سیدنا عمر بن خطاب

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
دوسرے خلیفہ پہلے امیر المومنین
سیدنا عمر بن خطاب
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے غلام جن کی حکمرانی انسانوں ، جانوروں ، درندوں حتیٰ کہ آفتاب کی تمازتوں ،ہوا کی لہروں ، پانی کی موجوں ، زمین کی دھڑکنوں اور آگ کے شعلوں نے بسروچشم قبول کی۔ جسے دنیا اعدل الاصحاب ، مراد نبوی ، امیر المومنین، فاروق اعظم اورمسند خلافت راشدہ کے دوسرے تاجدارکی حیثیت سے یاد کرتی ہے۔
نام و نسب:
نام عمر ، کنیت: ابو حفص ، معروف لقب: فاروق اعظم ہے۔ امام ابن عبد البرمالکی نے الاستیعاب میں آپ رضی اللہ عنہ کا نسب اس طرح بیان کیا ہے : عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبد العُزیٰ بن رباح بن عبد اللہ بن قُرط بن رزاح بن عدی بن کعب القرشی۔ آٹھویں پشت میں آپ کا سلسلہ نسب نبی اکرمﷺ سے جا ملتا ہے۔
ولادت:
طبقات ابن سعد میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت واقعہ فیل کے تیرہ برس بعد ہوئی۔
حلیہ ، وضع قطع:
آپ رضی اللہ عنہ کے سیرت نگاروں نے حلیہ یوں بیان کیا ہے : سرخی مائل سفید رنگت ، خوبرو ، بارعب ، دراز قد ، داڑھی مبارک قدرتی طور پر ہلکی جبکہ مونچھیں قدرے گھنی تھیں۔ جسمانی طور پر آپ رضی اللہ عنہ طاقتور پہلوان ، چاق وچوبند، مستعد اور انتہائی باہمت انسان تھے۔
خاندانی اوصاف:
انسان کے کردار و عمل میں خاندانی اوصاف کو بہت اہمیت حاصل ہے ، آپ رضی اللہ عنہ کے خاندان میں بطور خاص چار چیزیں بہت معروف تھیں۔
نَسّاب : یعنی علم الانساب کے ماہر تھے۔ آپ کے والد اس فن میں ید طولیٰ رکھتے تھے ، اس لیے آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کے اخلاقی حیثیتوں کو عام لوگوں کی نسبت زیادہ جانتے تھے۔
سفارت : یہ ملکی عہدہ آپ کے خاندان میں چلا آ رہا تھا آپ رضی اللہ عنہ نے بارہا سفارتی امور کے منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے سفر فرمائے۔
خطابت: آپ فصیح و بلیغ جامع اور معنی خیز گفتگو کرنے والے پرجوش خطیب ، بے مثل ادیب تھے۔ آپ کی باتوں میں حکمت و دانائی چھلکتی تھی۔
پہلوانی: خداداد جسمانی طاقت کے باعث آپ کو پہلوانی میں ممتاز مقام حاصل تھا۔
عمر کی ابتدائی عمر:
آپ رضی اللہ عنہ بچپن ہی بے باک ، نڈر ، شجاع ، دلیر اور حق گو تھے۔ کچھ بڑے ہوئے تو لکھنا پڑھنا سیکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ عرب کے دستور کے مطابق سپہ گری ، گھڑ سواری ، شمشیر زنی اور دوسرے جنگی وعسکری مہارتوں میں درجہ کمال تک پہنچے،ذریعہ معاش تجارت تھا جس کے لیےآپ رضی اللہ عنہ نے دور دراز کے سفر بھی کیے۔
قبولِ اسلام:
دین اسلام کی عزت اور مشن نبوت کے فروغ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دل میں نیک جذبات ہمیشہ موجزن رہتے۔ اسی خواہش کی تکمیل کے لیے حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ملائم و نازک رحمت والے ہاتھ اٹھے ، قلبی جذبات کا ارتعاش ہونٹوں تک پہنچا تو ان الفاظ نے جنم لیا:
اللھم اعز الاسلام بعمر بن الخطاب۔
اے اللہ اسلام کو عمر بن خطاب کے ذریعے عزتیں عطا فرما۔ بیت اللہ کو بسانے والے کی یہ صدا بیت اللہ کے جلال کے جلو میں بارگاہ ایزدی میں شرف قبولیت کے لیے جا پہنچی۔ قدرت نے مراد نبی کے تکمیل میں عمر کو اسلام کی دولت سے نواز دیا۔ آپ چالیسویں نمبر پر اسلام لائے۔
بارگاہ رسالت مآب میں :
امام حاکم رحمہ اللہ نےمستدرک میں حدیث ذکر فرمائی ہے : ’’سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی : اے اللہ! عمر بن الخطاب کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ نےاپنی الصحیح میں حدیث ذکر فرمائی ہے : ’’سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جب سیدنا عمر ایمان لائے تو جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عمر کے اسلام لانے پر اہلِ آسمان یعنی فرشتوں نے بھی خوشی منائی ہے۔
امام طبرانی رحمہ اللہ المعجم الکبیر میں حدیث ذکر کرتے ہیں:’’سیدنا ابن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر کا قبول اسلام ہمارے لئے ایک فتح تھی اور ان کی امارت ایک رحمت تھی، خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے، یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔ پھر اس قابل ہوئے کہ ہم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی۔“
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب جامع الترمذی میں حدیث نقل فرمائی ہے کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” ہر نبی کے لئے دو وزیر اہل آسمان میں سے اور دو وزیر اہل زمین میں سے ہوتے ہیں۔میرے دو وزیر اہل آسمان میں سےجبرئیل و میکائیل جبکہ اہل زمین میں سے میرے دو وزیر ابوبکر وعمر ہیں۔ “
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی مسند میں حدیث نقل فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے پوچھا : آج کس نے جنازہ پڑھا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےپوچھا : آج کس نے کسی مریض کی تیمارداری کی ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : آج کس نے صدقہ کیا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آج کون روزے سے رہا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا واجب ہوگئی، واجب ہوگئی۔ )یعنی عمر کے لئے جنت واجب ہو گئی(
امام دیلمی رحمہ اللہ نے مسند فردوس میں حدیث نقل فرمائی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اہل جنت کا چراغ عمر بن الخطاب ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی الصحیح میں حدیث نقل فرمائی ہے کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا: بے شک تم سے پہلی امتوں میں مُحَدَّثْ ہوا کرتے تھے۔ اگر میری امت میں بھی کوئی مُحَدَّثْ ہے تو عمر ہے۔
نوٹ: مُحَدَّثْ کا معنی ہوتا ہے صاحبِ الہام۔ یعنی جس کے دل میں حق بات من جانب اللہ ڈالی جاتی ہو۔
مدت خلافت اور نمایاں کارنامے:
دس سال چھ ماہ دس دن۔ اس مختصر سی مدت میں جہاں ہر طرف سے اسلام کے دشمن اکٹھے ہو کر شمع اسلام کو گل کرنے کے تانے بانے بن رہے تھے وہاں پر ان اسلام دشمن لوگوں کے لیے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ دعائے نبوی کی تاثیر بن کر اسلام کی عزت میں مزید اضافہ فرما رہے تھے۔ آپ کی حکمت عملی ، مومنانہ فراست ، انتظامی صلاحیتیں ، عدل و انصاف، رعا یا پروری ، خداترسی اورعدیم المثال طرز حکومت کے باعث 22 لاکھ 51 ہزار 30 مربع میل زمین پر اسلامی خلافت کا پرچم لہراتا رہا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہی خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی توجہ جمع و ترتیب قرآن کی طرف کرائی۔ آپ کی توجہ کہ بدولت قرآن کریم کوترتیب سے جمع کیا گیا۔
مفتوحہ ممالک میں قرآن کریم کی تعلیم کے لیے مکاتب و مدارس قائم کیے، قاری صاحبان اور ائمہ مساجد کی تنخواہیں مقرر فرمائیں ، اسلامی تقویم کا آغاز ہجرت نبوی سے شروع فرمایا اور اس کی ابتدا ء محرم سے فرمائی۔
مسجد حرام اور مسجد نبوی کی توسیع فرمائی ، عرب و عجم کے سنگم پر کوفہ کو آباد فرمایا، بیت المال تعمیر کرائے ،یہودیوں کو جزیرہ عرب سے دیس نکالادیا، دریائے نیل کے نام خط جاری فرمایا، اورقیصر و کسری جیسی سپر پاور طاقتیں پاش پاش ہوئیں۔
مورخین کے محتاط اندازے کے مطابق آپ کے زماہ خلافت میں 3600علاقے فتح ہوئے۔ 900جامع مساجد اور4000عام مساجد تعمیر ہوئیں۔
اہم فتوحات اور عوامی خدمات:

14 ہجری میں دمشق ،بصرہ، بعلبک کے علاقے فتح کئے۔

15ہجری میں شرق،اُردن ، یرموک ، قادسیہ کے عظیم الشان معرکے ہوئے۔

16 ہجری میں اہلواز، مدائن اور ایران کے کئی علاقے فتح ہوئے نیز اسی سال عراق کو اسلامی حکومت میں شامل کیا گیا۔

16 ہجری کے اواخر میں تکیت، انطاکیہ ،حلب کی فتوحات کے بعد بغیر جنگ بیت المقدس قبضہ میں آ گیا۔

18ہجری میں آپ نے نیشاپور ، الجزیرہ

19 ہجری میں قیساریہ

20ہجری میں مصر

21ہجری میں اسکندریہ اور نہاوندکو فتح کیا۔
بحیثیت خلیفۃ المسلمین آپ رضی اللہ عنہ تمام مفتوحہ علاقوں کا دورہ کیا ، ان علاقوں میں کھلی کچہریاں لگوائیں ، فوری انصاف کو یقینی بنایا ، عوام الناس کی شکایات کو دور کرنے کے لیے احکامات جاری کئے۔ عوام کے دکھ درد اور مسائل کو سمجھنے کے لیے راتوں کو گلی محلوں کے گشت کیے ، عوام کی حفاظت کے پیش نظر پہرے دئیے ، روٹی کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضرورتوں کو عوام کی دہلیز تک پہنچایا اور ضرورت مندوں کی ضروریات پورا کرنے کے لیے خود ان کے دروازوں تک پہنچے ،رعایاپروری کیلئے رات اور دن کا آرام چھوڑ دیا۔
زمانہ قحط میں رعایا پروری کی ایسی مثال قائم کی کہ ان کے دُکھ درد میں برابر کے شریک رہنے کے لیے اپنی خوراک میں اس قدر سادگی اختیار کی کہ گھی اور زیتون کا استعمال تک چھوڑ دیا۔
برسہا برس سے مالی وسائل کی وسعتوں کے باوجود آج کی ترقی یافتہ حکومتیں ایسی طرز حکومت کی مثال پیش کرنے سے عاجز وبے بس ہیں جو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نامساعد حالات میں قائم فرمائی۔
آپ کی نافذ کردہ اصلاحات، طے کردہ قواعد و ضوابط،مقرر کردہ اصول ہائے جہانبانی آج کے حکمرانوں بالخصوص مسلم دنیا کے حکمرانوں کے لیے دعوت فکر ہیں۔
اگر عدل و انصاف ، رعایا پروری ، معاشرتی تعمیر و ترقی ، اخلاقی تہذیب و تمدن، معاشی استحکام اور قیام امن چاہتے ہیں تو ان کو خلافتِ فاروقی کی روشن قندیل سے رہنمائی لینی ہوگی۔
شہادت:
26ذوالحج کو انہیں ابولؤلؤ نامی مجوسی نے آپ رضی اللہ عنہ کو حالت نماز میں خنجر کے پے درپے وارکرکے شدید زخمی کردیا۔ تین دن اسی حالت میں رہے بالآخر یکم محرم الحرام کو شہید ہوگئے اور نبی و صدیق سے رفافت نبھانے روضہ اطہر میں آرام پذیر ہوئے۔
رضی اللہ عنہ وارضاہ