مساجد میں کن آداب سے وقت گذارا جائے

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مساجد میں کن آداب سے وقت گذارا جائے؟
شبیر احمد عثمانی
جیسے ہی امام صاحب نے نماز عصر کے لیے تکبیرِ تحریمہ کہی تو تب ہی سے بچوں کی اچھل کود اور شور وغل اس قدر ہونے لگا اور ہوتا چلا گیا کہ نماز پوری کرنا دشوار ہو گیا، امام صاحب کی نماز بھی متاثر اور مقتدیوں کی نماز بھی متاثر، بہر حال نماز کے اختتام پر امام صاحب منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور تقریباً دس پندرہ منٹ تک نہایت بہترین اور مشفقانہ انداز میں نصیحت فرماتے رہے، جس کا خلاصہ کچھ اس طرح تھا : فرمایا: ’’مسجد سجدہ کرنے کی جگہ کو کہتے ہیں، چوں کہ سجدہ نماز کا نہایت فضیلت کا حامل عمل ہے، اس لیے نماز گاہ کو مسجد سے تعبیر کیا گیا ہے، مسجد کے لیے یہ نام خود اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں استعمال فرمایا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری عز اسمہ ہے:
(وأن المساجد للہ، فلا تدعوا مع اللہ أحدا)
اور یہ مساجد اللہ تعالی ہی (کی عبادت)کے لئے ہیں، پس تم مت پکارو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی (شریک) کو۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کی خصوصیات میں اس بات کو بھی شمار کیا ہے کہ اس امت کے لیے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے واسطے کسی خاص جگہ حاضر ہونا ضروری نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمام روئے زمین کو مومن کی سجدہ گاہ اور جائے عبادت بنایا ہے، عمارت ہو یا ویرانہ؛ صرف جگہ پاک ہونی چاہیے کہ وہاں نماز ادا کی جا سکے۔لیکن اس سب کے باوجود جہاں کہیں مسلمان آباد ہوں ، وہاں کوئی ایک ایسی جگہ ہونی ضروری ہے، جو اسلام اور مسلمانوں کے تشخص کی پہچان کے لیے معروف ہو، وہ ہمیشہ پاک وصاف رہے، اللہ تعالیٰ کی بندگی کے وقف ہو، جس کا اپنا ماحول بھی انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت دیتا ہو، مساجد اسی ضرورت کی تکمیل ہیں، گویا مسجد کا بنیادی مقصد نمازِ پنجگانہ کا قیام، لیکن در حقیقت مسلمانوں کو ایک ہمہ مقصدی مرکز فراہم کرنا ہے، نماز کا بھی، تلاوتِ قرآن کا بھی، ذکر الٰہی کا بھی، اعتکاف ، اصلاح ودعوت اور تبلیغ وجہاد کابھی اور ان تمام کاموں کا بھی جن کے ذریعے امت کی اجتماعی شیرازہ بندی ہو سکے، اسی لیے مساجد کو شعائر اللہ میں سے قرار دیا گیا ہے اسی نسبت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم (جہاد کے لیے جاتے ہوئے کسی علاقے میں) مسجد دیکھو، یا اذان کی آواز سنو، تو کسی کو قتل نہ کرو‘‘۔
پھر امام صاحب نے فرمایا: مسجد کے سلسلے میں اصل قاعدہ یہ ہے کہ جو جگہ مسجد بن گئی وہ نیچے تحت الثریٰ تک اور اوپر کی جانب آسمان تک مسجد ہے، اسی لیے مسجد کا حقیقی اہتمام اور ادب یہ ہے کہ مسجد کے نیچے یا اس کے اوپر ایسی عمارت نہ بنائی جائے جس کا مقصد مسجد کے مقصد سے مختلف ہو۔ مسجد اللہ کا گھر ہے، اس لیے جب کوئی شخص مسجد کے لیے زمین وقف کرتا ہے یا تعمیرِ مسجد میں تعاون کرتا ہے تو گویا وہ براہ راست اپنا مال اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتا ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات پاک اور طیب ہے اسی طرح وہ ذات پاک اور طیب مال کو ہی قبول کرتی ہے، اس لیے تعمیرِ مساجد میں حرام مال لگانا گناہ بالائے گناہ ہے، لہٰذا اس سے احتراز ضروری ہے۔
بعد ازاں امام صاحب نے کچھ آدابِ مسجد ذکر کیے، فرمایا
1: بچے اگر بہت چھوٹے ہوں، ان میں شعور پیدا نہ ہوا ہو تو ایسے بچوں کو مساجد میں نہیں لانا چاہیے، کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
’’جنبوا مساجدکم صبیانکم ومجانینکم‘‘
اپنی مساجد سے بچوں اور پاگلوں کو دور رکھو
اس لیے کہ ان کی وجہ سے نمازیوں کی نماز میں اور عبادت کرنے والوں کی عبادت میں خلل پیدا ہوتا ہے، پیشاب وغیرہ کر دیں تو مسجد اور مسجد کی اشیاء کے ناپاک ہو جانے کا سخت خطرہ ہوتا ہے۔
2: جب مسجد میں داخل ہونا چاہو تو اول درود شریف پڑھو، اپنے گناہوں کی اللہ سے معافی چاہو اور یہ دعا پڑھو:
’’اللہم افتح لي أبواب رحمتک‘‘
اور اسی طرح مسجد سے نکلتے ہوئے یہ دعا پڑھیں:
’’اللہم إني أسئلک من فضلک۔‘‘
3: اگر ایسے وقت میں مسجد میں داخل ہوں جب مکروہ وقت نہ ہو تو دو رکعت ’’تحیۃ المسجد‘‘ کے نوافل پڑھ لو، یہ مسجد کا حق ہے، اور اگر مکروہ وقت ہو تو محض تیسرا کلمہ پڑھنا اس نماز کا بدل بن جائے گا۔
4: مسجد میں کوئی بھی ایسا عمل جو احترام مسجد کے خلاف ہو، درست نہیں، اس لیے مسجد میں وضو کرنا، تھوکنا، ناک یا بلغم صاف کرنا، مسجد کو راہ گذر بنانا، اس میں دنیوی باتیں کرنا، بغیر پاکی کے مسجد میں داخل ہونا سب امور نا جائز ہیں۔
5: اگر مسجد کے اوپر کوئی کمرہ ہوتو چوں کہ وہ بھی مسجد کے حکم میں ہے اس لیے وہاں بھی ان تمام آداب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو مسجد کے ذکر ہوئے۔
6: جنبی آدمی کے لیے مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ہے، کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لا أحل المسجد للحائض ولا جنب‘‘
میں جنبی اور حائضہ کے لیے مسجد کو حلال نہیں رکھتا۔
(ابو داؤد(
7: مساجد میں آنے سے قبل یا مساجد میں ایسی اشیاء کا استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہے جو بدبو دار ہوں، جیسے: کچے پیاز، لہسن ، نسوار یا سگریٹ وغیرہ۔
8: مساجد میں داخل ہونے پر اگر کچھ لوگ فارغ بیٹھے نظر آئیں تو انہیں اتنی آواز میں سلام کرنا مسنون ہے جس سے تلاوت، ذکر الہٰی یا نماز میں مشغول افراد کی عبادات میں خلل نہ پڑےاور اگر مسجد میں کوئی نہ ہو تو پھر ان الفاظ :
’’سلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین‘‘
کے ساتھ ساتھ سلام کرنا چاہیے۔
9: مسجد میں خرید وفروخت کرنا جائز نہیں ہے۔
10: اپنی کسی گم شدہ چیز کا اعلان کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
11: مسجد میں اگر ضرورت کی کوئی بات کرنی پڑ جائے تو پست آواز میں بات کرنے کی گنجائش ہے۔
12: آگے والی صفوں میں اگر گنجائش ہو تو پچھلی صفوں کی بجائے اس جگہ میں بیٹھنا چاہیے، بصورتِ دیگر لوگوں کے کندھے پھلانگ کر آگے جانا اور لوگوں میں گھس کر بیٹھنا جائز نہیں ہے۔
13: مسجد میں آمد ورفت کے وقت کسی بھی نمازی کے سامنے سے بغیر سترے کے گذرناجائز نہیں ہے، اس سے سخت گناہ ہوتا ہے۔
14: مسجد میں داخل ہوتے وقت ہی اپنے موبائل فون کو اہتمام سے بند کر دینا چاہیے، تاکہ گھنٹی بجنے کی صورت میں مسجد میں موجود نمازیوں کی عبادات میں خلل واقع نہ ہو اور اگر کسی وقت موبائل یا گھنٹی بند کرنابھول جائے اور دوران نماز گھنٹی بجنے لگے تو عملِ قلیل کے ساتھ ایک ہاتھ استعمال کر کے موبائل بند کرنے کی گنجائش ہے۔
15: معتکف کے علاوہ کسی اور کے لیے مسجد میں سونا جائز نہیں ہے۔ مسافر اور تبلیغی جماعتوں کے لیے مناسب یہ ہے کہ مساجد سے متصل بنے ہوئے کمروں میں قیام کریں، نہ کہ مسجد میں۔
اور اگر کوئی ایسی جگہ نہ ہو تو پھر اعتکاف کی نیت سے موٹا کپڑا نیچے بچھاکر آرام کریں۔
16: مسجد کی بجلی وغیرہ کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔