سیرت نبوی کا تجارتی پہلو

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سیرت نبوی کا تجارتی پہلو
مولانا محمد حذیفہ، مظفر نگر
اپنے محبوب کی شخصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ جل شانہ ارشاد فرماتے ہیں
إنک لعلی خلق عظیم (القلم آیت4) لقد کان لکم في رسول اللہ أسوۃ حسنۃ
(الاحزاب آیت21 (
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر ہر قسم کے اوصاف بدرجہ اتم موجود تھے۔ آپ ایک جلیل القدر پیغمبر اور نبی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نظریاتی فلاحی ریاست کے بانی بھی تھے۔ اسی طرح اگر آپ مصلح اعظم تھے تو ایک بے نظیر سیاست داں بھی۔ قائد لشکر تھے تو عظیم فاتح بھی۔ اگر عظیم سربراہ مملکت تھے تو بے عدیل قاضی القضاۃ بھی۔ اگر عدیم المثال تاجر تھے تو مہربان شوہر ، شفیق باپ اور مخلص دوست بھی۔
غرضیکہ آپ کی ذات گرامی میں ہر قسم کی خوبیاں جمع ہوگئیں تھیں رب کائنات نے مذکورہ آیات میں اسی کی منظر کشی کی ہے کہ اگر تم طالب علم ہوتو غار حرا میں بیٹھنے والی ہستی کو دیکھو کہ اس نے قرآن کریم کس طرح سیکھا۔ اگر تم استاد ہوتو اصحاب صفہ کے معلم گرامی کی پیروی کرو۔ اگر تم خاوند ہو تو سیدہ خدیجہ، سیدہ عائشہ اور دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے عالی قدر شوہر کو دیکھو۔ اگر تم صاحب اولاد ہو تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جلیل القدر باپ کو دیکھو کہ انہوں نے اولاد کی دینی تربیت کس طرح فرمائی۔ اگر تم تبلیغ کے فرض عین میں مصروف ہو تو مکہ کی گلیوں، طائف کی وادیوں اور مدینہ کے کوچے و بازاروں میں چلنے پھرنے والے مبلغ اعظم کو دیکھو کہ اس نے اللہ کے بندوں تک کس طرح دین کا پیغام پہنچایا۔ اگر تم تاجر ہو تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سامان تجارت فروخت کرنے والے کی طرف نظر کرو کہ اس نے کتنی دیانت و امانت سے تجارت کی۔
اگر تم دوست ہو تو غار ثور کی تنہائیوں میں صدیق اکبر کو دلاسا دینے والے کو دیکھو اور سبق سیکھو کہ وہ ایک نادیدہ بالاتر، ہمہ مقتدر مقدس ہستی پر کیسا اٹل ایمان رکھتا تھا اور کتنے نازک مرحلے میں اس کے لبوں پر لا تحزن إن اللہ معنا ہی کا نشید مقدس گونج رہا تھا۔ اگر تم کمانڈر ہو تو جنگ بدر کے مجاہدین کے بیدار مغز کمانڈر انچیف کو دیکھو۔ اگر تم فاتح ہو تو مکہ مکرمہ کے فاتح کو دیکھو کہ اس عالی ظرف اور کریم النفس قائد انسانیت نے سفاک قاتلوں اور اپنے خون کے پیاسے دشمنوں کو بھی کس فراخ دلی سے معاف کردیا۔
نپولین کہتا ہے کہ عظماء تاریخ میں سے ہر ایک صرف کسی ایک گوشے میں عظیم ہوتا تھا اور ایک آدھ خوبی کا مالک ہوتا تھا مگر پیغمبر اسلام میں انسان عظیم کے تمام خصائص موجود تھے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے پوری انسانیت کے لیے رحمت بناکر بھیجا تھا آپ معاشرے کی فلاح وبہبود اور اصلاح وتربیت کے لیے دنیا میں تشریف لائے تھے آپ آزادی کے علمبردار، حریت فکر کے نقیب ، باعزت زندگی کی طرف بلانے والے داعی اعظم اور اخوت ومساوات کے بانی تھے۔
ان چند سطور میں سرور کائنات کی شخصیت کے گوناگوں پہلوؤں میں سے ایک پہلو یعنی تجارتی پہلو پر قدرے تفصیلی بحث کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس پہلو پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جزیرۂ عرب کے ماحول پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے۔
جزیرۂ عرب ایک بالکل بے آب وگیاہ علاقہ ہے جہاں کھیتی باڑی کرنے یا مویشی پالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور چونکہ اس دور میں اہل عرب علم و ہنر اور فنون سے بھی نا آشنا تھے اس لیے ان کے لیے معاش کے طور پر ایک پیشہ تجارت ہی بہترین قرار پاسکتا تھا ویسے بھی جزیرۂ نما عرب دنیا کے عین وسط میں ہونے کی بنا پر مختلف ملکوں کے درمیان ایک بہترین مقام اتصال تھا اس لیے یہاں کے باشندوں کا عام پیشہ تجارت تھا اور وہ تجارت کے سلسلے میں دور دراز کے ممالک کی طرف سیاحی کرتے رہتے تھے۔
ان کے تجارتی قافلے ایک جانب تو بحر ہند سے لیکر بحیرۂ روم تک اور دوسری جانب جنوب عرب میں عمان و یمن سے لیکر شمال میں فلسطین و شام تک چلتے رہتے تھے۔ اس طرح یہ بڑی بڑی تجارتی شاہراہیں انہی کے قبضے میں تھیں اور ان کے بڑے بڑے تجارتی کارواں مال و اسباب سے لدے ہوئے آتے جاتے رہتے تھے۔ موسم گرما میں ان کے سفر شمال میں شام کی طرف ہوتے اور موسم سرما میں جنوب میں عمان و یمن کی طرف۔ آبادی کا بیشتر حصہ اسی تجارت پر گذر بسر کرتا اپنا بیشتر سرمایہ تجارتی کاموں میں لگائے رکھتا قا فلوں کی واپسی پر منافع آپس میں تقسیم ہوتے۔
یہ تاجر پیشہ لوگ دوسرے باشندوں کی بہ نسبت آسودہ تھے ان میں سے قبیلۂ قریش کا تجارتی مقام تو بہت بلند تھا؛ بل کہ وہ عرب کی پوری تجارت پر حاوی تھے جس کی شہادت خود اللہ جل شانہ نے اپنے کلام مقدس میں دی ہے:
لإیلٰف قریش إیلٰفہم رحلۃ الشتاء والصیف
(القریش (
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی کے مصنف لکھتے ہیں ’’چین و عرب کی تجارت عرب میں سے ہوکر یورپ جاتی تھی قریش کا عرب کی تجارت پر حاوی رہنا ،مصر و شام، عراق و ایران، یمن و عمان، حبش و سندھ وغیرہ سے انہوں جو تجارتی معاہدے (ایلاف) کر رکھے تھے اور رحلۃ الشتاء والصیف کے باعث شمال و جنوب کے جس طرح قلابے ملاتے رہتے تھے وہ سب جانتے ہیں‘‘
(ص: ۳۷(
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خانوادۂ قریش میں ہی آنکھیں کھولیں اور اسی تجارتی ماحول میں نشوو نما پائی لہذا آپ تجارت جیسے مقدس پیشے سے الگ کیسے رہ سکتے تھے آپ کے چچا ابو طالب بھی تاجر تھے اور تجارت کے لیے دور دراز کے سفر اختیار کیا کرتے تھے دادا کی وفات کے بعد انہوں نے آپ کی پرورش کا ذمہ اپنے کندھوں پر اٹھایا اور آپ کو اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب رکھا اسی محبت کی بنا پر آپ کو اپنے ساتھ سفر پر بھی لے جانے لگے۔
آپ کا پہلا تجارتی سفر:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 12سال دو ماہ ہوچکی تھی کہ آپ کے چچا ابو طالب نے قریش کے قافلۂ تجارت کے ساتھ شام کا ارادہ کیا مصائب سفر کے خیال سے ابو طالب کا ارادہ آپ کو ہمراہ لے جانے کا نہ تھا عین روانگی کے وقت آپ کے چہرے پر حزن وملال کے آثار دیکھے اس لیے آپ کو اپنے ہمراہ لے لیا اور روانہ ہوئے جب شہر بُصریٰ کے قریب پہونچے تو وہاں ایک نصرانی (بقول بعض یہودی) راہب تھا جس کا نام جرجیس تھا اور بحیرا راہب کے نام سے مشہور تھا۔
بحیرا کی آپ سے ملاقات ہوئی اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پر نور و پر جلال چہرے پر علامات نبوت دیکھیں اور آپ کو آنے والے نبی کی پیشین گوئی کا مصداق پایا تو خواجہ ابو طالب کو تاکید کی کہ یہ لڑکا بڑا ہوکر عظیم الشان بنے گا لہذا اسے شام کے یہودی دشمنوں سے بچایا جائے چنانچہ خواجہ ابو طالب نے فی الفور آپ کو مکہ واپس بھیج دیا۔
کاروباری مشاغل:
جیسا کہ اوپر گذرا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلی خاندانی پیشہ تجارت تھا اور آپ بچپن ہی میں ابو طالب کے ساتھ کئی بار تجارتی سفر فرماچکے تھے جس سے آپ کو تجارتی لین دین کا کافی تجربہ بھی حاصل ہوچکا تھا اس لیے آپ کو تجارت سے بڑی دلچسپی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کے کندھوں کو جو پہلے سے ہی کثیر العیال تھے مزید گراں بار نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے آپ نے تجارت کو جاری رکھتے ہوئے ذریعۂ معاش کے لیے اسی پیشہ کو اختیار فرمایا اور تجارت کی غرض سے شام و بصری اور یمن کا سفر فرمایا اور ایسی راست بازی اور امانت و دیانت کے ساتھ آپ نے تجارت کا کاروبار کیا کہ آپ کے شرکا اور تمام اہل بازار آپ کو امین کے لقب سے پکارنے لگے۔
ایک کامیاب تاجر کے لیے امانت، سچائی ، وعدے کی پابندی اور خوش اخلاقی تجارت کی جان ہیں ان خصوصیات میں مکہ کے تاجر امین نے جو تاریخی شاہکار پیش کیا ہے اس کی مثال تاریخ عالم میں نادر روزگار ہے۔
آپ جلد ہی اپنے ان اوصاف کی وجہ سے مکہ کے کامیاب ترین تاجر ثابت ہوگئے اور پوری قوم میں آپ کا نام صادق اور امین مشہور ہوگیا آپ کی راست بازی اور حسن کردار کا سکہ ہر فرج بشر کے دل پر بیٹھ گیا اور مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور مالدار یہ خواہش کرنے لگے کہ آپ ان کے سرمایہ اپنے ہاتھ میں لیکر ان کے کاروبار چمکائیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کچھ دنوں تک سائب بن قیس مخزومی کے سرمایہ سے تجارت کرتے رہے بلکہ انہوں نے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تاجر امین کے لقب سے نوازا۔
کاروبار کا طریقہ کار:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر معاملہ سچائی اور امانت داری سے کرتے اور ہر معاملے میں سچا وعدہ کرتے او رجو وعدہ کرتے اس کو پورا ہی کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تجارتی ساتھی عبد اللہ بن ابی الحمساء بیان کرتے ہیں کہ میں نے بعثت سے پہلے ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک معاملہ کیا میرے ذمے کچھ دینا باقی تھا میں نے عرض کیا کہ میں ابھی لے کر آتا ہوں اتفاق سے گھر جانے کے بعد اپنا وعدہ بھول گیا تین روز بعد یاد آیا کہ میں آپ سے واپسی کا وعدہ کرکے آیا تھا یاد آتے ہی فورا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر پہونچا معلوم ہوا کہ دو روز گذرگئے آج تیسرا دن ہے وہ مکان پر نہیں آئے گھر والے خود پریشان ہیں میں یہاں سے روانہ ہوا اور جہاں جہاں خیال تھا سب جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا کہیں نہیں ملے۔
احتیاطا وعدہ گاہ پر پہونچا میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ آپ اسی مقام پر موجود ہیں اور میرا انتظار کررہے ہیں اور زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ مسلسل تین دن انتظار کی زحمت اٹھانے کے بعد بھی جب میں نے معذرت کی تو آپ نہ ناراض ہوئے، نہ لڑائی جھگڑا کیا او رنہ ڈانٹ ڈپٹ کی صرف اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے اور وہ بھی دھیمی آواز میں
’’یا فتی لقد شققت علي أنا ہہنا منذ ثلاث أنتظرک‘‘
(سنن أبی داوٗد رقم الحدیث: ۴۹۹۶)
کہ اے عبد اللہ تونے مجھے بڑی زحمت دی میں تین دن سے اسی جگہ آپ کا انتظار کررہاہوں۔
(ماخوذ از سیرۃ المصطفی ۱؍۹۶، سیرۃ النبی ۱؍۱۲۹(
تجارت کے کاروبار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا معاملہ ہمیشہ صاف رکھتے تھے۔ عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں زمانہ جاہلیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شریک تجارت تھا جب مدینہ منورہ حاضرہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو پہچانتے بھی ہو؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں! کنت شریکي فنعم الشریک لاتداري ولا تماريآپ تو میرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھے شریک نہ کسی بات کو ٹالتے تھے اور نہ کسی بات پر جھگڑتے تھے۔
(سیرۃ المصطفی ۱؍۹۶(
قیس بن سائب مخزومی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے شریک تجارت تھے ’’وکان خیر شریک لایماري ولایشاري ‘‘ آپ بہترین شریک تجارت تھے نہ جھگڑتے تھے اور نہ کسی قسم کا مناقشہ کرتے تھے۔ (حوالہ بالا(
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاروبار کے ایک ساتھی کا نام ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی تھا وہ بھی مکہ ہی میں قریش کے ایک سوداگر تھے وہ کبھی کبھی سفر میں آپؐ کے ساتھ رہتے تھے۔
(سیرۃ النبی۱؍۱۲۶(
عرب میں ہر سال جو مشہور تجارتی میلے منعقد ہوتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنا سامان تجارت ان میلوں میں لے جایا کرتے آپ کی دیانتداری کی بنا پر آپ کا سامان میلے میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتا۔ ایک دفعہ ایک میلے میں آپ بیس اونٹ لائے مگر اسی وقت کسی کام سے باہر جانا پڑ گیا تو اپنے غلام کو تاکید کرگئے کہ ان اونٹوں میں سے ایک لنگڑا ہے اس کی نصف قیمت وصول کی جائے۔
فارغ ہوکر آپ واپس تشریف لائے تو اونٹ فروخت ہوچکے تھے۔ غلام سے دریافت کیا تو اس نے معذرت کی کہ مجھے خریداروں کو لنگڑے اونٹ کی بابت بتانا یاد نہ رہا اور میں نے اس کی بھی پوری قیمت وصول کرلی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریداروں کا اَتا پَتا دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ یمن کی طرف سے آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے پر بڑا ملال تھا فورا غلام کو ساتھ لیا اور گھوڑے پر سوار ہوکر ان کی تلاش میں چل دئیے ایک دن اور ایک رات کی مسافت طے کرنے کے بعد ان کو پالیا اور ان سے پوچھا کہ تم نے یہ اونٹ کہاں سے خریدے ہیں وہ بولے کہ ہمارے مالک نے ہمیں یمن سے میلے میں محمد بن عبد اللہ کے تمام اونٹ خریدنے کے لیے بھیجا تھا اور تاکید کی تھی کہ اس کے سوا کسی اور سے کچھ سامان نہ خریدنا ہم وہاں تین دن تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کو تلاش کرتے رہے آخر تین دن کے بعد ان کا مال منڈی میں آیا تو ہم نے اطلاع پاتے ہی خرید لیا۔
آپ نے فرمایا بھائیو ! ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ لنگڑا ہے سوادا کرتے ہوئے میرا ملازم بتانا بھول گیا اب وہ اونٹ مجھے دے دو اور اس کی قیمت واپس لے لو یا پھر اس کی آدھی قیمت مجھ سے وصول کر لو۔ اتفاق سے ابھی تک انہیں اونٹ کے لنگڑے پن کا علم نہ ہوا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ اونٹ دیکھتے ہی فورا پہچان لیا او روہ اونٹ ان سے لیکر اس کی قیمت واپس کردی۔
بعد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو انہوں نے کہا ہم تو پہلے ہی سوچتے تھے کہ ایسا شخص کوئی معمولی آدمی نہیں ہوسکتا فورا خدمت اقدس میں پہنچے اور شرف اسلام سے بہرہ مند ہوگئے۔
ان واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ نے بیرون تجارت میں بھی حصہ لیا اور آپ مکہ میں گھوم پھرکر بھی کاروبار کیا کرتے تھے۔
الغرض ابو طالب کے ساتھ آپ بچپن ہی میں بعض تجارتی سفر کرچکے تھے۔ ہر قسم کا تجربہ حاصل ہوچکا تھا اور آپ کے حسن معاملہ کی شہرت ہر طرف پھیل چکی تھی۔ نوخیز و نوجوان محمد صلی اللہ علیہ وسلم گلہ بانی سے آگے بڑھ کر میدان تجارت میں آئے تو آپ کے تعلقات وسیع ہوئے۔
لوگوں کو آپ کو آزمانے اور پرکھنے کا موقع ملا مگر یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے آپ کو زیادہ قریب سے دیکھا وہی آپ کے سب سے زیادہ گرویدہ ہوئے اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ صرف دس بارہ سال کے عرصے میں آپ کی غیر معمولی امانت داری، راستبازی اور سچائی نے سب ہی مکہ والوں کو یہاں تک موہ لیا کہ وہ آپ کا نام لینا بے ادبی سمجھنے لگے۔
یہی مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور سیٹھ جن کو اپنی دولت پرناز تھا جن کو اپنے بین الاقوامی تعلقات پر فخر تھا کہ ان کے تجارتی قافلے شام، یمن اور فارس وغیرہ جاتے ہیں افریقہ کے بازاروں میں ان کا لین دین ہوتا ہے ان ملکوں کے امیروں اور بادشاہوں سے ان کی راہ و رسم ہے ان سے اپنی بات منواسکتے ہیں یہی رؤساء قریش جو اپنے سوا کسی کو نظر میں نہیں لاتے تھے جو دوسروں کی گردنیں اپنے سامنے جھکوانا چاہتے تھے جن کے مشاعروں کی جان ان کے وہ فخریہ قصیدے ہوا کرتے تھے جن میں وہ اپنی عظمت اور بڑائی کے ترانے گاتے اور کوئی ان کا توڑ کرتا تو لڑ پڑتے تھے یہانتک کہ خونریز جنگ کی نوبت آجاتی تھی۔
دنیا جانتی ہے تاریخ شاہد ہے کہ یتیم عبد اللہ کی غیر معمولی سچائی اور امانت داری نے ان سیٹھوں اور رئیسوں کو اس حد تک متاثر اور گرویدہ بنادیا تھا کہ وہ آپ کا الصادق یا الامین ہی کہتے تھے نام لینا بے ادبی سمجھتے تھے یہ دو لفظ یہاں تک زبانوں پر چڑھ گئے کہ انہوں نے قومی لقب کی حیثیت اختیار کرلی۔
شام کا دوسرا سفر:
ان دنوں مکہ میں سب سے زیادہ مالدار ایک معزز خاتون سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا تھیں جو دو بار بیوہ ہوچکی تھیں انہوں نے باپ سے کثیر جائیداد پائی تھی اور اب تمام تر توجہ تجارت کی طرف مبذول کر رکھی تھی او راپنی تجارت کو باقی رکھنے کے لیے انہیں کسی ایسے امانت دار شخص کی ضرورت تھی جو کاروباری سلیقہ اور تجارتی تجربہ بھی رکھتا ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر اگرچہ تقریبا ۲۳سال تھی مگر آپ کے اوصاف حمیدہ کے چرچے شروع ہوگئے تھے کاروباری سلیقے کی بھی شہرت ہو چکی تھی اور تجارتی قافلے کے ساتھ شام جاکر بیرونی تجارت کا بھی آپ کو تجربہ ہوچکاتھا تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کا سامان تجارت سرزمین شام کی طرف لے جائیں او رمعاملہ یہ طے ہوا کہ وہ آپ کو دوسرے لوگوں کی بہ نسبت دو گنا منافع دیں گی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب سے مشورہ کرنے کے بعد یہ پیش کش قبول فرمالی او ر۲۳ یا ۲۴ برس کی عمر میں دوسری بار شام کی طرف روانہ ہوئے واپسی پر آپ نے ایسا مال تلاش کیا جس کا مکہ میں فورا نکاس ہوجائے آپ نے شام سے یہ مال لاکر مکہ معظمہ میں فروخت کیا تو نفع بدرجہا زیادہ ہوا۔ حضرت خدیجہ نے شام جاتے وقت جب مال سپرد کیا تو اپنے بھروسے مند غلام میسرہ کو بھی ساتھ کردیا۔بہانہ یہ تھا کہ وہ خدمت کرتے رہیں گے او رمقصد یہ تھا کہ مال کی نگرانی بھی رکھیں اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طور و اطوار کا بھی گہرائی سے مطالعہ کرتے رہیں۔ سفر شام سے واپسی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کا نفع حضرت خدیجہ کے سپرد کیا اور میسرہ نے نہ صرف امانت داری؛ بلکہ آپ کے عام اخلاق کی بھی ایسی تعریف کی کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا جو اپنی زندگی کا یہ آخری دور کسی راست باز کے حوالے کرنا چاہتی تھیں دامان محمد میں ان کو گوہر مراد نظر آنے لگا۔
چنانچہ سفر شام سے واپسی کے دو ماہ پچیس روز بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے نکاح کا پیام دیا آپ نے اپنے چچا کے مشورے سے اس کو قبول فرمایا اور پچیس برس کی عمر میں اپنے سے پندرہ برس بڑی او ردو بار بیوہ ہوچکی خاتون کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔
نکاح کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا مال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر نچھاور کردیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا سارا مال غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کی امداد پر صرف کردیا او راپنی معاش تجارت کو باقی رکھا اسی سے اپنے کنبے کی گذر بسر کرتے۔
تجارت کی خاطر آپ نے بصری اور مدینہ کی جانب کئی تجارتی سفر کئے اورانہی سفروں کے درمیان آپ نے قریش کی تجارتی شاہراہوں کے ہر پیچ و خم سے آگاہ ہوگئے خصوصا مدینہ کی سیاسی او رجغرافیائی حیثیت اچھی طرح سمجھ لی۔
بات بہت طویل ہو تی جارہی ہے؛ لیکن اس طوالت کے باوجود سرکار دوعالم کے اس پہلو؛ بل کہ کسی بھی پہلو کا احاطہ تو دور کما حقہ بیان بھی نہیں کیا جاسکتا۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوچکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تجار ت پسند فرماتے تھے اور صاف ستھری بغیر دھوکہ او رجھوٹ کے تجارت کرتے تھے اور جب خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام کیا ہے تو اس کام کی عظمت میں کیا شبہ ہوسکتا ہے حالانکہ یہ ساری باتیں ضمنا ماقبل میں معلوم ہوچکی ہیں؛ لیکن پھر بھی چند ارشادات نبوی او رنقل کردینا مناسب سمجھتا ہوں جن سے تجارت او رتجارت پیشہ لوگوں کی عظمت واضح ہو۔ نیز تجارت میں امت کے لئے آپ کا مقرر کردہ اصول بھی سامنے آسکے:آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بار سوال کیا گیا کہ کون سی کمائی پاکیزہ ترین ہے؟ فرمایا: اپنے ہاتھوں سے کام کرنا او رہر حلال وجائز بیع۔
(السنن الکبری للبیہقی ۵؍۲۶۳(
تجارت میں حسن معاملہ، صداقت ودیانت او رراست بازی کی ہردم تاکیدی نصیحت فرماتے رہے فرمایا: قیامت کے روز تاجر فجار کی حیثیت سے اٹھائے جائیں گے بجز اس تاجر کے جو اپنے معاملات میں خداترس رہا، لوگوں سے حسن سلوک کیا اور ہرمعاملے میں سچائی کا دامت تھامے رکھا۔
(ترمذی شریف حدیث: ۱۲۱۰(
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید و فروخت میں زیادہ قسمیں کھانے سے منع فرمایا:
’’إیاکم وکثرۃ الحلف في البیع فإنہ ینفّق ثم یمحق‘‘
بیع میں زیادہ قسمیں کھانے سے احتیاط برتو؛ کیونکہ اس طرح مال تو بک جاتا ہے مگر برکت جاتی رہتی ہے۔
(مسلم شریف حدیث: ۴۱۲۳(
ایک آخری بات کہتے ہوئے ان چند سطور کا خاتمہ کرتا ہوں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ خصوصا مجھ کو اور عموما پوری امت مسلمہ کو ایک ایک سنت کو جاننے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔
آمین بحرمۃخاتم الانبیاء والمرسلین