نماز جمعہ شہر اور بڑے دیہات میں ہی جائز ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر11:
……الشیخ محمد نواز الحذیفی ﷾
نماز جمعہ شہر اور بڑے دیہات میں ہی جائز ہے!
:3 جو عرب قبیلے مدینہ کے گردو پیش میں رہتے تھے وہ وہاں پر جمعہ نہیں پڑھتے تھے اور نہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان تمام منفی اشیا ء کا ماخذ استقراء ہے کیونکہ مدینہ میں مسجد نبوی کے علاوہ اجتماع کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ ترمذی نے قباء کے ایک شخص سے اور انہوں نے اپنے والد سے جو صحابی تھے روایت کیا کہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا تھا کہ قباء سے جمعہ میں حاضر ہوں۔
ان احادیث و آثار اور اثر اول کے اتفاق سے یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ کھلے طور پر جمعہ کا مقصد کثیر جماعت ہے جس کیلئے جمعہ مشروع ہوا ہے اور اسی سے جمعہ کو وہ حیثیت بھی حاصل ہو گئی جو اہل کتاب کے دونوں دنوں کو حاصل ہے۔
اہل ظاہر پر تعجب ہوتا ہے کہ ان چیزوں سے وہ غافل ہیں اور اس اجتماع کے راز کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں مزید تعجب اس بات پر ہے کہ انہوں نے جمعہ کے لفظ پر غور نہیں کیا صحابہ نے اس دن کو یہ نام دیا اور قرآن نے اس کی تائید کی۔ تومحض اس لیے کہ اس دن اجتماع زیادہ ہوتا ہے اس کی مزید توضیح ذیل میں درج ہے۔
قاموس اور اس کی شرح میں مذکور ہے کہ جمعہ کا لفظ ج کے پیش اور م کے سکون دونوں حرف کے پیش اور ج کے پیش اور م کے زبر کے ساتھ صحیح ہے اس سے مشہور دن مراد ہے اس نام سے اسے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس دن میں مسجد کے اندر سب لوگ جمع ہوتے ہیں جن لوگوں نے اسے ج کے پیش اور م کے زبر کے ساتھ پڑھا ہے وہ اس دن کے اندر لوگوں کے اجتماع کثیر کو ملحوظ رکھتے ہیں جیسا کہ ہمزہ؛ لمزۃ اور صحکۃ کے الفاظ کے معانی سے واضح ہے یعنی بہت عیب جو طعنہ زن اور ہنسنے والا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ اہل لغت اس بات پر متفق ہیں کہ فُعْلَۃاور فُعَلَۃ دونوں وزن مبالغہ کے ہیں پہلا مفعول کے مبالغہ کو اور دوسرا فاعل کے مبالغہ کو بتایا ہے اس لیے جمع کا معنیٰ ہو گا۔ جمع کی گئی چیز یا جمع کرنے والوں کی کثرت۔ اور کوئی شخص نص اور اجماع کے بغیر اپنی رائے سے اس لفظ کو اس کے لغوی مفہوم سے علیحدہ نہیں کر سکتا جس کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے عمل سے ہوتی ہے۔
)اصلاح المساجد ص 88 'ص 89 (
4: ظاہر یہ کے موقف پر مزید نظر ڈالتے ہوئے ہم یہ کہتے ہیں الاثنان فما فوقھا جماعۃسے استدلال کرتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ شریعت کی اصطلاح میں جماعت اور جمعہ میں فرق ہے۔
جمعہ کا لفظ حدیث میں ہوتا تو استدلال صحیح ہوتا علاوہ ازیں یہ حدیث ضعیف ہے جیسا کہ سخاوی نے المقاصدالحسنۃ میں بتایا ہے اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جمعہ کے علاوہ فرض نمازوں میں کسی نماز میں صرف دو آدمی ہوں تو ایک امام اور دوسرا مقتدی ہو اس طرح ان کی نماز ہو جائے گی۔
اس سے شارع کا مقصد یہ ہے کہ فرض ادا کرنے میں دو آدمیوں کو بھی مل جانا چاِہیے اس طرح یہ وہم ختم ہو جائے گا کہ جماعت کے لیے کثیر تعداد ضروری ہے اور اس سے عبادت کے اندر تعاون واتحاد پیدا ہو گا۔
اہل ظاہر کا یہ قول کہ جمعہ سوائے جماعت کی شرط کے دوسری نمازوں سے مختلف نہیں غلو اور جمود پر مبنی ہے کیونکہ جمعہ کی شرائط، سنن ،آداب اور دوسرے اہتمامات جن کا تذکرہ حدیث کی کتابوں کے طویل ابواب میں وارد ہے یہ تمام امور اس کے دیگر نمازوں سے مختلف ہونے کو یقینی بنا رہے ہیں ابن قیم نے زاد المعاد میں جمعہ کے تیس سے زائد خصائص کا تذکرہ کیا ہے۔
) اصلاح المساجد ص 91؛ 92 (
5: تعجب یہ ہے کہ ظاہر یہ جمعہ کے لیے جماعت کی شرط کس طرح مان گئیے ؟ مکمل جمود کا تقاضا تو یہ تھا کہ دوسری نمازوں کی طرح اس کے لیے بھی جماعت کی شرط ضروری نہ ہوتی ممکن ہے کہ جماعت کی شرط پر اجماع کی وجہ سے انہوں نے ایسا کیا ہو لیکن اس سے ان کے خلاف استدلال ہی کے لیے راہ ہموار ہو گئی اس لیے کہ علماء اصول اس بات پر متفق ہیں۔
کہ اجماع کیلئے قرآن یاحدیث قولی یا فعلی کا ہونا ضروری ہے اور اس اجماع کی سند نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے اور اس سند کا لحاظ کرتے ہوئے یہ کہنا کہ جمعہ دو آدمیوں سے صحیح ہوجائے گا غلط ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اہل مدینہ کے اجتماع سے جمعہ قائم کیا تھا اور اہل عوالی یا مدینہ کے گردو پیش رہنے والے دوسرے لوگوں کو آپ نے یہ اجازت دی کہ وہ خود جمعہ پڑھیں۔
)اصلاح المساجد ص 92(
مذکورہ عبادات سے اس نظریے کی بھرپور تردید ہوگئی کہ دو آدمی جہاں بھی موجود ہوں جمعہ کی نماز ادا کر سکتے ہیں حالانکہ یہ روایت جمعہ کے علاوہ دوسری نمازوں کیلئے ہے ؟ اور ہے بھی ضعیف جیسا کہ جمال الدین قاسمی صاحب نے ص 91 پر لکھا ہے اور ناصر الدین البانی صاحب جو کہ اس طبقہ کے امام ہیں وہ بھی حاشیے میں اس روایت کو ضعیف کہتے چنانچہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام طرق ضعیف ہیں بعض کا ضعف بہت زیادہ ہے جیسا کہ میں نے ارواع الغلیل [ 482] میں بیان کیا ہے۔
) اصلاح المساجد ص 84(
جس روایت کو بنیاد بناکر ہر جگہ میں دو آدمیوں کے جمعہ پڑھنے کے نظریہ کو اختیار کیا گیا ہے جب وہی ضعیف ہے اور ہے بھی جمعہ کے علاوہ دوسری نمازوں کیلئے تو پھر اس سے استدلال کیسے درست ہوگا؟
اگر روایات کے عموم سے خصوصی مسائل ثابت ہوسکتے ہیں اور اس کی بنیاد پر ہر جگہ جماعت سے دو آدمی نماز جمعہ پڑھ سکتے ہیں کہ وہ جماعت کا مصداق ہیں تو پھر ایک آدمی اکیلا جمعہ کیوں نہیں پڑھ سکتا ؟ حالانکہ غیر مقلدین ایک آدمی کے جماعت ہونے کے بھی قائل ہیں۔
چنانچہ مشہور غیر مقلد عالم رئیس ندوی صاحب نے لکھا ہے اور اہل سنت کے مذھب پر ایک ہی آدمی قائم ہو تو وہی جماعت اہل سنت ہے حضرت ابراھیم علیہ السلام ایک دور میں تنے تنہا مومن تھے انہیں قرآن مجید نے پری امت قرار دیا ہے اور پوری دنیا کے گمراہ اکثریتی فرقوں کو کفار و مشرک و حق بتلایا ہے اور حدیث نبوی میں کسی بھی فرد کو امت کہا گیا ہے۔
) مجموعہ مقالات پر سلفی تحقیقی جائزہ ص 299(
اس کے عموم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک آدمی کے جمعہ پڑھنے کا نظریہ کیوں اختیار نہیں کیا جاتا؟
غیر مقلدین کے نظریے کی تردید کے لیے اتنا کافی ہے:
نماز جمعہ مکہ مکرمہ میں فرض ہو چکی تھی لیکن نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کی شرانگیزیوں کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں نماز جمعہ قائم نہیں فرمائی۔ ہاں البتہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ طیبہ میں جمعہ کی نماز کے قیام کا حکم فرمایا چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے:
عن المغیرۃ بن عبدالرحمٰن عن مالک عن الزہری عن عبیداللہ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَذِنَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْجُمُعَةَ قَبْلَ أَنْ يُهَاجِرَ وَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَجْمَعَ بِمَكَّةَ فَكَتَبَ إلَى مُصْعَبِ بْنِ عُمَيْرٍ "أَمَّا بَعْدُ فَانْظُرْ الْيَوْمَ الَّذِي تَجْهَرُ فِيهِ الْيَهُودُ بِالزَّبُورِ فَاجْمَعُوا نِسَاءَكُمْ وَأَبْنَاءَكُمْ فَإِذَا مَالَ النَّهَارُ عَنْ شَطْرِهِ عِنْدَ الزَّوَالِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَتَقَرَّبُوا إلَى اللَّهِ۔ قال فھو اول من جمع حتی قدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم المدینۃ مجمع عندالزوال من الظہر و اظہر ذالک۔ رواہ الدار قطنی کما فی التلخیص الحبیر۔ ج 1 ص 133
)اعلاء السنن مترجم :ج 2 ص324(
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ ہی میں جمعہ قائم کرنے کی اجازت ہو چکی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں غلبہ کفار کی وجہ سے جمعہ کا انتظام نہ کر سکے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ تم اس روز کو دیکھو جس دن یہود زبور بلند آواز سے پڑھتے ہیں اور اپنی عورتوں اور بچوں کو جمع کرو پس جس وقت جمعہ کےروز دن ڈھل جائے تودو رکعتیں پڑھ کر خدا سے تقرب حاصل کرو۔ چنانچہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ پہلے وہ شخص تھے جنہوں نے جمعہ کا اہتمام کیا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور زوال کے وقت کے بعد جمعہ پڑھایا اور اس کو ظاہر کیا۔ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ اس روایت کو نقل کر کے فرماتے ہیں :
ولعلہ اخرجہ فی غرائب مالک فانی لم اجدہ فی سننہ والمذکور من السند رجالہ کلہم ثقات من رجال الصحیح و فی المغیرہ کلام لا یضر۔ فقد وثقہ ابن معین و ابن حبان و ابو زرعۃ واخرج لہ البخاری فی الصحیح۔ )تہذیب 10/264(وعادۃ المصنفین ان مایحذفونہ من الاسناد یکون سالماً من الکلام و ذکرہ الحافظ فی الفتح )2/294(ایضاً مختصرا فھو اما حسن او صحیح علی قاعدتہ۔
)اعلاء السنن مترجم ج 2 ص 325(
)اور شاید کہ علامہ دار قطنی نے اس روایت کو غرائب مالک میں نقل کیا ہے سنن دار قطنی میں یہ روایت مجھے نہیں ملی (اس روایت کی جو سند ذکر کی گئی ہے اس کے سب آدمی ثقہ اور صحیح کے رجال میں سے ہیں اور راوی مغیرہ کے متعلق کلام مضر نہیں ہے۔ اس لیے کہ علامہ ابن معین ، علامہ ابن حبان ، علامہ ابو زرعہ نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے اور امام بخاری نے بھی صحیح بخاری میں اس سے روایت لی ہے۔ )تہذیب 10/264(اور مصنفین کی عادت ہے کہ وہ کلام سے محفوظ اسناد کو حذف کر دیتے ہیں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری )2/294(میں اس روایت کو مختصر ذکر کیا ہے۔ سو یہ روایت ان کے قاعدے کے مطابق یا تو حسن ہے یا صحیح۔
حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی ایک روایت معجم کبیر اور معجم اوسط طبرانی میں مروی ہے جس سے مذکورہ حدیث کی تائید ہوتی ہے چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس روایت کو نقل کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
عن ابی مسعود الانصاری رضی اللہ عنہ قال : اول لمن قدم المہاجرین المدینۃ مصعب بن عمیر وھو اول من جمع بھا یوم الجمعۃ جمعھم قبل ان یقدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھم اثنا عشر رجلا۔
) تلخیص الحبیر ج 2 ص 56(