حفاظت قرآن

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حفاظت قرآن
از افادات:متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
قرآن کریم آسمانی کتابوں میں سب سے بلند اور ممتاز اس سبب سے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کسی تحریف اور تبدیلی سے محفوظ رکھنے کا خود ذمہ لیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ نہ لیا ہوتا تو اس میں بھی تحریف اور تبدیلی کا وہی حال ہوتا جو سابقہ آسمانی کتابوں کا ہوا ، کیونکہ سابقہ آسمانی کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے انہی لوگوں کو سونپی تھی جن کی طرف اللہ نے وہ کتابیں اتاری تھیں۔
قرآن کریم کو اس عظیم خوبی کے ذریعے دوسری آسمانی کتابوں سے بلند اور ممتاز کرنے کی حکمت یہ ہے کہ یہ آسمانی کتابوں میں سے آخری کتاب ہے اور آسمانی کتابوں کے سلسلے کو ختم کرنے والی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لیے ایسے اسباب تیار اور مہیا فرمائے جو اس کے علاوہ کسی بھی اور کتاب کے لیے میسر نہیں تھے۔
ان اسباب میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے خلیفہ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا قرآن کولکھا ہوا جمع کرنا تھا۔ ان اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان ذو النورین رضی اللہ عنہ کا تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی رضا مندی سے قرآن کو ایک کتاب کی صورت میں ثابت شدہ قراءتوں کے مطابق جمع فرمایا، پھر اس کے نسخے لکھوا کر تمام ملکوں میں روانہ فرمائے۔ ان اسباب میں سے سب سے بڑا اور معجزاتی سبب قرآن مجید کو زبانی یاد کرنا ہے۔
حفاظت کے چند دلائل :
آیت1:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ.
(سورۃ الحجر:9)
تفاسیر:
٭ أنه هو الذي أنزل الذكر، وهو القرآن، وهو الحافظ له من التغيير والتبديل.
(تفسیر ابن کثیر تحت ھذہ الآیۃ)
٭ ﴿وإنا له لحافظون﴾ من التبديل والتحريف والزيادة والنقص.
(تفسیر جلالین)
٭ وإنا له لحافظون ( الضمير في له يرجع إلى الذكر يعني , وإنا للذكر الذي أنزلناه على محمد لحافظون يعني من الزيادة فيه , والنقص منه والتغيير والتبديل والتحريف , فالقرآن العظيم محفوط من هذه الأشياء كلها لايقدر أحد من جميع الخلق من الجن والإنس أن يزيد فيه , أو ينقص منه حرفاً واحداً أو كلمة واحدة , وهذا مختص بالقرآن العظيم بخلاف سائر الكتب المنزلة فإنه قد دخل على بعضها التحريف , والتبديل والزيادة والنقصان.
(تفسیر خازن )
آیت2:
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ. لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ.
(سورۃ فصلت:41، 42)
”من بین یدیہ “سے مراد عالم بالاسے حضور علیہ السلام تک جن واسطوں سے قرآن پہنچا وہ معتبر ہیں، شیطانی وساوس سے محفوظ ہیں اور ”ومن خلفہ“ سے مراد آپ علیہ السلام سے امت تک جن واسطوں سے دین پہنچا وہ واسطے بھی معتبر ہیں۔
یا ”من بین یدیہ “ وقت نزول اور ”ومن خلفہ “بعد رحلت رسول۔
”لایاتیہ الباطل “... ”باطل“ خلافِ حق چیزکو کہتے ہیں، تحریف بھی چونکہ خلافِ حق ہے اس لئے یہ قرآن میں نہیں ہوسکتی۔
آیت3:
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ. إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ .
(سورۃ القیامۃ:16، 17)
٭ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں :
حفظ قرآن کہ موعود حق است باایں صورت ظاھر شد کہ جمع آں درمصاحف کنند.
(ازالۃ الخفاءعن خلافۃ الخلفاء: مقصد اول فصل سوم ج1ص193)
ترجمہ :قرآن کی حفاظت جس کاوعدہ خداوند نے (”انالہ لحافظون“ میں) کیا، وہ اس شکل میں پورا ہوا کہ مصاحف میں لوگ اس کو جمع کریں۔
٭ مولانا عبد الشکور لکھنوی رحمہ اللہ اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں :
اس آیت سے بھی قرآن مجید کا ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہونا ثابت ہوتا ہےاور تحریف کی رسائی قرآن تک محال وناممکن ثابت ہوتی ہے کیونکہ جب قرآن کا مصحف میں جمع کرانا اور اس کے درس کا دنیا میں قائم رکھنا خدانے اپنے ذمہ لیا اور ظاہر ہے کہ یہ سب ذمہ داریاں اصلی قرآن کے لئے ہیں۔ لہٰذا ناممکن ہے کہ وہ محرف صورت میں جمع ہو محرف درس قائم رہے ورنہ خلف وعید لازم آئے گا۔
(تحفہ اہل سنت ص337)
فائدہ: ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وأنزلت عليك كتابا لا يغسله الماء .
(صحیح مسلم باب الصفات التي يعرف بها في الدنيا أهل الجنة وأهل النار)
ترجمہ:اے میرے پیغمبر! میں نے آپ پر ایک ایسی کتاب نازل کی جس کو پانی دھو نہیں سکتا۔
اس کی شرح کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ایں کنایہ است ازانکہ اگر مساعی بنی آدم صرف شوند درمحوقرآن قادر نشوند برآں .
(ازالۃ الخفاءعن خلافۃ الخلفاء مقصد اول فصل سوم ج1ص193)
ترجمہ :اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمام انسان مل کربھی قرآن کو مٹانے کی کوشش کریں تب بھی نہیں مٹاسکتے۔ (کیونکہ حفاظت کا ذمہ خود خالق نے لیا)
روافض؛ قائلین تحریف قرآن
چند ابتدائی باتیں:
[1]: روافض کے مذہب کی بنیادوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ راویانِ دین اور ناقلینِ قرآن کی پہلی جماعت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جھوٹے تھے۔ حضور علیہ السلام کی وفات کے بعد چند اشخاص کے علاوہ سب مرتد ہو گئے تھے۔ نعوذ باللہ من ذلک
[2]: اس بات پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تقریباً روافض کا بھی اتفاق ہے کہ موجود ہ قرآن جو ہمیشہ سے پڑھا جا رہا ہے یہ حضرات خلفاء ثلاثہ کی محنت اور ان کے اہتمام سے جمع ہو ا اور ان حضرات نے اس مصحف کو پوری دنیا میں پھیلایا ہے۔ روافض خلفاء ثلاثہ کو بے دین اور دشمنِ دین سمجھتے ہیں تو ان کے دور میں جمع کیا ہوا قرآن کیسے درست ہو سکتا ہے؟!
[3]: روافض کی معتبر کتب میں تقریباً دو ہزار روایات ایسی ہیں جو اس موجودہ قرآن کو محرف بتاتی ہیں اور ان روایات کو رافضی مصنفین نے اپنے زعم کے مطابق ائمہ معصومین سے نقل کیا ہے۔ بلکہ باقر مجلسی کی تحریرات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کی روایات عقیدہ امامت کی طرح متواتر ہیں۔ چنانچہ ایک روایت نقل کرکے لکھتے ہیں:
فالخبر صحیح ولایخفیٰ ان ھٰذا الخبر وکثیر من الاخبار الصحیحۃ صریحۃ فی نقص القرآن وتغییرہ ، وعندی ان الاخبار فی ھٰذاالباب متواترۃ معنیً وطرح جمیعھا یوجب رفع الاعتماد عن الاخبار راساًبل ظنی ان الاخبار فی ھٰذاالباب لایقصر عن اخبار الامامۃ.
(مرآۃ العقول: ج4ص857)
ترجمہ: یہ حدیث صحیح ہے۔ نیز یہ روایت اور دیگر کئی ایک صحیح روایات تحریف قرآن پر صراحتاً دال ہیں۔ میرے نزدیک مسئلہ تحریف کی روایات متواتر معنوی ہیں، ان تمام روایات کو ترک کرنے سے پورے فن حدیث سے اعتماد ختم ہوجائے گا۔ میرے علم کے مطابق مسئلہ تحریف کی روایات مسئلہ امامت سے کم نہیں۔
اسی طرح نعمت اللہ جزائرینے لکھا:
ان تسلیم تواترھا عن الوحی الالٰہی وکون الکل قد نزل بہ الروح الامین یفضی الیٰ طرح الاخبار المستفیضۃ بل المتواترۃ الدالۃ بصریحھا علی ٰ وقوع التحریف فی القرآن کلاماً ومادۃ واعراباً مع ان اصحابنا رضوان اللہ علیھم قداطبقوا علیٰ صحتھا والتصدیق بھا.
(انوار نعمانیہ ج2ص311)
ترجمہ: اگر اس موجودہ قرآن کو اصلی مان لیا جائے تو ان تمام متواتر روایات کو چھوڑنا پڑے گا جو اس بات کی دلیل ہیں کہ قرآن کریم کی عبارت، الفاظ اور اعراب میں تحریف کی گئی ہے۔ نیز ہمارے شیعہ ان روایات کی صحت پر متفق ہیں اوران کی تصدیق بھی کرتے ہیں۔
[4]: یہ روایات روافض کے محدثین نے ائمہ معصو مین کی طرف منسوب کی ہیں۔ اس کے برخلاف قرآن کے کامل اور غیر محرف ہونے کی کوئی روایت امام معصوم سے نہیں ملتی۔
[5]: اہلِ تشیع کے چند گنتی کے علماء کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ تحریف قرآن کے قائل نہیں تھے لیکن ان کا قول چند وجوہ سے معتبر نہیں:
۱: ائمہ معصومین کے مقابلہ میں ان کے قول کی کوئی حیثیت نہیں۔
۲: ان کا یہ قول تقیہ کی وجہ سے ہے کیونکہ انہوں اپنی تائید میں ائمہ معصومین کی کوئی روایت پیش نہیں کی۔
۳: جن روایات سے تحریف ثابت ہے ان کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی قائلین پر کوئی حکم لگایا۔
۴: روایات کو ضعیف تو کہا ہے مگر وجہ ضعف بیان نہیں کی۔
ثبوت قول تحریف از کتب شیعہ:
[1]: انہم اثبتوا فی الکتاب مالم یقلہ اللہ لیلبسوا علی الخلیقۃ .
(الاحتجاج طبرسی ص 295)
ترجمہ:انہوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) نے قرآن میں وہ باتیں بڑھادیں جو اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمائی تھیں تاکہ مخلوقِ خداکو فریب دیں۔
[2]: دفعہم الاضطرار، بورود المسائل علیھم عمالا یعلمون تاویلہ الی جمعہ وتالیفہ وتضمینہ من تلقائہم ما یقیمون بہ دعائم کفرھم.
(الاحتجاج ص 305)
ترجمہ:لوگوں نے جب صحابہ سے وہ مسائل پوچھے جن کو وہ نہیں جانتے تھے تو مجبوراًانہیں قرآن جمع کرنا پڑا۔ پھر انہوں نے قرآن میں وہ باتیں بڑھائیں جن سے ان کے کفر کے ستونوں کو تقویت ملی۔
[3]: ولو شرحت لک کلما اسقط وحرف وبدل مما یجری ھٰذا المجریٰ لطال وظہر ما تحظر التقیۃ اظہارہ .
(الاحتجاج ص 300،301)
ترجمہ :قرآن کی جو آیتیں ختم کی گئی اور جن آیات میں ردوبدل کی گئی اگر وہ سب میں بیان کردوں تو بات لمبی ہوجائے گی اور جس چیز سے تقیہ مانع ہے وہ ظاہر ہوجائے گی۔
[4]: قال ابو جعفر علیہ السلام لولاانہ زید فی کتاب اللہ ونقص منہ ما خفی حقنا علی ذی حجاٰ.
(فصل الخطاب ص 85)
ترجمہ: امام محمد باقر فرماتے ہیں: اگر قرآن میں کمی بیشی [تحریف] نہ کی گئی ہوتی تو کسی عقلمند انسان پہ ہمارا حق مخفی نہ ہوتا۔
[5]: وعن ابی ذر الغفاری رضی اللہ عنہ انہ لما توفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ جمع علی القرآن وجاءبہ الی المہاجرین و الانصار وعرضہ علیہم کما قد اوصاہ بذالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ فلما فتحہ ابوبکر خرج فی اول صفحۃ فتحھا فضایح القوم فوثب عمر وقال یا علی ارددہ فلا حاجہ لنا فیہ فاخذہ علی علیہ السلام وانصرف ثم احضروا زید بن ثابت وکان قاریاً للقرآن فقال لہ عمر ان علیا جاءنا بالقرآن وفیہ فضایح المہاجرین و الانصار وقدر اینا ان نولف القرآن ونسقط منہ ماکان فیہ فضیحۃ وھتک للمہاجرین والانصار فاجابہ زید الی ذالک۔ اقول والاخبار فی آیات خاصۃ من التحریف اکثر من ان احصیھا.
(فصل الخطاب ص 86)
ترجمہ:حضرت ابو ذر غفاری فرماتے ہیں: حضور علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ کی وصیت کے مطابق حضرت علی المرتضیٰ نے اصلی قرآن ایک جگہ جمع کیا اور اس کو مہاجرین وانصار کے سامنے پیش کیا۔ حضرت ابوبکر نے جب اس کا پہلا صفحہ کھولا تو دیکھا اس میں قوم (صحابہ) کی برائیوں کا تذکرہ تھا جنہیں دیکھ کر حضرت عمر نے فوراًکہا: علی! آپ یہ قرآن لے جائیں ،ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ حضرت علی وہ قرآن لے کر چلے گئے۔ بعد میں ابوبکر وعمر نے قرآن کریم کے قاری حضرت زید بن ثابت کو بلاکر کہا کہ علی ہمارے پاس قرآن لے کر آیا تھا جس میں مہاجرین وانصار کی برائیوں کا تذکرہ تھا، ہمارا خیال ہے کہ ہم لوگ ایک ایسا قرآن جمع کریں جس سے صحابہ کی برائیوں کو ختم کردیاجائے۔ حضرت زید ان حضرات کے حکم پر قرآن میں تحریف کرنے کے لئے تیا ر ہوگئے۔ میں (یعنی کرمانی ) کہتا ہوں: قرآن کریم میں تحریف کی روایات بے شمارہیں۔
[6]: شیعہ عالم محمد محسن فیض کاشانی نے لکھا:
آنچہ از مجموع اخباری کہ گذشت واحادیث دیگری کہ از طریق اھل بیت علیھم السلام نقل شدہ است استفادہ می شود ، اینست کہ " این قرآنی کہ ھم اکنون در اختیار ما است تمام وکمال آنگونہ نیست کہ بر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نازل شدہ است ، بلکہ در قرآن کنونی زیادتی ھست کہ خلاف ما انزل للہ می باشد واز شق دوّم بخشی تحریف شدہ برخی مغیر معنی وبخش کثیری ھم محذوف می باشد.
(ترجمہ تفسیر شریف صافی ج1ص67)
ترجمہ : مذکورہ اخبار اور ان کے علاوہ اور بھی بہت ساری احادیث جو اہل بیت کے طریق سے مروی ہیں، سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ قرآن مجید جو ہمارے پاس ہے یہ وہی قرآن نہیں ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا بلکہ اس میں ایسی زیادتی کردی گئی ہے جو اصل قرآن کے خلاف ہے۔ دوسرا یہ بھی کہ یہ موجود قرآن محرف ہے ، بعض جگہ تحریف معنوی کی گئی ہے اور بہت سارے مقامات حذف کر دیےگئے ہیں۔
[7]: مقبول حسین دہلوی نے ”ذالک بانہم کرھوا ما انزل اللہ“ کی تفسیر میں لکھا ہے:
تفسیر قمی میں جناب امام محمد باقر سے منقول ہے کہ جبرائیل امین نے جناب رسول خدا کویہ آیت پہنچائی ”ذالک بانہم کرھوا ما انزل اللہ فی علی“ مگر مرتدین نے نام اڑاد دیا۔ پس اس کا نتیجہ بھگتیں گے جو آگے بیان فرمایا ہے ”فاحبط اعمالھم“ . (ترجمہ مقبول ص 809)
[8]: ”وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ“ کی تفسیر میں لکھا ہے :
تفسیر قمی میں ہے کہ جناب امیر المؤمنین نے سورہ واقعہ تلاوت فرمائی تو اس آیت کو یوں تلاوت فرمایا ”وتجعلون شکرکم انکم تکذبون“ جب ختم کر چکے تو ارشاد فرمایا: میں جانتا تھا کہ کوئی کہنے والا ضرور کہےگا کہ یہ آیت یوں کیوں پڑھی؟ میں نے اس کو اس طرح اس لیے پڑھا کہ جناب رسولِ خدا کو اسی طرح تلاوت فرماتے سنا اور لوگوں کی یہ حالت تھی کہ جب بارش ہوتی تو وہ یہ کہتے کہ فلاں اور فلاں ستارے کے سبب ہم پہ بارش ہوئی، اس پر خدائے تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ”وتجعلون شکرکم انکم تکذبون“۔ نیز جناب امام جعفر صادق سے بھی منقول ہے کہ ان حضرات کے سامنے ”وتجعلون رزقکم “ پڑھا گیا توآپ نے فرمایا کہ اصل تو ”تجعلون شکرکم“ ہے۔
(ترجمہ مقبول: ص 857)
[9]: شیعوں کے نزدیک آیات قرآنیہ کی تعداد :کلینی نے حضرت امام جعفرصادق کی طرف منسوب کرکے لکھا ہے:
ان القرآن الذی جآء بہ جبرئیل علیہ السلام الیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سبعۃ عشر الف آیۃ .
(اصول کافی ج2ص605)
فریقِ مخالف کے شبہات اور ان کا ازالہ
شبہات اور ان کے جوابات سے پہلے چند باتیں ذہین نشین ہونی چاہیے:
[1]: جس طرح کتب شیعہ میں ائمہ معصومین کے اقوال موجود ہیں کہ موجودہ قرآن محرّف اور تبدیل شدہ ہے، اصلی نہیں ہے اسی طرح اہل سنت پر الزام تب ثابت ہوگا جب نبی علیہ السلام سے کوئی روایت پیش کی جائے کہ یہ قرآن اصلی نہیں بلکہ تحریف شدہ ہےکیونکہ اہل سنت نبی کے علاوہ کسی کو بھی معصوم نہیں مانتے۔
[2]: کتب شیعہ میں تحریف کی روایات بقولِ شیعہ مصنفین؛ متواتر ہیں۔ لہٰذا ان کا حق بنتا ہے کہ کتبِ اہل السنت سے متواتر روایات پیش کریں، اخبار احاداور ضعیف روایات کو پیش نہ کریں۔
[3]: جو روایت یاعبارت پیش کریں اس میں یہ الفاظ ہوں کہ موجودہ قرآن اصلی نہیں بلکہ محرف ہے، اختلاف قراءت یا منسوخ کی بات نہ ہو۔
شبہہ نمبر1:
قرآن مجید کا ایک حصہ ایسا تھا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھا، جس کو بکری کھا گئی تھی۔ ابن ماجہ میں روایت ہے:
عن عائشة: قالت لقد نزلت آية الرجم ورضاعة الكبير عشرا . ولقد كان في صحيفة تحت سريري . فلما مات رسول الله صلى الله عليه و سلم وتشاغلنا بموته دخل داجن فأكلها.
(سنن ابن ماجۃ: باب رضاع الكبير)
جواب نمبر 1:
اس روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جن آیات کا تذکرہ فرمایا ہے، یہ باجماع امت وہ آیتیں ہیں جن کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے۔ جیسا کہ محققین نے تصریح کی ہے:
چنانچہ امام علامہ آلوسی بغدادی فرماتے ہیں:
أن جميع ذلك منسوخ.
( روح المعانی ج4ص254 تحت الآیۃ)
ترجمہ: یہ منسوخ ہے۔
خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اس کے منسوخ ہونے کی قائل ہیں۔ لہذا اگر انھوں نے یہ آیات کسی کاغذ پر لکھ کر رکھی ہوئی تھیں تو اس کا منشاء سوائے ایک یادگار کے تحفظ کے اور کچھ نہ تھا، ورنہ اگر یہ آیات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک قرآن کریم کا جزء ہوتیں تو وہ کم از کم ان کو تو یاد تھیں، وہ ان کو قرآن کریم کے نسخوں میں درج کراتیں۔ لیکن انھوں نے ساری عمر ایسی کوشش نہیں کی، اس سے صاف واضح ہے کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک یہ آیات محض ایک علمی یادگار کی حیثیت رکھتی تھیں اور قرآن کریم کی دوسری آیات کی طرح اس کو مصحف میں درج کرانے کا کوئی اہتمام ان کے پیش نظر بھی نہیں تھا۔ لہذا اس واقعہ سے قرآن کریم کی حفاظت پر کوئی حرف نہیں آتا۔
جواب نمبر2:
ابن ماجہ کی اس روایت میں چند راوی ضعیف ہیں۔
ایک راوی ”عبد الاعلٰی“ ہے۔ ائمہ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔
٭ امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لم یکن بالقوی.
( میزان الاعتدال للذہبی ج2ص90)
٭ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قدریا لم یکن بالقوی
(تہذیب التہذیب لابن حجر ج3 ص96)
٭ امام ابن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: و لم یکن بالقوی فی الحدیث .
(طبقات ابن سعد ج7)
دوسرا راوی ”محمد بن اسحاق“ ہے۔ ا س کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل نے یہ رائے دی ہے:
متھم بالقدر، یتشیع، یحدث عن المجہولین الاحادیث الباطلۃ، کان یدلس ،کذاب ،معتزلی ،دجال ،لیس بحجۃ۔
( تہذیب التہذیب لابن حجر ج ص39، میزان العتدال للذہبی ج3ص22،21 ،تاریخ بغداد ج1ص230)
ترجمہ: اس پر قدری ہونے کا الزام ہے، شیعہ بھی تھا، مجہول لوگوں سے باطل احادیث روایت کرتا تھا، تدلیس بھی کرتا تھا، جھوٹا، معتزلی، دجال تھااور احادیث میں حجت بھی نہیں تھا۔
جواب نمبر3:
محققین نے اس روایت کو باطل قرار دیا ہے، لہذا یہ روایت حجت نہیں۔
1: مشہور فقیہ اور اصولی امام ابو بكر محمد بن احمد بن ابى سہل السرخسى المتوفى سنہ 490ھ نسخ کے متعلق علمی بحث کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مندرجہ بالا روایت کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لا أصل هذا الحديث.
(اصول السرخسی ج 2ص80)
کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں، یعنی یہ حدیث ثابت ہی نہیں۔
2:امام ابو البرکات النسفی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
فمن تأليفات الملاحدة والروافض.
( تفسیر المدارک للنسفی ج 3ص 234)
ترجمہ: یہ روایت روافض کی کارستانی ہے۔
3: شیخ محمد اطاہر بن عاشور اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
فمن تأليفات الملاحدة والروافض اه
(التحرير والتنوير ج21 ص 247)
ترجمہ: یہ روایت روافض کی کارستانی ہے۔
4:امام فخر الاسلام بزدوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأما حديث عائشة... أنه لا أصل لهذا الحديث.
(کشف الاسرار ج3ص909)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث [جس میں بکری کے صحیفہ کھانے کا ذکر ہے] کی کوئی اصل نہیں۔
5: امام ابو محمدعبدالله بن مسلم بن قتيبہ الدينوری دلائل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
فأما رضاع الكبير عشرا فنراه غلطا .
(تأويل مختلف الحديث ص310)
ترجمہ: رضاع کبیر والی حدیث کو ہم غلط [غیر ثابت] سمجھتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ روایت باطل ہے، اس کو لے کر قرآن کے بارے میں یہ نظریہ رکھنا کہ اس کا کچھ حصہ ضائع ہو گیا غلط ہے۔
شبہہ نمبر2:
اہل السنت والجماعت کی کتب میں بھی موجود ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذ تین کو قرآن نہیں سمجھتے تھے۔
جواب:
[1]: اس قول کی نسبت ابن مسعود کی طرف صحیح نہیں۔
٭ قال فخر الدین الرازی: والأغلب على الظن أن نقل هذا المذهب عن ابن مسعود نقل كاذب باطل.
(تفسیر کبیر ج1ص131سورۃ الفاتحۃ)
٭ قال النووی : أجمع المسلمون علي أن المعوذتين والفاتحة وسائر السور المكتوبة في المصحف قرآن وأن من جحد شيئا منه كفر وما نقل عن ابن مسعود في الفاتحة والمعوذتين باطل ليس بصحيح عنه
(المجموع شرح المہذب ج3ص396فصلفي مسائل مهمة تتعلق بقراءة الفاتحة وغيرها في الصلاة)
ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ اس قول کی نسبت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کرنا درست نہیں۔
[2] اگر بالفرض والمحال اس قول کی نسبت آپ کی طرف مان بھی لی جائے تو اہلِ علم کے بقول اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا نظریہ یہ تھا کہ یہ سورتیں جھاڑ پھونک کے لیے اتری ہیں، لہٰذا ان کو مصحف میں نہ لکھا جائے۔ آپ ان کے مطلق کلام الہٰی ہونے کےہر گز منکر نہیں۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قال القاضي أبو بكر لم يصح عنه أنها ليست من القرآن ولا حفظ عنه إنما حكها وأسقطها من مصحفه إنكارا لكتابتها لا جحدا لكونها قرآنا لأنه كانت السنة عنده ألا يكتب في المصحف إلا ما أمر النبي بإثباته فيه ولم يجده كتب ذلك ولا سمعه أمر به.
(الاتقان فی علوم القرآن ج1ص212)
شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
معوذتین کے قرآن ہونے پر تمام صحابہ کا اجماع ہے اور ان کے عہد سے آج تک بتواتر ثابت ہے، صرف ابن مسعودسے نقل کرتے ہیں کہ وہ ان دوسورتوں کواپنے مصحف میں نہیں لکھتے تھے۔ لیکن واضح رہے کہ ان کو بھی ان سورتوں کے کلام اللہ ہونے میں شبہ نہ تھا، وہ مانتے تھے کہ یہ اللہ کاکلام ہے اور لاریب آسمان سے اترا ہے مگر ان کے نازل کرنے کا مقصدرقیہ اور علاج تھا،معلوم نہیں کہ تلاوت کی غرض سے اتاری گئی یانہیں، اس لئے ان کومصحف میں درج کرنا اور اور اس قرآن میں شامل کرنا جس کی تلاوت نمازوغیرہ میں مطلوب ہے خلاف احتیاط ہے۔
(تفسیر عثمانی ج2ص945،944)
[3]: بقول علامہ آلوسی رحمہ اللہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے اس قول ( کہ ان کو مصحف میں نہ لکھاجائے) سے رجوع کر لیا تھا۔
ولعل ابن مسعود رجع عن ذالک.
(روح المعانی ج30 ص279)
اس پر قرینہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی جو متواتر آیتیں ہیں ان میں متعدد سندیں حضرت ابن مسعود کے واسطہ سے حضور علیہ السلام تک پہنچی ہیں خصوصاً کوفہ کے تین قاری؛ عاصم ، حمزہ اور کسائی، ان کی سندیں جن واسطوں سے آپ علیہ السلام تک پہنچتی ہیں ان میں ایک نام حضرت ابن مسعود کا بھی ہے اور ان تینوں کی قراءت میں معوذ تین قرآن کا حصہ ہیں۔ تو اگر استاد کی قرات میں یہ قرآن کا حصہ نہ تھے تو شاگردوں کی قراءت میں کیسے آگیا؟ اسی بات کو علامہ ابن حزم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
هذا كذب علي ابن مسعود موضوع وإنما صح عنه قراءة عاصم عن زر عن ابن مسعود وفيها الفاتحة والمعوذتان.
(المجموع شرح المہذب ج3ص396)
وأما قولهم أن مصحف عبد الله ابن مسعود خلاف مصحفنا فباطل وكذب وإفك مصحف عبد الله بن مسعود إنما فيه قراءته بلا شك وقراءته هي قراءة عاصم المشهورة عند جميع أهل الإسلام في شرق الدنيا وغربها نقرأ بها كما ذكرنا
(الفصل فی الملل والاھواء والنحل لابن حزم ج2ص65)
شبہہ نمبر3:
سنی عالم علامہ محمد انور شاہ کشمیری نے اپنی کتاب ”فیض الباری“میں لکھا ہے :
واعلم ان فی التحریف ثلاثۃ مذاہب، ذہب جماعۃ الی ان التحریف فی الکتب السماویۃ قد وقع بکل نحو فی اللفظ والمعنی جمیعاً، وھو الذی مال الیہ ابن حزم وذہب جماعۃ الی انکار التحریف اللفظی راساً فالتحریف عندہم کلہ معنوی، قلت: یلزم علی ھذا المذہب ان یکون القرآن ایضاً محرفاً، فان التحریف المعنوی غیر قلیل فیہ ایضاً، والذی تحقق عندی ان التحریف فیہ لفظی ایضاً، اما انہ عن عمد منہم او لمغلطۃ.
(فیض الباری: ج3 ص3945)
جواب:
حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے یہ عبارت حضرت ابن عباس سے منقول اس روایت کی تشریح میں ذکر فرمائی ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ كَيْفَ تَسْأَلُونَ أَهْلَ الْكِتَابِ وَكِتَابُكُمْ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْدَثُ الْأَخْبَارِ بِاللَّهِ تَقْرَءُونَهُ لَمْ يُشَبْ وَقَدْ حَدَّثَكُمْ اللَّهُ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ بَدَّلُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ وَغَيَّرُوا بِأَيْدِيهِمْ الْكِتَابَ فَقَالُوا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ {لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا} أَفَلَا يَنْهَاكُمْ مَا جَاءَكُمْ مِنْ الْعِلْمِ عَنْ مُسَاءَلَتِهِمْ وَلَا وَاللَّهِ مَا رَأَيْنَا مِنْهُمْ رَجُلًا قَطُّ يَسْأَلُكُمْ عَنْ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَيْكُمْ.
(صحیح البخاری: ج1ص329- باب لا یسال اہل الشرک عن الشہادۃ وغیرہا)
اس روایت میں اہلِ کتاب کی تحریف کا ذکر ہے اور حضرت کشمیری رحمہ اللہ نے بھی اپنی مذکورہ عبارت میں پچھلی کتب سماویہ میں اہل کتاب کی تحریف کا ذکر فرمایا ہے جیساکہ اس عبارت میں”ان التحریف فی الکتب السماویۃ“کے الفاظ سے واضح ہے، اس کے بعد آخر میں”ان التحریف فیہ لفظی“ میں ”فیہ“ کی ضمیر حدیث ابن عباس میں ”ما کتب اللہ“کی طرف راجع ہے، قرآن کی طرف نہیں کیونکہ حضرت شاہ صاحب پچھلی کتب سماویہ میں ہی اختلاف مذاہب بیان کرر ہے ہیں، اور پھر ”والذی تحقق عندی“سے پچھلی کتب کی تحریف میں اختلافی مذاہب میں قول محقق ذکر فرمارہے ہیں، نیز اس سے اگلی عبارت ”اما انہ عن عمد منہم“ میں ”منہم“ کی ضمیر غائب کا مرجع بھی حدیث ابن عباس میں ”اہل الکتاب“ ہونا واضح ہے۔
ایک عمومی شبہ :
اگر شیعہ حضرات تحریفِ قرآن کے قائل ہیں تو وہ اس موجودہ قرآن کی تلاوت کیوں کرتے ہیں، اپنے گھروں میں کیوں رکھتے ہیں؟
جواب:
اس کا جواب خود کتب شیعہ میں موجود ہے۔ اصول کافی میں ہے کہ امام جعفر صادق نے ایک آدمی سے قرآن پاک کے اصلی الفاظ سنے تو فرمایا:
کف عن ھٰذہ القراءۃ اقراکمایقراالناس حتی یقوم القائم فاذاقام القائم قرا کتاب اللہ علیٰ حدہ.
(اصول کافی:ج4ص444)
کہ ابھی اس طرح مت پڑھو ! بلکہ جس طرح لوگ تلاوت کرتے ہیں آپ بھی اسی طرح تلاوت کرو، ہاں! جب امام مہدی آئے گا تو قرآن کو اصلی طریقہ پر پڑھے گا۔
اس طرح ترجمہ مقبول میں مقبول حسین دہلوی نے نقل کیا کہ ایک آدمی نے حضرت علی المرتضیٰ کے سامنے ایک آیت پڑھی، آپ نے منع فرمایا کہ آیت ہے اس طرح جس طرح تم نے پڑھی ہے مگر ابھی اس طرح نہ پڑھو ، کسی نے عرض کیا: پھر حضور! اسے بدل کیوں نہیں دیتے۔ فرمایا کہ آج اس کا موقع نہیں ہے کہ قرآن مجید کی اصلاح کر کے عوام الناس کو ہیجان میں لایا جائے، ائمہ علیہم السلام میں یہ حق مخصوص جناب صاحب الامر علیہ السلام کا ہے کہ قرآن مجید کو اسی حد پر پڑھوائیں گے جس حد پر وہ زمانہ جناب رسول خدا میں پڑھا جاتا تھا۔
(ترجمہ مقبول ص 854 سورۃ واقعہ آیت وطلح منضود

)

Download PDF File