پاکستان ماضی ،حال، مستقبل

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
پاکستان)ماضی ،حال، مستقبل (
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
آزادی کا پس منظر:
آزادی کی جس کونپل نے غلامی کی سنگلاخ زمین کا سینہ چیرا ، اس کی آبیاری ہمارے اسلاف و اکابرین کے خون اور پسینے سے ہوئی ہے۔ ہمارے بزرگوں کی بے مثال قربانیاں تھیں جنہوں نے اسلام اور اہل اسلام کو بچانے کی خاطر جہاں میدان کارزار میں اپنی جانوں کا نذانہ پیش کیا وہاں عقائد اسلامیہ کے تحفظ کے لیے دینی جامعات کی داغ بیل ڈالی۔ چنانچہ حکیم آفتاب حسن قریشی لکھتے ہیں:
”1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے باوجود جہاد کا سلسلہ جاری رہا انگریزوں نے انبالہ اور پٹنہ میں مجاہدین پر مقدمات چلا کر انہیں قید وبند کی سزائیں دیں۔اس کے علاوہ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منظم تحریک چلائی اور مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے عیسائی مشنریوں کی پشت پناہی کی۔اس وقت یہ علماء ہی تھے جو اسلام کے تحفظ اور احیا کے لیے میدان عمل میں اترے۔ انہوں نے مختلف جگہوں پر دینی مدارس قائم کیے اور نوجوانوں کو دین کی تعلیم دینے لگے۔ ان مدارس میں سے دارالعلوم دیوبند اور مدرسہ دار العلوم سہارنپور خاص طور پر مشہور ہیں۔“
)مطالعہ پاکستان بی۔ اے(لازمی)علامہ اقبال یونیورسٹی پاکستان صفحہ 305 (
تقسیم برصغیر کی المناک داستان:
مملکتِ خداداد ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ خالص نعمتِ خداوندی ہے۔ اللہ کریم نے ہمیں یہ آزاد مسلم ریاست ایسے حالات میں عطا فرمائی جب اسلام دشمن قوتیں اہل اسلام بالخصوص برصغیر کےمسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے گھناؤنے منصوبوں پر عمل پیرا تھیں۔تقسیم برصغیر کی المناک داستان جان گسل حالات میں پیش آئی۔ ہندو ، سکھ اور انگریز سب مل کر ایڑی چوٹی کا زور اس بات پر لگا رہے تھے کہ مسلمان الگ آزاد مسلم ریاست حاصل نہ کر سکیں۔ظالم سامراج نے وہ کون ساظلم تھاجو برصغیر کے مسلمانوں پر روا؛ نہ رکھا۔ ان پر لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا،ان کے محلے قصبوں،شہروں اور دیہاتوں کو لوٹا گیا۔ گھروں کو جلایا گیا، مساجد و مکاتب کو آگ لگائی گئی ، ہزاروں بے گناہ بچیوں کی عزت کو تار تارکیا۔ لٹے پٹے قافلوں نےاپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے،آزادی کے متوالوں نے سولیوں پر چڑھ کر اپناحق چھینا ،کئی کڑیل جوان ارض پاک کےحصول کیلیے کارزارکی پیاسی زمین کو اپنےخون سے سیراب کرتے رہے۔
شہداء نے بہتے دریاؤں کو اپنے لہو کا خراج دیا۔ گنگاوجمنا اور راوی نے بے کسوں کے خون کی سرخ چادراوڑھی ،کئی سہاگ سسکیوں میں گم ہو گئے۔ہزاروں بے گناہ شیر خوار بچے موت کی وادی میں رقصاں ہوئے،پاک گلشن کو سینچنے کے لیے جذبہ آزادی سے سرشارلہو کی گرمائش کو حالات کے ستم ٹھنڈا نہ کر سکے۔ برصغیر کا مسلمان سمجھتا تھا کہ زندہ قوموں کیلئے غلامی سوہانِ روح ہے۔
اس کےلیے وہ ہر طرح کی ذہنی کوفت، قلبی اذیت، بے چینی، بےقراری اور درد و کرب کو ہنس کر برداشت کرتے رہے۔ برصغیر میں لگنے والی آگ بہار سے لے کر مشرقی پنجاب تک کو جھلسارہی تھی۔ پلاسی کے میدان سے لے کر سرنگا پٹم تک اورپانی پت سے لے کر کرنال تک کی سرزمین لہو لہو تھی۔
پاکستان کا ابتدائی تصور اور شرعی خدوخال:
جون 1928ء کو مولانا عبدالماجد دریابادی رحمہ اللہ کی حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی۔ تو حضرت تھانوی فرمانے لگے:
”جی یوں چاہتا ہے کہ ایک خطہ پر خالص اسلامی حکومت ہو ، سارے قوانین و تعزیرات وغیرہ کا اجراء احکامِ شریعت کے مطابق ہو، بیت المال کا نظام قائم ہو ، نظامِ زکوٰۃ رائج ہو، شرعی عدالتیں قائم ہوں۔ مسلمانوں کو اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے، دوسری قوموں کے ساتھ مل کر یہ نتائج کہاں حاصل ہو سکتے ہیں۔؟؟“
)تعمیر پاکستان از منشی عبدالرحمان مرحوم ص 35 (
تاریخی حقیقت و صداقت:
گویا پاکستان کا ابتدائی تصور اور اس کے شرعی خدوخال در حقیقت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے پیش کردہ ہیں۔پاکستانی تاریخ کے مستند تاریخ نویسوں نے اس کو بلاجھجک لکھا ہے چنانچہ منشی عبدالرحمان مرحوم نے ”تعمیر پاکستان اور علمائے ربانی“ میں ، مولانا عبدالماجد دریا بادی مرحوم نے ”حکیم الامت“ میں یہی بات لکھی ہے۔ نقوش و تاثرات میں بھی تقریباً تقریباً یہی بات درج ہے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے پیش کردہ تصور کے کچھ عرصہ بعد29 دسمبر1930ء کو علامہ محمد اقبال مرحوم نےالہ آبادمیں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں خطبہ صدارت کے دوران اس تصور کو مزید واضح کر کے ظاہر فرمایا۔
مسلم لیگ کی اسلامی و فکری تربیت:
حصول آزادی اور قیام پاکستان کے لیے جو جماعت میدان عمل میں برسرپیکار تھی وہ مسلم لیگ تھی۔ اس جماعت کی فکری و اسلامی تربیت کے لیے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے دل میں جذبہ خیرخواہی موجزن تھا۔ چنانچہ ایک دن مولانا شبیر علی تھانوی رحمہ اللہ سے فرمانے لگے:
”میاں شبیر علی!ہوا کا رخ بتا رہا ہے کہ لیگ والے کامیاب ہوجائیں گے اور جو سلطنت ملے گی وہ ان ہی لوگوں کو ملے گی جن کو آج سب فاسق و فاجر کہتے ہیں ، مولویوں کو تو ملنے سے رہی۔ لہٰذاہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ یہی لوگ دین دار بن جائیں اور جو سلطنت قائم ہو وہ دین دار لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔ تاکہ اللہ کے دین کا ہی بول بالا ہو۔ “
)مقدمہ حیات امدادص 24(
قائد اعظم سے علماء کے وفود کی ملاقاتیں:
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نےارباب مسلم لیگ بالخصوص قائد اعظم کی طرف اپنے خصوصی تربیت یافتگان کے وفود بھیجے۔ چنانچہ
24 دسمبر 1938ء کوپٹنہ میں مولانا سید مرتضیٰ حسن چاند پوری رحمہ اللہ کی قیادت میں مولانا مفتی محمد شفیع ، مولانا شبیر علی تھانوی ، مولانا عبدالجبار ابوہری ، مولانا عبدالغنی پھول پوری اورمولانا معظم حسین امروہی رحمہم اللہ پر مشتمل پہلے وفدنے قائد اعظم سے ملاقات کی۔ جس میں مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور قائد اعظم کو نماز پڑھنے کی تلقین کی گئی۔ قائد اعظم نے فرمایا: ”میں گناہگار ہوں ، خطا وار ہوں۔ آپ کو حق ہے کہ مجھے کہیں !میرا فرض ہے کہ اس کو سنوں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ نماز پڑھا کروں گا۔ “
)روئیداد از مولانا شبیر علی تھانوی ص 5(
اس کے بعددوسرا وفد 12فروری 1939ء کو مولانا ظفر احمد عثمانی کی زیر قیادت دہلی پہنچا جس میں مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی، مولانا شبیر علی تھانوی وغیرہ شامل تھے۔ وفد نے نہایت افہام وتفہیم کے ماحول میں قائد اعظم پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح کردی کہ اسلام میں سیاست مذہب سے الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے۔ اس موقع پر قائد اعظم نے فرمایا: ”دنیا کے کسی مذہب میں سیاست مذہب سے الگ ہو یا نہ ہو میری سمجھ میں اب خوب آ گیا ہے کہ اسلام میں سیاست مذہب سے الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے۔ “
)روئیداد از مولانا شبیر علی تھانوی ص 7(
اس کے بعد بھی حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے معتمد اور سفیر مولانا شبیر علی تھانوی رحمہ اللہ قائد اعظم سے مسلسل ملاقاتیں کرتے رہے چنانچہ ایک ملاقات میں قائد اعظم رحمہ اللہ نے مولانا شبیر علی تھانوی سے فرمایا :
” آپ تو کبھی تشریف لاتے ہیں اور حضرت تھانوی کی باتیں مجھے سمجھاتے ہیں۔ علماء میرے پاس بہت آئے مگر سب مجھ سے موجودہ سیاست میں بات کرتے ہیں جس سے وہ حضرات ناواقف ہیں۔ اور میں مذہب سے ناواقف ہوں۔ حضرت تھانوی نے آپ کو ایک مرتبہ بھی کسی سیاسی امر میں گفتگو کے لیے نہیں بھیجا۔ مجھے آپ کے ذریعہ خاص مذہبی معلومات ہوتی ہیں جو اور جگہ نصیب نہیں ہوتی۔ اگر آپ کو کچھ اور کہنا ہو تو بیٹھ جائیےمجھے کوئی جلدی نہیں ہے میں بڑے شوق سے سنوں گا۔ “
)روئیداد از مولانا شبیر علی تھانوی ص 8،9(
قائد اعظم کا اعتراف :
غرضیکہ ان وفود کا قائداعظم پر اتنا مثبت اثر ہوا کہ فرمانے لگے:
” مسلم لیگ کے ساتھ ایک بہت بڑا عالم ہے جس کا علم و تقدس اگر ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسرے میں تمام علماء کا علم و تقدس رکھا جائے تو اس کا پلڑا بھاری ہوگا اور وہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ہیں جو ایک چھوٹے سے قصبہ میں رہتے ہیں مسلم لیگ کو ان کی حمایت کافی ہے اور کوئی موافقت کرے یا نہ کرے ہمیں پرواہ نہیں۔ “
)روئیداد (
مولانا شبیر علی تھانوی قائد اعظم سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئےقائد اعظم کا فرمان نقل کرتے ہیں :
”اگرآپ کا مطلب یہ ہے کہ میں بے چوں چراں آپ کا کہا مانوں تو میں تیار ہوں آج تک تو میں آپ سے سمجھنے کے لیے بحث بھی کیا کرتا تھا۔ لیکن آج کے بعد میں خاموش بیٹھ کر سنوں گا اور مذہبی معاملات میں جو ہدایات آپ دیں گے ان کو تسلیم کروں گا کیونکہ مجھے حضرت تھانوی پر پورا پورا اعتماد ہے کہ مذہبی معاملات میں ان کا پایہ بہت بلند ہے اور ان کی رائے درست ہوتی ہے۔ “
)روئیداد از مولانا شبیر علی تھانوی ص 10(
نواب جمشید علی خان کا تجزیہ:
نواب جمشید علی خان سے قائد اعظم بہت متاثر تھے وہ انہیں ”یارِ غار“ تصور کرتے تھے۔ عموماً موسم سرما میں اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ہمراہ آرام کرنے کے لیے نواب صاحب کے ہاں باغ پت میں تشریف لے جایا کرتے اور ہفتوں وہاں رہتے۔ نواب صاحب اپنے ایک مکتوب مورخہ 4 اپریل 1955میں لکھتے ہیں :
”یہ بالکل حقیقت ہے کہ قائد اعظم کی تمام تر دینی تربیت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا فیضان تھا اور ان کا اسلامی شعور حضرت والا)حضرت تھانوی رحمہ اللہ (کی بدولت تھا۔ مولوی شبیر علی صاحب نے قائد اعظم کو حضرت والا کے قریب لانے میں بڑا کام کیا۔ “
اپنے اسی مکتوب میں چند سطور کے بعد لکھتے ہیں کہ
”قائد اعظم باغ پت کے دوران قیام میں حضرت والا کا بہت خلوص اور ادب سے تذکرہ فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ قائد اعظم کو تھانہ بھون حاضر ہونے کا انتہائی شوق تھا لیکن افسوس چند در چند وجوہات کی بناء پر ان کی یہ تمنا پوری نہ ہو سکی۔ “
مسلم لیگ کی حمایت میں تفصیلی فتویٰ:
10 فروری 1938ء کو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے مسلم لیگ کی حمایت میں ایک تفصیلی فتویٰ) جو تنظیم المسلمین کے نام سے شائع ہو چکا ہے (جاری فرمایا۔ جبکہ اس سے پہلے دوقومی نظریے کی حمایت جھانسی الیکشن میں فرما چکے تھے۔
جھانسی الیکشن میں حمایت کے مضمرات:
جھانسی الیکشن پہلا الیکشن تھا جو مسلم لیگ کانگریس نے علیحدہ ہو کر لڑنا تھا۔ اس لیے حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اس کی حمایت فرمائی۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ جب تک مسلم لیگ؛ کانگریس کے ساتھ رہی حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے ان کی حمایت نہیں فرمائی۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ شروع ہی سےبرصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست اور الگ تنظیم کے حق میں تھے بلکہ اس کے زبردست محرک تھے۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی اسی فکر و نظر کو بعد میں دو قومی نظریہ کا نام دیا گیا۔ گویا برصغیر میں پاکستان کی داغ بیل ڈالنے اور الگ آزاد مسلم ریاست کے لیے راہ ہموار کرنے والے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی اور آپ کے رفقاء کار ہیں۔
مسلم لیگ کی کامیابیوں میں بنیادی کردار:
تاریخ اس بات پر چیخ چیخ کر شہادت دے رہی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے علمی سپوتوں نے مسلم لیگ کی کامیابیوں کے خاکے میں اپنی محنت سے رنگ بھرا ہے۔ ان میں چند اہم نام یہ ہیں : حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، علامہ شبیر احمد عثمانی ، مولانا ظفر احمد عثمانی ، مفتی محمد شفیع عثمانی، قاری محمد طیب قاسمی، مولانا مرتضیٰ حسن چاندپوری، مولانا محمد ابراہیم بلیَاوی ، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، شاہ عبدالغنی پھولپوری، مفتی محمد حسن امرتسری، مولانا خیر محمد جالندھری، مفتی عبدالکریم گمتھلوی، مولانا احتشام الحق تھانوی اور مولانا اطہر علی ودیگر رحمہم اللہ۔ ان لوگوں کی مسلسل محنت اور جدوجہد نے مسلم لیگ کی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان کے بارے قائد اعظم کے افکار:
علمائے حق کی متواترمحنت اور قائد اعظم سے مسلسل ملاقاتوں کا اثر قائد اعظم کی تقاریر سے بھرپور طریقے سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ آزاد اسلامی ریاست کے خواہاں تھے اور اس میں اسلام کا نظام چاہتے تھے۔ چند تاریخی حقائق پیش ہیں :

17فروری 1938ء کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں اسٹریچی ہال میں فرمایا :”مجھے اپنے اسلامی کلچر اور تہذیب سے بہت محبت ہے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ ہماری آنے والی نسلیں اسلامی تمدن اور فلسفہ سے بالکل بیگانہ ہوجائیں۔ “

14 دسمبر 1942ء کوکراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :”پاکستان کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہے کہ پاکستان میں اللہ کے دین کا نظام قائم ہوگا۔ “

19 مارچ 1944ء پنجاب اسٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور کی سالانہ کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:” ہمیں ہلالی پرچم کے علاوہ کوئی اور پرچم درکار نہیں۔ اسلام ہمارا رہنما ہے جو ہماری زندگی کا مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ “

21 نومبر 1945ء سرحد مسلم لیگ کانفرنس پشاورمیں دوران خطاب فرمایا : ”مسلمان؛پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ اپنے ضابطۂ حیات، اپنے تمدنی ارتقاء، روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کر سکیں۔ “

24 نومبر1945ء مردان کے جلسۂ عام سے خطاب کے دوران فرمایا :”پاکستان کی آزاد مسلم مملکت کے حصول میں بھی اپنا کردار ادا کریں جہاں مسلمان اسلامی فرمانروائی کا نظریہ پیش کر سکیں گے۔ “

26 نومبر 1946ء کو سید بدرالدین احمد کو اپنی قیام گاہ پر ایک تفصیلی انٹرویو دیا جس میں آپ نے برملا کہا:”دنیا کی تمام مشکلات کا حل اسلامی حکومت کے قیام میں ہے۔ اسی قیام کی خاطر میں لندن کی پر سکون زندگی کو رد کر کے عظیم مفکر علامہ اقبال کے اصرار پر واپس آگیا۔ ان شاء اللہ پاکستان کے نظام حکومت کی بنیاد لا الہ الا اللہ ہی ہو گی اور اس پر ایسی فلاحی اور مثالی سٹیٹ قائم ہوگی کہ دنیا اس کی تقلید پر محبور ہو جائے گی۔ “

7 جولائی 1947ء کو لندن مسلم لیگ کے نام پیغام میں فرماتے ہیں:”خدا کے فضل سے ہم دنیا میں اس نئی عظیم خود مختار اسلامی ریاست کی تعمیر مکمل اتحاد، تنظیم اورایمان کے ساتھ کر سکیں گے۔ “

19 دسمبر 1946ء کو مصری ریڈیوپر خطاب کے دوران فرمایا:”ہم چاہتے ہیں کہ ایک آزاد خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر کریں اور ان تمام اقدار کا تحفظ کریں جن کا اسلام علمبردار ہے۔ “

14اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاح کے موقع پر ماؤنٹ بیٹن کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : ”اکبر بادشاہ نے جس فراخ دلی کا مظاہرہ کیا وہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں اس کا آغاز 1300 برس پہلے ہوگیا تھا جب ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کے بعد نہ صرف زبانی طورپر بلکہ عملی طور پر یہودیوں اور عیسائیوں سے فراخدلانہ سلوک کیا۔۔۔۔ مسلمانوں کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ “

30اکتوبر 1947ء کو لاہور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”اگر ہم قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کریں تو بالآخر فتح ہماری ہوگی۔ میرا آپ تمام لوگوں سے یہی مطالبہ ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیےبڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ “

14 دسمبر 1947ء کو آل انڈیا مسل لیگ کونسل سے دوران خطاب فرمایا : ”میں صاف طور پر واضح کر دوں کہ پاکستان اسلامی نظریات پر مبنی ایک مملکت ہوگی۔ “

25جنوری 1948ء کو پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سےکراچی بار ایسوسی ایشن کے استقبالیےسے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میں ان لوگوں کے عزائم نہیں سمجھ سکا جو جان بوجھ کر شرارت کر رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی۔ ہماری زندگی پر آج بھی اسلامی اصولوں کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح 1300 سال پہلے ہوتا تھا۔

14 فروری 1948ءمیں سبی دربار بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اسوۂ حسنہ پر چلنے میں ہے جو قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے بنایا۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔ “

21فروری 1948ء کو افواج پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے کہا:” اب آپ کو اپنے ہی وطن عزیز کی سرزمین پر اسلامی جمہوریت ، اسلامی معاشرتی عدل اور مساوات انسانی کے اصولوں کی پاسبانی کرنی ہے۔ “
)تصور پاکستان ،بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد(
پاکستان کے بارے علامہ اقبال کے افکار:
قائد اعظم کی طرح علامہ محمد اقبال کے ذہن میں پاکستان کا جو نقشہ تھا اس میں اسلام کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ چنانچہ
29 دسمبر1930ء کو الہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں خطبۂ صدارت پیش کرتے ہوئے فرمایا:”برصغیر ہندوستان میں بھانت بھانت کے لوگ اور مختلف مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں چنانچہ مسلمان اپنے لیے مسلم انڈیا کے قیام کے مطالبے میں پورے پورے حق بجانب ہیں۔ “
( Speeches and Statements Of Iqbal. Page 12)
28مئی 1937ء کو علامہ اقبال نے قائد اعظم کو تفصیلی خط لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ ”ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے قانون اور اسلامی شریعت میں اس مسئلے کا حل خود موجود ہے مگر شریعت کے نفاذ اور ترقی کے لیے ہندوستان میں ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے قیام کی ضرورت ہے۔ “
(letters of Iqbal to Jinnah)
قرادادِمقاصد:
پاکستان بن جانے کے بعد دستور سازی اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جسے ”قرارد داد مقاصد“ کہا جاتا ہے۔ اسے پاکستان کے دستور میں بنیادی حیثیت ہے۔
قرادادِ مقاصد کا متن:
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
چونکہ اﷲ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے، اور اسی نے جمہور کی وساطت سے مملکت پاکستان کو اختیارِ حکمرانی اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کے لیے نیابتاً عطا فرمایا ہے، اور چونکہ یہ اختیارِ حکمرانی ایک مقدس امانت ہے۔
لہٰذا جمہور پاکستان کی نمایندہ یہ مجلس دستور ساز فیصلہ کرتی ہے ،کہ آزاد اور خود مختار مملکت پاکستان کے لیے ایک دستور مرتب کیا جائے۔

جس کی رو سے مملکت تمام حقوق و اختیاراتِ حکمرانی، عوام کے منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے استعمال کرے۔

جس میں اصول جمہوریت و حریت، مساوات و رواداری اور سماجی عدل کو، جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے۔

جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے، کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر، اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جو قرآن مجید اور سنت رسول میں متعین ہیں، ترتیب دے سکیں۔

جس کی رو سے اس امر کا قرار واقعی انتظام کیا جائے، کہ اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنے مذہبوں پر عقیدہ رکھ سکیں، اور ان پر عمل کر سکیں، اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں۔

جسکی رو سے وہ علاقے جو اب پاکستان میں داخل ہیں یا شامل ہو گئے ہیں، اور ایسے دیگر علاقے جو آیندہ پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں ایک وفاق بنائیں، جس کے ارکان مقرر کردہ حدود اربعہ و متعینہ اختیارات کے ماتحت خود مختار ہوں۔

جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے، اور ان حقوق میں قانون و اخلاق عامہ کے ماتحت مساوات، حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عدل، اظہار خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور ارتباط [میل جول اور باہمی تعلق] کی آزادی شامل ہو۔

جس کی رو سے اقلیتوں اور پس ماندہ و پست طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے۔

جس کی رو سے عدلیہ کی آزادی مکمل طور پر محفوظ ہو۔

جس کی رو سے وفاق کے علاقوں کی حفاظت، اس کی آزادی اور اس کے جملہ حقوق کا جن میں اس کے بر و بحر اور فضا پر سیادت کے حقوق شامل ہیں، تحفظ کیا جائے۔

تاکہاہل پاکستان فلاح اور خوش حالی کی زندگی بسر کر سکیں، اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کر سکیں، اور امن عالم کے قیام اور بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود میں کماحقہ اضافہ کر سکیں۔
قرار دار مقاصد کے ضمن میں:
اس قرارداد مقاصد کے ضمن میں ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ

ہمارے ملک پاکستان کے دستور کی بنیاد’’قرارداد مقاصد‘‘ پر ہے جس میں واضح طور پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت مطلقہ کو تسلیم کر کے قرآن وسنت کی حدود میں رہتے ہوئے عوام کے منتخب نمائندوں کو یہ منصب سونپا گیا ہے کہ وہ ملک کا نظام اسی کے مطابق چلائیں۔اس لیے عوامی نمائندوں کوہر سطح پر اس دستور کی پاسداری کرنا ضروری ہے تاکہ پاکستان کےحصول و قیام کے مقاصد کی تکمیل ہو سکے۔

دستور میں یہ بات طے شدہ ہے کہ اس آزاد اسلامی ریاست)پاکستان( کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔

اس میں اٹل حقیقت کے طور پر یہ بات بھی موجود ہے کہ یہاں قرآن و سنت کے منافی قوانین نافذ نہیں کیے جاسکتے بلکہ تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کا عہدبھی اس میں کیا گیا ہے۔

مروجہ قوانین کی اسلامی حیثیت کے تعین کے لیے وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل یہ دو دستوری ادارے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ مذکورہ اداروں کی حیثیت کو بے حیثیت کرنے والے افراد اور ان کی سوچ کی ہر پلیٹ فارم پر حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ عوام میں قرارداد مقاصد کی اہمیت برقرار رہے۔

قرار داد مقاصد کے مطابق ملکی فیصلے کرنے سے پاکستان کاآئینی تشخص بین الاقوامی دنیا میں مثالی اور قابل تقلید بن جائے گا۔

اس قرارداد میں اہلیان وطن کے عوامی ،سماجی ، سیاسی ،معاشرتی اورمذہبی مسائل کے حل کی صلاحیت موجود ہے۔ لہذا اس کے حقیقی تقاضوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
پھر کبھی سہی:
تاریخ میں تحریک آزادی پاکستان کا عرصہ مسلمانان برصغیر پر کڑی آزمائش کے طور پر گزرا۔ اہل حق علماء کی شبانہ روز محنتوں میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوا۔ قوم میں شعور آزادی اور جذبہ قربانی پیدا کرنے کے لیے قائد اعظم کے دست بازو بن کر علمائے دیوبند نے مخلصانہ، مدبرانہ اور قائدانہ کردار ادا کیا۔ اس کا نتیجہ 27ویں رمضان بروز جمعۃ المبارک 14اگست 1947ء کو پاکستان کی صورت میں ظاہر ہوا۔ تاریخ کا یہ باب بہت اندوہناک بھی ہے اور طویل بھی۔ جس کی تاریخی داستان ان شاء اللہ پھر کبھی سہی۔
جمعۃ الوداع 27ویں رمضان 14اگست 1947ء:
چنانچہ منشی عبدالرحمان اس حقیقت کا ان الفاظ میں تذکرہ کرتے ہیں کہ
” جب 27رمضان المبارک یعنی 14 اگست 1947ء بروز جمعۃ المبارک جشن پاکستان منایا جانے لگا تو ملک کی سب سے بڑی مقتدر ہستی یعنی قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان نے علماء ربانی کی تاریخی خدمات کے اعتراف کے طور پر پاکستان کے پرچم کشائی کا اعزاز علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کو بخشا۔ کراچی میں علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے اور ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمد عثمانی نے تلاوت قرآن مجید اور مختصر تقریر کے بعد اپنے متبرک ہاتھوں سے آزاد پاکستان کا پرچم آزاد فضا میں لہرا کر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کو اسلامی ممالک کی برادری میں شامل کرنے کی رسم کا افتتاح کیا۔ پاکستانی فوجوں نے پرچم پاکستان کو پہلی سلامی دی اور سب نے مل کر یہ ترانہ گایا: ”اونچا رہے نشاں ہمارا“
اور دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اسلامی سلطنت کے قیام کی جو آواز سب سے پہلے جون 1928ء میں دربار اشرفیہ سے بلند ہوئی تھی اس کے خدام نے اگست 1947ء میں اس کی رسم افتتاح ادا کی۔ “
)تعمیر پاکستان ، منشی عبدالرحمان ص 136(
حصول وطن کے مقاصد کو سنجیدگی سے دیکھا جائے اور بانیان پاکستان کے افکار کو اگر قریب سے دیکھا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ سب مل کر ایک آزاد ، خود مختار اسلامی ، نظریاتی ،فلاحی اور مثالی ریاست کے خواہاں تھے۔ جس کے لیے ان سب نے مل کر عزم و ہمت اور کامیابی کی ایسی لازوال داستان رقم کی کہ تاقیامت پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر فرد ان کااحسان مند، مشکور و ممنون رہے گا۔
دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے نقشے پرایک آزاداسلامی جمہوری نظریاتی فلاحی مملکت پاکستان کی صورت میں بن کر ابھری،جس کےحصول اور قیام کیلئے مسلمانان برصغیر نے قائد اعظم محمد علی جنا ح کی قیادت میں ایک طویل اسلامی ،سیاسی و جمہوری حقوق کی جنگ لڑی، یہ اُن نیک جذبوں اور پاکیزہ آرزؤں کی انمٹ تاریخ ہے جہاں برصغیر کی کئی صدیوں پر محیط ظلمت شب کا سینہ چیر کر آزادی کا سورج طلوع ہوا۔
مدینہ طیبہ اور پاکستان:
اسلام کی 1400 سالہ تاریخ اس بات کی چشم دید گواہ ہےکہ مدینہ طیبہ کے بعد پاکستان دوسری ریاست ہے جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی۔ مدینہ طیبہ کے اسلامی ریاست بننے کے وقت حالات کی جو سنگینی چل رہی تھی قیام پاکستان کے وقت بھی اس سے ملتی جلتی صورتحال بن چکی تھی۔

مدینہ طیبہ کو اس وقت کے بت پرستوں سے خطرہ تھا اور ان بت پرستوں کی پشت پناہی یہود کر رہے تھے۔ پاکستان کو بھی بت پرست ہندؤوں سے خطرہ رہتا ہے اور انڈیا کی امداد اِس وقت کے یہودی اسرائیلی کر رہے ہیں۔

مدینہ طیبہ سے پوری دنیا میں اسلام کا پیغام پھیل رہا تھا آج پاکستان سے بھی پوری دنیا میں دین پھیل رہا ہے۔

مدینہ طیبہ میں امن کو بنیادی حیثیت حاصل تھی لیکن بعض فسادی عناصر نے امن تباہ کرنے کی کوششیں کیں اسی طرح پاکستان بھی جائے امن ہے اس میں بھی بعض فسادی عناصر تخریب کاری کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ جیسے مدینہ طیبہ اللہ کی حفاظت میں ہے ایسے ہی پاکستان بھی اللہ کی حفاظت میں ہے۔

جیسے مدینہ کے امن کو تباہ کرنے والے کچل دیے گئے ایسے ہی پاکستان کے امن کو برباد کرنے والے کچل دیے جائیں گے۔
دل کی بات:
میں عقائد اسلامیہ اور مسلک اہل السنت والجماعت کی اشاعت و تحفظ کے لیے تقریباً 17 ملکوں کا سفر کر چکا ہوں۔ میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں پاکستان کی مثال نہیں پائی جاتی۔ باقی ممالک قومیت اور لسانیت کی بنیاد پر معرض وجود میں آئے لیکن یہ وطن اسلام کی بنیاد پر وجود میں آیا۔یہاں دنیا کی ہر نعمت وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔

سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں)سوائے چند لوگوں کے(مجموعی طور پر محب وطن،مخلص عوام کے نمائندے عوام کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔

پاکستان واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے، جدید ترین میزائل اس نے بنالیے ہیں۔نیوکلیئرٹیکنالوجی میں دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت آگے ہے۔

یہاں کی بری، بحری اور فضائی افواج دنیا میں اپنی نظیر نہیں رکھتی۔

ملک سے فرقہ وارانہ تشدد، دہشت گردی اور تخریب کاری کو کچلنے میں موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی کاوشیں قابل تقلید و لائق تحسین ہیں۔ اور اہلیان پاکستان کے لیے قابل فخر ہیں۔

ملک میں ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ مافیا، غنڈہ گردی کو کیفرکردار تک پہنچانے میں پاک فوج دلی مبارکباد کی مستحق ہے۔

اسلامی ممالک کے عسکری اتحاد میں پاک فوج کی شمولیت بین الاقوامی دھارے میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔

حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے پاک فوج کا بے لوث تعاون باعث افتخار ہے۔

حساس ادارے ، ایجنسیاں ملکی سالمیت و استحکام میں جان کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتیں۔

ملک دشمن قوتوں کے شروفساد سے اہلیان پاکستان کی حفاظت کرنا ISIکا طغرہ امتیاز ہے۔

کراچی بندرگاہ کمرشل اور فوجی نقطہ نگاہ سے برصغیر کی محفوظ ترین بندرگاہ تصور کی جاتی ہے۔

گوادر بندرگاہ اور اقتصادی راہداری کا منصوبہ اور اس پر برق رفتاری سے کام مدبرانہ سیاست اور مضبوط عسکری قیادت کی بدولت ہے۔

مجموعی طور پر دینی و عصری تعلیمی اداروں کی حالت کافی اطمینان بخش ہے جہالت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ نئی نسل میں تعلیم کی وراثت منتقل کر رہے ہیں۔

تاجر برادری پوری دنیا میں اپنی ممتاز حیثیت رکھتی ہے اور ملک کی معیشت و اقتصادی عمل کو مزید مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

یہاں کی زرخیز زمین نے زمیندار طبقے کو خوشحال بنایا ہوا ہے۔ یہ ملک اجناس )گندم،چاول ،چنا، دالیں وغیرہ( کے حوالے سے نہ صرف یہ کہ خود کفیل ہے بلکہ بیرون ملک کی برآمدات میں بھی مسلسل اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

یہاں کے علماء حق عوام میں دینی شعور ، فکری تربیت اور اخلاقی اقدار کو مزید مستحکم کر رہے ہیں۔

دینی تعلیم کے فروغ کے لیے پاکستان میں جامعات اپنی مثال آپ ہیں۔

پانی کی ہر قسمی ضروریات کے لیے یہاں بڑے بڑے پانچ دریا بہتے ہیں۔ سمندر بھی موجود ہے،بے مثال نہری نظام اور نظام آبپاشی بھی پاکستان میں موجود ہے۔

معدنیات اورقدرتی ذخائر بھی قدرت نے بے بہا عطا فرمائے ہیں۔ نمک ، کوئلہ ، آئل ، گیس اور دیگر معدنیات یہاں کی زمین اُگل رہی ہے۔
سبز ہلالی پرچم لہرائیے:!
دنیابھر کی اقوام اپنے وطن سے محبت کرتی ہیں اور کرنی بھی چاہیے۔ اسی طرح پاکستانی قوم بھی اپنے وطن سے محبت کرتی ہے ، محبت کا اصل مقتضاء تو یہ ہے کہ اس کی تعمیر و ترقی میں اپنی صلاحیتیں کھپا دی جائیں۔ اس کا نام روشن کرنے اور دیگر ممالک کے مقابلے میں پرامن ، خوشحال ،ترقی یافتہ بنانے میں ہر پاکستانی شہری اپنا کردار ادا کرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ دنیا کی ہرقوم اپنے ملکی پرچم کو قدر اور احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور دیکھنا بھی چاہیے۔ ہمیں بھی سبز ہلالی پرچم کی عظمت کو سمجھنا ہوگا۔ یہ پرچم دیگر ممالک کی طرح محض پرچم ہی نہیں بلکہ اس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تشخص ابھر رہا ہے۔ یعنی اسلام اور وطن دونوں کی عظمت کا علَم ہے۔
اس لیےہمیں اپنے تعلیمی ادارے، تجارتی مراکز ،گھروں اور دفاتر وغیرہ پر سبز ہلالی پرچم لہرانا چاہیے بالخصوص یوم آزادی کے موقع پر اس کا بھر پور اہتمام کرنا چاہیے تاکہ اہلیان پاکستان کا ساری دنیا تک یہ پیغام پہنچے کہ ہم محب وطن ہیں۔ ہم اس کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدات کی رکھوالی کے لیے تن من دھن کی بازی لگادینے کو تیار ہیں۔
مرکز اہل السنت میں پرچم کشائی :
اس حوالے سے قرآن ، سنت اور فقہ کی اشاعت و تحفظ کے عالمی ادارے مرکز اہل السنت والجماعت 87جنوبی سرگودھا میں اس کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے۔ یوم آزادی پر مرکز اہل السنت والجماعت میں پرچم کشائی کی تقریب کاجبکہ استحکام پاکستان کے نام سے پُروقار سیمینار کا بھرپور انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس میں تلاوت ،نعت ، ملی نغمے ، قومی ترانہ اور پاکستان کے استحکام وسالمیت کے عنوان پر پُرمغز بیان ہوتا ہے۔ اس کے بعد مرکز سے سرگودھا شہرتک استحکام پاکستان ریلی نکالی جاتی ہے۔ آخر میں پاکستان کے استحکام کے لیے خوب دعائیں کی جاتی ہیں۔
دردمندانہ اپیل:
میری تمام پاکستانیوں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ ملکی ترقی و استحکام کے لیے تمام تر اختلافات بھلا کر اس پرچم کے سائے تلے ایک ہو جائیں۔ یہ ملک اللہ کریم کا انعام ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان ، علمائے حق کا احسان ، قائد اعظم اور اقبال کی دلی امنگوں کا ترجمان اور مسلمانان برصغیر کی قربانیوں کی عظیم داستان ہے۔ اس کو دہشت گردی ، فرقہ واریت اور تخریب کاری سے محفوظ بنانے کیلیے یک دل اور یکجان ہو جائیے۔ آئیے عزم کریں کہ جیسے ہمارے آباؤ اجداد نے قربانیاں دے کر پاکستان بنایا تھا ویسے ہم قربانیاں دے کر پاکستان بچائیں گے۔
اسلام زندہ باد
پاکستان پائندہ باد