داعی امت کا وجود

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
داعی امت کا وجود
محمد عامر قاسمی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی دعوت دین، اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہونچانے، اوربندوں کو بندوں کی بندگی سے اور دنیا کی تنگی سے اللہ کی وسعت کی طرف بلانے کے لیے کس قدر بے چین اور بے کل تھے، بلکہ ایک بے قرار ہستی تھی جو دعوت دین اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی، ایک تڑپ تھی، کرب تھا، سوز تھا، ایک درد تھا، وہ درد بھی متعدی تھا کہ جس کی لذت کے آشنا دوسرے بھی بن جائیں، اس درد کو ختم کرنے کیے لیے شدید مخالفت، تحقیر وتذلیل، استہزا اور ایذا رسانی کے حربے استعمال کیے جاتے رہے، مگر سب بےسود۔
دعوت کے اس سلسلے کو یہ حربے بھی روک نہ سکے، مکہ کی سر زمین تنگ ہوئی تو طائف گئے، کہیں وہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے امکان نظر آجائیں، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی محنت سے جو امت وجود پذیر ہوئی وہ خیر امت کہلائی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس کی شناخت ٹھہری جیسا کہ رب قدیرنے ارشاد فرمایا:
’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
)آل عمران: 110(
شیخ الحدیث مولانا سرفرازخان صفدر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’یعنی اس امت کے بہتر اور اعلیٰ ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے پاس مال ودولت کی فراوانی ہوگی،قوت وشوکت ہوگی ،اقتدار وسلطنت کی باگ ڈور ہوگی ،یہ سب چیزیں محض ضمنی بالتبع اور سایہ ہیں اس امت کی اصل فضیلت اور برتری کے مقابلے میں یہ بالکل ہیچ ہیں ،اس امت مرحومہ کی حقیقی بہتری کی وجہ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ لوگوں کی ہمدردی اورخیر خواہی کے سبب بہتر ہے اور خیر خواہی اور ہمدردی کی وجہ بھی بیان فرمادی ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کی صورت میں بہی خواہی ان کے اسوہ میں داخل ہوگی ،چونکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تاقیامت کسی کو نبوت اور رسالت کا مقام حاصل نہیں ہوسکتا اوردین اسلام قیامت تک باقی رہنے والی ایک انمول اور گراںمایہ دولت ہے ،اس لیے کارِ نبوت کا گراں بوجھ امت مرحومہ کے ایک ایک فرد کے کندھے پر ڈال دیاگیا ہے کہ اب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہم فریضہ یہ امت مرحومہ اداکرے گی اوراس سے یہ تمام امتوں سے فوقیت لے جائے گی اور اسی سبب سے یہ خیر الامم اور بھلی امت قرارپائے گی ،گویا خود ہی نیکی نہیں کرے گی بلکہ بھٹکی ہوئی اور گمراہ دنیاکو نہایت دل سوزی اور اخلاص کے ساتھ راہ راست پر لانے کے لیے اپنی قیمتی جان اور سرمایہ بھی کھپائے گی۔ برائی اور بے حیائی اور بدی کو مٹانے کے لیے ہر وقت ساعی رہے گی۔
علامہ شبیر عثمانی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتےہیں:’’تقوی، اعتصام بحبل اللہ، اتحاد و اتفاق، قومی زندگی اسلامی مواخات، یہ سب چیزیں اس وقت باقی رہ سکتی ہیں، جب کہ مسلمانوں میں ایک جماعت خاص دعوت وارشاد کےلئے قائم رہے اس کا وظیفہ ہی یہ ہو وہ اپنے قول وفعل سے دنیا کو قرآن کی طرف بلائے، اور جب لوگوں کو اچھے کام میں سست اور برائیوں میں مبتلا دیکھے اس وقت بھلائی کی طرف متوجہ کرنے اور برائی سے روکنے میں مقدور کے موافق کوتاہی نہ کرے یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعد عہد صدیقی میں شدید فتنے اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بڑی فراست ،دوراندیشی اور استقامت کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہو کر تمام فتنوں کا استیصال فرمایا۔ اوراسی طرح سیدنا عمر فاروق ؓنے بھی بعض دوسرے سرکاری محکموں کی طرح نظام احتساب اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کابھی باقاعدہ محکمہ قائم فرمایا۔ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نےبھی اپنے عہد میں اس نظام کو مضبوط بنایا لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نےنظام احتساب کے حوالے سے ایک بار پھر حضرت عمر بن خطابؒ کی یاد تازہ کردی۔اموی ،عباسی اوربعد میں عثمانی خلفاء کےادوارمیں بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کانظام کسی نہ کسی صورت میں قائم رہا۔ دین کے مرکز سعودی عرب میں آج بھی نظام احتساب کا ادارہ ’’ھیئۃ الامربالمعروف والنہی عن المنکر‘‘ کے نام سے بڑا موثر کردار اداکررہا ہے۔ لیکن یہ امر افسوس ناک ہے کہ جس فکر کے ساتھ محمد بن قاسم اس ملک میں داخل ہوئے تھے، اس فکر کو جلا بخشنے کی بجائے امراء وسلاطین مملکت اور بادشاہوں نے اس کا خون کردیا، ان کی فکر یں خوبصورت محلات کی تعمیر، بلند وبانگ عمارتیں، تاج محل اور لال قلعہ جیسی عمارتوں پر مرکوز ہو کر رہ گئیں، ہندو مسلم یکجہتی کی بات کر کے مثبت پیغام دینے کی کوشش کی، لیکن اس عظیم ذمہ داری سے پہلو تہی اختیار کیا گیا، جس کی وجہ سے اسے خیر امت قرار دیا گیاتھا، تاریخی حوالے سے اگر ہم بات کریں تو یہ بات چھن کر سامنے آتی ہے کہ سلاطین فرمانرواں نے امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو فراموش کردیا، جس کا نتیجہ ہے کہ ہم آج بڑی اقلیت میں ہونے کے باوجود اقلیت کا رونا روتے ہیں، اور اپنی شناخت کے باقی اور قائم رکھنے کا مسئلہ ہمارے لئےآ کھڑا ہوا، گستاخی معاف ہو! جس امت نے اپنی اصل شناخت کو ہی فراموش کردیا ہو، اس کے سامنے اس کی شناخت کا مسئلہ کیا اس کے وجود کے باقی رہنے اور نہ رہنے کا مسئلہ بھی کھڑا ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے، رب قدیر کی زمین پر اس کے باقی رہنے کا جواز یہی ہے کہ وہ خدا کی خدائی کا ڈنکا بجائے، اور اس کے اوامر کو بجالائے اور لوگوں کو روشناش کرائے اور اس کے نواہی سے بچے اور ڈنکے کی چوٹ سے کہے کہ یہ برا ہے، بقول ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ کے بندگان خدا کو بندوں کی بندگی سے اور خدائے واحد کی بندگی کی طرف اور دنیا کی تنگی سے اس کی وسعت کی طرف بلائےجس طرح جعفر بن طیارؓ نے نجاشی کے دربان میں ڈنکے کی چوٹ اور پوری قوت سے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی۔
معروف اور منکر صرف جزئی امور میں ہی محدود نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ معروف ہر اچھے اور پسندیدہ کام اور منکر ہر برے اور ناپسندیدہ کام کو شامل ہے۔ دین اور عقل کی نظر میں بہت سے کام معروف اور پسندیدہ ہیں جیسے نماز اور دوسرے فروع دین، سچ بولنا، وعدہ کو وفا کرنا، صبر و استقامت، فقراء اور ناداروں کی مدد، عفو و درگزر ، امید و رجاء ، راہ خدا میں انفاق ، صلۂ رحم ، والدین کا احترام، سلام کرنا ، حسن خلق اور اچھا برتاؤ، علم کو اہمیت دینا، پڑ وسیوں اور دوستوں کے حقوق کی رعایت، حجاب اسلامی کی رعایت، طہارت و پاکیزگی ، ہر کام میں اعتدال اور میانہ روی اوردیگر سیکڑ وں نمونے ہیں۔اس کے مقابلہ میں بہت سے ایسے امور پائے جاتے ہیں جنہیں دین اور عقل نے منکر اور ناپسند شمار کیا ہے ، جیسے :ترک نماز ، روزہ نہ رکھنا، حسد ، کنجوسی ، جھوٹ ، تکبر ، غرور ، منافقت، عیب جوئی او ر تجسس، افواہ پھیلانا، چغلخوری ، ہوا پرستی ، برا بھلاکہنا، جھگڑ ا کرنا، بد امنی پھیلانا ، اندھی تقلید، یتیم کامال کھا جانا، ظلم اور ظالم کی حمایت کرنا، مہنگا بیچنا، سود خوری ، رشوت لینا، انفرادی اور اجتماعی حقوق کو پامال کرنا وغیرہ وغیرہ۔ بقولمولانا خالد سیف اللہ رحمانی:’’معروف میں تمام نیکیاں داخل ہیں، غیر مسلموں کو دعوت دینا، مسلمانوں کی اصلاح، منکر میں تمام برائیاں شامل ہیں، کفر، شرک، حرام و مکروہات کا ارتکاب وغیرہ۔ بعض اوامر ونواہی کا تعلق تبلیغ ،تذکیر اور وعظ ونصیحت کے ساتھ خاص ہے جس پر عمل کرنا والدین ، اساتذہ کرام، علماء وفضلاء اور معاشرے کے دیگر افراد پر واجب ہے جس سے افراد میں ایمان، تقویٰ ، خلوص، خشیت الٰہی جیسی صفات پیدا کر کے روح کا تزکیہ اور تطہیر مطلوب ہے۔ بعض اوامر ونواہی کا تعلق حکومت کی طاقت اور قوتِ نافذہ کے ساتھ خاص ہے۔ مثلاً نظام ِصلاۃ ، نظام ِزکاۃ ،اسلامی نظامِ معیشت، اسلامی نظامِ عفت وعصمت اور قوانین حدود وغیرہ جس سے سوسائٹی میں امن وامان ، باہمی عزت واحترام اور عدل وانصاف جیسی اقدار کو غالب کر کے پورے معاشرے کی تطہیر اور تزکیہ مطلوب ہے۔ جب تک اوامر و نواہی کے ان دونوں ذرائع کو موثر طریقے سےاستعمال نہ کیا جائے معاشرے کا مکمل طور پر تزکیہ اور تطہیر ممکن نہیں۔مسلم معاشرہ کی یہ اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ برائیوں اور شر و فساد کو اپنے یہاں پھیلنے سے روکیں اور اس کے ازالہ کے لیے ہر ممکن ذرائع سے استفادہ کریں گھر میں ہوں یا باہر۔ مسجد میں ہوں یا بازار میں دکان پر ہوں یا منڈی میں ،کھیل کے میدان میں یا اسکول اور مدرسہ میں یہ فریضہ ہمیں ہر ہر جگہ ادا کرنا ہو گا اور گلوبلائزشن کے اس دور میں سوشل میڈیا پر بھی اس کام کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ کیونکہ پوری دنیا کے انسانوں سے رابطہ رہتاہے اور ایک دن میں ہم بے شمار لوگوں کے عقیدے درست کر سکتے ہیں ،دینی احکام و مسائل سمجھا سکتے ہیں ،لوگوں کو دین کی طرف لا سکتے ہیں ،امت مسلمہ کی رہنمائی کر سکتے ہیں !