نماز جمعہ شہر اور بڑے دیہات میں ہی جائز ہے

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
قسط نمبر10:
……الشیخ محمد نواز الحذیفی ﷾
نماز جمعہ شہر اور بڑے دیہات میں ہی جائز ہے!
نماز جمعہ کا قیام شعائر اسلام میں سے ہے تاکہ اس کے ذریعے غیر مسلموں کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کی شان وشوکت کا مظاہرہ ہو، اسی وجہ سے شریعت نے اس کو ایسے انداز سے قائم کرنے کا حکم دیا ہے کہ وہ عام نمازوں سے زیادہ شان وشوکت سے ادا کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ اسلام کی شان وشوکت کا مظاہرہ ہو اور اسی وجہ سے نماز جمعہ یا تو شہر اور فِناء شہر میں جائز ہے یا بڑے دیہاتوں اور قصبوں میں۔
فِناء شہر سے مراد وہ جگہ ہے جو شہر کے لوگوں کی ضروریات کے لیے بنائی گئی ہو وہ بھی شہر کا حصہ ہی ہوتی ہے۔ نماز جمعہ کا اصل محل تو شہر ہے چونکہ فِناء شہر اور بڑے دیہاتوں اور قصبوں میں بھی شہر کے اثرات پائے جاتے ہیں ،اس لیے فناء شہر اور بڑے دیہات میں بھی نماز جمعہ جائز ہے۔ چھوٹے دیہات جنگل اور صحراء میں چونکہ شہر کے اثرات نہیں پائے جاتے اس لیے ان میں نماز جمعہ قائم کرنا جائز نہیں ہے بلکہ ان لوگوں پر ظہر کی نماز فرض ہے اگر یہ لوگ جمعہ پڑھنا چاہیں گے تو ان کو جمعہ کی ادائیگی کے لیے شہروں یا بڑے دیہاتوں میں آنا پڑے گا۔ جیسا کہ خیرالقرون میں چھوٹے دیہاتوں والے صحابہ کرام اور تابعین کا دستور تھا۔
ائمہ احناف کی تصریحات :
فقہ حنفی کے ترجمان امام محمد رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں :
لا تجب الجمعۃ الا علی اھل الامصار والمدائن۔
)المبسوط ج 1 ص345 (
جمعہ صرف شہروں اور قصبات کے لوگوں پر فرض ہے۔
فقہ حنفی کی مشہور کتاب کبیری شرح منیۃ المصلی میں لکھا ہے:
ولا شک فی جواز الجمعۃ فی البلاد والقصبات۔
)کبیری شرح منیۃ المصلی ص552 (
شہروں اور قصبوں میں جمعہ کے جواز میں کوئی شک نہیں۔
علامہ شامی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں:
وتقع فرضافی القصبات والقری الکبیرۃ التی فیھا اسواق وفیما ذکرنا اشارۃ الی انہ لا تجوز فی الصغیرۃ۔
)شامی ج1 ص748 (
جمعہ قصبوں اور ان بڑے دیہاتوں میں فرض ہے کہ جن میں بازار ہوں اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چھوٹے دیہات میں نماز جمعہ جائز نہیں۔
دور حاضر کی مشہور اور مختصر فقہ حنفی کی کتاب تعلیم الاسلام میں لکھا ہے:
جمعہ کی نماز صحیح ہونے کی کئی شرطیں ہیں اول شہر یا قصبہ میں ہونا چھوٹے گاؤں میں جمعہ کی نماز درست نہیں۔
)تعلیم الاسلام حصہ چہارم ص57 (
مذکورہ بالا عبارات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ شہروں اور قصبات کے علاوہ چھوٹے دیہات اور جنگلوں میں نماز جمعہ جائز نہیں ہے۔
شہر اور قصبہ کسے کہتے ہیں ؟:
کیونکہ ہر شہر کے لوازمات اور ضروریات مختلف ہوتی ہیں جن کو شہر کی تعریف میں بنیادی حیثیت حاصل ہے اس لیے اس چیز کا مدار بھی باقی بہت سے مسائل کی طرح عرف پر ہے جسے لوگ شہر کہیں وہ شہر ہے جو اس سے کچھ چھوٹا ہو وہ بڑا دیہات اور قصبہ ہے۔
مثلاً:شہر کی پہچان یہ ہے کہ اس میں گلی کوچے ہوں ، ڈاکخانہ، قبرستان ہو ، عمارتیں پختہ ہوں اور آپس میں ملی ہوئی ہوں ، مارکیٹیں ہوں اور ضرورت کی اکثر اشیاء اس جگہ سے مل سکتی ہوں۔ اس میں بادشاہ یا اس کا نائب ہو وہ جگہ کہ جس کی سب سے بڑی مسجد اس کی آبادی کے لیے کافی نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔
کسی جگہ کے شہر اور قصبہ ہونے کا مدار لوگوں کے عرف پر ہے جسے لوگ شہر کہیں وہ شہر ہے اور جسے لوگ بڑا دیہات سمجھیں وہ بڑا دیہات اور قصبہ ہے ایسی جگہ جمعہ کی نماز جائز ہے جسے لوگ چھوٹا گاؤں سمجھیں اس میں نماز جمعہ ناجائز ہے۔
غیر مقلدین کا موقف:
غیر مقلدین نے نہ صرف یہ کہ چھوٹے دیہاتوں میں نماز جمعہ کی فرضیت کا فتوی دیا بلکہ پوری امت سے ہٹ کر انتہائی غلو کرتے ہوئے جنگلوں میں بھی نماز جمعہ کو ضروری قرار دیا اور نہ پڑھنے والوں پر طرح طرح کی فتوی بازی کی۔
چنانچہ مشہور غیر مقلد عالم؛ نذیر حسین دہلوی لکھتے ہیں: جمعہ کا پڑھنا ہر جگہ فرض ہے خواہ شہر ہو یا گاؤں اور خواہ بڑا گاؤں ہو یا چھوٹا گاؤں۔
)فتاویٰ نذیریہ ج 1 ص577 ناشر مکتبہ ثنائیہ سرگودھا (
مزید لکھتے ہیں:پس جمعہ کے لیے اتنے آدمی ہونے چاہیں کہ جن سے جماعت ہو جاوے اور جماعت کے لیے کم از کم دو شخص ہونا چاہیے۔
)فتاویٰ نذیریہ ج 1 ص578 (
اگر کوئی ایسی بستی ہو کہ اس میں صرف دو ہی مسلمان ہوں تو ان پر بھی جمعہ فرض ہے۔
)فتاویٰ نذیریہ ج1 ص578 (
صحت جمعہ کے لیے مصر کا ہونا شرط نہیں ہے بلکہ ہر جگہ اور ہر مقام میں اقامت جمعہ صحیح ودرست ہے مصر ہو خواہ مصر نہ ہو۔
)فتاویٰ نذیریہ ج 1 ص579 (
مشہور غیر مقلد عالم عبدالرحمان مبارکپوری لکھتے ہیں:
ہر جگہ اور ہر مقام میں اقامت جمعہ درست ہے اور چھوٹے اور بڑے گاؤں کی تفریق نہیں آئی ہے کہ بڑے گاؤں میں تو جمعہ درست ہو اور چھوٹے گاؤں میں نا درست۔ بلکہ ہر جگہ اور ہر گاؤں میں خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو؛ اقامت جمعہ درست ہے۔
)فتاویٰ نذیریہ ج 1 ص579 فتاوی علمائے حدیث ج 4 ص 64(
معروف غیر مقلد عالم شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں:
مسلمانوں کو لازم ہے کہ صلاۃ جمعہ کو شعائر اسلام سمجھ کر اس کے ادا میں غفلت وسستی نہ کریں اور وہ لوگ خواہ شہروں میں ہوں یا دیہات میں، فرضیت اس کی ان کے گلے سے اترتی نہیں جس جگہ پر ہوں صلاۃ جمعہ کو جماعت سے ادا کریں ورنہ مہر شقاوت ان کے دلوں پر لگا دی جائے گی اور دل ان کا مثل دل منافق کے ہو جائے گا۔
)مجموعہ مقالات وفتاویٰ شمس الحق عظیم آبادی ص431 (
مزید لکھتے ہیں :صلاۃ جمعہ کہ عمدہ شعائر اسلام سے ہے اور فرضیت اس کی نص قطعی سے ثابت ہے ادا کرنا اس کا شہر وقصبات ودیہات ہر جگہ لازم وواجب ہے اور محض بنا بر تفسیر کرخی یا بلخی کے کہ وہ مقابل دلیل ظنی کے بھی نہیں ہے بلکہ ایک رائے محض ہے ترک کرنا امر قطعی کا بالکل نا فہمی اور ضعف ایمان کی نشانی ہے۔
)مجموعہ مقالات وفتاویٰ شمس الحق عظیم آبادی ص 464 (
غیر مقلد عالم عبدالستار الحماد لکھتے ہیں :
واضح رہے کہ نماز جمعہ فرض ہے اور اس کے لیے صرف جماعت کا ہونا ضروری ہے اور جماعت کا اطلاق کم از کم دو افراد پر کیا گیا ہے حدیث میں ہے کہ دو اور اس سے زیادہ افراد جماعت ہیں۔
)فتاویٰ اصحاب الحدیث ج 1 ص 404 ناشر مکتبہ اسلامیہ لاہور (
غیر مقلد عالم یونس قریشی لکھتے ہیں :
جمعہ کی نماز شہر اور گاؤں والوں پر فرض ہے جو لوگ گاؤں والوں پر جمعہ ساقط کرتے ہیں وہ اللہ کے فرض سے لوگوں کو روک رہے ہیں۔ اس کا خمیازہ آخرت میں ان کو بھگتنا پڑے گا۔
)دستور المتقی ص 159(
غیر مقلد عالم قاضی شوکانی لکھتے ہیں:
وھی کسائر الصلوات لا تخالفھا۔
جمعہ کی نماز دوسری نمازوں ہی کی طرح ہے ان کے خلاف نہیں ہے۔
)الدرالبھیہ مع شرح الروضۃ الندیہ ج 1 ص 134(
نواب صدیق حسن خان اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
جمعہ کی نماز کے دیگر نمازوں کےمخالف نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کوئی ایسی دلیل نہیں آئی جو جمعہ کی نماز کے دوسری نمازوں کے مخالف ہونے پر دلالت کرے۔
)الروضۃ الندیۃ ج1 ص 134 (
مزید لکھتے ہیں :اگر دو آدمیوں نے کسی ایسی جگہ جمعہ کی جماعت کرائی جہاں ان کے علاوہ کوئی اور نہ تھا تو انہوں نے وہی کیا جو ان پر واجب تھا۔
)الروضۃ الندیۃ ج 1 ص 134 (
مشہور غیر مقلد عالم عبدالستار دہلوی لکھتے ہیں:
جمعہ کی نماز اور نمازوں کی طرح ہے صرف جماعت کی اس میں شرط ہے یعنی امام کے سوا کم از کم ایک آدمی اور ہونا اور نماز سے پہلے دو خطبے پڑھنا۔
)فتاویٰ ستاریہ ج 1 ص 75(
مذکورہ عبارات سے معلوم ہوا کہ غیر مقلدین کے ہا ں ہر جگہ جمعہ فرض ہے چھوٹا دیہات ہو اور خواہ جنگل ہو جہاں دو آدمی بھی جمع ہوں جماعت سے جمعہ کی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ بلکہ ان دو پر جمعہ پڑھنا فرض ہے وگرنہ گناہ گار ہوں گے۔ جنگل میں دو آدمیوں پر جمعہ کے وجوب میں جو بنیادی بات پیش کی گی وہ یہ ہے کہ اس کو عام نمازوں پر قیاس کیا گیا ہے کہ جس طرح عام پنج وقتی نمازوں میں دو آدمی اپنی جماعت کروانا چاہیں تو کروا سکتے ہیں اسی طرح نماز جمعہ کی جماعت بھی کروائی جا سکتی ہے۔
نماز جمعہ عام پنج وقتی نمازوں کی طرح نہیں ہے:
چھوٹے دیہات اور جنگل میں جمعہ کو فرض بتاتے ہوئے جمعہ کو عام پنج وقتی نمازوں کی مثل قرار دیا گیا ہے ،حالانکہ نماز جمعہ اور عام پنج وقتی نمازوں میں کئی طرح کا فرق ہے جو کہ غیر مقلدوں کو بھی تسلیم ہے۔ مثلا :

1.

پنج وقتی نمازمسافر اور مقیم دونوں پر فرض ہے جبکہ مسافر پر نماز جمعہ فرض نہیں۔

2.

پنج وقتی نماز آزاد اور غلام دونوں پر فرض ہے جبکہ جمعہ غلاموں پر فرض نہیں۔

3.

پنج وقتی نماز عورتوں پر فرض ہے جبکہ نماز جمعہ ان پر فرض نہیں۔

4.

پنج وقتی نماز مجبوری کے وقت بغیر جماعت کے بھی پڑھی جا سکتی ہے جبکہ نماز جمعہ جماعت کے بغیر ادا نہیں ہوتی۔

5.

پنج وقتی نماز صحت مند اور مریض دونوں پر فرض ہے جبکہ نماز جمعہ ایسے مریض پر فرض نہیں جو خود چل کر جمعہ میں شریک نہیں ہو سکتا۔

6.

پنج وقتی نماز اگر اپنے وقت میں ادا نہ کی جا سکے تو بعد میں اس کی قضاء کی جا سکتی ہے جبکہ جمعہ اگر اپنے وقت میں ادا نہ کیا جا سکے تو بعد میں اس کی قضاء نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ ظہر کی نماز ادا کی جائے گی۔

7.

غیر مقلدین محلہ کی مسجد میں پنج وقتی نمازوں کی کئی جماعتیں کرواتے ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان کی مسجد میں ایک ہی دن میں جمعہ کی کئی جماعتیں ہوئی ہوں۔
جب خود غیر مقلد حضرات نماز جمعہ کے پنج وقتی نمازوں سے مندرجہ بالا فرقوں کے قائل ہیں تو پھر اس کو دوسری نمازوں پر کیوں قیاس کرتے ہیں ؟
غیر مقلدین کے موقف کی تردید غیر مقلد علماء سے :
شام کے مشہور غیر مقلد عالم جمال الدین محمد قاسمی کی ایک کتاب ”اصلاح المساجد“ کے نام خود غیر مقلد حضرات نے شائع کی ہے۔ جس کے شروع میں اس کتاب اور اس کے مصنف کا تعارف ان الفاظ میں تعارف کرایا گیا ہے :
اللہ تعالی کا شکر ہے کہ شام کے مشہور سلفی عالم شیخ جمال الدین قاسمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب اصلاح المساجد من البدع والعوائد میں ان تمام بدعات ورسومات اور متولیان وائمہ کی پیدا کردہ برائیوں پر خوب سیر حاصل بحث کی ہے حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی دکتھی رگ پکڑی ہے اور مساجد سے متعلق چھوٹی بڑی تمام باتوں پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
جن کو پڑھ کر مساجد سے متعلق شریعت کا حقیقی مطمح نظر کھل کر سامنے آ جاتا ہے اس کتاب کی صحت اور اہمیت اس لحاظ سے بھی اور بڑھ گی ہے کہ اس کی تصحیح اور احادیث کی تحقیق محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی نے فرمائی ہے، جو اس وقت پوری دنیا میں فن حدیث کے امام تسلیم کیے جاتے ہیں اس طرح یہ کتاب اردو زبان میں اپنے موضوع پر انوکھی اور مستند ہے۔ کتاب کا اردو ترجمہ ہندوستان کی مشہور اسلامی یونیورسٹی جامعہ سلفیہ بنارس کے ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازھری نے کیا ہے جو نہایت صحیح سلیس اور عام فہم ہے۔ )اصلاح المساجد ص 16 ناشر مکتبہ قدوسیہ لاہور (
اس کتاب میں غیر مقلدین کے موقف کی بھرپور تردید کی گئی ہے ،چنانچہ جمال الدین قاسمی لکھتے ہیں :
(1) فتح الباری میں جمعہ کی صحت کے لیے مشروط تعداد کے بارے میں علماء کے پندرہ اقوال مذکور ہیں بعض لوگوں نے ان میں سے اہل ظاہر کے قول کی تائید کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دو آدمیوں سے جمعہ صحیح ہو جائے گا اس کی دلیل یہ ذکر کی ہے کہ ایک آدمی کےدوسرے کے ساتھ ہونے سے اجتماع حاصل ہو جاتا ہے اور شارع نے دو پر جماعت کا اطلاق کیا ہے چنانچہ وارد ہے کہ الاثنان فما فوقھا جماعۃ دو اور دو سے زائد کیلئے جماعت کا حکم مزید کہا کہ دو سے با تفاق تمام نمازیں ہو جاتی ہیں اور جمعہ بھی نماز ہے جس کیلئے بغیر دلیل کو دوسرا حکم نہیں ہوگا اور زائد عدد کا اعتبار کرنے کی یہاں کوئی دلیل نہیں یہ بات بعض لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہوئی تو اسے حق صریح سمجھ کر تسلم کر لیا۔
لیکن میرا قول یہ ہے کہ اہل ظاہر بہت سے مسائل میں کھلے جمود اور مجادلانہ ہوس سے کام لیتے ہیں اور سفسطہ کا سہارا لے کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ وارد نہیں یہ صحیح نہیں اور ایسا نہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تمام تشریح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور اہل ظاہر کے مالوف اسلوب سے ہونی چاہیے لیکن یہ شریعت کے بہت سے ابواب میں اس کے مقاصد سے غفلت کی دلیل ہے اس کی حیثیت مغز کو چھوڑ کر چھلکے معنی کو نظر انداز کر کے لفظ اور روح سے بے توجہ برت کر جسم کو اختیار کرنے کے مانند ہے، عبادات میں جس سنت کا حکم ہے اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل اور تقریر سب داخل ہیں اور اصولی علماء اس پر متفق ہیں جمعہ کی اصل مشروعیت یہود و نصاری کے ہفتہ وار اجتماع کے با لمقابل ایک اجتماع کی غر ض سے ہے کیونکہ اس میں بڑے بڑے فوائد مضمر ہیں۔
) اصلاح المساجد ص 83، 84(
2: ابن المنذر کا قول ہے لوگوں کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے عہد میں جمعہ صرف مسجد نبوی میں پڑھا جاتا تھا اور جمعہ کے دن تمام مساجد کو چھوڑ کر ایک مسجد میں لوگوں کا اجتماع اس بات کا واضح ثبوت ہے جمعہ دوسری نمازوں سے مختلف ہے اور اسے ایک ہی جگہ پڑھا جا سکتا ہے۔
) اصلاح المساجد ص 87(
بقیہ : نزول عیسیٰ علیہ السلام کا وقت
رہ گئی یہ بات کہ پھر اتنے بڑے حضراتِ اکابر نے وقتِ عصر کیسے ذکر کر دیا؟ تو جاننا چاہیے کہ ان اکابرین سے اس مسئلے میں سہو ہو جانے سے ان کی شانِ میں فرق نہیں پڑتا، بلکہ یہ تو دلیل ہے کہ معصوم عن الخطا صرف حضرات انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات ہیں اور کوئی نہیں۔ نیز! یہ سہو اپنے سے متقدم کے اوپر اعتماد کرتے ہوئے نقل در نقل میں خطا کی قبیل میں سے ہے اور ایسا صرف انہی سے نہیں بلکہ بہت سے حضرات اکابرین سے صادر ہونا مشاہد ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل کے بعد مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول کا وقت ’’نمازِ فجر ‘‘ ہی بیان کیا جائے اور لکھا جائے، تاوقتیکہ نمازِ عصر کے وقت کی تصریح صحیح روایات سے سامنے آجائے۔