ڈاکٹر……مقام اور ذمہ داریاں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
ڈاکٹر……مقام اور ذمہ داریاں
ڈاکٹر؛ ہمارے معاشرے کا وہ محسن طبقہ ہے جوصحت مند معاشرہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمارے ان محسنوں کا شریعت میں مقام کیا ہے اور ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں ؟ شرعی نقطہ نظر سے ہمیں بتا رہے ہیں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
کسی بھی سماج میں ڈاکٹر اور معالج کی خاص اہمیت ہے ، اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں ایسا وجود عطا کیا ہے جس میں خوبیوں اورصلاحیتوں کے ساتھ ساتھ خامیوں اور مجبوریوں کی آمیزش بھی پائی جاتی ہے ، انسان کی طاقت و قوت کا حال یہ ہے کہ کائنات کی بڑی سے بڑی اور طاقتور سے طاقتور ترین مخلوق بھی انسان کی قوتِ تسخیر کی اسیر ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی کمزوری اور ناطاقتی کا حال یہ ہے کہ معمولی کیڑے مکوڑے بھی اسے نقصان پہنچاسکتے ہیں ، ایک بالشت کا سانپ بھی اس کی جان لے سکتا ہے اور بیماریاں اسے آسانی سے بچھاڑ سکتی ہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے اس کائنات میں زہر کے ساتھ ساتھ اس کا تریاق بھی پیدا فرمایا ہے اور بیماریوں کے ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے بڑھاپے کے سوا ہربیماری کی دوا پیدا کی ہے :
’’ تداووا فإن اﷲ عزوجل لم یضع دائً إلا وضع لہ دوائً غیر دائٍ واحد الھرم‘‘
( سنن ابی داؤد ، حدیث نمبر : ۳۸۵۷ (
اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ کی دی ہوئی عقل اور تجربہ کی قوت کو استعمال کرتے ہوئے دواؤں کو دریافت کرے ، اس کام کو میڈیکل سائنٹسٹ اور ڈاکٹرز انجام دیتے ہیں ، اس لئے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانی خدمت کے پہلو سے ان کی خدمات نہایت اہم ہیں ، بھوکے کو کھانا کھلانا ، محتاج کو کپڑے پہنانا ، معذور کے کام میں ہاتھ بٹانا اور ضرورت مند کی حاجت پوری کرنا یہ سب مخلوق کی خدمت ہے ، لیکن انسان سب سے زیادہ خدمت کا محتاج اس وقت ہوتا ہے جب وہ مریض ہو ، بیماری انسان کو اس مقام پر پہنچادیتی ہے کہ کھانا موجود ہونے کے باوجود وہ کھانہیں سکتا ، ہاتھ پاؤں سلامت ہیں ، لیکن وہ ایک قدم چل نہیں سکتا اور تیماداری اور مددگاروں کے رحم و کرم کا محتاج ہوجاتا ہے ، اسی لئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مریض کی عیادت اور تیمار داری کو بے حد اجر کا باعث قرار دیا ہے ، آپ انے فرمایا : جب تک ایک شخص مریض کی عیادت میں رہتا ہے گویا وہ جنت کے باغ میں ہے ( مسلم : ۶۵۵۱ ) اس طرح ڈاکٹر گویا اپنی ڈیوٹی کے پورے وقت اس حدیث کا مصداق ہوتا ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچائے اور کون ہے جو انسانوں کے لئے ڈاکٹر اور معالج سے بڑھ کر نافع ہو ؟ اس طرح گویا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ سے ڈاکٹر کو ’’ خیر الناس ‘‘ ( بہترین انسان ) کا ایوارڈ ملا ہے ، ان سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہوسکتا ہے ، فن طب کی اسی اہمیت کی وجہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اصل علم دو ہی ہیں : فقہ ، کہ زندگی گذارنے کا طریقہ معلوم ہو اور طب تاکہ جسم انسانی کی اصلاح پر قدرت ہوسکے ،
’’ العلم علمان : الفقہ للادیان وعلم الطب للابدان ‘‘۔
( مفتاح السعادۃ : ۱؍۲۶۷(
واقعہ ہے کہ یہ گروہ انسانیت کا سب سے بڑا محسن ہے اور اس نسبت سے ان کی توقیر و تکریم سماج کا فریضہ ہے ، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ علاج سے جلدی فائدہ نہیںہوا ، یا مریض کی موت واقع ہوئی تو لوگ ڈاکٹر سے اُلجھ جاتے ہیں اور بعض دفعہ تو اس کی جان کے بھی لالے پڑجاتے ہیں ، یہ غیر سنجیدہ طرزِ عمل ہے ، اس لئے کہ علاج تو انسان کے اختیار میں ہے ، لیکن صحت و شفا خدا کی مشیت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ،
’’وإذا مرضت وہو یشفین‘‘
(سورۃ الشعراء : ۸۰) ، زندگی کو بچانے کا مکلف قرار دینا اس پر اس کی صلاحیت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔
جو شخص جس مقام کا حامل ہوتا ہے اسی نسبت سے اس کی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں ، اس لئے ڈاکٹر اور معالج حضرات کو اپنی ذمہ داریوں پر بھی توجہ دینی چاہئے ، ڈاکٹر کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ اس پیشہ میں خدمت کے پہلو کو مقدم رکھے ، ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ مریضوں کا مفت علاج کریں اور اپنے گھر سے دوائیں لاکر کھلادیں ، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس پیشہ کو محض تجارت اور بزنس نہ بنادیا جائے اور اجرت کے ساتھ ساتھ اجر کے پہلو کو بھی ملحوظ رکھا جائے ، اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ تعلیم اور علاج نے ایک زبردست کاروبار کی صورت اختیار کرلی ہے اور معاشی کشش کی وجہ سے بہت سے ہوٹل ، ہاسپٹل میں تبدیل ہوگئے ہیں ، ڈاکٹروں کی فیس مریض کے لئے ناقابل برداشت بوجھ بن گئی ہے ، پھر فیس کے سلسلے میں بھی ایک نئی روایت یہ قائم ہورہی ہے کہ مریض جتنی بار مشورے کے لئے جائے ہر بار فیس ادا کرے۔
اس طرح بعض اوقات ہر ہفتہ ڈاکٹرز فیس وصول کرلیتے ہیں ، پھر آمدنی کے بالواسطہ ذرائع بھی پیدا کرلئے گئے ہیں ، دوائیں لکھی جاتی ہیں اور مخصوص و متعین دوکانوں سے دوا خرید کرنے کو کہا جاتا ہے ، تاکہ ان سے کمیشن مل سکے ، مریض پر بوجھ ڈالنے اور اپنی جیب بھرنے کے لئے ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو دوائیں پہلے لکھی گئی تھیں ابھی وہ ختم بھی نہیں ہوئی کہ دوا تبدیل کردی جاتی ہے اور اسی فارمولہ کی دوسری دوا ، جس کا نام کمپنی بدل جانے کی وجہ سے بدلا ہوا ہوتا ہے ، لکھ دی جاتی ہے ، بیچارے مریض کو ڈاکٹر صاحب کی اس ہوشیاری کی خبر بھی نہیں ہوتی۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جتنی دوا مطلوب ہے اس سے زیادہ لکھ دی گئی اور چند دنوں میں نسخہ بدل دیا گیا اور زائد دوائیں بیکار ہوگئیں ، یہ بھی ہوتا ہے کہ نقلی دوائیں یا ایسی دوائیں جن کی مدت ختم ہوچکی ہے ، دی جاتی ہیں اور معیاری دواؤں کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔
امراض کے ٹیسٹ کا معاملہ تو سب سے سوا ہے ، بے مقصد ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں ، مریض نے اگر کسی دوسرے ڈاکٹر سے ٹیسٹ کرایا ہو تو چاہے وہ رپورٹ دن ، دو دن پہلے ہی کی کیوں نہ ہو ، لیکن نیا ڈاکٹر پھر سے پورے ٹیسٹ کراتا ہے اور یہ بھی ضروری قرار دیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر نے جس پیتھالوجسٹ کا مشورہ دیا ہے اسی کے یہاں ٹیسٹ کرایا جائے۔
ان اقدامات میں مخلصانہ جستجو و تحقیق کا جذبہ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے ، اکثر اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ کمانا اور اپنی جیب بھرنا ہوتا ہے ، ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹر یا کسی خاص ہاسپٹل کو مریض ریفر (Refer) کرتا ہے
یہ تمام صورتیں اگر مریض کی بھلائی کے جذبہ سے ہوں تب ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، لیکن افسوس کہ ان سب کا مقصد کمیشن کھانا ہوتاہے ، دواؤں پر کمیشن ، ٹسٹ پر کمیشن ، مریض کے بھیجنے پر کمیشن اور جہاں جہاں ممکن ہو وہاں سے کمیشن کاحصول ، ان کمیشنوں اوران کی بڑھتی ہوئی شرحوں نے مریض کی کمر توڑ دی ہے اور غریب لوگوں کے لئے ہاسپٹل جانے کا تصور بھی ایک بوجھ ہوتا ہے ، یہ کمیشن فقہی اعتبار سے رشوت ہے ، اس کا لینا حرام ہے اور اس میں واسطہ بننا بھی حرام ہے۔
حکومت کی طرف سے اس بات پر پابندی ہے کہ سرکاری ہاسپٹلوں میں کام کرنے والے ڈاکٹر الگ سے اپنے نرسنگ ہوم چلائیں ، لیکن جسے خدا کا خوف نہ ہو اس کے قدم کون تھام سکتا ہے ؟
چنانچہ عام طورپر سرکاری ڈاکٹرز بھی فرضی ناموں سے نرسنگ ہوم چلاتے ہیں ، جو مریض سرکاری ہاسپٹل میں آتا ہے ، اسے بے توجہی سے دیکھتے ہیں اور صراحتاً یا اشارتاً انہیں نرسنگ ہوم میں آنے کی دعوت دی جاتی ہے ، یا عملی طورپر انہیں اس پر مجبور کردیا جاتاہے؛ تاکہ ان سے زیادہ سے زیادہ پیسے ہتھیائے جاسکیں اس عمل میں جھوٹ بھی ہے اور دھوکہ بھی اور بعض دفعہ پریکٹس نہ کرنے کا الاؤنس بھی دیا جاتا ہے، لہٰذا اب اس کے باوجود پیسے لے کر پرائیوٹ پریکٹس حرام طریقہ پر مال حاصل کرنے کی مجرمانہ کوشش بھی ہے اور یہ قرآن کے اس ارشاد کہ ، باطل طریقے پر مال نہ کھاؤ ، کے قطعاً مغایر ہے ،
’’ ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل ‘‘۔
(سورۃ بقرہ : ۱۸۸(
اسی طرح ایک نئی صورتِ حال یہ ہے کہ جن امراض کا علاج دواؤں کے ذریعہ ممکن ہے ، ان میں بھی آپریشن کا مشورہ دیا جاتا ہے ، تاکہ علاج گراں بار ہو اور مریض کی یہ گرانی معالج کے لئے ارزانی کا باعث ہے ، خاص کر ولادت کے کیس میں کثرت سے اس طرح کی بات پیش آتی ہے اور آپریشن کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ زچگی کرائی جاتی ہے اور حکومت بھی اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ، کیونکہ یہ بالواسطہ فیملی پلاننگ کو بروئے کار لانا ہے۔
اسی طرح مریض کی موت کے باوجود اسے مصنوعی آلۂ تنفس پر رکھا جاتا ہے ، تاکہ بل بڑھتا رہے ، یہ کس درجہ ناشائستہ طریقہ ہے۔
ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ آپریشن کی میز پر پیٹ چیرنے کے بعد ڈاکٹر کی طرف سے نیا مطالبہ سامنے آتا ہے اور مریض اوراس کے متعلقین اس کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں ، یہ تمام صورتیں شرعاً ناجائز اور گناہ ہیں ، اور اکثر صورتوں میں آمدنی بھی حرام ہے ، افسوس کہ بہت سے دیندار لوگ بھی اپنی لا علمی کی وجہ سے ان گناہوں میں مبتلا ہیں ، ڈاکٹر کے لئے صرف اس کی تنخواہ اور پرائیوٹ علاج کی صورت میں اس کی فیس ، نیز مریض کو اس نے جو دوائیں دی ہیں ، ان کی معروف اور مروجہ قیمت ہی جائز ہے۔
معالج کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس نے اپنے فن کو باضابطہ طورپر پڑھا ہو ، محض چند سنی سنائی باتو ں پر علاج شروع کردینا درست نہیں ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے طب کا علم حاصل نہ کیا ہو ، وہ علاج کرے تو وہ نقصان کا ضامن ہوگا ،
من تطب ولم یعلم منہ قبل ذلک الطب فہو ضامن
( ابوداؤد : ۲؍ ۶۳۰)
اسی لئے فقہاء نے ایسے طبیبوں پر پابندی لگانے کا حکم دیا ہے
( بدائع الصنائع : ۷؍۱۶۹)
ناواقف طبیب سے مراد وہ شخص ہے جس میں بیماری اور اس کی دوا کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو ، دواؤں کے اثرات سے واقف نہ ہو ، نیز دوائیں دے دیتا ہواور اس کے ری ایکشن کو روکنے والی دواؤں کا علم نہ رکھتا ہو:
یسقی الناس دواء مہلکا ولایقدر علی ازالۃ ضرر دواء اشتد تاثیرہ علی المرضی۔
( الفقہ الاسلامی وادلتہ : ۵؍۴۴۹)
لہٰذا ایسے ناواقف اور کوتاہ علم طبیب کی کوتاہیاں قابل ضمان ہوں گی اور ان کو سزا دی جائے گی ، یہ سزا جسمانی سرزنش بھی ہوسکتی ہے ، قید بھی اور خوں بہا بھی۔
( بدایۃ المجتہد : ۲؍۲۳۳(
جو معالج تعلیم یافتہ ہو ، لیکن اس نے علاج میں کوتاہی سے کام لیا ہو ، مناسب تحقیق نہیں کی ہو اور اس کی اس کوتاہی کی بناپر مریض کو نقصان پہنچا ہو تب بھی وہ ذمہ دار ہوگا اور اس سے ہر جانہ وصول کیا جائے گا۔
ہاں اگر اس نے فن طب کو پڑھا بھی ہو اور اُصول کے مطابق علاج بھی کیا ہو؛ لیکن اس کے باوجود مریض کو صحت نہیں ہوسکی یا اس کا مرض اور بگڑ گیا ، تو اب وہ اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا ، چنانچہ
مشہور فقیہ علامہ دردیر فرماتے ہیں :
إذا عالج طبیب عارف ومات المریض عن علاجہ المطلوب فلا شیٔ علیہ
( سیر صغیر : ۴؍۲۲۰ )
افسوس کہ آج کل علاج کی ایسی سنگین کوتاہیاں سامنے آتی ہیں کہ بعض دفعہ تو سرجن قینچی اور چھری بھی مریض کے جسم میں بھول جاتا ہے ، ایسے غفلت شعار ڈاکٹر انسانیت کے خادم نہیں ہادم ہیں اور وہ سماج کے لئے رحمت کے بجائے زحمت ہیں ، غرض کہ طب و علاج کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے اور معالج انسانی خدمت کے اعتبار سے سب سے اہم ذمہ داری انجام دیتا ہے ، وہ اپنے پیشے میں اُجرت کے ساتھ ساتھ اجر اوردنیا کے نفع کے ساتھ ساتھ آخرت کے نفع کو بھی پاسکتا ہے ، بشرطیکہ وہ اس پیشہ کو محض تجارت کے طورپر اختیار نہ کرے ، بلکہ اس میں خدمت کے پہلو کو بھی ملحوظ رکھے اور جھوٹ ، دھوکہ اور حرام طریقہ پر کسب ِمعاش سے اپنے دامن کو بچائے۔