نماز جمعہ شہر اور بڑے دیہات میں ہی جائز ہے

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر21:
……الشیخ محمد نواز الحذیفی ﷾
نماز جمعہ شہر اور بڑے دیہات میں ہی جائز ہے!
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سب سے پہلے مہاجر جو مدینہ طیبہ میں آئے وہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ طیبہ میں تشریف لانے سے پہلے مدینہ والوں کو سب سے پہلا جمعہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے پڑھایا تھا اور جمعہ پڑھنے والوں کی تعداد اس وقت بارہ آدمی تھی۔
امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے بھی اپنی مصنف میں امام زہری سےایک روایت نقل کی ہے ،جس سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ لکھا ہے :
اخبرنا عبدالرزاق قال اخبرنا معمر عن الزہری قال ابعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مصعب بن عمیر بن ہاشم الی اھل المدینۃ لیقرئھم القرآن فاستاذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یجمع بہم فاذن لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
)مصنف عبدالرزاق ج 3 ص 160 ناشر :المجلس العلمی وادارۃ القرآن کراچی (
حضرت امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کی طرف حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو قرآن پڑھانے کے لئے بھیجا ،تو حضرت مصعب بن عمیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اہل مدینہ کو جمعہ پڑھانے کی اجازت مانگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔
ان تمام روایات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جمعہ کا حکم مکہ مکرمہ میں آچکا تھا لیکن کفار کے غلبہ اور شر کی وجہ سے نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے علی الاعلان اسلام کے اس شعار پر عمل مشکل تھا، اس وجہ سے مکہ مکرمہ میں جمعہ قائم نہ کیا گیا ،مدینہ طیبہ میں اس کی ادائیگی کے لئے کوئی رکاوٹ نہ تھی اس لئے پہلے مہاجر حضرت مصعب بن عمیر کو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ قائم کرنے کی اجازت دے دی۔
اگر دو آدمیوں کے اکٹھا ہونے سے بھی جمعہ ادا ہو سکتا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مکہ میں موجود دوسرے مسلمانوں کے لئے اپنے اپنے گھروں میں دو دو مل کر جمعہ قائم کرنا کیا مشکل تھا؟ گھر میں دو آدمیوں کے مل کر جمعہ پڑھنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔
باوجود دو آدمیوں کے مل کر جمعہ پڑھنے کے ممکن ہونے کے مکہ مکرمہ میں نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا جمعہ نہ پڑھنا دلیل ہے اس بات کی کہ ہر جگہ دو آدمیوں کے جمع ہونے پر جمعہ کا قیام نا جائز اور اس کے شعار ہونے کے خلاف ہے وگرنہ مکہ مکرمہ میں نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ضرور جمعہ قائم فرماتے۔
یہ بات خاص طور پر ان حضرات کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو کہ اس کو دوسری نمازوں کی مثل بتاتے ہیں، پنج وقتی نمازوں کی جماعت مکہ مکرمہ میں ہوتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ جمعۃ المبارک کی جماعت نہ ہوئی۔ معلوم ہوا کہ جمعہ اور عام پنج وقتی نمازوں کے بارے یہ فرق ہے کہ پنج وقتی نماز شہر ، چھوٹے بڑے دیہات ، حتی کہ جنگل وغیرہ میں بھی ادا کی جا سکتی ہے جبکہ جمعہ کے لیے شہر اور بڑا دیہات ہونا ضروری ہے۔ چھوٹے دیہات اور جنگل میں اس کو قائم نہیں کیا جا سکتا۔
خود غیر مقلد علماء نے بھی مکہ مکرمہ میں جمعہ کی فرضیت کا اقرار کیا ہے چنانچہ معروف غیر مقلد عالم قاضی شوکانی صاحب لکھتے ہیں :
ان الجمعۃفرضت علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو بمکۃ قبل الہجرۃ کما اخرجہ الطبرانی عن ابن عباس فلم یتمکن من اقامتھا ھنالک من اجل الکفار فلما ھاجر من ھاجر من اصحابہ الی المدینۃ کتب الیہم یامرھم ان یجمعوا فجمعوا۔
)نیل الاوطار ج3 ص ۲۸۳(
بے شک جمعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ ہی میں ہجرت سے پہلے فرض ہو چکا تھا جیسا کہ طبرانی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے: لیکن مکہ میں کفار کی وجہ سے قائم نہ کیا جا سکا، سو جب صحابہ کرام میں سے کچھ حضرات ہجرت کر کے مدینہ آ گے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریری حکم نامہ کے ذریعے سے جمعہ پڑھنے کے لیے کہا جس کے نتیجے میں صحابہ کرام نے جمعہ شروع کر دیا۔
معروف غیر مقلد عالم اسمعیل سلفی نے بھی لکھا ہے:
مشہور قول کے مطابق جمعہ مکہ میں فرض ہوا لیکن نا ہموار حالات کی وجہ سے ادا کرنے کی نوبت نہ آئی۔
)فتاویٰ سلفیہ ص ۹۲ فتاوی علمائے حدیث ج ۴ ص۳۹ (
علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے بھی اپنی مشہور کتاب الاتقان میں لکھا ہے:
ومن امثلۃ تاخر نزولہ عن حکمہ…….ومن امثلتہ ایضا آیۃ الجمعۃ فانھا مدنیۃ والجمعۃ فرضت بمکۃ۔
)الاتقان فی علوم القران ص80(
جو آیات اپنے حکم نازل ہونے کے بعد نازل ہوئیں ان کی مثالوں میں سے ایک مثال آیت جمعہ بھی ہے اس لئے کہ یہ آیت مدنی ہے اور جمعہ مکہ مکرمہ میں فرض ہوا۔
جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ باوجود فرض ہونے کے نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جمعہ نہیں پڑھا ،حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں ایک آدمی کو ساتھ لے کر جمعہ پڑھ سکتے تھے تو اس نظریے کی تردید کے لئے یہی بات کافی ہے۔
جہاں دو آدمی اکٹھے ہو جائیں وہ جمعہ قائم کر سکتے ہوتے تو نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ضرور کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا نہ کرنا دلیل ہے اس بات کی کہ جمعہ ہر جگہ پڑھنا جائز نہیں بلکہ اس کے قیام کی خاص شرائط ہیں۔
جنگل اور چھوٹے دیہات میں جمعہ جائز نہیں :
جمعہ کا قیام چونکہ شعائر اسلام سے ہے اس لئے یہ جائز بھی صرف اسی جگہ ہو گا جہاں مسلمانوں کا جم غفیر عام طور پر موجود رہتا ہو ،تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ نماز جمعہ میں شریک ہو کر اسلام کی شان وشوکت کا ذریعہ بن سکیں۔
جنگلات اور چھوٹے دیہاتوں میں نماز جمعہ جائز بھی نہ ہو گی۔ خود قرآن وسنت سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ جنگل اور چھوٹے دیہاتوں میں جمعہ جائز نہ ہو۔ اس پر بیسوں دلائل پیش کیے جا سکتے ہیں چند آپ کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
پہلی دلیل قرآن کریم سے :
یا ایھا الذین اٰمنو اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ وذرو االبیع ذٰلکم خیرلکم ان کنتم تعلمون .
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی جایا کرو اور خرید وفروخت کو چھوڑ دو یہ بہت بہتر ہے تمہارے حق میں اگر تم جانتے ہو۔
حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں جب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ اوثق العریٰ فی تحقیق الجمعۃ فی القریٰ؛پیش کیا گیا تو آپ نے جنگل اور چھوٹے دیہات میں جمعہ کے عدم جواز پر مذکورہ آیت سے یوں استدلال فرمایا :
بھئی! میں زیادہ تو جانتا نہیں لیکن اتنا کہتا ہوں کہ گاؤں میں جمعہ کا عدم جواز قران مجید سے ثابت ہے دیکھو فرمایا گیا ہے: اس )آیت جمعہ (میں جمعہ کے لیے سعی کا حکم دیا گیا جس کے معنی ٰ ہیں دوڑنا اور لپک کر چلنا۔ سعی کی نوبت وہیں آسکتی ہے جہاں لمبی مسافت طے کرنی ہو اور گاؤں میں ایسا نہیں ہوتا۔
پھر فرمایا گیا وذرواالبیع "یعنی خریدو فروخت چھوڑ دو معلوم ہو ا کہ جمعہ کا حکم ایسی جگہ کے لیے ہے جہاں کوئی بڑا بازار اور منڈی وغیرہ ہو اور لوگ وہاں خریدو فروخت کے معاملہ میں بہت زیادہ مصروف ومنہمک ہوں گاؤں میں ایسی مصروفیت کے بازار کہاں ؟
آگے فرمایا گیا ہے
فاذاقضیت الصلوٰۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ۔
یعنی بعد نماز زمین میں پھیل کر اپنے ذرائع آمدنی اور دیگر مشاغل میں مصروف ہونے کا حکم ہے، اس سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ ایسے مقام پر اس سلسلہ کے مشاغل کثیر تعداد میں اور بہت پھیلے ہوئے ہونے چاہییں۔
)ماہنامہ البلاغ کراچی ج 16 شمارہ نمبر 2 ص 41۔ 42(
تو اس آیت سے ثابت ہوا کہ جنگل اور چھوٹے دیہات میں جمعہ جائز نہیں اور نہ جنگل اور چھوٹے دیہات کے لوگ اس آیت کے مخاطب ہیں۔
ایک سوال اور اس کا جواب :
سوال یہ ہے کہ بعض حضرات چھوٹے دیہات میں جمعہ کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں فرمایا گیا ہے۔ اے ایمان والو جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑتے ہوئے آؤ! لہٰذا جو بھی ایمان والے ہیں خواہ شہر اور قصبہ والے ہوں یا چھوٹے دیہات والے سب کو جمعہ کے لیے آنے کا حکم ہے شہر اور قصبہ کے لوگوں کی تخصیص اس آیت کے منافی ہے۔
جواب:یہ اعتراض اور موقف لاعلمی پر مبنی ہے اس لئے کہ اس آیت اور اس قسم کی روایات کے مخاطب صرف وہی اہل ایمان ہیں کہ جن پر جمعہ فرض ہے جن ایمان والوں پر جمعہ فرض نہیں ہے وہ اس آیت کے مصداق نہیں ہیں کیونکہ یہ آیت اور اس قسم کی روایات مدنی ہیں اور جمعہ تو مکہ مکرمہ ہی میں فرض ہو چکا تھا جیسا کہ اس کی تفصیل عرض کی جا چکی۔
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
پس استدلال مجیب کا عموم آیت سے فرضیت جمعہ اہل قریٰ پر درست نہیں ہے اور اصل یہ ہے کہ فرضیت جمعہ پہلے محقق ہو چکی تھی اب جس پر اور جگہ جمعہ فرض تھا اور جہاں ادا ہوتا تھا وہ سب معلوم اور مقرر ہو چکی تھی اور قبل نزول آیت سب قواعد ممہد ہو لئے تھے۔ پس اس آیت کریمہ کے اندر جو مومن مخاطب ہیں یہ وہی مومنین ہیں کہ جن پر فرضیت جمعہ مقرر ہو چکی تھی۔ پس اس کے عموم سے کسی کی استثناء کی حاجت نہیں ہے کیونکہ وہ سرے سے داخل ہی نہیں تھے۔
علی ٰ ھذا القیاس جو احادیث ان میں عام لفظوں سے وجوب جمعہ بیان کیا گیا ہے اُن سب سے وہ لوگ مذکورہ بالا سب کے سب مستثنیٰ ہیں جیسا کہ آیت شریف ان الذین کفروا سواء علیہم ا ا نذرتہم ام لم تنذرھم لا یومنون میں اگرچہ لفظ موصول عام ہے مگر مراد اس سے وہی معدوے چند کافر ہیں کہ جو سابقہ روز ازل میں کافر مقدر ہو چکے تھے جیسے ابو جہل۔ ابو لہب وغیرھما نہ کل کفار کیونکہ بعد نزول آیت کے لاکھوں کافر مسلمان ہوئے اگر اس آیت سے عموم جنسی مراد ہوتا تو کسی طرح درست نہیں ہو سکتا۔
علی ٰ ھذا جملہ احادیث واردہ باب جمعہ وآیت جمعہ میں لفظ موصول میں اہل قریٰ وغیرہ داخل ہی نہیں ہیں کہ تخصیص کی ضرورت پڑے۔
) مجموعہ رسائل حضرت گنگوہی ص 130 '131(
معلوم ہوا کہ مذکورہ آیت عام نہیں ہے بلکہ خاص ان افراد کے لیے ہے کہ جن پر جمعہ فرض ہے اس آیت سے جمعہ کے عموم اور سب پر اس کی فرضیت پر استدلال ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی آدمی آیت اقیمو الصلٰوۃ۔ نماز قائم کرو۔ سے حائضہ عورت کے لئے نماز کی فرضیت پر استدلال کرے حالانکہ اس پر نماز فرض نہیں۔
یا کوئی اٰتواالزکوٰۃ۔ زکوۃ ادا کرو۔ کے ذریعے سب مسلمانوں پر زکوۃ کی فرضیت کا قائل ہو حالانکہ فقیر اور مسکین وغیرہ پر زکوۃ فرض نہیں۔
یا کوئی کتب علیکم الصیام کے ذریعے [تم پر روزے فرض کیے گئے ] مریض اور مسافر وغیرہ پر رمضان کے مہینے میں روزے کی فرضیت کا قائل ہو حالانکہ رمضان میں عذر والوں کو روزہ چھوڑنا جائز ہے۔
یا کوئی آیت اتمو االحج [حج کو پورا کرو ]کے عموم سے سب مسلمانوں کے لئے حج بیت اللہ کی فرضیت کا قائل ہو حالانکہ مسلمان پر حج کے فرض ہونے کی خاص شرائط ہیں۔
تو جس طرح ان آیات کے عموم سے مذکورہ افراد پر مذکورہ احکام فرض نہیں ہوتے اسی طرح آیت جمعہ کے عموم سے سب پر جمعہ فرض نہ ہو گا بلکہ اس کا تعلق شہر اور بڑے قصبے والوں کے ساتھ ہے۔
خود غیر مقلد علماء بھی اس آیت میں تخصیص کے قائل ہیں چنانچہ معروف و مشہور غیر مقلد عالم شمس الحق عظیم آبادی صاحب آیت جمعہ کو نقل کرنے کے بعد حضرت طارق بن شہاب کی روایت سے اس کی تخصیص کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اور سنن ابی داود ص 412 ج 1 میں ہے:
عن طارق بن شھاب عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم فی جماعۃ الا اربعۃ:عبد مملوک ، اوامراۃ ،او صبی ، او مریض .رواہ ابودائود، قال: طارق بن شہاب قد رائی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولم یسمع منہ شیئا۔
فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جمعہ فرض عین ہے ہر مسلمان پر جماعت سے مگر چار آدمیوں پر ایک غلام پر دوسرے عورت پر تیسرے لڑکے پر چوتھے بیمار پر۔ اور ایسا ہی مسافر پر بھی فرض نہیں جیسا کہ ترمذی اور احمد نے مقسم عن ابن عباس سے مرفوعا روایت کیا ہے۔ کہا ابو داود رحمۃ اللہ نے :طارق بن شہاب نے رسول اللہ صلہ اللہ علیہ وسلم کو دیکھا مگر آپ سے کچھ سنا نہیں تو یہ حدیث مرسل صحابی ہوئی اور حاکم نے اس کو مسندا روایت کیا ہے طارق بن شہاب سے انہوں نے ابو موسیٰ اشعری سے۔
)مجموعہ مقالات وفتاویٰ شمس الحق عظیم آبادی ص 425(
غیر مقلد عالم شمس الحق صاحب نے آیت جمعہ میں حدیث کی وجہ سے تخصیص کر دی کہ مومنوں میں سے :
1:غلام
2:عورت
3 :بچے
4:مریض
اور مسافر پر نماز جمعہ فرض نہیں ہے۔
معروف غیر مقلد عالم اسمٰعیل سلفی صاحب ابو داود اور منتقیٰ ج 2ص 8 کے حوالہ سے حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:جمعہ ہر مسلمان پر فرض ہے البتہ غلام ،عورت بچے اور بیمار پر فرض نہیں۔ یہاں دیکھئے اعذار کے لحاظ سے بعض لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مستثنیٰ فرما دیا ہے۔
) فتاویٰ سلفیہ ص 76(
غیر مقلد عالم عبد اللہ روپڑی صاحب آیت جمعہ میں تخصیص کے حوالہ سے ایک شبہ کا جواب دیتے ہوئے، لکھتے ہیں :
شبہ نمبر1: یاایھا الذین امنوا میں حکم عام ہے تو اس حکم سے مذکورہ اشخاص عورت وغیرہ کیوں مستثنیٰ ہے ؟
جواب:پہلے شبہ کا جواب یہ ہے کہ اہل حدیث کے نزدیک حدیث سے کتاب اللہ کی تخصیص ہو سکتی ہے اس لئے عورت وغیرہ کی حدیث نے تخصیص کر دی اور حنفیہ کہتے ہیں کہ اہل برادری بالاجماع مخصوص ہیں تو یہ آیت عام مخصوص منہ البعض ہو گئی جوظنی ہے، پس حدیث سے تخصیص ہو گئی۔
)فتاویٰ اہل حدیث ج 2 ص 26،27 ،فتاویٰ علمائے حدیث ج 4 ص 131(
معلوم ہوا کہ غیر مقلد علماء کو بھی یہ بات تسلیم ہے کہ حدیث کی وجہ سے اس آیت میں تخصیص ہو گئی ہے۔ تو پھر دوسری احادیث کی وجہ سے اس آیت میں تخصیص کیوں نہیں ہو سکتی ؟
لہٰذا ماننا پڑے گا کہ خود آیت جمعہ کے مفہوم اور دوسری احادیث کی وجہ سے ہر جگہ جمعہ درست نہیں ہے بلکہ اس کے لئے شہر یا بڑے قصبے کا ہونا ضروری ہے۔ بلکہ صحراء والوں کا استثناء بھی خود ایک معروف غیر مقلد عالم عبدالرحمٰن بقا غازی پوری صاحب نے تسلیم کیا ہے انہوں نے ایک کتاب اسی مسئلہ پرسر من یریٰ کے نام سے تصنیف کی ہے ،غیر مقلد عالم اسماعیل سلفی صاحب اس کے متعلق لکھتے ہیں :
احسن القریٰ کا جواب مولانا عبدالرحمنٰ بقا غازی پوری نے لکھا اس کتاب کا نام ہے سر من رای فی بحث الجمعۃ فی القریٰ یہ کتاب اپنے موضوع پر شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے، عموما کتاب کے انداز تحریر میں متانت ہے کہیں معمولی تیزی آگئی ہے ورنہ خوب کتاب ہے۔
)فتاویٰ سلفیہ ص 99 فتاویٰ علمائے حدیث ج 4 ص 46(
عبدالرحمنٰ بقا غازی پوری صاحب اسی کتاب میں لکھتے ہیں :
باقی رہے اہل صحراء؛ ان کے باب میں حنفیہ کا یہ مسلک ہے کہ ان پر بھی جمعہ فرض نہیں ہے میرے نزدیک اس مسئلہ میں حق بجانب حنفیہ ہیں کیونکہ اہل صحراء کا استثناء حدیث میں صراحتا وارد ہے۔
)سر من رایٰ ص 10(
)۔۔۔۔جاری ہے (