رحمتِ عالم ﷺاور حُسنِ معاشرت

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
رحمتِ عالم ﷺاور حُسنِ معاشرت
محمد حشمت
ایام جاہلیت کی اس سے بہتر تصویر کوئی بڑے سے بڑا مصور، ادیب اور مؤرخ نہیں کھینچ سکتا۔ اس دور میں اخلاقی انحطاط انتہا کو پہنچ چکاتھا۔ بت پرستی اخلاقی جرائم،شراب نوشی ، قمار بازی ، ظلم و استبداد اور معاشی استحصال اس دور کی اہم خصوصیات تھیں۔
باپ اپنی نوزائیدہ بچی کو زندہ درگور کردیاکرتا تھا انسان انسانیت کو خاق میں ملارہاتھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھاکہ انسان جہالت کی وجہ اپنی پوری نسل کو زندہ دفن کرنا چاہتا تھا۔ اس صورت حال کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تمثیل کے ذریعہ اس طرح بیان فرمایا ہے۔ ''میری دعوت و ہدایت کی مثال جس کے ساتھ مجھے دنیا میں بھیجا گیا ہے ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی جب اس کی روشنی گردو پیش میں پھیلی تو وہ پروانے اور کیڑے جو آگ پر گراکرتے تھے ہر طرف سے امنڈ کر اس میں کودنے لگے۔
اسی طرح سے تم آگ میں گرنا اور کود نا چاہتے ہو اور میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کرتم کو اس سے بچاتااور علیٰحدہ کرتاہوں ''۔
(صحیح بخاری و مشکوٰۃ(
آپ کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ آپ نے دنیا کو عقیدہ توحید کی نعمت عطافرمائی اوردوسرا انقلاب آفریں اور عظیم احسان وحدت انسانی کا وہ تصور ہے جو آپ نے دنیا کو عطا کیا۔ انسان قوموں اور برادریوں ،ذات پات اور اعلیٰ و ادنیٰ طبقوں میں بٹا ہواتھا اوران کے درمیان انسانوں اور جانوروں آقاؤں اور غلاموں اورعبدو معبود کافرق تھا۔ وحدت و مساوات کاکوئی تصورنہ تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نوع انسانی پر تیسرا عظیم احسان احترام انسانیت اور انسان کی قدروقیمت کا وہ اسلامی تصور ہے جو آپ کا عطیہ اور اسلام کا تحفہ ہے۔ اسلام کا ظہور جس زمانہ میں ہوااس زمانے میں انسانی وجود بالکل بے قیمت بے حقیقت ہوکر رہ گیاتھا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کے دل و دماغ پر یہ نقش بٹھادیاکہ انسان اس کائنات کا سب سے زیادہ قیمتی، قابل احترام، لائق محبت اور مستحق حفاظت موجود ہے۔ آپ نے انسان کا پایہ اتنا بلند کیاکہ اس سے اوپر صرف خالق کائنات کی ہستی باقی رہ جاتی ہے۔
رحمت عالم، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرت میں جو اعلیٰ نمونہ پیش فرمایا اس کے متعلق بے شمار احادیث مبارکہ منقول ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح وثنا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر وسیع القلب گفتگو میں سچے نرم طبیعت والے اور ذرہ نواز تھے۔
حضر ت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے پھر پورا واقعہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی کاارادہ فرمایا تو میرے والد ماجد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے سواری پر کپڑا بچھایا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قریب لے آئے ، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوگئے تو والد محترم نے فرمایا اے قیس ! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاؤ۔میں ساتھ ہولیا۔
حضرت قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تم بھی میرے ساتھ سوار ہوجاؤ۔ میں نے از راہِ ادب انکار کیاتو پھر فرمایا کہ میرے ساتھ سوار ہوجاؤ یا پھرواپس ہوجاؤ۔ چنانچہ میں مجبوراً واپس لوٹ گیا۔
حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے بھی نفرت نہ فرماتے تھے بلکہ تالیف قلب فرمایا کرتے تھے۔ہرقوم کے معزز افراد کا اکرام فرماتے اور ایسے اشخاص کو ان پر حاکم مقرر فرماتے۔ لوگوں کو خوفِ خدا سے ڈراتے عام لوگوں کی صحبت سے پرہیز فرماتے لیکن کسی کے ساتھ بداخلاقی کے ساتھ پیش نہ آتے۔
اپنے اصحاب کے یہاں تشریف لے جاتے اور محفل میں شریک ہر شحض کو اس کی شان کے مطابق نواز تے۔ لوگوں سے آپ ایسا معاملہ فرماتے کہ شمع رسالت کاہرپروانہ یہی گمان کرتاتھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی نظر کرم میری ہی جانب ہے۔ جب کسی کو اپنے پاس بٹھاتے یا کوئی شخص اپنی حاجت لے کر آتا تو آپ اس وقت تک وہیں ٹھہرے رہتے جب تک وہ شخص خود اجازت حاصل نہ کرتا اگر کوئی حاجت پیش کرتا تو اسے خالی ہاتھ نہ لوٹاتے کچھ بھی میسر نہ ہوتا تودل نوازسخن سے مالامال فرمادیتے۔ ابن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف توصیف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ پھو ل کی مانند کھلے رہتے خوش اخلاق اور نرم خو تھے بداخلاق اور سنگدل، بازاروں میں آوازبلند کرنا ،گالی گلوچ چاپلوسی اہل عرب میں عام تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام چیزوں سے تاحیات پاک رہے۔ جس چیز کی ضرورت نہ ہوتی اس کی جانب توجہ نہ فرماتے، کوئی طلبگار اس بارگاہِ بیکس پناہ سے مایوس نہ لوٹتاتھا۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ''تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے ''
اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کرتا تو قبول فرمالیتے ہدیہ اگرچہ کوئی کتنا ہی دیتا قبول فرمالیتے اور اس کے بدلے ہدیہ سے نواز تے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کسی کا اخلاق نہیں تھا کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ یا اہل بیت میں سے کسی نے بلایا تو فوراً تشریف لے جاتے۔ حضرت جریر بن عبدا للہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب سے میں مسلمان ہواہوں کبھی بھی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس آنے سے منع نہیں فرمایا اور جب بھی میں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو آپ کو تبسم فرماتے ہوئے دیکھا۔ایک مرتبہ عید کا دن تھا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر فاروقؓ رضی اللہ عنہ تشریف فرماتھے اور سامنے بچے خوشیاں منارہے تھے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بچوں کو تنبیہ فرمائی کہ یہ کیا ہورہاہے؟ مگرحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھوڑوعمر! ان بچوں کو چھوڑ دو،ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے آج ہماری عید ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش مبارک سے بات کرنے کی خاطر منہ لگاتا تو آپ سر کو ہرگز پیچھے نہیں ہٹاتے یہاں تک کہ وہ شخص خو دہٹ جاتا۔ جب بھی کسی نے آپ کے دست مبارک کو پکڑا تو آپ نے کبھی اپناہاتھ نہ چھڑایا جب تک وہ خود نہ چھوڑ تا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان کبھی اس طرح پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھتے کہ جس سے دوسروں کو تنگی ہو، جو بھی شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا اس کی عزت فرماتے بعض اوقات کپڑا پھیلادیتے اور اپنا تکیہ عنایت فرمادیتے اگر کوئی احتراماً انکار کرتا تو آپ اصرار کرکے اُسے بٹھاتے اور قسم تک دیتے۔
ایک روایت میں ہے کہ کوئی شخص کسی حاجت کے پیش نظر اگر آپ کے قریب آکر بیٹھ جاتا اورآپ اس وقت نماز پڑھ رہے ہوتے تو نماز مختصر فرمادیتے تھے اور اس کی ضرورت معلوم کرکے پہلے اسے فارغ کرتے پھر نماز میں مشغول ہوجاتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر تبسم کا خوگر اور کسی کو نہیں دیکھا۔