صفت نور وبشر

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
صفت نور وبشر
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
چند تمہیدی باتیں :
[۱]: بحث نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے وجود مسعود پر ہوگی نہ کہ آپ کی روح مبارکہ پر اس لیے وہ دلائل پڑھے جائیں جو اس وجود مبارکہ سے متعلق ہوں۔
[۲]:
اس مسٔلہ پر بریلوی حضرات چونکہ بشر کہنے اور ماننے والوں کو کافر کہتے ہیں اس لئے اس پر دلائل قطعیہ درکار ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے:
1: مولوی عبدالرشید رضوی لکھتے ہیں: اب جو نبی کو بشر کہے وہ نہ تو خدا ہے اور نہ ہی نبی۔ لہذا وہ کفار میں ہی داخل ہوا۔
(رشدالایمان ص45)
2: مولوی نعیم الدین مراد آبادی لکھتے ہیں: قرآن پاک میں جابجا انبیاء کرام کے بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا۔
(خزائن العرفان ص5)
3: مفتی احمد یار خان نعیمی نے بھی مثل عبد الرشید رضوی لکھا ہے دیکھیئے۔
(نورالعرفا ن ص 636،448)
4: ایک جگہ یوں لکھتے ہیں:انکو بشر ماننا ایمان نہیں۔
(تفسیر نعیمی ج1ص100 )
اس طرح کئی دلائل دیے جاسکتے ہیں۔ تو معلوم ہو ا کہ یہ بریلوی عقیدہ قطعی ہے کہ نبی پاک علیہ السلام بشر نہیں ہیں اور صرف نور ہیں۔
بریلوی دعوی
نبی پاک علیہ السلام نور ہیں اور بشری لباس میں تشریف لائے۔
تنقیحات
تنقیح نمبر 1:
لباس بشری میں نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو ماننا آپ کی بشریت کی نفی ہے۔ کیونکہ لباس بشریت تو وہ پہنے گا جو بشر نہِیں ہوگا جیسے جبرائیل امین بشر نہیں تو انکو لباس بشر میں آنا پڑتا تھا۔ تو وہ بشر نہیں تھے اس لیے تو لباس بشر میں تشریف لاتے اگر بشر ہوتے تو لباس بشریت میں آنیکی ضرورت ہی کیا تھی۔ اس لیے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو لباس بشریت میں ماننا انکار بشریت ہے۔ کیونکہ بریلوی مسلک کے علامہ سعیدی لکھتے ہیں :
بعض لوگ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو انسان اور بشر نہیں مانتے وہ کہتے ہیں کہ آپکی حقیقت نور ہے اور بشریت آپکی صفت یا آپ کا لباس۔
(تبیان القرآن ج2ص453)
نوٹ: لباس بشریت ہو اور ہوں نور تو پھر نورانی مخلوق فرشتہ ہوئے جبکہ یہ قرآن کے خلاف ہے۔
معلوم ہوگیا کہ لباس بشریت کہنا انکار بشریت جانکلتا ہے۔ )بریلوی مسلک کی روشنی (اور بریلوی مشائخ وعلماء نے یوں بھی لکھا ہے :
1)۔ جو شخص انبیاء ورسل کی بشریت کا انکار کرتا ہے وہ ان کے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
(انوار رضا ص148۔انوار کنزالایمان ص851۔جمال کرم ج1ص737)
2)۔ اشرف جلالی کہتا ہے بشریت ہمارے نزدیک قطعی عقیدہ ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔
(نورانیت مصطفیٰ سے انکار کیوں؟ ص9)
3)۔ مفتی صدیق ہزاروی لکھتا ہے: انبیاء کرام بشر تھے اور ان کے بشر ہونے کا انکار کفر ہے۔
(عقائد وعبادات ص12)
ملاحظہ کیجیے! اہلِ بدعت اپنے ہی اصول وتحقیق کی بنیاد پر کیا ٹھہرے ؟!
تنقیح نمبر2:
اگر بریلوی یوں کہیں کہ ہم آپکی بشریت کو مانتے ہیں اور اس دعوی سے اقرار بشریت ہو رہا ہے نہ کہ انکار۔ تو پھر ہماری طرف سے عرض یہ ہے کہ آپ کے علماء نے یہ جو لکھا ہے انکو بشر ماننا ایمان نہیں۔
(تفسیر نعیمی ج1ص100مکتبہ اسلامیہ )
اور یہ جو لکھا ہےکہ جو ذات اقدس سب سےپہلے بشر )ابولبشر (سے بھی پہلے موجود ہواس مقدس ومطہر ہستی کو بشر کہنایا ماننا کس طرح صحیح ہے۔
(انوار قمریہ ص94)
اور یہی بات مولوی عبد المجید خان سعیدی نے مصلحانہ کاوش (ص151) میں بھی نقل کی ہے۔ تو آپ اگر ”بشر“ مانتے بھی ہیں تو بات تو پھر بھی وہیں ٹھہری۔
تنقیح نمبر3:
کیا آپ کو ”بشر“ کہا جاسکتا ہے؟ تو بریلوی اس دعوی کی بنیاد پر جھٹ سے کہہ دیں گے نہیں کیوں ؟تو وہ جواب میں کہیں گے کہ کسی شے کا ہونا اور بات ہے اور اس پر کسی شے کا اطلاق نہ ہونا اور بات ہے مثلا اللہ تعالی کائنات کی ہر شے کا خالق ہے یہاں تک کہ خنزیر کتے بلے الخ۔
(ابلیس تا دیوبند ص46رسائل اولیہ ج5 )
اشرف جلالی صاحب کہتے ہیں: کوئی لفظ ہوتا ہے لیکن بولا نہیں جاتا کیا یہ سب کا عقیدہ نہیں کہ خنزیر کا خالق بھی اللہ ہے؟
(مفہوم قرآن بدلنے کی واردات ص187)
یہ بات جلالی صاحب نے بشر کہنے پر کہی ہے تو جب اتنی رذائل چیز وں سے تشبیہ دی جائے تو اس پر فتویٰ بھی تو ہونا چاہیئے تو مولوی حشمت علی کی کتاب الصوارم الہندیہ میں ہے:
جب رذائل کے ساتھ کسی چیز کو تشبیہ دی جاتی ہے تو اس سے تو ہین وتنقیص کے معنی نکلتے ہیں۔
(الصوارم الہندیہ: ص7)
اور مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں: حضور کی شان میں ہلکے لفظ استعمال کرنا ہلکی مثالیں دینا کفر ہے۔
(نورلعرفان ص345)
اور مفتی حنیف قریشی کہتا ہے: جانوروں کے ساتھ کسی جنس کا ذکر کیا جائے تو یہ اسکی توہین ہے۔
(مناظرہ گستاخ کون ص54)
تو بریلوی اپنے ہی اصول سے کیا ٹھہرے؟ فیصلہ خود کر لیجیے۔
تنقیح نمبر4:
اسی دعوی کے مطابق آپ علیہ السلام کا مادہ خلقت کیا ہے ؟اگر بریلوی کہیں کہ مادہ خلقت مٹی ہے نور نہیں تو پھر دعوی ٹھیک نہیں کہ کیوں کہ جس کا مادہ خلقت مٹی ہو وہ لباس بشریت میں نہیں ہوتا بلکہ حقیقی بشر ہوتا ہے۔ اور اگر کہیں کہ مادہ خلقت مٹی نہیں نورہے تو یہ صراحۃ فاضل بریلوی کے خلاف ہے کیونکہ فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
میں اور ابوبکر وعمر ایک مٹی سے بنے اسی میں دفن ہو نگے۔
(فتاوی افریقیہ: ص90)
اور یہ بھی بریلوی ضابطہ ہے کہ؛ جو احمد رضا خا ن کا ہم عقیدہ نہ ہو وہ کافر ہے۔
(دیکھئے :انوار شریعت ج1ص140،الصوارم الہندیہ ص138،فتاوی صدرلا فاضلlص134)
قارئین! خود فیصلہ کر لیجیے کہ اس اعتبار سے بھی یہ لوگ کیا ٹھہرے ؟
تنقیح نمبر5:
یہ جو آپ نے اپنے دعوی میں لباس بشریت کی بات کی ہے کیا آپکو معلوم ہے کہ لباس انسانی اور لباس بشریت کی بات سب سے پہلے مشرکین مکہ نے کی تھی جیسا کہ بریلوی جید عالم لکھتے ہیں:
جب کفر نے دیکھا کہ ……تو کہا اے لوگو محمد بشر ہرگز نہیں محمد کے روپ میں ہمارا خدا ہی ہمارے سامنے آگیا بلکہ یوں کہو کہ محمد دراصل خدا ہیں جو بدنِ انسانی میں ہمارے پاس آگئے ہیں جس نے بشری پیکر میں جلوہ نمائی کی جنھوں نے آدمی کا لباس اختیار کرکے ہماری زمین پر تشریف ارزانی کی ہے۔
(تحفظ عقائد اہل سنت ص681)
معلوم ہو گیا کہ لباس انسانی کا قول سب سے پہلے مشرکین مکہ نے کیا اور دوسری بات یہ بھی معلوم ہو گئی یہ بات بھی کفر کی ہے کہ خدا آپ علیہ السلام کی صورت میں انسانی لباس میں ظاہر ہوا، اور یہی بات بریلوی اکابرین بھی کہتے ہیں۔ مثلا مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں:
لباس آدمی پہنا
 
جہاں

نے آدمی جانا

مزمل بن کے

آئے تھے تجلی بن کے نکلیں گے

(مواعظ نعیمیہ حصہ اول ص119وعظ نمبر 23)
مفتی فیض احمد اویسی لکھتے ہیں:
بجاتے تھے جو انی
 
عبدہ

کی بانسری ہر دم

خدا کے عرش پر
 
انی انا

اللہ بن کے نکلیں گے

(شہد سے میٹھا نام محمد ص205)
مولوی محمد یار فریدی لکھتے ہیں:
حقیقت جن کی
 
مشکل

تھی تماشا بن کے نکلیں گے

جسےکہتے ہیں
 
بندہ

قل ہو اللہ بن کے نکلیں گے

(دیوان محمدی ص149)
فیصلہ خود کر لیجیے کہ یہ حضرات کس کے نقش قدم پر ہیں؟!
تنقیح نمبر6:
معلوم ہو گیا کہ بریلوی بشر یت کے منکر ہیں جوکہ اس دعوی سے بھی ثابت ہے اور درحقیقت یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کےکمال کا منکر ہونا ہے کیونکہ مفتی احمد یار نعیمی صاحب لکھتے ہیں انبیاء کی بشریت ان کا کمال ہے تو یہ سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کمال کا انکار کرنا ہے۔
تنقیح نمبر7:
نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے لیے بشر کا لفظ پسند فرمایا۔ خود بھی اپنے کو بشر کہا اور صحابہ کرام ؒ میں سے بھی کتنو ں نے۔
(دیکھیے ابوداؤد ج2باب کتابۃ العلم )
تو جو اس لفظ کو نا پسند کرے وہ اپنی خیر منائے کیونکہ سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پسند کو نا پسند کرنے والا کافر ہے۔
(غازی ممتاز حسین قادری ص291)
دلائل اہل بدعت کے جوابات
دلیل نمبر1:
قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ.
(سورۃ المائدۃ: 15)
جواب نمبر 1:
یہاں ”نور“ سے مراد ”نور ہدایت“ ہے جیسا کہ سعیدی صاحب لکھتے ہیں کہ سید نعیم الدین مراد آبادی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نور ہدایت ہو نیکی تصریح کی ہے، زیر بحث آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ سید عالم کو نور فرمایا کیونکہ آپ سے تاریکی کفر دور ہوئی اور راہ حق واضح ہوئی۔ (تبیان القرآن ج3ص139)
اور سعید ی نے اسی جلد میں لکھا ہے کہ اکثر مفسرین نے اس نور سے مراد نور ہدایت ہونا مراد لیا ہے۔
جواب نمبر2:
بعضوں نے نور سے ”قرآن“ اور بعضوں نے ”اسلام“ مراد لیا ہے اور اکثر نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا”نور ہدایت“ ہونا مراد لیا ہے اس لیے یہ آیت قطعی الدلالۃ نہیں ہے۔ جو آپ کے لئے مفید ہو۔ کیونکہ قطعی عقیدہ دلیل قطعی سے ثابت ہوتا ہے۔
جواب نمبر3:
قرآن مقدس میں کئی جگہ قرآن مقدس کو بھی نور کہا گیا ہے۔ مثلاً
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا.
(سورۃ النساء: 174)
وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ.
(سورۃ الاعراف: 157)
وَلَكِنْ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ.
(سورۃ الشوریٰ: 52)
فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنَا.
(سورۃ التغابن: 8)
ان آیات میں قرآن مقدس کو بھی ”نور“ کہا گیا جو کہ یقینا ہدایت ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی ایسے ہی نور ہیں مگر رضا خانی کہتے ہیں کہ جیسےجبرئیل علیہ السلام نور تھے ویسے ہی سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی۔ تو جواباً گزارش ہے کہ قرآن نے کہہ دیا کہ آپ علیہ السلام فرشتہ نہیں ہیں۔ اور بریلوی اکابر نے بھی لکھا ہے فرشتہ ہوتا آپ کی ہتک تھی۔
(مقیاس نور ص304)
تو جب فرشتہ ہونا ہتک تھی تو اس کی طرح ہونا بھی تو ہتک ہوگی لہذاآپ قرآن مقدس کی طرح نور ہدایت ہیں۔
جواب نمبر4:
آپ کے جسم مبارک کو نور ماننا اور بشر نہ ماننا یہ آپ کا کمال نہیں کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے اگر محض نور مانا جائے تو یہ آپکی شان وکمال کو گھٹانے والی بات ہے۔
جواب نمبر5:
اس آیت کی تفسیر میں کسی معتبر مفسر نے اگر بریلوی حضرات کا دعوی لکھا ہو تو پیش کر و ؟
دلیل نمبر2:
اول ماخلق اللہ نوری یاجابر ان اللہ قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ.الحدیث
جواب نمبر 1:
یہ احادیث قطعی تو درکنار صحیح بھی نہیں ورنہ انکی اسناد پیش کرکے رواۃ کی توثیق پیش کی جائے ؟
جواب نمبر2:
ملا علی قاری لکھتے ہیں :
اول ماخلق اللہ نوری وفی روایۃ روحی ومعناہما واحد الخ•
(مرقات ج1ص167)
تو معلوم ہو اکہ اس سے مراد صرف یہ ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی روح مبارک کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا باقی ”من نورہ “سے ”نورمن نوراللہ“ ہونا مراد نہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ اللہ تعالی کی طرف نسبت تعظیمی وتشریفی ہے۔ جیسا کہ بیت اللہ اور روح اللہ اور کلمۃاللہ میں نسبت تعظیم وتکریم کیلئے ہے۔
جواب نمبر3:
اس دلیل میں یہ تو کہیں بھی نہیں کہ آپ کا مادہ خلقت نور ہے اور بشریت صرف لباس ہے۔
جواب نمبر4:
سیدنا جابر کی روایت سے صرف نبی پاک علیہ السلام کا نور ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ ساری کائنات کا نوری ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس لئے یا تو سب کو نور مانو یا پھر نبی پاک علیہ السلام کابھی جسم وجود کے اعتبار سے نور ہونایعنی مادہ خلقت نور ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اور پہلی حدیث کے آگے بھی بعض جگہ یوں ہے:
المؤمنون من نوری•
کہیں ہے:
المؤمنون منی•
اور کہیں ہے :
ومن نوری خلق کل شیء•
سب کا مقصد یہ ہے کہ مخلوق میرے نور سے بنی ہے تو کیا اسے ماننے کیلئے بریلوی تیار ہیں کہ نبی پاک علیہ السلام کیطرح ساری مخلوق نور ہے ؟
جواب نمبر5:
”انامن اللہ والمؤمنون منی“ کو محدثین نے موضوع من گھڑت قرار دیا ہے :
قال العسقلانی : انہ کذب مختلف فیہ وقال زرکشی لا یعرفہ وقال ابوتیمیۃ موضوع وقال السخاوی ہو عند الدیلمی بلا اسناد•
(موضوعات کبیر: ص40)
دلیل نمبر3:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ان کی عمر پوچھی تو انہوں نے فرمایا: اس کے علاوہ میں نہیں جانتا کہ ایک ستارہ ستر ہزار سال بعد طلوع ہوتا تھا، میں نے اسے بہتر ہزار بار طلوع ہوتے دیکھا ہے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
یا جبرائیل! و عزۃ ربی جل جلالہ انا ذلک الکوکب•
(تفسیر روح البیان بحوالہ رشد الایمان)
جواب:
اولاً۔۔۔۔ یہ روایت درجہ صحت تک ہی نہیں پہنچتی۔
ثانیاً۔۔۔۔ عقائد کے باب میں یہ کیونکر چل سکتی ہے۔
ثالثاً۔۔۔۔ بات تو جسد مبارک کی چل رہی ہے، زیادہ سے زیادہ اس سے روح پاک کی تخلیق کا ذکر ہے جو کہ تمہیں مفید نہیں۔
دعویٰ اہل السنت و الجماعت دیوبند
آپ علیہ السلام اور دیگر انبیاء علیہم السلام کا مادہ خلقت مٹی ہے نور نہیں اور نبی پاک علیہ السلام صفات کریمہ کے اعتبار سے نور علی نور ہیں۔
دلائل اہل السنت و الجماعت
دلیل نمبر1:
وَمَااَرْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ اِلَّارِجَالًا نُّوْحِیْ ٓاِلَیْھِمْ مِّنْ اَہْلِ الْقُرَیٰ•
(یوسف:109)
ترجمہ:آپ سے پہلے ہم نے جتنے(پیغمبر)بھیجے وہ مردہی تھے کہ جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے(اوروہ)بستیوں کے رہنے والے تھے۔
دلیل نمبر2:
اِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ•
(سورۃ ص:71)
ترجمہ:جب تیرے رب نے فرشتوں کوکہاکہ میں مٹی سے بشرپیدا کرنے والا ہوں۔
دلیل نمبر3:
قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا.
(سورۃ بنی اسرائیل:93)
ترجمہ: فرمادیجئے سبحان اللہ!میں توآدمی ہوں بھیجاہوا۔
دلیل نمبر4:
اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰئِکَۃِ رُسُلاً وَّمِنَ النَّاسِ•
(سورۃ الحج:75)
ترجمہ: اللہ ‘ فرشتوں اور انسا نوں میں سے رسول منتخب کرتا ہے۔
دلیل نمبر5:
قُلْ اِنَّمَااَنَابَشَرٌمِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّمَااِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ•
(سورۃ الکہف:110)
ترجمہ:کہَ دیجئے کہ میں بشرہوں جیسے تم بشر ہو‘ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے۔
دلیل نمبر6:
قُلْ لَوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولًا.
(بنی اسرائیل:95)
ترجمہ:کہَ دیجئے کہ زمین میں اگر فرشتے مطمئن ہوکرچلتے توہم آسمان سے فرشتے کورسول بناکربھیجتے۔
دلیل نمبر7:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
کان بشرا من البشر•
(شمائل ترمذی ص23باب ماجاء فی تواضع رسول اللہ ﷺ کی آخری حدیث )
دلیل نمبر8:
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کا ن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رجلا مربوعا •
(شمائل ترمذی: ص1) کہ آپ میانے قد آدمی تھے۔
دلیل نمبر9:
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللہ•
(صحیح البخاری: ج1ص519، 520)
ترجمہ: کیا تم اس آدمی کو قتل کرنا چاہتے جو یہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے۔
دلیل نمبر10:
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
قلنا اما الرجل الصالح فرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم•
(المشکوۃ: ج2ص563)
ترجمہ: ہم (صحابہ)نے کہا: ”رجل صالح“ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔
دلیل نمبر11:
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے جوسنتا‘لکھ لیا کرتا‘ تو قریش نے مجھے روکااورکہاکہ تو ہرچیز لکھ لیتاہے جوسنتاہے:
وَرَسُوْلُ اللّٰہِ بَشَرٌیَتَکَلَّمُ فِی الْغَضَبِ وَالرَّضَآئِ•
(سنن ابی داؤد: ج2ص568)
ترجمہ: حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم توبشرہیں، غصہ اوررضاء کی حالت میں کلام کرتے ہیں۔
معلوم ہواکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاعقیدہ بھی یہی تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بشرہیں۔
دلیل نمبر12:
فرشتہ کہتا ہے : ماکنت تقول فی ھذاالرجل لمحمد•
(صحیح البخاری: ج1ص184)
فرشتہ قبر میں سوال کرتا ہے کہ تو اس آدمی یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
چند دلائل آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سایہ ہونے پر
دلیل نمبر1:
امام حاکم ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ الحافظ(م405ھ) اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک آپ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا، پھر پیچھے ہٹالیا۔ ہم نے کہا: یا رسول اللہ ہم نے آپ کو اس نماز میں ایسی کارروائی کرتے دیکھا ہے جو آپ نے اس سے قبل نہیں کی۔ فرمایا: ہاں بلاشبہ مجھ پر جنت پیش کی گئی تو میں نے اس میں اونچے درخت دیکھے جن کے گچھے نیچے کو جھکے ہوئے تھے تو میں نے ارادہ کیا کہ ان سے کچھ لے لوں، پس میری طرف وحی آئی یہ کہ پیچھے ہٹ جا ، سو میں پیچھے ہٹ گیا اور مجھ پر دوزخ بھی پیش کی گئی جو میرے اور تمہارے درمیان تھی یہاں تک اس کی آگ کی روشنی میں میں نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا، پس میں نے تمہیں اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ، سو میری طرف وحی آئی کہ ان کو ان کی جگہ پر ٹکا رہنے دے کیونکہ تو نے اسلام قبول کیا اور انہوں نے بھی ، تو نے ہجرت کی اور انہوں نے بھی ، تو نے جہاد کیا اور انہوں نے بھی، پس میں تیری ان پر بجز نبوت کے اور کوئی فضیلت نہیں دیکھتا، پس میں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ میری امت میرے بعد فتنوں میں مبتلا ہوگی۔
(مستدرک الحاکم: ج4 ص456 قال الحاکم و الذہبی: صحیح)
دلیل نمبر2:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے اور اس سفر میں بعض دیگر ازواجِ مطہرات بھی آپ کے ساتھ تھیں۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کا اونٹ بیمار ہوگیا۔ حضرت زینب رضی ا للہ عنہا کے پاس اپنی ضرورت سے زائد اونٹ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ صفیہ کا اونٹ بیمار ہے اے زینب! اگر اسے اپنا فالتو اونٹ دے دے تو بہتر ہوگا۔ انہو ں نے کہا : کیا میں اس یہودیہ کو اونٹ دے دوں؟ ان کے اس نامناسب جواب سے آپ ناراض ہوگئے اور آپ نے ذوالحجہ، محرم دو یاتین ماہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس جانا ہی ترک کردیا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں آپ سے ناامید ہوگئی اور میں نے اپنی چار پائی وہاں سے ہٹا دی ، فرماتی ہیں کہ میں اسی حالت میں تھی کہ اچانک ایک دن دوپہر کے وقت میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ دیکھا جو میری طرف آرہا تھا۔
(طبقات ابن سعد: ج8 ص126)
اس حدیث کے کے راوی یہ ہیں :
(1): عفان بن مسلم رحمہ اللہ:
آپ صحاح ستہ کے راوی ہیں۔ امام عجلی رحمہ اللہ ان کو ثقہ اور ثبت کہتے ہیں ، امام ابو حاتم رحمہ اللہ ان کو ثقہ، امام اور متقن کہتے ہیں، علامہ ابن سعد رحمہ اللہ ان کو ثقہ، کثیر الحدیث، ثبت اور حجت کہتے ہیں ، امام ابن خراش ان کو ثقہ من خیار المسلمین اور محدث ابن قانع ان کو ثقہ اور مامون کہتے ہیں۔ امام ابن حبان ان کو ثقات میں شمار کرتے ہیں۔
(تہذیب التہذیب: ج7 ص231 تا 234)
(2): حماد بن سلمہ رحمہ اللہ:
علامہ ذہبی ان کو الامام، الحافظ اور شیخ الاسلام لکھتے ہیں۔
(تذکرۃ الحفاظ: ج1 ص189)
(3): ثابت بنانی رحمہ اللہ:
یہ بھی صحاح ستہ کے مرکزی راوی ہیں۔ امام نسائی اور امام عجلی ان کو ثقہ کہتے ہیں۔ علامہ ابن سعد ان کو ثقہ اور مامون کہتے ہیں۔ محدث ابن حبان ان کو ثقات میں شمار کرتے ہیں۔
(تہذیب التہذیب: ج3 ص3)
(4): شمیسہ رحمہا اللہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مقبولۃ من الثالثۃ• (تقریب التہذیب: ص473) کہ یہ تیسرے طبقے کے راویوں میں سے ہے اور مقبول ہے اور ان پر کسی کی کوئی جرح منقول نہیں ہے۔
(5): حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا:
غرضیکہ اس روایت کے سب راوی ثقہ ہیں اور یہ روایت مسند احمد اور مجمع الزوائد میں بھی ہیں، اس کے الفاظ آخر میں یوں ہیں:
” یعنی جب ربیع الاول کا مہینہ آیا تو آپ میرے پاس آئے ، فرماتی ہیں کہ جب میں نے آپ کا سایہ دیکھا تو میں نے کہا: یہ سایہ تو مرد کا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آتے نہیں تو یہ کون ہے؟! اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوگئے۔
(مسند احمد: ج6ص336، مجمع الزوائد: ج4ص323)
سایہ نہ ہونے والی روایت اور اس کا جواب
اخرج الحكيم الترمذي عن ذكوان ان رسول الله {صلى الله عليه وسلم} لم يكن يرى له ظل في شمس ولا قمر•
(الخصائص الکبریٰ: ج1 ص68)
جواب:
حکیم ترمذی ایک صوفی منش بزرگ تھے جن کی تالیفات میں رطب و یابس موجود ہے۔ اس حکیم ترمذی کی کتاب ”نوادر الا صول فی معرفۃ اخبار الرسول“ ہے، انہوں نے اس کتاب میں روایت کو مرسلاً ذکر کیا ہے، پھر اسی روایت کو علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”الخصائص الکبریٰ“ میں نقل کیا ہے لیکن اگر اس روایت پر غور کیا جائے اور محدثانہ نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت سراسر غلط اور بے اصل ہے کیونکہ اس روایت کو عبدالرحمن بن قیس الزعفرانی اور عبدالملک بن عبداللہ الولید ، ذکوان کے واسطے سے بیان کرتے ہیں جو دونوں غیر معتبر ہیں۔ اب ان دونوں راویوں پر بحث کر لی جائے، اگر یہ راوی ثقہ اور معتبر ہیں تو روایت قابل ِ قبول ہے ورنہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
چنانچہ پہلا راوی ”عبدالرحمن بن قیس الزعفرانی“ ہے۔ اس کے بارے میں علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ھو کذاب وضاع“ یعنی وہ جھوٹا اور جھوٹی من گھڑت روایتیں بنانے والا تھا۔
(مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفاء: ص 7)
اور علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ دونوں کے متعلق فرماتے ہیں:
اما ذکرہ الحکیم الترمذی فی نوادر الا صول عن عبدالرحمن بن قیس مطعون عن عبدالملک بن عبدللہ بن الولید وھو مجہول•
( شرح الشفاء بر حاشیہ خفا جی: ج3ص682)
ملا علی قاری رحمہ اللہ کے نزدیک نوادر الاصول کی زیر بحث روایت کے دونوں روای مجروح ہیں۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
عبد الرحمن بن قيس الضبي أبو معاوية الزعفراني متروك كذبه أبو زرعة وغيره•
(تقریب التہذیب: رقم الترجمہ 3989)
کہ عبدالرحمن بن قیس الضبی ابو معاویہ متروک ہے(جس سے روایت لینا جائز نہیں) اور ابو زرعہ نے اسے جھوٹا کہا ہے۔
چنانچہ نوادر الاصول کے بارے میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
نوادر الاصول اکثر احادیث غیر معتبر دارد•
(بستان المحدثین ص 68)
ترجمہ: نوادرالاصول کی اکثر حدیثیں غیر متعبر ہیں۔
نیز یہ روایت مشاہدہ کے بھی خلاف ہے کیونکہ آپ کے بشر ہونے میں تو فریق مخالف کو بھی اختلاف نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری جسم کے مرئی ہونے کا فریق مخالف بھی غالباً انکار نہ کر سکے گا۔ جیسے بقیہ انسان مرئی اور جسم دار ہیں اور ان کے سائے بھی ہیں اسی طرح سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی جسم تھا پھر سایہ نہ ہونا چہ معنیٰ دارد؟!! الّا یہ کہ جب تک کوئی یقینی اور قطعی دلیل اس عام لازم سے آپ کو مخصوص اور مستثنیٰ نہ کر دے اور یہ ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت تک فریق مخالف ثابت نہ کر سکے گا۔ اس لیے سایہ نہ ہونے کا عقیدہ لغو اورباطل ہے اور اس کے بطلان پر واضح احادیث موجود ہیں۔ بریلوی حضرات کے بہت بڑے عالم مولوی عبد الدائم دائم صاحب نے سیر سید الوریٰ صلی اللہ علیہ و سلم میں 50 سے زیادہ صفحات پر یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سایہ تھا اور اس کا انکار نہیں کرنا چاہیے

۔

Download PDF File