عربی خطبۂِ جمعہ مقامی زبان میں…علمی وتحقیقی تجزیہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
قسط نمبر9:
……الشیخ محمد نواز الحذیفی ﷾
عربی خطبۂِ جمعہ مقامی زبان میں…علمی وتحقیقی تجزیہ
غیر عربی زبان اور فقہاء کا موقف:
جہاں تک مالکیہ ،شافعیہ اور حنابلہ کا تعلق ہے وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں جمعے کا خطبہ جائز ہی نہیں اور اگر عربی زبان میں خطبہ پر قدرت ہوتے ہوئے غیر عربی میں خطبہ دیا گیا تو وہ صحیح نہ ہو گا اور نہ ہی جمعہ صحیح ہو گا بلکہ مالکیہ کا کہنا تو یہ ہے کہ اگر مجمع میں کوئی بھی شخص عربی خطبہ پر قادر نہ ہو تو جمعہ ساقط ہو جائے گا اور اس کی بجائے ظہر پڑھنا ہو گی۔ تینوں مذاہب کی کتب سے کچھ اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں۔
مالکیہ کا موقف:
علامہ علیش مالکی رحمۃاللہ علیہ شرح منح الجلیل ج1 ص 260میں لکھتے ہیں :
اور دو خطبے بھی جمعہ کی نماز سے پہلے جمعہ کی صحت کے لیے شرط ہیں۔ اور دونوں کا عربی زبان میں ہونا اور ان کا بلند آواز سے ادا کرنا بھی ضروری ہے خواہ مجمع عجمیوں پر مشتمل ہو جو کہ عربی زبان نہ جانتے ہوں یا مجمع بہرے افراد پر مشتمل ہو چنانچہ اگر مجمع میں کوئی شخص بھی اایسا نہ ہو جو جمعہ کے دونوں خطبے عربی زبان میں دیے سکے تو ایسے لوگوں پر جمعہ واجب ہی نہیں اسی طرح اگر مجمع میں سب لوگ گونگے ہوں تب بھی جمعہ واجب نہیں لہذا دو خطبوں پر قدرت کا ہونا جمعہ کے واجب ہونے کی شرائط میں سے ہے۔
مشہور مالکی عالم علامہ دسوقی رحمۃاللہ علیہ حاشیہ الدسوقی علی شرح الکبیر ج 1 ص 378میں لکھتے ہیں:
خطبہ کا عربی زبان میں ہونا بھی شرط ہے خواہ مجمع ایسے عجمی لوگوں کا ہو جو عربی نہیں جانتے چنانچہ اگر ان میں کوئی شخص ایسا نہ ہو جو عربی زبان میں خطبہ دے سکے تو ان پر جمعہ واجب ہی نہ ہو گا۔
مذکورہ عبارات سے معلوم ہوا کہ مالکیہ کے ہاں خطبہ جمعہ کا ہر حال میں عربی زبان میں ہونا ضروری ہے اگر عربی پر قدرت نہ ہو تب بھی مقامی زبان میں خطبہ جمعہ جائز نہیں بلکہ وہ لوگ جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھیں گے۔
حنابلہ کا موقف :
حنابلہ کی مشہور کتاب کشف القناع میں لکھا ہے:عربی زبان پر قدرت کے باوجود کسی اور زبان میں خطبہ دینا صحیح نہیں ہے جیسا کہ نماز میں قرات کسی اور زبان میں درست نہیں البتہ اگر عربی زبان پر قدرت نہ ہو تو غیر عربی میں خطبہ صحیح ہو جاتا ہے یہی موقف دوسری حنابلہ کی کتب میں بھی موجود ہے۔
شافعیہ کا موقف:
علامہ شروانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ حواشی الشروانی علی تحفۃ المحتاج بشرح المنھاج "ج 2 ص 45 میں لکھتے ہیں:
خطبہ کے ارکان کا عربی زبان میں ہونا شرط ہے تاکہ اسلاف کی اتباع ہو ہاں البتہ اگر مجمع میں کوئی بھی شخص صحیح طرح عربی میں خطبہ نہ دے سکتا ہو اور وقت کی تنگی کی وجہ سے پہلے عربی خطبہ سیکھنا ممکن بھی نہ ہو تو مجمع کا کوئی شخص بھی اپنی زبان میں خطبہ دے سکتا ہے اور اگر سیکھنا ممکن ہو تو سب پر سیکھنا واجب ہے حتیٰ کہ اگر اتنا وقت گذر گیا جس میں کوئی ایک آدمی خطبہ سیکھ سکتا تھا اور کسی نے بھی نہ سیکھا تو سب گناہگار ہوے اور ان کا جمعہ صحیح نہ ہو گا بلکہ ظہر کی نماز پڑھیں گے شوافع کا یہی موقف انکی دوسری کتب میں بھی موجود ہے۔
معلوم ہوا کہ ائمہ ثلاثہ کے موقف میں عربی خطبہ پر قدرت کے ہوتے ہوے کسی دوسری زبان میں خطبہ دینا نہ صرف یہ کہ جائز نہیں بلکہ ایسا خطبہ معتبر بھی نہیں اور اس کے بعد پڑھا ہوا جمعہ بھی صحیح نہ ہو گا البتہ شافعیہ اور حنابلہ یہ کہتے ہیں کہ اگر مجمع میں کوئی شخص عربی زبان میں خطبہ دینے پر قادر نہ ہو اور سیکھنے کا بھی وقت نہ ہو تو کسی اور زبان میں دیا ہوا خطبہ جمعہ کی شرط کو پورا کر دیے گا اور اس کے بعد جمعہ پڑھنا جاِئز ہو گا۔
نوٹ : یہ بھی یاد رہیے کہ فقہاء کرام کے موقف کی وضاحت کے ضمن میں جو عبارات ذکر کی گی ہیں وہ شیخ الاسلام حضرت اقدس مفتی محمد تقی عثمانی دامت فیوضھم کے فقہی مقالات ج3 سے ماخوذ ہیں۔
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے موقف کی وضاحت:
مقامی زبان میں خطبہ جمعہ کے ترجمہ کے قائل حضرات بسا اوقات حضرت امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کے موقف سے استدلال شروع کر دیتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں مقامی زبان میں خطبہ جمعہ جائز ہے تو آپ حضرات اس کو ناجائز کہہ کر خود امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کی مخالفت کرتے ہیں ؟
یہ استدلال بھی درحقیقت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے موقف کو نہ سمجنھے کی وجہ سے ہے وگرنہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا موقف اس مسئلہ میں ان حضرات سے کہیں مختلف ہے۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی؛حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوے لکھتے ہیں لیکن یہاں یہ بات یاد رکنھی بھی ضروری ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک غیر عربی زبان میں خطبہ جمعہ کے درست ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس سے خطبے کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے اور وہ خطبہ اس لحاظ سے شرعاْ معتبر ہوتا ہے کہ صحت جمعہ کی شرط پوری ہو جائے اور اس کے بعد جمعہ کی نماز درست ہو جائے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غیر عربی زبان میں جمعہ کا خطبہ دینا امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک جائز ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ نماز اور اس کے متعلقات میں جن جن اذکار کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ نے یہ فرمایا ہے کہ وہ غیر عربی زبان میں معتبر ہیں ان سب میں اس بات کی صراحت ہے کہ ان کا غیر عربی زبان میں ادا کرنا مکروہ تحریمی یعنی ناجائز ہے چنانچہ جہاں جہاں ان اذکار کو امام صاحب رحمۃاللہ علیہ کی طرف منسوب کر کے غیر عربی میں صحیح اور معتبر قرار دیا گیا ہے وہاں مکروہ تحریمی ہونے کی صراحت بھی کی گئی ہے۔
) فقہی مقالات ج3 ص 124۔125 (
پھر مقامی زبان میں خطبہ جمعہ کے قائل حضرات کے ممدوح علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں :
لہذا خطبہ جمعہ کے بارے میں بھی امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ غیر عربی زبان میں خطبہ دینا مکروہ تحریمی یعنی ناجائز ہے لہذا لوگوں کو اس سے منع کیا جائے گا لیکن اگر کسی نے اس مکروہ تحریمی کا ارتکاب کر لیا تو کراہت کے باوجود صحت جمعہ کی شرط پوری ہو جائے گئی اور اس کے بعد ادا کیا ہوا جمعہ صحیح ہو جائے گا چنانچہ حضرت مولانا عبدالحی رحمۃاللہ علیہ ”آکام النفائس“ میں تحریر فرماتے ہیں :
اس مسئلے کے بارے میں مجھ سے بار بار سوال ہوا کہ غیر عربی میں خطبہ جمعہ جائز ہے کہ نہیں ؟تو میں نے جواب دیا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک مطلقاَ جائز ہے لیکن کراہت سے خالی نہیں بعض عزیزوں نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ خطبے کا مقصد حاضرین کو سمجھانا اور سامعین کو تعلیم دینا ہے اور عجمی ملکوں میں اگر عربی میں خطبہ دیا جائے تو اکثر حاضرین کے اعتبار سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا لہذا ان ملکوں میں عجمی زبان کا خطبہ مطلقاَ بغیر کراہت کے جائز ہونا چاہیے ؟ تو میں نے کہا :کہ کراہت سنت کی مخالفت کی وجہ سے ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ہمیشہ عربی زبان ہی میں خطبہ دیا۔۔۔۔ خلاصہ یہ کہ قرون ثلاثہ میں بھی عجمی لوگوں کو سمجھانے کے لئے غیر عربی میں خطبہ دینے کی حاجت موجود تھی اس کے باوجود کسی سے مروی نہیں ہے کہ اس زمانہ میں کسی عجمی زبان میں خطبہ دیا گیا ہو اور یہ کراہت کی بہت بڑی دلیل ہے اور اس زمانہ میں غیر عربی میں خطبہ نہ دینے کی وجہ یا تو یہ ہو سکتی ہے کہ اس کی حاجت نہ ہو یا یہ کہ کوئی رکاوٹ پائی جاتی ہو یا یہ کہ اس کی طرف کسی کاخیال نہ گیا ہو یایہ کہ لوگوں نے سستی کا مظاہرہ کیا ہو یا یہ کہ ایسا کرنا مکروہ اور غیر مشروع ہوپہلے دو احتمال اس لئے نہیں ہو سکتے کہ ہم پہلےذکر کر چکے ہیں کہ اس زمانے میں بھی غیرعربی زبان میں خطبہ کی حاجت موجود تھی اور کوئی مانع بھی ایسا موجود نہیں تھا جواس بات میں رکاوٹ ڈالے کیونکہ وہ لوگ عجمی زبانوں پر قادر تھے اسی طرح تیسرا اور چوتھا احتمال بھی ممکن نہیں کیونکہ شرعی امور میں یہ بات بعید ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اور تابعین کو کسی دینی ضرورت کاخیال نہ آئے یا وہ اس میں سستی کریں 'یہ گمان تو عام علماء سے بھی نہیں ہو سکتا چہ جائے کہ ان حضرات سے ؟اور جب یہ سب احتمالات ہو گئے تو ان حضرات کے غیر عربی میں خطبہ نہ دینے کی کوئی وجہ سوائے کراہت کے باقی نہ رہی اگر تم یہ اعتراض کرو کہ اگر غیر عربی میں خطبہ مکروہ ہے تو امام ابوحنفیہ رحمۃاللہ علیہ کے قول "یجوز" جائز ہے کا کیا مطلب ہوگا ؟میرا جواب یہ ہے کہ جائز ہونا ایک بات ہے اور بلاکراہت جائز ہے دوسری بات ہے ان میں سے ایک بات کے ثبوت سےدوسری بات لازم نہیں آتی۔
اور اس کی تحقیق یہ ہے کہ خطبہ میں دوپہلو ہیں ایک پہلو یہ ہے کہ وہ نماز جمعہ کے لیے شرط ہے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ فی نفسہ عبادت ہے ان دونوں پہلو ں کے اوصاف الگ الگ ہیں لہذا جب فقہاء حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ فارسی میں خطبہ جائز ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے خطبے سے نماز جمعہ کی شرط پوری ہو جاتی ہے اور اس کے بعد نماز جمعہ صحیح ہو جاتی ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دوسرے پہلو کے اعتبار سے یہ عمل بدعت اور مکروہ ہونے سے بھی خالی ہو۔
حضرت مولانا عبدالحی لکنھوی رحمہ اللہ کی اس عبارت میں مسئلے کے تمام پہلوں کو خوب اچھی طرح روشن کردیا ہے اور اسد سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ نے غیر عربی خطبہ کو جو معتبر مانا ہے اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس سے نماز جمعہ کی شرط پوری ہو جاتی ہے یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسا کرنا اور اس کو معمول بنانا جائز ہے۔
) فقہی مقالات ج3 ص127۔ 130 (
اب تک منقولہ عبارات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ قرآب وسنت صحابہ کرام کا طرز اور فقہاء کے فتاوٰی سب غیر عربی مہں خطبہ جمعہ کو ناجائز بتلاتے ہیں لہذا اس کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
………)جاری ہے (