عصمت انبیاء علیہم السلام

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عصمت انبیاء علیہم السلام
از افادات: متکلم ِ اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
چند تمہیدی باتیں:
خدا کی مخلوق میں خدا کے بعد سب سے بڑا مرتبہ انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والسلام کا ہے۔یہ ہستیاں دنیا کے لیے خدا کے خلیفہ ہیں اور ”تخلقوا باخلاق اللہ“ کے سب سے بڑے نمونے ہیں،اللہ کی اطاعت و عبودیت کے سب سے اونچے پیکر، مجسم العلوم و معرفت الہیہ کے سب سے زیادہ عالم و عارف، خدا کی ذات و صفات کے ہمہ وقتی مشاہدہ و استحضار سے مستفید و مستنیر..... غرض جتنی خوبیاں اور جتنے اوصافِ کمال خدا کی ذات کے بعد کسی مخلوق میں جمع ہوسکتے ہیں وہ سب انبیاء و مرسلین علیہم السلام میں جمع ہوئے ہیں، اسی لیے کسی ایک نبی کے مرتبہ کمال علمی و عملی کو بڑے سے بڑا ملک مقرب بھی نہیں پہنچ سکتا اور اپنے اپنے دور کے ہر نبی کو ”بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر“ کا مصداق کہا جاسکتا ہے، اسی لیے امت ان کے معصوم ہونے کا اعتقاد رکھتی ہے۔
عصمت انبیاء علیہم السلام کے اعتقاد رکھنے کے بعد ان انبیاء و مرسلین میں بھی فرق مراتب ہوا بدلیل:
”تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ
“ اور خدا تعالیٰ کی لا نہایہ بارگاہ کے مراتب قرب بھی بے نہایت ہیں۔
خصائص نبوت:
مسئلہ عصمت انبیاء علیم السلام میں غور وخوض کرنے کے لیے سب سے اہم نکتہ چونکہ انبیاء علیہم السلام کی صفات و ملکات اور ان کے خصائص سے بحث ہے، اس لیے ضروری ہے کہ یہاں پہلے چند سطور میں ان کے جوہر فطرت، صفات و ملکات اور ان کے خصائص سے بحث کی جائے۔
سلاطین عالم کسی شخص کو مسند وزارت کے لیے منتخب کرتے وقت چند چیزوں کا لحاظ رکھتے ہیں:
 ایسے شخص کو منتخب کرتے ہیں جو ان کا نہایت ہی مطیع اور مخلص ہو، حکومت کا پورا وفادار اور خیر خواہ ہو۔
 اخلاق حسنہ ،اوصاف جمیلہ اور محامد و مکارم سے آراستہ ہو، زمائم اور محضرات الامور سے بالکلیہ مبرا و منزہ ہو۔
 حسب و نسب میں سب سے زیادہ فائق و برتر ہو۔
 فہم و فراست اور عقل و فطانت میں سے سے اعلیٰ و ارفع ہو، نیز سفاہت و غباوت و قصور عقل کے دھبہ سے بالکل پاک ہو۔
 صدق و امانت اس کا طرہ امتیاز ہو، کذب و خیانت کے توہم سے بھی بمراحل بعید ہو۔
 دربار شاہی کے آداب کی پوری پوری رعایت رکھتا ہو، اس کی کسی حرکت اور سکون سے بادشاہ کی ہمسری کا ادعاء متوہم نہ ہوتا ہو، دیگر وزراء کے ساتھ اس کا معاملہ ان کے منصب وزارت اور شان تقرب کے مناسب ہو۔
بالکل اسی طرح ملیک مقتدر اور احکم الحاکمین کے وزراء کو کہ جن کو انبیاء و رسل سے تعبیر کیا جاتا ہے ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ:
٭ ان کے قلوب میں اس ملیک مقتدر کی محبت و اطاعت اس درجہ راسخ ہو کہ ارادہ معصیت کی بھی گنجائش نہ رہی ہو اور اسی فطری اجتناب عن المعاصی کا نام ”عصمت“ ہے۔ نیز ایمان و اسلام سے ان کا قلب اس درجہ لبریز ہو کہ کفر و شرک کے لیے جزء لا یتجزی کی مقدار کی بھی اس میں جگہ نہ ہو۔
٭ان کی فطرت اخلاق حسنہ، اوصاف جمیلہ، محامد وفضائل اور مکارم و شمائل سے مزین و مجلّٰی ہو، قابل نفرت امور سے بالطبع متنفر ہوں اور ان کے نفوس قدسیہ تمام زمائم سے منزہ ہوں۔ (اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لہسن و پیاز کا استعمال نہ فرماتے تھے، وجہ یہ فرماتے تھے کہ میں جس سے کلام و مناجات کرتا ہوں تم اس سے کلام و مناجات نہیں کرتے)
٭ یہ کہ ان کا حسب و نسب نہایت پاک و مطہر ہو، اسی وجہ سے ابو سفیان کو ہرقل کے سامنے یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ”ہو فینا ذو نسب“ کہ وہ ہم میں بڑے نسب والے ہیں۔
٭ یہ کہ وہ فہم و فراست کے اعتبار سے سب سے ارفع واکمل ہوں، قصور فہم سے کوسوں دور ہوں۔
٭ صدق و امانت کے ساتھ متصف اور غدر و خیانت سے بالکلیہ پاک ہوں۔
٭ ان کا کلام ذات وحدہ لاشریک لہ کی ہمسری کے رائحہ سے بھی پاک ہو، نیز یہ کہ ان کا ایک دوسرے کی تحقیر کرنا محال ہو۔
الحاصل: اس ملیک مقتدر اور احکم الحاکمین نے اپنی خلافت و وزارت کے لیے انبیاء علیہم السلام کو منتخب فرمایا ہے مگر چونکہ وہ علیم و خبیر بما فی الصدور اور یعلم السر واخفیٰ بھی ہے، اس لیے وہ اپنی نیابت و وزارت کے لیے ایسے ہی اشخاص کو منتخب فرماتا ہے جو ظاہراً اور باطناً ہر طرح سے خدا کے مطیع و فرمانبردار ہوں، پورے مخلص اور جانثار ہوں، یہ ناممکن و قطعاً محال ہے کہ وہ علیم و خبیر غلطی سے کسی ایسے شخص کو اپنی خلافت کے لیے منتخب کرے جو بظاہر تو اس کا مطیع و فرمانبردار ہو لیکن باطناً اس کا نافرمان ہو اور فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کوتاہیاں تک کرجانے والا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں اور کبھی بھی مرتبہ نبوت اور منصب رسالت سے علیحدہ نہیں کیے جاتے بخلاف سلاطین عالم کے کہ ان کے انتخاب میں بسا اوقات غلطی ہوجاتی ہے اور وہ غیر مطیع کو مطیع سمجھ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مرتبہ سلاطین کو اس کی ضرورت پیش آتی ہے کہ وزراء کو منصب وزارت سے علیحدہ کیا جائے۔
(از عقائد اسلام )
مسئلہ عصمت انبیاء علیہم السلام پر بحث کرنے سے پہلے ”عصمت انبیاء“ کا معنی معلوم کرلینا ضروری ہے۔
عصمت انبیاء کا معنی:
”عصمت“ کا معنی بعض حضرات نے اگرچہ ”عدم قدرت علی المعصیہ“ سے کیا ہے لیکن یہ رائے مرجوح ہے کیونکہ اس میں انبیاء علیہم السلام کا کمال ظاہر نہیں ہوتا۔ اس لیے جمہور علماء اہل السنۃ کے نزدیک عصمت کے مختار معنی یہ ہیں کہ عصمت ایک ایسا خلق ہے جو معصوم کو باوجود قدرت علی المعصیۃ کے معصیت سے روکتا ہے اور معصوم ترک معصیۃ میں مجبور نہیں ہوتا۔ چنانچہ حضرت مولانا دوست محمد کابلی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”تحفۃ الاخلاء فی عصمۃ الانبیاء “میں تحریر فرماتے ہیں:
واختلف فی معنی العصمۃ قال بعضہم انہا عبارہ عن عدم قدرۃ المعصیۃ والمختار عند الجمہور انہا عبارۃ عن خلق مانع من ارتکاب المعصیۃ غیر ملج حتی لا یکون المعصوم مضطرا فی ترک المعصیۃ وفعل الواجب.
(ص15)
ترجمہ: عصمت کے معنی میں اختلاف ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ عصمت عدم قدرت علی المعصیۃ کو کہتے ہیں اور جمہور کے نزدیک مختار معنی یہ ہے کہ عصمت ایک ایسی خصلت کا نام ہے جو معصوم کو ارتکاب معصیۃ سے بلا کسی جبر و اکراہ کے منع کرتی ہے حتی کہ معصوم ترک معصیۃ اور فعل واجب میں مجبور نہیں ہوتا۔
حضرت مولانا شاہ محمد اسماعیل شہید رحمہ اللہ عصمت کا معنی یوں بیان کرتے ہیں:
”عصمت“ کے معنی یہ ہیں کہ ان کے اقوال ہوں یا افعال، عبادات ہوں یا عادات، معاملات و مقامات ہوں یا اخلاق و احوال، ان سب کو اللہ اپنی قدرت کاملہ سے نفس و شیطان کی دخل اندازی سے محفوظ فرماتا ہے خواہ وہ خطاء و نسیان کی صورت سے ہی کیوں نہ ہو اور حفاظت و نگرانی کرنے والے اپنے فرشتے ان کے ساتھ رکھتا ہے تاکہ غبار بشریت بھی ان کے دامن پاک پر ذرا سا دھبہ نہ لگا سکے۔
مطلب یہ ہوا کہ حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی ہمہ وقتی حفاظت و نگرانی کا نام ”عصمت“ ہے۔
فائدہ جلیلہ:
”عصمت“ اور ”حفاظت“ کے درمیان فرق
اس مقام پر اس فرق کو ذکر کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے اور اس سے ہمارا مقصد صحابہ کرام علیہم الرضوان سے متعلق ان حضرات کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کا ازالہ ہے جو عصمت اور حفاظت کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے اور حفاظت کے معنی میں غور نہ کرنے کی وجہ سے صحابہ کرام کی محفوظیت میں ایک حد تک قصداً پیچیدگیاں پیدا کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
عارف باللہ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ عصمت و حفاظت میں فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
انبیاء معصوم اور اولیاء محفوظ ہیں۔ معصوم وہ ہے کہ اس سے باوجود استعدادِ گناہ کے گناہ سرزد ہونا محال ہو اور محفوظ وہ ہے کہ گناہ تو اس سے ممکن ہو گرچہ واقع نہ ہو۔ پہلی صورت مستلزم محال ہے دوسری ممکن غیر واقع۔
(منقول از ہفت روزہ خدام الدین لاہور بابت 22ذو الحجہ 1392ھ 26جنوری 1973ء )
حضرت مولانا محمد ادریس کاندہلوی نے شیخ اکبر رحمہ اللہ کے حوالہ سے ”عصمت و حفاظت کا فرق “خوب واضح کر کے بیان فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں:
حضرات انبیاء کرام ہر وقت بارگاہِ خداوندی میں مقیم رہتے ہیں، کسی وقت حق تعالیٰ شانہ کی عظمت اور جلال ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت انبیاء معاصی سے معصوم ہوتے ہیں اور اولیاء اللہ بارگاہ خداوندی میں آتے جاتے رہتے ہیں مگر مقیم نہیں، اس لیے اولیاء معاصی سے محفوظ تو ہوتے ہیں مگر معصوم نہیں ہوتے اور ”عصمت“ اور ”حفاظت“ میں یہ فرق ہے کہ اولیاءبسا اوقات مباحات اور جائز امور کو محض حظ نفس اور طبعی میلان اور خواہش کے لیے کر گزرتے ہیں مگر حضرات انبیاء کسی وقت بھی طبعی میلان اور حظ نفس کے لیے مباح اور جائز امر کا ارتکاب نہیں فرماتے۔ ہاں جب کسی شئے کی عنداللہ اباحت اور اس کا خدا کے نزدیک جائز ہونا بتلانا مقصود ہوتا ہے تب اس مباح کو استعمال فرماتے ہیں تاکہ امت کو نبی کے کرنے سے اس فعل سے اس کا مباح اور جائز ہونا معلوم ہو جائے۔ ( تفسیر معارف القران ج1ص146)
عبارت واضح ہے مزید تشریح کی ضرورت نہیں اس سے بھی زیادہ آسان اور عام فہم تعبیر اس کی یہ بھی ہوسکتی ہے کہ معصوم وہ ہے جس سے برائی کو دور رکھا جاتا ہے اور محفوظ وہ ہے جس کو برائی سے دور رکھا جاتا ہے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات سے اس کی تائید ہوتی ہے مثلاً معصوم کے سلسلہ فرمایا :
”لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ
“ اور محفوظین کے بارے میں فرمایا: ”
وَكُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا“۔
حاصل ان تمام تعبیرات کا یہی ہے کہ معصوم و محفوظ جس طرح عدم صدور گناہ میں دونوں برابر ہیں اس طرح عصمت و حفاظت دونوں کے وہبی ہونے میں بھی کوئی فرق نہیں البتہ دلیل اور طریق حصول میں دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں یعنی یہ کہ عصمت پر دلیل عقلی ہوتی ہے اور حفاظت پر دلیل عقلی نہیں ہوتی۔ نیز یہ کہ عصمت جس طرح بذات خود وہبی ہے بالکل اسی طرح اس کا حصول بھی بالکلیہ وہبی ہے، کسی قسم کے کسب پر موقوف نہیں بخلاف حفاظت کے کہ یہ بذاتِ خود تو اگر چہ وہبی ہے لیکن اس کا حصول عبادت و ریاضتِ روحانی محنت و مشقت اور کسی کامل کی مکمل روحانی تربیت پر موقوف ہے۔
اور ظاہر بات ہے کہ تربیت چونکہ سالک کی ریاضت و مشقت ہے اس لیے اونچ نیچ بھی ممکن ہے لیکن مقام محفوظیت پر سرفراز ہوچکنے کے بعد دوران تربیت کی ان خامیوں کو کسی محفوظ کی سیرت و کردار، عدالت و ثقاہت، دیانت و امانت اور صداقت و تزکیہ نفس پر بحث کا دارو مدار قطعاً نہیں بنایا جاسکتا، اس کو نہ عقل باور کرتی ہے اور نہ ہی اس پر کوئی معتبر نقل پیش کی جاسکتی ہے بلکہ اس کا تمام تر انحصار تو اس سند پر ہوا کرتا ہے جو تکمیل تربیت کے بعد ممتحن نے امتحان لے کر اس کو عطاء کیا ہے۔ اس سے یہ بات خود بخود ثابت ہوگئی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو معصوم تو اگرچہ نہیں لیکن محفوظ یقیناً ہیں، کی عدالت و صداقت اور دیانت و امانت کو ان کی تربیت کے دوران ہونے والی اونچ نیچ کی روشنی میں نہیں بلکہ احکم الحاکمین جیسے ممتحن کی طرف سے 23 سالہ سخت ترین امتحان نہیں بلکہ امتحانات کے بعد اعلیٰ ترین کا میابیوں کی ایک نہیں بلکہ
”أُولٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ“، ”أُولٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا“، ”أُولٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ
“ جیسی متعدد اسناد کی روشنی میں جانچنا پرکھنا ہوگا۔ لہذا صحابہ کرام پر زبان طعن دراز کرنے والوں کا یہ کہنا کہ صحابہ کرام کوئی معصوم ہیں؟ بالکل لغو اور بیہودہ سوال ہے۔ مانا کہ معصوم نہیں لیکن محفوظ تو ہیں اور پھر ان کے بارے میں معصوم کی صرف ایک شہادت نہیں بلکہ متعدد شہادات موجود ہیں، پھر ان نفوس قدسیہ پر زبان طعن دراز کرنے کی کیا گنجائش رہی؟
خلاصہ کلام یہ ہے کہ انبیاء و رسل معصوم ہیں اور عصمت ان کی ایسی مخصوص صفت ہے کہ کوئی فرد بشر ان کی اس صفت میں ان کے ساتھ شریک نہیں۔
عصمت انبیاء علیہم السلام پر دلائل
از قرآن مجید:
دلیل نمبر 1
وَأَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْا أَنَّمَا عَلٰى رَسُوْلِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِيْنُ
[المائدہ: 92]
ترجمہ:اور اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کرو اور (نافرمانی سے ) بچتے رہو اور اگر تم ( اس حکم سے) منہ موڑو گے تو جان رکھو کہ ہمارے رسول پر صرف یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صاف صاف طریقے سے ( اللہ کے حکم کی) تبلیغ کر ے۔
دلیل نمبر 2
قُلْ أَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ الآیۃ
[النور: 54]
ترجمہ: (ان سے) فرما دیجئے کہ اللہ کا حکم مانو اور اس کے رسول کے فرمانبردار بنو۔
دلیل نمبر3
يَآ أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا أَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ
[النساء: 59]
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو۔
ف:
ان آیات میں اللہ رب العزت نے اپنی اطاعت کے ساتھ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کا بھی حکم دیاہے۔ اگر رسولِ خدا علیہ السلام معصوم نہ ہوتے تو اللہ ان کی اطاعت کا کبھی حکم نہ دیتا۔
دلیل نمبر 4
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا
[النساء: 80]
ترجمہ: جو شخص رسول کی اطاعت کرے اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جو (اطاعت سے) منہ پھیرے تو (اے پیغمبر!) ہم نے آپ کو ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا (کہ آپ کو ان کے عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے)۔
دلیل نمبر 5
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ
[النساء: 64]
ترجمہ: اور ہم نے کوئی رسول اس کے سوا کسی اور مقصد کے لیے نہیں بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔
دلیل نمبر 6
وَمَنْ يُّطِعِ اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا
[الاحزاب: 71]
ترجمہ: جوشخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اس نے وہ کامیابی حاصل کر لی جوزبردست کامیابی ہے۔
دلیل نمبر 7
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
[الانفال: 1]
ترجمہ: اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم واقعی مؤمن ہو۔
دلیل نمبر 8
وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا
[النور: 54]
ترجمہ: اگر تم ان کی فرمانبرداری کرو گے تو ہدایت پا جاؤگے۔
ف: ان آیات سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرنا علامتِ ایمان اور فلاح وکامیابی کا سبب ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب مطاع معصوم ہو ورنہ ایمان کامل ملے گا نہ فلاح و کامیابی۔
دلیل نمبر9
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى . إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوْحٰى
[النجم 3،4]
ترجمہ: اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے، یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔
دلیل نمبر 10
إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوْحٰى إِلَيَّ
[الاحقاف : 9]
ترجمہ:میں کسی اور چیز کی نہیں صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھے بھیجی جاتی ہے۔
دلیل نمبر 11
وَمَآ آتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا
[الحشر:7]
ترجمہ: رسول تمہیں جو کچھ دے وہ لے لو اورجس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔
دلیل نمبر 12
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
[الاحزاب: 21]
ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
دلیل نمبر 13
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللَّهَ فَاتَّبِعُوْنِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ
[آل عمران: 31]
ترجمہ: (اے پیغمبر لوگوں سے) فرمادیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔
ف: ان آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور ان کے حکم اور منع کرنے کو وحی کا پابند بتلایا گیا ہے۔ تو ایسا شخص جو اپنے بولنے میں وحی کا پابند ہے وہ اللہ کا نافرمان نہیں ہو سکتا۔
دلیل نمبر 14
وَجِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰؤُلَآءِ شَهِيْدًا
[النساء: 41]
ترجمہ: اور ہم آپ کو ان لوگوں کے خلاف گواہ کے طور پر پیش کریں گے۔
ف: اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام معصوم ہیں کیونکہ فاسق کی گواہی قابلِ قبول نہیں۔
دلیل نمبر 15
أَتَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ
[البقرۃ: 44]
ترجمہ: کیا تم (دوسرے) لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟
ف: حضرات انبیاء علیہم السلام کا کام قوم کو نیکی کا درس دینا ہے۔ تو اگر خود نافرمان ہو جائیں معاذ اللہ تو پھر مقصدِ رسالت کو مفقود کرکے ”لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ“ کا مصداق بن جائیں گے اور یہ محال ہے۔ ثابت ہوا کہ انبیاء علیہم السلام معصوم ہیں۔
احادیث مبارکہ
1: عن عبد الله بن عمرو قال كنت أكتب كل شىء أسمعه من رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أريد حفظه فنهتنى قريش وقالوا أتكتب كل شىء تسمعه ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- بشر يتكلم فى الغضب والرضا فأمسكت عن الكتاب فذكرت ذلك لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- فأومأ بأصبعه إلى فيه فقال « اكتب فوالذى نفسى بيده ما يخرج منه إلا حق ».
[سنن ابی داؤد ج2ص514، مسند احمد ج2ص162 رقم الحدیث 6510]
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بات سنتا تھااس کو لکھ لیا کرتا تھا تاکہ اسے محفوظ کروں۔ قریش نے مجھے اس بات سے روکا اور کہنے لگے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سنی ہر بات لکھ لیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تو انسان ہیں، خوشی اور غمی میں کلام کرتے ہیں۔ تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا۔ میں نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ علیہ السلام نے اپنی انگلی کا اشارہ اپنے منہ کی طرف کرتے ہوئے فرمایا : تم لکھا کرو! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق کے کچھ نہیں نکلتا۔
ف: سب سے زیادہ گناہ عموماً زبان سے صادر ہوتے ہیں۔ تو جس ذات کی زبان ہی قبضہ خدا میں ہے تو اس شخصیت سے گناہ کا خیال کیونکر کیا جا سکتاہے؟!
2: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ۔۔۔ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
[صحیح البخاری: ج1ص21]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی نےجان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولاتو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے۔
ف:جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب جھوٹ کی نسبت کو گناہ قرار دے رہے ہیں تو خود اس گناہ کے مرتکب کیسے ہو سکتے ہیں؟
3: أخبرنا عبد الرزاق عن معمر عن الزهري أو قتادة - أو كلاهما - أن يهوديا جاء يتقاضى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال له النبي صلى الله عليه و سلم قد قضيتك فقال اليهودي بينتك قال فجاء خزيمة بن ثابت الأنصاري فقال أنا أشهد أنه قد قضاك فقال النبي صلى الله عليه و سلم وما يدريك قال إني أصدقك بأعظم من ذلك أصدقك بخبر السماء فأجاز رسول الله صلى الله عليه و سلم شهادته بشهادة رجلين
[مصنف عبد الرزاق: ج11ص236]
ف:اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم معصوم نہ ہوتے تو اتنے بڑے دعویٰ کی حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کبھی بھی تصدیق نہ کرتے۔
4: عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : لاَ طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ.
[مصنف ابن ابی شیبۃ: ج 11ص546]
ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مخلوق کی ایسی اطاعت جائز نہیں جس میں اللہ کی نافرمانی ہو۔
5۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ
[صحیح البخاری: ج2ص1057، صحیح مسلم ج2ص125]
ترجمہ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان آدمی پر (اپنے امام یا بادشاہِ اسلام کی)اطاعت لازم ہے خوشی یا نا خوشی ہر حال میں جب تک اسے گناہ کا حکم نہ دیا جائے، پھر جب (امام یا بادشاہِ اسلام کی طرف سے) اسے گناہ کا حکم دیا جائے تو نہ سنے نہ اطاعت کرے۔
6۔ عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من أطاعني فقد أطاع الله ومن يعصني فقد عصى الله
[صحیح مسلم ج2ص124]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔
ف: ان احادیث سےمعلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت مطلقہ ہر مسلما ن پر واجب ہے، اسی لئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اطاعت ونافرمانی کو اللہ کی اطاعت ونافرمانی بتلایا اور مخلوق کی ایسی اطاعت سے روکا جس سے خالق کی نافرمانی ہوتی ہو۔یہ آپ علیہ السلام کے معصوم ہونے کی واضح دلیل ہے۔
اجماع اُمّت اور اقوال ائمہ کی روشنی میں:
1: امام اعظم امام ابو حنیفہ (م150ھ) فرماتے ہیں:
الانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کلھم منزھون عن الصغائر والکبائر والکفر والقبائح.
[الفقہ الاکبر ص2،العقیدۃ الحنفیہ ص203]
ترجمہ: سارے انبیاء علیہم السلام صغیرہ ،کبیرہ گناہوں اور کفر اور بے ہودہ کاموں سے پاک ہیں۔
2: قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ (م544ھ) فرماتے ہیں:
اَلْاِجْمَاعُ عَلَی الْعِصْمَۃِ عَنِ الْکَبَائِرِ بِلاَ قَیْدٍ عَمَدًا وَسَھْوًا.
النبراس شرح شرح العقائد: ص283)
ترجمہ: انبیاء علیہم السلام کبیرہ گناہوں سے پاک ہوتے ہیں ، نہ عمداًکرتے ہیں نہ سہواً‘اسی پراجماع ہے۔
3: امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد الانصا ری القرطبی (م671ھ) لکھتے ہیں:
الانبیاء معصومون عن الخطاء والغلط فی اجتھادھم.
[قرطبی ج2ص2058]
ترجمہ: انبیاء اپنے اجتہاد میں خطاء اور غلطی سے معصوم ہوتے ہیں۔
4: ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ (م1014ھ) بعض محققین سے نقل فرماتے ہیں:
اِجْمَاعُ الصَّحَابَۃِرضی اللہ عنہم عَلَی التَّاِسِّیْ بِہٖ صلی اللہ علیہ و سلم فِیْ اَقْوَالِہٖ وَاَفْعَالِہٖ وَسَائِرِ اَحْوَالِہٖ حَتّٰی فِیْ کُلِّ حَالَا تِہٖ مِنْ غَیْرِبَحْثٍ وَلَا تَفَکُّرٍبَلْ بِمُجَرَّدِ عِلْمِھِمْ اَوْظَنِّھِمْ بِصُدُوْرِذٰلِکَ عَنْہُ دَلِیْلٌ قَاطِعٌ عَلٰی اِجْمَاعِھِمْ عِلٰی عِصْمَتِہٖ وَتَنَزُّھِہٖ عَنْ اَنْ یَّجْرِیَ عَلٰی ظَاہِرِہٖ اَوْبَاطِنِہٖ شَیْ ء ٌلَایُتَاَ سّٰی بِہٖ فِیْہٖ مِمَّالَمْ یَقُمْ دَلِیْلٌ عَلَی اخْتِصَاصِہٖ.
(المرقات شرح المشکوۃ: ج1ص220)
ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاآپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اقول،افعال اورتمام احوال میں بغیرکسی بحث وتفکر کے محض یہ جانتے ہوئے کہ یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیاہے آپ کی اتباع پرمتفق ہوجاناواضح دلیل ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا آپ کی عصمت پر اجماع ہے اوراس پربھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ظاہراًوباطناًایسی کوئی چیز صادرنہیں ہوسکتی جس کی اتباع نہ کی جا سکتی ہوجب تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خصوصیت پر دلیل قائم نہ ہوجائے۔
5: مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ (م1396ھ) اپنی تفسیر ”معارف القرآن“ میں فرماتے ہیں:
’’تحقیق یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی عصمت تمام گناہوں سے عقلاً اور نقلاً ثابت ہے۔ ائمہ اربعہ اور جمہور امت کا اس پر اتفاق ہے کہ انبیاء علیہم السلام تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے محفوظ ہوتے ہیں اور بعض لوگوں نے جو یہ کہا ہے کہ صغیرہ گناہ ان سے بھی سرزد ہو سکتے ہیں‘ جمہور امت کے نزدیک صحیح نہیں۔ ‘‘
(معارف القرآن: ج1ص195)
6: علامہ عبد العزیز پرہاڑوی رحمہ اللہ قاضی عیاض مالکی اور محقق فقہاء و متکلمین سے نقل کرتے ہیں:
قال القاضی عیاض ذھب طائفۃ من محقق الفقہاء والمتکلمین الی العصمۃ عن الصغائر کالعصمۃ فی الکبائر.
[النبراس: ص283]
ترجمہ: قاضی عیاض مالکی اور محقق فقہاء و متکلمین کا موقف یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام جس طرح کبیرہ گناہوں سے معصوم ہیں اسی طرح صغیرہ گناہوں سے بھی معصوم ہیں۔
عصمت انبیاء علیہم السلام پر عقلی دلائل
[1]: انبیاء علیہم السلام دنیا میں اللہ کے پیغام رساں ہیں، اگر خود ہی اللہ کی نافرمانی کریں تو پھر ان کی بات پر کیا اعتماد کیا جائے گا ؟
[المسائل والدلائل: ص40]
[2]: حضرات انبیاء علیہم السلام باجماع امت فرشتوں سے افضل ہیں جب فرشتے اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے تو افضل کیو نکر نا فرمان ہو سکتا ہے؟
[التفسیرالکبیر: ج3ص9]
[3]: حضرات انبیاء علیہم السلام اطاعت خداکروانے میں انسانوں کے لئے مقتدا ہیں تو اگر خود خدا کے نافرمان ہوں تو لوگو ں کو طاعت کا کیا درس دیں گے؟
[4]: انسان جسم اور روح سے بنا ہے، جسم مٹی سے بنا ہے تو اس کی غذا اور دوا بھی مٹی سے ہی ہے اور روح آسمان سے آتی ہے تو اس کی غذا بھی آسمان سے آتی ہے۔ جسم بیمار ہو تو اس کو طبیب چاہئے اور جسم کے طبیب کو ڈاکٹر کہتے ہیں، روح بیمار ہوجاتے ہیں تو اس کو بھی طبیب چاہئے اور اسکے طبیب کو نبی رسول کہتے ہیں اور یہ ضابطہ عقلی ہے کہ طبیب جس مرض کا معالج ہو خود اس کا اس مرض میں مبتلا ہو نا یہ اس طبیب کا عیب ہے۔ روح کی بیماری گناہ ہے تو خود روح کے طبیب کا گناہ میں مبتلا ہونا اس کا عیب ہے۔ اس لیے طبیب روحانی کا اس عیب سے پاک ہونا ضروری ہے۔
عصمتِ انبیاء علیہم السلام کے متعلق مودودی صاحب کے نظریات
مودودی صاحب کا عمومی موقف:
1: عصمت دراصل انبیاء کے لوازمات ذات سےنہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو منصب نبوت کی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا کرنے کے لیے مصلحتاً خطاؤں اور لغزشوں سے محفوظ فرمایا ہے ورنہ اگر اللہ کی حفاظت تھوڑی دیر کے لیے بھی ان سے منفک ہوجائے جس طرح عام انسانوں سے بھول چوک اور غلطی ہوتی ہے اسی طرح انبیاء سے بھی ہوسکتی ہے، اور یہ ایک لطیف نکتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بالارادہ ہر نبی سے کسی نہ کسی وقت اپنی حفاظت اٹھا کر ایک دو لغزشیں سرزد ہوجانے دی ہیں، تاکہ لوگ انبیاء کو خدا نہ سمجھ لیں اور جان لیں کہ یہ بشر ہیں، خدا نہیں ہیں۔
(تفہیمات ج2ص56، 57اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ لاہور اشاعت اکتوبر1967ء )
2: اور تو اور بسا اوقات پیغمبروں تک کو نفس شریر کی رہزنی کے خطرے پیش آگئے ہیں۔ چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کو ایک موقعہ پر تنبیہ کی گئی ہے کہ ”وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللَّهِ“( سورۃ ص)، ہوائے نفس کی پیروی نہ کرنا ورنہ یہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گا۔
(تفہیمات ج1ص193 اشاعت ستمبر 2013ء اسلامک پبلیکیشنز لاہور)
3: انبیاء رائے اور فیصلے کی غلطی بھی کرتے تھے، بیمار بھی ہوتے تھے، آزمائش میں بھی ڈالے جاتے تھے حتیٰ کہ قصور بھی ان سے ہو جاتے تھے اور انہیں سزا تک دی جاتی تھی۔
[ترجمان القرآن ص158 مئی 1955ء]
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں
1: حضور علیہ السلام نے دجال کے بارے میں جو خبردی اس کی بابت مودودی صاحب لکھتے ہیں:
یہ کانا دجال وغیرہ تو افسانے ہیں، جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔
[ترجمان القرآن ص186 رمضان وشوال1365ھ، رسائل ومسائل ص53 حصّہ اول طبع دوم]
2: حضور علیہ السلام کو اپنے زمانہ میں یہ اندیشہ تھا کہ شاید دجال حضور علیہ السلام کے زمانہ ہی میں ظاہر ہو جائے یا کسی قریب زمانہ میں ظاہر ہوجائے لیکن کیا ساڑھے تیرہ سو برس نے یہ ثابت نہیں کردیا کہ حضور کا یہ اندیشہ صحیح نہ تھا۔
[ترجمان القرآن ص31 ربیع الاوّل 1365ھ]
نوٹ: حضور وحی الہی سے بولتے تھے تو یہ اندیشہ غلط کیسے ہوا؟ مزید یہ بات بھی واضح ہے کہ دجال کے متعلق پیشنگوئی والی احادیث متواتر ومشہور ہیں، فقط بخاری مسلم میں 25 بار یہ حدیث آئی ہے۔
3: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فوق البشر ہیں نہ بشری کمزوریوں سے بالاتر ہیں۔
[ترجمان القرآن اپریل 1976ء ، خطبات:ص8]
4: لیکن وعظ وتلقین میں ناکامی کے بعد داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی۔
[الجہاد فی الاسلام :ص174]
حالانکہ رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم کو عیوب سے مبرا بنایا گیا ہے بشری کمزوریاں اور خامیاں کیسے گوارا کی جائیں؟ مزید جب خدا بھی کہتا ہے کہ میرا رسول غالب ہوگا تو اسے ناکام کہنا کہاں تک درست ہوگا؟
حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں
1: حضرت داؤد علیہ السلام کے فعل میں خواہش نفسی کا کچھ دخل تھا، اس کا حاکمانہ اقتدار کے نا مناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا اور وہ کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا۔
[تعلیم القرآن ص327 ج4طبع اوّل]
2: اور تو اور بسا اوقات پیغمبروں تک کو اس نفسی شریر کی رہزنی کے خطرے پیش آئے ہیں۔ چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کو ایک موقعہ پر تنبیہ کی گئی۔
[تفہیمات ج1ص193 اشاعت ستمبر 2013ء اسلامک پبلیکیشنز لاہور]
قرآن تو انہیں کہتا کہ ”نفس و ہویٰ کی پیروی نہ کرو“ مگر بقول مودودی صاحب وہ کرتے تھے تو سوال یہ ہے کہ پھر وہ راہ راست پر کیسے رہے؟
3: حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے عہد کی اسرائیلی سوسائٹی کے عام رواج سے متاثر ہو کر”اور یا“سے طلاق کی درخواست کی۔
[تفہیمات ص42 حصّہ دوم طبع دوم ]
اسرائیلی روایت کا سہارا لے کر ایک نبی معصوم کی ذات پر الزام اہل حق کی سوچ نہیں۔نیز نبی اصلاحِ معاشرہ کے لئے مبعوث ہوتا ہے نہ کہ خود اپنی سوسائٹی کے عام رواج سے متاثر ہونے کے لیے۔
حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں
بس ایک فوری جذبے نے جو شیطانی تحریص کے زیر اثر ابھر آیا تھا ان پر ذہول طاری کردیا اور ضبطِ نفس کی گرفت ڈھیلی ہوتے ہی وہ طاعت کے مقام بلند سے معصیت کی پستی میں جا گرے۔
[تفہیم القرآن ص133 ج3]
یہ سب مودودی صاحب کی خوش فہمی ہے کیونکہ قرآن پاک نے ”بھول“ کہہ کر مودودی صاحب کی ساری بات کو رد کردیا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں
بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ واشرف انسان بھی تھوڑی دیر کیلئے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہوجاتا ہے... لیکن جب اللہ تعالیٰ انہیں متنبہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اسکو محض اس لیے اپنا سمجھنا کہ وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محض ایک جاہلیت کا جذبہ ہے۔ تو وہ اپنے دل سے بے پرواہ ہو کر اس طرز ِ فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضا ہے۔
[تفہیم القرآن ج2ص344 طبع سوم]
مودودی صاحب نے یہ غلط کہا کیونکہ ان کا بیٹے کی خاطر دعا کرنا خدا کے فرمان کی وجہ سے تھا جو ان سے کہا گیا تھا کہ تمہارے اہل کو بچائیں گے اس لیے دعا کو جاہلیت کا جذبہ کہنا بدترین جرم ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں
حضرت یوسف علیہ السلام کے ارشاد مبارک "اِجْعَلْنِي عَلٰى خَزَائِنِ الْأَرْضِ"کے بارے مودودی صاحب نے لکھا ہے کہ یہ محض وزیر مالیات کےمنصب کا مطالبہ نہیں تھا جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ یہ ڈکٹیٹر شپ کا مطالبہ تھا اور اس کے نتیجے میں سیدنا یوسف علیہ السلام کو جو پوزیشن حاصل ہوئی وہ قریب قریب وہی پوزیشن تھی جو ا س وقت اٹلی میں مسولینی کو حاصل ہے۔
[تفہیمات ص122 حصّہ دوم طبع پنجم 1970ء]
سیدنا یوسف علیہ السلام نے دیانت و علم کی بنیاد پر یہ بات کی کہ مجھے علم و دیانت میں سب سے فوقیت ہے اس لیے نظام کو بہتر کرنے کے لیے مجھے وزیر خزانہ بنا دیا جائے۔ مودودی صاحب کا ایک غیر مسلم کے ساتھ نبی معصوم کا موازنہ کرنا ظلم و جبر کی نسبت معصوم نبی کی طرف کرنے کے مترادف ہے۔
حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں
حضرت یونس علیہ السلام سے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کچھ کوتاہیاں ہوگئیں تھیں غالباً انہوں نے بے صبر ہو کر قبل از وقت اپنا مستقر بھی چھوڑ دیا تھا۔
[تفہیم القرآن ج2ص312،313. طبع سوم ۱۹۶۴ء]
ایک نبی کو بے صبرا کہنا کیونکر روا ہوگا؟رہا آپ کا تشریف لے جانا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو خدا کی ذات پر یہ امید تھی کہ خدا مجھے اس پر داروگیر نہیں کرے گا۔ لہذا حضرت یونس علیہ السلام کے اس عمل کو بے صبری اور کوتاہی کہنا کسی طرح درست نہیں۔
حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے بارے میں
1: موسیٰ علیہ السلام کی مثال اس جلد باز فاتح کی سی ہے جو اپنے اقتدار کا استحکام کیے بغیرمارچ کرتا ہوا چلاجائے اور پیچھے جنگل کی آگ کی طرح مفتوحہ علاقہ میں بغاوت پھیل جائے۔
[ترجمان القرآن ص5 ستمبر 1946ء]
کاش مودودی صاحب اسلاف ِ امت کو دیکھ لیتے کہ انہوں نے کیا تعبیر اختیار فرمائی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام محبوب کی ملاقات کے لیے جلدی چلے تھے، وہ بات نہ تھی جو مودودی صاحب نے سوچی۔
2: پھر اس اسرائیلی چرواہے کو بھی دیکھئے جس سے وادی مقدس طوٰی میں بلاکر باتیں کی گئیں وہ بھی عام چرواہوں کی طرح نہ تھا۔
[رسائل ومسائل ص31 حصّہ اول طبع دوم]
عامیانہ انداز جو مودودی صاحب نے اختیار کیا انتہائی غلط ہے۔ کیا اللہ کے نبی کی تعظیم و تکریم کے لیے الفاظ بولنا جرم ہے؟ کیا ان کے پاس کوئی اور الفاظ کا ذخیرہ نہ تھا؟
3: نبی ہونے سے پہلے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی ایک بہت بڑا گناہ ہو گیا تھا، انہوں نے ایک انسان کو قتل کردیا۔
[ایضاً ص31 حصّہ اول]
نوٹ: یہ قتل عمداً نہ تھا بلکہ بلا ارادہ تھا۔ پھر وہ حربی کافر تھا جس کا قتل جائز تھا۔
مودودیت اکابر علماء کی نظر میں
1 : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
” میرا دل اس تحریک کو قبول نہیں کرتا۔ “
( روزنامہ احسان لاہور ، 11 ستمبر 1948)
2: شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اب تک ہم نے مودودی صاحب اور ان کی جماعت؛ نام نہاد جماعت اسلامی کی اصولی غلطیوں کا ذکر کیا ہے جو انتہائی درجہ میں گمراہی ہے۔ اب ہم ان کی قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کی کھلی ہوئی مخالفتوں کا ذکر کریں گے جن سے صاف ظاہر ہو جائے گا کہ مودودی صاحب کا کتاب و سنت کا بار بار ذکر فرمانا محض ڈھونگ ہے، وہ نہ کتاب کو مانتے ہیں اور نہ سنت کو مانتے ہیں بلکہ وہ خلاف سلف صالحین ایک نیا مذہب بنا رہے ہیں اور اسی پر لوگوں کو چلا کر دوزخ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔
3 : شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی رحمہ اللہ:
( مودودی صاحب نے 1948 ء میں جہاد کشمیر کے متعلق جب یہ کہا کہ پاکستانی مسلمانوں کے لئے رضا کارانہ طور پر بھی اس میں حصہ لینا جائز نہیں ہے ) تو علامہ عثمانی نے ان کو تحریر فرمایا :
بعض احباب نے مجھے ترجمان القرآن کا وہ پرچہ دکھایا جس میں آپ نے کسی شخص کے خط کا جواب دیتے ہوئے جنگ کشمیر کے متعلق اپنے خیالات ، شرعی حیثیت سے ظاہر فرمائے ہیں۔ جنگ کشمیر کے اس نازک مرحلے پر آپ کے قلم سے یہ تحریر دیکھ کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور شدید قلق بھی ہوا کیو نکہ میرے نزدیک اس معاملہ میں آپ کی جانب سے ایسی مہلک لغزش ہوئی ہے جس سے مسلمانوں کو عظیم نقصان کا احتمال ہے۔
(اشرف السوانح: ج4ص24 )
4 : شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ:
قطب زمان حضرت لاہوری رحمہ اللہ نے ایک کتاب ”حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب“ تحریر فرمائی تھی۔ اس میں ارشاد فرمایا : برادران اسلام !مودودی صاحب کی تحریک کو بہ نظر غور دیکھا جائے تو ان کی کتابوں سے جو چیز ثابت ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ مودودی صاحب ایک نیا اسلام مسلمانوں کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں اور نعوذ باللہ من ذالک نیا اسلام لوگ تب ہی قبول کریں گے جب پرانے اسلام کی درودیوار منہدم کر کے دکھا دیئے جائیں اور مسلمانوں کو اس امر کا یقین دلادیا جائے کہ ساڑھے تیرہ سو سال کا اسلام جو تم لئے پھرتے ہو وہ ناقابل روایت اور ناقابل عمل ہوگیا ہے۔ اس لئے اس نئے اسلام کو مانو اسی پر عمل کرو جو جو مودودی صاحب پیش فرمارہے ہیں۔
اے اللہ !میرے دل کی دعائیں قبول فرما! مودودی صاحب کو ہدایت فرما اور ان کے متبعین کو بھی اس جدید اسلام سے توبہ کی توفیق عطاء فرما۔ آمین یا الہ العالمین۔
(حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب ص:4)
خدا جانے مودودی صاحب کو کیا ہو گیا ہے؟! اللہ تعالیٰ کے ہر بندے کی توہین اپنی عادت بنا لی ہے۔ اسی لیے تو میں کہتا ہوں اور میرے دل میں اس بات کا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ مودودی صاحب سے ناراض ہے،اسی لئے تو [مودودی صاحب] اللہ کے ہر مقبول بندے کی توہین بڑی دلیری سے کرتے ہیں۔
(حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب ص:43)
5: حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب (مہتمم دارالعلوم دیوبند )
آپ رحمہ اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معیار حق ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں :
”اندریں صورت مودودی صاحب کا دستور جماعت کی بنیادی دفعہ میں عموم و اطلاق کے ساتھ یہ دعویٰ کرنا کہ رسول خدا کے سوا کوئی معیار حق اور تنقید سے بالا تر نہیں ہے جس میں صحابہ سب کے سب شامل ہوتے ہیں اور پھر ان پر جرح و تنقید کا عملی پروہ بھی ڈال دینا حدیث رسول کا محض معارضہ ہی نہیں بلکہ ایک حد تک خود اپنے معیار ہونے کا ادعاء ہے جس پر صحابہ تک کو پرکھنے کی جرات کر لی گئی۔ گویا جس اصول کو شد ومد سے تحریک کی بنیاد قرار دیا گیا تھا اپنے ہی بارے میں اسے ہی سب سے پہلے توڑ دیا گیا اور سلف وخلف کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا خود معیار حق بن بیٹھنے کی کوشش کی جانے لگی“
(مودودی ستور اور عقائد کی حقیقت :ص18)
6 : مخدوم العلماء حضرت مولانا خیر محمد صاحب جالندھری رحمہ اللہ خلیفہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ و مہتمم خیر المدارس ملتان:
مودودی صاحب اور اس کے متبعین کے بعض مسائل خلاف اہل سنت والجماعت کے ہیں، سلف صالحین کی اتباع کے منکر ہیں ، لہذا بندہ ان کو ملحد سمجھتا ہے۔
7 : حضرت مولانا شمس الحق افغانی (سابق وزیر معارف قلات)
”مودودی صاحب کی تحریرات پر نگاہ ڈالی ، موصوف کے متعلق احقر کا تاثر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اسلام سے مطمئن نہیں اس لئے اس کو اپنے ڈھب پر لانا چاہتے ہیں جس کے لئے اصلی اسلام میں ترمیم نا گزیر ہے ، لیکن اس کا چھپانا بھی ضروری ہے ، اس لئے وہ اپنی اسی ترمیم کے تخریبی عمل کو انشاء پردازی ، اقامت دین کے نعروں ، یورپی طرز کے پر وپیگنڈا کے پردوں میں چھپانے کی کو شش کرتے ہیں۔ اسی تخریبی عمل کے محرکات دو ہیں۔ نفسیاتی تعلی اور فقدان خشیت اللہ ، اور عوام میں بھی اس دونوں بیماریوں میں مبتلا افراد کی کمی نہیں ہے ، یہی باطنی ہم رنگی اس تحریک کی توسع کی اصلی سامان ہے۔ “
8 : اسوۃ الصلحاء شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر الدین صاحب (غورغشتوی خلیفہ حضرت مولانا حسین علی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ )
”مودودی صاحب ضال اور مضل "یعنی خود گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے۔ “
9 : استادالعلماء حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ (شیخ الحدیث دارالعلوم حقانیہ ، اکوڑہ خٹک ،ضلع پشاور)
”مودودی صاحب کے عقائد اہل السنت والجماعت کے خلاف اور گمراہ کن ہیں ، مسلمان اس فتنے سے بچنے کی کوشش کریں۔

Download PDF File