مسجد میں جماعت ثانیہ کاحکم

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مسجد میں جماعت ثانیہ کاحکم
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
مذہب اہل السنت والجماعت:
وَيُكْرَهُ تَكْرَارُ الْجَمَاعَةِ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ فِي مَسْجِدِ مَحَلَّةٍ لَا فِی مَسْجِدِ طَرِيقٍ اَوْ مَسْجِدٍ لَا اِمَامَ لَہُ وَلَا مُؤَذِّنَ.
(الدر المختار مع رد المحتار: ج 2ص342)
ترجمہ: مسجد محلہ میں اذان و اقامت کے ساتھ دوسری جماعت مکروہ (تحریمی) ہے، البتہ مسجد طریق یا ایسی مسجد جس کا امام و مؤذن مقرر نہ ہو اس میں دوسری جماعت جائز ہے۔
أَيْ تَحْرِيمًا لِقَوْلِ الْكَافِي لَا يَجُوزُ وَالْمَجْمَعُ لَا يُبَاحُ وَشَرْحُ الْجَامِعِ الصَّغِيرِ إنَّهُ بِدْعَةٌ كَمَا فِي رِسَالَةِ السِّنْدِيِّ.
(رد المحتار: ج2 ص342)
جس مسجدکا امام اورمقتدی متعین ہوں وہاں جب ایک مرتبہ اذان واقامت سے جماعت ہوجائے تو پھراس مسجد میں نمازپڑھنا مکروہ تحریمی ہے ہاں اگر مسجدطریق ہوتواس میں دوبارہ جماعت کروانےکی گنجائش ہے۔
علامہ جمال الدین زیلعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ونقل عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ انہ قال لایجوز اعادۃ فی مسجد لہ امام راتب.
(نصب الرایۃ: ج2ص857کتاب الصلوۃ باب الامامۃ)
ترجمہ: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے یہ بات نقل کی گئی ہے کہ جس مسجد کا امام متعین ہو اس مسجد میں دوبارہ نماز ناجائز ہے۔
مذہب غیرمقلدین:
(ایک ہی مسجد میں) جماعت ثانیہ بلکہ ثالثہ ورابعہ بھی جائز ہے تکرارجماعت فی مسجدواحد حدیث صحیح سے ثابت ہے اورکراہت بھی اسکی کسی حدیث سے ثابت نہیں۔
(فتاوی ثنائیہ ج1ص635، فتاوی علماءحدیث ج3ص50)
دلائل اہل السنت والجماعت
دلیل نمبر1:
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال والذی نفسی بیدہ لقد ھممت ان امربحطب یحطب ثم امربالصلوۃ فیوذن لہا ثم امررجلا فیا م الناس ثم اخالف الی رجال فاخرق علیہم بیوتہم.
(صحیح البخاری: ج1ص89باب وجوب الصلوۃ الجماعۃ)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میرا دل چاہتا ہے کہ لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں پھر کسی کو حکم دوں وہ نماز کے لیے اذان کہے پھر کسی اور کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کی امامت کرائے پھر میں ان لوگوں کی طرف (جو نماز سے پیچھے رہ جاتےہیں) جاؤں پس ان کے گھروں کو جلا ڈالوں۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی جماعت میں شریک ہونا ضروری ہے کیونکہ اگردوسری جماعت بلاکراہت جائز ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھنے پراتنی سختی کا اظہار نہ فرماتے۔
دلیل نمبر2:
عن ابی بکرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اقبل من نواحی المدینۃ یرید الصلوٰۃ فوجد الناس قد صلوافمال الی منزلہ فجمع اہلہ فصلی بہم.
(المعجم الاوسط للطبرانی: ج3ص284 رقم 4601)
ترجمہ: حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے قریب ایک جگہ سے تشریف لائے اور آپ کا ارادہ نماز پڑھنے کا تھا آپ نے لوگوں کو اس حال میں پایا کہ وہ نماز پڑھ چکے تھے چنانچہ آپ گھر تشریف لے گئے اور گھر والوں کو اکٹھا کر کے نماز پڑھائی۔
اگربلاکراہت نمازجائز ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدکی فضیلت حاصل کرتے۔
اعتراض:
اس حدیث کی سندمیں ایک راوی ولیدبن مسلم مدلس ہے. لہٰذا اس روایت سے استدلال درست نہیں ہے۔
جواب نمبر1:
امام طبرانی رحمۃ اللہ نے معجم اوسط میں مذکورہ حدیث دوطریق سے نقل کی ہے اور دونوں میں ولیدبن مسلم کی تحدیث اورسماع کی صراحت موجود ہے دونوں طریق ملاحظہ فرمائیں۔
طریق نمبر1 : حدثناعبدان بن احمدقال حدثناھشام بن خالدالدمشقی قال حدثنا الولید بن مسلم قال اخبرنی ابومطیع معاویہ بن یحی عن خالدالحذاء عن عبدالرحمٰن بن ابی بکرۃ.
(المعجم الاوسط للطبرانی ج3ص284 من اسمہ عبدان رقم الحدیث 4601)
طریق نمبر2: حدثنامحمد بن ھارون قال حدثناھشام بن خالدالارزق قال حدثنا الولید بن مسلم قال حدثنا معاویہ بن یحی عن خالدن الحذاء عن عبدالرحمٰن بن ابی بکرۃ الخ.
(المعجم الاوسط للطبرانی ج5ص132 من اسمہ محمدرقم الحدیث 6820)
جواب نمبر2:
اس روایت کے راویوں کی علامہ ہیثمی نے توثیق کی ہے اور خود غیرمقلدین کےمشہورعالم ناصرالدین البانی نے اس کی تحسین کی ہے۔
قال الہیثمی رواہ الطبرانی فی الکبیروالاوسط ورجالہ ثقاث.
(مجمع الزوائد ج2ص173 باب فیمن جاءالی المسجدفوجدالناس قدصلوّا)
قال الالبانی قلت وھوحسن.
(تمام المنۃ فی التعلیق علی فقہ السنہ ص155)
دلیل نمبر3:
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم من توضا فاحسن وضوءہ ثم راح فوجد الناس قدصلواعطاہ اللہ عزوجل مثل اجرمن صلاھاوحضرھا لا ینقص ذالک من اجرھا شیئا.
(سنن ابی داؤد: ج 1ص 90 )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جس آدمی نے اچھی طرح سے وضو کیا پھر مسجد کی طرف آیا دیکھاکہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں تو اللہ عز وجل اس کو بھی اتنا اجر عطاء فرمائیں گے جتنا نماز باجماعت پڑھنے کا ثواب ملتا ہے اور س نماز پڑھنے والے کے اجر میں کچھ بھی کمی نہ ہوگی۔
دلیل نمبر4:
عن ابراہیم النخعی قال قال عمرلایصلٰی بعدصلوۃ مثلھا؟
(مصنف ابن ابی شیبہ: ج4ص293 باب من کرہ ان یصلٰی بعدالصلاۃ مثلھا رقم الحدیث 6050)
ترجمہ: حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایک نماز کے بعد اس جیسی نماز نہ پڑھی جائے۔
تشریح حدیث: فقہاءکرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں:
لایصلٰی بعدصلوۃ مثلھا.
ایک نمازکے بعداس جیسی دوسری نمازنہ پڑھی جائے۔
اس کے ظاہری معنی مرادنہیں ہیں ورنہ اس سے لازم آئے گا کہ فجرکی دوسنتیں پڑھنے کے بعددوفرض نہ پڑھیں جائیں کیونکہ بعدوالی دورکعتیں پہلی دورکعتوں جیسی ہیں ، اسی طرح ظہرکی چار رکعتیں پڑھ کرچارفرض نہ پڑھے جائیں کیونکہ وہ بھی سنتوں جیسی ہیں اسی طرح عصرکی چارسنتیں پڑھ کرعصر کے چارفرض نہ پڑھے جائیں وہ بھی توپہلی چاررکعتوں کی طرح ہیں ، اس لئے اس حدیث کے یہ معنی لینازیادہ بہترہے کہ جب ایک مرتبہ جماعت ہوجائے تودوسری جماعت نہ کروائی جائے۔
تصریحات فقہاء کرام :
نمبر 1: علامہ اکمل الدین محمد بن محمود بابرتی (م 786ھ) تحریرفرماتے ہیں:
من مشائخنامن قال المرادبہ الزجرعن تکرارالجماعات فی المساجد وھوحسن.
(العنایہ شرح الہدایہ: ج1ص400)
ترجمہ:ہمارے بعض مشائخ کا کہناہے کہ اس سےمرادمساجدمیں تکرارجماعت سے روکنا ہے اوریہی معنی مرادلینا زیادہ بہتر ہے۔
نمبر2: علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ (م855ھ) فرماتے ہیں:
قیل المرادبہ الزجرعن تکرارالجماعۃ فی المساجدوقال الشیخ وھوتاویل حسن.
(رمزالحقائق فی شرح کنز الدائق ج1ص47)
ترجمہ: اس سے مرادمساجد میں تکرارجماعت سے روکنا ہے شیخ فرماتے ہیں: یہ اس کی ایک بہترین تاویل ہے۔
نمبر3: علامہ کمال الدین محمدبن عبدالواحدالمعروف بابن الھمام (م861ھ) فرماتے ہیں:
ھومحمول علی تکرارالجماعۃ فی المسجدعلی ھیئۃ الاولیٰ او علی النھی عن قضاءالفرائض مخافۃالخلل فی المودٰی فانہ مکروہ.
(شرح فتح القدیر: ج1ص476 فصل فی القراءۃ بعد ازباب النوافل )
ترجمہ: یہ حدیث محمول ہے مسجد میں پہلی ہیئت کے مطابق دوبارہ جماعت کروانے پر یافرض نمازکو کسی خلل پڑجانے کے اندیشے کی وجہ سے لوٹانے سے روکنے پر کیونکہ یہ دونوں مکروہ ہیں۔
نمبر4: حکیم الامت مجددالملت مولانااشرف علی تھانوی (م 1362ھ) فرماتے ہیں:
قلت واقرب تفاسیرہ حملہ علی ٰتکرارالجماعۃ فی المسجد.
(جامع الآثار ص37)
ترجمہ: میں کہتا ہوں اس کی قریب ترین تفسیریہ ہے کہ اسے مسجدمیں تکرارجماعت پر محمول کیاجائے۔
دلیل نمبر5:
عن سلیمان یعنی مولیٰ میمونۃ قال اتیت ابن عمرعلی البلاط وھم یصلون فقلت الاتصلی معھم ؟ قال قد صلیت انی سمعت رسول اللہ علیہ وسلم لاتصلوا صلوۃ فی یوم مرتین.
(سنن ابی داؤدج1ص93باب اذاصلی فی جماعۃ ثم ادرک جماعۃ یعید )
ترجمہ: حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے آزار کردہ غلام حضرت سلیمان فرماتے ہیں کہ میں (مدینہ طیبہ میں) مقامِ بلاط میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ آپ ان کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھ رہے؟ آپ نے فرمایا: میں نماز پڑھ چکا ہوں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم ایک نماز ایک دن میں دو مرتبہ نہ پڑھو۔
تشریح حدیث: فقہاء کرام نے اس حدیث کومسجد میں جماعت ثانیہ کی نہی پرمحمول کیاہے وجہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے جماعت میں شریک نہ ہونے کی یہ وجہ بیان فرمائی کہ ”میں نمازپڑھ چکاہوں“ اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
لاتصلواصلوۃ فی یوم مرتین.
اس کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں:
نمبر1: آپ نے پہلی نمازجماعت کے ساتھ پڑھی ہواورآپ اس شخص کیلئے جس نےایک مرتبہ نمازجماعت کے ساتھ پڑھی ہو دوسری مرتبہ نمازجماعت کے ساتھ پڑھنے کومکروہ سمجھتے ہوں اس لیے جماعت میں شریک نہ ہوئے ہوں۔
نمبر2: یہ جماعت ثانیہ ہواورآپ جماعت ثانیہ میں شریک ہونے کومکروہ سمجھتے ہوں اس لیے آپ جماعت میں شریک نہیں ہوئے۔ ہمارے فقہاء نے اس دوسری صورت کوترجیح دی ہے۔
وجہ ترجیح: آپ کے فرمان ”میں نمازپڑھ چکاہوں“سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ آپ نے فرض نمازتنہاپڑھی تھی اورجوشخص تنہافرض پڑھ لے تواس کیلئے جائز اور مستحب یہ ہے کہ وہ جماعت کوپائے توجماعت کی فضیلت حاصل کرنے کیلئے جماعت میں شریک ہوجائے۔ اس لحاظ سے چاہیے تویہ تھا کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما جماعت میں شریک ہوجاتے لیکن آپ جماعت میں شریک نہیں ہوئے اسکی یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ یہ جماعت ثانیہ ہورہی تھی جسے آپ صحیح نہیں سمجھتے تھے اس لیے شریک نہ ہوئے۔ نیز اس کی تائید جلیل القدرتابعین بالخصوص آپ کے صاحبزادے حضرت سالم رحمہ اللہ کے فتوےسے بھی ہوتی ہے:
عن عبدالرحمٰن بن المجبرقال ،دخلت مع سالم بن عبداللہ مسجدالجحفۃ وقدفرغوا من الصلوۃ فقالوا الاتجمع الصلو ۃ فقال سالم لا تجمع صلوۃ واحدۃ فی مسجدواحد مرتین.
(المدونۃ الکبری ص181کتاب الصلوۃ فی المسجدتجمع الصلوۃ فیہ مرتین)
ترجمہ: حضرت عبد الرحمٰن بن مجبر فرماتے ہیں کہ میں حضرت سالم بن عبد اللہ کے ساتھ مسجد جحفہ گیا، وہاں لوگ نماز سے فارغ ہو چکے تھے، لوگ کہنے لگے:آپ (دوسری) جماعت کیوں نہیں کروا لیتے؟ حضرت سالم نے فرمایا: ایک مسجد میں ایک نماز کی دو مرتبہ نہیں کروائی جا سکتی۔
تحقیق السند: قال العلامہ العثمانی ورجالہ کلہم ثقات
(اعلاءالسنن ج4ص280باب کراھیۃ تکرارالجماعۃ فی مسجدمحلہ )
دلیل نمبر6:
عن ابراھیم ان علقمۃ والاسوداقبلامع ابن مسعودالی مسجد فاستقبلھم الناس قد صلوافرفع بہماالی البیت فجعل احدھماعن یمینہ والآخرعن شمالہ ثم صلی بہما.
(مصنف عبدالرزاق ج2ص272رقم الحدیث 3895باب الرجل یؤم الرجلین)
ترجمہ: حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت علقمہ اور حضرت اسود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لائے لوگوں نے ان کا اس حال میں استقبال کیا کہ وہ نماز پڑھ چکے تھے چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت علقمہ اور حضرت اسود کو لے کر گھر تشریف لے گئے اور ایک کو دائیں جانب اور ایک کو بائیں جانب کھڑا کیا اور ان دونوں کو نماز پڑھائی۔
غیر مقلدین کے پیشواناصر الدین البانی اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:
فلوکانت الجماعۃ الثانیۃ فی المسجد جائزۃ مطلقا لما جمع ابن مسعود فی البیت مع ان الفریضۃ فی المسجد افضل کماہو معلوم ثم وجدت مایدل علی ان ھذاالاثر فی حکم المرفوع الخ.
(تمام المنتہ فی التعلیق علی فقہ السنتہ ص155)
کہ اگرجماعۃ ثانیہ مسجد محلہ میں مطلقاجائز ہوتی توحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ گھرمیں جماعت نہ کرواتے کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ مسجد میں فرض اداکرنا افضل ہے اورمجھے ایک حدیث ایسی ملی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ موقوف حدیث حکما مرفوع ہے۔
قال الالبانی: بسند حسن عن ابراھیم.
(تمام المنتہ ص155)
دلیل نمبر 7:
عن الحسن قال کان اصحاب محمدصلی اللہ علیہ وسلم اذادخلواالمسجدوقد صلی فیہ صلوافرادٰی.
(مصنف ابن ابی شیبہ ج5ص55باب من قال یصلون فرادیولایجمعون رقم الحدیث 7188)
ترجمہ: امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ جب مسجد میں داخل ہوتے اور اس میں نماز ہوچکی ہوتی تو اکیلے اکیلے نماز پڑھتے تھے۔
دلیل نمبر8:
عن عبدالرحمٰن المجبرقال دخلت مع سالم بن عبداللہ مسجد الجحفۃ وقدفرغوامن الصلوۃ فقالوا الاتجمع الصلوۃ فقال سالم لا تجمع صلوۃ واحدۃ فی مسجد واحد مرتین وقال ابن وھب واخبرنی رجال من اہل العلم عن ابن شہاب ویحی بن سعیدوربیعۃ (ابن ابی عبدالرحمٰن )واللیث مثلہ.
(المدونۃ الکبری ص181کتاب الصلوۃ فی المسجدتجمعالصلوۃ فیہ مرتین )
ترجمہ: حضرت عبدالرحمان مجبر کہتے ہیں میں حضرت سالم بن عبداللہ کے ساتھ مسجد جحفہ میں داخل ہوا اور لوگ نماز سے فارغ ہوچکے تھے لوگوں نے کہا کیا آپ جماعت نہیں کراسکتے، تو حضرت سالم نے فرمایا ایک نماز کی ایک ہی مسجد میں دوبارہ جماعت نہیں ہوسکتی، اور ابن وہب کہتے ہیں کہ مجھے اہل علم نے ابن شہاب اور یحیی بن سعید اور ربیعہ بن ابی عبدالرحمان اور لیث سے اسی طرح خبر دی ہے۔
تحقیق السند: قال العلامۃ العثمانی: ورجالہ کلہم ثقات.
(اعلاءالسنن ج4ص280 باب کراھیۃ تکرارالجماعۃ فی مسجدمحلہ )
دلیل نمبر9:
قال الامام البخاری وکان الاسوداذافا تتہ الجماعۃ ذھب الی مسجداٰخر .
(صحیح البخاری ج1ص89)
ترجمہ: امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت اسود سے جب جماعت فوت ہوجاتی تو دوسری مسجد کی طرف تشریف لے جاتے تھے۔
غیرمقلدین کے مستندعلماءکے نزدیک جماعت ثانیہ جائزنہیں
نمبر1:
غیرمقلدین کے مقتدرعلامہ ناصر الدین البانی لکھتے ہیں:
وبالجملۃ فالجمہورعلی کراھیۃ اعادۃ الجماعۃ فی المسجدبالشرط السابق وھوالحق ولایعارض ھذاالحدیث المشہور الا رجل یتصدق علی ھذافیصلی معہ.
(تمام المنتہ فی التعلیق علی فقہ السنتہ ص157)
ترجمہ: خلاصہ کلام یہ ہے کہ جمہور (فقہاء کرام اور دیگر ائمہ عظام) شرطِ سابق کے ساتھ(کہ مسجد میں امام اور مؤذن مقرر ہو) مسجدِ محلہ میں دوبارہ جماعت کرانے کو مکروہ قرار دیتے ہیں اور یہی بات حق بھی ہے اور اس موقف کے خلاف وہ مشہور حدیث پیش نہ کی جائے جس میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرے کہ اس کے ساتھ نماز پڑھ لے۔
نمبر2:
غیرمقلدعالم علامہ احمدشاکرتحریرفرماتے ہیں:
والذی ذھب الیہ الشافعی من المعنی فی ھذاالباب صحیح جلیل ینبئ عن نظرثاقب ،وفھم دقیق وعقل دراک لروح الاسلام ومقاصدہ.
(شرح ترمذی الجامع الصحیح ج1ص431ابواب الصلوۃ)
ترجمہ: اس مسئلہ میں جو موقف حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنایا ہے وہ نہایت صحیح اور جلیل القدر ہے جو آپ کے دور رس نگاہ، گہرے فہم اور اسلام کی روح اور اس کے مقاصد کا مشاہدہ کرنے والی عقل کی دلیل ہے۔
نمبر3:
غیر مقلد عالم مولانا عبدالجبارسلفی نے تعددجماعت کی مضرتیں کے عنوان سے ایک طویل مضمون لکھا ہے جس میں یہ ثابت کیا کہ جماعت ثانیہ مسجد محلہ میں جائز اوردرست نہیں ہے اوریہ مضمون غیرمقلدین کے آرگن ہفت روزہ الاعتصام لاہورجلد47شمارہ نمبر40میں شائع ہوچکا ہے (20اکتوبر1995ء)
جماعت ثانیہ کی کراہت کی عقلی وجوہ:
پہلی وجہ: اگرجماعت ثانیہ کی اجازت دے دی جائے تواس سے پہلی جماعت کی تقلیل لازم آئے گی اورپہلی جماعت کی تقلیل عندالشرع ایک مکروہ امرہے اورضابطہ ہے کہ جوچیزامرمکروہ کا سبب بنتی ہے وہ بھی مکروہ ہوتی ہے۔ لہذاجماعت ثانیہ جوجماعت اولیٰ کی تقلیل کا سبب ہے وہ بھی مکروہ ہوگی۔
دوسری وجہ: اگرجماعت ثانیہ کی اجازت دیدی جائے توجماعت ثالثہ اورجماعت رابعہ کی ممانعت کی بھی کوئی دلیل نہ ہوگی اوریوں سلسلہ غیرمتناہی حدتک چل پڑے گااورجماعت کا صرف نام رہ جائے گااجتماعیت ختم اورانفرادیت پیداہوجائے گی جبکہ شریعت میں اجتماعیت مطلوب ہے۔
تیسری وجہ: اگرجماعت ثانیہ کی اجازت دیدی جائے توجن نمازوں کے بعد سنن اورنوافل ہیں ان میں مشغول ہونے میں خلل لازم آتا ہے کیونکہ جب جہری نمازمیں امام تکبیرات اورقراءت کریگا تولازمی امر ہے کہ اس سے باقی نمازپڑھنے والے حضرات کی نمازمیں خلل پیداہوتا ہے اورکس کی نمازمیں شرعاوعقلاخلل اندازی اورتشویش پیداکرنا جائز نہیں ہے۔ لہذاجماعت ثانیہ کی گنجائش نہیں نکلتی۔
دلائل غیرمقلدین اوران کے جوابات
دلیل نمبر1:
عن ابی سعیدقال قدجاءرجل وقد صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ایکم یتجرعلیٰ ھذافقام رجل وصلیٰ معہ.
(ترمذی ج1ص53فی الجماعۃ فی مسجدقد صلی فیہ)
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص (مسجد میں) اس وقت آیا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم میں سے کون شخص اس پر صدقہ کر کے ثواب حاصل کرے گا؟ تو ایک شخص (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) کھڑے ہوئے اور اس کے ساتھ نماز پڑھی۔
جواب نمبر1:
یہ ایک خاص اورجزوی واقعہ ہے اس سے ہرایک کیلئے جماعت ثانیہ پراستدلال درست نہیں ہوسکتا کیونکہ اگریہ واقعہ اذن عام کی حیثیت رکھتا تویقیناصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاعمل اس کےمطابق ہوتا حالانکہ صحابہ کرام میں سے کسی سے یہ ثابت نہیں کہ وہ تکرارجماعت پرکاربند رہے ہوں یہی وجہ ہے کہ اس ایک واقعہ کے علاوہ پورےذخیرہ احادیث میں کوئی ایک ایسی مثال نہیں ملتی کہ مسجدنبوی میں دوسری جماعت کی گئی ہو۔
جواب نمبر2:
اس واقعہ کاجماعت ثانیہ سے تعلق ہی نہیں ہے کیونکہ عرف میں جماعت ثانیہ اس جماعت کوکہتے ہیں جس میں امام اورمقتدی دونوں فرض پڑھنے والے ہوں اورمذکورہ واقعہ میں امام مفترض جبکہ مقتدی متنفل ہے۔ چنانچہ اسی بات کی صراحت غیرمقلدین کے پیشواعلامہ ناصرالدین البانی نے بھی کی ہے،وہ لکھتے ہیں:
ولایعارض ھذاالحدیث المشہور الارجل یتصدق علی ھذافیصلی معہ وسیاتی فی الکتاب.
(ص277)
فان غایۃ مافیہ حض الرسول صلی اللہ علیہ وسلم احد الذین کانواصلوامعہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الجماعۃ الاولیٰ ان یصلی وراءہ تطوعافھی صلوۃ متنفل وراء مفترض وبحثنا انماھوفی صلوۃ مفترض وراءالمفترض فاتتھم الجماعۃ الاولیٰ ولایجوزقیاس ھذہ علی تلک لانہ قیاس مع الفارق من وجوہ.
(تمام المنتہ فی التعلیق علی فقہ السنۃ: ص157)
ترجمہ: اور اس موقف کے خلاف وہ مشہور حدیث پیش نہ کی جائے جس میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرے کہ اس کے ساتھ نماز پڑھ لے؟! کیونکہ اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں میں سے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ پہلی جمات میں شرکت کی تھی ایک شخص کو اس پر ابھارا ہے کہ وہ اس آنے والے کے پیچھے نفل نماز پڑھ لے۔ پس یہ تو یہ صورت ہوئی کہ ایک نفل نماز پڑھنے والا فرض نماز پڑھنے والے کی اقتداء میں نماز پڑھے جبکہ ہمارے بحث تو اس میں ہے کہ ایک فرض نماز پڑھنے والا دوسرے فرض نماز پڑھنے والے کے پیچھے نماز پڑھے اور وہ دونوں ایسے ہوں جن سے پہلے جماعت رہ گئی ہو اور اس دوسرے مسئلہ کو پہلے مسئلہ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ متعدد وجوہ سے قیاس مع الفارق ہے۔
جواب نمبر3:
اس حدیث کے الفاظ ہی جماعت ثانیہ کی ناپسندید گی پردلالت کرتے ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایکم یتحیر. (وفی روایۃ) یتصدق.
یعنی یہ شخص تاخیرکیوجہ سے جماعت کے ثواب کامستحق تونہیں تھا لیکن جیسے کسی کوصدقہ دیکر اس پراحسان کیا جاتاہے ایسے ہی کوئی شخص اس کے ساتھ شریک ہوکر اس پرجماعت کے ثواب کا صدقہ اوراحسان کردے۔
نیز اگرجماعت ثانیہ پسندیدہ ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادمبارک کچھ اس طرح ہوتا جب جماعت سےپیچھےرہ جاؤتودوسری جماعت کرلیاکرو یاکوئی اورایساکلمہ ہوتا جس سے جماعت ثانیہ کی پسندیدگی ظاہرہوتی لیکن یہاں تواس کےہم معنی کوئی لفظ بھی نہیں فرمایابلکہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ایکم تم میں سے کوئی ایک اس پرصدقہ کرے گویا زیادہ کی شرکت بھی ناپسند تھی اور صحابہ کرام نے بھی اس بات کو سمجھا اوران میں سے صرف ایک ہی شخص نے شرکت کی ورنہ سب دوڑ پڑتے۔
دلیل نمبر2:
جاء انس بن مالک الیٰ مسجد قد صلی فیہ فاذن واقام وصلی جماعۃ.
(بخاری ج1ص89باب فضل صلوۃ الجماعۃ )
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نماز پڑھنے کی غرض سے ایک مسجد میں تشریف لائے، وہاں نماز ہو چکی تھی، آپ کے اذان و اقامت کہہ کر جماعت سے نماز پڑھی۔
جواب نمبر1:
یہ حدیث متنامضطرب ہے لہذااس سے استدلال درست نہیں ہے۔ السنن الکبری للبیہقی کی روایت میں مسجدبنی رفاعۃ کاذکرہے اورمسندابی یعلی موصلی کی روایت میں مسجدبنی ثعلبہ ،، کاذکرہے نیزمصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کاامامت کیلئے مقتدیوں کے درمیان کھڑے ہونے کاذکر ہے اوربیہقی کی روایت میں کہ انہوں نے آگے بڑھ کرنمازپڑھائی تفصیل ملاحظہ فرمائیں سنن کبری بیہقی کی روایت:
عن الجعدابی عثمان الیشکری قال صلیناالغداۃ فی مسجدبنی رفاعۃ جلسنافجاء انس بن مالک فی نحومن عشرین من فتیانہ فقال اصلیتم ؟ قلنانعم فامربعض فتیانہ فاذن واقام ثم تقدم فصلی بہم.
(ج3ص70باب الجماعۃ فی مسجدقد صلی فیہ )
ترجمہ: حضرت جعد ابو عثمان یشکری فرماتے ہیں: ہم مسجد بنو رفاعہ میں صبح کی نماز پڑھ کر بیٹھے ہی تھے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیس نوجوانوں کے ساتھ حاضر ہوئے، فرمانے لگے: کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے کہا: جی ہاں!! تو آپ نے اپنے ایک ساتھی کو حکم دیا، اس نے اذان و اقامت کہی، پھر آپ آگے بڑھے اور اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔
مسندابی یعلی کی روایت:
عن الجعدابی عثمان قال مرّبناانس بن مالک فی مسجدبنی ثعلبہ فقال اصلیتم ؟ قال قلنانعم ،وذاک صلوۃ الصبح ،فامررجلافاذن واقام ثم صلی باصحابہ.
(مسندابی یعلی ص812رقم الحدیث 4354تذکرۃ سعیدبن سنان )
ترجمہ: حضرت جعد ابو عثمان فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہمارے پاس مسجد نبی ثعلبہ کے پاس سے گزرے۔ آپ نے فرمایا: کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے ہاں میں جواب دیا اور یہ صبح کی نماز تھی۔ چنانچہ آپ نے ایک آدمی کو حکم دیا تو اس نے اذان و اقامت کہی، پھر آپ نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت:
عن الیحی قال جاءنا انس بن مالک وقدصلینا الغداۃ فاقام الصلوۃ ثم صلی بہم فقام وسطھم.
(ج5ص54باب فی القوم یجیئون الی المسجدوقدصلی فیہ)
ترجمہ: حضرت یحییٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اس وقت تشریف لائے جب ہم صبح کی نماز پڑھ چکے تھے۔ پھر آپ نے اپنے ساتھیوں کے درمیان کھڑے ہو کر ان کو نماز پڑھائی۔
جواب نمبر2:
اس حدیث میں جس مسجدکاذکرہے اس میں یہ احتمال غالب ہے کہ یہ مسجدطریق تھی، اس احتمال پرکئی قرینہ جات ہیں:
قرینہ نمبر 1: مسجدبنی ثعلبہ اورمسجدبنی رفاعہ عہد نبوت میں معروف مساجدمیں سے نہیں تھی علامہ عینی اورعلامہ سمہودی کی تحقیق کے مطابق عہدنبوت میں چالیس مساجدکاتذکرہ آتا ہے ان چالیس میں نہ مسجدبنی ثعلبہ کاذکر ہے اورنہ ہی مسجدبنی رفاعہ کاذکرہے لہٰذاغالب گمان یہی ہے کہ وہ مسجدطریق تھی اورمسجدطریق میں جماعت ثانیہ پرکوئی اختلاف نہیں ہے۔
قرینہ نمبر2: بیہقی کی روایت میں ہے کہ آپ بیس افرادکےساتھ مسجدمیں تشریف لائے۔
فجاء انس بن مالک فی نحومن عشرین من فتیانہ.
(سنن کبری للبیہقی ج3ص70باب الجماعۃ فی مسجدقدصلی فیہ )
اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کہیں جارہےہوں گے اورمسجدطریق میں آپ نے جماعت کروائی ہوکیونکہ مسجد محلہ میں بیک وقت بیس آدمی جماعت سےرہ جائیں اورزمانہ بھی خیرالقرون کا ہوسمجھ میں نہیں آتا اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسجدطریق تھی۔
قرینہ نمبر3: اس روایت میں صراحت ہے کہ آپ نے باقاعدہ اذان واقامت کے ساتھ جماعت کروائی تھی اورمسجدمحلہ میں اذان واقامت کے ساتھ جماعت ثانیہ کاکوئی بھی قائل نہیں ہے۔ لہٰذااس سے بھی یہی معلوم وثابت ہواکہ یہ مسجدمحلہ نہ تھی بلکہ مسجدطریق تھی۔
دلیل نمبر3:
عن سلمۃ ابن کھیل ان ابن مسعود دخل المسجدوقدصلوافجمع بعلقمہ ومسروق والاسود.
(مصنف ابن ابی شیبہ ج5ص54رقم الحدیث 7182)
ترجمہ: حضرت سلمہ بن کھیل سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں تشریف لائے تو لوگ نماز پڑھ چکے تھے۔ آپ نے حضرت علقمہ، حضرت مسروق اور حضرت اسود کے ساتھ جماعت کروائی۔
جواب نمبر1:
اس روایت سےبھی جماعت ثانیہ کےجوازپراستدلال درست نہیں ہے کیونکہ اس روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت علقمہ، حضرت مسروق اورحضرت اسودبھی مفترض تھے بلکہ الفاظ روایت ”ان ابن مسعود دخل“ سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ حضرات نمازپڑھ چکے تھے صرف حضرت عبد اللہ بن مسعودکی نمازرہ گئی تھی چنانچہ یہ صورت بھی متنفل کی مفترض کے پیچھے اقتداء والی بنتی ہے جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ مفترض کی اقتداء مفترض کے پیچھے ہواوروہ اس روایت سے ثابت نہیں ہوتی، لہٰذااس سےاستدلال درست نہیں ہے۔
جواب نمبر2:
یہ حدیث موقوف ہے اورغیرمقلدین کاضابطہ ہے کہ موقوفات صحابہ حجت نہیں ہیں۔ چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں:
1: افعال الصحابۃ رضی اللہ عنہم لا تنتہض للاحتجاج بھا.
(فتاوی نذیریہ بحوالہ مظالم روپڑی: ص 58)
2: صحابہ کا قول حجت نہیں۔
(عرف الجادی: ص 101)
3: صحابی کا کردار کوئی دلیل نہیں اگرچہ وہ صحیح طور پر ثابت ہوں۔
(بدور الاہلہ: ج 1 ص 28)
4:آثار صحابہ سے حجیت قائم نہیں ہوتی۔
(عرف الجادی: ص 80)
5: خداوند تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے کسی کو صحابہ کرام کے آثار کا غلام نہیں بنایاہے۔
(عرف الجادی: ص 80)
6: موقوفات صحابہ حجت نہیں۔
(بدورا لاہلہ: ص 129

)

Download PDF File