امام بخاری رحمہ اللہ کے حنفی استاد امام مکی بن ابراہیم رحمہ اللہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
امام بخاری رحمہ اللہ کے حنفی استاد
امام مکی بن ابراہیم رحمہ اللہ
مدثر جمال
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تلمیذ خاص اور امام بخاریؒ کے کبار شیوخ میں سے ہیں۔ صحیح البخاری کی گیارہ ثلاثیات انہی کی روایت سے ہیں۔ مکی نام اورابوالسکن کنیت ہے ،سلسلہ نسب یہ ہے : مکی بن ابراہیم بن بشیر بن فرقد البلخی۔ بلخ کے رہنے والے ہیں۔ 126ھ میں پیدا ہوئے۔
علامہ ذہبی نے سیراعلام النبلاء میں”الامام ،الحافظ، الصادق، مسند خراسان“ کے وقیع الفاظ سے آپ کا تذکرہ کیا ہے۔
حافظ ابن حجر فتح الباری میں تحریر کرتے ہیں :
ھومن کبار شیوخ البخاری سمع من سبعة عشر نفسامن التابعین منہم یزید بن ابی عبید۔
”مکی بن ابراہیم،امام بخاری کے بزرگ اساتذہ میں سے ہیں ،انہوں نے سترہ تابعین سے حدیث کی سماعت کی ہے ان تابعین میں ایک یزید بن ابی عبید ہیں“ آپ کے اساتذہ میں امام جعفر صادق ، امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام ابن جریج ، بہز بن حکیم ، ایمن بن نابل ، یزید بن ابی عبید اورہشام بن حسان جیسے اساطین علم حضرات شامل ہیں۔
شروع میں ایک تاجر پیشہ آدمی تھے مگر امام ابوحنیفہ کی مسلسل تاکید وترغیب سے حصول علم میں مشغول ہوئے جس کی تفصیل امام کردری نے مناقب الامام ابی حنیفہ میں اپنی سند کے ساتھ خود انہی کی زبانی یوں نقل کی ہے :
ترجمہ:میں تجارت پیشہ آدمی تھا،ایک دفعہ امام ابو حنیفہ کی خدمت میں حاضر ہواتو انہوں نے کہا:اے مکی تم مجھے تاجر معلوم ہوتے ہو؟(تو سنو) جو تجارت علم کے بغیر ہو اس میں بڑا فساد اور خرابی پیدا ہو جاتی ہے (کہ حلال وحرام اور جائز وناجائز کی تمیز نہیں رہتی)تو تم کیوں علم حاصل نہیں کرتے اور کتابت حدیث میں مشغول کیوں نہیں ہوتے ؟۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بار بار مجھے یہی کہتے رہے یہاں تک کہ میں حصول علم میں مشغول ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے علم کا بڑاحصہ نصیب فرمایا۔ اب میں ہمیشہ امام ابوحنیفہؒ کیلئے جب بھی وہ یاد آجائیں اور ہر نماز کے بعد پابندی سے دعا کرتا ہوں کیونکہ انہی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے علم کا دروازہ مجھ پر کھول دیا۔“
(مناقب الامام ابی حنیفہ للامام الکردری :ج 2 ص 161(
آپ کو امام ابوحنیفہ سے حد درجہ محبت تھی ان کی تعریف میں فرمایا کرتے تھے :کان ابوحنیفہ یصدق قولہ فعلہ یعنی امام ابو حنیفہ کے قول وفعل میں سچائی تھی منافقت نہ تھی کہ گفتار کچھ اور ہوتی اور کردار کا رخ دوسرا ہوتا۔ آپ کی اپنے شیخ امام ابو حنیفہ سے محبت کا ایک دلچسپ واقعہ امام کردری نے نقل کیا ہے: اسماعیل بن بشر کہتے ہیں کہ ہم مکی بن ابراہیم کی مجلس میں تھے،انہوں نے حدیث بیان کرتے ہوئے ”حدثنا ابوحنیفہ“ کہا تو ایک اجنبی آدمی نے چیخ کرکہا ہمیں امام ابن جریج کی سند سے حدیث سناؤ،ابوحنیفہ کی سند سے روایت بیان نہ کرو،مکی بن ابراہیم یہ سن کرغصہ ہوئے اور کہا:
انالا نحدث السفہاءحرمت علیک ان تکتب عنی قم عن مجلسی
ہم بے وقوفوں کو حدیث نہیں سناتے،مجھ سے کوئی حدیث لکھناتجھ پر حرام ہے،چل میری مجلس سے نکل جا۔پھر جب تک وہ آدمی مجلس سے نکل نہ گیا مکی بن ابراہیم نے حدیث بیان نہ کی۔
(مناقب الامام ابی حنیفہ للامام الکردری :ج 2 ص 161(
اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام مکی بن ابراہیم رحمہ اللہ کے نزدیک امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کا حدیث میں پایہ بلند تھا اور اسی لیے جب اس شخص نے ان کی روایت لینا پسند نہ کی تو انہوں نے اسے بے وقوف قرار دیا اور اس پر حدیث کا سنانابند کردیا کہ ایسے لوگ اس قابل ہی نہیں کہ انہیں علم حدیث پہنچایا جائے۔
علامہ ذہبی سیراعلام النبلاء میں لکھتے ہیں:عبدالصمدبن فضل فرماتے ہیں میں نے مکی بن ابراہیم کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ساٹھ حج کیے۔ ساٹھ نکاح کیے اور دس سال بیت اللہ کے پڑوس میں قیام پذیر رہا اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ لوگ علم حدیث میں میرے محتاج ہوں گے تو میں تابعین کے علاوہ کسی سے حدیث نہ لکھتا۔ عمربن مدرک خود موصوف سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے بلخ کے دیہات سے پچاس مرتبہ حج کا سفر کیا اور میں نے مکہ میں رہائش کیلئے مکان کے کرائے میں ایک ہزار دینار سے زائد خرچ کیے۔
(سیراعلام النبلاءج 8 ،ص 354(
شیخ مکی سے بڑے بڑے شیوخ محدثین نے احادیث روایت کی ہیں ان میں امام بخاری،امام احمد بن حنبل،عبید اللہ قواریری،یحییٰ بن معین،معمر بن محمد البلخی ،یزید بن سنان البصری اور عمر بن مدرک سرفہرست ہیں۔
امام ذہبی نے سیراعلام النبلاءمیں محمد بن سعد وغیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ موصوف نے بلخ میں 215ھ کی نصف شعبان میں انتقال کیا جبکہ امام بخاری اور ابو حاتم کے قول کے مطابق 214 ھ میں انتقال فرمایا۔