جدید تہذیب یا قدیم اسلامی روایات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
جدید تہذیب یا قدیم اسلامی روایات؟؟
مولانا محمد کلیم اللہ حنفی
معاشرے کو خوشحال اور خوشگوار بنانے کے لیے روز ازل سے کئی منصوبے بنائے گئے ، باہمی محبت کی فضا پیدا کرنے کے لیے کئی جتن جتائے گئے ، ہزار کوششیں کی گئیں کہ انسانیت کو پر کیف زندگی بسر کرنے کو ملے۔ لیکن تاریخ عالَم گواہ ہے کہ خوشیوں کے چمن میں بہار نہ آ سکی ، تہذیب و تمدن کے نام نہاد علمبرداروں کے کھوکھلے نعروں میں صداقت کہ رمق نظر نہ آئی۔
ہاں یہ ضرور ہوا کہ مطلب پرستی ، دھوکا دہی اور خود فریبی کو فروغ ملا ، حضرت انسان کی عزت نفس بری طرح مجروح ہوئی۔ بالآخرقدرت کا وعدہ بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنما صورت میں رونما ہوا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت انسانی کو خالق انسانیت کے اصولوں کے سانچے میں ڈھالا۔ حالات کا رخ ابتری سے ترقی کی طرف موڑا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا محبت کے جھونکوں سے مہک اٹھی ، اُنس ، بھائی چارگی ، اخوّت ، رواداری ، ہمدردی اور باہمی الفت کے پھول کِھل اٹھے۔ آپ کی سنہری تعلیمات نے انسانیت کو بھائی بھائی ہونے کا احساس دلایا اور قابل رشک معاشرہ تشکیل دیا۔
چنانچہ معاشرے کی اخلاقی قدروں کو نمایاں کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں عالم گیر اصول ہائے جہاں بانی ارشاد فرمائے وہاں پر نجی زندگی کی گتھیاں بھی سلجھائیں اور ایسے امور کی نشان دہی فرمائی۔
خوشگوار رہن سہن کے حصول کے لیے آج کی دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ایک دوسرے کو ملتے وقت مسکراہٹ کا مظاہرہ کرنا چاہیے، تاکہ دوسرے کے دل میں رنجشیں ختم ہوں اور محبت کے جذبات پیدا ہوں جبکہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی
: تبسمک فی وجہ اخیک صدقۃ۔
یعنی خندہ پیشانی سے ملنے کا دنیوی اصول بھی سمجھایا اور اس پر اخروی اجر بھی بتایا۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج ہم اس نبوی اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے بھنویں چڑھا کر ، تیور بدل کر ملتے ہیں اور غیر مسلم اقوام اسے اپنا کر خوش اخلاق بنی ہوئی ہے۔
خوشگوار معاشرے کے قیام کے لیے آج کی دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ معاشرے میں اچھی باتوں کو عام کیا جائے تاکہ لوگوں کے اخلاق اچھے بنیں اور باہمی محبت کو فروغ ملے۔ جبکہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی:
وامرک بالمعروف صدقۃ
۔ یعنی لوگوں کو اچھی باتوں کی تلقین کرنے سے دنیاوی فوائد بھی ملیں گے اور اخروی ثمرات بھی۔
معاشرے میں ہر مزاج کے انسان مل جل کر رہتے ہیں بعض کے اخلاق عمدہ ہوتے ہیں تو بعض کے بے ہودہ۔ خوشگوار معاشرے کے لیے آج کی دنیا اس بات پر متفق ہے کہ اچھی باتیں سکھلانے کے ساتھ ساتھ بری باتوں سے روکنا بھی ضروری ہے ورنہ معاشرتی جرائم کی شرح میں اضافہ ہوگا جس سے دنیا کا امن تباہ ہو جائے گا جبکہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی
:نہیک عن المنکر صدقۃ۔
یعنی برائی سے روکنا دنیا سے معاشرتی جرائم کو ختم کرنے کا ذریعہ بھی ہے اور اخروی انعامات کے حصول کا وسیلہ بھی ہے۔
آج کی دنیا کے اداروں میں جائیں تو پہلے پہل ریسپشن )استقبالیہ (والے خیر مقدم کریں گے اور آپ کی رہنمائی کریں گے کوئی قافلہ کہیں جائے تو اس کو گائیڈ کرنے والے افراد مہیا ہوں گے جبکہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی: ارشادک الرجل فی ارض الضلال لک صدقۃ۔ یعنی بھولے بھٹکے شخص کو راستہ دکھانا اس سے جہاں مثالی معاشرہ قائم ہوتا ہے وہاں پر اخروی ثواب بھی ملتا ہے۔
آج کی دنیا میں متمدن قومیں وہ کہلاتی ہیں جو دوسروں کا خیال رکھیں۔ بصارت سے محروم نابینا افراد کو اگر کوئی سڑک پار کرادے یا اس کو منزل مقصود تک پہنچا دے تو ایسے لوگوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی:
نصرک الرجل الردی البصر لک صدقۃ۔
یعنی حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے سے جہاں معاشرتی اخلاقی فریضہ ادا ہوتا ہے وہاں پر خدا کی خوشنودی کی بدولت آخرت میں اجر بھی ملتا ہے۔
آج کی دنیا شاہراوں ، گلی کوچوں، چوک چوراہوں، محلوں اور شہروں کو صاف ستھرا رکھتی ہے اور اسے اپنی تہذیب گردانتی ہے جبکہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی:
اماطتک الحجر و الشوکۃ و العظم عن الطریق لک صدقۃ۔
یعنی راستوں کو صاف ستھرا رکھنا جہاں سکون و راحت کا باعث ہے وہاں پر اللہ کی طرف سے انعام کا بھی باعث ہے۔
آج کی دنیا انسانیت کی خدمت کے لیے سماجی اور رفاہی کاموں پر زور دیتی ہے ،اور جذبہ ایثار و ہمدردی کو اجاگر کرنے کی تعلیم دیتی ہے جبکہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی:
افراغک من دلوک فی دلو اخیک لک صدقۃ۔
یعنی اپنی ضروریات پر اپنے بھائیوں کی ضروریات کو ترجیح دینا جہاں باہمی محبت کا باعث ہے وہاں پر خدائی محبت کا حقدار بھی بناتی ہے۔
مشکوٰۃ المصابیح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
لا تحقرن شیئا من المعروف۔
کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بے وقعت نہ سمجھو۔ مذکورہ بالا باتیں بظاہر دیکھنے بھی بہت ہلکی سی معلوم ہوتی ہیں لیکن روز محشر ان کا وزن ہمارے نیکیوں والے پلڑے کو جھکا دے گا۔
باقی رہا صدقہ !اس بارے میں ایک بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ صدقہ کبھی اپنے مال سے کرنا فرض و واجب ہوتا ہے جیسے زکوٰۃ ، عشر ، فطرانہ قربانی اور کبھی مستحب جیسے نفلی صدقہ۔ مال کے صدقے کے علاوہ بھی اللہ کے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا امور کو صدقہ قرار دیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ حدیث پاک میں صدقے کے دو بنیادی فوائد ذکر کیے گئے۔ ایک تو یہ کہ صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہےاور دوسرا یہ کہ انسان کو ناگہانی اور حادثاتی موت سے محفوظ رکھتا ہے۔