عقیدہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عقیدہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
مذہب اہل السنت والجماعت:
حضورعلیہ السلام وفات کے بعداپنی قبراطہر میں بتعلق روح زندہ ہیں ،روضہ اقدس پرپڑھاجانے والا صلوة وسلام خودسنتے ہیں ،جواب دیتے ہیں اور دورسے پڑھاجانے والا صلوة وسلام آپ کی خدمت اقدس میں بذریعہ ملائکہ پہنچایاجاتاہے۔
مذہب اہل بدعت :
1: مولوی شہاب الدین خالدی اھل السنت والجماعت اور اشاعت کےعقیدہ حیات انبیاء علیھم السلام میں فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جمعیت اشاعت التوحیدوالسنۃ کا قرآن کریم اور احادیث صریحہ کی رو سے یہ موقف ہے کہ اس مٹی والے جسم سے روح نکلنے کے بعد نہ تو وہ روح اس قبرمیں مدفون جسم میں واپس آتی ہے اور نہ ہی اس مدفون جسم سے روح کا کوئی تعلق قائم ہوتا ہے جسکی بناء پر یہ جسم دیکھتا ہو اور سنتا ہو اور سن کر جواب دیتا ہو۔
(عقائد علمائے اسلام ص91)
2: سجاد بخاری صاحب لکھتے ہیں:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا جسد عنصری کے ساتھ نہیں تھا بلکہ جسد مثالی کے ساتھ تھا۔
(اقامۃ البرھان ص168)
3: عطاء اللہ بندیالوی صاحب لکھتے ہیں:
علماء میں سے دوسرا طبقہ ایسے "شرفاء"پر مشتمل ہے جو حق کو پہچانتے ہیں اور شرک وبدعات کی حقیقت سے پوری طرح باخبر ہیں لیکن اپنے ذاتی مفاد ،چندوں کے لالچ،جھوٹے وقاراور خانقاہی نظام کو بر قرار رکھنے کے لئے زبانوں پر چپ کی مہریں لگائے ہوئے ہیں انہو ں نے اپنے خطبوں اور بیانات میں کبھی توحید کی حقیقت اور شرک کی وضاحت نہیں فرمائی بلکہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،سماع موتیٰ اور بزرگوں کے وسیلے جیسے موضوعات پر دلائل (بزعم خود)دے کر الٹا شرک کے دہقان بنے ہوئے ہیں۔
(شرک کیا ہے ص4)
اسی رسالہ میں بندیالوی صاحب نے حضور علیہ السلام کی حیات فی القبر کے عقیدہ کو شرک فی الحیاۃ قرار دیا ہے۔
(شرک کیا ہے ص44)
خلاصہ کلام: منکرین حیات الانبیاء علیہم السلام کے نزدیک...
1: حضور علیہ السلام سمیت تمام انبیاء کرام علیھم السلام کےمبارک اجسام وفات کے بعد محفوظ تو ہیں مگرزندہ نہیں
2: ان حضرات کو ایک اور جسم دیا جاتا ہے جس کے ساتھ وہ عبادت وغیرہ کرتے ہیں حیات بھی اسی کو ملتی ہے
3: جسم عنصری کو زندہ ماننا سبب شرک بلکہ شرک فی الحیات ہے
دلائل اہل السنت والجماعت
قرآن مجید مع التفسیر
آیت نمبر1:
وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ.
(البقرۃ آیت 154)
تفسیر نمبر1:
قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی (م1225ھ) فرماتے ہیں:
فذهب جماعة من العلماء إلى ان هذه الحيوة مختص بالشهداء والحق عندى عدم اختصاصها بهم بل حيوة الأنبياء أقوى منهم وأشد ظهورا اثارها في الخارج حتى لا يجوز النكاح بأزواج النبي صلى اللّه عليه وسلم بعد وفاته بخلاف الشهيد.
(تفسیر مظہری ج:1ص:152)
یعنی بعض علماء کے نزدیک اس آیت میں جس حیات کا ذکرہے وہ صرف شھداء کو ملتی ہے۔ لیکن صحیح قول کے مطابق انبیاء کو حیات شھداء سے بھی بڑھکر ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ شھید کی بیوی سے نکاح جائز ہے مگرنبی کی بیوی سے جائز نہیں۔
تفسیرنمبر2:
شیخ عبد الحق حقانی دہلوی رحمہ اللہ(م1336 ھ) فرماتے ہیں:
کبھی پاک روحوں کا اثر جسم خاکی تک بھی پہنچتا ہے اور یہ جسم سٹرتا ،گلتا نہیں جیسا کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیائے کرام اور شہدائے عظام کے اجساد سے ظاہر ہوا ہے... لیکن اس حیات میں انبیاء علیہم السلام اور اولیائے کرام بھی شریک ہیں اور اس کے درجات متفاوت ہیں۔
(تفسیر حقانی: ج1ص594)
تفسیر نمبر3:
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی (م1362ھ) اس آیت کے تحت فرماتے ہیں :
اور یہی حیات ہے جس میں حضرات انبیاء علیہم السلام شہداء سے بھی زیادہ امتیاز اور قوت رکھتے ہیں حتیٰ کہ بعد موت ظاہری کے سلامت جسد کے ساتھ ایک اثر اس حیات کا اس عالم کے احکام میں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے مثل زواج احیاء کے ان کی ازواج سے کسی کو نکاح جائز نہیں ہوتا اور ان کا مال میراث میں تقسیم نہیں ہوتا پس اس حیات میں سب سے قوی تر انبیاء علیہم السلام ہیں۔
(بیان القرآن: ج1ص97)
تفسیر نمبر4:
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع (م1396ھ)فرماتے ہیں:
یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اسلامی روایات کی رو سے ہر مرنے والے کو برزخ میں ایک خاص قسم کی حیات ملتی ہے جس سے وہ قبر کے عذاب یا ثواب کو محسوس کرتا ہے اس میں مؤمن و کافر یا صالح و فاسق میں کوئی تفریق نہیں لیکن اس حیات برزخی کے مختلف درجات ہیں ایک درجہ تو سب کو عام اور شامل ہے کچھ مخصوص درجے انبیاء علیہم السلام و صالحین کے لئے مخصوص ہیں اور ان میں بھی باہمی تفاضل ہے....اس کے بعد حضرت مفتی صاحب نے حکیم الامت کی بیان القرآن والی تفسیر نقل فرما ئی ہے کہ یہی حیات ہے جس میں حضرات انبیاء علیہم السلام شہداء سے بھی زیادہ امتیاز اور قوت رکھتے ہیں۔
(معارف القرآن: ج1 ص397)
آیت نمبر2:
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ.
(آل عمران آیت 169)
تفسیرنمبر1:
امام تقی الدین علی بن عبد الکافی سبکی (م756ھ ) فرماتے ہیں:
والکتاب العزیز یدل علی ذالک ایضاً قال اللہ تعالیٰ:" وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ "(آل عمران 169)واذاثبت ذلک فی الشہید؛ ثبت فی حق النبی صلی اللہ علیہ وسلم بوجوہ :احدھا: ان ھذہ رتبۃ شریفۃ اعطیت للشہید کرامۃلہ ، ولا رتبۃ اعلی من رتبۃ الانبیاء ، ولاشک ان حال الانبیاء اعلیٰ واکمل من حال جمیع الشھداء ، فیستحیل ان یحصل کمال للشھداء ، ولا یحصل للانبیاء ، لا سیما ھذا الکمال الذی یوجب زیادہ القرب و الزلفیٰ والنعیم ، والانس بالعلی الاعلی ٰ۔
الثانی ان ھذہ الرتبۃ حصلت للشھداء اجرا علی جھادھم ، وبذلھم انفسھم للہ تعالیٰ ، والنبی صلی اللہ علیہ وسلم ھوالذی سن لنا ذلک ودعانا الیہ وھدانا لہ باذن اللہ تعالیٰ و توفیقہ ، وقد قال صلی اللہ علیہ وسلم من سن سنۃ حسنۃ ، فلہ اجرھا واجر من عمل بھا الی یوم القیامۃ ، ومن سن سنۃ سیئۃ ، فعلیہ وزرھا ووزر من عمل بھاالی یوم القیامۃ۔۔۔۔۔۔ الثالث : ان انبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ، فانہ صلی اللہ علیہ وسلم لما سم بخیبر واکل من الشاۃ المسمومۃ ، وکان ذلک سما قاتلا من ساعتہ ، مات منہ بشر ابن البراء رضی اللہ عنہ ، وبقی النبی صلی اللہ علیہ وسلم و ذلک معجزۃ فی حقہ؛ صارالم السم یتعاھدہ الی ان مات بہ صلی اللہ علیہ وسلم فی مرضہ الذی مات فیہ " مازالت اکلۃ خیبر تعاودنی ، حتیٰ کان الان اوان قطعت ابہری.
(شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم ص:403تا406)
تفسیر نمبر2:
امام حافظ محمد بن عبد الرحمن سخاوی شافعی (م902ھ) فرماتے ہیں:
ومن ادلة ذلک ایضاًقولہ تعالیٰ " وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ "فان الشھادۃ حاصلۃ لہ صلی اللہ علیہ وسلم علی اتم الوجوہ لانہ شھید الشھداء ، وقد صرح ابن عباس وابن مسعود و غیرھما رضی اللہ عنھم بانہ صلی اللہ علیہ وسلم مات شھیداً.
(القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع ص:173)
تفسیر نمبر3:
علامہ جلال الدین سیوطی (م911 ھ) فرماتے ہیں:
وقد قال تعالیٰ فی الشھداء " وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ "والانبیاء اولی بذلک فھم اجل و اعظم ، وما من نبی الا وقد جمع مع النبوۃ وصف الشھادۃ ، فید خلون فی عموم لفظ الایۃ.
(الحاوی للفتاویٰ: ص556)
تفسیر نمبر4:
مشہو رغیر مقلد عالم قاضی محمد بن علی شوکانی(م1250ھ) لکھتے ہیں :
وورد النص في كتاب الله في حق الشهداء أنهم أحياء يرزقون وأن الحياة فيهم متعلقة بالجسد فكيف بالأنبياء والمرسلين وقد ثبت في الحديث أن الأنبياء أحياء في قبورهم رواه المنذري وصححه البيهقي وفي صحيح مسلم عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال مررت بموسى ليلة أسري بي عند الكثيب الأحمر وهو قائم يصلي في قبره .
(نیل الاوطار ج:3ص:263)
تفسیر نمبر5:
شیخ الدکتور احمد بن عطیہ الغامدی(م1434ھ) امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”حیاۃ الانبیاء“ کے مقدمۃ التحقیق میں لکھتے ہیں:
ماثبت فی القرآن الکریم من نص علی حیاۃ الشھداء فی قولہ تعالیٰ " وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ "والرسل اکمل من الشھداء بدون شک ولذلک کانوا احق بالحیاۃ منھم .
(مقدمۃ التحقیق علی حیاۃ الانبیاء: ص:35)
آیت نمبر3:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا٫
(النساء64)
تفسیر:
علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ (م774ھ) اور دیگر مفسرین لکھتے ہیں:
وقوله وَلَوْ أَنْهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا يرشد تعالى العصاة والمذنبين إذا وقع منهم الخطأ والعصيان أن يأتوا إلى الرسول صلى الله عليه وسلم فيستغفروا الله عنده،ويسألوه أن يستغفر لهم فإنهم إذا فعلوا ذلك تاب الله عليهم ورحمهم وغفر لهم ولهذا قال لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا
وقد ذكر جماعة منهم الشيخ أبو نصر بن الصباغ في كتابه "الشامل" الحكاية المشهورة عن العُتْبي قال كنت جالسا عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم فجاء أعرابي فقال السلام عليك يا رسول الله سمعت الله يقول وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا وقد جئتك مستغفرا لذنبي مستشفعا بك إلى ربي ثم أنشأ يقول:
يا خيرَ من دُفنَت بالقاع أعظُمُه فطاب منْ طيبهنّ القاعُ والأكَمُ
نَفْسي الفداءُ لقبرٍ أنت ساكنُه فيه العفافُ وفيه الجودُ والكرمُ
ثم انصرف الأعرابي فغلبتني عيني فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم في النوم فقال يا عُتْبى الحقْ الأعرابيّ فبشره أن الله قد غفر له.
(تفسيرابن كثير ج 2ص348 الدرالمنثورج 2ص474 القول البدیع ص167،168،کتاب الایضاح فی مناسک الحج والعمرۃ نووی ص:454،455، حاشیہ علی شرح الایضاح ابن حجر المکی ص:489، کتاب المناسک ملا علی قاری ص:512)
واقعہ کی تحسین کرنے والے حضرات:
1 :قال الامام المحدث ابو زکریا النووی (م 676 ھ): ومن احسن ما یقول ما حکاہ اصحابنا عن العتبی مستحسنین لہ.
(کتاب الایضاح فی مناسک الحج والعمرۃ للنووی: ص454)
2:قال الامام تقى الدين علی بن عبد الکافی السبكى (م756ھ): وحكاية العتبى فى ذالك مشهورة وقدحكاها المصنفون فى المناسك من جميع المذاهب والمورخون وكلهم استحسنوها ورأوها من آداب الزائر وما ینبغی لہ.
(شفاء السقام ص235،236)
3:قال الامام علی بن احمد السمہودی (م911ھ): ومن أحسن ما يقول ما حكاه أصحابنا عن العتبيّ مستحسنين له.
(خلاصۃ الوفاء باخبار دار المصطفى ج1ص56)
فائدہ نمبر1:
حکیم الامت حضرت تھانوی (م1362ھ)فرماتے ہیں:
مواہب میں بسند اما م ابوالمنصورصباع ،ابن النجاراورابن عساکر اورابن الجوزی رحمھم اللہ تعالی محمدبن حرب ہلال سے روایت کیا ہے کہ میں قبر مبارک کی زیارت کرکے سامنے بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی آیا اورزیارت کرکےعرض کیا کہ یاخیرالرسل اللہ تعالی نے آپ پر سچی کتاب نازل فرمائ جس میں ارشاد فرمایاہے:
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا
اورمیں آپ کے پاس اپنے گناہوں سے استغفار کرتاہوا اورآپ کے رب کے حضور میں آپ کے وسیلہ سے شفاعت چاہتاہوا آیاہوں پہردوشعرپڑہے الخ اوران محمدبن حرب کی وفات 228ہجری میں ہوئ ہے غرض زمانہ خیرالقرون کاتھا اورکسی سے اس وقت نکیر منقول نہیں پس حجت ہوگیا۔
(نشرالطیب فی ذکرالنبی الحبیب ص242،243)
فائدہ نمبر2:
یہ حكم آج بھی باقی ہے
1: وبالكتاب لقوله تعالى ولو إنهم إذ ظلموا أنفسهم جاءوك الآية لحثه على المجيء إليه والاستغفار عنده واستغفاره للجاءين وهذه رتبة لا تنقطع بموته... وقد فهم العلماء من الآية العموم واستحبوا لمن أتى القبر أن يتلوها ويستغفر الله تعالى وأوردوا حكاية العتبي الآتية في كتبهم مستحسنين لها.
(خلاصة الوفاء باخبار دار المصطفى ج1ص45)
2: والآية وان وردت فى اقوام معينين فى حالة الحياة فتعم بعموم العلة كل من وجد فيه ذالك الوصف فى الحياة وبعدالموت ولذالك فهم العلماء من الآية العموم فى الحالتين واستحبوا لمن أتى الى قبره صلى الله عليه وسلم أن يتلوا هذه الآية ويستغفرالله تعالى .
(شفاء السقام ص235)
3: قرآن مجیدکی سورۃ نساء آیت
64(وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ)
کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص نہیں آپ کے ہم عصرہوں یابعدکے امتی ہوں اورتخصیص ہوتوکیونکرہوآپ کاوجودتربیت تمام امت کے لئے یکساںرحمت ہے کہ پچھلے امتیوں کاآپ کی خدمت میں آنااوراستغفارکرنااورکراناجب ہی متصورہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرمیں زندہ ہوں۔ (آب حیات ص52)
4: علامہ ظفر احمد عثمانی (م 1394ھ)فرماتے ہیں:
فثبت أن حكم الآیة باق بعد وفاته صلى الله عليه وسلم فینبغی لمن ظلم نفسہ أن يزور قبره ويستغفر الله عنده فيستغفر له الرسول.
(اعلاءالسنن ج10ص498)
5: مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع (م1396ھ) اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
یہ آیت اگرچہ خاص واقعہ منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن اس کے الفاظ سے ایک ضابطہ نکل آیا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے دعا مغفرت کر دیں اس کی مغفر ت ضرور ہو جائے گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری جیسے آپ کی دنیوی حیات کے زمانے میں ہو سکتی تھی اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اسی حکم سے ہے ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کر کے فارغ ہوئے تو اس کے تین روز بعد ایک گاؤں والا آیا اور قبر شریف کے پاس آکر گر گیا اور زار زار روتے ہوئے آیت مذکورہ کا حوالہ دے کر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں وعدہ فرمایا ہے کہ اگر گنہگار رسو ل اللہ کی خدمت میں حاضر ہو جائے او رر سول اس کےلئے دعائَ مغفرت کردیں تو اس کی مغفرت ہو جائے گی۔ اس لئے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ میرے لئے مغفرت کی دعا کریں اس وقت جو لوگ حاضر تھے ان کا بیان ہے کہ اس کے جوان میں روضہ اقدس کے اندر سے یہ آواز آئی ” قد غفرلک“ یعنی مغفرت کردی گئی۔
(معارف القرآن: ج2 ص456۔460)
فائدہ نمبر3:
آیت سے حیات پر استدلال کرنے والے چندحضرات:
1: حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (م 1297ھ) فرماتے ہیں:
سو ایک تو ان میں سے یہ آیت ہے:
﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا﴾
کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص نہیں آپ کے ہم عصرہوں یابعدکے امتی ہوں اورتخصیص ہوتوکیونکرہوآپ کاوجودتربیت تمام امت کے لئے یکساں رحمت ہے کہ پچھلے امتیوں کاآپ کی خدمت میں آنااوراستغفارکرنااورکراناجب ہی متصورہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرمیں زندہ ہوں۔
(آب حیات ص52)
2: شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانی (م 1394ھ) فرماتے ہیں:
احتج القائلون بانہا مندوبۃ بقولہ تعالیٰ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ ووجہ الاستدلال بہا انہ صلی اللہ علیہ وسلم حی فی قبرہ بعد موتہ کما فی حدیث.
(اعلاءالسنن ج10ص498)
3: شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی (م 1402ھ) فرماتے ہیں:
واستدلوا علیٰ انہا مندوبۃ بقولہ تعالیٰ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ والنبی حی فی قبرہ بعد موتہ... واذا ثبت انہ حی بعد وفاتہ فالمجئی الیہ بعد وفاتہ کالمجئی الیہ قبلہ.
(اوجزالمسالک ج2ص338،339)
آیت نمبر4:
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ .
(الانفال33)
اس آیت کی تفسیر میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع (م1396ھ)فرماتے ہیں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کادنیا میں ہونا قیامت تک باقی رہے گا کیونکہ آپ کی رسالت قیامت تک کے لیے ہے نیزآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بھی زندہ ہیں گواس زندگی کی صورت سابق زندگی سے مختلف ہے اور یہ بحث لغواور فضول ہے کہ ان دونوں زندگیوں میں فرق کیا ہے... خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کااپنے روضہ میں زندہ ہونااورآپ کی رسالت کا قیامت تک رہنا اس کی دلیل ہے کہ آپ قیامت تک دنیا میں ہیں اس لیے یہ امت قیامت تک عذاب سے مامون رہے گی۔
(معارف القرآن ج4ص225)
آیت نمبر5:
وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا.
(سورۃ الاحزاب آیت 53)
تفسیر نمبر1:
قاضی ثناء اللہ پانی پتی (م1225ھ) اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
وجاز ان يكون ذلك لاجل ان النبي صلى اللّه عليه وسلم حىّ فى قبره ولذلك لم يورث ولم يتئم أزواجه عن أبى هريرة قال قال رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم من صلى علىّ عند قبرى سمعته ومن صلّى علىّ نائيا أبلغته رواه البيهقي فى شعب الايمان.
(تفسیر مظہری ج7 ص373)
تفسیر نمبر2:
حکیم الامت حضرت تھانوی (م1362ھ)فرماتے ہیں:
(نبی علیہ السلام کی حیات )حیات نا سوتی کے قریب قریب ہے چنانچہ بہت سے احکام ناسوت کے اس پر متفرع بھی ہیں دیکھئے زندہ کی بیوی سے نکاح جائز نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے بھی نکاح جائز نہیں۔
(خطبات حکیم الاسلام: ج5 ص33)
آیت نمبر6:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ .
(سورۃ الحجرات آیت 2)
اس آیت کی تفسیر میں مولانا محمد مالک کاندھلوی (م1409ھ) فرماتے ہیں:
احادیث میں ہے کہ ایک مرتبہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسجد میں دو شخصوں کی آواز سنی تو ان کو تنبیہ فرمائی اور پوچھا کہ تم لوگ کہاں کے ہو معلوم ہوا کہ یہ اہل طائف ہیں تو فرمایا اگر یہاں مدینے کے باشندے ہوتے تو میں تم کو سزا دیتا (افسوس کی بات ہے ) تم اپنی آوازیں بلند کر رہے ہو مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس حدیث سے علماء امت نے یہ حکم اخذ فرمایا ہے کہ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام آپ کی حیات مبارکہ میں تھا اسی طرح کا احترام و توقیر اب بھی لازم ہے کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں حی (زندہ) ہیں۔
(معارف القرآن تکملہ ج:7 ص؛487)
عقیدہ حیاۃ الانبیاء علیہم السلام اور احادیث مبارکہ
حدیث نمبر1:
روی الامام الحافظ ابو یعلیٰ الموصلی حدثنا أبو الجهم الأزرق بن علي حدثنا يحيى بن أبي بكير حدثنا المستلم بن سعيد عن الحجاج عن ثابت البناني : عن أنس بن مالك : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ( الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون )
(مسند ابی یعلیٰ ج:6 ص:147 ، رقم الحدیث 3425، تاریخ اصبہان ج:2ص:44، مجمع الزاوئد ج:8 ص:386، فیض القدیرج:3ص:239، حاشیہ ابن حجر مکی ص:481حیاۃ الانبیاء بھیقی ص؛70۔72۔74 ، شفاء السقام ص:391)
مصححین ومستدلین:
1: امام ابو بکر البیہقی (م458ھ) نے یہ روایت کئی طرق سے سے نقل کر کے استدلال کیا ہے۔
(حیاۃ الانبیاء)
2: امام تقی الدین علی بن عبد الکافی بن علی السبکی الشافعی (م756ھ) نے مختلف اسانید وطرق کے ساتھ یہ روایت نقل کرکے اس سے عقیدہ حیات انبیاء علیھم الصلوٰ ۃ والسلام پر استدلال کیا اور آخر میں روات کی توثیق بھی بیان کی ہے۔
(شفاء السقام ص:391،392)
3: امام ابو الحسن علی بن ابی بكر بن سلیمان المعروف نور الدين ہیثمی (م807ھ) فرماتے ہیں:
رواه أبو يعلى والبزار ورجال أبو يعلى ثقات.
(مجمع الزوائد ج:8 ص:386)
4: امام احمد بن ابی بكر بن اسماعیل البوصیری (م840ھ) اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے باب باندھتے ہیں:
باب الأنبياء أحياء في قبورهم.
(إتحاف الخيرة المهرة ج7ص145 کتاب علامات النبوۃ رقم الباب 68)
5: مشہور محدث وناقد امام ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی شافعی (م852ھ) فرماتے ہیں:
وقد جمع البيهقي كتابا لطيفا في حياة الأنبياء في قبورهم أورد فيه حديث أنس الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون أخرجه من طريق يحيى بن أبي كثير وهو من رجال الصحيح عن المستلم بن سعيد وقد وثقه أحمد وبن حبان عن الحجاج الأسود وهو بن أبي زياد البصري وقد وثقه أحمد وبن معين عن ثابت عنه وأخرجه أيضا أبو يعلى في مسنده من هذا الوجه.
(فتح الباری ج:6ص:594۔595)
6: مدینہ منورہ کے مؤرخ ومفتی امام ابو الحسن علی بن عبد الله بن احمد الحسنی الشافعی المعروف امام سمہودی (م911ھ) فرماتے ہیں:
ولأبن عدي فى كامله وأبي بعلي برجال ثقات عن أنس رضي الله عنه مرفوعا الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون وصححه البيهقي.
(خلاصۃ الوفاءج1ص43)
7: امام جلال الدين عبد الرحمن بن ابی بكر سیوطی (م911ھ)نے اس حدیث کو مختلف کتب سے نقل کرکے حضرات محدثین کی توثیق بیان کرکے اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
(جامع الاحادیث ج11ص43رقم الحدیث 10213)
8: سلطان المحدثین ملا علی القاری الحنفی (م1014ھ) فرماتے ہیں:
وصح خبر الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون.
( مرقات ج:3 ص:415)
9: علامہ محمد عبد الرؤوف المناوی (م1031ھ) فرماتے ہیں:
عن أنس بن مالك ،وهو حديث صحيح.
( فیض القدیر ج:3 ص:239)
10: علامہ علی بن احمد بن نور الدین عزیزی (م1070ھ) لکھتے ہیں:
وھوحدیث صحیح.
(السراج المنیرج2ص134بحوالہ تسکین الصدورص213)
11: امام محمد بن عبد الباقی بن يوسف الزرقانی (م1122ھ) فرماتے ہیں:
وجمع البيهقي كتابا لطيفا في حياة الأنبياء وروى فيه بإسناد صحيح عن أنس مرفوعا الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون.
(شرح زرقانی ج4ص357)
12: مشہور غیر مقلد عالم محمد بن علی المعروف قاضی شو کانی (م1250ھ) لکھتے ہیں:
وقد ثبت في الحديث : ( أن الأنبياء أحياء في قبورهم ) رواه المنذري وصححه البيهقي.
( نیل الاوطار ج:3 ص:263)
وقال ایضاً: لأنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره وروحه لا تفارقه لما صح أن الأنبياء أحياء في قبورهم.
(تحفۃ الذاكرین للشوكانى: ج1ص42)
13: خاتم المحدثین علامہ انور شاہ کشمیری (م1352ھ) فرماتے ہیں:
وفی البیھقی عن انس وصححہ ووافقہ الحافظ فی المجلد السادس ان الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون.
( فیض الباری ج:2 ص:64)
اس کے بعد حضرت نے اس حدیث سے عقیدہ حیات پر استدلال کیا ہے
14: عظیم مفسر ومحدث علامہ شبیراحمدعثمانی (م1369ھ) فرماتے ہیں :
وقد جمع البيهقي كتابا لطيفا في حياة الأنبياء في قبورهم أورد فيه حديث أنس الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون أخرجه من طريق يحيى بن أبي كثير وهو من رجال الصحيح (الخ )
( فتح الملہم ج:2 ص:388 مکتبہ دارالعلوم کراچی ،ج1ص329مکتبہ رشیدیہ کراچی باب الاسراء برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )
اس کے بعد حضرت نے تمام روات کی توثیق نقل کرکے اس سے عقیدہ حیات انبیاء علیھم السلام پر استدلال کیا ہے۔
15: استاذالعلماء حضرت مولانا خیر محمد جالندھری (م1390ھ)اور دیگر مفتیان خیر المدارس ملتان کے فتاویٰ پر مشتمل خیر الفتاویٰ کے نام سے کتاب شائع ہوئی اس میں دارالعلوم دیوبند کے حوالہ سے عقیدہ حیات انبیاء علیھم السلام پر تفصیلی فتویٰ موجود ہے جس میں دیگر دلائل کے ساتھ ساتھ اس حدیث مبارک سے بھی اس عقیدہ پر استدلال کیا گیا ہے اور مختلف اہل علم سے اس حدیث کی صحت نقل کرکے آخر میں لکھا کہ:امام ابو یعلیٰ کے طریق سے جو روایت ہے اس کے تمام راوی ثقہ اور ثبت ہیں اور جمہور محدثین کرام اس کی تصحیح کرتے ہیں کسی حدیث کے صحیح ہو نے کے لئے اصول حدیث میں اس سے زیادہ قوی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس کے سب راوی ثقہ ہوں اور جمہور محدثین اس کی تصحیح پر متفق ہوں۔
(خیرالفتاوی ج1ص98)
16: حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے حکم سے لکھی جانے والی کتاب اعلاء السنن میں علامہ ظفر احمد عثمانی (م1394ھ) اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:
رواہ ابویعلیٰ برجال ثقات .
(اعلاء السنن ج10ص505)
17: شیخ الحدیث مولانا زکریاکاندھلوی (م1402ھ) فرماتے ہیں:
اور یہ حدیث کہ انبیاء علیھم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں ، نمازیں پڑھتے ہیں صحیح ہے۔
(فضائل درود شریف 67)
18: امام اہل سنت شیخ التفسیر والحدیث مولانا محمدسرفرازخان صفدر (م 1430ھ) نے مختلف اہل علم سے اس حدیث کی صحت نقل کرکے استدلال کیا ہے۔
(تسکین الصدورص212)
19: حضرت مولانا سمیع الحق صاحب مدیر جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کی زیر نگرانی شائع ہونے والے فتاویٰ حقانیہ میں اس حدیث سے عقیدہ حیات پر استدلال کیا گیا ہے۔
(فتاویٰ حقانیہ ج1ص158)
20: ارشاد الحق اثری غیر مقلد نے بھی اس کو ”صحیح“ کہا ہے۔
( حاشیہ مسند ابی یعلیٰ ج:3 ص:379)
اعتراض نمبر1:
حجاج بن الأسود عن ثابت البناني نكرة ما روى عنه فيما أعلم سوى مستلم بن سعيد فأتى بخبر منكر عنه عن أنس في أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون رواه البيهقي.
(ميزان الاعتدال ج2ص199،200)
اس اعتراض کی تین شقیں ہیں:
1:حجاج مجہول ہے۔ 2:مستلم بن سعید کے علاوہ کسی اور نے روایت بیان نہیں کی۔ 3:ان دونوں کا نتیجہ کہ روایت منکر ہے۔
جواب:
نمبر1: حافظ ابن حجر عسقلانی (م852ھ) نے علامہ شمس الدین ذہبی (م748ھ) کی اس جرح کا جواب دیا ہے کہ حجاج کی توثیق ائمہ سے منقول ہے اور ان کے شاگرد بھی کئی ہیں فرماتے ہیں:
روى عن ثابت وجابر بن زيد وأبي نضرة وجماعة وعنه جرير بن حازم وحماد بن سلمة وروح بن عبادة وآخرون
قال أحمد ثقة ورجل صالح وقال بن معين ثقة وقال أبو حاتم صالح الحديث وذكره بن حبان في الثقات فقال حجاج بن أبي زياد الأسود من أهل البصرة كان ينزل القسامل روى عن أبي نضرة وجابر بن زيد روى عنه عيسى بن يونس وجرير بن حازم.
(لسان المیزان ج2ص175)
جب توثیق اور شاگرد مل گئے تو تیسری شق روایت منکر ہے والی خود بخو د ختم ہوگئی۔
نمبر2: نیز امام ذھبی سے بھی حجاج کی توثیق منقول ہے :
قال الذھبی حجاج ثقة.
(تلخيص على المستدرك ج4ص472)
نمبر3: امام ذہبى كاعقيده حیات الابنیاء علیہم السلام کے بارے میں کیا ہے؟ ملاحظہ کیجیے۔ آپ رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں:
والنبي صلى الله عليه وسلم فمفارق لسائر أمته في ذلك، فلا يبلى، ولا تأكل الارض جسده، ولا يتغير ريحه، بل هو الآن، وما زال أطيب ريحا من المسك، وهو حي في لحده حياة مثله في البرزخ، التي هي أكمل من حياة سائر النبيين، وحياتهم بلا ريب أتم وأشرف من حياة الشهداء الذين هم بنص الكتاب (أحياء عند ربهم يرزقون) [ آل عمران: 169 ]
(سير اعلام النبلاء: تحت ترجمۃ الامام وكيع بن الجراح)
اعتراض نمبر2:
الأزرق بن علي الحنفي أبو الجهم صدوق يغرب.
(تقریب التہذیب: رقم الترجمہ301)
جواب:
ان الغرابةلا تنافى الصحة ويجوز ان يكون الحديث صحيحا غريبا.
(مقدمۃ المشكوٰة للشيخ عبد الحق: ص6)
نيز ابوالجہم كامتابع عبدالله بن محمد بن یحییٰ بن ابى بكير موجود ہے۔
(تاریخ اصبھان ج2ص44)
اعتراض نمبر3:
یہ حدیث قرآن کی آیت ”واعبد ربک حتیٰ یاتیک الیقین“ کے خلاف ہے، لہٰذا حجت نہیں۔
جواب:
عبادت کی دو قسمیں ہیں:
1:عبادت تکلیفی جو دنیامیں ہوتی ہے
2:عبادت تلذذی جو صرف دنیاتک محدود نہیں بلکہ یہ قبر اورآخرت میں بھی ہوگی
قرآن میں تکلیفی کا حکم ہے اور حدیث میں تلذذی کا تذکرہ ہے۔ چنانچہ علامہ بدر الدین عینی حنفی (م855ھ) فرماتے ہیں:
فإن قلت ما الداعي إلى عبادتهم بعد الموت وموضع العبادة دار الدنيا، قلت حببت إليهم العبادة فهم متعبدون بما يجدونه من دواعی أنفسهم لا بما يلزمون به.
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری: باب التلبیۃ اذا انحدر فی الوادي)
اعتراض نمبر4:
مسند ابی یعلی طبقہ ثالثہ کی کتاب ہے جس کے بارے میں مولانا سرفراز خان صفدر کافیصلہ ہے کہ اس طبقہ کی کتب کی احادیث عقیدہ اور عمل میں حجت نہیں۔
جواب:
امام اہل السنت رحمہ اللہ کی مکمل عبارت کو اگر دیکھا جائے تو یہ اشکال جڑ سے ہی ختم ہوجاتا ہے حضرت کی تصریحا ت ملاحظہ فرمائیں۔
1: ایک جگہ اہل بدعت کی تردید میں فرماتے ہیں: یہ روایتیں کتب حدیث کے اس طبقہ کی ہیں جن میں بجز باسند اور صحیح احادیث کے جن پر امت کا تعامل ہے اکثر احادیث کو محدثین ہرگز قبول نہیں کرتے نہ عقیدہ میں اور نہ عمل میں۔
(راہ سنت ص173)
2: دوسری جگہ اس طبقہ کی کتب کی تردید کر کے فرماتے ہیں "ہاں اگر اصول حدیث کے رو سے اس طبقہ کی کوئی حدیث سندا صحیح ثابت ہو تو اس کی صحت میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا۔
(گلدستہ توحید ص144)
3: تیسری جگہ بھی تردید کر کے فرماتے ہیں: ”نوٹ: اگر ان مذکورہ کتب میں کوئی ایسی روایت ہو جو سندا صحیح ہو اور قران کریم اور صحیح احادیث سے متعارض نہ ہو اور علی الخصوص جب کہ اکثر امت اور جمہور اہل اسلام کااس پر تعامل بھی ہو تو اس کی صحت میں کوئی کلام نہیں ہے اور نہ یہ بات محل نزاع ہے اس لیے خلط مبحث کا شکار نہ ہوں اور نہ جاہل متعصب معترضین کی طرف توجہ کریں۔
(دل کا سرور ص175)
حدیث نمبر2:
حدثنا هداب بن خالد وشيبان بن فروخ قالا حدثنا حماد بن سلمة عن ثابت البناني وسليمان التيمي عن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أتيت وفي رواية هداب مررت على موسى ليلة أسري بي عند الكثيب الأحمر وهو قائم يصلي في قبره.
(صحیح مسلم ج:2 ص:268، باب من فضائل موسیٰ)
حدیث نمبر3:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ عَنْ أَبِى صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَىَّ إِلاَّ رَدَّ اللَّهُ عَلَىَّ رُوحِى حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ .
( سنن ابی داؤد ج:1 ص: 286 ،السنن الکبری باب زِيَارَةِ قَبْرِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم،مسند احمدرقم 10815،مسنداسحاق بن راہویہ رقم 526،
مصححین ومستدلین:
1: امام نووی (م676ھ) فرماتے ہیں:
وروينا فيه أيضا بإسناد صحيح عن أبي هريرة أيضا ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " ما من أحد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام.
(کتاب الاذکار ص:152)
2: حافظ ابن تیمیہ (م728ھ) نے مختلف مقامات پر اس حدیث کو نقل کرکے اس کی صحت بیان کی اور بعض مقامات پر استدلال بھی کیا ہے مثلاً:
والأحاديث عنه بأن صلاتنا وسلامنا تعرض عليه كثيرة مثل ما روى أبو داود في سننه من حديث أبي صخر حميد بن زياد عن يزيد بن عبد الله بن قسيط عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال ما من أحد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام صلى الله عليه و سلم وهذا الحديث على شرط مسلم .
(اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ اصحاب الجحیم: ص324)
ایک جگہ یہی حدیث نقل کرکے فرماتے ہیں: وَهُوَ حَدِيثٌ جَيِّدٌ.
(الفتاوى الكبرى ج2ص427)
وَقَدْ احْتَجَّ أَحْمَدُ وَغَيْرُهُ بِالْحَدِيثِ الَّذِي رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُد بِإِسْنَادِ جَيِّدٍ مِنْ حَدِيثِ حيوة بْنِ شريح الْمِصْرِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو صَخْرٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ قسيط عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : ( مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ.
(مجموع الفتاوى ج1ص233)
3: تقی الدین علی بن عبد الکافی ابن علی السبکی (م756ھ) .
( شفاء السقام ص:161)
4: امام ابن کثیر (م774ھ): وصححه النووي في الأذكار.
(تفسیرابن کثیرتحت الآیہ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ الآیۃ)
5: حافظ ابن حجر عسقلانی (م852ھ) فرماتے ہیں:
ما من أحد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام ورواته ثقات.
( فتح الباری ج:6 ص:596)
6: علامہ محمد بن عبد الرحمٰن سخاوی رحمہ اللہ (م902ھ).
(القو ل البدیع ص:161)
7: امام علی بن احمد السمہودی (م911ھ): ولأبي داود بسند صحيح عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعا ما من أحد يسلم عليّ إلا ردّ الله عليّ روحي حتى أرد عليه السلام.
( خلاصۃ الوفاء:ج1ص42)
8: علامہ علی بن احمد بن نور عزیزی (م1070ھ) : اسنادہ حسن.
(السراج المنیرج3ص297بحوالہ تسکین الصدورص295)
9: علامہ عبد الرؤف مناوی (م1031ھ): (ما من أحد يسلم علي إلا رد الله علي)۔۔۔۔۔ (روحي) يعني رد علي نطقي لأنه حي على الدوام وروحه لا تفارقه أبدا لما صح أن الأنبياء أحياء في قبورهم (حتى أرد) غاية لرد في معنى التعليل أي من أجل أن أرد (عليه السلام) هذا ظاهر في استمرار حياته لاستحالة أن يخلو الوجود كله من أحد يسلم عليه عادة.
(فيض القديرج5ص596)
وقال ایضاً: واسناده صحيح.
(التیسیر بشرح الجامع الصغيرج2ص690)
10: علامہ محمد بن عبد الباقی زرقانى (م1122ھ): ما من أحد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام أخرجه أبو داود ورجاله ثقات.
(شرح زرقانی ج4ص357)
11: شمس الحق عظيم آبادی(م1329ھ): ما من أحد يسلم علي إلا أرد عليه السلام لأني حي أقدر على رد السلام.
(عون المعبود: ج6ص19)
12: ناصر الدین البانی صاحب غیر مقلد(م1420ھ) : حسن.
(سنن ابى داؤد: باب زِيَارَةِ الْقُبُورِ)
ردروح کا مطلب:
1: قال الامام البیہقی (م458ھ): قَالَ: " مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ "، ومَعْنَاهُ وَاللهُ أَعْلَمُ، " إِلَّا وَقَدْ رَدَّ اللهُ عَلَيَّ رُوحِي فَأَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ .
(شعب الايمان رقم 4161)
2: قال الحافظ ابن حجر عسقلانی (م748ھ): ووجه الإشكال فيه أن ظاهره أن عود الروح إلى الجسد يقتضي انفصالها عنه وهو الموت وقد أجاب العلماء عن ذلك بأجوبة...الرابع المراد بالروح النطق فتجوز فيه من جهة خطابنا بما نفهمه الخامس أنه يستغرق في أمور الملأ الأعلى فإذا سلم عليه رجع إليه فهمه ليجيب من سلم عليه.
(فتح البارى ج6ص488)
3: قال الامام زين الدين عبد الرؤوف المناوي(م1031ھ): ما من أحد يسلم علي الا رد الله علي روحي ) أي رد علي نطقي لانه حي دائما وروحه لا تفارقه لان الانبياء أحياء في قبورهم ( حتى أرد ) غاية لرد في معنى التعليل أي من أجل أن أرد ( عليه السلام ) ومن خص الرد بوقت الزيارة فعليه البيان.
(التیسیر بشرح الجامع الصغيرج2ص690)
4: حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (م1362ھ) فرماتے ہیں:
اس حیات میں شبہ نہ کیاجاوے کیونکہ مراد یہ ہے کہ میری روح جو ملکوت وجبروت میں مستغرق تھی جس طرح کہ دنیا میں نزول وحی کے وقت کیفیت ہوتی تھی اس سے افاقہ ہوکر سلام کی طرف متوجہ ہوجاتا ہوں اس کو رد روح سے تعبیر فرمادیا۔
(نشرالطیب: ص200)
اور ان مشاغل کے ایک وقت میں اجتماع سے تزاحم کا وسوسہ نہ کیاجاوے کیونکہ برزخ میں روح کو پھر خصوصاً روح مبارک بہت وسعت ہوتی ہے۔ (نشرالطیب: ص200)
5: شیخ العرب والعجم حضرت مولاناحسین احمد مدنی (م1377ھ) فرماتے ہیں:
)الف(: ابوداؤدکی روایت میں ”رَدَّ اللَّهُ عَلَىَّ رُوحِىْ“ فرمایاگیاہے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
” مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُسَلِّمُ عَلَىَّ إِلاَّ رَدَّ اللَّهُ عَلَىَّ رُوْحِىْ حَتَّى اُسَلِّمَ عَلَیْہِ اوکما قال“
اگرلفظ ”اِلَیَّ رُوْحِیْ“ فرمایا گیا ہوتا تو آپ کا شبہ وارد ہو سکتا تھا، ”اِلٰی“ اور ” عَلٰی“ کے فرق سے آپ نے ذہول فرمایا، ” عَلٰی“ استعلاء کے لئے ہے اور ”اِلٰی“ نہایتِ طرف کے لئے ہے۔ اس سے تو معلوم ہوتاہے کہ صلوٰۃ وسلام سے پہلے روح کا استعلاء نہ تھا، نہ یہ کہ وہ جسم اطہر سے بالکل خارج ہوگئی تھی اور اب اس کو جسم اطہر کی طرف لوٹا گیا ہے، چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدارج قرب ومعرفت میں ہر وقت ترقی پزیر ہیں اس لئے توجہ الی اللہ کا انہماک اور استغراق دوسری جانب کی توجہ کو کمزور کر دیتا ہے، چونکہ اہل استغراق کی حالتیں روزانہ مشاہدہ ہوتی ہیں مگر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃللعلمین بنایا گیا ہے اس لئے بارگاہِ الوہیت سے درود بھیجنے والے پر رحمتیں نازل فرمانے کے لئے متعدد مزایا میں ایک مزیت یہ بھی عطاء فرمائی گئی ہے کہ خود سرور کائنات علیہ السلام کو اس استغراق سے منقطع کرکے درود بھیجنے والے کی طرف متوجہ کردیا جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے متوجہ ہو کر دعا فرماتے ہیں۔
)ب(: اگر بالفرض وہی معنی لیے جائیں جو آپ سمجھے ہیں اور ” عَلٰی“ اور ”اِلٰی“ میں کوئی فرق نہ کیا جائے تب بھی یہ روایت دوامِ حیات پر دلالت کرتی ہے، اس لئے کہ دن رات میں کوئی گھڑی اور کوئی گھنٹہ بلکہ کوئی منٹ اس سے خالی نہیں رہتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اندورون ِ نماز اور بیرونِ نماز درود نہ بھیجا جاتا ہو، اس لئے دوامِ حیات لازم آئے گا۔
(مکتوباب شیخ الاسلام حصہ اول ص248تا252)
حدیث نمبر4:
أخبرنا عبد الوهاب بن عبد الحكم الوراق قال حدثنا معاذ بن معاذ عن سفيان بن سعيد ح وأخبرنا محمود بن غيلان قال حدثنا وكيع وعبد الرزاق عن سفيان عن عبد الله بن السائب عن زاذان عن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن لله ملائكة سياحين في الأرض يبلغوني من أمتي السلام .
(سنن نسائی باب السلام على النبي صلى الله عليه و سلم، صحيح ابن حبان رقم 914 ذكر البيان بأن سلام المسلم على المصطفى صلى الله عليه و سلم يبلغ إياه ذلك في قبره،مسنداحمدرقم 10529،سنن دارمی 2774 باب في فضل الصلاة على النبي صلى الله عليه و سلم،مسند ابی یعلی رقم 5213،)
مصححین:
1:امام ابو عبد اللہ الحاکم (م405ھ)
( المستدرک ج:3 ص:197)
2: علامہ محمد بن احمد بن عبد الہادی الحنبلی (م 744ھ)
( الصارم المنکی ص:192)
3: امام شمس الدین الذھبی (م748ھ)
( تلخیص علی المستدرک ج:3 ص:197)
4: امام نور الدین الہیثمی (م 807ھ).
( مجمع الزوائد ج:8 ص:595)
5: امام محمد بن عبد الرحمن سخاوی شافعی (م902ھ).
( القول البدیع ص: 159)
6: امام علی بن احمد السمہودی (م911ھ): وللبزاز برجال الصحيح عن ابن مسعود رضي الله عنه مرفوعا أن لله تعالى ملائكة سباحين يبلغوني عن أمتي.
(خلاصۃ الوفاءج1ص43)
7: ناصر الدین الالبانی (م1420ھ): صحيح.
(سنن النسائی: باب السلام على النبی صلى الله علیہ و سلم)
8:قال شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح على شرط مسلم.
(صحيح ابن حبان رقم 914 ذكر البيان بأن سلام المسلم على المصطفى صلى الله علیہ و سلم یبلغ الخ)
9:قال حسين سليم أسد : إسناده صحيح.
(سنن دارمی 2774 باب فی فضل الصلاة على النبی صلى الله علیہ و سلم)
حدیث نمبر5:
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِىٍّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ أَبِى الأَشْعَثِ الصَّنْعَانِىِّ عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ قُبِضَ وَفِيهِ النَّفْخَةُ وَفِيهِ الصَّعْقَةُ فَأَكْثِرُوا عَلَىَّ مِنَ الصَّلاَةِ فِيهِ فَإِنَّ صَلاَتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَىَّ ». قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلاَتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ يَقُولُونَ بَلِيتَ. فَقَالَ « إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الأَرْضِ أَجْسَادَ الأَنْبِيَاءِ ».
(سنن ابی داؤد ج:1 ص:157،باب تَفْرِيعُ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ)
مصححین ومستدلین:
1: امام ابو عبد اللہ الحاکم (م405ھ).
(المستدرک ج:1 ص:569 ،رقم الحدیث 1068 )
2: حافظ ابو بکر محمد بن عبد اللہ ابن عربی (543): حديث حسن .
(التذكرۃ:ج1ص204)
3: حافظ عبد الغنی بن عبد الواحد المقدسی (م600ھ)
( القول البدیع ص:167)
4: حافظ ابو محمد عبد العظیم بن عبد القوی منذری (م656ھ)
( القول البدیع ص:163)
5:امام نووی (م676ھ).
( کتا ب الاذکار ص:150 ،رقم الحدیث 345)
6: امام شمس الدین الذہبی (م748ھ)
( تلخیص علی المستدرک ج:1 ص:568)
7:حافظ ابن ا لقیم (م751ھ): ومن تأمل هذا الإسناد لم يشك في صحته لثقة رواته وشهرتهم وقبول الأئمة أحاديثهم.
(جلاء الافہام ج1ص80)
8: حافظ ابن کثیر دمشقی (م774ھ): وقد صحح هذا الحديث ابن خزيمة وابن حبان والدارقطني، والنووي في الأذكار.
(تفسیرابن کثیرتحت الآیہ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ الخ)
9:حافظ ابن حجر عسقلانی (م852ھ): و صححہ ابن خزیمہ وغیرہ.
( فتح الباری ج:6 ص؛595)
8: علامہ بدر الدین العینی (م855ھ): ا لموت ليس بعدم إنما هو انتقال من دار إلى دار فإذا كان هذا للشهداء كان الأنبياء بذلك أحق وأولى مع أنه صح عنه أن الأرض لا تأكل أجساد الأنبياء عليهم الصلاة والسلام.
(عمدة القارى :باب ما یذكر فی الاشخاص والخصومۃ بین المسلم والیہودي)
10: ملا علی القاری (م1014ھ): فالأنبياء في قبورهم أحياء.
(مرقات ج5ص32)
حديث نمبر6:
حدثنا عمرو بن سواد المصري حدثنا عبد الله بن وهب عن عمرو بن الحارث عن سعيد بن أبي هلال عن زيد بن أيمن عن عبادة بن نسي عن أبي الدرداء قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة . فإنه مشهود تشهده الملائكة . وإن أحدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ منها قال قلت وبعد الموت ؟ قال: وبعد الموت . إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء . فنبي الله حي يرزق.
(سنن ابن ماجہ ص:118 باب ذكر وفاتہ صلى الله علیہ و سلم،تحریرات حدیث ص331)
مصححین:
1:قال الحافظ عبد العظیم المنذری(م656ھ): اسنادہ جید.
( ترجمان السنۃ: ج3 ص297)
2:قال ابو البقاء محمد بن موسیٰ بن عیسیٰ الدمیری (م808ھ): رجالہ ثقات .
( فیض القدیر: ج2 ص111)
3:حافظ ابن حجر عسقلانی (م852ھ): رجاله ثقات.
( تہذیب التہذیب ج:2 ص:537، تحت الترجمہ زید بن ایمن)
4: امام علی بن احمد السمہودی (م911ھ): ولابن ماجة بإسناد جيد عن أبي الدرداء رضي الله عنه مرفوعا أكثروا الصلاة عليّ يوم الجمعة.
(خلاصۃ الوفاءج1ص43)
5:ملا علی قاری (م1014ھ).
(مرقاۃ ج:3 ص: 415 )
6:قاضی محمد بن علی شو کانی (م1250ھ): وقد أخرج ابن ماجه بإسناد جيد.
( نیل الاوطار ج:3 ص:263)
7: شمس الحق عظیم آبادی غیر مقلد(م1329ھ): وقد أخرج ابن ماجه بإسناد جيد أنه صلى الله عليه و سلم قال لأبي الدرداء إن الله عز و جل حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء.
(عون المعبودج3ص261)
حدیث نمبر7:
وقال أبو الشيخ في كتاب الصلاة على النبي حدثنا عبد الرحمن بن أحمد الأعرج حدثنا الحسن بن الصباح حدثنا أبو معاوية حدثنا الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي من بعيد أعلمته.
(جلاءالافہام ص54 مشكوة باب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم وفضلها، تحریرات حدیث ص330)
مصححین ومستدلین :
1: قال الحافظ ابن حجر عسقلانی (م852ھ): وأخرجه أبو الشيخ في كتاب الثواب بسند جيد بلفظ من صلى على عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا بلغته. (فتح البارى ج6ص488)
2: قال الامام محمد بن عبد الرحمن السخاوى (م902ھ): قال ابن القيم انه غريب قلت وسنده جيد.
(القول البديع ص160)
3: قال الامام ابوالحسن على بن محمد العراقى (م963ھ): وسنده جيد كما نقله السخاوى عن شيخه الحافظ ابن حجر.
(تنزيہ الشريعۃ: ج1ص381)
4:قال الملاعلى القارى (م1014ھ): ورواه أبو الشيخ وابن حبان في كتاب ثواب الأعمال بسند جيد.
(مرقاة شرح مشكوة ج4ص21)
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله من صلى علي عند قبري سمعته أي سمعا حقيقيا بلا واسطة.
(المرقاة: ج4ص21)
5: قال الامام عبد الرؤف المناوی (م1031ھ) : من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا) أي بعيدا عني (أبلغته) أي أخبرت به من أحد من الملائكة وذلك لأن روحه تعلقا بمقر بدنه الشريف وحرام على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء.
(فيض القديرج6ص220)
6:قال القاضى ثناء الله(م1225ھ): قلت وجاز ان يكون ذلك لاجل ان النبي صلى اللّه عليه وسلم حىّ فى قبره ولذلك لم يورث ولم يتئم أزواجه عن أبى هريرة قال قال رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم من صلى علىّ عند قبرى سمعته ومن صلّى علىّ نائيا أبلغته رواه البيهقي فى شعب الايمان.
(التفسیرالمظہرى: ج7ص373)
7:قال العلامہ شبیراحمدالعثمانی(م1369ھ): واخرجہ ابوالشیخ فی کتاب الثواب بسندجید.
(فتح الملہم ج1ص330)
حدیث نمبر8:
حدثنا أحمد بن عيسى حدثنا ابن وهب عن أبي صخر أن سعيدا المقبري أخبره أنه سمع أبا ه ريرة يقول : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : والذي نفس أبي القاسم بيده لينزلن عيسى بن مريم إماما مقسطا وحكما عدلا فليكسرن الصليب وليقتلن الخنزير وليصلحن ذات البين وليذهبن الشحناء وليعرضن عليه المال فلا يقبله ثم لئن قام على قبري فقال: يا محمد لأجيبنه.
( مسند ابی یعلیٰ ص:1149 رقم الحدیث 6577 ،المطالب العالیہ باب علامات الساعۃ)
وليأتين قبري حتى يسلم علي ولأردن عليه.
(المستدرک ج3ص490 رقم 4218)
مصححین:
1: امام ابو عبد اللہ الحاكم (م405ھ): هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه.
(المستدرک رقم 4218)
2: علامہ نور الدین ہیثمی(م 807ھ): رواه أبو يعلى ورجاله رجال الصحيح.؛
(مجمع الزوائد: ج8 ص387 رقم الحدیث 13813)
3: حسین سليم اسد : إسناده صحيح.
(مسند ابی يعلىٰ: ص1149 رقم الحدیث 6577)
احادیث حیاۃ الانبیاء متوا تر ہیں:
1: امام سیوطی ؒ فرماتے ہیں:
فاقول حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی قبرہ ھو وسائر الانبیاء معلومۃ عند نا علماً قطعیاً لما قا م عند نا من الادلۃ فی ذلک و تو اترت بہ الاخبار .
(( الحاوی للفتاویٰ ص:554))
2 : وَسُئِلَ رضي اللَّهُ عنه عن حديث أَحْمَدَ وَأَبِي دَاوُد وَالْبَيْهَقِيِّ ما من أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إلَّا رَدَّ اللَّهُ إلَيَّ وفي رِوَايَةٍ عَلَيَّ رُوحِي حتى أَرُدَّ عليه السَّلَامَ ما الْجَوَابُ عنه مع الْإِجْمَاعِ على حَيَاةِ الْأَنْبِيَاءِ كما تَوَاتَرَتْ بِهِ الْأَخْبَارُ.
(الفتاوى الكبرىٰ: ج2ص135)
3: ”نظم المتناثر فی الحدیث المتواتر“ میں بھی حیاۃ الانبیاء علیہم السلام کی احادیث کو متواتر کہا گیا ہے۔
اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جب کسی مسئلے کی احادیث کو تواتر کا درجہ حاصل ہو جائے تو اس کی سند پر بحث کر نا جائز نہیں۔
 والمتواتر لا يُبْحثُ عن رجاله أي عن صفاتهم بل يجب العمل به من غير بحث .
(شرح نخبۃ الفكرلعلى القارى ج1ص186)
 ولذلك يجب العمل به من غير بحث عن رجاله.
(تدريب الراوى ج2ص176)
 المتواتر فإنه صحيح قطعا ولا يشترط فيه مجموع هذه الشروط
(تدريب الراوى ج1ص68)
 ومن شأنه أن لا يشترط عدالة رجاله بخلاف غيره .
(قفوالاثرلابن الحنبلى ج1ص46)
 لأن المتواتر لا يُسأل عن أحوال رجاله.
(شرح نخبة الفكرلعلى القارى ج1ص161)
 و من شانہ ان لا یشترط عدالۃ رجالہ بخلاف غیرہ.
( قواعد فی علوم الحدیث ص:32 )
آثارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین
اثر نمبر1: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُذِيقُكَ اللَّهُ الْمَوْتَتَيْنِ أَبَدًا.
(صحیح بخاری ج1ص517)
مستدلین :
 قوله لا يذيقك الله الموتتين بضم الياء من الإذاقة وأراد بالموتتين الموت في الدنيا والموت في القبر وهما الموتتان المعروفتان المشهورتان فلذلك ذكرهما بالتعريف وهما الموتتان الواقعتان لكل أحد غير الأنبياء عليهم الصلاة والسلام فإنهم لا يموتون في قبورهم بل هم أحياء وأما سائر الخلق فإنهم يموتون في القبور ثم يحيون يوم القيامة ومذهب أهل السنة والجماعة أن في القبر حياة وموتا فلا بد من ذوق الموتتين لكل أحد غير الأنبياء وقد تمسك بقوله لا يذيقك الله الموتتين من أنكر الحياة في القبر وهم المعتزلة ومن نحا نحوهم.
(عمدۃ القاری ج:11 ص:403 کتاب فضائل الصحابہ)
 واحسن من هذا الجواب ان يقال ان حياته صلى الله عليه و سلم في القبر لايعقبها موت بل يستمر حيا والأنبياء احياء في قبورهم ولعل هذا هو الحكمة في تعريف الموتتين حيث قال لايذيقك الله الموتتين المعروفتين المشهورتين الواقعتين لكل أحد غير الأنبياء.
(فتح البارى ج7ص29)
 والا حسن ان یقال ان حیاتہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یتعقبہا موت بل یستمر حیاً والانبیاء احیاء فی قبورھم.
(حاشیہ بخاری ج:1 ص:517)
 قال الکرمانی : ویحتمل ان یراد ان حیاتک فی القبر لایعقبھا موت فلاتذوق مشقة الموت مرتین بخلاف سائر الضلق فانھم یموتون فی القبر ثم یحیون یوم القیامة .
۰الكنز المتوارى ج14ص162)
اثر نمبر2: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ كُنْتُ قَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ فَحَصَبَنِي رَجُلٌ فَنَظَرْتُ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ اذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَذَيْنِ فَجِئْتُهُ بِهِمَا قَالَ مَنْ أَنْتُمَا أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا قَالَا مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ قَالَ لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
(صحیح بخاری ج1ص67 بَاب رَفْعِ الصَّوْتِ فِي الْمَسَاجِدِ)
 أنه عليه السلام في قبره حي وقال تعالى لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي الحجرات
(مرقاة المفاتيح باب المساجد ومواضع الصلاة)
اثر نمبر3، 4: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُنْتُ أَدْخُلُ بَيْتِي الَّذِي دُفِنَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي فَأَضَعُ ثَوْبِي فَأَقُولُ إِنَّمَا هُوَ زَوْجِي وَأَبِي فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ مَعَهُمْ فَوَاللَّهِ مَا دَخَلْتُ إِلَّا وَأَنَا مَشْدُودَةٌ عَلَيَّ ثِيَابِي حَيَاءً مِنْ عُمَرَ.
(مسنداحمد رقم 25660)
وقد كانت عائشة رضي الله عنه تسمع الوتد أو المسمار يضرب في بعض الدور المطيفة بالمسجد فترسل إليهم لا تؤذوا رسول الله صلى الله عليه وسلم.
(خلاصۃ الوفاء: ج1ص166)
اثر نمبر5: حضرت بلال بن الحارث المزنی رضی اللہ عنہ
عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكِ الدَّارِ , قَالَ : وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ , قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ , فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم , فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ , اسْتَسْقِ لأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا , فَاُتِىَ الرَّجُلُ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلامَ , وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مستسقون َقُلْ لَهُ : عَلَيْك الْكَيْسُ , عَلَيْك الْكَيْسُ , فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ , ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ لاَ آلُو إلاَّ مَا عَجَزْت عَنْهُ.
(مصنف ابن ابى شیبۃ: باب ما ذكِر فِي فضلِ عمر بنِ الخطّابِ رضي الله عنہ)
اجماع امت اور عقیدہ حیات انبیاءعلیہم السلام
1 : قال أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (م360ھ):
وقد روي عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه أنه لما حضرته الوفاة ، قال لهم : إذا مت وفرغتم من جهازي فاحملوني حتى تقفوا بباب البيت الذي فيه قبر النبي صلى الله عليه وسلم ، فقفوا بالباب وقولوا : السلام عليك يا رسول الله ، هذا أبو بكر يستأذن فإن أذن لكم وفتح الباب ، وكان الباب مغلقا ، فأدخلوني فادفنوني ، وإن لم يؤذن لكم فأخرجوني إلى البقيع وادفنوني . ففعلوا فلما وقفوا بالباب وقالوا هذا : سقط القفل وانفتح الباب ، وسمع هاتف من داخل البيت : أدخلوا الحبيب إلى الحبيب فإن الحبيب إلى الحبيب مشتاق.
(الشریعہ للآجری ج5ص70، تفسیر کبیر ج:21 ص:87 ، سورۃ کہف آیت : أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ،تفسیرالسراج المنیرج2ص288،تفسیرنیسابوری ج5ص167،غرائب القرآن ج4ص416،سیرت حلبیہ ج3ص393)
2 : امام محمد بن عبد الرحمن سخاوی (م902 ھ) فرماتے ہیں:
و نحن نؤمن و نصدق بانہ صلی اللہ علیہ وسلم حیی یرزق فی قبرہ... والاجماع علی ھذا.
( القول البدیع ص:172)
3 : محمد بن علان الصدیق الشافعی (1057ھ) فرماتے ہیں:
والاجماع علی ٰ انہ صلی اللہ علیہ وسلم حیی فی قبرہ علی الدوام.
( دلیل الفالحین لطرق ریاض الصالحین ج:7 ص:195۔196)
4: شیخ داؤد سلیمان البغدادی (م1299 ھ) فرماتے ہیں:
وروی البیھقی وغیرہ باسانید صحیحۃ عند صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون وورد ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء وقد اطبق العلماء علی ذالك.
(المنحۃ الوھبیۃ فی رد الوھابیۃ ص:6)
5: شیخ عبد الحق محدث دہلوی حنفی (م1052ھ) فرماتے ہیں:
بباید حیات انبیاء متفق علیہ است ھیچ کس رادروئے خلاف نیست حیات جسمانی دنیاوی حقیقی نہ حیات معنوی روحانی.
(اشعۃ اللمعات ج:1 ص:574)
9: قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (م 1322ھ) فرماتے ہیں:
انبیاء کو اسی وجہ سے مستثنی کیا گیا ہے کہ ان کے سماع میں کسی کو اختلاف نہیں۔
( فتاویٰ رشیدیہ ص:173)
10 : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (م1362ھ)فرماتے ہیں:
بہر حال یہ بات باتفاق امت ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلام قبر میں زندہ رہتے ہیں۔
( اشرف الجواب ص:321 وفی نسخہ ص:225)
11 : مولانا محمد ادریس کاندھلوی (م 1394ھ) فرماتے ہیں:
تمام اھل السنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام وفات کے بعد اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔
( سیرت المصطفیٰ ج:3 ص:249)
12 : مولاناخیرمحمد جالندھری فرماتے ہیں:
عالم برزخ میں جملہ انبیاء علیھم السلام کی حیات حقیقیہ دنیویہ بجسدھم العنصری کا مسئلہ اہل سنت والجماعت میں متفق علیہ مسئلہ ہے۔
(القول النقی فی حیات النبی ص30)
13: مفکراسلام مفتی محمود (م1400 ھ)فرماتے ہیں:
یہ امر بھی علماء اہل سنت والجماعت کے نزدیک مسلم اورمجمع علیہ ہے کہ بحالت موجود یعنی عالم برزخ میں آپ جسمانی حیات سے زندہ ہیں۔
(القول النقی فی حیات النبی 32)
فائدہ : اگر کسی عقیدہ یا مسئلہ پر اجماع ہو جائے تو اجماع کا درجہ سند سے بھی زیادہ قوی ہوتا ہے یعنی اس مسئلہ کی احادیث پر سندی بحث کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
 قال الامام ابن عبد البر المالکی (م463ھ):
وقد روي عن جابر بن عبد الله بإسناد لا يصح أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "الدينار أربعة وعشرون قيراطا" وهذا الحديث وإن لم يصح إسناده ففي قول جماعة العلماء به وإجماع الناس على معناه ما يغني عن الإسناد فيه .
(التمہيد لابن عبد البر ج20 ص145)
 سلطان المحدثین ملا علی القاری (م1014ھ) فرماتے ہیں:
وقد قال عطاء الإجماع أقوى من الإسناد .
(المرقاة شرح المشكاة لملا على القاري ج1 ص 117)
 غیر مقلدین کے پیشوا علامہ محمد بن علی شوکانی (م1250ھ) لکھتے ہیں:
وقد اتفق أهل الحديث على ضعف هذه الزيادة لكنه قد وقع الإجماع على مضمونها.
( الدراری المضیۃ شرح الدرر البہیۃ للشوكانی: ج1 ص19)
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
وفي إسناده إبراهيم بن محمد شيخ الشافعي وهو ضعيف وقد وقع الإجماع على ما أفادته الأحاديث
( الدراری المضیۃ شرح الدرر البہیۃ للشوكانی: ج1 ص19)
فائدہ فی اہمیۃ الاجماع:
 علامہ ابن تیمیہ (م728ھ) فرماتے ہیں:
إنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْمَعُوا عَلَى تَحْرِيمِ هَذِهِ الْحِيَلِ وَإِبْطَالِهَا، وَإِجْمَاعُهُمْ حُجَّةٌ قَاطِعَةٌ يَجِبُ اتِّبَاعُهَا بَلْ هِيَ أَوْكَدُ الْحُجَجِ وَهِيَ مُقَدَّمَةٌ عَلَى غَيْرِهَا، وَلَيْسَ هَذَا مَوْضِعُ تَقْرِيرِ ذَلِكَ، فَإِنَّ هَذَا الْأَصْلَ مُقَرَّرٌ فِي مَوْضِعِهِ، وَلَيْسَ فِيهِ بَيْنَ الْفُقَهَاءِ بَلْ وَلَا بَيْنَ سَائِرِ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ هُمْ الْمُؤْمِنُونَ خِلَافٌ،
(الفتاوى الكبرىٰ لابن تیمیہ: ج6ص162)
 امام محمد بن محمد الغزالی (م505ھ) فرماتے ہیں:
يجب على المجتهد في كل مسألة أن يرد نظره إلى النفي الأصلي قبل ورود الشرع ثم يبحث عن الأدلة السمعية المغيرة فينظر أول شيء في الإجماع فإن وجد في المسألة إجماعا ترك النظر في الكتاب والسنة فإنهما يقبلان النسخ والإجماع لا يقبله فالإجماع على خلاف ما في الكتاب والسنة دليل قاطع على النسخ إذ لا تجتمع الأمة على الخطأ.
(المستصفى للغزالى ج1ص374)
 امام فخر الدین محمد بن عمرالرازی (م604ھ) فرماتے ہیں:
احتج نفاة القياس بهذه الآية فقالوا : المكلف إذا نزلت به واقعة فإن كان عالماً بحكمها لم يجز له القياس ، وإن لم يكن عالماً بحكمها وجب عليه سؤال من كان عالماً بها لظاهر هذه الآية ، ولو كان القياس حجة لما وجب عليه سؤال العالم لأجل أنه يمكنه استنباط ذلك الحكم بواسطة القياس ، فثبت أن تجويز العمل بالقياس يوجب ترك العمل بظاهر هذه الآية فوجب أن لا يجوز. والله أعلم.
وجوابه : أنه ثبت جواز العمل بالقياس بإجماع الصحابة ، والإجماع أقوى من هذا الدليل.
(تفسير كبير للرازی: ج20ص37)
عقیدہ حیات الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اورمذاہب اربعہ
ائمہ احناف:
علامہ بدر الدین العینی(م855ھ)
فإنهم لا يموتون في قبورهم بل هم أحياء... ومذهب أهل السنة والجماعة أن في القبر حياة وموتا فلا بد من ذوق الموتتين لكل أحد غير الأنبياء.
(عمدۃ القاری ج:11 ص:403 کتاب فضائل الصحابہ)
ملاعلی قاری (م1014ھ)
أن الأنبياء أحياء في قبورهم فيمكن لهم سماع صلاة من صلى عليهم. (مرقات ج5ص32)
علامہ حسن بن عمار بن علی الشر نبلالی (م 1069ھ)
ومما هو مقرر عند المحققين أنه صلى الله عليه و سلم حي يرزق ممتع بجميع الأعمال والعبادات غير أنه حجب عن أبصار القاصرين عن شريف المقامات... ينبغي لمن قصد زيارة النبي صلى الله عليه و سلم أن يكثر من الصلاة عليه فإنه يسمعها أو تبلغ إليه.
(مراقى الفلاح ص430 فصل : في زيارة النبي صلى الله عليه و سلم على سبيل الاختصار تبعا لما قال في الاختيار)
علامہ محمد امین ابن عابدین الشامی (م1252ھ)
ولا يخفى ما في كلامه من إيهام انقطاع حقيقتها بعده فقد أفاد في الدر المنتقى أنه خلاف الإجماع
قلت وأما ما نسب إلى الإمام الأشعري إمام أهل السنة والجماعة من إنكار ثبوتها بعد الموت فهو افتراء وبهتان والمصرح به في كتبه وكتب أصحابه خلاف ما نسب إليه بعض أعدائه لأن الأنبياء عليهم الصلاة والسلام أحياء في قبورهم وقد أقام النكير على افتراء ذلك الإمام العارف أبو القاسيم القشيري في كتابه شكاية السنة وكذا غيره كما بسط ذلك الإمام ابن السبكي في طبقاته الكبرى في ترجمة الإمام الأشعري .
(حاشیۃ ابن عابدين ج4ص151)
ائمہ مالکیہ:
امام علی بن احمد السمہودی (م911ھ):
ولا شك في حياته صلى الله عليه وسلم بعد الموت وكذا سائر الأنبياء عليهم السلام حياة أكمل من حياة الشهداء التي أخبر الله بها في كتابه العزيز وهو صلى الله عليه وسلم سيد الشهداء وأعمال الشهداء في ميزانه.
(خلاصۃ الوفاء:ج1ص43)
ائمہ شوافع:
امام تاج الدین ابو نصر عبد الوہاب بن علی سبکی(م 771ھ):
ومن عقائدنا أن الأنبياء عليهم السلام أحياء فى قبورهم فأين الموت... وصنف البيهقى رحمه الله جزءا سمعناه فى حياة الأنبياء عليهم السلام فى قبورهم واشتذ نكير الأشاعرة على من نسب هذا القول إلى الشيخ.
(طبقات الشافعیۃ الکبریٰ: ج384،385)
حافظ ابن حجرعسقلانی (م852ھ):
واحسن من هذا الجواب ان يقال ان حياته صلى الله عليه و سلم في القبر لايعقبها موت بل يستمر حيا والأنبياء احياء في قبورهم ولعل هذا هو الحكمة في تعريف الموتتين حيث قال لايذيقك الله الموتتين المعروفتين المشهورتين الواقعتين لكل أحد غير الأنبياء .
(فتح البارى ج7ص29)
وإذا ثبت أنهم أحياء من حيث النقل فإنه يقويه من حيث النظر كون الشهداء أحياء بنص القرآن والأنبياء أفضل من الشهداء.
( فتح الباری ج6ص595)
فائدہ:
ائمہ شوافع میں سے امام جلال الدین سیوطی اورامام ابو بکر البیہقی نے اس موضوع پر مستقل کتاب تحریر فرمائی ہے۔
ائمہ حنابلہ:
امام ابو محمد عبد الله بن احمد بن قدامۃ المقدسی(م620ھ)
ويستحب زيارة قبر النبي صلى الله عليه و سلم لما روى الدارقطني بإسناده عن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من حج فزار قبري بعد وفاتي فكأنما زارني في حياتي... عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : ما من أحد يسلم علي عند قبري إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام... ويروى عن العتبي قال : كنت جالسا عند قبر النبي صلى الله عليه و سلم فجاء إعرابي فقال : السلام عليك يا رسول الله سمعت الله يقول : ( ولو أنهم إذ ظلموا أنفسهم جاؤوك فاستغفروا الله واستغفر لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحيما وقد جئتك مستغفرا لذنبي مستشفعا بك إلى ربي ثم أنشأ يقول :
( يا خير من دفنت بالقاع أعظمه ... فطاب من طيبهن القاع والأكم )
( نفسي الفداء لقبر أنت ساكنه ... فيه العفاف وفيه الجود والكرم )
ثم انصرف الإعرابي فحملتني عين فنمت فرأيت النبي صلى الله عليه و سلم في النوم فقال : عتبي الحق الإعرابي فبشره أن الله قد غفر له ... ثم تأتي القبر فتولى ظهره القبلة وتستقبل وتقول : السلام عليك أيها النبي صلى ورحمة الله وبركاته... اللهم إنك قلت وقولك الحق : ( ولو أنهم إذ ظلموا أنفسهم جاؤوك فاستغفروا الله واستغفر لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحيما ) وقد أتيتك مستغفرا من ذنوبي مستشفعا بك إلى ربي فأسألك يا رب أن توجب لي المغفرة كما أوجبتها لمن أتاه في حياته.
(المغنی لابن قدامہ ج3ص599،600)
حافظ ابن تیمیہ الحنبلی (م728ھ)
وَهُوَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْمَعُ السَّلَامَ مِنْ الْقَرِيبِ وَتُبَلِّغُهُ الْمَلَائِكَةُ الصَّلَاةَ وَالسَّلَامَ عَلَيْهِ مِنْ الْبَعِيدِ.
(مجموع الفتاوى ج27ص384)
عقیدہ حیات الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اور اکابرین دیو بند
قام العلوم والخیرات حضرت مولانامحمدقاسم ناتوتوی:
 رسول اللہ ﷺ بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام بالیقین قبرمیں زندہ ہیں آپ اب تک بقید حیات ہیں پرشیعہ نہ سمجھیں توکیاکیجیے؟
(ھدیۃ الشیعۃ ص359)
 انبیاء کرام علیہم السلام کوانہیں اجسام دنیاوی کے تعلق کے اعتبارسے زندہ سمجھتاہوں۔
(لطائف قاسمیہ ص3)
قطب الاقطاب حضرت مولانا رشیداحمدگنگوہی:
آپ ﷺ اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں ونبی اللّٰہ حی یرزق،اس مضمون حیات کو بھی مولوی محمدقاسم صاحب سلمہ اللہ تعالی نے اپنے رسالہ آب حیات میں بمالامزیدعلیہ ثابت کیاہے۔
(ھدایۃ الشیعہ ص49)
حضرت مولانااحمدعلی السہارنپوری:
والاحسن ان یقال ان حیاتہ صلی اللہ علیہ و سلم لایتعقبھا موت بل یستمرحیاوالانبیاء احیاء فی قبورھم.
( بخاری شریف ج1ص517حاشیہ)
شیخ الہند حضرت مولانامحمودحسن دیوبندی:
’’المہندعلی المفند‘‘پرتصدیقی دستخط کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
وھومعتقدناومعتقدمشائخناجمیعالاریب فیہ.
(المہندعلی المفندص74)
 تقدیرالکلام مامن احدیسلم علی الااردعلیہ السلام لانی حی اقدرعلی ردالسلام۔
(حاشیہ سنن ابی داؤد:ج1ص286)
 قولہ ان اللّٰہ حرم علی الارض ای منعہاوفیہ مبالغۃ لطیفۃ اجسادالانبیاء ای من ان تاکلہافالانبیاء فی قبورھم احیائ.
( حاشیہ سنن ابی داؤد: ج1ص157)
فخرالمحدثین مولاناخلیل احمدسہارنپوری:
 ان نبی اللّٰہ صلی اللہ علیہ و سلم حی فی قبرہ کماان الانبیاء علیھم السلام احیاء فی قبورھم.
( بذل المجہودشرح ابی دائود‘ج2ج ص117باب مایقول فی التشھد)
 زائرین جو بے با کانہ اونچی آواز سے صلاۃ سلام پڑھتے اس سے آ پ کو بہت تکلیف ہوتی اور فرمایا کرتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حیات ہیں اور ایسی آواز سے سلام عرض کرنا بے ادبی اور آپ کی ایذاء کا سبب ہے لہذا پست آواز سے سلام عرض کرنا چاہیے اور یہ بھی فرمایا کہ مسجد نبوی کی حد میں کتنی ہی پست آواز سے سلام عرض کیا جائے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں۔
( تذکرہ الخلیل ص:370)
رئیس المفسرین مولاناحسین علی الوانی واں بھچروی:
عن ابی الدرداءرضی اللہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و سلم اکثروالصلوۃ علی یوم الجمعۃ فانہ مشھودتشہدہ الملائکۃ ان واحدالن یصلی علی الاعرضت علی صلا تہ حین یفرغ منھاقال قلت وبعدالموت قال: وبعد الموت: ان اللّٰہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء فنبی اللّٰہ حی یرزق وقدصنف السیوطی رسالۃ انباء الاذکیاء فی حیات الانبیائ۔
(تحریرات حدیث علی اصول التحقیق ص331‘رسالہ درود شریف‘ حدیث نمبر8 ط: اشاعت اکیڈمی پشاور)
حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی:
 حضرت ابودردا ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایااللہ تعالیٰ نے زمین پرحرام کردیاہے کہ وہ انبیاء کرام ؑ کے جسموں کوکھاسکے پس خداکے پیغمبرزندہ ہوتے ہیں اور ان کورزق دیاجاتاہے روایت کیا اسکو ابن ماجہ نے۔
فائدہ:پس آپ کا زندہ رہنا بھی قبر شریف میں ثابت ہوا۔
(نشرالطیب ص199)
 بہرحال یہ بات باتفاق امت ثابت ہے کہ انبیاء ؑ علیھم لسلام قبرمیں زندہ رہتے ہیں۔
(اشرف الجوا ب ص 321)
 حضورﷺ کی قبرمبارک کے لئے بہت کچھ شرف حاصل ہے کیونکہ جسداطہراسکے اندرموجودہے۔بلکہ خودحضورﷺ یعنی جسد مع تلبس الروح اس کے اندرتشریف رکھتے ہیں۔ کیونکہ آپ ﷺ قبرمیں زندہ ہیں۔ قریب قریب تمام اہل حق اس پرمتفق ہیں۔ صحابہ ؓ کا بھی یہی اعتقادہے۔ حدیث بھی نص ہے کہ ان نبی اللّٰہ حی فی قبرہ یرزق۔
(اشرف الجواب ص318،319)
 حضور ﷺ قبرشریف میں زندہ ہیں۔
(اشرف الجواب ص222)
 آپ ﷺ بنص حدیث قبرمیں زندہ ہیں۔
( التکشف ص675)
خاتم المحدثین حضرت مولانا سید محمد انورشاہ کشمیری:
وفی البیھقی عن انسؓ وصححہ ووافقہ الحافظ (ابن حجرؒ)فی المجلدالسادس ان الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون.
(فیض الباری علی صحیح البخاری ج2‘کتاب الصلوٰۃ باب رفع الصوت ص64)
شیخ العرب والعجم حضرت مولاناسیدحسین احمدمدنی:
یہ اکابرعلماء دیوبندوفات ظاہری کے بعدانبیاء علیہم السلام کی حیات جسمانی کے صرف قائل ہی نہیں بلکہ مثبت بھی ہیں اوربڑے زوروشورسے اس پردلائل قائم کرتے ہیں۔ متعددرسائل اس بارہ میں تصنیف فرماچکے ہیں۔رسالہ آب حیات نہایت ہی مسبوط رسالہ خاص اس مسئلہ کے لئے لکھاگیاہے (معلوم ہواکہ آب حیات لکھنے کی غرض صرف ردروافض ہی نہیں بلکہ اثبات عقیدہ حیات النبیؐ بھی تھا)نیزھدیۃ الشیعہ‘اجوبہ اربعین حصہ دوئم اوردیگررسائل مطبوعہ مصنفہ حضرت نانوتوی قدس سرہٗ العزیز اس مضمون سے بھرے ہوئے ہیں۔
(نقش حیات ص160)
حضرت مولانامفتی محمد کفایت اللہ دہلوی:
اس خیال اوراعتقادسے نداکرناکہ آنحضرت ﷺ کی روح مبارک مجلس مولودمیں آتی ہے اسکاشریعت مقدسہ میں کوئی ثبوت نہیں اورکئی وجہ سے یہ خیال باطل ہے اول یہ کہ حضرت رسالت پناہ ﷺ قبرمبارک میں زندہ ہیں جیساکہ اہل سنت والجماعت کامذہب ہے توپھرآپﷺ کی روح مبارک کامجالس میلادمیں آنابدن سے مفارقت کرکے ہوتاہے ؟یاکسی اور طریقے سے؟اگرمفارقت کرکے ماناجائے توآپﷺ کاقبرمطہرمیں زندہ ہوناباطل ہوتاہے یاکم ازکم اس زندگی میں فرق آناثابت ہوتاہے تویہ صورت علاوہ اس کے کہ بے ثبوت ہے باعث توہین ہے نہ موجب تعظیم۔
(کفایت المفتی ‘ج1ص169‘177ط :دارالاشاعت کراچی)
شیخ الاسلام علامہ شبیراحمدعثمانی:
 قرآن کریم کی آیت”وَمَاکَان لَکُمْ اَنْ تُؤْ ذُوْارَسُوْلَ اللّٰہِ وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوْآاَزْوَاجَہٗ مِنْ بَعْدِہٖٓ اَبَدًا“ (سورۃ احزاب 53) کے تحت لکھتے ہیں:
”اس مسئلہ کی نہایت محققانہ بحث حضرت مولانامحمدقاسم نانوتویؒ کی آب حیات میں ہے۔“
(تفسیرعثمانی ص567)
 آیت ”وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلٰى هٰؤُلَاءِ“ (سورۃ نحل آیت 89 ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”حدیث میں آیاہے کہ امت کے اعمال ہرروزحضورﷺ کے روبروپیش کئے جاتے ہیں آپ اعمال خیرکودیکھ کرخداکاشکر ادا کرتے ہیں اوربداعمالیوں پرمطلع ہوکرنالائقوں کے لئے استغفارفرماتے ہیں۔“
(تفسیرعثمانی ص366)
 ودلت النصوص الصحیحۃ علی حیات الانبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام.
(فتح الملھم شرح صحیح مسلم ج1 ص325کتاب الایمان باب الاسراء برسول اللّٰہ ﷺ الی السموات وفرض الصلوٰات)
حضرت مولانامنظوراحمدنعمانی:
سب کے نزدیک مسلم اوردلائل شرعیہ سے ثابت ہے کہ انبیاء علیھم السلام اورخاص کرسیدالانبیاء ﷺ کواپنی قبورمیں زندگی حاصل ہے۔
(معارف الحدیث ج5ص280)
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاکاندھلوی:
 انبیاء ؑ اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں۔(خصائل نبویﷺ شرح شمائل ترمذی ص252باب ماجاء فی میراث رسول اللہ )
 انبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام اپنی قبورمیں زندہ ہیں علامہ سخاوی نے قول بدیع میں لکھا ہے ہم اس پرایمان لاتے ہیں اوراس کی تصدیق کرتے ہیں کہ حضورﷺاقدس زندہ ہیں اپنی قبرشریف میں۔ اورآپ کے بدن اطہرکوزمین نہیں کھاسکتی اوراس پر(امت مسلمہ کا)اجماع ہے۔ امام بیہقیؒ نے انبیاء کی حیات میں ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایاہے اورحضرت انسؓ کی حدیث ہے الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون کہ انبیاء ؑ اپنی قبروںمیں زندہ ہوتے ہیں اورنمازپڑھتے ہیں۔علامہ سخاویؒ نے اس کی مختلف طرق سے تخریج کی ہے۔
(فضائل درودشریف ص25)
مفتی اعظم دارالعلوم دیوبندحضرت مولانامفتی عزیزالرحمن:
انبیاء علیھم السلام کی حیات قوی ترہےاور نصوص صرف انبیاء علیھم السلام اور شھداءکی حیات میں واردہیں۔حدیث شریف میں ہے: ان اللّٰہ حرم علی الارض ان تاکل اجسادالانبیاء فنبی اللہ حیی یرزق الحدیث۔
( فتاوی دارالعلوم دیوبند مکمل ومدلل ‘ج5 ص319)
فخرالاسلام حضرت مولانافخرالدین احمد:
باب رفع الصَّوْتِ فِی المسجد حدثناعلیّ بن عبداللّٰہِ بن جعفربن نجیح المدینی قال نایحیی بن سعیدنِ القطان قال ناالجعیدبن عبدالرّحمٰن قال حدَّثنی یزیدبن خصیفۃ عن السّائب بن یزیدقال کنت قائمافی المسجدفحصبنی رجل فنظرت الیہ فاذاعمربن الخطّاب فقال اذھب فأتنی بھٰذین فجئتہ بھمافقال ممّن انتما اومن این انتماقالامن اھل الطّائف قال لوکنتمامن اھل البلدلاوجعتکماترفعانِ اصواتکمافی مسجدرسول اللّٰہِ صلّٰی اللّٰہُ علیہ وسلّم.
مزاراقدس کے احترام میں صحابہ ؓ کاعمل:۔
حضرت عمرؓ کاارشاد ترفعان اصواتکما الخ احترام مسجدکے ساتھ قرآن کریم کی آیت
لاترفعوااصواتکم فوق صوت النبی ولاتجھروالہ بالقول کجھربعضکم لبعض
(الحجرات2)
سے بھی ماخوذہے کہ اے ایمان والو!اپنی ا ٓوازوں کو پیغمبرعلیہ السلام کی آوازسے بلندنہ کرواورنہ ان کے سامنے اس طرح زورسے بولوجیسے آپس میں بولتے ہو‘پیغمبرعلیہ السلام کی زندگی میں بھی یہی حکم تھااوروفات کے بعدبھی یہی حکم ہے کیونکہ آپ قبرشریف میں بھی حیات سے متصف ہیں‘حضرت عمرؓ کی رائے توروایاتِ باب سے معلوم ہوگئی کہ وہ وفات کے بعدبھی قبرشریف کے قریب بلندآوازسے بولنے پرتنبیہ فرمارہے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں بھی یہی منقول ہے کہ وہ مسجدنبویﷺ میں بلندآوازسے بولنے پر نکیر فرماتے اورکہتے کہ تم نے رسول اللہﷺ کوقبرشریف میں اذیت پہنچاِِئی‘ حضرت علی نے ایک مرتبہ اپنے دروازے کے لئے کواڑ بنوائے تو حکم دیا کہ انہیں اتنی دور بیٹھ کر بنایا جائے کہ انکی آواز مسجد نبوی میں نہ آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر مبارک میں تکلیف نہ ہو، حضرت عائشہ ؓ سے منقول ہے کہ اگرحجرہ اطہرکے قریب کسی دیوارمیں کیل ٹھوکنے کی آوازآتی تو فوراً کسی قاصدکوبھیج کرمنع کرادیتی تھیں لاتوذوارسول اللّٰہ (ﷺ ) کہ رسول اللہ ﷺ کوتکلیف مت پہنچاؤ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے یہ تمام اقوال وافعال تقی الدین سبکی کی شفاء السقام میں موجودہیں۔حیات انبیاء کے مسئلہ پرتفصیلی گفتگو کسی اورموقع پرکی جائے گی۔ انشاء اللہ
(ایضاح البخاری‘ شرح بخاری شریف‘ جلد3‘ص269)
حکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمدطیب قاسمی:
 برزخ میں انبیاء ؑ کی حیات کامسئلہ معروف ومشہوراورجمہورعلماء کااجماعی مسئلہ ہے۔علماء دیوبندحسب عقیدہ اھلسنت والجماعت برزخ میں انبیاء کرام ؑ کی حیات کے اس تفصیل سے قائل ہیں۔ کہ نبی کریمﷺ اورتمام انبیاء کرام ؑ وفات کے بعداپنی اپنی پاک قبروں میں زندہ ہیں۔اوران کے اجسام کے ساتھ انکی ارواح مبارکہ کاویساہی تعلق قائم ہے جیساکہ دینوی زندگی میں قائم تھا۔وہ عبادت میں مشغول ہیں نمازیں پڑھتے ہیں انہیں رزق دیاجاتاہے اوروہ قبورمبارکہ پرحاضرہونے والوں کا صلوٰۃ وسلام سنتے ہیں۔ علماء دیوبندنے یہ عقیدہ قرآن وسنت سے پایاہے۔ اوراس بارے میں ان کے سوچنے کاطرز بھی متوارث رہاہے۔
(خطبات حکیم الاسلام ج7ص181)
 وفات کے بعدنبی کریمﷺ کے جسداطہرکوبرزخ (قبرشریف)میں بتعلق روح حیات حاصل ہے اوراس حیات کیوجہ سے روضۂ اقدس پرحاضرہونے والے کا صلوٰۃ وسلام سنتے ہیں۔
(خطبات حکیم الاسلام ج7 ص187، ماہنامہ تعلیم القرآن اگست 1962 ص27-28)
 احقراوراحقرکے مشائخ کامسلک وہی ہے جوالمہندمیں بالتفصیل مرقوم ہے۔ یعنی برزخ میں جناب رسول اللہﷺ اورتمام انبیاء ؑ بجسدعنصری زندہ ہیں۔ جو حضرات اس کے خلاف ہیں وہ اس مسئلہ میں دیوبندسے ہٹے ہوئے ہیں۔
(رحمت کائنات ص32)
 تسکین الصدورپرتصدیقی دستخط کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں:
”رسالہ نافعہ تسکین الصدورسے استفادہ نصیب ہوا۔ اس کی وقعت وعظمت کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ مولانا سرفرازخان ؒصاحب کی تالیف ہے جواپنی محققانہ ومعتدلانہ طرز تالیف میں معروف ہیں۔ تسکین الصدور‘حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع کے مسائل میں تسکین الصدورہی ہے جس سے روحی اورقلبی تسکین ہوجاتی ہے۔ جس جس مسائل پرکلام کیاگیاہے وہ اپنی جگہ نہ صرف یہ کہ اھل السنت والجماعت کے مسلک اورمذہب منصورکے مطابق ہی نہیں بلکہ فی نفسہٖ اپنے تحقیقی رنگ کیوجہ سے پوری جامعیت کے ساتھ منضبط ہوگئے ہیں اوران سے دلوں میں سرور اورآنکھوں میں نور پیداہوتا ہے۔ حق تعالیٰ مؤلف ممدوح کوتمام مسلمانوںکی طرف سے جزائے خیرعطاء فرمائے اوران کے علم وعرفان اورعمل وایمان میں روز افزوں ترقیات عطاء فرمائے آمین۔“
(تسکین الصدورص20)
فخرالمحدثین حضرت مولانا ظفراحمدعثمانی:
لاشک فی حیوتہ بعدوفاتہ وکذاسائرالانبیاء ؑ احیاء فی قبورھم حیاتہم اکمل من حیاۃ الشہدائ.
(اعلاء السنن ج10ص505)
رئیس المفسرین حضرت مولانامحمدادریس کاندھلوی:
 تمام اہلسنت والجماعت کااجماعی عقیدہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام وفات کے بعد اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔
(سیرت المصطفیٰ ج3ص162)
 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ودیگرانبیاءکرام قبروں میں زندہ ہیں۔
(سیرت المصطفیٰ ج3ص168)
 احادیث متواترہ سے انبیاء ؑ کرام کی جوحیات ثابت ہے وہ حیات فی القبور ہے نہ کہ حیات فی السمٰوٰات۔
(سیرت المصطفیٰ ج3ص169)
مفتی اعظم دارالعلوم دیوبندحضرت مولانامفتی مہدی حسن شاہجہان پوری:
آپﷺ اپنے اپنی قبرمبارک میں ا پنے جسدمبارک کے ساتھ زندہ ہیں۔ مزارمبارک کے ساتھ آپﷺ کاخصوصی تعلق بجسدہ وروحہ ہے۔ جواس کے خلاف کہتاہے وہ غلط کہتاہے بدعتی ہے۔ اس کے پیچھے نمازمکروہ ہے۔ اس باب میں بکثرت احادیث وارد ہیں۔ جنکاانکارنہیں کیاجاسکتاہے جوانکارکرتاہے وہ خارج ازااھلسنت والجماعت ہے۔
(خیرالفتاویٰ ج1ص124 ‘تسکین الصدورص50/49)
فقیہ الامت حضرت مولانامفتی محمود حسن گنگوہی:
(رسول اللہﷺ کی)قبراطہرمیں زندہ ہونے کی بحث مستقل ہے۔ علماء حق کی تحقیق یہ ہے کہ زندہ تشریف فرماہیں۔
( فتاویٰ محمودیہ باب مایتعلق بحیات الانبیاء ؐ ج1ص532-533)
امام الاولیاء حضرت مولانااحمدعلی لاہوری:
کئی برس ہوئے حضرت مولانااحمدعلی لاہوری ؒصاحب سے مولانا غلام اللہ خان صاحب نے اپنے ہاں تقریرکی غرض سے تاریخ لی۔ جب تاریخ نزدیک آگئی توحضرت مولانااحمدعلی لاہوری ؒ نے ان کوفرمایا۔ کہ تم مسئلہ حیات میں اکابردیوبند اور سلف کامسلک کاترک کرچکے ہو۔ اسی لئے اگرمیں آئونگاتومسئلہ حیات بیان کرونگا اور فرمایاکہ یہ مسئلہ وہ سمجھ سکتاہے جس کوعقیدت ہویابصیرت حاصل ہو‘بصیرت تم کو حاصل نہیں اورعقیدت تم کورہی نہیں۔چنانچہ حضرت لاہوریؒ پھرراولپنڈی تشریف نہ لے گئے۔
(حیات انبیاء کرام ؑ ازمولانامفتی عبدالشکورترمذی ص:20ط: المکتبۃ الاشرفیہ لاہور)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمدشفیع عثمانی:
 آیت مبارکہ ”وَمَاکَان لَکُمْ اَنْ تُؤْ ذُوْارَسُوْلَ اللّٰہِ وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوْآاَزْوَاجَہٗ مِنْ بَعْدِہٖٓ اَبَدًا“ (سورۃ احزاب 53) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
رسول اللہﷺ اپنی قبرشریف میں زندہ ہیں۔آپ ﷺ کی وفات کادرجہ ایساہے جیسے کوئی زندہ شوہرگھرسے غائب ہو۔ اس بناء پرآپﷺ کی ازواج کاوہ حال نہیں جوعام شوہروں کی وفات پران کی ازواج کاہوتاہے۔
(معارف القرآن ج7ص203)
 آیت مبارکہ ”یَا ایّھَا النبیُّ اِنَّااَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَ مُبَشِّرًا وَنَذِیْرًا “ (سورۃ احزاب 45) کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:
تمام انبیاء کرام ؑ خصوصاًرسول کریمﷺ اس دنیاسے گذرنے کے بعدبھی اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہے۔
(معارف القرآن ج7ص177 )
مرشدالعلماء والصلحاء مولاناعبداللہ بہلوی:
ہمارے اکابرواسلاف دیوبند رحمہم اللہ تعالی عنہم ہمارے مرشدین نقشبندیہ ‘قادریہ‘چشتیہ‘سہروردیہ رحمہم اللہ تعالیٰ کا بھی یہی اعتقادہے کہ حضورﷺ دنیاوی وفات کے بعدقبرمبارک میں جسمانی روحانی حیات سے زندہ ہیں۔
(القول النقی ص29)
مفکراسلام حضرت مولانامفتی محمود:
نبی کریمﷺ اورتمام انبیاءعلیھم السلام ؑ اپنی قبورمطہرہ میں حیات ہیں۔
( فتاویٰ مفتی محمودج1ص350)
حضرت مولانا غلام غوث ہزارو ی:
انبیا ء اکرام ؑ کے بارہ میں انحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ وہ قبروں میں زندہ ہیں نمازیں پڑھتے ہیں ،قریب سے درو د و سلام سنتے اور اسکا جواب بھی دیا کرتے ہیں اس کتاب میں اس مسئلہ پر مفصل بحث کی جارہی ہے۔ یہاں سے ان حضرا ت کی کم علمی واضح ہو جاتی ہے۔ جو مسکہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم ؑ کو شر ک قرار دیتے ہیں شرک تو تب ہوتا کہ کسی کو ایسا زندہ مان لیا جاتا جس کی حیات خدا تعالیٰ کی عطا نہ ہو اسکے گھر کی ہو پھر اس پر کبھی موت طاری نہ ہو مگر یہ تو کسی مسلمان کا عقیدہ نہیں ہے کیا جو پیغمبر دنیا میں زندہ تھے وہ شرک تھا ؟ کیا قیامت میں ہم سب زندہ ہوں گے اورزندہ بھی ایسے کہ پھر کبھی نہ مریں گے کیا وہ شرک ہو جائے گا؟پھراگر اللہ تعالیٰ کسی کو درمیان میں ،قبر میں بھی پوری یاادھوری زندگی عطا فر ما دیں وہ کیسے شر ک ہو گیا؟ جبکہ علماء دیوبند نہ تو آنحضر ت ﷺ کی وفات ہوجانے کا انکا ر کرتے ہیں نہ پیغمبروںکی حیات کواللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ ہونے سے انکارکرتے ہیں۔ صر ف آپؐ کے ارشا د کے مطابق قبروں میں انبیا ء کرام ؑ کی حیات اور نما ز پڑھنے اور سلام و درود سننے کا اقرار کرتے ہیں تو کیا آنحضرت ﷺ کے ارشاد کو ماننا شرک ہے ؟ اللہ تعالیٰ ایسی جہالت اور ضد سے بچائے (آمین )
(تسکین الصدور ص206،207)
حضرت مولانا محمدیوسف بنوری:
حضرات انبیاء کرام ؑ کی حیات بعدالممات کامسئلہ صاف ومتفقہ مسئلہ تھا۔ شہداء کی حیات بنص قرآن ثابت تھی۔ اوردلالۃ النص سے انبیاء کرام ؑ کی حیات قرآن سے ثابت تھی اوراحادیث نبویہ سے عبارت النص کے ذریعہ ثابت تھی۔ لیکن براہواختلافات اورفتنوں کاکہ ایک مسلمہ حقیقت زیربحث آکرمشتبہ ہوگئی کتنے تاریخی بدیہات کوکج بحثیوں نے نظری بنادیااورکتنے حقائق شرعیہ کوکج فہمی نے مسخ کرکے رکھ دیایہ دنیاہے اوردنیاکے مزاج میں داخل ہے کہ ہردور میں کج فہم اورکج رواورکج بحث موجودہوتے ہیں زبان بندکرناتواللہ تعالیٰ ہی کی قدرت میں ہے۔ ملاحدہ وزنادقہ کی زبان کب بندہوسکی۔
(تسکین الصدورص22-23)
مولانامفتی جمیل احمدتھانوی:
آٹھ‘ دس سال سے حضرات انبیاء کرام ؑ کی حیات کاانکاربعض ایسے عالموں کی طرف سے شائع ہونے لگاجوکہ ہمارے اپنے شمار ہوتے تھے۔ بہت ہی جی چاہتاتھاکہ کوئی اللہ کابندہ اس مسئلہ کی پوری پوری تحقیق لکھ دے ……خودتوکم صحت کم فرصت کم استعداداس سے قاصرتھا۔ بس دل میں یہ تمناموجزن تھی حضرت مولانا سرفرازخانؒ صاحب نے بڑی محنت اورجانفشانی اور عرق ریزی سے یہ تحقیق مکمل کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میری وہ دلی تمنامولاناکے ہاتھوںپوری فرمادی اس لئے حرف حرف مزے لے لے کرپڑھتاچلاگیاہربحث پردل باغ باغ ہوتا گیا اور دعاؤں میں سرشارہوتارہا..... الحمدللہ جیسادل چاہتاتھایہ کام انجام پاگیا۔ احادیث کے اسنادکی صحت اورمفہومات کی تحقیقات‘شبہات کے جوابات ماشاء اللہ نورعلی نورہے۔اللہ تعالیٰ حضرت مصنف کوبہترین جزاوں سے دونوں جہانوںمیں سرفرازفرمائیں اورمشتبہ آنکھوں کے لئے کتاب کوسرمۂ بصیر ت بنائیں۔
(تسکین الصدورص27-26)
حافظ الحدیث حضرت مولانامحمدعبداللہ درخواستی:
هو حى فى قبره كحياة الانبياء۔۔ وحرم على الارض ان تاكل اجساد الانبياء
حياتهم اعلى واكمل من الشهداء۔۔ وشانهم ارفع فى الارض والسماء
(انوار القر ٓن حافظ الحدیث نمبراگست ،ستمبر،اکتوبر،نومبر۲۰۰۲ص۱۲۲)
تسکین الصدورکی تقریظ میں لکھتے ہیں :اپنے موضوع میں مسلک اھل السنت والجماعت کے بیان میں کافی وشافی ہے۔
( تسکین الصدورص27)
خواجہ خواجگان حضرت مولاناخواجہ خان محمدؒ :
حضرت خواجہ صاحب اپنے ایک مکتوب گرامی میں فرماتے ہیں:
قرون ِ اولیٰ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے لے کرآج تک جمیع علماء کرام کااجماعی طورپرحیات النبیﷺ کے متعلق جوعقیدہ ہے وہ یہ ہے کہ حضرت اقدس نبی کریمﷺ اورسب انبیاء ؑ وفات کے بعداپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اوران کے ابدان مقدسہ بعینھامحفوظ ہیں اورجسدعنصری کیساتھ عالم برزخ میں ا ن کوحیات حاصل ہے اورحیات دنیوی کے مماثل ہے صرف یہ ہے کہ احکام شرعیہ کے وہ مکلف نہیں ہیں روضۂ اقدسﷺ پرجودرودشریف پڑھے وہ بلاواسطہ سنتے ہیں اورسلام کاجواب دیتے ہیں۔ حضرات دیوبندکابھی یہی عقیدہ ہے۔ اب جواس مسلک کے خلاف کرے اتنی بات یقینی ہے کہ اسکااکابردیوبندکے مسلک سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ جوشخص اکابر دیوبند کے مسلک کے خلاف رات دن تقریربھی کرے اوراپنے آپ کودیوبندی بھی کہے یہ بات کم ازکم ہمیں توسمجھ نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کوصراط ِ مستقیم اوراکابردیوبندکے مسلک کے صحیح پابندبناکراستقامت نصیب فرماوے۔
(مجلہ ’’صفدر‘‘گجرات شیخ المشائخ نمبر‘ص686-687)
حضرت مولانامفتی احمدسعیدصاحب:
(مفتی جامعہ عربیہ سراج العلوم سرگودھا)
’’مسئلہ حیاۃ انبیاء ؑ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس مسئلہ پرتمام علماء محدثین وفقہاء ومفسرین اور چاروں اماموں کے مقلدین بلکہ اہل ظواہر غیرمقلدین بھی متفق ہوں تواس مسئلہ میں ایک جدیدطریق اختیارکرنا تحقیق نہیں بلکہ علماء امت کی تضحیک ہے۔ خدمت اسلام نہیں تذلیل اہل ایمان ہے۔ اگرجمہورسلف صالحین پراعتمادنہیں تو دین تمہاراخانہ زادنہیں۔ “
(حیات النبیﷺ اورمذاہب اربع ص'4)
استادالعلماءحضرت مولاناخیرمحمدجالندھری:
عالم برزخ میں جملہ انبیاء علیھم السلام کی حیات حقیقیہ دنیویہ بجسدھم العنصری کا مسئلہ اہل سنت والجماعت میں متفق علیہ مسئلہ ہے۔
(القول النقی فی حیات النبی ص30)
وکیل اھلسنت حضرت مولاناقاضی مظہرحسین:
اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ موت کے بعد اللہ تعالی انہیں انبیاء کرام علیھم السلام کے جسم مبارک کو حیات عطا کرتے ہیں اسی جسم میں حیات ہوتی ہے جوجسم اس دنیا میں تھا۔
(یاد گار خطبات ص101)
پاسبان مسلک دیوبند حضرت مولانامحمدعلی جالندھری:
آنحضرت ﷺ کواس دنیاسے انتقال فرمانے کے بعدعالم برزخ میں جو حیات حاصل ہے وہ روح مبارک کے تعلق سے اسی دنیوی جسداطہرکے ساتھ ہےجوروضۂ انور میں محفوظ وموجودہیں۔اسی تعلق کی وجہ سے روضہ ٔ انورپرپڑھے گئے درودوسلام کوبغیر کسی واسطے کے علی الدوام خودسماعت فرماتے ہیں۔ اسی عقیدہ کوہمارے اکابرنے المہند میں حیات دنیویہ برزخیہ سے تعبیر کیا ہے۔
(سوانح وافکارمولانامحمدعلی جالندھریؒ ص324)
فقیہ العصرمولانامفتی رشیداحمدلدھیانوی:
احتج القائلون بانہامندوبۃ بقولہ تعالٰی ولوانہم اذظلمواانفسہم جاؤک فاستغفرواللّٰہ واستغفرلھم الرسول الایۃ وجہ الاستدلال بہاانہ حیﷺ فی قبرہ بعدموتہ کمافی حدیث الانبیاء احیاء فی قبورھم.
(احسن الفتاویٰ ج4ص561ط: مکتبۃ الرشیدکراچی)
شہیداسلام حضرت مولانامحمدیوسف لدھیانوی شہید:
 میرااورمیرے اکابرکاعقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ روضہ ٔ اطہرمیں حیات جسمانی کے ساتھ حیات ہیں اوریہ حیات برزخی ہے، آنحضرتﷺ درودوسلام پیش کرنے والوں کےسلام کاجواب دیتے ہیں اور وہ تمام امور جن کی تفصیل اللہ ہی کومعلوم ہے ،بجالاتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کوحیات برزخیہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ حیات برزخ میں حاصل ہے اور اس حیات کا تعلق روح اور جسددونوں کے ساتھ ہے۔
(آپ کے مسائل اوران کاحل ج1ص299)
 حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام بالخصوص سیدالانبیاء سیدناحضرت محمد رسول اللہ ﷺ کااپنی قبرشریفہ میں حیات ہونااورحیات کے تمام لوازم کے ساتھ متصف ہونابرحق اورقطعی ہے اوراس پرامت کااجماع ہے۔
(آپ کے مسائل اور ان کاحل ج1ص261‘جدیدتخریج شدہ ایڈیشن)
استادالحدیث حضرت مولاناسیدبدرعالم مہاجرمدنی:
غرض آپﷺ کی اورجملہ انبیاء علیھم اسلام ؑ کی قبرمیں حیات کادلائل کے ساتھ ہم کوقطعی علم ہے اوراس بارے میں تواترکے درجے کوحدیثیں پہنچ چکی ہیں۔
(ترجمان السنۃ ج3ص302حدیث نمبر1073ط: ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی)
حضرت مولانامفتی عبدالرحیم لاجپوری:
انبیاء کرام ؑ اپنی قبروں میں زندہ ہیں اورنمازپڑھتے ہیں اورانکو رزق دیاجاتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے جسموں کو زمین پرحرام کردیاہے۔
(فتاویٰ رحیمیہ‘کتاب العقائدج8ص32ط مکتبہ رحمانیہ لاہور)
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدشریف کشمیریؒ:
’’اگرروضۂ اقدس پرصلوٰۃ وسلام پڑھاجائے توآپ ﷺخودسنتے ہیں‘بلکہ جمیع اہل السنۃ والجماعۃ اس کے قائل ہیں اورسب اکابر دیوبندکایہی عقیدہ ہے جوشخص اس عقیدے کوعقائدشرکیہ یابدعیہ میں شمارکرتاہے وہ بالکل جاہل اورپرلے درجے کااحمق اورملحد ہے۔ وہ حقیقت شرک سے قطعاًناآشناہے۔مسلمانوں کوایسے شخص سے دور رہنا چاہیے‘‘۔
(خیرالفتاویٰ ج نمبر1باب مایتلعق بالایمان والعقآئد ص128-129)
فقیہ العصرحضرت مولانامفتی عبدالشکورترمذی:
حضرات انبیاء کرام ؑ کی انکی قبروں میں زندگی متفق علیہ عقیدہ کی حیثیت سے ایک طے شدہ حقیقت ہے۔ اکابراھلسنت میں سے کوئی شخص بھی ایسانہیں ملتاجسے انبیاء کرام ؑ خصوصاً حضرت محمدﷺ کی حیات فی القبرکاانکارکیاہو۔ اورقبرمبارک میں آپﷺ کی روح مبارک کے جسداطہرسے اتصال وتعلق کی نفی کی ہو۔ بلکہ اس عقیدہ پراجماع ہے کہ قبرمیں روح مبارک کاجسداطہرسے ایساتعلق اور اتصال ثابت ہے جس سے جسم مبارک میں حیات اورسماع کی قوت حاصل ہے۔ اورقبرمبارک کے قریب سے سلام کہنے والوں کاسلام آپﷺ بنفس بنفیس خودسماعت فرما لیتے ہیں۔
(حیات انبیاء کرامﷺ ص113ط: مکتبہ اشرفیہ لاہور)
حضرت مولاناصوفی عبدالحمیدصاحب سواتیؒ:
ان النبی حی فی قبرہ کہ اللہ کانبی ﷺ قبرمیں زندہ ہیں۔ یہ زندگی محض روحانی زندگی نہیں کیونکہ روح تو ابوجہل کی بھی زندہ ہے بلکہ نبی کی زندگی کمال درجے کی زندگی ہے اس برزخی زندگی کے متعلق سلف کے دومسلک ہیں۔
اگرآپﷺ کی روح مبارک علیین میں ہے تواسکاتعلق قبرکے ساتھ بھی ہےاسی لئے حضورعلیہ السلام کاارشادہے۔
من صلی علی عندقبری سمعتہ ومن صلی[ علی] نائیاابلغتہ
یعنی جوشخص میری قبرپرآکردرودپڑھے گاتومیں اس کوسنتاہوں اورجودورسے پڑھے گاوہ مجھ تک پہنچایاجائے گامعراج کے واقعہ والی روایت بھی حیات النبیﷺ کی تصدیق کرتی ہے۔
(معالم العرفان فی دروس القرآن ج 15ص341-342‘ ط:مکتبہ دروس القرآن گوجرانوالہ)
شیخ الحدیث مولاناسلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم العالیہ:
انبیاء علیھم السلام اپنی قبروں میں جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہیں۔ یہ عقیدہ نہ صرف علماء دیوبندکاہے بلکہ تمام امت کاہے۔
(کشف الباری شرح صحیح بخاری‘کتاب المغازی ص125ط:مکتبہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی)
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدرفیع عثمانی صاحب :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کاتعلق جسم اطہرکےساتھ شھیدسے بھی زیادہ ہے ،اتنازیادہ ہےکہ کسی اور کی روح کو اپنے جسم سے اتناتعلق نہیں ہوتا چنانچہ احادیث سے ثابت ہے کہ آپ کی قبرشریف پرحاضر ہوکر جوآپ کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہے آپ اسے خودسنتے ہیں اورجواب عنایت فرماتے ہیں۔
(فتاوی دارالعلوم کراچی ج1ص100)
شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ:
ان الاصل فی ھذہ المسئلہ قول اللّٰہ تبارک وتعالٰی: ولاتقولوالمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء ولکن لاتشعرون ولماثبت الحیاۃ للشہداء ثبت للانبیاء ؑ بدلالۃ النص لان مرتبۃ الانبیاء اعلیٰ من مرتبۃ الشہداء بلاریب…وقدوردفی ھذا الباب حدیث صریح…عن انسؓ قال قال رسول اللّٰہﷺ: الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون … وبالجملۃ فان ھذہ الاحادیث مع حدیث الباب (مررت علی موسٰی ؑ الخ …) تدل علی کون الانبیاء احیاء بعدوفاتھم وھومن عقائدجمہوراھل السنۃ والجماعۃ…وانماالمقصودحیاتہم بمعی ان لارواحھم تعلقا قویاباجسادھم الشریفۃ المدفونۃ فی القبورولہذاالتعلق القوی حدثت لاجسادھم خصائص کثیرۃ من خصائص الاجسادمثل سماع السلام وردہ…
(تکملہ فتح الملھم ج5ص30-28ط:دارالعلوم کراچی)
منکر ین حیات کا حکم
 الغرض میر ااور میرے اکابر کا عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے روضہ مطہرہ میں حیات جسمانی کے ساتھ حیات ہیں یہ حیات برزخی ہے مگر حیاۃ دنیاوی سے قوی تر ہے جو لو گ اس مسئلہ کا انکار کرتے ہیں ان کا اکابر علماء دیوبند اور اساطین امت کی تصریحات کے مطابق علماء دیوبند سے تعلق نہیں ہے اور میں ان کو اہل حق میں سے نہیں سمجھتا اور وہ میرے اکابر کے نزدیک گمراہ ہیں ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں اور اس کے ساتھ کسی قسم کا تعلق روا نہیں۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل تخریج شدہ ج:1 ص:295)
 ہمارے نزدیک اہل السنت والجماعت کے اس عقیدہ حیات کا منکر کافر نہیں گمراہ ہے۔
(سوانح وافکار حضرت جالندھری ص:326)
 مفکراسلام مفتی محمود فرماتے ہیں:
یہ عقیدہ کہ آپ کاجسداطہرساکن وصامت قبرمبارک میں صحیح وسلامت موجود ہے اور اس سے افعال وحرکات کا صدور نہیں ہوتا عقیدہ فاسدہ ہے اورتمام علماء اہل السنت والجماعت کے عقیدہ اورعلماءدیوبند کے مسلک کے خلاف ہے۔
(القول النقی ص32)
ایک شخص نے مفتی محمود رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ ،،جوآدمی قبرمیں حضور کی حیات کامنکرہو،روضئہ اقدس پرالصلوة والسلام علیک یارسول اللہ کہنے کاقائل نہ ہواورحضورکی ذات کونورکہتاہواس کے بارے میں کیا حکم ہے [مفہوما]
حضرت مفتی صاحب تینوں مسائل میں مسلک اہل السنت والجماعت کی وضاحت کےبعدفرماتے ہیں: ”بلاتاویل اس کے خلاف عقیدہ رکھنے والے کے پیچھے نمازمکروہ تحریمی ہے۔ “
(فتاوی مفتی محمود ج1ص353،354)
 مولانا نصیرالدین غورغشتوی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
پنج پیریان قرآن کریم میں تحریف کرتے ہیں اورآیات واردہ فی حق المشرکین مومنوں پرصادق کرتے ہیں۔ ان سے قرآن کریم کا ترجمہ نہ کرنااوران جیسے فاسد عقائد والوں کے پیچھے نماز نہ پڑھناکسی دیندارمتقی کے پیچھے پڑھو۔
(سوانح مولانا غورغشتوی ص170)
 حضرت خواجہ خان محمد صاحب اپنے ایک مکتوب گرامی میں فرماتے ہیں:
قرون ِ اولیٰ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے لے کرآج تک جمیع علماء کرام کااجماعی طورپرحیات النبیﷺ کے متعلق جوعقیدہ ہے وہ یہ ہے کہ حضرت اقدس نبی کریمﷺ اورسب انبیاء ؑ وفات کے بعداپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اوران کے ابدان مقدسہ بعینھامحفوظ ہیں اورجسدعنصری کیساتھ عالم برزخ میں ا ن کوحیات حاصل ہے اورحیات دنیوی کے مماثل ہے صرف یہ ہے کہ احکام شرعیہ کے وہ مکلف نہیں ہیں روضۂ اقدسﷺ پرجودرودشریف پڑھے وہ بلاواسطہ سنتے ہیں اورسلام کاجواب دیتے ہیں۔ حضرات دیوبندکابھی یہی عقیدہ ہے۔ اب جواس مسلک کے خلاف کرے اتنی بات یقینی ہے کہ اسکااکابردیوبندکے مسلک سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ جوشخص اکابر دیوبند کے مسلک کے خلاف رات دن تقریربھی کرے اوراپنے آپ کودیوبندی بھی کہے یہ بات کم ازکم ہمیں توسمجھ نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کوصراط ِ مستقیم اوراکابردیوبندکے مسلک کے صحیح پابندبناکراستقامت نصیب فرماوے۔
(مجلہ ’’صفدر‘‘گجرات شیخ المشائخ نمبر‘ص686-687)
 شیخ الحدیث مولاناسلیم اللہ خان دامت برکاتھم فرماتے ہیں:
حضرات صحابہ کرام سے لیکر آج تک تمام ہی علماء کامسلک حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کارہاہے ،علماءدیوبندبھی اسی کے قائل ہیں، جوشخص حیات کی بجائے ممات کاعقیدہ رکھتا ہے اس کا علماء دیوبند سے کوئی تعلق نہیں۔
(خوشبووالاعقیدہ حیات النبی ص21

)

Download PDF File