شہیدِ ناموسِ شہہ دین،غازی علم دین﷬

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
شہیدِ ناموسِ شہہ دین،غازی علم دین﷬
مولانا محمد کلیم اللہ حنفی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
10 اپریل 1875ء میں بمبئی میں ہندو دھرم کی کوکھ سے جدید فرقہ آریہ سماج نے جنم لیا، اس کا بانی سوامی دیانند سرسوتی تھا، وہ 1824ءمیں کاٹھیاواڑ گجرات میں پیدا ہوا ، اس نے ہندو دھرم کے از سر نو حدود متعین کیں ، بت پرستی سے منع کیا ، دیوی دیوتاؤں کو ماننے سے انکار کیا ، وہ ذات پات کو مذہبی یا فطری تقسیم کے بجائے سیاسی تقسیم کہتے تھے، انہوں نے مذہبی اصلاح پسندی کا آغاز کیا تو تھوڑے ہی عرصے میں پڑھے لکھے ہندو جوق در جوق ان کی تحریک میں شامل ہوگئے۔ آریہ سماج کے لیے باقاعدہ آئین بنایا گیا اور اس کو ہندوستان بھر میں پھیلانے کے لیےمنظم منصوبہ بندی کی گئی ، 1883 ء دیانند سرسوتی کا انتقال ہوگیا۔
دیانندسرسوتی شاطر اور چرب زبان تھا اس وجہ سے اس نے کئی مناظرے کیے اور کتابیں بھی لکھیں۔ اس کے اسلام پر 11مشہور اعتراض کیے جس کا جواب بانی دارالعلوم دیوبند حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی نے انتصار الاسلام ، قبلہ نما اور ترکی بہ ترکی میں دیا۔ سرسوتی کی وفات کےکافی عرصے بعد ان کی کتاب "ستیارتھ پرکاش" جو کہ قرآن پاک کے خلاف لکھی گئی تھی ، کو راج پال نامی شخص نے اپنے مکتبے سے شائع کیا۔ اس کا اردو ترجمہ لاہور کے ایک ہندو پروفیسرسوامی پنڈت چمو پتی ایم اے نےکیا۔ اس کتاب کی اشاعت سے مسلمانوں کے دینی و قلبی جذبات مجروح ہوئے رد عمل کے طور پر مسلمانوں نے اس کی اشاعت پر شدید احتجاج کیا لیکن راج پال کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی۔اسی طرح لاہور کے ایک ہندو پروفیسرسوامی پنڈت چمو پتی کی تصنیف کردہ ”رنگیلا رسول“ نامی کتاب بھی راج پال نے اپنے مکتبہ سے شائع کر دی۔
میں نے خود ”رنگیلا رسول“ نامی کتاب کو از اول تا آخر مکمل پڑھا ہے۔ جس میں مصنف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ازدواجی زندگی اور تعدد ازواج کو بھونڈے اور تمسخر انگیز پیرائے میں تحریر کیا ہے۔ میری طرح اس کتاب کو پڑھنے سے اس وقت کے مسلمانوں میں بھی شدید اضطراب پیدا ہوا ، مسلمانوں نے راج پال کے خلاف قانونی کارروائی کی بہت کوششیں کیں لیکن برطانوی سرکار یہ کہہ کر معاملہ ٹالتی رہی کہ قانون میں گستاخ رسول کے خلاف کارروائی کی کوئی گنجائش نہیں۔
موچی دروازہ لاہورکے جلسہ عام میں امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے عشق رسول سے لبریز خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک ہفتہ کے اندر کوئی نوجوان میرے نانا کے اس ملعون گستاخ کو ہلاک نہ کرپایا تو حرمت رسول اللہ کی قسم یہ بوڑھا سید زادہ خود اپنے ہاتھوں سے یہ مقدس فریضہ سرانجام دے گا۔
شاہ جی کی اس بات کو سننے والے ہزاروں لوگ تھے، شاہ جی کی اس پر اثر تقریر نے لوگوں کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ چنانچہ 24 ستمبر 1928ء کو یکی دروازہ لاہور کے ایک کشمیری نوجوان خدا بخش نے گستاخ رسول پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن راج پال بچ نکلا۔ غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزاسنائی گئی ،19 اکتوبر 1928ء کو افغانستان کا ایک نوجوان عبدالعزیز لاہور آیا اور اُس نے راج پال کی دکان کا رخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا۔ غازی عبدالعزیز نے غلط فہمی میں اس کو راج پال سمجھ کر اس پر حملہ کر کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا۔ اور اسے بھی حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنادی۔ ہندو پبلشر راج پال پھر بچ گیا۔راج پال ان حملوں کے بعد نہایت خوفزدہ رہنے لگا۔ حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو سپاہیوں اور ایک سکھ حوالدار کو اس کی حفاظت پر متعین کردیا۔
شاہ جی رحمہ اللہ کی تقریر سننے والوں میں ایک نوجوان علم دین بھی موجود تھا۔ غازی علم دین 4 دسمبر 1908ء کو کوچہ چابک سواراں رنگ محل لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان پیشے کے اعتبار سے فرنیچر سازی کرتا تھا۔ علم دین کے کانوں میں شاہ جی کے پردرد الفاظ گونجتے رہتے تھے اس نے دل ہی دل میں ٹھا ن لی کہ کسی بھی قیمت پر اس گستاخ رسول کا کام تمام کرکے رہوں گا۔ چنانچہ علم دین گمٹی بازار میں پہنچے اور وہاں سے اپنے مطلب کی تیز دھار چھری لی۔ اور راج پال کی دکان کا رخ کیا ، اس دکان میں کدار ناتھ اور بھگت رام بطور ملازم کام کیا کرتے تھے۔
6 اپریل 1929ء کو غازیعلم دین جذبہ ایمانی سے معمور ہو کر راج پال کی دکان پر پہنچا تو کدار ناتھ پچھلے کمرے میں کتابیں رکھ رہا تھا، جبکہ بھگت رام راجپال کے پاس ہی کھڑا تھا۔ راجپال نے درمیانے قد کے گندمی رنگ کے نوجوان کو اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھ لیا، لیکن وہ سوچ بھی نہ سکا کہ موت اس کے اتنے قریب آچکی ہے۔
غازی علم دین نے راج پال پر تیز نوکیلے دھاری دار خنجر اس زور سے وار کیا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی، کشمیر سے راسکماری تک غازی علم دین کی بہادری وجرات ایمانی کا ڈنکا بج گیا۔ عاشقان رسول کے جذبات کا یہ عالم قابل دید تھا کہ اس ہندو گستاخ کے قتل کا عہد کرنے والے باقی نوجوان روتے اور ہاتھ ملتے رہ گئے۔
غازی علم دین کو گرفتار کر لیا گیا اور اور سیشن عدالت میں مقدمہ چلنے کے بعد انہیں سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا جس کے خلاف عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی۔ سیشن کورٹ نے 22 مئی 1929ء کو غازی علم دین کے لئے سزائے موت سنا دی۔ یہ وہ موقع تھا جب قائد اعظم نے غازی علم دین کی سزائے موت کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی اور عدالت میں موقف اختیار کیا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر رکیک حملے کرنا اور عوام میں نفرت پھیلانا زیر دفعہ 135 الف جرم ہے لیکن راج پال کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی اُس نے غازی علم دین کو اشتعال دلایا لہٰذا غازی علم دین کے خلاف زیردفعہ 302 قتل عمد کی بجائے زیر دفعہ 308 قتل بوجہ اشتعال کارروائی کی جائے جس کی سزا زیادہ سے زیادہ سات سال قید ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے متعصب ہندو جسٹس شادی لال نے اپیل مسترد کر دی اور غازی علم دین کو پھانسی کے لئے میانوالی جیل بھجوا دیا گیا۔ 31 اکتوبر 1929ء کو غازی علم دین کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
تاریخ لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ شہید کو میانوالی جیل صبح سات بجے تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ شہسوارِ شہادت کو آٹھ بجے پھانسی گھاٹ سے اتا رنے کے فوراً بعد بہیمانہ انداز میں نو بجے بغیر نماز جنازہ ہی دفن کر دیا گیا۔
قانونی و اخلاقی بد دیانتی کی یہ دل آزار خبر شام ڈھلے تک پورے ہندوستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔
پوری امت مسلمہ ہیجان کی کیفیت سے دو چار تھی، ہر مسلمان کا مطالبہ تھا کہ شہید کی میت کو اس کی وصیت کے مطابق لاہور میں دفن کیا جائے۔ مسلمانوں نے برکت علی محمڈن ہال میں علامہ اقبال کی زیر صدارت جلسہ کا پروگرام بنایا۔ یکم نومبر کو علامہ اقبال کے گھر جلسہ منعقد ہوا۔
اگلے روز 2 نومبر کو پروفیشنل مسلم لیگ کی کونسل کے اجلاس میں علامہ اقبال کی تحریک پر حکومت سے غازی علم دین کی لاش لینے پر اتفاق رائے ہوا۔ 5 نومبر کو علامہ اقبال ،محمد شفیع اور دیگر افراد پر مشتمل وفد نے گورنر سے ملاقات کی۔ بالآخر گورنمنٹ نے عوامی احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔
شہادت کو15 دن بیت چکے تھے، لاہور آنے سے قبل شہید کی لاش دو ہفتے تک قبر میں دفن رہی۔ آخرکار غازی علم دین کا جسد خاکی بذریعہ ٹرین لاہور لایا گیا۔ مستند روایات کے مطابق غازی علم دین کے جنازے میں چھ لاکھ سے زائد مسلمان شریک تھے۔ بھاٹی چوک لاہور سے لے کر سمن آباد تک لوگ ہی لوگ تھے۔ غازی علم دین کے جسد خاکی کو علامہ اقبال اور سیّد دیدار علی شاہ نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ جب غازی علم دین کو لحد میں اُتار دیا گیا تو مولانا ظفر علی خان نے چیخ کر کہا کہ کاش! یہ مقام آج مجھے نصیب ہوتا۔ یہی وہ موقع تھا جب علامہ اقبال کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے ” اسیں گلاں کردے رہ گئے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا “۔
اس منظر کی عکاسی کرتے ہوئے تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ برصغیر میں ہونے والے کسی جنازہ میں عوام الناس کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت بہت کم موقع پر نظر آئی، جتنی غازی علم دین شہید کے جنازے میں تھی۔ 14نومبر 1929 کو غازی علم دین شہید کی وصیت کے مطابق انہیں بہاولپور روڈ کے قریب قبرستان میانی صاحب لاہور میں دفن کیا گیا۔
میانی صاحب قبرستان میں غازی علم دین کے مزار پر میں کئی بار گیا ہوں ، آج بھی غازی کی خاموش قبر کی صدا کانوں میں گونج رہی ہے کہ ناموس شہہ دیں صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے جان دینا ہی زندگی ہے۔