ظہیر الدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر 33:
امان اللہ کاظم
ظہیر الدین محمد بابر
1502ءاپنی آخری سانسیں گن رہا تھا جبکہ908ھ اپنے جنم کی خوشیا ں منا رہاتھا اور ظہر الدین بابر کے شہر سمر قند کی زمین پر پاؤں جمنے نہیں پا رہے تھے۔ سمرقند کے باشندوں کی اکثریت بو جہ بھوک اور افلاس شہر سے نقل مکانی کر چکی تھی جو لوگ باقی رہ گے تھے ان کی جانیں بھی لبو ں تک آگئی تھیں۔ بقو ل ظہیر الد ین بابر
”شہرکےمحصورین بھوک مرنے لگے نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ شہر کے سارے کتے اور گدھے سمر قند کے بھوکے شہری پکاکر کھاگئے تھے۔ “
)توزک ِ بابر ی مترجم رشید اختر ندوی ص56(
”ظہیر الدین بابر“ کا انگریز مصنف ایل۔ ایف رش بروک ولیمز لکھتا ہے:
”آدمی تو بھوکے مر ہی رہے تھے گھوڑے اور دیگر جانو روں کے نصیب بھی پھوٹ گئے اور وہ بھی بھوکوں مرنے لگے قلعہ بند فوج اپنے گھوڑوں اور دیگر جانو روں کو شہتوت ،کھجور کی پتیاں اور لکڑیوں کی چھلیں اور بُرادہ پانی میں بھگوکر بطور چارا کھلانے لگے تھے۔ “
)ظہیر الدین ،مترجم ڈاکڑرفعت بلگر امی ص79(
ازبک سردار شیبانی خان کو شہر سمرقند کامحاصرہ کیے ہوئے چار ماہ کا عرصہ گزر چکاتھا اب اس نے شہر پناہ کے ارد گرد رات دن ڈھول اور باجے پوری آب وتاب سے بجو ا بجوا کر ایساشعور وشعب بر پا کروا رکھا تھا جس نے شہر یو ں کی راتو ں کی نیند اور دنو ں کا چین وسکون برباد کر دیا تھا۔ بھوکوں تو وہ پہلے ہی مر رہے تھے مگر اس پر مستزاد اس آفت ناگہا نی نے ان کا جینا حرام کر دیا تھا۔ بنا بر یں بچے کھچے لو گ ہی سکون اور رزق کی تلاش میں شہرسے چھپے راہ فرار اختیار کرنے لگے۔ حد تو یہ ہے کہ نہ ہی توانہیں بابر میں روکنے کی ہمت تھی اور نہ ہی شیبانی خان ان کے راستے کی رکاوٹ بناکیو نکہ وہ تو چا ہتا ہی یہی تھاکہ لوگ سمرقند کو خا لی کر جا ئیں تاکہ شہرپر اس کا قبضہ جما نا آسان ہو جائے۔ بابر کہتا ہے کہ
”اس نے اپنے ہمسایہ بادشاہو ں اور سربر آوردہ اعزاء کی طرف مدد کے لیے درخو استیں بھیجیں مگر کو ئی حوصلہ افزا جو اب مو صول نہ ہو ا۔ شیبانی خان شہر کے گر د اپنا گھیرا تنگ کرتا آرہا تھا سوائے اس کے کہ اس سے صلح کی گفتگو کی جا تی میرے پاس اور کوئی چارہ کار نہ رہا۔ “
بابر کے نامور فوجی سردار بھی شہر کی اس ناگفتہ بہ حالت پر افسردہ خاطر تھے اور مایو سی کی باتیں کر رہے تھے بابر بذات ِخود شہر کے وسط میں مو جو د تیمور کے نا مو ر عالم دین پوتے ”الغ خان“کے قائم کردہ مدرسے میں قیام پذیر تھا۔ تا کہ وہ شہر کی فیصلوں پر ہو نے وا لی نقل وحر کت پر نظر رکھ سکے، ناسازی حالات نے اس کا پیما نہ صبر بھی لبر یز کردیا تھا۔اب وہ چاہنےلگا تھا کہ شیبانی خان سے کسی طور کوئی ایسا معاہدہ ہوجائے کہ وہ اسے بحفاظت شہر سمرقند سے نکلنے کا محفوظ راستہ دے دے۔ مگر وہ شیبانی کی دلی خباثت سے بخوبی آگا ہ تھا اگرچہ وہ اسے شہر سے بحفا ظت نکلنے کاوعدہ کر بھی لیتا مگر تب بھی اس کی وعدہ ایفائی کاکوئی اعتبا ر نہیں تھا۔
بابر کی نانی اماں ،دولت بیگم کواپنے دونو ں خاقا ن بیٹیو ں پر از بس غصہ آرہا تھا کہ وہ میر ے اور یونس خان کے کیسے بیٹے تھے جنہو ں نے اپنے نوعمر بھانجے یعنی قتلق نگا ر خانم کے بیٹے کو شیبانی خان جیسے خو نخوار ازبک سردار کے رحم وکر م پر تنہا چھوڑ دیا تھا وہ اس شیطا نی صفت ازبک سردار کی بڑھتی ہو ئی قوت سے ان کے لیےپیداہونے والے خطرات سے قطعا ً بے خبر دکھائی دیتے تھے۔ آج اگر اس کا شکار بابر تھا تو کل وہ بھی اس کا شکار بن سکتے تھے۔ انہیں چاہئے تھا کہ وہ بابر کی بھر پور مدد کر کے اس فتنے کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیتے، مگر ان ناہنجارو ں کو نہ تو اس بات کا ادراک اور اندازہ تھااور نہ ہی کوئی فکر تھی کہ ایک نادیدہ ظالم ہاتھ ان کی گر دنیں دبوچنے کے لیے ان کی طرف دھیر ےدھیر ے بڑھتا چلا آرہا تھا۔
بابر کو سب سے زیادہ اپنی بہن ،خانزادہ بیگم کی فکر تھی جو جوان بھی تھی خوبصور ت بھی تھی اور غیر شادی شدہ بھی۔ اگر وہ کسی طور شیبانی خان جیسے خونخوار بھیڑ یے کے ساتھ لگ گئی تو وہ اس کی عزت تار تار کرنے سے باز نہیں آئے گا اگر ایسا ہوگیا تووہ دن خانزادہ بیگم اور بابر دونوں کے لیے ان کی زندگی کابدترین دن ہوگا۔
بابر اپنی نانی جان اور اماں جان سے فرداًفرداً یہ درخواست کر چکا تھا کہ وہ خانزادہ بیگم کے ہمراہ تاشقند چلی جائیں مگر ان دونوں خواتین نے تنہا وہاں جانے سے انکار کردیا حالانکہ تاشقندپر نانی اماں کے بیٹے سلطان محمود خان کی حکومت تھی۔ بابر اپنی بہن کے ہاں گیا اور اس سے کہا :
”اب کہ اندریں حالات تمہاری جانوں پر بَن آئی ہے مجھے اپنی جان کی پر واہ نہیں ہے مگر میں چاہتا ہو ں کہ تمہاری عزت شیبانی جیسے عاقبت نا اندیش شخص کے ہاتھوں تار تار ہونے سے بچ جائے اس کا فقط ایک ہی راستہ ہے کہ آپ کس طرح نانی جان اور اماں جان کو تاشقند جانے پر راضی کرلیں۔ “
خانزادہ بیگم نے اشکبار آنکھوں سے اپنے بھائی کی طرف دیکھا اوراس سے پوچھا کہ
” کیا آپ کا یہ خیا ل ہے کہ میں آپ کو ظالم شیبانی خان کے رحم وکرم پر چھوڑ کر تاشقندچلی جاؤں گی ؟“
بابر نے عالم بے بسی میں اپنی بہن کے چہرے کے اتار چڑھا ؤ کو دیکھتے ہوئے کہا کہ
”میری عزیز ازجا ن بہن! میرے نامساعد حالات کاادراک کر تے ہو ئے سمجھنے کی کوشش کر کہ اس وقت سمرقند کے شہریو ں کی کثیر تعداد نقل مکانی کر کے جا چکی ہے مگر جو لوگ باقی رہ گئے ہیں وہ نیم جان ہیں ان میں شیبانی خان جیسے طاقتور دشمن کامقا بلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ میری فوج کے کئی نامور سردار راہ فرار اختیار کر چکے ہیں قنبر علی خان) یعنی سلاخ( جیسے وفادار بھی مجھے طاقتو ر دشمن سے نبر د آزما ہونے کے لیے تنہا چھوڑ گئے ہیں باقی جو رہ گئے ہیں ان کا کیا اعتبا ر ؟ جا نے وہ مجھے بیچ منجد ھا ر ہی میں نہیں چھوڑ جا ئیں اند ریں حالات میں چاہتا ہوں کہ آپ تینوں خواتین جو میر ی عزت وناموس ہیں کسی طرح تا شقند چلی جا ئیں پھر میں اپنے دشمن سے دو دو ہا تھ کر نے کے لیے آزاد ہو ں گا۔“
خا نزادہ بیگم روہا نسی ہو کر کہنے لگی کہ
”بھائی جا ن !قسمت کے لکھے سے کون واقف ہے؟ دیکھا یہ گیا ہے کہ انسان بہر طور اپنی قسمت کے نو شتے پر مجبو ر اًقانع ہو جاتے ہیں حالانکہ وہ اس کا پہلے تصور تک بھی نہیں ہو کر سکتے۔ بھلا ! تقدیر ِالہی سے بھاگ کر ہم جا بھی کہا ں سکتے ہیں؟ جو کچھ ہوتا ہے اسے ہو جانے دو میں اپنے مقدر پر شاکر ہوں اگر میری عزت کو شیبا نی خان کے ہاتھو ں تار تار ہونا ہے تو وہ ہو کر ہی رہے گی اسے آپ کسی طور پر بھی بچا نہیں پا ِئیں گے اور اگر اس نے بچنا ہے تو شیبا نی خان کچھ بھی کر لے وہ مجھے چھو تک نہیں سکے گا اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھو حا لات کا بنانا اور بگا ڑنا اسی ذات کے ہا تھ میں ہے۔ “
بابر کے پاس اپنی بہن کی ان باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ بابر سر جھکا ئے اپنی بہن کی کمین گا ہ سے باہر آگیا اپنے مستقر کی جانب جا تے ہو ئے راستے میں اسے اپنے نامو ر فوجی سردار شیرم طغائی ،قوچ بیگ اور کو کلتا ش مل گئے جو شاید اسی کے پا س جا رہے تھے۔ انہوں نے متفقہ طور ہر بابر سے گزارش کی کہ سلطان معظم ! آپ یہ بات بخوبی جا نتے ہیں کہ بارہا کو شش کے باوجو د ہمیں کہیں سے بھی کوئی فوجی امداد میسر نہیں آرہی۔ ہر طر ف ایک سقوط ساطاری ہے۔ اند ریں حالات کہ ہماری بچی کھچی فوج کے حوصلے بھی پست ہورہے ہیں اور بچے کھچے شہر ی بھی بھوک او ر پیاس کے ہاتھوں جان بلب ہیں۔ شہر میں جانو ر بھی نابود ہوتے چلے جارہے ہیں۔ شیبانی خان نے امید کے تمام راستے مسدود کردیے ہیں۔ جن نہروں سےشہریوں کو پانی میسر آتا تھا ان کے رخ موڑ دیے گیے ہیں ہمیں تو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ بھوکےپیاسے شہر ی ہم پر حملہ آور نہ ہو جا ئیں۔ “
بابر نے اپنے سرداروں کی باتوں کو غور سے سنا اور پھر ان سے کہا کہ
”اپنے بچے کھچے تمام ساتھیوں کو ”الغ خان “کے مد رسے میں جمع ہونے کے لیے کہیں تاکہ سب سے مشور ہ کیا جاسکے۔ “
بابر اتنا کہہ کراپنے مستقر کی طرف رواں دواں ہوگیا جبکہ تینوں سردار بابر کاحکم اپنے دیگر ساتھیوں تک پہنچانے کے لیے سمر قند کے گلی کوچوں میں گم ہو گئے۔
)جاری ہے (