پاکستان میں ختم نبوت کا آئینی مسئلہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
پاکستان میں ختم نبوت کا آئینی مسئلہ!!
مولانا محمد کلیم اللہ حنفی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
پاکستان ایک خود مختار،آزاد، اسلامی ، فلاحی و نظریاتی ریاست ہے۔اس کی بقاءاس وقت تک ہے جب تک اس میں اسلامی نظریات کو باقی رکھا جائے۔ اگر اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا جائے توآج ہی اس کی جغرافیائی سرحدات سمٹ کر اغیار کے دامن میں چلی جائیں اور ہماری آزادی وخودمختاری کی روح فنا ہو کر رہ جائے۔
ہماری اس آزاد اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔اندرونی و بیرونی اعتقادی ، فکری اور عسکری یلغاروں سے اپنے مکینوں کے ایمان ، جان ، مال عزت و آبرو کی حفاظت کرنا۔فرقہ واریت، تشدد، عدم برداشت ،دہشت گردی ،قتل وغارت گری اور باہمی لڑائی جھگڑوں کو ختم کرنا۔ ان کو معاشی اقتصادی اور معاشرتی سہولیات مہیا کرنا۔غربت ،کرپشن ،بدامنی اوربے روزگاری سے نجات دلانا۔ بین الاقوامی سطح پر ان کے لیے علمی و عملی ترقی کی راہیں ہموار کرنا۔وغیرہ
ریاستی ذمہ داریوں کو نبھانے کےلیے ادارے بنائے جاتے ہیں ان اداروں سے ریاستی قوانین کو نافذ کرنے کے اقدامات ہوتے ہیں۔ ریاست کے ان انتظامی فیصلوں کو تسلیم کرنا اہلیان وطن کا ملی واخلاقی فریضہ ہے۔ اب جو فرد ، تنظیم یا کیمونٹی اسے تسلیم کرے وہ پر امن طریقے سے اس میں رہنے کی حقدار ہے۔ اور جو فرد ، تنظیم یا کمیونٹی اس کو تسلیم نہ کرے بلکہ اس سے خلاف چلے اور بغاوت پر اتر آئے تو ایسے فرد ، تنظیم اور کیمونٹی کو اس جگہ رہنے کا آئینی و قانونی طور پر قطعاً کوئی حق نہیں۔ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس باغی فتنے کی سرکوبی کے لیے اپنے اختیارات استعمال کرے۔جیساکہ ریاست مدینہ میں اس کی بیسیوں مثالیں تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں۔آپ دیکھ لیں کہ جب مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی اسلامی ریاست قائم کی تو اس اسلامی ریاست نے مدینہ ، خیبر اور جزائر عرب کے یہود و نصاریٰ اوربت پرست مشرکوں کو غیر مسلم قرار دے کر ان کے مذہبی اور شہری حقوق متعین کیے اور انہیں ریاست کا ذمی قرار دیا تھا اور مسلمانوں سے الگ تھلگ ان کے مخصوص احکام متعین فرمائے۔
قرآن و حدیث اور تاریخ اسلامی کو پڑھ لیجیے آپ پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گی کہ اسلامی ریاست نے مسلمانوں کو اپنی الگ شناخت قائم کرنے جبکہ غیر مسلم اقوام کے طور طریقے ، مذہبی تہوار، عادات و اخلاق حتی کہ بعض اوقات میں ان سے مجالست ،مناکحت، موالات، معاملات ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔
یہی وجہ ہے جب وہ اسلامی ریاست کے مقرر کردہ دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے یا اسلامی ریاست کے فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوتے تو ریاست نے ایسے عناصر کو آہنی ہاتھوں سے کچلنے کا حکم بھی فرمایا۔
چنانچہ دور نبوی اور عہد صحابہ میں اس کی ایک دو نہیں بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔خصوصاً حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری نبی و رسول کی حیثیت سے اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب کو کافر و مرتد قرار دیا اور اسلامی ریاست نے حکم نبوی کی بنیاد پر ان باغیوں کو کیفر کردار تک پہنچایا ،صحابہ کرام کے زمانہ خلافت وامارت میں اسلامی ریاست نے کفار و مرتدین اورباغیوں کو اپنے انجام تک پہنچایا۔
مدینہ طیبہ کے بعد روئے زمین پر دوسری اسلامی ریاست پاکستان کو اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہاں بھی ریاست نے پارلیمانی طور پر لمبی بحث و تمحیص کے بعد ختم نبوت کے منکرین قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور اسلامی شعائر کے استعمال کے حوالے سے امتناع آرڈیننس جاری کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے جان و مال کو بھی تحفظ بخشا اور ان کے شہری حقوق متعین کیے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ کیمونٹی ریاستی فیصلے کو بسر وچشم قبول کرتی اور ریاست کی احسان مند رہتی کیونکہ یہ ریاست کا ان پر احسان ہے جس کا بدلہ وہ کسی صورت بھی نہیں چکا سکتے۔
لیکن احسان فراموشی کی انتہاءبلکہ بغاوت کی انتہاءدیکھیے کہ سرکش قادیانی لابی آئین پاکستان کا تمسخر اڑاتی ہے اور ملکی قوانین کی دھجیاں بکھیرتی ہے۔ آئے دن ایسے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔
یقین مانیے کہ یہ ارتدادی فتنہ اہل اسلام بالخصوص اہلیان پاکستان کے آستین کا سانپ بنا ہوا ہے۔ہمارے چند حکمرانوں کے طمع و لالچ پر مبنی بعض فیصلوں کی بدولت اس غدار اور باغی کیمونٹی کے لوگ ملک کے کلیدی عہدوں پر بھی براجمان ہیں جس کی وجہ سے دنگا فساد ، دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ اور میرٹ کا استحصال ہو رہا ہے۔
بعض لوگوں کو اتنی کھلی ہوئی حقیقت نظر نہیں آ رہی اور وہ اس ریاستی باغی گروہ کے گیت الاپ رہا ہے۔پچھلے دنوں ایک نجی ٹی وی چینل پرایک اینکرپرسن نے پاکستان کے آئین کا مذاق، ریاستی فیصلے کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ ریاست کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کو کافر قرار دے۔ اس نے باقاعدہ کہا کہ میں اس پر ایک پورا پروگرام کروں گا اس کی اس بات کو پوری پاکستانی قوم نے سنا اور اس پر گہری تشویش اور غم وغصے کا اظہار کیا۔