اچھے اور برے ناموں کے اثرات

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اچھے اور برے ناموں کے اثرات
کفیل احمد ندوی
انسانی طیبعت و فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی ہر چیز میں حسن و جمال، خوبصورتی ندرت جدّت اور انوکھا پن ہو، اس طبعی و فطری تقاضا کی وجہ سے انسان ہر چیز میں حسن و جمال ، خوبصورتی و ندرت کا خیال رکھتا ہے، خود اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین سانچہ کے ساتھ پیدا کیا،
" لقد خلقنا الانسان فی أحسن تقویم"
ہم نے انسان کو بہترین و خوبصورت ساخت و ترکیب کے ساتھ پیدا کیا ہے، اس کو شاندار شامہ عطا کیا ہے، اس لئے اگر انسان خوبصورتی کو اختیار کرتا ہے تو یہ طبیعت کا تقاضا ہے اور محبوب و پسندیدہ چیز ہے، ایک صحابی نے نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام سے دریافت کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ میرا جوتا شاندار و خوبصورت ہو کیا یہ کبر و غرور میں شامل ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' ان اللہ جمیل یحب الجمال'، اللہ خود جمیل ہے اور ہر چیز و کام میں جمال و خوبصورتی اور سلیقہ کو بھی پسند کرتے ہیں، اسی لئے ہماری شریعت میں چھوٹی و معمولی چیزوں میں بھی اس کا خیال کرنے کا حکم ہے، یہاں تک کہ بچوں کے ناموں کے سلسلے میں بھی بے شمار ہدایات موجود ہیں، شریعت میں بہترین اور اچھے معنیٰ و مفہوم والے ناموں کو پسند کیا گیا ہے، جس طرح والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگہداشت و حفاظت کریں ان کی نشونما اور بہترین تربیت و تعلیم کی فکر کریں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ والدین بچوں کے اچھے نام تجویز کریں، اچھے نام اچھی علامتوں کے مظہر ہوتے ہیں اور اچھے مظاہر اللہ کو محبوب و پسند ہیں والدین کی سب سے اہم ذمہ داری اپنے بچوں کا اچھا و خوبصورت نام رکھنا ہے، حضور ﷺ نے فرمایا
’ حق الولد علیٰ الوالد أن یحسن أدبہ و یحسن اسمہ‘،
باپ پر بچہ کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، اچھا نام وہ ہے جو خدا کے ۹۹ ناموں میں سے کسی ایک نام سے پہلے عبد لگا کر ترکیب دیا گیا ہو، اللہ کے ناموں میں سے کسی بھی نام سے پہلے عبد بڑھا کر تجویز کیا گیا نام اللہ کو سب سے محبوب و پسندیدہ ہے۔ حدیث مرفوع ہے،
’ان من أحب أسمائکم الیٰ اللہ عبد اللہ و عبد الرحمن‘
عبد اللہ و عبد الرحمن کے پسندیدہ و محبوب ہونے کی وجہ یہ ہےکہ ان دونوں ناموں میں بندے کی عبدیت، غلامی و عاجزی، فروتنی و تواضع کا اور اللہ کی و حدانیت و یکتائی کا اظہار و اعلان ہے اور اس طرح کے ناموں سے بار بار اللہ کی یاد بھی تازہ ہوتی رہتی ہے، اور دین و شریعت کی بنیاد ہی اللہ کو زیادہ سے زیادہ یاد کرنے پر رکھی گئی ہے، اس لئے ایسے ناموں کو پسند کیا گیا جن میں اللہ کا کوئی صفاتی نام موجود ہو کہ بندے کی عبدیت و غلامی کا اظہار بھی ہو گیا ہو اللہ کا ذکر بھی ہوگیا، اس طرح کے ناموں کے پسند ہونے کی ایک وجہ اور ہے جس کی طرف حضرت امام شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے، لکھتے ہیں ’ اس طرح کے ناموں میں کافروں، بت پرستوں اور بددینوں کا مقابلہ بھی ہے، کیونکہ کفار و مشرکین آج بھی اپنے بچوں کے نام اپنے بتوں معبودوں دیوں اور دیوتاؤں کے ناموں پر رکھتے ہیں، اس لئے اللہ کے نام پر نام رکھنے سے ان کا مقابلہ ہوجاتا ہے، اسی طرح وہ نام بھی اچھا ہے جو پیغمبروں کے نام پر رکھا گیا ہو کیونکہ یہ نام پیغمبروں کے ساتھ نسبت و تعلق کو ظاہر کرتا ہے، حضور ﷺ نے فرمایا ’ تسموا بأسما الأنبیاء‘ نبیوں کے ناموں پر اپنی اولاد کے نام رکھا کرو، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک بیٹے کا نام ابراہیم رکھا تھا، ابومو سیٰ کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا وہ اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لےکر حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کے حق میں دعائے برکت کی اور اس کا نام ابراہیم رکھا۔
بچوں کے ناموں کے سلسلے میں بڑی ہوشمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے، اگر بچے کے نام میں کسی طرح کی غلطی ہوئی تو قیامت کے دن ندامت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ قیامت کے دن حساب و کتاب اور نامۂ اعمال دینے کیلئے ہر ایک کو اس کے اور اس کے آباؤ اجداد کے ناموں کے ساتھ پکارا جائےگا۔
آج کل دین سے دوری کی وجہ سے جہالت عام ہے، جس کی وجہ سے ناموں کے سلسلے میں بھی بڑا بگاڑ پیدا ہو چکا ہے، آج کل لوگ بچوں کے ناموں میں جدّت و نئے پن کا لحاظ کرتے ہیں، ایسا نا م رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو کسی کا نہ رہا ہو خواہ اس کا معنی اور مفہوم کچھ بھی ہواور پوری زندگی اسی خراب نام کے ساتھ گذر جاتی ہے، اگر بتلایا اور سمجھایا جاتا ہے تب بھی بدل کر دوسرا اچھا نام رکھنے کی توفیق نہیں ہوتی، علامہ طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’ایسا نام نہیں رکھنا چاہئے جس کے معنی و مفہوم میں غلطی ہواور نہ ہی ایسا نام رکھنا چاہئے جس سے اپنی تعریف و بڑائی اور کبر و غرور کا اظہار ہوتا ہو، اور نہ ہی ایسا نام رکھنا چاہئے جس کے معنی میں گالی شامل ہو، اس طرح کے ناموں کو بدل دینے کا حکم ہے ‘ امام نووی رحمہ اللہ نے باب قائم کیا
’ باب استحباب تغییر الاسم الیٰ أحسن منہ‘
اس باب کے تحت ایسے بہت سارے واقعات کا ذکر کیا ہے جن میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مناسب ناموں کو مناسب ناموں میں بدل دیا، ایک مرتبہ ایک وفد مدینہ میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب سے نام معلوم کیا تو انہوں نے بتلایا کہ میرا نام اصرم ہے ، جس کے معنی کٹے ہوئے اور دور پڑے شخص کے ہیں، معنیٰ سے معلوم ہوتا تھا کہ اس شخص کو خیر و برکت کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بدل کر زرعہ رکھ دیا جس کے معنی سخی کے ہیں ، ایک صاحب کا نام شیطان تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور کہا کہ آج سے تمہارا نام عبد اللہ ہے، ایک شخص کا نام غراب تھا، غراب کوّے کو کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام مسلم رکھا ، جب حضرت حسن پیدا ہوئے تو پہلے ان کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا نام حرب رکھا، حرب جنگ کو کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام کو ناپسند کیا کیونکہ جنگ میں خاندانوں کے خاندان تباہ و برباد ہو جاتے ہیں، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بدل کر حسن رکھا، زمین کے ایک خاص ٹکڑے کا نام ’’ عَقِرَۃ‘‘ تھا جسکے معنی بنجر و بانجھ کے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ’’ خَضِرَۃ‘‘ رکھ دیا جس کے معنی سر سبز و شاداب کے ہیں، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی صاحبزادی کا نام برّۃ تھا جس کے معنی نیک و پرہیز گار کے ہیں تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا
’لاتزکوا أنفسکم اللہ أعلم بأھل البرمنکم‘
خود سے اپنی تعریف مت کرو اللہ بہتر جانتا ہے کہ نیک و پرہیز گار کون ہے، اور پھر اس بچی کا نام زینب رکھ دیا، یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ اچھے ناموں کے اثرات بچوں پر مرتب ہوتے ہیں، نام کے جو معانی ہوں گے بچہ وہی معنی و صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرے گا، جس شخصیت کے نام پر بچے کا نام ہوگا بچہ اسی کے نقشہ قدم پر چلیگا، صحابی رسول حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے اپنے بچوں کے نام نبیوں کے ناموں پر رکھے ہیں جب کہ تم نے اپنے بچوں کے نام شہداء کے ناموں پر رکھے ہیں، تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے بڑے پتہ کی بات کہی کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے بہادر بنیں اور اللہ کے راستہ میں شہید ہوں اور تم نہیں چاہتے کہ تمہارے بچے نبی بنیں کیونکہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ، حضور پاک علیہ الصلاۃ والسلام اچھے ناموں سے خوش ہوتے نیک شگون لیتے اور اس کے اچھے اثرات کی تمنا کرتے تھے، صلح حدیبیہ کے موقع پہ قریش نے اپنے کئی سفراء کو بھیجا لیکن بات نہیں بنی، اخیر میں سہیل کو بھیجا،سہیل کے معنی نرم کے ہیں جب آپؐ نے سہیل کو آتے ہوئےدیکھا تو فرمایا کہ خوشخبری قبول کرو سہیل آرہے ہیں اب معاملہ سہل و آسان ہو جائیگا سہیل آئے بات چیت ہوئی اور صلح ہوگئی۔
سعید بن مسیب تابعی کہتے ہیں کہ میرے دادا کا نام حَزن تھا حضورؐ نے یہ نام بدلنا چاہا لیکن میرے دادا قیا نہ ہوئے اس نام اثر بعد کی نسلوں میں دل کی سختی اور اخلاقی تشدد کی شکل میں ظاہر ہوا۔
آج کل لوگوں کے اندر بچوں کے ناموں کے سلسلے میں ایک بیماری اور پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ناموں میں بڑی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں، لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے تمام بچوں اور بچیوں کے ناموں میں یکسانیت ہو سب کا نام ہم وزن ہو، حالانکہ یہ التزام غیر ضروری ہے اور کبھی کبھی اس کی پابندی بڑی بھونڈی معنویت پیدا کردیتی ہے، اس کی مثالیں آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں۔
اس لئے بچوں کے نام بہت سوچ سمجھ کر پڑھے لکھے بزرگوں سے مشورے کے بعد رکھنے چاہئیں، کیونکہ ناموں اور کسی بھی قوم کی تہذیب و تمدن کے درمیان گہرا رشتہ ہو تا ہے، ناموں میں غلطیوں کی وجہ سے غیروں کی تقلید کیوجہ سے مسلم بچوں کے اخلاق خراب ہورہے ہیں اور بچے دین سے دور ہوتے جارہے ہیں، اسکا سب سے بہترین و مسنون طریقہ یہ ہےکہ جب بچہ یا بچی پیدا ہو تو اس کو کسی نیک متبعِ سنت پڑھے لکھے بزرگ کے پاس لیکر جائے اور اس سے بچے کے حق میں دعائے برکت کی اور نام رکھنے کی درخواست کرے، جونام بھی تجویز ہو اس کو قبول کرلے اپنی طرف سے کوئی مشورہ نہ دے جیسا کہ صحابہ کرام کا معمول تھا۔