ظہیر الدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر 34:
امان اللہ کاظم
ظہیر الدین محمد بابر
بابر اپنی قیام گاہ ”الغ خان“ کے مدرسے پہنچ گیا اور اپنے ساتھیوں کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ اُس کے سردار شیرم طغائی ،قوچ بیگ اور کوکالتاش اپنے دیگر سرداروں کے ہمراہ بابر کے حضور آحاضر ہوئے۔ محفلِ مشاورت شروع ہوگئی۔ بابر نے سمرقند کی باری صورتِ حال ان کے سامنے رکھی۔ وہ کچھ اس طرح گویا ہُوا:”سمرقند میرے اجداد کا عظیم شہر ہے۔ میں کسی طرح بھی اس شہر کو ازبکوں کے حوالے نہیں کرسکتا، مگر میں جانتا ہوں کہ سمرقند کے اکثر شہری راہِ فرار اختیار کرچکے ہیں۔ جو باقی بچے ہیں وہ بھی بھوک اور پیاس کے ہاتھوں تنگ آچکے ہیں۔ ہم تابہ کے انہیں شہر میں روکے رکھ سکتے ہیں۔ اندریں حالات آپ لوگوں کی کیا رائے ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟۔“
ایک سردار نے کہا:”سننے میں آیا ہے کہ ہرات اور کابل کے تیموری حکمران شیبانی خان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ “
قاسم بیگ مایوسانہ انداز میں کہہ اٹھا:”ہم کب تک محصور رہ کر حالات کا مقابلہ کرسکتے ہیں جبکہ ہمیں باہر سے کسی قسم کی کوئی فوجی امداد ملنے کی بھی توقع نہیں ہے۔ ہمارے پاس محض پندرہ بیس روز یا زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کی خوراک موجود ہے۔ سامانِ رسد اور پانی کی عدمِ فراہمی کی وجہ سے ہم باقی ماندہ شہریوں کو کس طرح شہر میں رہنے کے لئےمجبور کر سکتےہیں؟۔ “
بابر نے قاسم بیگ کی باتیں سن کر شیرم طغائی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ شیرم طغائی بابر کی نظروں کا اشارہ سمجھتے ہوئے کہہ اٹھا :”اگر ہم اسی طرح ہاتھ پہ ہاتھ رکھے موہوم امید کے سہارے شہر میں جمے رہے تو عین ممکن ہے کہ ازبک کسی بھی وقت شہرمیں داخل ہوکرہمیں مغلوب کرسکتے ہیں۔ اُس وقت ہمیں شیبانی خان کی قید میں جانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔میں فقط اتنی گزارش کرسکتا ہوں کہ آپ کسی طرح سمرقند سے چوری چھپے فرار ہوکر اپنے ماموں خاقان اعظم محمود خان کے ہاں تاشقند پہنچ جائیں اور ان سے شیبانی خان کے خلاف مدد کی درخواست کریں تو مجھے امید ہے کہ محمود خان آپ کی مدد پر ضرور تیار ہوجائے گا۔ اگر ایسا ہوجائے تو پھر یہ امید بندھ سکتی ہے کہ ہم شیبانی خان کو تباہ و برباد کرسکتے ہیں اور سمرقند پر دوبارہ قابض ہوسکتے ہیں۔“
قوچ بیگ کو شیرم طغائی کی تجویز پسند نہ آئی اور برملا بول اٹھا کہ
”سلطانِ معظم ! میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ ہم اندریں حالات شیبانی خان سے کما حقہ نبرد آزما نہیں ہوسکتے مگر میں آخری سانسوں تک لڑنے مرنے کا قائل ہوں۔ ہم اپنی بچی کچھی افرادی قوت سے شیبانی خان کا بھر پور مقابلہ کرسکتے ہیں۔ مجھے یہ بھی امید ہےکہ ہمیں اس دوران باہر سے کوئی نہ کوئی کمک ضرور مُیسّر آسکتی ہے۔ آپ دل چھوٹا نہ کریں بلکہ سمرقند ہی میں قیام پذیر رہیں۔“
سلاخ نے شیرم طغائی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ
”قوچ بیگ کا مشورہ سراسر سراب کے مترادف ہے ہم ہمت ہارے ہوئے سپاہیوں کی مدد سے شیبانی خان جیسے طاقتور انسان کا مقابلہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ہمیں جھوٹی امیدوں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ اگر یہ صورتِ حال مزید برقرار رہی تو پھر اپنوں ہی میں سے کوئی نہ کوئی ہمیں شیبانی خان کے حوالے کردے گا۔ “
بابر نے اپنے سرداروں کے مشورے کو بڑے غور سے سنا۔ ایک مرتبہ تو کم عمر سلطان کے رونگٹے خوف سے کھڑے ہوگئے۔ مگر جلد ہی انہوں نے اپنے اعصاب پر قابو پالیا۔ اب وہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے سردار ہمت ہار چکے تھے۔ہمت ہارے ہوئے سرداروں کے ہمراہ طاقتور دشمن سے پنجہ آزمائی کرنا عقلمندی کی بات نہیں تھی۔ انہوں نے اپنا رائے سخن اپنے سرداروں کی طرف پھیرا اور کہنے لگا کہ
”آپ لوگوں کی باتیں سن کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شیبانی خان سے صلح کا معاہدہ کرکے سمرقند کو خیر باد کہ دینا چاہیے۔ اب زیادہ دیر تک سمرقند میں ٹکے رہنا ہمارے بس سے باہر ہوچکا ہے۔ شیبانی خان سے صلح کرکے ہم بحفاظت سمرقند سے نکل سکتے ہیں۔ مگر مجھے تلاش اس مردِ حُر کی ہے جو شیبانی خان کے پاس جاکر اس سے صلح کی بات چیت کرے۔اور اسے اس بات پر آمادہ کرےکہ وہ ہمیں سمرقند سے بحفاظت جانے کی اجازت دےدے۔“
بابر کی نگاہیں بار بار شیرم طغائی کی طرف اٹھ رہی تھیں کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اس کام کے لئے صرف شیرم طغائی جیسا زیرک انسان ہی موزوں تھا۔ بنا بریں اس نے شیرم طغائی کو یہ اختیار دیا کہ وہ شیبانی خان کے پاس جائے اور اس کو بتائے کہ ہم سمرقند کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ وہ ہمیں پورے امن وامان کے ساتھ یہاں سے نکل جانے کا موقع دےدے۔
سلطانِ معظم کی طرف سے اشارہ پاکر شیرم طغائی نے بصدِ احترام بابر سے کہا کہ ”سلطانِ معظّم !مجھ ناچیز کو آپ نے قابلِ بھروسہ سمجھا اس کے لئے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔جس طرح کہ مثل مشہور ہے کہ "ایک ایک ہوتا ہے جبکہ دو گیارہ ہوتےہیں "میں چاہوں گا کہ میرے ساتھ کم از کم قوچ بیگ کو ضرور ہونا چاہیے۔مثل مشہور ہے کہ "دو گیدڑوں نے شیر کو زیر کرلیا تھا "ہم آپ کے یہ دونوں سپاہی شیبانی خان کو صلح کرنے پر مجبور کردیں گے۔“
محفلِ مشاورت برخاست کردی گئی بابر نے شیرم طغائی اور قوچ بیگ کو بطور ایلچی شیبانی خان کے پاس جانے کی اجازت دےدی اور ان کے جانے کے بعد وہ نہایت خاموشی سے سمرقند سے فرار کی تدبیریں کرنے لگا۔
ادھر شیرم طغائی اور قوچ بیگ امید وبیم کے درمیان جھولتے ہوئے شیبانی خان کے فوجی مستقر کی طرف بڑھے چلے جارہے تھے۔ ان کے دلوں میں یہ اندیشہ باربار سر اٹھا رہا تھا کہ شیبانی خان جیسا شاطر اور طاقتور دشمن ظہیر الدین بابر جیسے پٹے ہوئے مہرے کسی طرح کسی صلح کی طرف غیر مشروط طور پر مائل ہوسکتا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ شیبانی خان جیسا شاطرانسان اپنی کسی نہ کسی شرط کو بلا ردوقدح منوانا چاہے گا۔ وہ شرط یا شرائط کیا ہوں گی ؟ یہ وہ قطعاً نہیں جانتے تھے۔ یہاں بابر کے دل میں بھی کئی ہول اٹھ رہے تھے۔ وہ ایک انجانی صورتِ حال سے دوچار تھا۔
شیرم طغائی اور قوچ بیگ بالآخر شیبانی خان کے فوجی مستقر تک پہنچ گئے۔ شیبانی خان کا ایک فوجی افسر ان دونوں کو شیبانی خان کے خیمے تک لے گیا اور پھر شیبانی خان کی اجازت سے انہیں اس کے حضور پیش کردیا۔ بابر کے بھیجے ہوئے ایلچیوں نے شیبانی خان کے حضور بابر کی طرف سے صلح کا پیغام پہنچایاشیرم طغائی نے دستور کے مطابق شیبانی خان سے عرض کی کہ ”سلطانِ معظم! ظہیر الدین بابر آپ کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھانا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ اگر اسے اور اس کے ساتھیوں کو سمرقند سے بحفاظت جانے کی ضمانت دی جائے تو وہ سمر قند کو غیر مشروط طور پر ان کے حوالے کرنے کے لئے تیار ہیں۔“شیبانی خان نے بڑے پُر عزم لہجے میں کہا کہ ”ہم سلطانِ محترم کی خواہش صرف ایک شرط پر پوری کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی ہمشیرہ خانزادہ بیگم سے ہمارا نکاح کردیں۔اگر وہ ہماری یہ شرط پوری کردیں تو ہم بلا حیل و حجت انہیں شہر سمرقند سے بحفاظت نکل جانے کی ضمانت دینے کے لئے تیار ہیں۔ یہ کوئی ایسی غیر شرعی اور غیر اخلاقی شرط نہیں ہے کہ جسے ماننے سے سلطان محترم ہچکچاہٹ محسوس کریں۔“شیرم طغائی اور قوچ بیگ شیبانی خان کی صلح کے لئے پیش کی گئی شرط سے متعلق سن کر سکتے میں آگئے۔ انہیں توقع ہی نہیں تھی کہ شیبانی خان صلح کے لئےاس قسم کی شرط پیش کرے گا۔ مگر فاتح شخص کی اس شرط کو مانے بغیر بھی کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ دونوں ایلچیوں نے دھیمے لہجے میں شیبانی خان سے کہا کہ ”سردارِ محترم ! ہم آپ کی طرف سے پیش کی گئی شرط سلطان ِ معظم کے حضور پیش کریں گے۔ منظور یا نا منظور کرنے کا فیصلہ وہی صادر فرماسکتے ہیں۔ہم تو ان کے حکم کے غلام ہیں۔ اب ہمیں اجازت مرحمت فرمائیے تاکہ ہم واپس جاکر آپ کا فرمان سلطانِ معظم تک پہنچاسکیں“
شیبانی خان نے اپنے فوجی سردار کو حکم دیا کہ شاہی ایلچیوں کو پورے احترام کے ساتھ رخصت کردیا جائے۔فوجی سردار نے شیبانی خان کا اشارہ پاتے ہی شیرم طغائی اور قوچ بیگ کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔وہ دونوں سر تسلیمِ خم کرتے ہوئے اور کورنش بجالاتے ہوئےشیبانی خان کے خیمے سے باہر آگئے اور فوجی سردار کی اقتداء میں شیبانی خان کے فوجی مستقر سے نکلتے چلے گئے۔وہ بڑے مایوسانہ انداز میں واپسی کا سفر طے کرنے لگے۔ انہیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ سلطان ِ معظم شیبانی خان کی یہ شرط کبھی بھی قبول نہیں کرے گا۔ اسی حیص بیص میں دونوں سردار بابر کے حضو ر آحاضر ہوئے۔ بابر بھی ان کا منتظر تھا۔ شیرم طغائی اور قوچ بیگ کو اپنے سامنے پاکر ان سے پوچھنے لگا "تمہاری سفارت کا کیا بنا ؟" شیبانی خان نے ہماری طرف سے بھیجے گئےصلح جوئی کے پیغام کاکیا جوا ب دیا ؟ دونوں سردار ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے۔ سلطانِ معظم سے بات کرنے کے لئے ان کے ہونٹ اور گلے سوکھے جا رہے تھے۔ ان کے پاس کوئی الفاظ نہیں تھے کہ وہ شیبانی خان کی عائد کی گئی شرط اس کے سامنے رکھیں کیونکہ شیبانی خان کی شرط ان کے نزدیک بڑی نامعقول اور غیر اخلاقی تھی جسے بابر جیسا غیرت مند انسان کبھی قبول نہیں کرسکتا تھا۔ (جاری ہے )