزل الغيث، ليلا أو نهارًا، { وَيَعْلَمُ مَا فِي الأرْحَامِ } ، فلا يعلم أحد ما في الأرحام، أذكر أم أنثى، أحمر أو أسود، وما هو، { وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا } ، أخير أم شر، ولا تدري يا ابن آدم متى تموت؟ لعلك الميت غدا، لعلك المصاب غدا، { وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ } ليس أحد من الناس يدري أين مضجعه من الأرض، أفي بحر أم بر، أو سهل أو جبل؟
( تفسیر ابن کثیر ص124)
اشکال نمبر 1:
تفاسیر میں ہے: من ادعی انہ یعلم شیا من ھذہ فقد کفرہ بالقرآن العظیم لانہ خالفہ•
(تفسیر خازن ج5ص183)
حالانکہ بعض روایات دال ہیں ان جزئیات کو مخلوق جانتی ہیں۔
جواب:
”شیئاً من ھذہ “ کا مطلب یہ ہے کہ ان پانچ چیزوں میں سے کسی ایک چیز کا دعویٰ کرے کہ کہ مجھے یا کسی اور کو بجز خدا تعالیٰ کے اس کا کلی طور پر علم ہے تو وہ کافر بالقرآن ہے۔
اشکا ل نمبر 2:
بعض صلحاء کی باتوں اور آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اولیاء کرام وغیرہم کو بھی بعض ان میں سے جزئیات کا علم ہے مگر روایات میں یوں بھی ہے ان پانچ باتوں کو خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا
جواب:
علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وفي شرح المناوي الكبير للجامع الصغير في الكلام على حديث بريدة السابق خمس لا يعلمهن إلا الله على وجه الإحاطة والشمول كليا وجزئيا فلا ينافيه إطلاع الله تعالى بعض خواصه على بعض المغيبات حتى من هذه الخمس لأنها جزئيات معدودة•
(تفسیر روح المعانی ج21ص100)
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
فإن قلت قد أخبر الأنبياء والأولياء بشيء كثير من ذلك فكيف الحصر قلت الحصر باعتبار كلياتها دون جزئياتها•
(مرقات: ج1ص66)
آیت نمبر11:
وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلاَّ هُوَ •
(سورۃ مدثر آیت31)
علامہ بغوی رحمہ اللہ اس آیت کی تفصیل میں فرماتے ہیں:
(وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلاَّ هُوَ ) قال مقاتل: هذا جواب أبي جهل حين قال: أما لمحمد أعوان إلا تسعة عشر؟ قال عطاء: { وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلا هُوَ } يعني من الملائكة الذين خلقهم لتعذيب أهل النار، لا يعلم عدتهم إلا الله، والمعنى إن تسعة عشر هم خزنة النار، ولهم من الأعوان والجنود من الملائكة ما لا يعلم إلا الله عز وجل•
(تفسیر بغوی ج4ص417)
 علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ (م774ھ) اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
(وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلاَّ هُوَ ) ای ما یعلم عددہم و کثرتہم الا ہو تعالیٰ•
(تفسیر ابن کثیر ج6ص345)
 علامہ عبداللہ احمد النسفی رحمہ اللہ (م710ھ) اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
(وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلاَّ هُوَ ) لفرط کثرتہا(إِلاَّ هُوَ) فلا یعز علیہ تتمیم الخزنۃ عشرین و لکن فی ہذا العدد الخاص حکمۃ لا تعلمونہا•
(تفسیر المدارک: ج2ص749)
امام فخرالدین رحمہ اللہ (م604ھ) اس آیت کی تفسیر میں چند وجوہ لکھی ہیں جن میں سے پہلی وجہ جوان کے نزدیک راجح ہے وہ یہ ہے کہ:
أن القوم استقبلوا ذلك العدد ، فقال تعالى : {وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلا هُوَ } فهب أن هؤلاء تسعة عشر إلا أن لكل واحد منهم من الأعوان والجنود مالا يعلم عددهم إلا الله•
(تفسیر کبیر ج30ص183)
گھر کی گواہی:
مدعیان علم جمیع ماکان ومایکون کے راس ورئیس مولوی احمد رضا خان فاضل بریلوی کی زبانی :
زمین سے سدرۃ المنتہیٰ تک پچاس ہزار برس کی راہ ہے اس سے آگے مستوی اس کے بعد اللہ جانے۔ اس سے آگے عرش کے ستر ہزار حجاب ہیں ہرحجاب سے دوسرے حجاب تک پانچ سو برس کا فاصلہ اور اس سے آگے عرش اور ان تمام وسعتوں میں فرشتے بھرے ہیں حدیث پاک میں ہے آسمان چار انگل جگہ نہیں جہاں فرشتے نے سجدے میں پیشانی نہ رکھی ہو فرمائیے کس قدر فرشتے ہیں ”وما یعلم جنود ربک الا ھو“ اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
(ملفوظات حصہ چہارم ص 340)
آیت نمبر12:
فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ•
(الم سجدہ آیت17)
امام بخاری رحمہ اللہ (م256ھ) اس آیت کی تشریح میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مبارکہ نقل کی ہے:
يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ذُخْرًا من بَلْهٍ مَا أُطْلِعْتُمْ عَلَيْهِ ثُمَّ قَرَأَ { فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ }•
(صحیح البخاری: کتاب التفسیر ج2ص704)
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ(متوفیٰ 774ھ) نے حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کتاب مسند احمد سے نقل کیاہے:
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:
شهدت من رسول الله صلى الله عليه وسلم مجلسا وصف فيه الجنة، حتى انتهى، ثم قال في آخر حديثه: "فيها ما لا عين رأت، ولا أذن سمعت، ولا خطر على قلب بشر"، ثم قرأ هذه الآية: { تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ، إلى قوله: { يَعْمَلُون } .
(تفسیر ابن کثیر ج5ص134)
 امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ (متوفیٰ911ھ)نے اس آیت کے تحت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے:
انه لمكتوب في التوراة ( لقد أعد الله للذين تتجافى جنوبهم عن المضاجع ما لم تر عين ولم تسمع أذن ولم يخطر على قلب بشر ولا يعلم ملك مقرب ولا نبي مرسل وانه لفي القرآن ! < فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين >
(تفسیر الدرالمنثور: ج5ص339)
 امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ (متوفیٰ911ھ) نے حضرت عبد اللہ بن عباس کی تفسیر نقل کی ہے:
قال كان عرش الله على الماء فاتخذ جنة لنفسه ثم اتخذ دونها أخرى ثم أطبقهما لؤلؤة واحدة ثم قال : ومن دونهما جنتان لم يعلم الخلق ما فيهما وهي التي قال الله ! {فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما كانوا يعملون}•
(در منثور ج5ص338)
 قاضی بیضاوی رحمہ اللہ متوفیٰ685ھ نے اس کی تفسیر یوں فرمائی ہے:
{فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ} لا ملک مقرب و لا نبی مرسل•
(تفسیر انوار التنزیل ص 235)
آیت نمبر13:
يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُوا لا عِلْمَ لَنَا إِنَّكَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ•
(سورہ مائدہ آیت109)
سوال:
حضرات انبیاء کرام کو اپنی امتوں کے جواب کا فی الجملہ علم ضرور ہے تو پھر اللہ پاک کے سامنے انہوں مطلقاً علم کی نفی کیوں کر دی۔
جواب:
اس کی چند توجیہیں ہیں اور چونکہ ان میں سے اکثر میں تعارض نہیں ہے اس لیے ہو سکتا ہے سب اپنی جگہ درست ہوں ایک قول جس کو امام خازن رحمہ اللہ اور امام رازی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے:
معناه لا علم لنا كعلمك فيهم لأنك تعلم ما أضمروا وما أظهروا ونحن لا نعلم إلا ما أظهروا فعلمك فيهم أنفذ من علمنا وأبلغ.
(تفسیر خازن ج1ص537)
امام رازی رحمہ اللہ اس قول کے نقل کرکے فرماتے ہیں:
ہو الاصح و ہو الذی اختارہ ابن عباس•
(تفسیر کبیر ج11ص102)
 علامہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ (م310ھ) اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
یقولون للرب عز وجل: لا علم لنا، إلا علمٌ أنت أعلَمُ به منَّا•
(تفسیر طبری ج5ص154)
 اور علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں:
رواه ابن جرير. ثم اختاره على هذه الأقوال الثلاثة (1) ولا شك أنه قول حسن، وهو من باب التأدب مع الرب، عز وجل، أي: لا علم لنا بالنسبة إلى علمك المحيط بكل شيء، فنحن وإن كنا قد أجبنا وعرفنا من أجابنا، ولكن منهم من كنا إنما نطلع على ظاهره، لا علم لنا بباطنه، وأنت العليم بكل شيء، المطلع على كل شيء. فعلمنا بالنسبة إلى علمك كلا عِلْم، فإنك { أَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ }•
( تفسیر ابن کثیر ج2ص643)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کےدور میں اقوال میں صرف اجمال وتفصیل کا فرق ہے۔
 علامہ خطیب شربینی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے:
{قالوا لا علم لنا} أي : لا علم لنا بما أنت تعلمه {إنك أنت علام الغيوب} فتعلم ما أجابونا وأظهروا لنا وما لم نعلم مما أضمروا في قلوبهم•
(تفسیر سراج منیر ج1ص402)
 علامہ نسفی حنفی رحمہ اللہ نے اس کی تفسیر میں فرمایا:
{قَالُوا لا عِلْمَ لَنَا} باخلاص قولنا و دلیلہ{ إِنَّكَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ}•
(مدارک التنزیل ج1ص350)
آیت نمبر14:
وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلاَّ كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ•
(سورۃ نمل:77)
 امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ (م604ھ) اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
{وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ} یفید الحصر معناہ ان العلم بہذہ الغیوب لیس الا للہ تعالیٰ•
(تفسیر کبیر ج20ص71)
 علامہ نسفی حنفی رحمہ اللہ مدارک التنزیل میں فرماتے ہیں:
{ وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ } ای یختص بہ علم ما غاب فیہما عن العباد و خفی علیہم علمہ او اراد بغیب السماوات و الارض یوم ا لقیامۃ علی ان علمہ غائب عن اہل السماوات و الارض لم یطلع علیہ احد منہم•
(تفسیر مدارک ج1ص690)
 علامہ علی بن محمد الخازن رحمہ اللہ نے اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
( أخبر الله عز وجل في الآية عن كمال علمه , وأنه عالم بجميع الغيوب , فلا تخفى عليه خافية ولا يخفى عليه شيء منها , وقيل الغيب هنا هو علم قيام الساعة•
(تفسیر خازن ج3ص136)
 قاضی بیضاوی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
{ ولله غيب السموات والأرض } يختص به علمه لا بعلمه غيره وهو ما غاب فيهما عن العباد بأن لم يكن محسوسا ولم يدل عليه محسوس وقيل يوم القيامة فإن علمه غائب عن أهل السموات والأرض•
(تفسیر بیضاوی ص 685)
 علامہ خطیب شربینی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
{ولله} أي : لا لغيره {غيب السموات والأرض} وهو ما غاب فيهما عن العباد بأن لم يكن محسوساً و لم يدل عليه محسوس ، وقيل : الغيب هنا هو قيام الساعة فإن علمه غائب عن أهل السموات و الأرض•
(تفسیر سراج منیر ج2ص250)
آیت نمبر15:
قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرّاً إِلاَّ مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاسْتَكْثَرْتُ مِنْ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِي السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلاَّ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ•
(سورۃ الاعراف:188)
علامہ بغوی رحمہ اللہ نے آیت مذکورہ کا شان نزول حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل فرمایا ہے:
إن أهل مكة قالوا: يا محمد، ألا يخبرك ربك بالسعر الرخيص قبل أن يغلو فتشتريه وتربح فيه عند الغلاء؟ وبالأرض التي يريد أن تجذب فترتحل منها إلى ما قد أخصبت؟ فأنزل الله تعالى "قل لا أملك لنفسي نفعا•
(تفسیر بغوی ج2ص220)
علامہ عمادالدین ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
(وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاسْتَكْثَرْتُ مِنْ الْخَيْرِ) أي: من المال. وفي رواية: لعلمت إذا اشتريت شيئًا ما أربح فيه، فلا أبيع شيئًا إلا ربحت فيه، وما مسني السوء، قال: ولا يصيبني الفقر.
(تفسیر ابن کثیر ج3ص249)
امام بغوی رحمہ اللہ (م510ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
أي: لو كنت أعلم الخصب والجدب لاستكثرت من الخير، أي: من المال لسنة القحط { وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ } أي: الضر والفقر والجوع.
(تفسیر بغوی ج2ص220)
قاضی بیضاوی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
ولو كنت أعلمه لخالفت حالي ما هو عليه من استكثار المنافع واجتناب المضار حتى لا يمسني سوء•
(تفسیر بیضاوی:ج1ص370)
 علامہ معین بن صفی اپنی تفسیر جامع البیان میں آیت کا مطلب یہ بیان فرماتے ہیں:
{وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاسْتَكْثَرْتُ مِنْ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِي السُّوءُ} ای لکانت حالی من استکثار الخیر و استغرار المنافع و اجتناب السوء علی خلاف ما ہی علیہ فلم اکن غالبا مرۃ و مغلوبا باخریٰ و رابحاً و خاسرا فی التجارۃ•
( جامع البیان ص 144)
اہلِ بدعت کے چند اشکالات کے جوابات:
اشکال نمبر1:
چونکہ قرآن نے کہا کہ ”اگر علم غیب دان ہوتا تو میں خیریں حاصل کر لیتا“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو”خیر کثیر“ عطا کی گئی کیونکہ بقول قرآن کریم”ومن یؤت الحکمۃ فقد اوتی خیراً کثیرا“ جس کو حکمت عطا کی گئی تو اسے بہت ساری خیریں دی گئیں ہیں۔
اور مصیبت سے بھی رب نے بچایا ”واللہ یعصمک من الناس “معلوم ہوا کہ علم غیب تھا جبھی یہ سب کچھ ملا۔
جواب:
اس آیت میں ”خیر“ سے مراد تجارت کا نفع ، مال وغیرہ ہے اور سوء سے مراد فقر، تجارت میں نقصان کا ہونا ہے یہ مراد ہے اور آپ کی پیش کردہ آیات میں خیر سے مراد علم وحکمت اور عصمت من الناس سے مراد جان سے مارنا ہے۔
اشکال نمبر2:
آپ تو رحمۃ اللعالمین ہیں پھر آپ کو تکلیف ہو تو یہ زحمت ورحمت کا اجتماع کیسے ممکن ہوا ؟
جواب:
آپ علیہ السلام چہرہ مبارک زخمی ہونا ، دانت مبارک کا شہید ہونا ، زہر خورانی کا واقعہ پیش آنا ، آپ علیہ السلام کا سواری سے گر پڑنا ٹانگ مبارک کا زخمی ہوجانا حتی کہ آپ نے نماز بھی بیٹھ کر پڑھائی۔
(صحیح البخاری جلد1ص96)
کا انکار کرنا ایک کھلی ہوئی جہالت ہے۔ ”رحمۃ للعٰلمین “ یہ ”ارسلناک “ کامفعول لہ جس کا معنی یہ ہے آپ کو اس لیے بھیجا کہ آپ کے ذریعے سے تمام جہانوں پر رحمت فرمائے۔ یہ رحمت خدا کی صفت ہے اور تکالیف ومصائب تو آپ کی ذات پر آئے تو اجتماع نقیضین کیسے ہوا؟!!
اشکال نمبر3:
”الخیر“ سے مراد اطاعت خداوندی ، سخاوت ، عمل صالح مراد ہیں اور السوء سے مراد بدکاری برے کام مراد ہیں۔ تو خیر پر آپ کا عمل تھا اور سوء سے آپ محفوظ ومعصوم تھے تو جب یہ چیزیں آپ کےپاس نہیں تھیں یعنی خیر پر عمل اور شر سے بچنا تو لامحالہ علم غیب تو ہوا۔
جواب:
اس آیت میں ”الخیر “ سے مراد اور ”السوء “سے مراد دینی طور پر خیر اور سوی ہر گز نہیں بلکہ الخیر سے یہاں مال فتح اور نفع وغیرہ ہے اور السوء سے فقر وشکست اور خسارہ وغیرہ ہے۔
آیت نمبر16:
وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً•
(پارہ نمبر 15بنی اسرائیل آیت85)
 علامہ عمادالدین بن کثیر رحمہ اللہ (م744ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وقوله: { قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي } أي: من شأنه، ومما استأثر بعلمه دونكم؛ ولهذا قال: { وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا} أي: وما أطلعكم من علمه إلا على القليل، فإنه لا يحيط أحد بشيء من علمه إلا بما شاء تبارك وتعالى.
(تفسیر ابن کثیر ج4ص179)
 علامہ علی بن محمد ابراہیم الخازن رحمہ اللہ (م701ھ) اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
وأولى الأقاويل أن يوكل علمه إلى الله عز وجل هو قول أهل السنة قال عبد الله بن بريدة : إن الله لم يطلع على الروح ملكاً مقرباً ولا نبياً مرسلاً بدليل قوله : قل الروح من أمر ربي أي من علم ربي الذي استؤثر به )•
( تفسیر خازن ج3ص190)
 علامہ نسفی حنفی رحمہ اللہ م710ھ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
‏{‏وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الروح قُلِ الروح مِنْ أَمْرِ رَبّى‏}‏ أي من أمر يعلمه ربي، الجمهور على أنه الروح الذي في الحيوان، سألوه عن حقيقته فأخبر أنه من أمر الله أي مما استأثر بعلمه‏.‏ وعن أبي هريرة‏:‏ لقد مضى النبي صلى الله عليه وسلم وما يعلم الروح، وقد عجزت الأوائل عن إدراك ماهيته بعد إنفاق الأعمار الطويلة على الخوض فيه‏.‏ والحكمة في ذلك تعجيز العقل عن إدراك معرفة مخلوق مجاور له ليدل على أنه عن إدراك خالقه أعجز•
(تفسیر مدارک ج1ص726)
 اکابر صوفیہ رحمہم اللہ تعالیٰ کا یہی مسلک ہے چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ عوارف المعارف کے حوالہ سے سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے:
أنه قال الروح استأثر الله تعالى بعلمه ولم يطلع عليه أحدا من خلقه•
(فتح الباری ج8ص531)
علامہ معین بن صفی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
{قُلْ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي} مما استاثر بہ•
(تفسیر جامع البیان ص 235)
آیت نمبر17:
وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ•
(سورۃ التوبۃ: 101)
علامہ علی بن محمد خازن رحمہ اللہ (م201ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
لا تعلمهم ( يعني أنهم بلغوا في النفاق إلى حيث أنك لا تعلمهم يا محمد مع صفاء خاطرك واطلاعك على الأسرار )
(تفسیر خازن ج2ص276)
 علامہ نسفی رحمہ اللہ (م710ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
‏{‏لاَ تَعْلَمُهُمْ‏}‏ أي يخفون عليك مع فطنتك وصدق فراستك لفرط تنوقهم في تحامي ما يشككك في أمرهم‏.‏ ثم قال ‏{‏نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ‏}‏ أي لا يعلمهم إلا الله ولا يطلع على سرهم غيره، لأنهم يبطنون الكفر في سويداء قلوبهم ويبرزون لك ظاهراً كظاهر المخلصين من المؤمنين•
(تفسیر مدارک ج2 ص 516)
 قاضی بیضاوی رحمہ ا للہ (م685ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
{ لا تعلمهم } لا تعرفهم بأعيانهم { نحن نعلمهم } ونطلع على أسرارهم إن قدروا أن يلبسوا عليك لم يقدروا أن يلبسوا علينا•
(تفسیر بیضاوی ج1ص419)
قریب قریب یہی مطلب علامہ معین بن حنفی رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔
(دیکھیے:تفسیر جامع البیان ص 164)
 شاہ عبدالقادر محدث دہلوی رحمہ اللہ (م1230ھ) اس آیت کی تحت فرماتے ہیں:
”(ترجمہ) اور بعضے مدینہ والے اڑرہے ہیں نفاق پر آ پ ان کو نہیں جانتے ہم کو معلوم ہے۔
(تشریح) اس آیت میں مدینہ کے بعض نہایت گہرے منافقین کے متعلق فرمایا گیاہے کہ ان کی منافقت اتنی گہری ہے کہ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو ان کا پتہ نہیں بس ہم ہی ان کو جانتے ہیں۔“
(موضح القرآن: ص 262)
معلوم ہوا کہ جمیع ماکان ومایکون کا دعوی اور علم غیب کلی کا دعوی ٹوٹ گیا۔
اہل بدعت کے چند اشکالات کے جوابات:
اشکال نمبر1:
جیسے کوئی دوست کے مقابلے میں اس کے دشمن کو ضروری سزا دینی ہوتو دوست کی طرف مخاطب ہوکر اور دشمن کی طرف تہدیدی نظراٹھا کر کہاجاتا ہے کہ تو نہیں جانتا یہ منکر بڑا بے ایمان ہے میں جانتا ہوں۔۔۔الخ
جواب:
یہ قرآن پاک کی تحریف ہے تفسیر نہیں کیونکہ ذمہ دار مفسرین نے بات ہمارے حق میں لکھی ہے بریلوی حضرات کے حق میں بات نہی کی۔ مفسیرین تو لکھ رہے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین کانفاق اور ان کاباطن معلوم نہ تھا جب کہ رضا خانی تفسیرہی جدا ہے۔
اشکال نمبر2:
منافقین کے متعلق قرآن کہتا ہے ” فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ “ کہ آپ ان کے دلوں کو نہیں دیکھتے۔
جواب:
”الذین “ یہ ”فتری “ کا مفعول ہے ”فی قلوبہم“ مفعول نہیں۔ اب معنی یہ ہیں کہ آپ ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جن کے دلوں میں مرض ہے۔ دلوں میں دیکھنے والی تو بات ہی نہیں ہے۔
اشکال نمبر3:
”ولتعرفنہم فی لحن القول“ سے یہ آیت منسوخ ہے یعنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کی باتوں کو پہچان لیتے ہیں۔ اس آیت نے آ کر تمہاری دلیل کو منسوخ کر دیا۔
جواب:
اولاً…… ہماری پیش کردہ آیت آخر میں نازل ہوئی اور آپ کی پیش کردہ آیت پہلے نازل ہوئی تو یہ مقدم ناسخ کیسے بن سکتی ہے۔
ثانیاً…… تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ ان میں منافات نہیں ہے، ا س لیے کہ سورت محمد کی آیت میں پہچان سے مراد ان کے چہروں، علامات اور بات کے انداز سے پہچاننا ہے یہ مطلب نہیں کہ آپ تمام منافقین اور مشکوک لوگوں کو علی وجہ التعیین جانتے ہیں۔
اشکال نمبر4:
سیدنا عبد اللہ بن عباس اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایتیں ہیں کہ آپ علیہ السلام نے منافقوں کا نام لے کر مسجد نبوی سے نکال دیا تھا۔
جواب:
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بات عقائد کی ہے اس میں خبرِ واحد نہیں چل سکتیں بلکہ متواتر روایت چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر ان روایات کو صحیح بھی مان لیا جائے تو مدعا فریق مخالف کا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ان سے تو صرف اتنا ثابت ہو رہا ہے کہ 36 منافقین تھے، اس سے یہ تو ثابت نہیں ہو رہا کہ اس کے علاوہ کوئی اور منافق نہ تھے۔ خطبہ جمعہ کے موقع پر مسجد سے 36 آدمیوں کو نکال دینے سے یہ کیسے لازم آ گیا کہ مدینہ طیبہ میں اور منافق تھا ہی نہیں، کیا یہ بھی ضروری ہے کہ سارے منافق مسجد میں تھے؟!
تیسری بات یہ ہے کہ یہ روایات جرح سے خالی نہیں جیسا کہ عاقل پر مخفی نہیں، یہ دونوں روایتیں متکلم فیہا ہیں۔ تفصیل کے لیے ازالۃ الریب لامام اہل السنۃ والجماعۃ شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
(ص313 تا ص320) کا مطالعہ فرمائیں۔
آیت نمبر18:
عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ•
(سورۃ التوبۃ:43)
علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ (م911ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وكان صلى الله عليه و سلم أذن لجماعة في التخلف باجتهاد منه فنزل عتابا له وقدم العفو تطمينا لقلبه { عفا الله عنك لم أذنت لهم } في التخلف وهلا تركتهم { حتى يتبين لك الذين صدقوا } في العذر { وتعلم الكاذبين } فيه•
(تفسیر جلالین ص160)
علامہ ابو السعود رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قيل لم سارعت إلى الإذن لهم وهلا تأنيت حتى ينجلي الأمر كما هو قضية الحزم•
(تفسیر ابو السعود ج5ص133)
 علامہ نسفی رحمہ اللہ 710ھ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
ومعناه مالك أذنت لهم في القعود عن الغزو حين استأذنوك واعتلّوا لك بعللهم وهلا استأنيت بالإذن‏!‏ ‏•
(تفسیر مدارک ج1ص499)
 علامہ بغوی رحمہ اللہ (م516ھ) اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
قال ابن عباس رضي الله عنه: لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرف المنافقين يومئذ.
( تفسیر بغوی ج2ص297)
یہ آیت سن 9ھ کی ہے کیونکہ غزوہ تبوک اسی سن9ھ میں پیش آیا۔
غزوہ تبوک پر آپ جب جانے لگے تو منافقین نے دیکھا کہ فصل کی کٹائی کا وقت بھی آگیا اور موسم بھی بڑا گرم ہے اور لڑائی مسلح فوجوں سے ہوگئی تو انہوں نے بہانے بنانے اور اجازت مانگنے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ان کے بہانوں میں صادق تصور فرمانے لگے اور اجازت عطا فرمادی تو یہ ایک گونہ عتاب تھا مگر نہایت پیارے الفاظ میں کہ آپ نے ان کے اعذار کے سچ یاجھوٹ واضح ہونے سے پہلے رخصت کیوں دی۔
اشکال:
آپ علیہ السلام نے تو ان کی پردہ پوشی فرمائی تھی ان کو رسوا نہ کیا عتاب تو غلطی پر ہوتا ہے یہاں غلطی کیا تھی؟
جواب:
” حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ “
سے معلوم ہورہا ہے کہ پردہ پوشی والا قول غلط ہے۔
جلالین میں صراحۃً عتاب کا لفظ موجود ہے اور ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس جگہ لکھا ہے کیا تم نے اس سے بہتر عتاب سنا ہے کہ عتاب سے عفو کا پروانہ دیاجائے۔ عتاب تو لغزش اور خطاء اجتہادی پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ مفسرین کرام سے یہ بات ثابت ہوئی۔
آیت نمبر19:
أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ لا يَعْلَمُهُمْ إِلاَّ اللَّهُ •
(سورۃ ابراہیم: 9)
اس آیت کی تفسیر میں علامہ علی بن محمد الخازن رحمہ اللہ( م701ھ) فرماتے ہیں:
وعن عبد الله بن عباس أنه قال : بين إبراهيم وعدنان ثلاثون قرناً لا يعلمهم إلا الله•
( تفسیر خازن ج3ص76)
علامہ بغوی رحمہ اللہ (م516ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وعن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما قال: بين إبراهيم وبين عدنان ثلاثون قرنا لا يعلمهم إلا الله تعالى•
( تفسیر بغوی ج3ص27)
امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ(م911ھ) اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
قال رجل لعلي بن أبي طالب رضي الله عنه: أنا أنسب الناس قال: إنك لا تنسب الناس قال : بلى فقال له علي رضي الله عنه أرأيت قوله تعالى: ( وعادا وثمودا وأصحاب الرس وقرونا بين ذلك كثيرا ) قال : أنا أنسب ذلك الكثير قال : أرأيت قوله : !{ ألم يأتكم نبأ الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم لا يعلمهم إلا الله}! فسكت•
(تفسیر درمنثور ج4ص134)
امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ(604ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وعن ابن عباس : بين عدنان وبين إسماعيل ثلاثون أباً لا يعرفون •
(تفسیر کبیر ص70)
آیت نمبر20:
وَمِنْ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ•
(سورۃ البقرۃ:204)
 علامہ علی بن محمد الخازن رحمہ اللہ اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:
نزلت في الأخنس بن شريق…… وكان يأتي رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) ويجالسه ويظهر الإسلام ويقول : إني لأحبك ويحلف بالله على ذلك وكان رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) يدني مجلسه وكان الأخنس منافقاً فنزل فيه , ومن الناس من يعجبك قوله , أي يروقك وتستحسنه ويعظم في قلبك في الحياة الدنيا•
( تفسیر خازن ص 144)
علامہ بغوی رحمہ اللہ (م516) اس آیت کی تفسیر میں بالکل یہی الفاظ ارشاد فرماتے ہیں۔
(دیکھیے: تفسیر بغوی ص 179)
امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:
وهو الأخنس بن شريق كان منافقا حلو الكلام للنبي صلى الله عليه و سلم يحلف أنه مؤمن به ومحب له فيدني مجلسه فأكذبه الله في ذلك•
( تفسیر جلالین ص30)
علامہ نسفی رحمہ اللہ اس آیت کے تفسیر میں لکھتے ہیں:
{وَمِنْ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا} يروقك ويعظم في قلبك•
(تفسیر نفسی ص 115)
احادیث مبارکہ اور نفی علم غیب
حدیث نمبر1:
عن جابر قا ل سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول قبل أن يموت بشهر تسألوني عن الساعة ؟ وإنما علمها عند الله•
(مشکاۃ المصابیح: باب قرب الساعۃ)
1: ملا علی القاری (م1014) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
وهمزة الإنكار مقدرة أي أتسألوني (عن الساعة) أي القيامة وهي النفخة الأولى أو الثانية (وإنما علمها عند الله) أي لا يعلمها إلا هو•
(مرقاۃ المفاتیح: باب قرب الساعۃ)
2: شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
گفت جابر شنیدم آنحضرت را فرمود پیش از رحلت خود بیک ماہ (تسألوني عن الساعة؟) می پرسید مرا از وقت قیام قیامت (وإنما علمها عند الله) و نیست علم بہ تعیین وقت آں مگر ترو خداوند یعنی از وقوع قیامت کبریٰ پرسید آں خود معلوم من نیست و آنر جز خدائے تعالیٰ نداند•
(اشعۃ اللمعات: ج4 ص377)
حدیث نمبر2:
وعن جابر قال مرفوعاً: قال : لعلي لا أراكم بعد عامي هذا.
(مشکاۃ المصابیح: ج1 ص23)
کہ شائد میں آئندہ سال تمہیں نہ دیکھ سکوں۔
حدیث نمبر3:
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ السَّاعَةِ فَقَالَ { عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ } وَلَكِنْ أُخْبِرُكُمْ بِمَشَارِيطِهَا وَمَا يَكُونُ بَيْنَ يَدَيْهَا إِنَّ بَيْنَ يَدَيْهَا فِتْنَةً وَهَرْجًا•
(مسند احمد: ج5 ص389، تفسیر ابن کثیر: ص248)
حدیث نمبر4:
عن أبي موسى الأشعري قال : سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الساعة وأنا شاهد فقال لا يعلمها إلا الله ولا يجليها لوقتها إلا هو ولكن سأخبركم بمشاريطها ما بين يديها من الفتن والهرج•
(رواہ الطبرانی بحوالہ الدر المنثور: ج3 ص274)
حدیث نمبر5:
عن ابن مسعود رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : لقيت ليلة أسري بي إبراهيم وموسى وعيسى عليهم السلام فتذاكروا أمر الساعة فردوا أمرهم إلى إبراهيم فقال لا علم لي بها فردوا أمرهم إلى موسى فقال : لا علم لي بها فردوا أمرهم إلى عيسى فقال : أما وجبتها فلا يعلم بها أحد إلا الله تعالى•
(تفسیر الدر المنثور: ج4 ص280)
اور امام حاکم کی روایت میں یوں ہے:
فقال عيسى : عهد الله إلي فيما دون وجبتها فلا نعلمها•
(مستدرک الحاکم: ج4 ص488)
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ اس حدیث کو امام احمد کی سند سے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
فهؤلاء أكابر أولي العزم من المرسلين، ليس عندهم علم بوقت الساعة على التعيين•
(تفسیر ابن کثیر: ج4 ص115)
اشکال:
یہ جو انبیاء علیہم السلام نے ایک دوسرے پر ڈالا وہ اس لیے تھا کہ راز فاش نہ ہو۔
جواب:
روایات میں صاف آ رہا ہے کہ ہم نہیں جانتے، ان کے پاس وقت مقررہ کا علم نہیں تو یہ بات کیسے نکل آئی کہ وہ راز فاش نہیں کرنا چاہتے۔ یہ تحریف فی معنی الحدیث ہے۔
حدیث نمبر6:
عن الشعبي قال : لقي عيسى جبريل فقال : السلام عليك يا روح الله قال : وعليك يا روح الله قال : يا جبريل متى الساعة فانتفض جبريل في أجنحته ثم قال : ما المسؤول عنها بأعلم من السائل ثقلت في السموات والأرض لا تأتيكم إلا بغتة•
(تفسیر الدر المنثور: ج3 ص274)
حدیث نمبر7:
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ خَمْسٌ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا اللَّهُ لَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ وَلَا يَعْلَمُ مَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ إِلَّا اللَّهُ وَلَا يَعْلَمُ مَتَى يَأْتِي الْمَطَرُ أَحَدٌ إِلَّا اللَّهُ وَلَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ وَلَا يَعْلَمُ مَتَى تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا اللَّهُ•
(صحیح البخاری: تفسیر سورۃ الرعد)
حدیث نمبر8:
عن سلمة بن الأكوع رضي الله تعالى عنه قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في قبة حمراء اذ جاء رجل على فرس فقال : من أنت قال أنا رسول الله قال : متى الساعة قال : غيب وما يعلم الغيب إلا الله قال : ما في بطن فرسي قال : غيب وما يعلم الغيب إلا الله : فمتى تمطر قال : غيب وما يعلم الغيب إلا اللہ•
(الدر المنثور: ج5 ص326)
حدیث نمبر9:
عن الربيع بنت معوذ رضي الله تعالى عنها قالت : دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم صبيحة عرسي وعندي جاريتان تغنيان وتقولان : وفينا نبي يعلم ما في غد فقال : أما هذا فلا تقولاه لا يعلم ما في غد إلا الله•
(الدر المنثور: ج5 ص326)
حدیث نمبر10:
عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتى المقبرة فقال * السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون وددت أنا قد رأينا إخواننا قالوا أو لسنا إخوانك يا رسول الله قال أنتم أصحابي وإخواننا الذين لم يأتوا بعد فقالوا كيف تعرف من لم يأت بعد من أمتك يا رسول الله فقال أرأيت لو أن رجلا له خيل غر محجلة بين ظهري خيل دهم بهم ألا يعرف خيله قالوا بلى يا رسول الله قال فإنهم يأتون غرا محجلين من الوضوء وأنا فرطهم على الحوض ألا ليذادن رجال عن حوضي كما يذاد البعير الضال أناديهم ألا هلم فيقال إنهم قد بدلوا بعدك فأقول سحقا سحقا•
(صحیح مسلم: باب استحباب إطالة الغرة والتحجيل في الوضوء)
حدیث نمبر11:
عن حذيفة رضي الله عنه قال : كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه و سلم فقال إني لا أدري ما بقائي فيكم فاقتدوا باللذين من بعدي وأشار إلى أبي بكر و عمر•
(جامع الترمذی: ج2 ص207، مشکاۃ: ج2 ص560، ابن ماجۃ: ص60)
حدیث نمبر12:
(حدیث میں ہے)قیامت کے دن اللہ مجھے ایسی تعریفیں الہام کرے گا جو مجھے معلوم نہیں۔
(صحیح البخاری: ج2 ص118)
حدیث نمبر13:
فتحِ خیبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو دعوت میں ایک یہودیہ عورت نے زہر دیا۔ کچھ اثرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر چلے گئے۔ بہرحال کھانے نے بول کر بتا دیا کہ مجھ میں زہر ہے۔ آپ نے ساتھیوں کو روک دیا۔ ایک صحابی بشر بن براء نے کچھ کھا لیا تو ان کی وفات واقع ہو گئی۔
(مشکاۃ: ج2 ص542)
دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے وقت فرمایا: میں زہر کے علاوہ کوئی اور سبب نہیں سمجھتا، اس وقت میری رگِ جان کٹتی معلوم ہوتی ہے۔
(مستدرک الحاکم: ج3 ص219)
حدیث نمبر14:
ایک آدمی نے آپ کے گھر میں سوراخ سے اندر جھانکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تو دیکھ رہا ہے تو میں ضرور تیری آنکھ میں چونکا مارتا۔
(صحیح البخاری: ج2 ص922، صحیح مسلم: ج2 ص213)
حدیث نمبر15:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے قیامت کے دن کہا جائے گا:
انک لا تدری ما احدثوا بعدک•
(صحیح البخاری: ج2 ص966)
حدیث نمبر16:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میں گھر کی طرف جاتا ہوں اور بستر پر کھجور پڑی ہوئی پاتا ہوں، اس لیے رکھ دیتا ہوں کہ کہیں صدقہ کی نہ ہو۔
(صحیح البخاری، صحیح مسلم، مشکاۃ المصابیح)
حدیث نمبر17:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں ہے کہ یہ (گوہ) ان امتوں میں سے ہے جو مسخ کی گئی ہیں۔
(صحیح مسلم: ج2 ص151)
حدیث نمبر18:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیامت کے بارے میں فرمایا:
ما المسئول عنہا باعلم من السائل•
(صحیح البخاری، صحیح مسلم، مشکاۃ المصابیح)
 
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور نفی علم غیب
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما:
هذه الخمسة لا يعلمها ملك مقرب ولا نبي مصطفى فمن ادعى أنه يعلم شيئاً من هذه الأمور فإنه كفر بالقرآن لأنه خالفه•
(تفسیر الخازن: ج3 ص475)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا:
وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ ثُمَّ قَرَأَتْ { وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا }•
(صحیح البخاری: ج2 ص720)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ:
أوتي نبيكم صلى الله عليه و سلم علم كل شيء سوى هذه الخمس•
(فتح الباری: ج8 ص653)
حضرات فقہاء کرام اور نفی علم غیب
1: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ
ورأى المنصور في منامة صورة ملك الموت وسأله عن مدة عمره فأشار بأصابعه الخمس فعبرها المعبرون بخمس سنوات وبخمسة أشهر وبخمسة أيام فقال أبو حنيفة رضي الله عنه : هو إشارة إلى هذه الآية ، فإن هذه العلوم الخمسة لا يعلمها إلا الله•
(تفسیر المدارک: ج2 ص324)
2: امام قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ
أشياء استأثر الله بهن، فلم يُطلع عليهن مَلَكا مقربًا، ولا نبيا مرسلا { إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ } ، فلا يدري أحد من الناس متى تقوم الساعة، في أي سنة أو في أي شهر، أو ليل أو نهار، { وَيُنزلُ الْغَيْثَ } ، فلا يعلم أحد متى ينزل الغيث، ليلا أو نهارًا، { وَيَعْلَمُ مَا فِي الأرْحَامِ } ، فلا يعلم أحد ما في الأرحام، أذكر أم أنثى، أحمر أو أسود، وما هو، { وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا } ، أخير أم شر، ولا تدري يا ابن آدم متى تموت؟ لعلك الميت غدا، لعلك المصاب غدا•
(تفسیر ابن کثیر: ج5 ص124)
3: امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ
مَا كَانَ فِي الْقُرْآنِ {مَا أَدْرَاكَ} فَقَدْ أَعْلَمَهُ وَمَا قَالَ {وَمَا يُدْرِيكَ} فَإِنَّهُ لَمْ يُعْلِمْهُ•
(صحیح البخاری: ج1 ص270)
4: امام شافعی رحمہ اللہ
ان اللہ استاثر بعلم الغیب•
(کتاب الام: ج2 ص203)
5: امام مجاہد بن جبر
وهي (3) مفاتيح الغيب التي قال الله تعالى: { وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لا يَعْلَمُهَا إِلا هُوَ }•
(تفسیر ابن کثیر: ج5 ص124)
6: حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ
الروح استأثر الله تعالى بعلمه ولم يطلع عليه أحدا من خلقه•
(فتح الباری: ج8 ص513)
فتاویٰ جات فقہاء کرام اور نفی علم غیب
[1]: امام حسن بن منصور المعروف بقاضی خان فرماتے ہیں:
رجل تزوج امراۃ بغیر شہود فقال الرجل والمراۃ خدارا وپیغمبر راہ گواہ کردیم قالوا یکون کفر لانہ اعتقد ان الرسول صلی اللہ علیہ و سلم یعلم الغیب وھو ماکان لعلم الغیب حین کان فی الاحیاء فکیف بعد الموت•
(فتاوی قاضی خان ج4ص468،469)
[2]: علامہ عبد الرشید ابو الفتح ظہیر الدین الولوالجی الحنفی تحریر فرماتے ہیں:
تزوج امراۃ و لم یطہر شاہد فقال: تزوجتک بشہادۃ اللہ و رسولہ کفر لانہ یعتقد ان النبی صلی اللہ علیہ و سلم یعلم الغیب اذ لا شہادۃ لمن لا علم لہ بہ و من اعتقد ہذا کفر•
(فتاویٰ ولوالجیہ بحوالہ ازالۃ الریب)
[3]: ابو حنیفہ ثانی علامہ ابن جنیم المصری رقمطراز ہیں:
وفي الْخَانِيَّةِ وَالْخُلَاصَةِ لو تَزَوَّجَ بِشَهَادَةِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ لَا يَنْعَقِدُ وَيَكْفُرُ لِاعْتِقَادِهِ أَنَّ النبي يَعْلَمُ الْغَيْبَ•
(البحر الرائق: ج2 ص155 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
[4]: فتاویٰ عالمگیری میں موجود ہے:
رَجُلٌ تَزَوَّجَ امْرَأَةً ولم يَحْضُرْ الشُّهُودُ قال خدايرا وَرَسُول راكواه كردم أو قال خداي راوفرشتكان راكواه كردم كَفَرَ وَلَوْ قال فَشَتّه دَسَّتْ رَاسَتْ راكواه كردم وفرشته دَسَّتْ جُبْ راكواه كردم لَا يَكْفُرُ•
(فتاویٰ عالمگیریہ: ج2 ص288 قدیمی کتب خانہ)
[5]: علامہ ابن الہمام فرماتے ہیں:
علم المغیبات الا ما اعلمہ اللہ تعالیٰ بہ احیانا و ذکر الحنفیۃ تصریحا بالتکفیر باعتقاد ان النبی صلی اللہ علیہ و سلم یعلم الغیب لمعارضۃ قولہ تعالی قل لا یعلم من فی السموت والارض الغیب الااللہ کذا فی المامرۃ•
(المسامرۃ شرح المسایرۃ فی العقائد: ص197، ص198)
[6]: ملا علی القاری فرماتے ہیں:
ثم اعلم ان الانبیاء علیہم الصلاۃ و السلام لم یعلموا المغیبات من الاشیاء الا ما اعلمہم اللہ تعالیٰ احیانا و ذکر الحنفیۃ تصریحا بالتکفیر باعتقاد ان النبی صلی اللہ علیہ و سلم یعلم الغیب لمعارضۃ قولہ تعالی قل لا یعلم من فی السموت والارض الغیب الااللہ کذا فی المامرۃ•
(شرح فقہ اکبر ص151)
[7]: علامہ محمد بن محمد بن شہاب بن یوسف الکردری البزازی لکھتے ہیں:
تزوجہا بشہادۃ اللہ و رسولہ علیہ الصلاۃ و السلام لا ینعقد و یخاف علیہ الکفر لانہ یوہم انہ الصلاۃ و السلام یعلم الغیب•
(فتاویٰ بزازیہ: ج1 ص107، 108 قدیمی کتب خانہ)

[8]: امام عالم بن علائی الحنفی لکھتے ہیں: تزوجہا بشہادۃ اللہ و رسولہ لا یجوز و عن شیخ الاسلام الامام ابی القاسم الصفار انہ قال: یکفر من فعلہ ہذا لانہ اعتقد ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب• (فتاویٰ تاتارخانیہ: ج2 ص453، 454 قدیمی کتب خانہ) [9]: قاضی ثناء اللہ پانی پتی لکھتے ہیں: اگر کسے بدون شہود نکاح کرد و گفت خدا و رسول گواہ کردم یا فرشتہ را گواہ کردم کافر شود۔ (ما لا بد منہ: 176) نیز ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: اگر کوئی کہے خدا اور رسول اس پر گواہ ہیں وہ کافر ہو جاتا ہے۔ (ارشاد الطالبین: ص20) [10]: ملا علی القاری لکھتے ہیں: و من اعتقد تسویۃ علم اللہ و رسولہ یکفر اجماعا کما لا یخفیٰ• (الموضوعات الکبیر: ص162 بحث حرف الیاء آخر الحروف فصل 13) [11]: علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: تزوج بشہادۃ اللہ و رسولہ لم یجز بل قیل یکفر ( قيل يكفر ) لأنه اعتقد أن رسول الله عالم الغيب• (رد المحتار علی الدر المختار: ص106 کتاب النکاح) [12]: خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے: رجل تزوج و لم یحضر شاہدا فقال خدائرا و رسول خدائرا گواہ کردم و فرشتگانرا گواہ کردم یکفر فی الفتاویٰ لأنه یعتقد أن الرسول و الملک عالم الغيب• (ج4 ص385 کتاب الحظر و الاباحۃ) [13]: علامہ عبد الحئی لکھنوی لکھتے ہیں: در فتاویٰ می نویسند: تزوجہا بلا شہود و قال خدائی و رسول خداو فرشتگان را گواہ کردم یکفر لانہ اعتقد ان الرسول و الملک یعلمان الغیب• (مجموعۃ الفتاویٰ: ص331 کتاب الکراہیۃ) مسئلہ علم غیب پر دلائل اہل بدعت اور ان کے جوابات دلیل نمبر1: قرآن پاک میں قرآ ن ہی کے متعلق ہے تبیانا لکل شیئ۔ یعنی ہر شے کا اس میں مفصل بیان ہے الخ جواب نمبر 1: آپ کا استدلال درست نہیں کیونکہ یہ قطی الدلالۃ نہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ لفظ کل ہمیشہ عام ہو کر استعمال نہیں ہوتا بلکہ خاص معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جواب نمبر2: اگر واقعۃ قرآن ہر شے کا بیان ہے تو فقہاء کرام کو اجماع وقیاس واجتہاد کی کیا ضرورت پیش آئی۔ جواب نمبر3: قرآن مقدس میں ہے لم نقصص علیک۔ یعنی بعض انبیاء کے قصے ہم نے آپ کو بیان نہیں کیے۔ کیا وہ ہر شے سے خارج ہیں یا داخل ہیں اگر داخل ہیں تو قرآن کی بات درست نہیں رہتی اور یہ بات سچی ہے تو کل شے سے مراد ہر ایک شے کا علم نہیں۔ توپھر کل شی عام نہ رہا اسی طرح علم شعر اور ملکہ شعر گوئی اور علم غیر نافع کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ یہ کل شے میں داخل ہیں یا نہیں اگر ہیں تو یہ علوم سرکار طیبہ ﷺکی شان کے لائق نہیں اور اگر نہیں تو کل شیٔ عام نہ رہا بلکہ خاص ہوگیا۔ جواب نمبر 4: قرآن پاک میں علی کل جبل بھی ہے اور اس سے مراد چند پہاڑ ہیں نہ کہ سارے عالم کے۔ اوتیت من کل شیٔ بھی ہے اور اس سے مراد وہی سامان ہیں جو ان کے مناسب تھا۔ کیا ملکہ بلقیس کو نبوت ورسالت ملک سیلمان ، مردانہ خصوصیات مثلا داڑھی وغیرہ مل گئی تھی ؟ اگر نہیں تو آپ کا اصول ٹوٹ گیا کہ لفظ کل عام ہی ہوتا ہے۔ جواب نمبر 5: اب مطلب سنئے کہ کل شے کا اس آیت میں مطلب ہے کہ قرآن پاک میں امور دین کی ہر ایسی چیز کا بیان کر دیا گیا جسکی لوگوں کو حاجت پڑتی ہے دیکھئے تفاسیر جواب نمبر 6: یہی دلیل شیعہ حضرات نے اصول کافی ص140 پر ائمہ کے علم ماکان وما یکون جاننے پر دی ہے تو پتہ چلا عقیدہ بھی انہی سے لیا دلائل بھی انہی سے۔ دلیل نمبر 2: وعلم آدم الاسمآء کلھا ۔ القرآن . جب آدم علیہ السلام کو تمام ناموں اور ہر شے کا علم دیا تو سرکار طیبہ ﷺ کو بطریق اولی ملا ہو گا۔ جواب نمبر 1: عقائد قیاس سے ثابت نہیں ہوتے۔ جواب نمبر 2: دلیل قطعی الدلالۃ نہیں کیونکہ ناموں کی بات ہے نہ کہ ہر ہر ذرے کا علم۔ جواب نمبر 3: اگر سیدنا آدم علیہ السلام کو علم غیب مل چکا ہوتا شیطان کیسے آپ کو پھسلاتا۔ جواب نمبر 4: صاف مطلب یہ ہے کہ آپ کو ہر شے کے نام بتلا دیے گئے۔ دلیل نمبر 3: عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا۔ القرآن۔ اللہ اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے پسندیدہ رسولوں کے۔ تو معلوم ہوا کہ سب علم عطا فرما دیا۔ جواب نمبر 1: یہ قطعی الدلالۃ نہیں۔ جواب نمبر 2: یہ آیت مکی ہے جب کہ آ پ کے نزدیک ہر شے کاعلم تو نزول قرآن پر مکمل ہوادلیل پہلے کی دعوی بعد کا۔ جواب نمبر 3: اسی آیت سے پہلے والی آیت میں علم قیامت سے سرکار طیبہ ﷺ نفی فرما رہے تو یہ عموم آپ کا قرآن نے ہی توڑ دیا ہے۔ جواب نمبر 4: اس سے مراد بعض غیب کی خبریں ہیں جس سے اہل السنۃ کو انکار نہیں۔ دلیل نمبر 4: وما ھو علی الغیب بضنین• (القرآن) آپ غیب بتانے پر بخیل نہیں۔ معلوم ہوا کہ تمام غیب ہی جانتے ہیں۔ جواب نمبر 1: یہ آپ کے دعوی پر قطعی الدلالۃ نہیں ہے۔ جواب نمبر 2: یہ آیت مکی ہے جو کہ آپ کے دعوی پر دلیل نہیں بن سکتی۔ جواب نمبر 3: بعض مفسرین نے ھو سے مراد قرآن لیا ہے دیکھیے تفسیر عزیزی ،تفسیر حقانی۔ تو قطعی الدلالۃ نہیں لہذا اس مسٔلہ میں مفید نہیں۔ جواب نمبر 4: ابن کثیر میں ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن نبی پاک ﷺ پر اتارا آپ اس قرآن کے سنانے پر بخل نہیں کرتے تھے۔ جواب نمبر5: مقصد یہ ہے کہ جو اللہ تعالی نے آپ کو علم دیا آپ نے نہیں چھپایا بلکہ امت کو بتلا دیا ہے اور یہ علم وہی ہے جو آپکی شان کے لائق ہے۔ جواب نمبر 6: بضنین کو بعض نے بظنین بھی پڑھاہے جسکا معنی تفسیر عزیزی میں ہے اے لوگوں جب نبی پاک ﷺ پر تم چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھوٹ کی تہمت نہیں لگا سکتے تو اتنی بڑی بات وحی غیب یعنی نبوت پر کس طرح جھوٹ کی تہمت لگاتے ہو۔ معلو م ہوا کہ یہ بریلوی دعوی کیلئے قطعی الدلالۃ نہیں ہے اس لیے مفید نہیں۔ دلیل نمبر 5: وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب۔ القرآن۔ یعنی اللہ تعالی اپنے رسولوں کو غیب پر مطلع کرتا ہے۔ جواب نمبر 1: یہ آپ پرغزوہ احد میں نازل ہوئی اور آپ کا دعوی کلی کا ،وفات سے کچھ پہلے پر ہے تو پہلے 3 ھجری میں دعوی کیسے ثابت کر رہے ہو۔ جواب نمبر 2: اس سے مفسرین نے بعض غیب کی بات کی ہے نہ کہ کلی وجمیع کی ،اس سے بھی تمہارا دعوی ثابت نہیں ہوا۔ جواب نمبر 3: یہ اطلاع علی الغیب ہے اس پر جھگڑا ہی نہیں۔ جھگڑا تو علم غیب پر ہے۔ دلیل نمبر 6: وعلمک ما لم تکن تعلم۔ القرآن۔ ما عام ہے وہی ہے جو لہ مافی السموت وما فی الارض میں ہے۔ جوب نمبر1: یہ آیت تو 4ہجری میں نازل ہوئی جو آپ کے دعوی کیلئے مفید نہیں۔ کمامر جواب نمبر 2: اگر ما عام ہے تو یعلمکم مالم تکونوا تعلمون میں بھی عام ہوا۔ پھر تو سب صحابہ کرام اور آپ ﷺ کو علم برابر ہوا۔ اور عام لوگوں کو بھی فرمایا۔ وعلمکم مالم تعلموا انتم ولا آباؤکم۔ پھر تو سب ہی نبی پاک ﷺ کے برابر علم والے جا ٹھہرے۔ اگر ما وہی ہے جو لہ مافی السموت میں ہے تو پھر تم نے سرکار طیبہ ﷺ برابر کردیا خدا کے۔ حالانکہ خدا کی مثال تو لانی ہی نہیں چاہیئے مخلوق کیلئے۔ جواب نمبر 3: بعضوں نے اس سے مراد علم غیب لیا ہے مگر قیل کے ساتھ جو ضعیف کی طرف اشارہ ہے۔ جواب نمبر 4: اس سے مراد قرآن وسنت کا علم اور بعض امور غیبہ اور مخفی کئی اشیاء کا آپ علیہ السلام کو علم عطا کیا گیا۔ تو اس سے آپ کادعوی ثابت نہیں۔ جواب نمبر 5: اس آیت کی مختلف تفسریں ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ قطعی الدالالۃ نہیں۔ دلیل نمبر 7: علمہ البیان۔ القرآن۔ آپ کو ماکان وما یکون کا علم دیا۔ جواب نمبر 1: اول تو یہ قطعی الدلالۃ نہیں۔ جواب نمبر 2: یہ آیت مکی ہے جو آپ کو مفید نہیں۔ کما مر جواب نمبر 3: کئی حضرات نے جنس انسان مراد لیے ہیں نہ کہ نبی پاک ﷺ ہی مراد لیے ہیں جیسے جلالین وغیرہ جواب نمبر4: اگر آپ کی بات درست ہو تو تب بھی مراد اس میں سے جمیع ما کان وما یکون نہیں۔ بلکہ آپ علیہ السلام نے ہونے والی اور گذری ہوئی اخبار وواقعات میں سے کتنوں کو بیان کیا ہے۔ مگر بریلوی مسلک اس سے ثابت نہیں ہوتا۔ جواب نمبر 5: بریلوی مسلک کے معتمد علیہ بزرگ مولانا کرم دین دبیر فرماتے ہیں: علم ما کا ن وما یکو ن خاصہ ذات باری تعالی ہے۔ (آفتاب ہدایت ص185) دلیل نمبر 8: قام فینا رسول اللہ ﷺ مقاما ماترک شیاء یکون فی مقامہ ذلک الی قیام الساعۃ الا حدث بہ• (متفق علیہ) یعنی آپ علیہ السلام نے ایک مرتبہ ہم میں کھڑے ہو کر قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا سب بیا ن کر دیا کسی کو نہیں چھوڑا۔ ایک روایت یوں بھی ہے: فاخبرنا بما ھو کائن الی یوم القیامۃ• (مسلم شریف) یعنی جو کچھ قیا مت تک ہونے والا تھا سب بیا ن فرمادیا۔ جواب نمبر 1: یہ خبر واحد ہیں جو کہ عقیدہ کے اثبات میں مفید نہیں۔ جواب نمبر 2: سیدنا حذیفہ ؓ سے پہلی روایت مروی ہے اور دوسری روایت کے الفاظ جیسی مسلم شریف میں ہے: فاخبرنی رسول اللہ ﷺ بما ھو کائن الی ان تقوم الساعۃ• اور وہ خود ہی اس کی وضاحت فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار ﷺ سے کوئی ایسی بات نہیں جو نہ پوچھی ہو یعنی جو باتیں وہ پوچھتے رہے آپ بتاتے رہے تو معلوم ہوا کہ اس سے مراد وہی باتیں ہیں جو انہو ں نے سرکار طیبہ ﷺ سے پوچھیں تھیں اور وہ تھیں کیا ؟ اسی روایت کے آخر سے پتہ چلتا ہے کہ وہ فتنوں کے بارے میں تھیں۔ کیونکہ سیدنا حذیفہؓ فرماتے ہیں: میں وہ فتنہ نہیں پوچھ سکا جو اہل مدینہ کو مدینہ سے نکال دیے گا۔ پتہ چلتا ہے کہ وہ گفتگو فتنوں کے بارے میں تھی۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان فتنوں کی بھی کئی باتیں بیان نہیں فرمائی۔ جواب نمبر 3: علامہ ابن خلدون کہتے ہیں ان جیسی سب احادیث کامطلب یہ کہ فتنوں اور علامات قیامت کو بیان کرتی ہیں۔ (مقدمہ ص333) جواب نمبر 4: کیا بریلوی حضرات کا ضمیر گوارا کرتا ہے کہ نبی پاک علیہ السلام نے ہر زمانے کے انسانوں کی تعداد ،کافروں مسلمانوں، حیوانوں، جانوروں، چرند، پرند ،کیڑے ،مکوڑے ،سب کی گنتی ،تفصیل ،مکمل حالات بتائے ہوں۔ جواب نمبر 5: ان احادیث کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے امور دین ،کلیات دین اہم فتنے کئی واقعات وغیرہا بیان فرمائے ہوں اس سے بریلویوں کا دعوی ثابت نہیں۔ جواب نمبر 6: ملا علی قاری فرماتے ہیں مراد دینی باتیں اور وہ باتیں ہیں جو ضروری ہیں۔ (مرقاۃ ) دلیل نمبر9: رب تبارک وتعالی نے آپ علیہ السلام کی پشت پر دست قدرت رکھا تو آپ فرماتے ہیں: فتجلی لی کل شیء• مجھ پر ہر شے روشن ہو گئی۔ جواب نمبر 1: یہ خبر واحد ہے جو عقائد میں مفید نہیں۔ جواب نمبر 2: جتنے وقت تک آپ کی پشت مبارک پر دست قدرت رہا ہر شے آپ اجمالی صورت میں منکشف ہو گئی جب دست اٹھا کیا گیا تو وہ کیفیت بھی جاتی رہی۔ جواب نمبر 3: کیا خداتعالی کی حقیقت بھی آپ پر منکشف ہو گئی اگر نہیں تو عموم ٹوٹ گیا اگر ہاں تو اس پر دلیل چاہیے۔ جواب نمبر 4: روایت کے آخر میں ہے: فعلمت مافی السموت والارض• وہ اشیاء جو آسمانوں اور زمینوں سے وراء ہیں وہ بھی اس سے خارج ہو گئی ہیں۔ اور لفظ ”ما“ پر بحث پیچھے ہم کر چکے ہیں اور لفظ ”کل“ پر بھی پیچھے بحث ہو چکی ہے۔ دلیل نمبر 10: ان اللہ رفع لی الدنیا فانا انظر الیھا والی ما ھو کائن فیھا الی یو م القیامۃ کانما انظر الی کفی ھذہ• یعنی میں دنیا کو اور جو کچھ اس میں ہونے والا ہے اسے ایسے دیکھ رہا ہوں جیسے اپنی اس ہتھیلی کو۔ جواب نمبر 1: یہ روایت صحیح نہیں۔ اسکی سند میں ضعف ہے۔ (تفصیل کیلئے دیکھیے ازالۃ الریب535) جواب نمبر 2: خبر واحد سے یہ عقیدہ ثابت نہیں ہو سکتا۔ جواب نمبر 3: یہ قطعی الدلالۃ بھی نہیں کیونکہ ”ما“ عموم اور خصوص دونوں کیلئے ہو سکتا ہے۔ رد علمِ غیب پر کچھ دلائل بریلوی اکابر کے قلم سے [1]: مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں: جو علم عطاء ہو وہ غیب ہی نہیں کہا جاتا غیب صرف ذاتی کو کہتے ہیں۔ (جاءالحق ص97) معلوم ہوا کہ علم غیب صرف خدا کے علم کو کہیں گے۔ [2]: پیر مہر علی شاہ صاحب لکھتے ہیں: وہ خبر جو پیغمبر ﷺ دیتے ہیں وہ یاتو بذریعہ وحی حاصل ہوتی ہے یا اللہ تعالی اس کا علم ضروری نبی کے اندر پیدا فرمادیتے ہیں یا نبی کی حس پر حوادث کا انکشاف فرما دیتے ہیں تو یہ علم غیب میں داخل نہیں۔ (اعلاء کلمۃاللہ ص114) [3]: مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی لکھتے ہیں: علم غیب خدا کی سوا کوئی نہیں جانتا اور رسول وہی غیب جانتے ہیں جو اللہ بتائے۔ (جاءالحق ص122) [4]: بریلوی علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں: اللہ تعالی کے غیر کیلئے علم غِیب کا اطلاق کرنا اس لیے جائز نہیں ہے کیونکہ اس سے متبادر یہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ علم کا تعلق ابتداء ہے تو یہ قرآن مجید کے خلاف ہو جائے گا لیکن جب اس کو مقید کیا جائے اور یوں کہا جائے کہ اسکو اللہ تعالی نے غیب کی خبردی ہے یا اس کو غیب پر مطلع فرمایا تو پھر اسمیں کوئی حرج نہیں۔ (نعمۃ الباری ج1ص273) موصوف ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: علامہ نووی ،علامہ کرمانی ،علامہ عسقلانی،علامہ عینی ؒ،اور دیگر علماء نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ نبی ﷺ جو بہ تقاضا بشریت غیب کاعلم نہیں تھا۔ (شرح مسلم م5ص108) [6]: مولانا عبد الحی لکھنوی ؒ (جن کو بریلوی اکابر اپنا عالم کہتے ہیں دیکھئے تنبیہات ص124) لکھتے ہیں: علم غیب صفت مختصہ ہے اللہ تعالی کی جیسا کہ کتب عقائد میں تصریح موجود ہے۔ (مجموعۃ الفتاوی ج1ص46ایچ ایم سعید) [7]: عبد الحکیم شرف قادری لکھتے ہیں: بغیر کسی شک وشبہ کے ہمارا پختہ عقیدہ یہ ہے کہ غیب کا علم اللہ کے ساتھ خاص ہے نبی اکرم ﷺ یا کسی دوسری مقبول ہستی کی زبان پر جس غیب کا اظہار ہوا ہے یا تو وحی کے ذریعے ہے یاالہام سے نبی اکرم ﷺ نے غیب کی جتنی خبریں دی ہیں وہ اللہ تعالی کے بتانے سے اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی نبوت ورسالت کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں۔ (اسلامی عقائد ص113مصدقہ ،شاہ احمدنورانی ،عبدالقیوم ہزاروی ،عبدالستار نیازی، سید احمد رضوی)

Download PDF File