جمعیت علمائے اسلام کا احتجاجی مظاہرہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
جمعیت علمائے اسلام کا احتجاجی مظاہرہ
مولانا محمد کلیم اللہ حنفی
پچھلے دنوں مدینۃ الرسول میں روضہ اطہر کے قریب مسکن نبوت کو منہدم کرنے کی ناپاک و ناکام کوشش کی گئی۔ پورا عالم کفر جانتا ہے کہ حرمین شریفین تمام اہل اسلام کی عقیدتوں کا مرکز ہیں۔ یہی وہ مقامات ہیں جن سے ساری کائنات میں امن کی خوشبو پھیلی، محبت و اخوت کا فیض عام ہوا ، انسان اور انسانیت کی قدریں بلند ہوئیں، رواداری اور مروت کی کرنیں پھوٹیں ہیں۔ اسی روضہ مبارکہ میں وہ نبی رحمت آرام فرما ہیں جن کی تعلیمات کا خلاصہ نقطہ امن کے گرد اپنا دائرہ مکمل کرتا ہے۔
جس کی تعلیمات میں دشمن سے بوقت جنگ بھی اعتدال کا درس ملتا ہے۔ دشمن کے ایسے افراد جو جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے مثلاً خواتین،بچے ، بیمار، زخمی، اندھے ،لولہے لنگڑے ، معذور و اپاہج ، پاگل ،مجنون،اور اپنی اپنی عبادت گاہوں کے بے ضررلوگ وغیرہ۔ احادیث مبارکہ میں ان سے محاربت کی ممانعت موجود ہے۔
غزوہ خیبر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن عوف کو حکم دیا : لشکر کو نماز کے لیے جمع کرو۔ جب لوگ جمع ہو گئے ، تو آپ ﷺنے خطبہ دیا اور فرمایا:تمہارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں بلااجازت داخل ہو جاؤ ،ان کی عورتوں کو مارو پیٹو اور ان کے پھل کھا جاؤ حالانکہ جو اُن پر واجب تھا،وہ تم کو دے چکے۔جنگ میں انسانی جسم کی شرافت کی پاسداری کا درس صرف اسلام پیش کرتا ہے۔ آپ ﷺ کی تعلیمات میں لوٹ مار اور دشمن کی لاشوں کا مُثلہ یعنی اعضاء جسمانی کاٹنے سے، بدعہدی اور دشمن کی بستیوں میں بلاوجہ تباہ کاری کرنے سے روکا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سردار کو جنگ پر بھیجتے تو اسے اور اس کی فوج کو خوف خدا کی نصیحت بھی فرماتےاورمزید چند ہدایات دیتے کہ جاؤ سب اللہ کی راہ میں لڑو ، اُن لوگوں سے جواللہ سے کفر کرتے ہیں۔مگر جنگ میں بد عہدی نہ کرو ، غنیمت میں خیانت نہ کرو ، مثلہ نہ کرو اور کسی بچے کو قتل نہ کرو۔
جس نبی کی تعلیمات حالت جنگ میں اتنی پرامن ہوں ، حالت امن میں کیا کہنے!! لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج اس نبی کے روضہ اطہر کو منہدم کرنے کی سازش کی جارہی ہے اور سازشی عناصر کی بدامنی کی وارداتوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی بنیاد سعودی حکومت نے ان پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اب وہی عناصر دوسرے ممالک کے راستے اس پاک سر زمین میں داخل ہوتے ہیں اور انسانیت سوز اقدامات کرتے ہیں۔ تمام اہل اسلام بالخصوص اہلیان اسلامی جمہوریہ پاکستان ان کی گھناؤنی سازشوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔اس حوالے سے اہلیان پاکستان کی سب سے بڑی معتدل و منظم اسلام پسندجماعت جمعیت علماء اسلام کی کال پر ملک بھر میں مدینہ طیبہ پر حملے کے حالیہ واقعات پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کے حکم پر گزشتہ روز بعد نماز جمعہ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ قائدین نے میڈیا کے سامنے پوری دنیا کو یہ میسج دیا ہے کہ حرمین پر حملہ ہوا تو ہماری جان مال عزت آبرو۔ سب کچھ 'آبروئے ما زنام مصطفیٰ 'پر قربان ہے اس سلسلے میں لاہور میں احتجاجی مظاہرے میں شرکت کا موقع ملا۔ جامعہ محمدیہ قاسمیہ والٹن روڈ سے مولانا محمد الیاس گھمن کی زیر قیادت ایک بڑا قافلہ شملہ پہاڑی پریس کلب پہنچا، جس میں مولانا محمد الیاس گھمن، مولانا امجد خان ، مولانا محب النبی ،مولانا اشرف گجر، مولانا سیف الدین و دیگر قائدین نے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے مشترکہ موقف میں یہ بات کہی کہ مدینہ طیبہ بالخصوص روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کی کوشش کرنا کسی صورت قابل برداشت نہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم میاں نواز شریف سے مطالبہ کیا کہ وہ اس اہم اور حساس ایشو پر قومی اسمبلی کا فوری طور پر اجلاس بلائیں۔ اور معاملہ کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات اور سعودی حکومت سے ہر ممکن تعاون کریں۔ قائدین نے جنرل راحیل شریف کے جراتمندانہ اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ مدینہ طیبہ کی حفاظت کے لیے اس ملک کا بچہ بچہ پاک فوج کے جوانوں کےشانہ بشانہ کھڑا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ احتجاجی مظاہرے میں دوسرا اہم ایشو مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر حالیہ بھارتی دہشت گردی تھا۔ احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے قائدین نےکہا کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔ اس کی حفاظت کرنا پاکستان کا بنیادی فرض ہے انہوں نے حکمرانوں سے کہا کہ وہ اس وقت تک بھارت سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کرلیں جب تک بھارت کشمیریوں کو مکمل خودمختاری نہیں دے دیتا۔انہوں نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کو چاہیے وہ سول نافرمانی کی تحریک اس وقت تک چلائیں جب تک وہ آزاد نہیں ہوجاتے۔
قائدین نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں قراردادوں کے بجائے عالم اسلام اور اس کی تمام نمایندہ تنظیموں کو مل کر ہر سطح پر مسئلہ کشمیر پر مضبوط اور موثر آواز اُٹھانی چاہیے۔ تاکہ کشمیر کا قضیہ مزید التواء کا شکار ہونے کے بچ جائے اور اس کا سنجیدہ حل نکالا جا سکے۔ ہم پرامید ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام کے بروقت دانشمندانہ اقدامات سے حکومتی فیصلوں میں مثبت تبدیلی ظاہر ہوگی اور قوم کے نیک جذبات کو تسکین و تکمیل کا موقع ملے گا۔