ایک رکعت وتر کا تحقیقی جائزہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ایک رکعت وتر کا تحقیقی جائزہ
……متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن ﷾
غیر مقلدین ایک رکعت وتر پڑھتے ہیں اور دلیل کے طور پر چند احادیث پیش کرتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان کے مؤقف کی حقیقت کیا ہے ؟
دلیل نمبر1: حدیث عائشہ بروایت سعد بن ہشام :
حضرت سعد بن ہشام انصاری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا :
أنبئيني عن وتر رسول الله {صلى الله عليه وسلم} فقالت كنا نعد له سواكه وطهوره فيبعثه الله متى شاء أن يبعثه من الليل فيتسوك ويتوضأ ويصلي تسع ركعات لا يجلس فيها إلا في الثامنة۔۔۔۔ الخ
)صحیح مسلم ج1ص256(
ترجمہ: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں بتلائیے، فرمایا: ہم آپ کے لیے مسواک اور پانی تیار کر رکھتے تھے، رات کے کسی حصہ میں اللہ تعالی آپ کو بیدار کرتے تو آپ مسواک کرتے، وضو کرتے اور نو رکعتیں پڑھتے، ان میں صرف آٹھویں رکعت پر بیٹھتے، پس اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے، حمد و ثناء کرتے، دعا مانگتے، پھر اس طرح سلام پھیرتے کہ ہمیں سن جاتا، پھر سلام کے بعد دورکعتیں بیٹھ کر پڑھتے پس یہ کل گیارہ رکعتیں ہوئی، پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سن رسیدہ ہوگئے اور بدن بھاری ہوگیا، تو سات رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔
اور دو رکعتیں اس طرح پڑھتے تھے جس طرح پہلے پڑھا کرتے تھے پس یہ کل نوکعتیں ہوئیں۔
طرز استدلال:
پہلے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی نو رکعتیں پڑھتے تھے، ان میں صرف آٹھویں رکعت پر قعدہ فرماتے تھے اور نویں رکعت پر سلام پھیرتے تھے، اور آخری زمانے میں سات وتر پڑھتے تھے، ان میں چھٹی رکعت پر بغیر سلام قعدہ کرتے اور ساتویں رکعت پر سلام پھیرتے تھے معلوم ہوا کہ وتر ایک رکعت ہے۔
جواب:
قارئین کرام !آپ نے غیر مقلدین کی دلیل دیکھ لی اور ان کا طرز استدلال بھی ملاحظہ کر لیا۔ اب آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں :مذکورہ حدیث اسی سند سے سنن نسائی ج1ص248، موطا امام محمد ص151 طحاوی شریف ج1ص137 مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص295 دار قطنی ج1 ص175 اور بیہقی ج3ص31 پر ان الفاظ سے مروی ہے:
کان النبی صلی اللہ علیہ و سلم لا یسلم فی رکعتی الوتر
ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم وتر کی دو رکعتوں پر سلام نہیں پھیرتے تھے۔
اور مستدرک حاکم ج1ص304 میں یہی حدیث ان الفاظ سے ہے:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوتر بثلاث لا یسلم الا فی آخرہن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر پڑھا کرتے تھے او رصرف ان کے آخر میں سلام پھیرا کرتے تھے۔
مسند احمد ج6ص156 میں سعد بن ہشام کی یہی حدیث ان الفاظ میں ہے:
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلی العشاء دخل المنزل ثم صلی رکعتین ثم صلی بعدہما رکعتین اطول منہما ثم اوتر بثلاث لا یفصل بینہن ثم صلی رکعتین وھو جالس۔
ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز عشاء سے فارغ ہوکر گھر میں تشریف لاتے تو پہلے دو رکعتیں پڑھتے پھر دو رکعتیں ان سے طویل پڑھتے پھر تین رکعتیں (وتر) پڑھتے ایسے طور پر کہ ان کے درمیان سلام کا فاصلہ نہیں کرتے تھے، پھر بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
ملحوظہ:
یہ ایک ہی راوی کی روایت کے مختلف الفاظ ہیں، ان تمام طرق و الفاظ کو جمع کرنے سے درج ذیل امور واضح ہوجاتےہیں:
1: سعد بن ہشام کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کل گیارہ رکعتیں ادا کرتے تھے، جن میں وتر اور وتر کے بعد کے دو نفل بھی شامل تھے۔
2: ہر دو رکعت پر قعدہ کرتے تھے۔
3: ان میں تین رکعتیں وتر کی ہوتی تھیں۔
4: وتر کی دو رکعتوں پر قعدہ کرتے تھے، مگر سلام نہیں پھیرتے تھے۔
5: وتر کے بعد بیٹھ کر دو نفل پڑھتے تھے۔
خلاصہ کلام :
روایت بالا میں وتر سے پہلے اور بعد کے نوافل کو ملا کر ذکر کردیا گیا، جس کی وجہ سے اشکال پیدا ہوا ہے حالانکہ سائل کا سوال صلوٰۃ اللیل کے بارے میں میں نہیں بلکہ وتر کے بارے میں تھا، اسی لیے جواب میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے صلوٰۃ اللیل کی رکعات کو تو اجمالا بیان فرمایا اور ان رکعات میں سے جو رکعات وتر کی تھیں ان کی تفصیل بیان فرمائی کہ آٹھویں رکعت پر جو وتر کی دوسری رکعت تھی قعدہ فرماتے تھے مگر سلام نہیں پھیرتے تھے اور نویں رکعت پر جو وتر کی تیسری رکعت تھی، سلام پھیرتے تھے۔
تنبیہ: صحیح مسلم میں امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا جو یہ ارشاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعتیں پڑھتے تھے ان میں نہیں بیٹھتے تھے مگر آٹھویں رکعت میں پس ذکر و حمد اور دعا کے بعد اٹھ جاتے تھے اور سلام نہیں پھیرتے تھے بلکہ نویں رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔
) صحیح مسلم ج1ص256(
اس روایت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان آٹھ رکعتوں میں قعدہ ہوتا ہی نہیں تھا۔ کیوں کہ یہ مضمون خود امی عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی احادیث کے خلاف ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ آٹھویں رکعت پر بغیر سلام کے جو قعدہ فرماتے تھے، پہلی رکعتوں میں اس طرح کا قعدہ نہیں فرماتے تھے بلکہ ما قبل کی رکعتوں میں ہر دوگانہ پر سلام پھیرتے تھے۔
مذکورہ بالا تفصیل سے سعد بن ہشام کی مختلف روایات میں تطبیق ہوجاتی ہے ان میں اب کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا، اگر ایک ہی راوی کی روایت ایک ہی سند مختلف الفاظ میں مروی ہو تو اس کو مختلف واقعات پر محمول کر کے یہ سمجھ لینا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ایسا کرتے ہوں گے، اور کبھی ایسا کرتے ہوں گے یہ طرز فکر درست نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک واقعہ کی مختلف تعبیرات ہیں، ایک ہی واقعہ کو نقل کرنے والے جب مختلف الفاظ اور مختلف انداز میں نقل کردیں تو وہ متعدد واقعات نہیں بن جاتے۔
دلیل نمبر2: حدیث عائشہ بروایت عروہ بن زبیر:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے خواہر زادہ سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ام المؤمنین سے روایت کرتے ہیں:
كان يُصلِّي بالليل إِحدى عَشرَةَ ركعة ، يُوتِر منها بواحدة، فإذا فرغ منها اضطجع على شِقِّهِ حتى يأْتيَهُ المؤذِّنُ ، فيصلِّي ركعتين خفيفتين۔
)صحیح مسلم ج1ص253(
ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم رات میں گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، ان میں سے ایک رکعت سے وتر کیا کرتے تھے۔
جواب:
سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے وتر سے متعلق مختلف روایات مروی ہیں، مثلا: طحاوی ج1ص138، پر موجود روایت کے الفاظ یہ ہیں:
کان یصلی باللیل ثلٰث عشرۃ رکعۃ ثم یصلی اذا سمع النداء رکعتین خفیفتین .
اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات میں تیرہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے، جب کہ پہلی روایت میں گیارہ رکعات کا ذکر ہے تو ہم اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی ان روایات میں نہ کوئی تعارض ہے نہ ہی متعدد واقعات پر محمول ہیں، بلکہ یہ ایک ہی واقعہ کی مختلف تعبیرات ہیں۔
جس روایت میں یہ ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعت پڑھتے تھے ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھےاور ایک رکعت سے وتر کیا کرتے تھے، اس میں دو حکم الگ الگ بیان کیے گئے ہیں1: ہر دو رکعت پر قعدہ کرنا 2: ایک رکعت کو ماقبل کے دوگانہ سے ملا کر وتر بنانا، ان دو حکموں میں سے پہلا حکم وتر سے قبل آٹھ رکعتوں سے متعلق ہے اور دوسرا حکم وتر کی تین رکعات سے متعلق ہے لہذا روایت بالا کا یہ مطلب نہیں کہ وتر کی تنہا ایک رکعت پڑھتے تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ گیارہویں رکعت کو ماقبل دوگانہ سے ملا کر وتر بناتے تھے۔ہماری اس توجیہ پر دو قرینے پیش خدمت ہیں۔
قرینہ نمبر1:
خود سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ متواتر روایات جن میں تین رکعات وتر کی صراحت ہے، مثلا:
1: ثم یصلی ثلاثا
)صحیح بخاری ج1ص154، صحیح مسلم ج1ص254،سنن ابو داود ج1ص189(
2: عن سعد بن ہشام ان عائشۃ حدثتہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان لا یسلم فی رکعتی الوتر
)سنن نسائی ج1ص248، موطا امام محمد ص151(
3: عن عمرۃ عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یوتر بثلاث یقرا فی الرکعۃ الاولیٰ بسبح اسم ربک الاعلیٰ۔۔۔ الخ
)مستدرک حاکم ج1ص305(
قرینہ نمبر2:
خود سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا تین رکعت پر فتوی موجود ہے:
عن ابی الزناد عن السبعۃ سعید ابن المسیب و عروۃ بن الزبیر والقاسم بن محمد۔۔۔۔۔ ان الوتر ثلاث لا یسلم الا فی آخرہن۔۔
)سنن طحاوی ج1ص145(
دلیل نمبر3: حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اسی مقصد کے لیے قیام کیا تھا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کا مشاہدہ کریں۔
یہ روایت مختلف طرق والفاظ سے مروی ہے، ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:
عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ نِمْتُ عِنْدَ مَيْمُونَةَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَقُمْتُ عَلَى يَسَارِهِ فَأَخَذَنِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِه فَصَلَّى ثَلَاثَ عَشَرَةَ رَكْعَةً ثُمَّ نَامَ حَتَّى نَفَخَ وَكَانَ إِذَا نَامَ نَفَخَ ثُمَّ أَتَاهُ الْمُؤَذِّنُ فَخَرَجَ فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ۔
)صحیح بخاری ج1ص97(
اس کے تین جواب ہیں۔
جواب1:
اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتےہیں:
والحاصل أن قصة مبيت ابن عباس يغلب على الظن عدم تعددها فلهذا ينبغي الاعتناء بالجمع بين مختلف الروايات فيها ولا شك أن الأخذ بما اتفق عليه الأكثر والأحفظ أولى مما خالفهم فيه من هو دونهم ولا سيما أن زاد أو نقص۔
)فتح الباری ج2ص388 طبع مصر (
الحاصل: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے کاشانہ نبوت میں رات گزارنے کا واقعہ غالب خیال یہ ہے کہ ایک ہی بار کا ہے، اس لیے اس سلسلے میں جو مختلف روایات وارد ہیں ان کو جمع کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے اور کوئی شک اس حصہ کو لینا نہیں کہ جس پر اکثر اور احفظ متفق ہوں وہ اولیٰ ہوگا، بہ نسبت اس حصہ کے جس میں اختلاف ہو اور ان راویوں کے جو ان سے فرو تر ہوں، خصوصا جہاں کمی یا زیادتی ہو۔
جواب2:
خود سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تیر رکعت وتر کی صراحت ہے، مثلا:
1: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے علی بن عبداللہ کی روایت ہے:
ثم اوتر بثلاث۔
)صحیح مسلم ج1ص261، سنن طحاوی ج1ص140(
2: یحییٰ بن الجزار کی روایت ہے:
کان یصلی من اللیل ثمان رکعات و یوتر بثلاث و یصلی رکعتین قبل صلوٰۃ الفجر۔
)سنن نسائی ج1ص149(
3: کریب مولی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے:
فصلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکعتین بعد العشاء ثم رکعتین ثم رکعتین ثم رکعتین ثم اوتر بثلاث۔
)سنن طحاوی ج1ص141(
جواب3:
خود سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا اپنا فتویٰ تین رکعت وتر کا ہے جیسا کہ حضرت ابو منصور فرماتے ہیں:
سالت ابن عباس رضی اللہ عنہما عن الوتر فقال ثلاث۔
)سنن طحاوی ج1ص141(
خلاصہ کلام:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما قصہ کی تمام روایات کو جمع کیا جائے، تو ان میں متعدد روایات میں تین وتر کی تصریح ہے، اور باقی روایات اس کے لیے محتمل ہیں اس لیے ان روایات کو بھی تین ہی وتر پر محمول کیا جائے گا، ان کو الگ الگ واقعات پر محمول کر کے وتر کی مختلف صورتیں قرار دینا کسی طرح بھی صحیح نہیں، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالے سے گزرچکا ہے یہ ایک ہی واقعہ کی مختلف تعبیرات ہیں، ان مختلف تعبیرات سے نہ تو کئی واقعات کو کشید کرنا درست ہے نہ ہی جواز وتر کی مختلف صورتیں پیدا کرنے کی سعی کرنا ٹھیک ہے۔
دلیل نمبر4: حدیث ام سلمہ رضی اللہ عنہا:
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے یحیی ٰ جزار کی روایت ہے:
کان یصلی من اللیل احدیٰ عشرۃ رکعتۃ فلما کبر وضع اوتر بسبع۔
)جامع الترمذی ج1ص60، سنن نسائی ج1ص251(
جواب:
یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مطابق ہے، اور ماقبل میں یہ تصریح گزر چکی ہے کہ ان میں آٹھ رکعتیں نوافل کی اور تین وتر کی ہوتی تھیں مگر مجموعہ صلوٰۃ اللیل کو لفظ وتر سے تعبیر کردیا گیا، جیسا کہ خود امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کے ذیل میں امام اسحاق بن ابراہیم سے اس کی تصریح نقل کرتے ہیں:
انما معناہ انہ کان یصلی من اللیل ثلاث عشرۃ رکعۃ مع الوتر فنبست صلوۃ اللیل الی الوتر۔
)جامع الترمذی ج1ص60(
دلیل نمبر5: حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما:
صحیحین میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
ان رجلا سال النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن صلوٰۃ اللیل فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صلوٰۃ اللیل مثنیٰ مثنیٰ فاذا خشی احدکم الصبح صلی رکعۃ واحدۃ توتر لہ ما قد صلّٰی۔
)صحیح بخاری ج1ص136، صحیح مسلم ج1ص257 (
اسی طرح صحیح مسلم میں سیدنا ابن عباس اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم سے مرفوعا مروی ہے:
الوتر رکعۃ من آخر اللیل۔
)صحیح مسلم ج1ص257(
اس کے تین جواب ہیں۔
جواب1:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وتعقب بانہ لیس صرد کافی الفصل فیحتمل ان یرید بقولہ صلیٰ رکعۃ واحدۃ ای مضافۃ الی رکعتین مما مضیٰ۔
)فتح الباری شرح صحیح بخاری ج2ص385(
ترجمہ: یہ حدیث ایک رکعت کے الگ پڑھنے پر صریح نہیں، کیوں کہ احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہو کہ گزشتہ دو رکعتوں کے ساتھ ایک اور رکعت ملا کر تین وتر پڑھے۔
وجہ یہ ہے کہ وتر (طاق) ہونا آخری رکعت پر موقوف ہے، جس کے ذریعے نمازی اپنی نماز کو وتر (طاق) بنائے گا، اس کے بغیر خواہ ساری رات بھی نماز پڑھتا رہے اس کی نماز وتر نہیں بن سکتی اس حقیقت کے اظہار کے لیے ایک دوسری تعبیر یہ اختیار فرمائی گئی الوتر رکعۃ من آخر اللیل وتر ایک رکعت ہے رات کے آخری حصہ میں۔
جواب2:
الوتر رکعۃ من آخر اللیل
بالکل ایسے ہی ہے جیسے حج کے بارے میں فرمایا گیا ہے الحج عرفۃ۔
)جامع الترمذی ج1ص178(
اس کا مطلب یہ ہے کہ وقوف عرفات کے بغیر حج کی حقیقت متحقق نہیں ہوتی، لیکن اس جملہ سے کوئی عاقل و سمجھ دار آدمی یہ مطلب ہرگز نہیں لے گا کہ حج کی پوری حقیقت بس وقوف عرفہ ہی ہے اس کے لیے نہ احرام کی ضرورت ہے اور نہ دوسرے مناسک کی، بعینہ اسی طرح الوتر رکعۃ من آخر اللیل کا مطلب یہ ہے کہ ما قبل کی نماز کے ساتھ جب تک ایک رکعت کو نہ ملایا جائے تب تک وتر کی حقیقت متحقق نہیں ہوگی اس فرمان کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وتر کی پوری حقیقت ہی بس ایک رکعت ہے، اسی مفہوم کو دوسرے پیرائے میں یوں تعبیر کیا گیا ہے۔
صلوۃ اللیل مثنیٰ مثنیٰ فاذا خشی احدکم الصبح صلیٰ رکعۃ واحدۃ توتر لہ ما قد صلیٰ۔
اس فرمان پاک کا واضح مطلب اور بے غبار مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ رات کو دو دو رکعت نماز پڑھنی چاہیئے جب صبح کے طلوع ہونے کا اندیشہ ہو تو آخری دو گانہ کے ساتھ ایک رکعت اور ملالے، جس سے اس کی نماز وتر بن جائے گی۔
جواب3:
خود سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک بھی وتر کی تین رکعتیں ہیں سیدنا عامر الشعبی فرماتے ہیں:
سالت ابن عمر وابن عباس رضی اللہ عنہم کیف کان صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باللیل فقالا ثلث عشرۃ رکعۃ ثمان ویوتر بثلاث، ورکعتین بعد الفجر۔
)سنن طحاوی ج1ص136(
دلیل نمبر6: حدیث ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ:
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الوتر حق علی کل مسلم فمن احب ان یوتر بخمس فلیفعل ومن احب ان یوتر بثلاث فلیفعل ومن احب ان یوتر بواحدۃ فلیفعل۔
)سنن ابو داود ج1ص208(
اس کے دو جواب پیش خدمت ہیں۔
جواب1:
محدثین کرام کے ہاں اس روایت پر کلام ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے یا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ التلخیص الحبیر ج2ص13 پر لکھتے ہیں:
وصحح ابو حاتم والذہلی والدار قطنی فی العلل والبیہقی وغیر واحد وقفہ وھو الصواب۔
ابو حاتم، ذہلی دار قطنی، نے علل میں اور بہت سے حضرات نے اس کو موقوفا صحیح کہا اور یہی درست ہے۔
یعنی صحیح اور درست بات یہ ہے کہ روایت بالا سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا ذاتی قول ہے، حدیث مرفوع کی حیثیت سے صحیح نہیں ہے۔
جواب2:
علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ہو معمول علی انہ کان قبل استقراءہا لان الصلوٰۃ المستقرۃ لا یخیر فی اعداد رکعاتہا۔
)عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ج5ص215(
ا س پر قرینہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت کے یہ الفاظ ہیں:
قال: الوتر حق علی کل مسلم فمن احب ان یوتر بخمس رکعات فلیفعل ومن احب ان یوتر بثلاث فلیفعل ومن احب ان یوتر بواحدۃ فلیفعل ومن لم یستطع الا ان یومی ایماء فلیفعل۔
)مصنف عبدالرزاق ج2ص295 رقم 4645باب کم الوتر عمدۃ القاری ج5ص245(
خلاصہ کلام :
مذکورہ حدیث اول تو مرفوع نہیں ہے، بلکہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا ذاتی قول ہے دوم، اس میں اضطراب ہے، بعض روایتوں میں پانچ تین ایک کاذکر ہے بعض میں صرف ایک کا اور بعض میں اشارہ تک کی اجازت دی گئی ہے، ایسی صورت میں یہ کہنا انتہائی مشکل ہے کہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر کے جواز کا فتوی دیتے تھے۔
دلیل نمبر7: حدیث امیر معاویہ رضی اللہ عنہ:
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ وتر ایک رکعت پڑھتے تھے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات بتائی گئی تو آپ نے کیا جواب دیا؟ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عن ابن ابی ملیکۃ قیل لابن عباس رضی اللہ عنہما ہل لک فی امیر المومنین معاویۃ فانہ ما اوتر الا بواحدۃ قال اصاب انہ فقیہ .
)صحیح بخاری ج1ص531(
اور ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں دعہ فانہ قد صحب
معلوم ہوا کہ ایک رکعت وتر کا جواز صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
جواب:
یہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذاتی اجتہاد تھا صحیح حدیث کی رو سے مجتہد کو خطاء پر بھی اجر ملتا ہے۔
2: یہ عمل صحابی ہے جو تمہارے نزدیک حجت نہیں۔
)نزل الابرار ص101(
3: اس حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اس وقت ماحول ایک رکعت پڑھنے کا نہیں بلکہ تین رکعت پڑھنے کا تھا ورنہ دیکھنے والا کبھی اعتراض نہ کرتا۔
4: علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
دعہ ای اترک القول فیہ والانکار علیہ
)عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ج11ص466(
5: علامہ محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واما قولہ دعہ فانہ قد صحب وقولہ اصاب انہ فقیہ معناہ اصاب فی زعمہ لانہ مجتہد واراد بذالک زجر التابعین الصغار عن الانکار علی الصحابۃ الکبار لا سیما علی الفقہاء المجتہدین منہم۔
)امانی الاحبار ج4ص252(
6: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل جب مشہور ہوا تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بڑی شدت سے اس کا انکار فرمایا۔
)سنن طحاوی ج1ص203(
آخری بات:
حقیقت میں وتر ایک رکعت نہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محض ایک رکعت وتر پڑھنا کسی بھی صحیح حدیث سے بالکل ثابت نہیں۔
1: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ التلخیص الحبیر میں امام رافعی کےحوالے سے حافظ ابن صلاح کا یہ قول نقل کرتے ہیں:
لا نعلم فی روایات الوتر مع کثرتہا انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام اوتر بواحدۃ فحسب۔
)التلخیص الحبیر ج2ص15 (
ترجمہ: وتر کی روایات کی کثرت کے باوجود ہمیں معلوم نہیں کہ کسی روایت میں یہ آتا ہو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی صرف ایک رکعت وتر پڑھی ہو۔
2: سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نہی عن البتیراء ان یصلی الرجل رکعۃ واحدۃ یوتر بہا۔
)التمہید لابن عبدالبر ج5ص275(
3: سیدناابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں: مااجزات رکعۃ واحدۃ قط۔
)موطا امام محمد ص150 باب السلام فی الوتر (
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ غیر مقلدین کے پیش کردہ دلائل بہت کمزور ہیں۔ جبکہ ہم نے تعداد رکعات وتر میں جو دلائل پیش کیے ہیں وہ بہت وزنی اور مضبوط ہیں۔ اس لیے اہل السنت والجماعت ان دلائل کے پیش نظر تین رکعات وتر کے قائل ہیں اور تین سے رکعت سے کم وتر کو تسلیم نہیں کرتے۔
ہماری گزارش اہل انصاف سے یہ ہے کہ دلائل کو دیکھتے ہوئے اہل السنت والجماعت کے موقف کو تسلیم فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اتحاد و اتفاق کی دولت نصیب فرمائے اور اہل حق کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامی الکریم