دورانِ احرام حیض کا حکم

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
دارالافتاء
فقہ حنفی
دورانِ احرام حیض کا حکم
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن کی زیر نگرانی مرکز اھل السنۃ والجماعۃ کے” آن لائن دارالافتاء “سے پوچھے گئے سوالات و جوابات کا سلسلہ
نوٹ : سائل کو جواب میل کرنے کے بعد افادہ عام کے لیےادارے کی آفیشل ویب سائٹ www.ahnafmedia.com/darulifta پر اپ لوڈ کر دیا جاتا ہے۔
ای میل ایڈریس : This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
سوال :
ایک مسئلہ میں دینی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ایک عورت میقات سے احرام باندھ کر مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہو ئی، راستے میں اس کو کچھ پیلا رنگ کا پانی آ گیا اس نے اس کو حیض سمجھا کیونکہ اس کے حیض کا وقت متعین نہیں ہے، مکہ پہنچ کر اس نے کپڑے بدل لیے، اس کے بعد اس کو کوئی پانی وغیرہ کی شکایت نہیں ہوئی، وه اب کیا کرے؟ ایسے ہی عمرہ کرے یا مسجد عائشہ جا کر دوبارہ احرام کی نیت کرے؟
سائل: محمد اعظم سعد
لانڈھی ، کراچی
جواب:
عورت کو احرام باندھنے کے بعد اگر حیض آ جائے تو اس سے احرام باطل نہیں ہوتا اگرچہ وہ عورت کپڑے تبدیل بھی کر لے کیونکہ عورت کا احرام حج وعمرہ کی نیت کرنا اور تلبیہ کہنا ہے۔ جب عورت حج یا عمرہ کی نیت کر لے اور تلبیہ پڑھ کر احرام باندھ لے تو وہ مُحرِمہ بن جاتی ہے۔ البتہ ایسی عورت کے لیے حکم یہ ہے کہ ذکر واذکار اور دعائیں وغیرہ تو کرتی رہے گی لیکن طواف کے لیےمسجد حرام میں داخل نہیں ہو گی بلکہ پاک ہونےکے بعد ہی طواف کرے گی۔ حدیث مبارک میں حائضہ کے لیے یہ حکم ہے:
وتقضي المناسك كلها غير أن تطوف بالبيت حتى تطهر.
(جامع الترمذی: حدیث نمبر945)
ترجمہ: حائضہ عورت بیت اللہ کا طواف کرنے کے علاوہ تمام مناسک ادا کرے گی۔
اس دوران اگر عورت نے یہ سمجھا کہ میرا احرام باطل ہو چکا ہے اور اس نے احرام کی حالت میں جو کام ممنوع ہیں۔ ان کو کر لیا تو اس پر صدقہ یا دم آ جائے گا۔ مثلاً ایک دن پورا یا ایک رات پوری چہرہ کو ڈھانپے رکھا تو دم واجب ہو گا اور اگر اس سے کم لیکن ایک گھنٹہ سے زیادہ چہرہ ڈھانپے رکھا تو (نصف صاع گندم کا )صدقہ کرنا واجب ہو گا البتہ احرام پھر بھی باطل نہ ہو گا۔
(المحیط البرہانی: ج2 ص736)
واللہ اعلم بالصواب
الجواب الصحیح کتبہ
)مولانا ( محمد الیاس گھمن )مفتی (شبیر احمد حنفی
سوال:
بعض لوگوں کو عجیب طرح سے نماز پڑھتے دیکھا ہے کہ تشہد میں شہادت کی انگلی کو مسلسل حرکت دیتے رہتے ہیں۔ پوچھنا یہ تھا کہ ہم التحیات میں ہم اپنی شہادت کی انگلی کتنی بار اٹھائیں؟
سائل: رفیق احمد خان ، سری نگر کشمیر
جواب:
التحیات میں شہادت کی انگلی صرف ایک بار اٹھانی چاہیے، پھر اسے آخر نماز تک بچھائے رکھنا چاہیے۔ بار بار اٹھا کر حرکت نہ دی جائے۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ یُشِیْرُبِاِصْبَعِہٖ اِذَادَعَا وَ لاَ یُحَرِّکُھَا.
(سنن النسائی: حدیث نمبر 1270 ،سنن ابی داؤد: حدیث نمبر 989)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی سے اشارہ کرتے تھے اور اسے حرکت نہیں دیتے تھے۔
قال الامام النووی: اسناده الصحيح.
(المجموع شرح المہذب: ج3 ص454)
قال الشیخ أيمن صالح شعبان:إسناده صحيح.
(حاشیہ جامع الأصول في أحاديث الرسول:تحت حدیث 2117)
غیر مقلد عالم محمد عبد الرحمٰن مباک پوری اس روایت کو عدم تحریک کی دلیل قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
فهذا الحديث يدل صراحة على عدم التحريك وهو قول أبي حنيفة.
(تحفۃ الاحوذی: ج2 ص160)
ترجمہ: اس حدیث سے صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ تشہد میں انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے انگلی کو بار بار نہیں ہلانا چاہیے اوریہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا موقف ہے۔
فائدہ:
بعض لوگ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ اشارہ کرتے ہوئے انگلی کو باربار حرکت دینی چاہیے۔ روایت یہ ہے:
ثُمَّ رَفَعَ إِصْبَعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بِهَا.
(السنن الکبریٰ للبیہقی: حدیث نمبر 2899)
ترجمہ: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شہادت کی انگلی اٹھائی، میں نے دیکھا کہ آپ دعا کر رہے ہیں اور انگلی کو حرکت دے رہے ہیں۔
لیکن صحیح تر بات یہ ہے کہ اس ”حرکت دینے“سے مراد انگلی کو بار بار ہلانا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد پہلی مرتبہ ”اشارہ کرنا“ ہے۔ مشہور محقق عالم امام ابو بکر البیہقی (ت458ھ) حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں:
اَ لْمُرَادُ بِالْتَحْرِيكِ الإِشَارَةُ بِهَا لَا تَكْرِيرُ تَحْرِيكِهَا ، فَيَكُونُ مُوَافِقًا لِرِوَايَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ.
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج2 ص132 تحت حدیث2899)
ترجمہ: حضرت وائل کی اس روایت میں ”حرکت دینے“سے مراد انگلی کو بار بار ہلانا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد پہلی مرتبہ ”اشارہ کرنا“ ہے۔ یوں یہ روایت حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی روایت کے موافق بن جاتی ہے (جس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔ )
واللہ اعلم بالصواب
الجواب الصحیح کتبہ
)مولانا ( محمد الیاس گھمن )مفتی (شبیر احمد حنفی