اُمّ المُوْمنین سیّدہ جویرہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اُمّ المُوْمنین سیّدہ جویرہ
لبنیٰ اشفاق
ام المومنین سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا قبیلہ بنی مصطلق سے تعلق رکھتی تھی۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ کانام برہ تھا۔ آپ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد میں آنے سے پہلے اسلام قبول نہ کیا تھا۔ آپ پہلے سے شادی شدہ تھیں۔ آپ کے شوہر کا نام عسافع اور والد کانام حارث تھا۔ یہ دونوں ہی اسلام کے سخت دشمن تھے۔ عسافع بد قسمت تھا کہ وہ اسلام لانے سے پہلے ہی حالت کفر میں قتل ہو گیا۔
آپ رضی اللہ عنہا کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد میں آنے کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ قریش کے اکسانے پر حارث نے کافی فوج اکٹھی کر لی اور مسلمانوں پر مدینہ میں حملہ کرنے کی تیاری شروع کر دی۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خبر کی تصدیق کے بعد اس لشکر کو دشمن پر حملہ کا حکم دیا۔ آپ کے لشکر میں اس وقت 30 گھوڑے تھے جن میں سے دس گھوڑے مہاجرین کے پاس اور بیس گھوڑے انصار کے پاس تھے۔ یہ شعبان پانچ ہجری کا واقعہ ہے۔مسلمانوں نے نہایت تیز رفتاری کے ساتھ سفر کیا اور کافروں کو کسی قسم کی خبر ہونے سے پہلے ہی جالیا۔ اسلامی لشکر کا حملہ اتنا تیز اور اچانک تھا کہ وہ مزاحمت بھی نہ کر سکے اور مسلمانوں نے کافروں کو شکست دی۔ ان کے دس آدمی قتل ہوئے اور بقیہ مرد ، عورتیں ، بوڑھے اور بچے سب گرفتار ہوئے۔ان کامال و اسباب بھی اسلامی لشکر کے قبضہ میں بطور مالِ غنیمت کے آیا۔ دو ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں بھی اس میں شامل تھیں۔ کافروں کے دو گھرانے قید ہوئے۔ ان قیدیوں میں ہی سردار قبیلہ بنی المصطلق کی وہ بیٹی بھی شامل تھیں جنہیں آگے چل کر ام المومنین کے درجہ پر فائز ہونا تھا۔
اس دور کی روایت کے مطابق قیدی لونڈی اور غلام کی حیثیت سے مسلمانوں میں تقسیم ہوئے۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا ،صحابی ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آ ئیں لیکن حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ میرے بدلے رقم لے لو اور مجھے چھوڑ دو۔ حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے نواوقیہ سونا معاہدہ کیا لیکن حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے پاس اس وقت رقم نہ تھی۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد مانگی۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سامنے ایک بہتر تجویز رکھی اور فرمایا کہ اگر تم بہتر سمجھو تو میں تمہاری واجب الا دارقم دے دیتا ہوں اور تمہیں آزاد کرکے اپنی زوجیت میں لے لیتا ہوں۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا نے اس چیز کو پسند فرمایا۔
ایک اور روایت کے مطابق حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا نے والد حارث بن ابی ضرار اپنی بیٹی کو چھڑانے کے لئے بہت سے اونٹ لے کر مدینہ کی طرف چلے۔ ان اونٹوں میں سے دو اتنہائی قیمتی اونٹ جو ان کو نہایت پسند تھے ،ان کو مدینہ کے قریب کسی گھاٹی میں چھپا دیا کہ ان کو واپسی میں حاصل کر لیا جائے گااور مدینہ میں پہنچ کر رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اونٹ آپ کے سامنے پیش کئے اور اپنی بیٹی فدئیے کے بدلے میں مانگی۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں گھاٹی میں چھپائے اونٹوں کا ذکر کر تو بے احتیار کلمہ پڑھ گئے اور کہا کہ اونٹوں کے چھپانے کا اللہ اور میرے سوا کسی کو علم نہ تھا۔ یقینا اللہ ہی نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان اونٹوں کی خبر دی۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کو اپنی زوجیت میں لینا تھا کہ صحابہ کرام نے فوراََ ہی ردِعمل ظاہر کیا اور بنی مصطلق کے 100 گھرانوں کی اپنی غلامی سے اس لئے آزاد کر دیا کیونکہ اب وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سسرالی رشتہ دار تھے جن کو وہ اپنی غلامی میں نہ رکھ سکتے تھے چنانچہ اس واقعہ پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمانا ہے:”میں نے جویریہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی عورت کو اپنی قوم کے حق میں بابرکت نہیں دیکھا جن کی وجہ ایک دن میں 100 گھرانے آزاد ہوئے۔“
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کے مطابق حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا نہایت خوبصورت تھیں اور آپ رضی اللہ عنہا کا حسن و جمال خیرہ کن تھا لیکن آپ نہایت ہی عبادت گزار تھیں اور عبادت میں وقت گزار دیتیں۔ ایک بار رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو عبادت کرتے ہوئے دیکھا۔ کافی دیر بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پلٹے تو آپ رضی اللہ عنہا بد ستور عبادت میں مصروف تھیں۔ اس پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہو کر حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کو زیادہ ثواب والے کلمات سکھائے جن کا ثواب کافی دیر کی عبادت سے زائد ہے۔آپ رضی اللہ عنہا قبیلہ کے سردار کی بیٹی تھیں اور آپ نے نہایت پُر آسائش زندگی گزاری تھی لیکن رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر آکر آپ نے خود کو خاندانِ نبوی کے مطابق ڈھال لیا۔ اکثر گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہوتا مگر آپ صبر کے ساتھ گزارا کرتیں۔ آپ ایک تنگ اور تاریک حجرہ میں رہتی تھیں۔ کھجور کی چھال کا بستر تھا۔ ایک تکیہ تھا اور ایک چادر تھی۔ ہانڈی اور کچھ برتن تھے۔ایک پیالہ تھا۔ مسواک مصحف اور مصلیٰ تھا۔ یہ ان کی کل کائنات تھی لیکن آپ نے قناعت کے ساتھ تمام عمر گزاری۔ جب آپ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت میں آئیں تو اس وقت آپ کی عمر بیس سال تھی اور پھر چند سال اپنے جلیل القدر شوہر کے ساتھ گزارنے کے بعد بقیہ تمام عمر بیوگی میں گزار دی۔