سیرت ِنبوی کی معنویت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

">سیرت ِنبوی کی معنویت

مولانا عبید الکبیر
تاریخ کے اتاہ سمندر میں جہاں ہر طرف تاریکی ہے ظلمت ہے وحشت بربریت اور خوف کی لہریں گاہ بگاہ اٹھتی نظر آتی ہیں ،ابن آدم کا سفینہ حیات شیطنت کے طوفان بلاخیز میں ہچکولے کھاتا دکھائی دیتا ہےانسان اپنے ہی ابنائے جنس کی زیادتیوں کا شکار ہے۔ کہیں فرعونیت اپنی رعایا کے جنازوں پر اپنےتخت شاہی کے پائے نصب کر رہی ہے توکہیں نمرودیت انسان کی سب سے بڑی امانت توحید کی آواز کو دبانے کے لئے آگ کا دریا جاری کرتی ہے۔ کہیں نوح ؑ کی نبوت فافسق وفاجر عوام کی نگاہ تمسخر کا نشانہ بنتی ہے تو کہیں اجالوں کے دشمن ابن مریم ؑ کے لئے تختہ دارکا نسخہ تجویز کرتے ہیں۔ صفحہ دہر پر ان سیاہ کاریوں کے ساتھ ساتھ انقلابات عالم کی جزوی تاریخیں بھی ملتی ہیں جو مختلف زمانوں میں مختلف مقامات پر مختلف لوگوں کے ذریعہ رونما ہوئیں مگر ان تمام مراحل میں سرورِ دوعالم ﷺکی بعثت کا واقعہ بلا شبہ انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ انقلاب آفریں واقعہ ہے۔
انسانی دنیا تاریخ کے دوراہے پر کھڑی تھی ،عرب میں ایک طرف جہالت تاریکی بد امنی اور قتل غارت گری کا دور دورہ تھا تو دوسری طرف عجم کے فرماں روا اپنی بادشاہت اور تہذیب وتمدن کی آڑ میں عوام الناس کا استحصال کرکے اپنے جذبہ جہاگیری کو تسکین دے رہے تھے۔ انسانیت کا ضمیر بندگئی نفس کے پنجہ میں سسک رہاتھا طاقتور کمزور کو اپنا غلام سمجھتا تھا اور کمزور محکومی کی حدوں سے گزرکرزورآوروں کی بندگی پہ مجبور ہوچکے تھے۔عدل وانصاف اور اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چکا تھا لوگوں کے پاس آسمانی ہدایت کا کوئی قابل لحاظ نسخہ اپنی اصل شکل میں محفوظ نہیں تھا جو اس بحرانی کیفیت کا مداوا کر پاتا۔اہل کتاب کے احبار ورہبان کی کاروباری ذہنیت کے نتیجہ میں وحی ربانی کا وہ چشمہ صافی بھی گدلا ہو چکا تھا جو ایسی مشکل گھڑی میں ان تشنہ لبوں کی سیرابی کا سامان کر سکتا۔ کل ملا کر انسانی دنیا ایسے اندھیرے میں بھٹک رہی تھی جہاں روشنی کا کوئی گزر نہ تھا۔ تاریخ کے اس دور کو دور جہالیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
لیل ونہار کی یہ گردشیں اس امر کی متقاضی تھیں کہ دنیا کے منظر نامہ پر ایک تاریخی انقلاب کاظہورہو۔تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ جب جب انسانی دنیا اس قسم کے بحرانی حالات سے دوچار ہوئی ہے تو اس کارخانہ قدرت کے صانعِ حکیم نے تمدن کے گہوارہ کی حیثیت رکھنے والے مقامات پر ایسے افراد کو منصب نیابت پر مامور کیا جنھوں نے اپنی فوق العادت شخصیتوں کے ذریعہ اس ربع مسکون پر بسنے والے لوگوں کی رہبری کا فریضہ انجام دیا۔
چھٹی صدی عیسوی میں یہ حیثیت مکہ کو حاصل تھی جہاں عرب جیسی جفاکش بلند حوصلہ اور اولوالعزم قوم آباد تھی۔ عرب قوم کی شناخت گردونواح میں بعض خصوصیات کی بنا پر مسلم تھی۔ اس میں قیادت کی اہلیت اور جوہر دونوں چیزیں موجود تھیں اس میں حوصلہ اور عزم کا ٹھاٹیں مارتا سمندر موجزن تھا۔ اس کے اندر انقلاب آفرینی کی بھرپور صلاحیت موجود تھی۔ ایسے وقت میں عرب کے سب سے معززاور مشہور قبیلہ قریش میں دنیا کے سب سے بڑے انسان کو اللہ تعالی نے وجود بخشا جو آگے چل کر جہالت وضلالت کی تاریک رات میں آفتاب رسالت بن کرابھرا اور بہت قلیل مدت میں اس کی جلوہ سامانی سے تمام شرق وغرب منورہو گئے۔
محمدرسول اللہ ﷺ کی بعثت کا واقعہ بلاشبہ انسانی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد نے صفحہ ہستی پر جوانمٹ نقوش ثبت کئے ہیں وہ آج بھی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف بارہا کیا گیا اور رہتی دنیا تک کیا جاتا رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کے اعتراف کا دائرہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میداں میں متعدد غیر مسلم شخصیتوں نے طبع آزمائی کی ہے۔
مشہور مصنف تھامس کارلائل نے اپنی کتاب ہیرو اینڈ ہیرو ورشپ میں کمالات محمدی کا اعتراف کیا ہے۔ امریکہ سےتعلق رکھنے والے تاریخ داں اور ماہر فلکیات ڈاکٹرمائکل ہارٹ نے اپنی مایہ ناز تصنیف ‘تاریخ کی سو انتہائی متاثر کن شخصیات’میں آپﷺ کو سر فہرست تسلیم کیا ہے۔ اسلامی دنیاکےبے شمار اہل قلم حضرات نے سیرت کے سدا بہار گلشن سے گل چینی کرکےپورے عالم کو معطر کردیا ہے بایں ہمہ اس موضوع کی تازگی آج بھی برقرارہے اور ذوقِ سلیم رکھنے والوں کو اپنی طرف مائل کررہی ہے۔
دنیا میں بڑے لوگ بہت ہوئے ہیں مگر جو جامعیت آپؐ کو حاصل ہے اس کی کوئی دوسری مثال پیش کرنے سے دنیا کی تاریخ عاجز ہے۔آپﷺ کی دعوتی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو بجائے خود ہمارے لیَے ایک نمونہ عمل نہ ہوقرآن کا بیان ہے
)لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ(۔
مکہ کے شرک زدہ معاشرہ میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تحریک برپا کی اس وقت جاہلیت کاپرانا اڈیشن دنیا میں چل رہا تھا اس میں تاریکی کی وجہ سے صلاح وفلاح کا سفر دشوار تھا مگر بجائے خود انسان کی بینائی اتنی متاثر نہیں تھی آج جاہلیت کا جدید ایڈیشن رائج ہے اس میں طلعت وتابش کی بہتات نے انسانی نگاہوں کوغیر معمولی طور پر متاثر کیا ہے اور انسانی نگاہ کا دائرہ مادّہ پرستی کی محدود دنیامیں سمٹ کر رہ گیا ہے جس کے نتیجہ میں ساری انسانیت گوں نا گو مسائل سے نبردآزما ہے۔
قرونِ مظلمہ کے بعددورِجدید میں سائنس کے انکشافات اور ٹیکنالوجی کی دریافتوں کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوئی،مشرق ومغرب شمال وجنوب ہر طرف جدیدیت کا جو غلغہ بلند ہوا اس نے بلا شبہ ایک بڑی آبادی کو کچھ مادّی سہولتیں فراہم کی ہیں مگر یہ حقیقت اب دھیرے دھیرے بہت صاف ہوتی جا رہی ہے کہ اس انقلاب کے نتائج آب وگل سے پیدا ہونے والی مخلوق کو راس نہ آسکے بلکہ یہ اس کے حق میں بہت مہلک ثابت ہو ر رہے ہیں۔
انسان جب ان نئی دریافتوں سے نا آشنا تھااس وقت مسائل کا وہ لا متنا ہی سلسلہ بھی انسان کے سامنے نہ تھا۔ہمارے عہد کے نامور فلسفی شاعر اور عظیم مفکر علامہّ اقبال ؒ نے مغربی دنیا اور وہاں کے کئی ایک مفکرین کی شخصیتوں کا مطالعہ کرکے جو تاثر پیش کیا ہے اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کہ جن لو گوں کو سراپا ناز خیال کیا جاتا ہے وہ کس طرح زندگی کے میدان میں مجبورِ نیاز ہیں اس سلسلہ میں خود علامہ کا یہ اعتراف بہت وقیع ہے ‘خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانشِ فرنگ ،سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف۔
یہ او ر اس قسم کے واقعات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سیرت نبوی کی اہمیت موجودہ دور میں مزید بڑھ گئی ہے۔ اس و قت دنیا میں نوعِ انسانی کی بیش بہا چیزیں جان ،مال ،اورعزت محفوظ نہیں ہیں قتل جنسی زیادتی لوٹ مار اور بد امنی کے واقعات ایک وبا کی حیثیت اختیا ر کر چکے ہیں دنیا میں جتنی بھی بے اعتدالیاں آج موجود ہیں ان کے پیچھے ان چیزوں کا کہیں نہ کہیں ہاتھ ضرور ہے۔ آپﷺ کی تعلیمات کا خلاصہ اور نچوڑ انہی چیزوں کی حفاظت اور نشو نما ہے۔ پچھلی کئی صدیں میں مختلف ممالک میں اصلاح اور نشأۃ ثانیہ کے عنوان سے جو تحریکیں جنم لیتی رہی ہیں وہ انسانیت کی اجتماعی ترقی کے باب میں ناکام ثابت ہوئیں فرانس ،روس جرمنی اور دیگر مقامات پر جو لوگ بھی کسی نظریہ کو لےکر اٹھے وہ سب کے سب تاریخ کا معمول ثابت ہوئے۔ ہمارے سامنے سیرت کا مینارہ نور موجود ہے جس کی روشنی انسانی زندگی کے گوشہ گوشہ پر یکساں حاوی ہے۔ آپ ؐ کی سیرت کا امتیازی پہلو جس میں کوئی آپ ؐکی ہمسری کا دعوی نہیں کر سکتا کاملیت ،جامعیت اور تاریخیت ہے اور اسی بنا پر آپ ؐ کو ترجیح حاصل ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی دوسری شخصیت ایسی نہیں پائی جاتی جو اس کڑے معیار پر کھرا اترے۔ یہ صرف اور صرف محمد الرسول اللہﷺ کی ذات ہے جو احوال وظروف کے تغیر سے متاثر ہوئے بغیر ہر زمانہ اور ہر جگہ کے لئےیکساں مفید اور موزوں ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے شب وروز کےحرکات وسکنات،گفتار کردار اخلاق غرض سبھی معمولات ، آج بھی مستند حوالوں کے ساتھ محفوظ ہیں جو زندگی کےتمام مراحل میں انسان کے جملہ مسائل کا احاطہ کرتے ہیں اور ان کا معقول حل پیش کرتے ہیں۔
مختصراً ! محمد ﷺاور آپکی سیرت عالم انسانیت کیلئے پروردگار کا نوشتہ محبت ہے۔دنیاکو جب بھی انصاف ومساوات پر مبنی ایک معتدل سماج کی تشکیل کا ارادہ ہو تو شجاعت عدالت اور محبت کے اسی سبق کو دہرانا ہوگا۔ لا شک کہ آج اس سبق کو دہرانے کی شدید ضرورت ہے۔کیونکہ آدم زاد کی حیرت ناک دریافتوں اور انکشافات کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی ماننے پہ مجبور ہیں کہ انسانیت عالم نزع میں پہنچ چکی ہے اور اسےآب حیات صرف اسی ذات کے صدقہ میں مل سکتی ہے۔