اُمّ المؤمنین سیدہ اُمِّ سلمہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اُمّ المؤمنین سیدہ اُمِّ سلمہ
مشاہد حسین
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ام المؤمنین حضرت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور ان کو اسی گھر میں ٹھہرایا جس میں حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا رہا کرتی تھیں۔ ان کا نام ہند تھا۔ نسب یوں ہے : ’’ ہند بنت ابو امیہ ‘‘۔ ان کا تعلق قریش کے خاندان مخزوم سے تھا۔ ان کی والدہ کا نام عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ بن عبدالمطلب تھا۔ جو بنو فراس سے تعلق رکھتی تھیں۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے والد ابو امیہ کی سخاوت و فیاضی بڑی مشہور تھی۔ جب بھی وہ کسی سفر میں جاتے تو اپنے تمام ساتھیوں کی کفالت خود کرتے۔ اسی لیے ان کا لقب ’’زاد الراکب‘‘ یعنی ـ’’مسافروں کے سفر کا سامان‘‘ پڑ گیا تھا۔
آپ کی ولادت نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے نو سال قبل عام الفیل میں ہوئی۔ آپ کی پرورش ابو امیہ جیسے سخی باپ کی آغوشِ تربیت میں بڑے ناز و نعم سے ہوئی۔ آپ شادی تک نہایت آرام و آسایش کی زندگی بسر کرتی رہیں۔
قبولِ اسلام اور پہلا نکاح:
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بھی ان مبارک ہستیوں میں سے ہیں جنہوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں اسلام قبول کیا۔ ان کا پہلا نکاح ان کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن عبدالاسد سے ہوا تھا جو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پھوپھی زاد اور رضاعی بھائی تھے۔ ان سے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے چار بچّے ہوئے۔ جن کے نام یوں ہیں :’’ سلمہ، عمر، رقیہ اور زینب‘‘۔ یہ دونوں میاں بیوی اسلام قبو ل کرنے میں سابقین اولین میں سے تھے۔ ان کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ دس شخصوں کے بعد مسلمان ہوئے یعنی آپ گیارہویں مسلمان تھے۔ حضرت ام سلمہ اور ان کے شوہر عبداللہ بن عبدالاسد کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
اللہ جل شانہٗ نے جب اپنے محبوب نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا تو اس وقت عرب کی حالت بڑی خراب اور خستہ تھی۔ ہر طرف کفر و شرک کی تاریکیاں چھائی ہوئی تھیں۔ گناہوں کا بازار گرم تھا۔ ایک معبودِ برحق کی بجائے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے نہ جانے کتنے باطل خداؤں کی لوگ عبادت کرتے تھے۔ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینا لوگ بہادری کی علامت تصور کرتے تھے۔ شراب نوشی، قمار بازی اور طرح طرح کی برائیوں میں عرب کا پورا معاشرہ جکڑا ہوا تھا۔
ایسے تاریک ماحول میں اللہ جل شانہٗ نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اسلام و ایمان کی روشنی بکھیرنے کے لیے مبعوث فرمایا تاکہ کفر و شرک کی ظلمتوں میں وحدانیت و رسالت کا نور لوگوں کے دلوں کو روشن و منور کر دے۔
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اعلانِ نبوت کے بعد جہاں کفر و شرک کے ایوانوں میں زلزلہ بپا ہوا وہیں نیک اور سعید فطرت انسانوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیغام توحید و رسالت کو دل و جان سے قبول کر لیا اور اپنے آپ کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی غلامی میں اس طرح دے دیا کہ اسلام کے لیے انہوں نے ہر ستم گوارا کر لیا یہاں تک کہ اسلام کے لیے ان میں سے سیکڑوں نیک انسانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی قربان کر دیا۔
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو ابھی صرف دس افراد نے ہی قبول کیا تھا۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم دارِ اَرقم میں تشریف فرما تھے اور چند ایک دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے۔ اسی دوران عبداللہ بن عبدالاسد جو زیادہ تر ابو سلمہ کے نام سے مشہور تھے اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پھوپھی زاد اور رضاعی بھائی تھے حاضر ہوئے۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی ہند (ام سلمہ) بھی تھیں۔
جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے پھوپھی زاد اور رضاعی بھائی کو ان کی بیوی کے ساتھ دیکھا تو بے حد خوش ہوئے اور فرمایا : ’’ کیسے آئے ہو؟ ‘‘ اور پھر محبت سے اسلام کی دعوت دیتے ہوئے قرآنِ مجید پڑھ کر سنایا۔
قرآن مجیدسننے کے بعد حضرت ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد نے کہا : ’’بھائی کے رشتے سے میرا بھی یہ حق بنتا ہے کہ مَیں بھی اس روشنی سے اپنی روح کو منور کروں جس سے دوسرے فیض حاصل کر رہے ہیں۔ ‘‘ جب یہ الفاظ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سنے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کا مبارک چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا، حضرت ابو سلمہ نے دوبارہ عرض کی: ’’ ہم دونوں میاں بیوی کو مسلمان کر کے اپنی غلامی میں داخل کر لیجیے۔ ‘‘ اس طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر نے اسلام قبول کیا اور ایسی سعادت حاصل کی کہ یہ دونوں میاں بیوی دس کے بعد گیارہویں اسلام قبول کرنے والے کہلائے۔
حبشہ کی طرف پہلی ہجرت:
ابتدائی تین سال تک نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے در پردہ تبلیغ فرمائی۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ عزوجل کے حکم سے اعلانیہ دعوتِ دین کا کام شروع کیا تو یہ کفار و مشرکین کو بہت گراں گذرا اور انہوں نے مسلمانوں کو طرح طرح سے ستانا اور تکلیف دینا شروع کر دیا۔
یوں تو حضرت ام سلمہ اور حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہما کا تعلق عرب کے مشہور و معروف اور بڑے قبیلے سے تھا۔ ان کے والدین کا مقام پورے عرب میں بڑا اونچا تھا۔ لیکن جب انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو ان کے رشتے داروں نے ان سے تعلقات توڑ لیے اور انھیں طرح طرح سے اذیت پہنچانے لگے۔ ان پر ایسی ایسی سختیاں کی گئیں کہ جن کے تصور سے دل گھبرا اٹھتا ہے۔ تاریخ و سیرت کی کتابوں میں ایسے واقعات لکھے ہوئے ہیں۔ جیسے جیسے اسلام کے ان متوالوں پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جاتے ویسے ویسے ان کی اسلام سے محبت اور ثابت قدمی میں اضافہ ہوتا جاتا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ان جاں نثاروں نے ہر ظلم و ستم کو ہنس ہنس کر برداشت کیا۔
اعلانِ نبوت کے پانچویں سال رجب المرجب کا مہینہ تھا۔ جب کہ کفار و مشرکین کے ظلم و ستم عروج پا چکے تھے۔ آخر کار نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات کی اجازت عطا فرما دی کہ جو مکۂ مکرمہ چھوڑ کر جا نا چاہے حبشہ چلا جائے کیوں کہ وہاں کا بادشاہ نجاشی بڑا انصاف پسند اور کشادہ قلب ہے۔ لہٰذا گیارہ مردوں اور چار عورتوں پر مشتمل چھوٹا سا قافلہ اپنے وطن مکۂ مکرمہ کو الوداع کہتے ہوئے حبشہ کی طرف روانہ ہوا۔
اس قافلے کے امیر حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ تھے۔ اسلام کی اِس سب سے پہلی ہجرت میں حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی حضرت ام سلمہ بنت ابو امیہ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں۔
جب مشرکینِ مکہ کو اس بات کا علم ہوا تو انہیں ڈر لگنے لگا کہ کہیں حبشہ کے ساتھ ان کے تجارتی تعلقات متاثر نہ ہو جائیں۔ان کا یہ خیال تھا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کر کے جانے والے مسلمانوں کی باتوں میں آ کر بادشاہِ حبشہ نجاشی ان سے تعلقات نہ توڑ لے۔ اس لیے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس اپنا ایک آدمی بھیجیں۔
چناں چہ انہوں نے کچھ سامان وغیرہ جمع کیا جو بہ طور ہدیہ بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا جانا تھا۔ پھر انہوں نے وہ تمام مال و اسباب دے کر عبداللہ بن ربیعہ المخزومی اور عمر و بن العاص( یہ دونوں اُس وقت تک اسلام نہ لائے تھے ) کو حبشہ کی طرف روانہ کیا۔انہوں نے جا کر بادشاہ کی خدمت میں وہ تحفے تحائف پیش کیے اور بتایا کہ ہم قریش کے سفیر ہیں۔
ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ کے پاس ہمارے خاندان کے کچھ لوگ آئے ہیں اور ا نہوں نے آپ کی پناہ لے رکھی ہے۔ انہوں نے اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر نیا دین (اسلام) قبول کر رکھا ہے۔ آپ مہربانی کر کے انھیں ہمارے حوالے کر دیں۔ بادشاہ دراصل خدا ترس اور نیک فطرت تھا وہ فوراً معاملہ بھانپ گیا اور صاف انکار کر دیا۔
مشرکینِ مکہ کا وفد ناکام و نامراد لوٹا۔ حبشہ میں مسلمان سکون و اطمینان کی زندگی گزارنے لگے۔ اسی دوران حضرت ہند بنت عاتکہ( ام سلمہ) رضی اللہ عنہا اور عبداللہ بن عبدالاسد( ابو سلمہ) رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک بچہ عطا فرمایا جس کا نام ’’سلمہ‘‘ رکھا گیا۔ یہ بچہ ان دونوں میاں بیوی کو اتنا پیارا تھا کہ اسی کے نام سے یہ دونوں تاریخ کے اوراق میں ’’ابو سلمہ‘‘ اور ’’ام سلمہ‘‘ کی کنیت سے مشہور ہوئے اور ان کا اصل نام پس پشت چلا گیا۔
حبشہ میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کے احکام پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی تھی۔ ایک روز انہیں کہیں سے یہ خبر ملی کہ کفار و مشرکین نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے صلح کر لی ہے اور وہ سب مسلمان ہو گئے ہیں۔ اس خبر کو سننے کے بعد مہاجرین میں یہ تڑپ اور ولولہ پیدا ہوا کہ وہ جلد سے جلد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں مکۂ مکرمہ حاضر ہو کر اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کرسکیں۔
سب لوگ واپسی کی تیاری کرنے لگے کہ بنو کنانہ کا ایک شخص وہاں پہنچا اور اس نے بتایا کہ تم لوگوں تک جو خبر پہنچی ہے وہ جھوٹ ہے مکہ کے کفار و مشرکین اب بھی اپنی پرانی روش پر سختی سے قائم ہیں۔
یہ بتانے کے بعد بنو کنانہ کا وہ شخص چلا گیا تو مہاجرین سوچ میں پڑ گئے کہ آخر سچائی کیا ہے ؟ چناں چہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں حاضر ہونا چاہیے۔ جب یہ فیصلہ ہو گیا تو مکۂ مکرمہ پہنچنے والا ہر شخص کسی نہ کسی قریشی سردار کی پناہ لے کر اپنے آبائی وطن میں داخل ہوا۔ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو ان کے ماموں ابوطالب نے پناہ دی لہٰذا وہ اپنی بیوی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے مکۂ مکرمہ پہنچ کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
قبیلۂ بنو مخزوم کو جب اس بات کی خبر پہنچی کہ ابو طالب نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے تو انھیں بہت غصہ آیا۔ چناں چہ بنو مخزوم کے لوگ جمع ہو کر ابو طالب کے پاس گئے اور کہا:’’ ہمارے آدمیوں سے آپ کا کیا واسطہ؟‘‘
’’کون سے آدمی؟‘‘ ابو طالب نے پوچھا۔
’’ابو سلمہ(رضی اللہ عنہ) اور اس کی بیوی ام سلمہ(رضی اللہ عنہا)۔‘‘
بنو مخزوم کے لوگوں نے کہا۔
اس پر ابو طالب نے کہا:’’ ابو سلمہ(رضی اللہ عنہ) میرا بھانجا ہے ، جب مَیں اپنے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کو پناہ دے سکتا ہوں تو اسے کیوں نہیں دے سکتا؟‘‘
اس موقع پر ابو طالب اور بنو مخزوم میں زبردست بحث و تکرار شروع ہو گئی قریب تھا کہ جھگڑا ہوسکتا تھا۔ ابولہب جیسے کٹر دشمنِ اسلام کے دل میں اچانک صلۂ رحمی کا جذبہ جاگ اٹھا،اور وہ درمیان میں بول پڑا:
’’اے بنی مخزوم ! تم نے ابو طالب کے ساتھ بہت کچھ بحث و تکرار کر لی اور تم اس پر برابر دباؤ ڈال رہے ہو۔ اگر تم نے ان کو تنگ کرنا بند نہ کیا تو مَیں بھی ان کی حمایت میں کھڑا ہو جاؤں گا۔‘‘
قبیلۂ بنو مخزوم کے لوگوں نے جب ابو لہب کے یہ سخت تیور دیکھے تو گھبرا گئے اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے کہ :’’ اے ابو عتبہ! ہم تم کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ ‘‘
حبشہ کی طرف دوسری ہجرت:
جزیرۃ العرب میں اسلام بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا۔ اس کے ماننے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا۔ کفار و مشرکین نے جب یہ دیکھا تو ان کی دشمنی اور تعصب حد سے بڑھنے لگا۔ انہوں نے مسلمانوں پراپنے ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا کہ مسلمانوں پر مکۂ مکرمہ میں چین و سکون سے رہنا دوبھر ہوتا جا رہا ہے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے دوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت عطا فرما دی۔ یہ اعلانِ نبوت کے چھٹے سال کے شروعات کی بات ہے۔
کفار و مشرکین کو جب اس بات کی خبر ملی تو انہوں نے بہت کوشش کی کہ مسلمان مکۂ مکرمہ سے کسی بھی صورت ہجرت نہ کرسکیں۔ انہوں نے مکہ سے نکلنے والے تمام راستوں پر سخت پہرے بٹھا دیے لیکن ان سب کے باوجود ۸۳ مرد اور ۲۰ عورتیں مکہ سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور حبشہ پہنچ کر سکون و اطمینان کی زندگی بسر کرنے لگے۔ جہاں انہیں ہر قسم کی آزادی حاصل تھی۔ حبشہ کی طرف ہونے والی اس دوسری ہجرت میں بھی حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا شامل تھیں جنہوں نے اسلام کے لیے دوبارہ اپنا آبائی وطن چھوڑا۔
حبشہ کی طرف ہونے والی اس دوسری ہجرت نے پہلی ہجرت کی بہ نسبت مکہ کے لوگوں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام کے کٹر دشمنوں کے بیٹے بیٹیوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور انھیں ہی وہ لوگ طرح طرح کی اذیتیں دے رہے تھے۔ وہی مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ یہ ایسے تھے کہ ان کی جدائی انہیں برداشت نہ ہوسکی۔ مکہ کے مشرکین پریشان ہو اٹھے کہ آخراسلام میں ایسی کون سی بات ہے کہ مسلمان ہو جانے کے بعد وہ اپنے ماں باپ، بہن بھائی، مال و دولت اور وطن تک کو چھوڑ دیتے ہیں لیکن اسلام نہیں چھوڑتے ؟
جب ان کفار و مشرکین نے دیکھا کہ ان کی کوئی چال کامیاب نہیں ہو رہی ہے تو انہوں نے دوبارہ بادشاہ حبشہ نجاشی کی طرف عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو تحفے تحائف دے کر روانہ کیا۔تاکہ وہ نجاشی کو کسی نہ کسی طرح اس بات کے لیے آمادہ کریں کہ وہ مہاجرین کو واپس کر دے۔
کفارِ قریش کا یہ وفد شاہِ حبشہ کے دربار میں پہنچا اور مسلمانوں کے خلاف ایسی باتیں کیں جو مسلمانوں میں پائی نہیں جاتی تھیں یہ باتیں سن کر بادشاہ نے سخت غصے میں کہا:’’ جن لوگوں نے اپنا ملک چھوڑ کر میرے ملک اور مجھ پر بھروسہ کیا ہے۔ مَیں ان کے ساتھ بے وفائی نہیں کرسکتا۔ تم لوگ کل آنا اس معاملے میں فیصلہ کر دیا جائے گا۔‘‘
دوسرے دن بادشاہِ نجاشی نے تمام مسلمانوں کو دربار میں بلایا۔ وہاں کفارِ قریش کے سفیر عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ بھی موجود تھے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بادشاہ نے مسلمانوں سے کہا:
’’ یہ تم نے کیا کر دیا کہ اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا اور میرے دین کو بھی قبول نہ کیا اور نہ ہی دنیا کے کسی دین کو اختیار کیا۔ آخر تمہارا دین کیا ہے ؟‘‘
بادشاہِ حبشہ نجاشی کی یہ بات سن کر حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے فوراً جواب دیا:
’’ اے بادشاہ! ہم ہر طرح کی برائیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم میں ایک رسول بھیجا جس کے نسب،سچائی، امانت داری اور پاک دامنی کے ہم گواہ تھے ، اس نے ہمیں ایک معبود اللہ کی طرف بلایا اور ہم نے اس کی بات مان لی کہ جس کی پوری زندگی پاک دامنی کا نمونہ ہو اور جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو اس نے ہمیں برائیوں، غلط کاموں اور بت پرستی سے روکا۔ نیکیوں کی نصیحت کی اور سیدھا راستا دکھایا تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ ‘‘
اِس پر بادشاہ نے کہا :’’ تمہارے نبی پر جو کلام اترا ہے اس میں سے کچھ سناؤ۔‘‘
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے سورۂ مریم کی آیتیں پڑھ کر سنائیں جس سے بادشاہ بے حد متاثر ہوا۔ ‘‘
عمر و بن العاص کا رویہ بڑا سخت تھا لیکن عبداللہ بن ربیعہ کا رویہ ہمارے معاملے میں کچھ نرم تھا۔ عمرو بن العاص نے بادشاہ سے کہا:’’اے بادشاہ ! ذرا مکہ کے ان مہاجرین سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں پوچھیں۔ یہ اُن کو اللہ کا بندہ قرار دیتے ہیں۔‘‘
بادشاہ نے جب دریافت کیا تو حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے کہا :’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی طرف سے ایک کلمہ اور روح ہیں جسے اللہ نے کنواری مریم پر القا فرمایا تھا۔‘‘
یہ جواب سن کر نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا:
’’ اللہ کی قسم! جو تم نے کہا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے ایک تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں۔‘‘
اس کے بعد بادشاہِ حبشہ نجاشی نے حکم دیا کہ:’’ مکہ کے سفیروں کے تحفے واپس کر دئیے جائیں، مجھے ان کی ضرورت نہیں۔ ‘‘
اس بار بھی مکہ کے کفار و مشرکین کو منہ کی کھانی پڑی اور اُن کے سفیروں کو ناکام و نامراد واپس لوٹنا پڑا۔ حبشہ میں مسلمانوں نے اپنے اعلیٰ ترین اَخلاق و کردار اور نیک عادات و اَطوار کا ایسا نقش وہاں کے لوگوں پر چھوڑا کہ حبشہ کی عوام اور حکومت کے کارندے اسلام میں ایک خاص قسم کی کشش رکھنے لگے۔ لہٰذا حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد جو تیس افراد پر مشتمل تھا مکۂ مکرمہ آیا۔
نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس وفد کے لوگوں نے ملاقات کی۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم سے سوالات کیے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جن کے تشفی بخش جوابات عنایت فرمائے۔ جب رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآنِ پاک کی چند آیات انہیں سنائیں تو وہ رونے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت و رسالت کی تصدیق کی۔
مدینۂ منورہ کی طرف ہجرت:
مکۂ مکرمہ کے کفار و مشرکین کے دلوں میں اسلام کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت سے تعصب و عناد کا لاوا پک رہا تھا۔ وہ مسلمانوں کو طرح طرح پریشان کرتے ، اذیتیں دیتے ، ظلم و ستم ڈھاتے اور ستاتے۔
کفار و مشرکین کی ان حرکات کے باوجود اسلام کا نور وادیِ مکہ سے نکل کر اطراف و جوانب کے لوگوں کے دلوں کو بھی چمکا نے لگا۔ مکۂ مکرمہ کے قریب قبیلۂ دوس کی بستی تھی جہاں ایک ناقابل تسخیر اور مضبوط قلعہ واقع تھا وہاں کے سردار طفیل بن عمرو نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ خواہش ظاہر کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت فرما کر یہاں آ جائیں لیکن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انکار فرما دیا اور اس سلسلہ میں اللہ رب العزت کے حکم کا انتظار فرمانے لگے۔
آخر کار اعلانِ نبوت کا تیرہواں سال تھا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے نام لیواؤں کو مدینۂ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ چناں چہ مسلمانوں نے مدینے کی طرف ہجرت شروع کی۔ سب سے پہلے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہ اور حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ ہجرت کے سفر پر روانہ ہوئے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کا مدینۂ منورہ کی طرف ہجرت کا واقعہ بڑا دردناک ہے۔ خود حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
’’ جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے مدینۂ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا تو اونٹ پر کجاوہ کس کر مجھے اور سلمہ رضی اللہ عنہ کو اونٹ پر بٹھا دیا اور اس کی نکیل پکڑ کر آگے آگے چلتے رہے جب میرے میکے والوں یعنی قبیلہ بنو مغیرہ کو ہمارے روانہ ہونے کی خبر ہوئی تو انہوں نے حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم اپنے بارے میں خود مختار ہو سکتے ہو مگر ہم اپنی بیٹی کو تمہارے ساتھ ہرگز نہیں جانے دیں گے۔ ‘‘
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’یہ سُن کر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا :
’’ام سلمہ میری بیوی ہے مَیں اسے لے کر جہاں چاہوں جا سکتا ہوں۔‘‘
اس پر قبیلے والوں نے کہا کہ :’’یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ ام سلمہ (رضی اللہ عنہا)تمہارے ساتھ ہرگز ہرگز نہیں جائے گی۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سے اونٹ کی نکیل چھین لی اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے جاتے جاتے اپنی بیوی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ :’’ ام سلمہ ! اسلام پر سختی سے ڈٹے رہنا۔‘‘ پھر چند نصیحتیں کیں۔
اپنے شوہر کی باتیں سن کر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ:’’ آپ مطمئن رہیے جان قربان کر دوں گی مگر اسلام کو مَیں کسی حال میں نہیں چھوڑوں گی۔‘‘
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ مدینۂ منورہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ اسی دوران حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے خاندان والے بھی اس جگہ پہنچ گئے۔ جب انہیں پورا ماجرا معلوم ہوا تو وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے خاندان والوں سے کہنے لگے کہ :’’ جب تم نے اپنی بیٹی کو ہمارے آدمی سے چھین لیا تو اب ہم اپنے بچّے سلمہ کو کیوں اُس کے پاس رہنے دیں۔‘‘
چناں چہ انہوں نے آگے بڑھ کر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بچے کو بھی چھین لیا۔ بچّے کو زبردستی چھیننے میں اس کا ہاتھ اتر گیا اور وہ تیز تیز رونے لگا۔ لیکن ان ظالموں کو اس کا کوئی احساس نہ تھا کہ بچّے اور ماں پر گیا گذر رہی ہے۔ مختصر یہ کہ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے خاندان والے سلمہ کو چھین کر لے گئے اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو اُن کے خاندان والے لے گئے اور شوہر مدینے کی طرف ہجرت کر گئے۔ آپ رضی اللہ عنہا سے بیک وقت شوہر اور بچّے کو چھین لیا گیا لیکن کیا مجال تھی کہ اسلام کی اس مقدس خاتون کے ایمان میں ذرّہ بھر بھی کمزوری آئی ہو۔
صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے ایک مثال قائم کر دی۔ اصل میں انہیں اللہ رب العزت پر پورا بھروسہ تھا کہ وہ ان قربانیوں کو ضائع نہیں کرے گا بل کہ بہتر صلہ عطا فرمائے گا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ظالموں نے اُن کی ساری کائنات چھین لی تھی۔ ان کے دل پر گہرے زخم لگائے تھے۔ انھیں اپنے شوہر اور بچے کی جدائی کا غم ستاتا۔ وہ فرماتی ہیں : ’’ مجھے اس بات کا اس قدر شدید صدمہ پہنچا کہ مَیں روزانہ آبادی سے باہر جاتی اور شام تک اس مقام پر بیٹھ کر روتی جہاں مَیں نے اپنے شوہر کو مدینے کی طرف رخصت ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ اسی طرح ایک سال کا عرصہ گذر گیا نہ شوہر کے پاس جا سکی نہ بچّہ ہی مل سکا۔ ایک روز میرے ایک چچا زاد بھائی نے میری حالت دیکھ کر خاندان والوں سے کہا کہ تم اس بے کس پر رحم کیوں نہیں کرتے ؟ اسے کیوں نہیں چھوڑ دیتے اور اس کو بچّے اور شوہر سے دور کیوں رکھا ہے ؟ ‘‘
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :’’ بنی مغیرہ نے اپنے اُس آدمی کی سفارش پر مجھے اپنے شوہر (حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ) کے پاس جانے کی اجازت دے دی۔ جب اس بات کی خبر بچّہ کی دادھیال والوں کو لگی تو انہوں نے بچّہ بھی مجھے دے دیا۔ ‘‘
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو جب ان کا بچہ مل گیا تو انہوں نے تنِ تنہا مدینے کی طرف روانہ ہونے کا ارادہ کیا اور ایک اونٹ تیار کر کے بچّے کو ساتھ لیا اور اکیلے سوار ہو کر مدینۂ منورہ کے لیے نکل پڑیں۔ کوئی مرد ساتھ نہ تھا۔ تین چار میل چلی ہوں گی کہ بنی عبدالدار کے ایک شخص جن کے پاس خانۂ کعبہ کی چابی رہا کرتی تھی ’’عثمان بن طلحہ‘‘ سے ملاقات ہوئی۔ جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ لیکن نہایت رحم دل اور نیک تھے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:’’ عثمان بن طلحہ نے مجھ سے پوچھا کہاں جاتی ہو؟‘‘--مَیں نے کہا:’’ اپنے شوہر کے پاس مدینۂ منورہ جا رہی ہوں۔‘‘
انہوں نے دوبارہ سوال کیا : ’’کوئی ساتھ بھی ہے ؟‘‘مَیں نے کہا :’’ اللہ تعالیٰ ہے اور یہ بچّہ ہے۔ ‘‘
یہ سُن کر عثمان بن طلحہ نے میرے اونٹ کی نکیل پکڑ لی اور آگے آگے چلنے لگے۔ خدا کی قسم! مَیں نے عثمان جیسا شریف آدمی نہیں دیکھا۔ جب منزل پر اترنا ہوتا تو وہ اونٹ بٹھا کر کسی درخت کی آڑ میں کھڑے ہو جاتے اور پھر اونٹ کو باندھ کر مجھ سے دور کسی درخت کے نیچے لیٹ جاتے اور جب کوچ کرنے کا وقت ہوتا تو اونٹ پر کجاوہ کس کر میرے پاس لا کر بٹھا دیتے اور خود وہاں سے ہٹ جاتے۔ جب مَیں سوار ہو جاتی تو اس کی نکیل پکڑ کر آگے آگے چل دیتے۔ اسی طرح وہ مجھے مدینۂ منورہ تک لے گئے جب ان کی نظر بنی عمرو بن عوف کی آبادی پر پڑی جو قبا میں تھی تو انہوں نے کہا کہ جاؤ تمہارا شوہر یہیں ہے۔ اس کے بعد وہ سلام کر کے رخصت ہو گئے۔
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات:
مدینۂ منورہ پہنچ کر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے پاس رہنے لگیں اور وہاں ایک لڑکا اور دو لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ لڑکے کا نام عمر اور ایک لڑکی کا نام درّہ اور دوسری کا نام زینب رکھا۔
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے جنگ بد رمیں شرکت کی اپنی جواں مردی کے جوہر دکھائے اور غازی بن کر لوٹے۔ دوبارہ جنگ احد میں بھی شریک ہوئے اس معرکے میں آپ کے بازو میں دشمن کا ایک تیر ایسا لگا کہ آپ بہت زیادہ زخمی ہو گئے۔ ایک مہینے تک علاج چلتا رہا۔جس کی وجہ سے آپ کا زخم کچھ حد تک بھر گیا۔ اسی دوران سریۂ قطن کا واقعہ پیش آیا۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ایک دستہ کا امیر بنا کر روانہ فرمایا۔جنگ سے واپسی پر آپ کا پرانا زخم ہرا ہو گیا اور اسی کے اثر سے جمادی الاخریٰ ۴ھ میں آپ نے وفات پائی۔
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے اپنی پوری زندگی اسلام کی حفاظت اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفاداری اور جاں نثاری میں بسر کی اور ایک مثالی کردار ادا کیا۔ آپ کی نمازِ جنازہ خود رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے پڑھائی۔
نبیِ کریم ﷺ کا ام سلمہ سے نکاح:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پہلے شوہر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت و الفت تھی۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ مَیں نے سنا ہے کہ اگر مرد اور عورت دونوں جنتی ہوں اور عورت مرد کے بعد کسی سے نکاح نہ کرے تو وہ عورت جنت میں اسی مرد کو ملے گی۔ اسی طرح مرد اگر دوسری عورت سے نکاح نہ کرے تو وہی عورت اسے ملے گی۔ اس لیے آؤ ہم عہد کریں کہ ہم میں سے جو پہلے اس دنیا سے چلا جائے وہ دوسرا نکاح نہ کرے۔
یہ سُن کر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’ تم میرا کہا مان لو گی؟ ‘‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:’’ ماننے کے لیے ہی مشورہ کر رہی ہوں۔‘‘
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’ تم میرے بعد نکاح کر لینا۔‘‘
اس کے بعد حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا دعا مانگا کرتی تھیں کہ یا اللہ! مجھے ان سے بہتر شوہر عطا فرما۔لیکن پھر سوچتیں کہ ابو سلمہ سے بہتر اور کون ہو گا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار کی وجہ سے ان کی نظروں میں ایک مثالی شوہر کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہیں کیا پتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے کیسے عظیم ترین شوہر کا انتخاب کر رکھا ہے ؟
شوہر کے انتقال کے وقت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا حمل سے تھیں۔
ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کانام زینب رکھا گیا۔ اس کی ولادت پر عدت بھی ختم ہو گئی۔ عدت گذر جانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے کا پیغام بھیجا تو انہوں نے معذرت طلب کر لی۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی اُن کو نکاح کا پیغام بھیجا لیکن اس مرتبہ بھی انہوں نے عذر پیش کر دیا۔
چند دنوں کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے نکاح کا پیغام لے کر آئے۔ اس پر انہوں نے یہ عذر کیا کہ میرے بچے زیادہ ہیں، میری عمر بھی زیادہ ہے ، کوئی میرا وارث بھی نہیں اور میرے مزاج میں غیرت بھی بہت ہے۔ اس کے جواب میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب بھیجا کہ عمر کی بات تو یہ ہے کہ میر ی عمر تم سے زیادہ ہے۔
اور بچوں کا اللہ نگہبان ہے ان کی پرورش میں تمہیں کوئی مشکل نہیں ہو گی۔ مَیں بھی ان کا خیال رکھوں گا۔ اور اللہ سے دعا کروں گا کہ تمہاری غیرت والی بات جاتی رہی ہے۔ تمہارا کوئی ولی میرے ساتھ رشتے کو ناپسند نہیں کرے گا۔
اس کے بعد حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے یہ پیغام قبول کر لیا۔چناں چہ شوال ۴ھ کی آخری تاریخوں میں آپ کا نکاح نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ہو گیا۔ اور اس طرح آپ کی دعا اعلیٰ ترین انداز میں قبولیت کے منصب پر فائز ہوئی۔ اور آپ ’’ام المؤمنین‘‘ کے لقب سے سرفراز ہوئیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا جب نکاح ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اسی حجرے میں ٹھہرایا جس میں ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا رہا کرتی تھیں۔ انہوں نے وہاں دیکھا کہ ایک مٹکے میں جَو رکھے ہیں اور ایک چکّی اور ہانڈی بھی موجود ہے۔ لہٰذا خود جَو پیسے اور چکنائی ڈال کر مالیدہ بنایا اور پہلے ہی دن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو مالیدہ کھلایا جسے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی دانش مندی:
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بڑی دانش مند اور سمجھ دار تھیں۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو کفارِ مکہ سے صلح کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے ایک معاملہ پیش آیا تو وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بہترین رائے سے ہی حل ہوا۔
واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم ۶ھ میں اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ عمرہ کے لیے مدینۂ منورہ سے مکۂ معظمہ کے لیے روانہ ہوئے۔
مکہ کے مشرکین کو اس بات کی خبر ہوئی تو انہوں نے مزاحمت کی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حدیبیہ کے مقام پر رکنا پڑا۔ جاں نثار صحابہ رضی اللہ عنہم چوں کہ اپنے آقا نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔ اس لیے اس موقع پر وہ جنگ کرنے پر آمادہ ہو گئے۔
لیکن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے لڑائی کی بجائے صلح کرنا پسند فرمایا۔ اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم جنگ کے لیے بالکل تیار تھے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بڑی رعایت کے ساتھ کفارِ مکہ سے صلح فرمائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی ہر شرط قبول فرمالی جو ظاہر میں مشرکین کے لیے فائدے مند اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ لگ رہی تھی۔
صلح کی شرائط میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس سال مسلمان عمرہ نہیں کریں گے آیندہ سال عمرہ کے لیے آسکتے ہیں۔ صلح نامہ سے فارغ ہو کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ارشاد فرمایا کہ اپنے احرام کھول دو، قربانی کے جانور ذبح کر لو اور اپنے سر منڈوا لو۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو اپنے آقا سیدِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم پر مر مٹنے کے جذبات سے سرشار تھے۔ ان کی طبیعتیں اس بات پر آمادہ نہ ہوئیں کہ ہم بغیر عمرہ کیے مدینۂ منورہ واپس چلے جائیں۔
لہٰذا اپنے پیارے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمانے پر کوئی بھی نہ ٹھا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین مرتبہ حکم دیا جب کسی نے بھی اس پر عمل نہ کیا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور ان سے واقعہ ذکر فرمایا۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی :
’’یارسول اللہ! کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ سب احرام کھول دیں ؟تو پھر ایسا کریں کہ آپ باہر نکل کر کسی سے کوئی بات نہ کریں اور اپنے جانور ذبح فرما دیں اور بال مونڈنے والے کو بلا کر اپنے بال مونڈا لیں۔‘‘
چناں چہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا ہی کیا اور باہر نکل کر اپنا جانور ذبح کر دیا اور بال منڈالیے۔ جب جاں نثار اور وفادار صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے آقا رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا تو بے تابانہ وہ بھی آگے بڑھے اور اپنے اپنے احرام کھول دئیے اور اپنے اپنے جانور ذبح کر ڈالے اور آپس میں ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی اس رائے کے بارے میں جس سے یہ معاملہ حل ہوا حضر ت حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ :’’ حدیبیہ کے موقع پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے رائے دینے سے یہ پتا چلتا ہے کہ وہ بڑی عقل مند اور ٹھیک رائے رکھنے والی خاتون تھیں۔‘‘
صلح حدیبیہ میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کفارِ مکہ کی تمام شرائط مان لی تھیں، جو کہ بہ ظاہر مسلمانوں کے لیے نقصان دہ محسوس ہو رہی تھیں۔ لیکن آیندہ سال یوں ہوا کہ مکہ فتح ہو گیا اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بڑی شان و شوکت سے مکۂ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ صلح حدیبیہ میں کفار کی شرائط کا تسلیم کر لینا دراصل نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اعلیٰ ترین سیاسی تدبر کو ظاہر کرتا ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے خوب علوم سیکھے اور ان کو عام کیا۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے نکا ح میں آ گئیں تو انہوں نے اسے بہت بڑی سعادت مندی تصور کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مصاحبت کو غنیمت جانا۔آپ اچھے قوتِ حافظہ کی مالکہ تھیں۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم جو بھی ارشاد فرماتے انھیں اپنے ذہن میں محفوظ کرتی جاتیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوالات کر کے اپنے علم میں اضافہ کرتیں۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے علوم سیکھے ہی نہیں بل کہ ان کو خوب پھیلایا بھی۔ حدیث میں ان کے شاگردوں میں صحابہ بھی تھے اور تابعین بھی(رضی اللہ عنہم)۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بھی بعض سیرت نگاروں نے ان کے شاگردوں میں شمار کیا ہے۔ حدیث شریف کی کتابوں میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے جو روایتیں ملتی ہیں ان کی تعداد ۳۷۸؍ ہیں۔آپ کا شمار محدثین کے تیسرے طبقے میں ہوتا ہے۔
محمود بن لبید فرماتے ہیں کہ:’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سب ہی ازواجِ مطہرات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات کو سن کر یاد کرتی تھیں لیکن ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ اور ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی ہم پلہ اس میں کوئی اور بیوی نہ تھی۔ ‘‘
مروان بن الحکم ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مسائل دریافت کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم کسی اور سے کیوں پوچھیں جب کہ ہمارے درمیان نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں موجود ہیں۔سیرت کی کتابوں میں آتا ہے کہ اگر ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے فتاویٰ جمع کیے جائیں تو خاصی تعداد میں جمع ہوسکتے ہیں اور ان کے مجموعہ کا ایک رسالہ بن سکتا ہے۔
آپ سے بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم نے حدیث کا علم حاصل کیا۔ جن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چند ایک کے نام یہ ہیں :
حضرت عبدالرحمن بن ابو بکر، اسامہ بن زید، ہند بن الحارث الفراسیہ، صفیہ بنت شیبہ، عمر و زینب (اولادِ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا)، مصعب بن عبداللہ (حضرت ام سلمہ کے بھائی)، بنہان ( غلام مکاتب)، عبداللہ بن رافع، شعبہ، ابو بکیر، خیرہ والدہ حسن بصری، سلیمان بن یسار، ابو عثمان الہندی، حمید، سعید بن مسیب، ابو وائل، صفیہ بنت محصن، شعبی، عبدالرحمن ابن حارث بن ہشام، عکرمہ، ابو بکر بن عبدالرحمن، عثمان بن عبداللہ ابن موہب، عروہ بن زبیر،کریب مولیٰ ابن عباس، قبیصہ بن زویب رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی چند احادیث:
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات سننے کا بہت شوق تھا۔ آپ سے روایت کردہ حدیثیں جو کتابوں میں موجود ہیں ان میں سے چند ایک درج کی جاتی ہیں :
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں نے ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا :’’دنیا کی عورتیں بہتر ہیں یا حوریں ؟ ‘‘
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’ دنیا کی عورتیں۔‘‘
مَیں نے عرض کی :’’ یارسول اللہ! کس وجہ سے ؟
ارشاد فرمایا کہ :’’ اس لیے کہ اِن عورتوں نے نمازیں پڑھی ہیں، روزے رکھے ہیں اور عبادتیں کی ہیں۔‘‘
ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا کہ :’’ یارسول اللہ ! مَیں اپنے سر کی مینڈھیاں سختی سے باندھتی ہوں تو کیا غسل جنابت کے لیے ان کو کھولا کروں ؟ ‘‘ اس پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:’’ نہیں ! بس اتنا کافی ہے کہ تم اپنے سر پر تین بار لپ بھر کر پانی ڈال لیا کرو (جس سے بالوں کی جڑیں تر ہو جائیں ) اس کے بعد (سارے بدن پر) پانی بہا لیا کرو۔ایسا کرنے میں پاک ہو جاؤ گی۔‘‘
( مسلم شریف(
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی تھیں کہ:’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے سکھایا کہ مغرب کی اذان کے وقت یہ پڑھا کرو :
’’اَللّٰہُمَّ اِنَّ ہٰذَا قِبَالُ لَیْلِکَ وَاِدْبَارُ نَہَارِکَ وَاَصْوَاتُ دُعاَئِکَ فَاغْفِرْلِی۔
( اے اللہ! یہ تیری رات کے آنے اور دن کے جانے اور تیرے بلانے کی آوازوں کا وقت ہے سو مجھے بخش دے )
( مشکوٰۃ شریف(
ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے مقدس کاشانے میں تشریف فرما تھے اور آپ کے قریب ہی ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں کہ اچانک حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آ گئے ، وہ چوں کہ نابینا تھے اس لیے یہ سمجھ کر کہ ان سے کیا پردہ کرنا ہے۔ دونوں وہیں بیٹھی رہیں اور پردہ نہ کیا۔
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’ان سے پردہ کرو۔‘‘ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ یارسول اللہ! کیا وہ نابینا نہیں ہیں ؟ ہم کو تو نہیں دیکھ سکتے ! پھر پردہ کی کیا ضرورت ؟‘‘نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب ارشاد فرمایا:’’ کیا تم دونوں بھی نابینا ہو ؟ کیا تم ان کو نہیں دیکھ رہی ہو؟ ‘‘
( مشکوٰۃ و ترمذی شریف(
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک پناہ لینے والا بیت اللہ میں آ کر پناہ لے گا۔ اس سے لڑنے کے لیے ایک لشکر چلے گا اور وہ لشکر ایک میدان میں پہنچ کر زمین میں دھنس جائے گا۔ ‘‘
مَیں نے عرض کی :’’ یارسول اللہ ! جو لوگ اس لشکر میں شریک نہ ہوں گے اور اس لشکر کے حملے کو بُرا سمجھ رہے ہوں گے کیا وہ بھی اس میدان میں ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ دھنسا دئیے جائیں گے ؟ ‘‘ نبیِ کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’ اس لشکر کے ساتھ وہ بھی دھنسا دئیے جائیں گے ، لیکن قیامت کے روز ہر ایک کا اپنی اپنی نیت پر حشر ہو گا۔‘‘
( مشکوٰۃ شریف(
ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا: ’’یارسول اللہ! کیا مجھے (اپنے شوہر) ابو سلمہ کی اولاد پر خرچ کرنے سے اجر ملے گا حال آں کہ وہ میری ہی اولاد ہیں۔ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب میں فرمایا کہ:’’ اُن پر خرچ کرو تم کو اس خرچ پر اجر ملے گا۔‘‘
(صحیح بخاری (
ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : ’’یارسول اللہ ! مرد جہاد کرتے ہیں اور عورتیں جہاد نہیں کرتیں اور عورتوں کو مرد کے مقابلے میں آدھی میراث ملتی ہے ( اس کا سبب کیا ہے ؟) ‘‘ اس کے جواب میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن پاک کی یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی :
وَلَا تَتَمَنَّوا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلیٰ بَعْضٍ
اور اس کی آرزو نہ کرو جس سے اللہ نے تم میں ایک دوسرے پر بڑائی دی۔
ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے حدیث سنائی کہ :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بعض لوگ جو مسلمان سمجھے جاتے ہیں ( اور وہ دل سے مسلمان نہیں ہیں ) ایسے لوگوں کو اپنی وفات کے بعد مَیں نہ دیکھوں گا اور نہ وہ مجھے دیکھ سکیں گے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان کو یہ حدیث سنائی تو حضر ت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خود ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور پوچھا خدا کی قسم! سچ سچ کہنا مَیں ان میں سے تو نہیں ہوں (جن کا ذکر اس حدیث میں ہے ) ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے فرمایا:’’نہیں۔‘‘
اسی طرح ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے طرز پر قرأت کر کے بتائی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک ایک آیت پر ٹھہرتے تھے ،بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر ٹھہرتے پھر الحمد للہ رب العالمین پڑھ کر رکتے ، الرحمن الرحیم پڑھ کر توقف فرماتے ، پھر مالک یوم الدین پڑھ کر ٹھہرتے۔ غرض یہ کہ اسی طرح نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ و سلم علاحدہ علاحدہ آیات کر کے پڑھتے تھے۔ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم مجھے حکم فرماتے تھے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو۔ جن میں پہلا پیر یا جمعرات ہو۔
(ابو داؤد و نسائی(
حضرت ام سلمہ اور امر بالمعروف:
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بھی بہت پابند تھیں۔ ایک روز ان کے بھتیجے نے دو رکعت نماز پڑھی۔ چوں کہ سجدہ کی جگہ غبار تھا۔ اس لیے وہ صاحب زادے سجدہ کرتے وقت مٹی جھاڑ دیتے تھے۔ یہ دیکھ کرام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان کو روکا اور فرمایا کہ یہ کام نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے کے خلاف ہے۔ ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ایک غلام (افلح) نے ایسا کیا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم)نے فرمایا تھا :’’ اے افلح! اپنا چہرہ مٹی میں ملا۔‘‘
( مسند امام احمد(
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی وفات:
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی تمام زندگی اسلام کی خدمت اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و فرماں برداری میں بسر کی۔ مدینۂ منورہ میں84؍ برس کی عمر پا کر آپ نے وفات پائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ آپ کے وصال کے سال میں مؤرخین میں اختلاف ہے۔ بعض نے 53ھ بعض نے59ھ بعض نے 62ھ لکھا ہے اور بعض کا قول ہے کہ آپ کی وفات 63ھ میں ہوئی۔ ازواجِ مطہرات میں سب سے آخر میں آپ ہی نے وفات پائی۔ آپ کا مزار جنت البقیع میں ہے۔
(زرقانی ج ۳ص ۲۳۸(
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی صبرواستقامت، علم و عمل، جوشِ اسلامی، محنت و جفا کشی اور عقل و دانش کا ایک روشن باب ہے۔ جس کی مثال مشکل ہی سے مل سکے گی۔ ان کے کارناموں اور بہادری کی داستانوں کو تاریخِ اسلام کے صفحات پر دیکھ کر ان کی زندگی کے شب و روز پر عمل کر تے ہوئے ہماری ماؤں بہنوں کو اپنی زندگی نکھارنا اور سنوارنا چاہیے۔