اولاد کی تربیت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اولاد کی تربیت
مولانا میر زاہدمکھیالوی
یقینا یہ ایک پیچیدہ اور اہم مسئلہ ہے، ہر ذمہ دار اور نگراں پر اپنے متعلق ماتحتوں کی تربیت کا فریضہ عائد ہوتا ہے، استاذ کے ذمہ اپنے شاگردوں کی،شیخ کے اوپر اپنے مریدین کی، والدین پر اپنی اولاد کی، ان کی نفسیات کا لحاظ رکھ کر صحیح تربیت کرنا لازم اور ضروری ہے۔ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کا فرمان ہے،
الا کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ.
(مشکوٰة،ص:۳۲۰)
(مسلمانو! تم میں سے ہر ایک حکمراں ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کی نسبت سوال کیا جائے گا)
بچپن میں بچہ کے دل کی تختی چونکہ صاف شفاف ہوتی ہے۔ پھر جیسے ماحول میں بچہ کی نشوونما ہوتی ہے ایسے ہی اثرات اس کے دل ودماغ پر نقش ہوجاتے ہیں اور عام طور سے اسی پر اس کی آئندہ زندگی کی تعمیر ہوتی ہے۔ لہٰذا مربی کے لئے ضروری ہے کہ وہ بچہ کے لئے خوشگوار ماحول مہیا کریں شریر بچوں سے الگ رکھیں گھریلو زندگی میں بھی کوئی نامناسب بات یا غیرمہذب حرکت بچہ کے سامنے نہ کریں، حرکات وسکنات میں بھی سنجیدگی ومتانت ہو، بول چال میں پیار ومحبت اور تنبیہ میں توازن اور اعتدال قائم رہنا چاہئے، تہذیب و شائستگی کا خیال رکھے، چونکہ غیر محسوس طریقہ پر تمام چیزیں بچہ کے اندر منتقل ہوتی ہیں،اور وہ جس طرح کوئی کام دیکھتا یا کوئی بات سنتا ہے، عملاً اس کو اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے، بچہ کی اخلاقیات پر بھی خاص توجہ دی جائے، محبت میں اس کی عادتیں بگڑنا شروع ہوجاتی ہیں، شریعت مطہرہ نے ہر موقعہ پر اعتدال کی تعلیم دی ہے۔
میرے مربی حضرت مفتی مہربان علی شاہ بڑوتی رحمۃ الله علیہ(جنہیں اللہ تعالیٰ نے تربیت کے باب میں خاص ملکہ دیا تھا) اپنے ایک مخصوص وصیت نامہ میں تحریر فرماتے ہیں: ”بچہ کی صحیح تربیت کردینا کروڑوں کا مالک بنادینے سے بہتر ہے“ مزید فرمایا کہ اس زمانہ میں بہت سے لوگ اولاد کے لئے پریشان ہیں (کہ کوئی اولاد نہیں) اور بہت سے لوگ اپنی اولاد سے پریشان ہے (کہ بچپن میں صحیح تربیت نہیں کی گئی، پیار پیار میں ان کو بگاڑ دیا پھر پریشان ہیں کہ کیا کریں اولاد مطیع نہیں لڑکے نے بدنام کردیا، جینا مشکل کردیا وغیرہ) نیز یہ بھی اس زمانہ کا عام مزاج بناہوا ہے کہ اپنا بچہ اگر کوئی غلطی کردے یا کوئی غلط بات زبان سے نکال دے یا کسی دوسرے کے ساتھ بدتمیزی کرے تو اس کے والدین یا مربی یہ کہہ کر بات ختم کردیتے ہیں کہ بچہ ہی تو ہے آہستہ آہستہ سنور جائے گا، حالانکہ بچپن کا دور ہی بگڑنے سنورنے کا ہوتا ہے،اس وقت مزاج کے اندر فساد اور بگاڑ آگیا تو پھر مستقبل کا سنورنا مشکل ہوجاتا ہے، لہٰذا بچہ کی سچی محبت اور اصلی ہمدردی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر ہر موقع پر اس کی نگرانی کی جائے، نامناسب امور میں اسے فہمائش کی جائے، وہ کسی کی جانب لالچ کی نگاہ نہ ڈالے، شروع ہی سے اس کو عادی بنایا جائے کہ وہ ہر چیز کا سوال اللہ سے کرے۔
حضور اکرم صلى الله علیہ وسلم حضرت عبداللہ ابن عباس رضى الله تعالى عنہ کو بچپن میں تعلیم فرماتے ہیں ”اے بچے! خدا کو یاد رکھ تو اس کو اپنے سامنے پائے گا، اور جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر اور جب تو مدد چاہے تو اللہ ہی سے مدد مانگ اور جان لے اس بات کو کہ اگر تمام لوگ اس بات پر اتفاق کرلیں کہ تجھ کو کچھ نفع پہنچانا چاہیں تو ہرگز اس کے سوا کچھ نفع نہیں پہنچاسکتے جو کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے واسطے لکھ دیا ہے اور اگر سب لوگ اس پر متفق ہوجائیں کہ تجھے کچھ نقصان پہنچانا چاہیں تو ہرگز اس کے سوا کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے جو اللہ نے تیرے واسطے لکھ دیا ہے۔
بچپن سے ہی توحید کی بنیاد پر بچہ کی ذہن سازی کی جائے اور اس کا یقین اللہ کی ذات پر پختہ کرادیا جائے تو اس کے اثرات نمایاں محسوس ہوتے ہیں، توہمات سے اس کا دل ودماغ پاک رہتا ہے اس کے اندر غیرت اور خودداری آجاتی ہے اور بچپن میں بناہوا یقین دل میں پختگی کے ساتھ جم جاتا ہے۔ میرے ایک قریبی دوست کا بچہ ہے کم سنی کے باوجود اس کی نیک خصلتیں دیکھ کر بڑی مسرت ہوتی ہے، مثلاً کوئی چیز اسے دے کر واپس لیں تو واپس کردینا، کھانے کی چیز اگر اس کے ہاتھ میں ہے تو پہلے دوسروں کو دے کر پھر خود کھانا پیسے مانگنے کو منع کردیا تو ضد نہ کرنا، رونے پر فہمائش کرنے سے چپ ہوجانا، کلمہ یا سلام جو اسے سکھایا جائے تو اسے ادا کرنا وغیرہ، یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں، لیکن حقیقت میں ان کی بنیادی حیثیت ہے، اور بلا شبہ اس میں والدین کی تربیت کا دخل ہوتا ہے۔
یہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ بچہ بہرحال بچہ ہوتا ہے اس کو ہر ہر بات میں اتنا محتاط اور حساس بنادینا کہ وہ اپنی فطری عادتوں اور جائز شرارتوں کو بھی گناہ سمجھنے لگے اور اپنے عمل اور گفتگو سے کوئی بزرگ محسوس ہویہ اس کے بچپن کے ساتھ زیادتی ہے، بڑے ہوکر ایسے بچوں کے جذبات پر یا تو ایک پژمردگی سی آجاتی ہے، یا بچپن کی محرومیوں کا جوانی میں تدارک کرتا ہے جو زیادہ خطرناک ہے، اس لئے اخلاق وعادات کی اصلاح کے ضمن میں اعتدال اور توازن بہت ضروری ہے عموماً بچہ کی عادت پیسے مانگنے کی ہوتی ہے،اس عادت کو حد اعتدال میں رکھا جائے نہ تو یہ کہ اٹھتے بیٹھتے پیسے لینے ہی کو بچہ وظیفہ بنالے اور نہ ایسا کرے کہ بچہ احساس محرومی کا شکار ہوجائے کوئی دوست یا مہمان یا کوئی بھی آدمی کچھ چیز پیسے وغیرہ دے تو بچہ اپنے والدین کی اجازت بلکہ حکم کے بغیر نہ لے، کسی سے یونہی کوئی چیز لینے سے بھی عادت بگڑ جاتی ہے، چنانچہ آئندہ وہ شخص آجائے تو لالچ کی نگاہ بچہ اس پر ڈالتا ہے اوراُمید لگائے ہوتا ہے۔ اگر وہ آدمی دستی وغیرہ نکالنے کے لئے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے تو بچہ سمجھتا ہے کہ میرے لئے پیسے نکال رہے ہیں۔
مربی اس کا بھی خیال رکھے کہ ہمہ وقت بچہ کو ڈانٹ ڈپٹ یا فہمائش نہ کرتا رہے کہ اس سے یقینا وہ بجائے مانوس ہونے کے متوحش ہوجاتا ہے، بلکہ فرمانِ رسول صلى الله علیہ وسلم من لم یرحم صغیرنا الخ (جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں) کو ملحوظ رکھ کر اُنس ومحبت کے ساتھ اس کی جائز ضد بھی پوری کی جائے یہ نہ ہو کہ بعض دفعہ تو دس دس روپے دے دیے اور بعض اوقات جیب خالی ہے تو ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا اس پر بچہ یقینا ضد کرتا ہے اور پریشان ہوتا ہے، عادت چونکہ اس کی خرچ کرنے کی بن چکی ہے، اب اگر اس کے صرفہ میں تنگی ہوتی ہے تو پھر وہ ادھر اُدھر غلط نظر ڈالتا ہے۔ اس طرح چوری وغیرہ کی غلط عادت بھی بن سکتی ہے۔
الحاصل تربیت کا مسئلہ بڑا نازک ہوتا ہے، اس کے کچھ ضابطے، قوانین یا کچھ لکیریں مقرر نہیں کہ ان کو سامنے رکھ کر تربیت کی جاتی رہے، بلکہ تربیت کے طریقے، احوال ومواقع نفسیات وجذبات اور خیالات کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں، جتنے بچے والدین کی زیرتربیت ہیں، یا جس قدر طلبہ یا مریدین استاذ وشیخ کے یہاں حلقہ بگوش ہیں ہر ایک کے مزاج وعمر کے لحاظ سے تربیت کرنا لازم ہے، سب کو ایک لکڑی سے نہ ہانکا جائے۔ محسن انسانیت، مربیٴ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی باب تربیت میں جو تعلیمات ہیں اور آپ کے جانثار صحابہ کرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کی تربیت کا عملی نمونہ مربی حضرات کے لئے مشعل راہ ہیں، طریق نبوی کے مطابق جو تربیت کی جائے گی بلاشبہ وہ باعث خیروبرکت ہوگی اور اس کے نمایاں اثرات مشاہدہوں گے۔ انشاء اللہ۔
اللّٰہم احسن عاقبتنا فی الامور کلہا.