صفت مختار کل خاصۂ خداوندی

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
صفت مختار کل خاصۂ خداوندی
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
اس روایت پر غور کیجیے کہ حضرت ابو امامہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو منافقوں اور یہودیوں نے باتیں بنائیں۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے سنیے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں:
بِئْسَ الْمَيِّتُ أَبُو أُمَامَةَ، لَيَهُودُ وَمُنَافِقِي الْعَرَبِ يَقُولُونَ: لَوْ كَانَ نَبِيًّا لَمْ يَمُتْ صَاحِبُهُ، وَلَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي وَلَا لِصَاحِبِي مِنْ اللَّهِ شَيْئًا.
(سیرت ابن ھشام: ج1 ص445 مکتبہ رحمانیہ لاہور. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا مہاجرین اور انصار میں بھائی چارہ قائم کرنا)
ترجمہ:ابو امامہ کا فوت ہونا یہودیوں کے لیے اور منافقین عرب کے لیے برا ہو، وہ کہتے ہیں کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نبی ہوتے تو ان کا ساتھی نہ مرتا حالانکہ میں اللہ کی مشیت کے مقابلے میں اپنے لیے اور اپنے ساتھی کے لیے کسی شے کا مالک نہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین اور یہود کی ذہنیت تھی کہ نبی وہ ہو گا جو موت و حیات کا بھی مالک ہو۔ تو یہ ان کی سوچ معلوم ہوتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو ہر شے پر قدرت و اختیار ہے، چاہے تکوینی ہو یا تشریعی۔
چونکہ یہ مسئلہ بریلوی اعتقادات سے ہے اس لیے بریلوی اس کو اسلاف واکابر کی عقائد کی کتب سے ثابت کریں اور اگر انہیں بات قبول نہیں اور قرآن وسنت سے اس کو ثابت کرنا چاہتے تو پھر ہماری طرف سے مطالبہ یہ ہے کہ اس پر دلائل قطعیہ کو پیش کیاجائے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بریلوی اکابر نے مختارِکل کے منکر کو گستاخ نبوت ، نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کو عیب لگانے والا، اہل باطل اور ابلیس لعین کا مذہب قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
[۱]: اویسی صاحب لکھتے ہیں:
انبیاء علیہم السلام کا معجزات اور اولیاء کرام کا کرامات کے اظہار پر اختیار اہل حق کا مذہب ہے اور اس سے انکار اہل باطل اور اس انکار کی بنیاد ابلیس نے رکھی ہے۔
( حضور کےمعجزات واختیارات ص5رسائل اویسی ج نمبر3)
ایک جگہ یوں لکھتے ہیں :
آپ کی لاعلمی، عدمِ اختیار ثابت کرنا جاہلوں یا نبوت کے گستاخوں کاکام ہے۔
(لاعلمی میں علم ص 15 رسائل اویسیہ ج نمبر4)
[۲]: مفتی امین صاحب فیصل آبادی لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات میں عیب تلاش کرنا کہ نبی کو فلاں چیز کا علم نہیں فلاں چیز کا علم نہیں فلاں چیز کا اختیار نہیں۔
( دوجہاں کی نعمتیں ص 39)
اور گستاخی نبوت اور نبی کو عیب لگانا کفر ہےیہ مسلمات بریلویہ میں سے ہیں۔ اس لیے بریلوی صاف لکھ دیں گے کہ مختار کل کاعقیدہ ایمان ہے اور اس کا انکار کفر ہے اور اس پر دلائل صرف قطعی لائے جائیں گے۔
بریلوی دعویٰ جات
[1]: بریلویوں کے ”مفتی“ محمد امجد علی اعظمی لکھتے ہیں:
رزق وخیر کی ہر قسم کی عطائیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں…… احکام تشریعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ میں کر دیے گئے ہیں کہ جس پرجو چاہیں حرام فرمادیں اور جس کے لیے جو چاہیں حلال کر دیں اور جو فرض چاہیں معاف فرمادیں۔
(بہار شریعت: ص83 تا 85- مکتبہ المدینہ)
[2]: حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر قسم کی حاجت روا فرما سکتے ہیں دنیا وآخرت کی مرادیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں ہیں۔
( برکات الامداد: ص 8)
[3]: مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں:
خالق کل نے آپ کو مالک بنا دیا۔
(رسائل نعیمیہ)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
دنیا دآخرت کی ہر چیز کے مالک حضور ہیں سب کچھ ان سے مانگو ،عزت مانگو ، ایمان مانگو، جنت مانگو ، اللہ کی رحمت مانگو۔
(ص146)
[4]: احکامِ شریعت حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو سپرد ہیں،جو بات چاہیں واجب کر دیں جو چاہیں ناجائز فرما دیں۔
(الامن والعلی : ص215)
معلوم ہوگیا کہ بریلویوں کے نزدیک تمام اختیارات کے مالک آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
تنقیحاتِ دعویٰ
تنقیح نمبر1:
یہ خدا کی خدائی میں شریک ٹھہرانا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں:
کلی اختیارات مکمل علم غیب پر خدائی دارومدار ہے۔
( مواعظ نعیمہ حصہ دوم ص 268)
تنقیح نمبر2:
بریلوی حضرات اپنے اس مسئلہ مختار کل میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیارات کو خدا کے اختیار سے بڑھ کر مانتے ہیں جو یقیناً غلط اقدام ہے۔ مثلاً
خدا جس کو پکڑے
 
چھڑائے

محمد

محمد جو پکڑیں نہیں

چھوٹ سکتا

(رسائل نعیمہ ص 164)
تنقیح نمبر3:
اگر تمام اختیارات سونپ دیے گئے ہیں تو یہ بتائیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابوطالب کو جنت میں لے جائیں گے یا نہیں؟ اگر لے جائیں گے تو فاضل بریلوی نے ”شرح المطالب فی مبحث ایمان ابی طالب“ کیوں لکھی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ کافر ہے اور کافر جہنم میں ہی جائےگا۔ اگر نہیں لے جائیں گے تو پھر اختیار کلی کا انکار ہوا۔
تنقیح نمبر4:
مختار کل کا عقیدہ بریلوی حضرات نے شیعوں سے لیا ہے۔
 شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
”شیعہ کہتے ہیں : ان اللہ لم یزل بالوحدانیۃ ثم خلق محمدا و علیا و فاطمۃ و الحسن و الحسین فمکثوا الف دہر فخلق الاشیاء و اشہدہم خلقہا و اجری طاعتہم عنہا و فوض امورہم الیہم یحلون ما یشاءون و یحرمون ما یشاءون•“
آگے لکھتے ہیں:
”امام جعفر صادق سے روایت کلینی نے نقل کی ہے: فما فوضہ اللہ تعالیٰ الی رسولہ صلی اللہ علیہ و سلم فقد فوضہ الینا“
(تحفہ اثنا عشریہ: ص170)
 مولانا کرم الدین دبیر لکھتے ہیں:
یہ مسلم امر ہے کہ موت وحیات خدا کے اختیار میں ہے کسی انسان کو اس کا اختیار نہیں دیا گیا لیکن یہ شیعہ کا اعتقاد ہے کہ ائمہ اہل بیت کو موت و حیات پر کلی اختیار تھا۔
(آفتاب ہدایت ص 169)
 شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے شیعہ کے فرقہ مفوضہ کا عقیدہ یوں لکھا ہے :
جو مفوضہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تدبیر خلق کا مسئلہ آئمہ کے سپرد کر دیا ہے۔
(غنیۃ الطالبین ج1ص182)
تنقیح نمبر5:
اس عقیدہ کے قائل ہونے سے بہت ساری نصوص کا انکار ہوتا ہے۔
 مولوی محمدصادق نقشبندی صاحب لکھتے ہیں[جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے سارے دروازے سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازے کے بند کروا دیے تو]:
سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ حضور حضرت رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور یہ کہتے تھے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے اپنے چچا کو باہر پھینکا اور چچا کے بیٹے کو اندر بلایا تو آپ نے فرمایا چچا میں مامور ہوں مجھے اس امر کا اختیار نہیں۔
( تاریخ مدینہ ص 114)
 نقی علی خان کہتے ہیں:
آپ نے چاہاکہ ابوطالب کی بخشش کے واسطے دعا کروں، حکم آیا : پیغمبر اور مسلمانوں کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لیے اگرچہ وہ ان کے رشتہ دار ہوں استغفار کریں۔ اے عزیز وہ حاکم ہے محکوم نہیں غالب ہے مغلوب نہیں مالک ہے تابعدار نہیں اگر تیری دعا قبول نہ فرماوے تجھے ناخوشی اور غصے یا شکایت اور شکوے کی مجال کب ہے جب خاصوں کے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ جب چاہتے ہیں عطا کر تے ہیں جب چاہتے ہیں منع فرما دیتے ہیں تو تو کس شمار میں ہے کہ اپنی بات پر اصرار کرتا ہے۔
(الکلام الاوضح ص 308)
 مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں :
آپ علیہ السلام نے فرمایا میں پہاڑ کو سونا بنانے یا خلق اشیاء پر قدر ت نہیں رکھتا۔
(مواعظ نعیمیہ ص262 حصہ دوم)
 مفتی احمد یار نعیمی ایک آیت
(”قُلْ لَوْ أَنَّ عِنْدِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقُضِيَ الْأَمْرُ
“ کہ اگر عذاب میرے اختیار میں ہوتا تو کب کا تمہارا قصہ چکا دیا گیا ہوتا) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وہ عذاب جس میں تم جلدی کر رہے ہو میرے قبضے واختیار میں ہوتا تو اب تک میرا تمہار فیصلہ ہو چکا ہوتا۔
(تفسیر نعیمی ج7 ص 507 مکتبہ اسلامیہ)
 مفتی مظہر اللہ شاہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
تم کو عذاب الٰہی سے ڈرایا جاتا ہے تو ڈھیٹ بن کر اس عذاب کی جلدی کرتے ہو وہ عذاب میرے اختیار میں نہیں وہ اللہ تعالیٰ کےاختیار میں ہے۔
(تفسیر مظہر القرآن ج1 ص385)
 علامہ سعیدی صاحب اس کی تفسیر میں یوں لکھتے ہیں:
مجھے اس عذاب کے نازل کرنے یا اس کو مقدم اور موخر کرنے پر قدرت نہیں ہے اور اگر بالفرض یہ معاملہ میرے اختیار میں ہوتا تو تو میں تمہارے مطالبہ عذاب کو لا چکا ہوتا۔
( تبیان القرآن ج3ص495)
 ابو الحسنا ت قادری لکھتے ہیں:
آدم علیہ السلام نے فرمایا حکم الٰہی کے خلاف نہ ہوگا مجھے ترمیم کا کوئی اختیار نہیں۔
(اوراق غم ص7)
 مولوی نعیم الدین مرادآبادی صاحب (سورت یونس آیت نمبر15 کے حاشیہ نمبر35 میں) لکھتے ہیں:
میں اس (قرآن) میں تغیر تبدل کمی بیشی نہیں کر سکتا۔
(خزائن الفرقان)
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے ان (والدہ ) کے لیے استغفار کی اجازت چاہی تو مجھے نہ دی گئی۔
(خزائن العرفان ص 265)
 سعیدی صاحب لکھتے ہیں:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کلام الٰہی کا نزول یا پتھر کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کپڑے لے کر بھاگنا یہ معجزات ہیں لیکن ان اظہار میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اختیار کا دخل نہ تھا۔
(مقالات سعیدی ص 53)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
امور غیر عادیہ میں انبیاء اور اولیاء پر وحی والہام کی کیفیت کا عروض ان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔
(مقالاتِ سعیدی ص 260)
ان سب حوالہ جات سے معلوم ہوگیا کہ مختار کل کا عقیدہ غلط ہے۔
تنقیح نمبر6:
اس دعویٰ سے سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاوں کا انکار لازم آتا ہے، مثلاً:
1: اے علی! میں نے اللہ عزوجل سے تین بار سوال کیا کہ تجھے تقدیم دے، اللہ تعالی ٰ نے نہ مانا مگر ابوبکر کا مقدم رکھنا۔
(فتاویٰ رضویہ: ج15ص686)
2: میں نے اپنے رب سے تین سوال کیے، ان میں صرف دو تو قبول فرمائے گئے۔ ایک تو یہ تھا کہ میری امت کوقحط تمام سے ہلاک نہ فرمائے یہ قبول ہوا۔ ایک یہ تھا کہ انہیں غرق سے عذاب نہ فرمائے یہ بھی قبول ہوا۔ تیسرا سوال یہ تھا کہ ان میں باہم جنگ وجدال نہ ہو یہ قبول نہیں ہوا۔ (خزائن العرفان ص 175 حاشیہ سورت انعام آیت نمبر 68)
تنقیح نمبر7:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شافع محشر ہونے کا بھی انکار لازم آتا ہے۔
احادیث طیبہ میں ہے کہ آپ شافع محشر ہیں اگر تمام اختیارات کامالک آپ کوٹھہرایا جائے تو پھر شفاعت کی ضرورت ہی نہیں رہتی کیونکہ شفاعت کا معنی ہے گزارش کرنا درخواست کرنا۔ خدا تعالیٰ کے مختار کل ہونے پر سب متفق ہیں وہ کبھی کسی کے سامنے عرض وگزارش نہیں کرتا اگر تم سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کامختار کل ہونا مانو گے گزارش وعرض سے انکار کرنے کی راہ نکلے گی جس سے صاف شفاعت کے عقیدے کا انکار نکلتا ہے۔
فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
یہ محتاجی ہی منشا شفاعت ہے جہاں محتاجی نہ ہو خود اپنے حکم سے جو چا ہے کر دیا جائے۔ شفاعت کی کیا حاجت ہو۔
(فتاویٰ افریقہ ص 116 مسئلہ نمبر 82)
لفظ ”مختار کل“ کی تنقیح
اگر ”مختار کل“ کامطلب یہ ہے کہ ساری کائنات میں پسندیدہ شخصیت ومنتخب اور چنے ہوئے سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو اس میں کسی مسلمان کو اختلاف نہیں اور اگر ”مختار کل“ کامعنی یہ ہے کہ تمام قسم کے اختیارات خدا نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیے ہیں چاہے وہ تکوینی ہوں یا تشریعی ہوں تو یہ بات اسلام سے متصادم ہے اور باقی اس بات میں بھی کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ کئی باتوں میں خدا نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت وپسند کو پوچھاہے:
1: اگر آپ چاہیں تو ان طائف والوں کو ہلاک کر دیاجائے
2: اگر آپ چاہیں تو ہم ان پہاڑوں کو سونا بنا کر آپ کے ساتھ کر دیں
3: اگر آپ چاہیں تو ہم آپ پر موت طاری نہیں کرتے بلکہ مزید آپ رہنا چاہیں تو دنیا میں تو بھی رہ لیں۔
(وغیرہ الاما شاء اللہ)
اس قسم کی کئی باتیں گنی وشمار کی جا سکتی ہیں مگر اسے مختار کل کا عقیدہ نہیں کہا جائےگا۔
مسئلہ مختار کل کی نفی پر دلائل از قرآن کریم
1: إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللَّهَ•
(سورۃ القصص:56)
ابو طالب کے اسلام نہ لانے پر آپ کو پریشانی تھی تو یہ آیت نازل ہوئی۔
2: قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي•
(سورۃ یونس: 15)
کافروں نے کہا کہ یہ قرآن بدلیں تو جواب میں یہ کہا گیا۔
3: مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ•
(سورۃ توبۃ: 14)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو طالب کے لیے دعائے مغفرت کرنے سے روک دیا گیا۔
4: قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ•
(سورۃ المومنون: 88)
5: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ•
(سورۃ التحریم:1)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر شہد کو حرام کو لیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔
6: لَيْسَ لَكَ مِنْ الأَمْرِ شَيْءٌ•
(سورۃ اٰل عمران :128)
آپ علیہ السلام نے بعض لوگوں کے لیے دعائے مغفرت فرمائی تھی تو یہ آیت نازل ہوئی۔
7: وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ•
(سورۃ یوسف: 103)
8: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا كَاشِفَ لَهُ إِلاَّ هُوَ•
(سورۃ الانعام: 17)
9: مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرٰى حَتّٰى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ•
(سورۃ الانفال: 67)
بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔
10: عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ•
(سورہ التوبۃ: 43)
غزوہ تبوک کے موقع پر منافقین نے حیلے بہانے بناکر اجاز ت لی تو یہ آیت نازل ہوئی۔
11: إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ•
(سورۃ التوبۃ: 80)
[منافق کا جنازہ پڑھنے پر یوں فرمایا گیا]
12: لا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرّاً وَلا رَشَداً•
(سورۃ الجن :21)
احادیث طیبات
حدیث نمبر1:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک اعرابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ننھے بچوں سے پیار کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھنے لگا کہ کیا آپ بچوں سے )ازرہ ِ شفقت( پیار کرتے ہیں ؟ ہم تو ایسا نہیں کرتے ، اس دیہاتی کے اس سوال پر جناب ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَوَأَمْلِكُ لَكَ أَنْ نَزَعَ اللَّهُ مِنْ قَلْبِكَ الرَّحْمَةَ•
(صحیح البخاری: ج2ص887، صحیح مسلم ج2ص254)
یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے تیرے دل سے شفقت نکال دی ہے تو کیا میں تیرے لیے اس کا مالک ہوں؟!
حدیث نمبر2:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم نازل ہوا کہ آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو خدا کے عذاب سے ڈرائیے تو آپ نے اپنے تمام خاندان اور برادری کو جمع کرکے فرمایا: اے خاندان قریش ! اپنے آپ کو جہنم کے عذاب سے (یعنی توحید ورسالت وغیرہ عقائد قبول کر کے) پچا لو میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے تمہیں نہیں بچا سکتا اے خاندان بنو عبد مناف ، اپنی جانوں کو عذاب سے بچا لو میں تمہیں خدا کے عذاب سے نہیں بچاسکتا۔ اے عباس بن عبدالمطلب اور میری پھوپھی صفیہ اپنے بچاو کا انتظام فرما لو میں تمہیں خدا کی گرفت نہیں بچا سکتا۔ آگے ارشاد ہوتا ہے:
يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا•
اے (میری لختِ جگر)فاطمہ! جس کا میں مالک ہوں (مالی، ضروریاتِ زندگی وغیرہ) وہ مانگ تو میں تجھے دے دوں گا لیکن اللہ تعالیٰ کی گرفت سے میں تجھے نہیں بچا سکتا۔
(صحیح البخاری ج2ص702 ، صحیح مسلم ج1ص114، ابو عوانہ ج1ص193، مسند احمد ج2ص87)
حدیث نمبر3:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرات ازواج مطہرات رضی ا للہ عنہما میں برابر ی کرتےتھے اور یہ فرمایا کرتے تھے:
اللهم ! هذه قسمي فيما أملك فلا تؤاخذني فيما تملك ولا أملك•
قال الترمذی: یعنی انما الحب و المودۃ•
یعنی اے اللہ جس ظاہری تقسیم کا میں مالک ہوں میں کو اد ا کر چکا اور جس چیز کاتو مالک ہے اور میں مالک نہیں ( یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی محبت) تو اس میں میرا مواخذہ نہ کرنا۔
(سنن الترمذی ج1ص134، سنن ابی داود: ج1ص290 ، سنن النسائی: ج2ص78، ابن ماجہ ج1ص144، مشکوٰۃ ج1ص279، مستدرک الحاکم: ج2ص178)
اس روایت کو امام حاکم رحمہ اللہ اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے صحیح علی شرط مسلم قرار دیا۔
(مستدرک الحاکم: کتاب النکاح- ح2761)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اسناد صحیح ورجالہ کلھم ثقات •
(ابن کثیر ج3ص511)
حدیث نمبر4:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس خلاصہ یہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق عامۃ المسلمین (مثلاً غنیمت وغیرہ) میں خیانت کرنے سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ جس نے اونٹ ،بکری ، گھوڑے ، کپڑے وغیرہ میں خیانت(چوری) کی تو یہ تمام اشیاء قیامت کے دن اس کی گردن پر ہوں گی اور اپنی اپنی آواز ظاہرکرتی ہوں گی اور ایسا خائن وہاں کہے گا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي فَأَقُولُ لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ•
اے اللہ کے رسول میری مدد کیجیے اور میں کہوں گا میں تجھے تبلیغ کر چکا تھا۔
(بخاری ج2ص342، مسلم ج2ص122)
حدیث نمبر5:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ بیبیاں تھیں؛ حضرت خدیجہ ، حضرت زینب ام المساکین، حضرت عائشہ، حضرت جویریہ، حضرت حفصہ ، حضرت ام سلمہ، حضرت زینب بنت حجش ، حضرت ام حبیبہ ، حضرت صفیہ ، حصرت سودہ، حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنھن۔
(مرقات ج4ص42)
اور دو لونڈیاں تھیں؛ ایک حضرت ماریہ قبطیہ جن کے بطن سے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے۔
(مستدرک ج4ص38)
اور دوسری حضرت ریحانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما تھیں۔
(مستدرک ج4ص41)
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا آپ کی زندگی میں وفات پا گئی تھیں بقیہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن آپ کے بعد زندہ رہیں ان کے بارے میں آپ کو کافی پریشانی تھی آپ نے فرمایا :
إن أمركن مما يهمني بعدي الحدیث•
(جامع الترمذی ج2ص216 وقال حدیث حسن صحیح غریب، موارد الظماٰن: ص547)
کہ بے شک تمہارا معاملہ مجھے اپنے بعد پریشان کر رہا ہے۔
اس عقیدے کے رد پر اکابر امت کی تصریحات
[۱]: علامہ سبکی لکھتے ہیں:
و النبی صلی اللہ علیہ و سلم اعرف الخلق باللہ تعالیٰ فلم یکن یسال ربہ تفسیر حکم من الاحکام الشرعیۃ و لا یفعل فیہا الا ما یؤمر بہ•
(شفاء السقام: ص177)
[۲]: امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
معجزہ رسول کا اختیاری فعل نہیں نہ رسول کو اس کے ظاہر کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے۔
(مجربات غزالی ص 299)
[۳]: شیخ شرف الدین یحییٰ منیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
انبیاء علیہم السلام اور اور اولیاء سب کا یہ حال ہوا کہ انہوں نے بہت سی چیزیں چاہیں کہ ہو جائیں لیکن نہ ہوئیں اور بہت سے ایسے کام جنہیں انہوں نے چاہا کہ وہ نہیں ہوں وہ ہوگئے۔
(مکتبوبات دو صدی مکتوب نمبر 67،60)
[۴]: شیخ عبدالواحد بلگرامی فرماتے ہیں:
نوح علیہ السلام نے سینکڑوں برس تک اپنے بیٹے کے لیے کوشش کی اور اہتمام کلی کیا کہ کسی طرح وہ مسلمان ہوجائے مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ حضرت ابر اہیم علیہ السلام نے اپنے چچا کے لیے بہتری کی شش کی کہ وہ بت پرستی سے باز رہیں اور مسلمان ہوجائیں مگر کچھ نہ ہوا۔ مصطفیٰ علیہ السلام نے ابو طالب کےلیے کتنی کوشش فرمائی مگر مفید اور سود مند نہ ہوئی۔
(سبع سنابل اردو ص 98)
[۵]: شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
معجزہ اللہ کا فعل ہے نہ کہ رسول کا کیونکہ قانون قدرت کو توڑنا انسانی اختیار سے با ہر ہے۔
( تکمیل ایمان ص 111)
[۶]: شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ عالم قضا وقدر ہے جو انبیاء اور اولیاء کے لیے کمر شکن ہے بہت دفعہ جو مانگتے ہیں نہیں پاتے۔
(مکتوبات قدسیہ ص 716 اردو)
[۷]: قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
اولیاء کرام معدوم کو موجود کرنے یا موجود کومعدوم کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اس لیے پیدا کر نے، معدوم کرنے، رزق دینے ، اولاد، دینے، بلا دور کرنے اور مرض سے شفا دینے وغیرہ کی نسبت ان سے مدد طلب کرنا کفر ہے۔
(ارشاد الطالبین)
[۸]: علامہ سبکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
و من ہذا قول القائل للنبی صلی اللہ علیہ و سلم اسئلک مرافقتک فی الجنۃ، قال: اعنی علی نفسک بکثرۃ السجود و الآثار فی ذالک کثیرۃ ایضاً و لا یقصد الناس بسوالہم الا کونہ صلی اللہ علیہ سلم سبباً و شافعاً•
(شفاء السقام: ص 175 باب نمبر 8)
[۹]: شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
مذہب صحیح آنست کہ امر تشریح مفوض بہ پیغمبر نمی باشد زیرا کہ منصب رسالت و ایلچی گری نہ نیابت خدا و نہ شرکت در کارخانہ خدائے آنچہ کہ خدائے تعالیٰ حلال و حرام فرماید آنرا رسول تبلیغ می کند و بس از طرف خود اختیار ندارد.
(تحفہ اثنا عشریہ ص 170 باب نمبر 4)
[۱۰]: قاضی سجاد حسین رحمہ اللہ نے”شفاء السقام “ کا ترجمہ ” زیارت خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم “ کے نام سے لکھا۔ یہ ترجمہ انہوں نے شاہ ابو الحسن زید فاروقی صاحب کےحکم پر لکھا۔ اس کا مقدمہ شاہ ابو الحسن زید فاروقی صاحب نے لکھا۔ چنانچہ وہ مقدمہ میں لکھتے ہیں:
” عاجز(فاروقی صاحب) قاضی صاحب کے پاس گیا اور ان سے کہا ”بحول اللہ وقوتہ“ آپ اس کام کو سر انجام دیں اور پھر ترجمہ اس عاجز کے حوالہ کریں تاکہ یہ مبارک رسالہ ذخراً للآخرۃ حضرت ابو الخیر اکادمی سے یہ عاجز طبع کرائے اور یہ بھی آپ سے کہا کہ آپ اس مبارک ترجمہ کا نام اصل نام کا نصفِ آخر ”زیادہ خیر الانام“ رکھیں۔
(مقدمہ زیارت خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم: ص6)
موصوف آگے لکھتے ہیں:
حضرت قاضی
 
سے
 
کہہ دو

زید تم

رب کعبہ خوب

لکھی ہے کتاب

(مقدمہ زیارت خیر الانام: ص 16)
چونکہ فریقِ مخالف کے ہاں یہ مسلم بزرگ ہیں اس لیے ہم نے ان کی بات کی ہے۔ اب مقصد کی طرف آئیے۔
اس رسالہ میں ہے: بیہقی کے دلائل النبوۃ میں مذکور ہے کہ عثمان بن ابی وقاص نےکہا: میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کے معاملہ میں یعنی قوت حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اس شیطان کا اثر ہے جس کو ” خنزب“ کہتے ہیں، اے عثمان میرے قریب آ۔ میں قریب ہوا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک میر ے سینہ پر رکھ دیا جس کی ٹھندک میں نے کمر تک محسوس کی پھر فرمایا اے شیطان عثمان کے سینہ سے نکل جا الخ
یہ واقعہ نقل کر نے کے بعد لکھتے ہیں:
اب یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صورۃً طلب ہے ورنہ دراصل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سفارشی کی ہے اب اس کو خواہ توسل کہو یا تشفع کہو یا تجوہ یا توجہ سب کے یہی معنی ہیں۔
(¬زیارت خیرالانام ترجمہ شفاء القسام ص 123 مکتبہ جمال کرم )
ایک بات قابل تشریح ہے کہ آج کل اہل بدعت حضرات کا یہی کہنا ہے کہ ڈپو تو حکومت سے لیتے ہیں اور باقی لوگ ڈپو سے لیتے ہیں اسی طرح انبیاء اور اولیاء خدا سے لیتے ہیں اورہم ان سے لیتے ہیں ،جیسے کوئی براہ راست حکومت سے لےتو حکومت ناراض ہوتی ہے کہ ہمارے ڈپو سے لو ہم سے کیوں لیتے ہو اسی طرح خدا سے مانگنے کی بجائے اولیاء سے مانگو ورنہ خدا ناراض ہوگا۔
اس بات کی تفصیل کے لیے ”پیر نصیر الدین وہابی ہے؟“ اور”توحید اورشرک“ از مفتی امین صاحب اور ”توحید اور شرک“ از مولوی محمد راشد آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ یہ کس درجہ غلو اور اندھا پن ہے۔
علامہ سبکی رحمہ اللہ کے فرمان کامطلب یہ ہے کہ ظاہری وسیلہ جناب کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنے ہیں اور نکالنے والا خود اللہ جل مجدہ تھا یعنی آپ نے فرمایا :شیطان نکل جا ،بطور سبب کے فرمایا خدا کے ہی حکم سے فرمایا تو نکالنے والا خدا کے علاوہ کسی اور کو نہ سمجھنا چاہیے۔
مسئلہ مختار کل پر اہل بدعت کے دلائل کے جوابات
دلیل نمبر1:
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ•
(سورۃ الاعراف :157)
جواب:
یہ آیت سورۃ اعراف کی ہے جو مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔
( تفسیر الاتقان علامہ سیوطی ج1ص18)
اگراس آیت کا مطلب یہ ہوتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حلال اور حرام کرنے کا اختیار اس آیت سے مل چکا ہےتو آپ ہی فیصلہ کریں کہ سورۃ تحریم جو مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی اس میں اس کے خلاف کیوں ارشاد ہوتا ہے کہ :
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ•
(سورۃ التحریم:1)
اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ مکرمہ میں حلال اور حرام کرنے کا حق دیا جا چکا ہوتا اور اس آیت سے اس کاثبوت ہوتا جیسا کہ فریق مخالف کا زعم باطل ہے تو محال ہے کہ مدینہ میں یہ حکم نازل ہوتا کہ آپ نے وہ چیزیں کیوں حرام کر دیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کی ہیں؟! قرآن کریم میں تو قطعاً تعارض اور تخالف کا احتمال ہی نہیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ بہت سی مختلف احادیث کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں:
والصحیح ان ذلک کا ن فی تحریمہ العسل•
(تفسیرج4ص387)
باقی آیت میں تحلیل اور تحریم کی جو نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے توا س کا صحیح محمل یہی ہے کہ آپ نے ان اشیاء کی حلت اور اور حرمت کو بیان کیا ہے۔ روایت آتی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو جہل کی لڑکی حضرت جویریہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اطلاع ہوئی تو آپ نے ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں :
وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالًا وَلَا أُحِلُّ حَرَامًا وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ أَبَدًا•
( بخاری جلد1ص438 ومسلم ج2ص290)
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوم (لہسن )کھا کر مسجد میں آنے سے منع فرمایا تو لوگوں کو یہ وہم ہوا کہ شاید تھوم حرام ہوچکا ہے۔ آپ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے ارشاد فرمایا:
أيها الناس إنه ليس بي تحريم ما أحل الله لي ولكنها شجرة أكره ريحها• (صحیح مسلم ج1ص309)
دوسری روایت میں ہے: أيها الناس إنه والله ما لي أن أحرم ما أحل الله ولكني أكره ريحه.
( ابو عوانہ ج1ص412)
دلیل نمبر2:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ•
(سورۃ الاحزاب:36 )
جواب:
اس آیت سے تو صرف اتنا ہی ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ جو فیصلہ کر لے اور اس کا رسول برحق صلی اللہ علیہ وسلم اس فیصلہ کو بیان اور ظاہر کرتے ہیں تواس معاملہ میں کسی مومن اور مومنہ کو لب کشائی کا حق نہیں پہنچتا۔
دلیل نمبر3:
وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ•
(سورۃ التوبۃ: 74)
جواب:
صحیح البخاری (ج2ص620) میں روایت ہے: ”فاغناکم اللہ بی“ کہ اللہ نے تمہیں میری وجہ سے مالدار کر دیا یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے وجود مبارک کی برکت اور مال غنیمت و صدقات کے تقسیم ہونے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ذریعہ ہیں اس لیے آپ کی طرف نسبت کی گئی یعنی یہ نسبت ظاہری ہے۔ باقی آیت میں منافقوں کے متعلق بتایا گیا کہ ان کومال غنیمت جو خدا نے دیا بذریعہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم دیا ہے۔ اس کا بھی ان منافقین نےحیا نہ کیا اور اسلام کے خلاف محاذ بنا لیا۔
دلیل نمبر4:
وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ •
(سورۃ التوبۃ:58)
جواب:
یہ آیت اپنے مدلول پر خود ظاہر ہے کہ صدقات اور غنیمت کے مال کی تقسیم پر دنیا پر ست اور خود غرض منافقین نے اعتراض کیا تھا، اگر ان کو حصہ مل جاتا تو اعتراض نہ کرتے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو کیوں نہیں دیتے۔ تو اللہ تعالیٰ ان کی تردید فرماتا ہے کہ اگر وہ منافق اس پر راضی ہوجاتے جو اللہ تعالیٰ نے حقیقۃً اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت اور صدقات کی تقسیم پر ان کو دیا تھا تویہ ان کے لیے بہتر ہوتا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فرمانبردار ہوجاتے اور اگر اس وقت ان کو پورا حصہ نہ مل سکا تھا تو یہ کہہ کر تسلی کر لیتے کہ آئندہ بھی اللہ تعالیٰ سے توقع اور امید ہے کہ کسی غنیمت کے موقع پر ہمیں بہت کچھ دے گا جس کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم فرمائیں گے اور ہم کو بھی دیں گے۔ الغرض اس آیت میں صدقات (وغیرھا) کی تصریح موجود ہے اس سے یہ ثابت کرنا کہ دنیا کی ہر چیز جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیتے ہیں یا یہ دینا مافوق الاسباب طریق پر تھا( جومتنازع فیہ ہے) بالکل غلط ہے۔
دلیل نمبر5:
وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللَّهَ رَمٰى.
(سورۃ انفال:17)
جواب اول :
اگر اس آیت کے دوسرے ٹکڑے سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا ہونا ثابت ہوتا ہے تو اول حصہ سے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا خدا ہونا بھی ثابت ہوگا کیونکہ ارشاد ہوتا ہے کہ تم نے دشمنوں کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے قتل کیا ہے اور ظاہر ہے کہ جنگ بدر وغِیرہ میں کافروں کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ، حضرت علی ، حضرت عمر رضی اللہ عنہم وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہی نے قتل کیا تھا لہذا وہ سارے خدا ہوئے؟بتاؤ اب فرق کیا رہا؟
جواب دوم:
انسان کے کام چونکہ عالم اسباب میں ایک خاص قوت اور طاقت سے ظاہر ہوتے ہیں اگر انسان کی طاقت سے زیادہ کام جو عام طور پر اسباب میں انسان سے نہیں ہوا کرتا تو ایسے کام میں اللہ تعالی ٰ کے فعل کا خاص دخل ہوتا ہے۔ چونکہ جنگ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کام یہ تھا کہ ایک مٹھی بھر کر دشمنوں کی طرف پھینک دیں اس خاک کو مٹھی کو نزدیک اور سامنے اور پیچھے دائیں بائیں غرض ہر آدمی کی آنکھ میں ڈالنا محض اللہ کی قدرت سے تھا۔ جس طرح تین سو تیرہ کی تعداد میں بے سرو سامان صحابہ کا ہزار مسلح کافروں پر غالب آجانا انسان کی طاقت سے باہر ہے مگر خدا کے لیے کوئی مشکل نہیں۔
دلیل نمبر6:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا•
(سورۃالحشر:7)
جواب:
حدیث شریف میں ہے:
ذروني ما تركتم . فإنما هلك من كان قبلكم بسؤالهم واختلافهم على أنبيائهم . فإذا أمرتكم بشيء فخذوا منه ما استطعتم .
(ابن ماجہ ص2، مسند احمد ج2ص355)
یہ حدیث مسند احمد ( ج2ص313،475،482،508)میں متعدد الفاظ کے ساتھ مروی ہے کسی میں”اذا امرتکم بامر فاتمروا“ آتا ہے کسی میں ”فاتبعوا“ اور کسی میں ”فدعوہ“ اور کسی میں ”ذروہ“ وغیرہ کے الفاظ ہیں ان عام روایات میں اور امر ونہی کو ایک دوسرے کے مقابل میں بیان کیا گیا ہے اور پھر میں ایتمار اور اتباع کا حکم دیاگیا ہے اور استطاعت کی قید لگائی ہے۔ الغرض احادیث وآیت سے واضح ہے کہ دینے اور منع کرنے سے امور شرعی مراد ہیں نہ کہ تکوینی جیسا کہ فریق مخالف نے سمجھا ہے۔
دلیل نمبر7:
انما انا قاسم واللہ یعطی•
(مشکوٰۃ المصابیح: ص32)
جواب:
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ خبر واحد ہے جو کہ عقائد قطعیہ میں نہیں چلتی۔
علامہ طیبی رحمہ اللہ نے شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے آپ پر من جانب اللہ جو کچھ نازل ہوتا تھا اس کو آپ وحی الٰہی کے مطابق لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اور یہ بات بھی ذہن میں رہے اس میں غنائم بھی داخل ہیں۔
شرح جامع الصغیر میں علامہ عبدالروف مناوی لکھتے ہیں :
المراد أنا أقسم العلم بينكم والله يعطي الفهم•
(فیض القدیر للمناوی: ج2 ص724)
یعنی علم میں بانٹتا ہوں اور فہم خدا جس کو چاہتاہے دیتا ہے۔
اگر یہ مراد لیا جائے کہ کہ سب کچھ ہی حضور دیتے ہیں اور بانٹتے ہیں تو پھر سنیے:
 حضرت خولہ بنت حکیم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی اگر طائف فتح ہو تو آپ مجھ کو فلاں عورت کا زیور دے دیجیئے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر خدا تعالیٰ اس کی اجازت نہ دے تو پھر میں کیا کر سکتا ہوں۔
(الا صابۃ: ج8ص70)
 مشکوٰۃ شریف (ص 225) میں روایت موجود ہے اللہ نے تمہارے درمیان اسی طرح خود اخلاق تقسیم کر دئیے ہیں جس طرح کہ اس نے تمہارے درمیان رزق تقسیم کر دئیے ہیں اور اللہ دنیا اس کو بھی دیتا ہے جس سے محبت کرتا ہے اور اس کو بھی دیتا ہے جس سے محبت نہیں کرتا۔
 ایک روایت میں ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اسی دن اس نے رحمت اور شفقت کے 100 حصے متعین کیے ان سو حصوں میں اللہ تعالیٰ نے ایک حصہ رحمت کا تمام مخلوق میں خود تقسیم فرمایا۔
(مستدرک حاکم ج4 ص 247، مشکوٰۃ شریف ص 207)
 خداتعالیٰ خود فرماتے ہیں:
نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا•
(سورۃ الزخرف: 32)
ترجمہ: ہم ہی نے مخلوق کے درمیان دنیا کی زندگی میں معیشت تقسیم کی ہے۔
دلیل نمبر8:
فضالہ بن عبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پانچوں نمازوں کی حفاظت کرنا۔ میں نے کہا: حضرت میں تو دنیا کے کام کاج میں مبتلا رہتا ہوں، شاید مجھ سے پانچ نمازوں کی حفاظ نہ ہو سکے۔ آپ نے فرمایا ،پھر صبح اور عصر کی نماز کی پوری پابندی کرنا۔
(سنن ابی داؤد: ج1ص61)
جواب:
پہلی بات…… یہ ہے کہ یہ خبر واحد ہے جو کہ عقیدہ قطعیہ کے لیے مفید نہیں۔
دوسری بات …… یہ ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی داود بن ابی ہند ہیں ان کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان کی حدیث کی سند میں اختلاف ہے۔
(تہذیب التہذیب: ج8ص299)
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
” وہ کثیر الاضطراب اور کثیر الخلاف تھا یعنی دیگر روایات کی مخالفت کرتا تھا اسانید اور متون دونوں میں۔ “
(تہذیب ج3ص304)
تیسری بات …… یہ ہےکہ چونکہ یہ زیادہ موکد ہیں اس لیے ان کی تاکید فرمانا مقصود ہے۔
چوتھی بات…… یہ ہے کہ نمازوں پر پابندی اور اہتمام تو خود قرآن پاک میں موجود ہے کہ نمازوں کی حفاظت کرو خاص کر درمیانی نماز کی۔
مقصود یہ تھا کہ جب یہ مشکل نمازیں پڑھے گا تو آسان بدرجہ اولیٰ پڑھے گا اس لیے موکد اور خاص اہتمام والی نمازوں کا ذکر کیا۔
دلیل نمبر9:
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوکر اس شرط پر مسلمان ہوا کہ میں صرف دو نمازیں پڑھوں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قبول فرمالیا تھا، فریق مخالف کہتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ آپ مختارِ کل تھے۔ یہ حدیث مسند احمد ج5 ص25 ص 363 اور طبقات ابن سعد ج7 ص 56 قسم اول میں مذکور ہے۔
الجواب:
جس روایت میں راوی ہے یہ کہے کہ ”عن رجل من الصحابہ“ یا ”عمن سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ (یا عن رجل منھم) تو ایسی سند اور حدیث قابل احتجاج نہیں تاوقتیکہ وہ راوی اس کانام نہ بتلائے اور جب تک کہ اس کا صحابی ہونا معلوم نہ ہوجائے اس کی بات توجہ اور التفات کے قابل نہیں ہے۔ کئی محدثین نے ”عن رجل من الصحابہ “ کی سند پر کلام کیا ہے اور سند کو مجہول کہا ہے۔
(دیکھیے دل کا سرور ص 140)
اس روایت کا حال بھی یہی ہے۔ ایسی حدیث سے عقیدہ ثابت کرنا محل غور ہے باقی اس کامفہوم یہ ہے کہ وہ اسلام لے آئیں پھر نماز بھی پوری ہوجائےگی۔ جیسے کہ بعض لوگ اسلام اس شرط پر لائے کہ ہم زکوٰہ نہیں دیں اور جہاد نہ کریں گے تو آپ نے فرمایا یہ جب مسلمان ہوگئےتو زکوٰۃ بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں گے۔
(البدایہ والنہایہ ج5ص30)
بعض لوگ مسلمان ہوئے اس شرط پر کہ ہم عشاء کی نماز نہیں پڑھیں گے کیونکہ اس وقت دودھ نکالتے ہیں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ان شاء اللہ تم دودھ بھی نکالو گے اور عشاء کی نماز بھی پڑھو گے۔
(مجمع الزوائد ج1ص294)
دلیل نمبر10:
بعض حضرات وہ حدیث پیش کیا کرتے ہیں جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف تحریم مکہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تحریم مدینہ کی نسبت آئی ہے ”ان ابراہیم حرم مکۃ“ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم کر دیا ”وانی حرمت المدینۃ“ اور میں نے مدینہ کو حرم بنادیا ہے۔
جواب:
صحیح البخاری (ج1ص247) اورصحیح مسلم (ج1ص437 )میں حدیث موجود ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ•
اسی طرح صحیح البخاری ( ج1ص251) اور صحیح مسلم (ج1ص442) میں حدیث ہے :
حُرِّمَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْ الْمَدِينَةِ عَلَى لِسَانِي•
باقی شیخ دھلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اسناد تحریم بابراہیم علیہ السلام از جہت آں باشد کہ وے رسانید واعلام کر دحکم الہی زیرا کہ حاکم بشرائع واحکام خدا تعالیٰ است حکم وے قدیم است انبیاء علیہم السلام رسانند آں احکام اند.
(اشعۃ اللمعات ج2ص178)
دلیل نمبر11:
صحاح ستہ میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم مکہ کے درختوں اور کانٹوں کی نسبت فرمایا کہ ان کو کاٹنا حرام ہے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ”اذخر“ ( ایک قسم کی گھاس ہے) کو مستثنیٰ قرار دینے کی درخواست چنانچہ آپ نے اس کو مستثنیٰ کر دیا۔ مخالفین کا کہنا ہے اگر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختار مطلق نہ تھے تو آپ نے اذخر کو کیوں مستثنیٰ کیا؟ اس سے معلوم ہواکہ آپ مختار کل تھے۔
جواب:
 قرآن پاک میں ہے:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى • إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى•
(سورۃ النجم:3، 4)
یعنی آپ خدا سے وحی پاک احکام بیان فرماتے ہیں۔
 سنن دارمی شریف ( ص 77) اور فتح الباری (ج3 ص228 ) میں منقول ہے کہ جبرائیل امین جس طرح قرآن پاک لاتے تھے اسی طرح احکام بھی لاتے تھے۔
 مشکوٰۃ شریف ( ص 26) میں بھی اسی طرح کی ایک روایت موجود ہے۔
الا انی اوتیت القرآن و مثلہ معہ•
رہی فریق مخالف کی پیش کردہ روایت تو اس کی تشریح میں امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
هذا محمول على أنه صلى الله عليه و سلم أوحى إليه في الحال باستثناء الأذخر•
(شرح مسلم: باب تحریم مکۃ)
باقی وحی کا اتنی جلدی آنا یہ کوئی خدا کی قدرت سے بعید نہیں۔ اور یہی جواب ان احادیث کا بھی ہے کہ
(1): ایک صحابی نے پوچھا کہ کیا ہرسال حج فرض ہے آپ نے فرمایا کہ میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہوجاتا۔
(2): کہ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ کے لیے چھ مہینے کی بکری کی قربانی جائز قراردی۔
(3): کہ حضرت خزیمہ ثابت انصاری کی گواہی کو دو مردوں کے قائم مقام ٹھہرایا۔
علامہ سعیدی لکھتے ہیں: یہ محال نہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے جس وقت سوال کیا گیا تھا کسی اور مقام پر اسی وقت پلک جھپکنے میں آپ پر وحی نازل ہوگئی ہو۔
(نعمۃ الباری شرح بخاری ج1ص405)
دلیل نمبر12:
ایک روایت آتی ہے جس کامضمون یہ ہے کہ نوحہ (بین کرنا) سب کے لیے حرام تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے لیے ایک جگہ نوحہ کرنے کی اجازت دی۔ اس روایت کی شرح میں فریق مخالف امام نووی رحمہ اللہ کا یہ قول بھی نقل کیا کرتا ہے : ”وللشارع ان یخص من العمومات ما شاء اوکما قال“ کہ شارع کو حق پہنچتا ہے کہ عمومات میں سے جو چاہے خاص کرے۔
جواب:
پہلی بات۔۔۔ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ، علامہ زرقانی ، علامہ عینی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تشریح میں لکھاہے کہ نوحہ پہلے مباح تھا پھر مکروہ تنزیہی ہوا اسی اثناء میں حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کو اجازت ملی پھر نوحہ بالکل حرام ہوگیا۔
دوسری بات۔۔۔ یہ ہے کہ آپ نے وحی پاکر لوگوں کا احکام سناتےتھے۔
تیسری بات۔۔۔ یہ ہے کہ امام نووی رحمہ اللہ کے قول”شارع“ سے مراد خدا کی ذات ہے حقیقی طور پر شارع تو خدا ہی ہے ، ہاں مجازی طور پر آپ کو شارع کہنا جائز اور صحیح ہے مگر یہاں مراد خدا کی ذات ہے۔
دلیل نمبر13:
صحاح ستہ وغیرہ میں ایک روایت آتی ہے جس کامضمون یہ ہے کہ رمضان المبارک میں ایک صحابی نے اپنی بیوی سے دن کے وقت جماع کر لیا تھا اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں اب کیا کروں؟ آپ فرماما کہ غلام آزاد کرو وہ کہنے لگا کہ میرے پاس نہ غلام نہ غلام خریدنے کی رقم۔ آپ نے صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو۔ اس نے کہا: مجھے اس کی بھی استطاعت نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اچھا بیٹھو۔ اتنے میں ایک شخص (ایک صاع ساڑھے تین سیر کا ہوتا ہے) کھجوریں لایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ کھجوریں لے لو اور ان کو صدقہ کردو۔ وہ صحابی بولا کہ مدینہ بھر میں مجھ سے زیادہ کوئی محتاج نہیں ، تب آپ نے فرمایا کہ اپنے گھر کے لوگوں کو کھلا دو تمہارا کفارہ ادا ہوگیا۔
فریق مخالف نے اس روایت کو پیش کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے کفارہ ساقط کر دیا تھا تو آپ مختار کل ہوئے۔
جواب:
یہ حدیث بخاری (ج1 ص259)، مسلم (ج1 ص355)، ابو داؤد (ج1 ص333)، ترمذی (ج1 ص90)، ابن ماجہ (ص121)، موطا مالک (ص90)، طحاوی (ج1 ص325)، مسند احمد (ج2 ص208)، السنن الکبریٰ (ج4 ص237)، مشکوٰۃ (ص176) وغیرہ میں موجود ہے لیکن کسی بھی حدیث میں یہ جملہ نہیں کہ ”جا تیرا کفارہ ادا ہوگیا“۔ امام زہری رحمہ اللہ سے تو یہ جملہ منقول ہے کہ ”جا تیرا کفارہ ادا ہوگیا “ لیکن محدثین اس کو حدیث کا لفظ نہیں مانتے۔
( نصب الرایہ ج2ص453،الداریہ ص 175)
 علامہ دقیق العید رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اس کو اس آدمی کی خصوصیت ماننا ضعیف قول ہے۔
(احکام الاحکام ج2ص10)
 ملا علی قاری رحمہ اللہ نے بھی ضعیف کہا ہے۔
(حاشیۃ مشکوٰۃ شریف ج1ص176 )
 امام نووی بھی اسے ضعیف کہتے ہیں۔
(شرح مسلم ج1ص354)
 ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے زھری کی اس زیادت کو ضعیف قرارد دیا ہے۔
( تلخیص الحبیر ص 166، اور فتح الباری ج4ص134)
اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ اس کو اس بات کی گنجائش دی گئی کہ جب اس کو وسعت ہوگی تو ادا کر دے گا۔ (لمعات حاشیہ بخاری ج1ص260)
دلیل نمبر14:
فریق مخالف یہ واقعہ بیان کرتا ہے کہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ غزوہ احد میں باہر نکل گئی تھی۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے ، حضرت میری بیوی نوجوان ہے اور مجھے اس سے محبت ہے ممکن ہے کہ میری آنکھ کو اس حالت میں دیکھ کر وہ نفرت کرنے لگ جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی آنکھ کا ڈھیلا اٹھا کر اپنی جگہ رکھا اور آنکھ صحیح ہوگئی حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری وہ آنکھ پھر کبھی دکھنے نہیں پائی۔
فریق مخالف اس روایت کو پیش کر کے اس پر حاشیہ چڑھایا کرتا ہے کہ دیکھو خدا کی دی ہوئی آنکھ تو دکھ اٹھایا کرتی تھی ، لیکن حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی آنکھ بہتر اور خوبصورت تھی اور کبھی نہ دکھتی تھی۔
جواب:
اگر غور کیا جائے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا :
وان شئت رددتہا و دعوت اللہ•
اگر تو چاہے تو میں لوٹا دوں یعنی اس کو اپنی جگہ پر رکھ دوں اور اللہ سے دعا کروں کہ وہ صحیح کر دے۔ حضرت قتادہ نے کہا میری یہی آرزو ہے تو آپ نے یوں کہہ کر دعا دی: اے اللہ! اس کی آنکھ کو جمال اور روشنی عطا فرما۔ تو اللہ نے دعا منظور فرمائی اور حضرت قتادہ کی آنکھ درست ہوگئی۔
(عمدۃ القاری ج8ص173 وکامل للمبرد ج3ص307)
اسی طرح حضرت رافع کی آنکھ کا مسئلہ تھا وہ کہتے ہیں:
فبصق فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم ودعا لي فما أذاني منها شئ. . . وإسناده جيد•
(البدایہ والنہایہ ج4ص33)
دلیل نمبر15؛
صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں روایت آتی ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اعطیت مفاتیح خزائن الارض•
یعنی مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں۔
فریق مخالف اس روایت سے یہ ثابت کیا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کے تمام خزانے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرما دئیے ہیں اور آپ ان لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
جواب:
اولاً: قرآن تو کہتا ہے:
” قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ “
(سورۃ الانعام:50)
تو آپ علیہ السلام کیسے فرماسکتے ہیں کہ مجھے خزانے دیئے گئے۔
ثانیاً: امام نووی رحمہ اللہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
اس کا مطلب یہ ہے آپ کی امت خزائن کی مالک بنے گی اور ایسا ہوا بھی۔
(شرح مسلم ج2ص25)
علامہ عزیزی فرماتے ہیں:
استعارۃ لو عداللہ بفتح البلاد•
(السراج المنیر ج1ص245)
بلکہ مستدرک حاکم میں (ج4ص449) ہے اللہ نے مجھے دونوں خزانے دئیے ہیں سرخ اور سفید( ان سے قیصر وکسریٰ کی حکومتیں مراد ہیں) اور میری امت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک مجھے مشاہدہ کرایا گیا ہے۔
دلیل نمبر16:
مخالفین نے یہ واقعہ بھی پیش کیا ہے کہ سونے کی انگوٹھی مردوں میں سے کسی کے لیے جائز نہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت برآء بن عازب کے لیے سونے کی انگوٹھی کو جائز قرار دیا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختارِ کل ہوئے۔
جواب:
اس کی سند صحیح نہیں۔ علامہ حازمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اسنادہ لیس بذلک•
(کتاب الاعتبار ص 232)
یعنی اس کی سند قابل اعتبار نہیں

۔

Download PDF File